• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بنک سے گاڑی قسطوں پر لینا

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
ابو عبداللہ
بنک سے گاڑی قسطوں پر لینا سود کے زمرے میں آتا ہے کہ نہیں
اس سوال کا جواب ہاں میں بھی ہے اور نہیں میں بھی ۔
  1. اگر آپ بنک سے گاڑی خریدنے کے لئے قرضہ لیتے ہیں۔ اور قرضہ کی اصل رقم سے زائد رقم (ماہانہ قسطوں میں) بنک کو واپس کرتے ہیں تو بلا شبہ یہ سود ہے۔ خواہ قسطیں مکمل ہونے تک بنک گاڑی اپنے نام رکھے یا آپ کے نام کرکے اس کے کاغذات اپنے پاس رکھے۔ روایتی بنکوں میں عموماً ایسا ہی ہوتا ہے۔
  2. ”اسلامی بنک“ دوسرا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ اور ان بنکوں سے وابستہ علمائے کرام کہتے ہیں کہ ان طریقوں میں سود شامل نہیں ہوتا۔
(الف) بنک کہتا ہے کہ آپ ہم سے قرضہ نہ لیں بلکہ ہم سے براہ راست گاڑی خریدیں۔ اگر آپ کوئی مخصوص گاڑی ہم سے نقد خریدیں گے تو ہم آپ کو مارکیٹ کی قیمت میں فروخت کریں گے۔ اگر ادھار یا قسطوں پر خریدیں گے تو یہ مارکیٹ قیمت سے اتنے فیصد زائد قیمت کی ہوگی۔ اور شریعت میں ایک ہی چیز الگ الگ قیمتوں میں فروخت کی جاسکتی ہے۔ نقد کی قیمت الگ، ادھار کی قیمت الگ، قسطوں کی قیمت الگ، دکان سے خریدنے کی صورت میں الگ اور ہوم ڈیلیوری کی صورت میں قیمت الگ۔ وغیرہ وغیرہ

(ب) بنک کہتا ہے کہ گاڑی اے کی قیمت دس لاکھ ہے۔ اگر آپ پوری گاڑی ایک ساتھ نہیں خرید سکتے تو اسے 100 قسطوں میں خرید لیجئے۔ ہم گاڑی کی مارکیٹ قیمت کے 100 حصص بنا دیتے ہیں۔ ایک حصہ 10،000 روپے کا ہوگا۔ آپ دس دس ہزار روپے کی قسطیں دیتے جائیے۔ جب آپ پوری 100 حصص خرید لیں گے تو گاڑی آپ کی مکمل ملکیت میں ہوگی۔ اس ترتیب سے
1۔ پہلی قسط کی ادائیگی پر آپ کی ملکیت ایک حصص ۔۔۔ بنک حصص 99
2۔ دسویں قسط کی ادائیگی پر آپ کی ملکیت 10 حصص ۔۔۔ بنک حصص 90
3۔ 50 ویں قسط کی ادائیگی پر آپ کی ملکیت 50 حصص ۔ بنک حصص 50
4۔ 99 ویں قسط کی ادائیگی پر آپ کی ملکیت 99 حصص ۔ بنک کی ملکیت 1 حصص

اب اگر آپ چاہیں تو پہلی قسط دے کر گاڑی اپنے استعمال میں بھی رکھ سکتے ہیں۔ لیکن اس صورت میں آپ کو گاڑی کا کرایہ دینا ہوگا۔ پوری گاڑی (100 حصص) کا ماہانہ کرایہ (مثلاً) 100 روپے ہوگا۔ چونکہ آپ گاڑی کے 1 حصہ کے مالک ہیں اور بنک 99 حصہ کے اس لئے پہلے ماہ آپ کو 99 روپے کرایہ ادا کرنا ہوگا (گاڑی کی قسط کے علاوہ)۔ دسویں ماہ آپ کو بنک کے 90 حصص کا کرایہ 90 روپے، 50ویں ماہ 50 روپے، 99 ویں ماہ ایک روپے دینا ہوگا۔ اس صورت میں بھی سود کا کہیں عمل دخل نہیں ہوتا۔

واللہ اعلم بالصواب
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
شمولیت
مئی 09، 2014
پیغامات
93
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
18
میری نظر میں اسلامی بینکاری کا پورا نظام حیلہ سازی پر قائم ہے اور یہ حیل بھی ایسے ہیں جو غیر شرعی ہیں۔ اس بارے ایک ریسرچ پیپر ملاحظہ فرمائیں:
http://www.ijhssnet.com/journals/Vol_4_No_2_Special_Issue_January_2014/16.pdf
کوئی بھائی اس کا اردو ترجمہ کر دے تو ہم جیسوں کا بھلا ہو جائیگا۔
 
شمولیت
مئی 23، 2013
پیغامات
213
ری ایکشن اسکور
381
پوائنٹ
90
ابو عبداللہ


اس سوال کا جواب ہاں میں بھی ہے اور نہیں میں بھی ۔
  1. اگر آپ بنک سے گاڑی خریدنے کے لئے قرضہ لیتے ہیں۔ اور قرضہ کی اصل رقم سے زائد رقم (ماہانہ قسطوں میں) بنک کو واپس کرتے ہیں تو بلا شبہ یہ سود ہے۔ خواہ قسطیں مکمل ہونے تک بنک گاڑی اپنے نام رکھے یا آپ کے نام کرکے اس کے کاغذات اپنے پاس رکھے۔ روایتی بنکوں میں عموماً ایسا ہی ہوتا ہے۔
  2. ”اسلامی بنک“ دوسرا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ اور ان بنکوں سے وابستہ علمائے کرام کہتے ہیں کہ ان طریقوں میں سود شامل نہیں ہوتا۔
(الف) بنک کہتا ہے کہ آپ ہم سے قرضہ نہ لیں بلکہ ہم سے براہ راست گاڑی خریدیں۔ اگر آپ کوئی مخصوص گاڑی ہم سے نقد خریدیں گے تو ہم آپ کو مارکیٹ کی قیمت میں فروخت کریں گے۔ اگر ادھار یا قسطوں پر خریدیں گے تو یہ مارکیٹ قیمت سے اتنے فیصد زائد قیمت کی ہوگی۔ اور شریعت میں ایک ہی چیز الگ الگ قیمتوں میں فروخت کی جاسکتی ہے۔ نقد کی قیمت الگ، ادھار کی قیمت الگ، قسطوں کی قیمت الگ، دکان سے خریدنے کی صورت میں الگ اور ہوم ڈیلیوری کی صورت میں قیمت الگ۔ وغیرہ وغیرہ

(ب) بنک کہتا ہے کہ گاڑی اے کی قیمت دس لاکھ ہے۔ اگر آپ پوری گاڑی ایک ساتھ نہیں خرید سکتے تو اسے 100 قسطوں میں خرید لیجئے۔ ہم گاڑی کی مارکیٹ قیمت کے 100 حصص بنا دیتے ہیں۔ ایک حصہ 10،000 روپے کا ہوگا۔ آپ دس دس ہزار روپے کی قسطیں دیتے جائیے۔ جب آپ پوری 100 حصص خرید لیں گے تو گاڑی آپ کی مکمل ملکیت میں ہوگی۔ اس ترتیب سے
1۔ پہلی قسط کی ادائیگی پر آپ کی ملکیت ایک حصص ۔۔۔ بنک حصص 99
2۔ دسویں قسط کی ادائیگی پر آپ کی ملکیت 10 حصص ۔۔۔ بنک حصص 90
3۔ 50 ویں قسط کی ادائیگی پر آپ کی ملکیت 50 حصص ۔ بنک حصص 50
4۔ 99 ویں قسط کی ادائیگی پر آپ کی ملکیت 99 حصص ۔ بنک کی ملکیت 1 حصص

اب اگر آپ چاہیں تو پہلی قسط دے کر گاڑی اپنے استعمال میں بھی رکھ سکتے ہیں۔ لیکن اس صورت میں آپ کو گاڑی کا کرایہ دینا ہوگا۔ پوری گاڑی (100 حصص) کا ماہانہ کرایہ (مثلاً) 100 روپے ہوگا۔ چونکہ آپ گاڑی کے 1 حصہ کے مالک ہیں اور بنک 99 حصہ کے اس لئے پہلے ماہ آپ کو 99 روپے کرایہ ادا کرنا ہوگا (گاڑی کی قسط کے علاوہ)۔ دسویں ماہ آپ کو بنک کے 90 حصص کا کرایہ 90 روپے، 50ویں ماہ 50 روپے، 99 ویں ماہ ایک روپے دینا ہوگا۔ اس صورت میں بھی سود کا کہیں عمل دخل نہیں ہوتا۔

واللہ اعلم بالصواب
یوسف ثانی بھائی جس طرح آپ نے وضاحت کی یہ طریقہ اسلامی بینک سے گھر کی خریداری کا ہے اور اسے diminishing Musharka کہتے ہیں - جبکہ گاڑی کیلئے "اجارہ " کی ٹرم استعمال کی جاتی ہے یعنی کرایہ پر حاصل کرنا-
 
Top