محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
اَلَمْ تَرَ اِلَى الْمَلَاِ مِنْۢ بَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ مِنْۢ بَعْدِ مُوْسٰى۰ۘ اِذْ قَالُوْا لِنَبِىٍّ لَّہُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُّقَاتِلْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ۰ۭ قَالَ ھَلْ عَسَيْتُمْ اِنْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ اَلَّا تُقَاتِلُوْا۰ۭ قَالُوْا وَمَا لَنَآ اَلَّا نُقَاتِلَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَقَدْ اُخْرِجْنَا مِنْ دِيَارِنَا وَاَبْنَاۗىِٕنَا۰ۭ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْہِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا اِلَّا قَلِيْلًا مِّنْہُمْ۰ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌۢ بِالظّٰلِمِيْنَ۲۴۶
کیا تونے موسیٰ (علیہ السلام)کے بعد بنی اسرائیل کی اس جماعت کو نہیں دیکھا جنھوں نے اپنے نبی (علیہ السلام) سے کہاکہ ہمارے لیے ایک بادشاہ قائم کرکہ ہم خدا کی راہ میں لڑیں۔ نبی علیہ السلام نے کہا کہ تم سے یہ بھی توقع ہے کہ اگر تم پر جنگ فرض ہو جائے تو تم جنگ نہ کرو۔ انھوںنے کہا کہ ہم خدا کی راہ میں کیوں نہ لڑیں گے جب کہ ہم اپنے گھروں اور بیٹوں سے جدا کیے گئے ہیں۔پھر جب ان پر قتال فرض ہوا تو سوائے تھوڑے سے آدمیوں کے وہ سب پھرگئے اور اللہ ظالموں کو جانتا ہے۔۱؎(۲۴۶)
۱؎ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد جب عنان نبوت حضرت شموئیل علیہ السلام کے ہاتھ میں آئی تو بنی اسرائیل نے کہا۔ ہمیں جہاد کرنے میں کوئی تامل نہیں۔ آپ ایک امیر مقرر فرمادیجئے۔ اس پر کہا گیا کہ اس کی کیا ضمانت ہے کہ تم بالضرور جہاد پر آمادہ ہوجاؤگے۔ ایسا تو نہیں کہ فرضیت جہاد کے بعد تمہاری ہمتیں جواب دے جائیں۔ انھوں نے کہا ایسا کیوں کر ممکن ہے ؟ جب کہ ہم مظلوم ہیں اور مہاجر ہیں مگر جب جہاد فرض کردیا گیا اور حکم آگیا کہ اب لڑو تو بجز چند بہادروں کے سب پھرگئے۔اس سارے قصہ سے جو بہت طوالت کے ساتھ دہرایاگیا ہے ۔ مقصدیہ ہے کہ مسلمانوں کو ہر طرح جہاد کے لیے آمادہ وتیار کردیاجائے اورپہلے سے راہ کی مشکلات بتادی جائیں، تاکہ بعد میں وہ بھی بنی اسرائیل کی طرح عذر ومعذرت نہ کریں۔ ملک سے مراد امیر جماعت ہے جو نبی کی غیر حاضری میں سالارِ عسکر ہو۔ یہ غلط ہے کہ اس وقت چونکہ حضرت شموئیل بوڑھے تھے، اس لیے ایک امیر کی ضرورت پڑی، کیوں کہ نبی جب تک دنیا میں رہتا ہے اس کی قوتیں جوان رہتی ہیں اور وہ ایک لمحہ کے لیے بے کار نہیں ہوتا۔ یہ بھی غلط ہے کہ بنی اسرائیل میں نبوت وامارت دوالگ الگ شعبے تھے، اس لیے کہ نبی وہ جامع کمال شخصیت ہوتی ہے جس کے ہوتے ہوئے کسی دوسرے مستقل وجود کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔بنی اسرائیل کی بزدلی
{اَلْمَلَاء} شرفاء کی جماعت{ بَعَثَ} بھیجا۔ مقرر کیا۔ {اَنّٰی} کیوں کر۔ کیسے۔ {سَعَۃً} فراوانی، کشائش۔حل لغات