• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بوہرہ کون سا فرقہ ہے؟

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ.

یہ بوہرا کونسی جماعت ہے؟؟؟ انکے عقائد ونظریات کیا ہیں؟؟؟ براہ کرم رہنمائ فرمائیں.

جزاکم اللہ خیرا
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ.

یہ بوہرا کونسی جماعت ہے؟؟؟ انکے عقائد ونظریات کیا ہیں؟؟؟ براہ کرم رہنمائ فرمائیں.
جزاکم اللہ خیرا
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بوہری فرقہ کے آغاز


بوہری اور آغا خانی اور اثنا ء عشری رافضیوں کی اصل ایک ہے۔ان ہی کی روایات کے مطابق؛

۔" امام جعفر صادق کے کئی بیٹے تھے جن میں سب سے بڑے حضرت اسماعیل تھے۔امام صادق کے زمانے میں ہی کچھ لوگوں نے تصوّر کرنا شروع کر دیا تھا کہ امام صادق کے بعد اسماعیل ہی امام ہوں گے۔ لیکن حضرت اسماعیل کی وفات امام صادق کی زندگی میں ہی ہو گئی۔جب امام صادق کی شہادت ہوئی تو ان کی وصیّت کے مطابق اکثرلوگوں نے امام کاظم کو امام مان لیا، لیکن ایک جماعت نے کہا کہ اسماعیل بڑے بیٹے تھے، اب وہ نہیں تو ان کی اولاد میں امامت رہنی چاھئے، یہ لوگ "اسماعیلی" کہلائے۔ اس وقت تک یہ باعمل قسم کے شیعہ تھے لیکن اثنا عشری نہ تھے۔

جن لوگوں نے امام جعفر صادق کی شہادت کے بعد امامت کو حضرت اسماعیل کی نسل میں مان لیا تو آگے چل کر ایک وقت آیا جب ان اسماعیل کی اولاد میں سے ایک شخص مہدی کو مصر میں خلافت ملی جہاں اس نے "خلافت فاطمی" کی بنیاد رکھی۔ایک نسل میں ان کے ہاں خلافت پر جھگڑا ہوا، مستعلی اور نزار دو بھائی تھے، مستعلی کو خلافت ملی۔ لیکن لوگوں میں دو گروہ ہوئے، ایک نے مستعلی کو امام مان لیا اور ایک گروہ نے نزار کو مان لیا۔ مستعلی کو ماننے والوں کو مستعلیہ کہا جاتا ہے جو آج کل کے" بوھرہ" ہیں اور نزار کے ماننے والوں کو نزاریہ کہا جاتا ہے جو آجکل کے "آغا خانی" ہیں۔

دوسری طرف بوہریوں کی خلافت ایک طویل عرصے تک مصر میں رہی لیکن صلیبی جنگوں کے زمانے میں صلاح الدّین ایّوبی نے پے در پے حملوں کے بعد اس شیعہ اسماعیلی حکومت کو ختم کر دیا۔ جب مصر میں بوہریوں کی امامت ختم ہوئی تو انہوں نے ہندوستان و یمن کو اپنا مرکز بنالیا۔ان کی امامت کا سلسلہ خلافت فاطمی کے ختم ہوتے ہی ختم ہو چکا ہے، البتہ ان کے ہاں"داعیوں" کا سلسلہ شروع ہوا۔ موجودہ برھان الدّین ان کے داعی ہیں جن کا انتقال پچھلے دنوں ہوا۔
آگے چل کر بوہریوں کے ہاں بھی دو فرقے ہوئے؛

(1) داؤدی بوہرہ اور (2)سلیمانی بوہرہ۔
ان کا اختلاف محض علاقائی ہے۔ داؤدی بوہروں کے داعی ہندوستانی ہوتے ہیں اور گجرات کے شہر سورت میں ان کا مرکز ہے جبکہ سلیمانی بوہروں کے داعی یمن میں ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں ہندوستان کے جنوبی علاقوں میں بھی ہیں۔
البتہ پاکستان میں بھی سلیمانی بوہروں کی ایک قلیل تعداد ہے۔ داؤدی بوہرہ کے لوگ بہت آرام سے پہچانے جاتے ہیں کیونکہ ان کے مرد مخصوص لباس پہنتے ہیں اور ان کی عورتیں ایک مخصوص حجاب کرتی ہیں، جبکہ سلیمانی بوہرہ پہچانے نہیں جاتے کیونکہ ان کا کوئی مخصوص لباس نہیں ہے"۔٭(1)۔



بوہری فرقہ کے کفریہ عقائد
۔"بوہری فرقہ"کے عقائد اور شیعہ رافضیوں کے عقائد میں کوئی خاص فرق نہیں ہے بلکہ بوہری فرقہ دراصل رافضیوں کی ہی ایک شاخ ہے ۔فرق صرف یہ ہے کہ رافضیوں کی دو بنیادی شاخیں ہیں جن میں سے ایک امام جعفرصادق رحمہ اللہ کے بیٹے امام کاظم کو امام جعفر کا جانشین مانتے ہیں تو وہ "اثناعشری شیعہ" کہلائے جبکہ بوہری اور آغاخانی امام اسماعیل کی اولاد کو امام جعفر کا جانشین قرار دیتے ہیں،تو یہ "اسماعیلی شیعہ "قرار پائے ۔


رافضیوں میں اثنا ءعشری شیعوں کے ہاں ان کا بارہواں امام غائب ہے جبکہ بوہروں کا امام اوران کے جانشین سب غائب ہیں، یہ بوہروں کا اہم ترین اصول عقیدہ ہے اور جو داعی ہیں وہ امام کے حکم سے اس کے جانشین بنتےہیں۔بوہری فرقے کے لوگ خداکی وحدانیت پر یقین رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں مگراللہ کو مجرد مانتے ہیں او ر اس کو کسی بھی قسم کی صفات سے مبرا سمجھتے ہیں ۔اس کے برعکس جو صفات اللہ تعالیٰ کے لئے مخصوص ہیں ،تو اپنے اماموں کو ان کا حامل قرار دیتے ہیں ۔بوہری فرقے کے لوگ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خاتم الانبیاءتسلیم تو کرتے ہیں مگرساتھ ہی ساتھ اپنے" داعی" کورسول کا درجہ بھی دیتے ہیں ۔ان کی اذان شیعہ اثناعشری رافضیوں کی طرح ہےاور نماز بھی رافضیوں کی طرح تین وقت پڑھتے ہیں یعنی فجر ،ظہرین اور مغربین۔اثناء عشری رافضیوں کی طرح بوہری بھی نمازجمعہ کے قائل نہیں ہیں۔الوہیت کے معاملے میں اسماعیلی رافضی(یعنی بوہری) تو یہ اثناعشری رافضیوں سے ایک قدم آگے بڑھ گئے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ساتھ امام اسماعیل کے بارے میں ان کا عقیدہ یہ کہ معاذ اللہ اللہ تبارک وتعالیٰ ان کی ذات میں حلول کرگیا تھا ۔

----------------------------------


فرقہٴ بوہریہ کے عقائد اور ان کا حکم
الجواب باسم ملہم الصواب؛

۔"واضح رہے کہ ”بوہری جماعت“ کا نظریاتی تعلق شیعوں کے اسماعیلی مستعلوی فرقہ سے ہے‘ جس کا مرکز کتب تاریخ کے مطابق ۹۴۶ھ میں یمن سے احمد آباد (گجرات) ہندوستان منتقل ہوا‘ جہاں وہ اپنے مخصوص کاروبار کی وجہ سے جوکہ تجارت ہے 'بوہرے' کہلائے"۔
(تاریخ فاطمیین مصر ص:۳۷۲‘ط:میرمحمد کراچی)

اس فرقہ کے ساتھ مسلمانوں کا اختلاف فقط فروعی مسائل ہی میں نہیں‘ بلکہ بہت سے بنیادی عقائد میں بھی وہ منفرد نظریات رکھتے ہیں۔ ذیل میں مثال کے طور پر چند عقائد ونظریات درج کئے جاتے ہیں؛

(1)
توحید
مسلمانوں کا اجماعی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے‘ ذات وصفات میں اس کا کوئی شریک نہیں‘ کچھ صفات کا ذکر خود قرآن کریم میں بھی ہے۔ مثلاً:باری تعالیٰ کا ارشاد ہے؛
ہو الاول والآخر والظاہر والباطن وہو بکل شئ علیم (الحدید:3)


ہو اللہ الذی لا الہ الا ہو عالم الغیب والشہادة ہو الرحمن الرحیم ․․․الی آخر السورة (الحشر:22تا 24)


لیس کمثلہ شئ وہو السمیع البصیر(الشوریٰ :11)

مگر اسماعیلیوں کے ہاں اللہ تعالیٰ کو کسی صفت سے موصوف نہیں کیا جاسکتا‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات درحقیقت ائمہ کی صفات ہیں‘ اللہ تعالیٰ کے لئے کسی صفت کا اقرار کرنا شرک ہے‘ چنانچہ ڈاکٹر زاہد علی صاحب اپنی کتاب ”تاریخ فاطمیین مصر“ میں رقمطراز ہیں؛


۔"مبدع سبحانہ وتعالیٰ ایک ہے اور وہ کسی صفت یا نعت سے موصوف ومنعوت نہیں کیا جاسکتا‘ اسے کسی صفت سے موصوف کرنا گویا اس کی ذات میں کثرت ثابت کرنا ہے جو شرک کا مترادف ہے"۔
(تاریخ فاطمیین مصر ص:۵۳۹‘ نیز ”الملل والنحل“ للشہر ستانی: ۲۲۹‘ ط:بیروت)


اور ”ہمارے اسماعیلی مذہب کی حقیقت اور اس کا نظام“ میں تحریر کرتے ہیں؛


۔"ہمارے اعتقاد کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے تمام نعوت اور اوصاف مثلاً خالق‘ عالم‘ قادر وغیرہ مجازی ہیں‘ حقیقت میں وہ عقلِ اول پر صادق آتے ہیں جو عالم روحانی کا پہلا موجد ہے ‘ عالم جسمانی میں ان اوصاف ونعوت سے امام الزمان موصوف ہوتے ہیں‘ کیونکہ وہ اس عالم میں عقل اول کے مقابل ہیں یہاں تک کہ لفظ ”اللہ“ کا لفظ بھی جیساکہ آئندہ معلوم ہوگا عقل اول اور امام پر اطلاق کیا جاتاہے"۔
(صفحہ نمبر ایک بہ عنوان ”توحید“ ط: مکتبہ بینات)

نیز (ان کے )کئی ائمہ سے مندرجہ ذیل کلمات کا کہنا منقول ہے؛

انا الاول وانا الآخر وانا الظاہر وانا الباطن وانا بکل شئ محیط وانا الحفیظ العلیم وانا بنیت السماء ودحوت الارض نحن آل اللہ ونحن ارسلنا نبینا صادقا ما قیل فی اللہ فہو فینا وما قیل فینا فہو فی شیعتنا
(تاریخ فاطمیین مصر ص:۵۵۹ بحوالہ ”زہر المعانی“ ص:۲۶۴-۲۶۹)

ترجمہ:․․․" میں ہی اول اور آخر ہوں‘ میں ہی ظاہر اور باطن ہوں‘ میں ہر چیز کے متعلق جانتا ہوں اور میں ہی حفیظ اور علیم ہوں‘ آسمان میں نے بنائے ہیں اور زمین کو میں نے ہموار کیا ہے‘ ہم اللہ کے آل ہیں اور ہم نے ہی سچے نبی کو بھیجا ہے جو کچھ اللہ کے بارے میں کہا گیا وہ ہمارے بارے میں بھی ہے اور جو ہمارے متعلق کہا گیا وہ ہماری جماعت کے متعلق بھی ہے"۔


(2)
کلمہ


مسلمانوں کا کلمہ؛
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ


اسماعیلی بوہریوں کا کلمہ؛
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ مولانا علیَّ ولیَّ اللہ ‘ وصیَّ رسول اللہ
(اسماعیلیہ ص:۱۲۳‘ط: الرحیم اکیڈمی)


(3)
رسالت


مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حضرات انبیائے کرام علیہم السلام اللہ تعالیٰ کے انتہائی مقرب اور برگزیدہ بندے ہیں‘ ان سے خطا سرزد نہیں ہوسکتی اور نہ ہی مخلوق میں کسی کو ان جیسا مقام حاصل ہے ‘ اس کے برعکس اسماعیلیوں کے نزدیک انبیائے کرام سے گناہ بھی سرزد ہو سکتے ہیں اور ان کے ائمہ کا درجہ بھی انبیائے کرام سے بڑھا ہوا ہے۔ ملاحظہ کریں؛

۔"دور ستر میں امام خدا کے الہام سے حسب ضرورت اپنی جگہ پر اپنے نائبوں کو مقرر کرتا ہے جو ”مستودع یعنی انبیاء“ کہے جاتے ہیں اور جن میں مشہور آدم‘ نوح‘موسیٰ اور عیسیٰ ہیں“۔

(تاریخ فاطمیین مصر ص:۴۹۴)

اور جعفر بن منصور الیمن کہتے ہیں کہ؛
۔" تمام انبیاء کی حد تنزیل ہے‘ ان کی شریعتوں میں اختلاف اور شبہ پایا جاتا ہے‘ ان سے گناہ صادر ہوئے‘ کیونکہ انہوں نے ایسے مراتب طلب کئے جن کے وہ مستحق نہ تھے‘ وہ سب غیر معصوم تھے‘ ان میں آنحضرت ا بھی شامل ہیں‘ چنانچہ اللہ تعالیٰ خود آپ کو خطاب کرکے فرماتاہے؛
انا فتحنا لک فتحاً مبیناً لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک وما تأخر
بخلاف اس کے آپ کے وصی مولانا علی اور آپ کی نسل میں جتنے ائئمہ ہوئے ان کی حد تاویل ہے جس میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا‘ جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے؛


ما تریٰ فی خلق الرحمن من تفاوت
انہوں نے ایسے مراتب طلب نہیں کئے جن کے وہ مستحق نہ تھے‘ یہ سب ملائکہ بالفضل اور معصوم ہیں اور چار دررجے انبیاء مرسلین سے افضل ہیں“۔

عربی عبارت ملاحظہ کریں؛
الملائکة المقربون ہم الائمة المعصومون وہم افضل من الرسل المؤیدین ۔۔۔۔ لایعصون اللہ ما امرہم ویفعلون ما یؤمرون۔۔۔۔والملائکة بالفضل ہم المقربون فوق الرسل باربع درجات لان الانبیاء وقعت منہم الذنوب والمعاصی‘ ثم نالتہم التوبة والرحمة اذ عصیانہم متوجہ الی الطاعة فکانوا غیر معصومین لطلبہم مراتب فوق مراتبہم لم یستحقوہا وکان اسہم معصومین لانہم لم یطلبوا فوق حدہم کآدم وما ذکرہ اللہ من عصیانہم ویوسف وموسی وداود وما حکی اللہ فی قصة نبینا محمد فی قولہ :”لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک وما تأخر“ ولیس بین الرسل والملائکة مساواة فی الحقیقة ۔۔۔۔ وکذلک ان المؤمنین المعصومین لاتجری علییہم الذنوب کما ان الذنوب لاتجری علی المؤیدین من الملائکة“۔
(ہمارے اسماعیلی مذہب کی حقیقت اور اس کا نظام‘ ص:۷۰-۷۱ بحوالہ ”تاویل الزکاة“ للسید جعفر بن منصور ص:۱۴۹-۱۵۶)


(4)
ختم نبوت


مسلمانوں کا اجماعی عقیدہ ہے کہ حضرت محمد ا خاتم النبیین ہیں‘ آپ کے بعد نہ تو کوئی نیا نبی آئے گا اور نہ ہی کوئی رسول۔ آپ ﷺکی کتاب آخری کتاب اور آپ کی شریعت آخری شریعت ہے‘ سابقہ تمام شریعتیں منسوخ ہوچکیں اور قیامت تک کے لئے کامیابی صرف دین محمد ا میں منحصر ہوگئی۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے؛

ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النیین
(الاحزاب:4)

ومن یبتغ غیر الاسلام دیناً فلن یقبل منہ وہو فی الآخرة من الخاسرین
(آل عمران:85)

مشہور ومتواتر حدیث میں ہے؛
انا خاتم النبیین لانبی بعدی
(اخرجہ الترمذی‘ وقال : ہذا حدیث حسن صحیح ‘کتاب الفتن: رقم ۲۲۱۹)

ایک اور حدیث میں ہے؛
لو کان موسیٰ حیاً ما وسعہ الا اتباعی
(مسند احمد:۳/۳۸۷)

مگر فرقہ اسماعیلیہ کے امام معز (متوفی ۳۶۵ھ) سے منقول ساتویں دعا جسے اسماعیلی شنبہ (ہفتہ) کے روز پڑھتے ہیں اور اسے نہایت متبرک سمجھتے ہیں‘ میں امام محمد بن اسماعیل کے متعلق کہا گیا ہے کہ وہ ساتویں امام ہونے کے علاوہ ساتویں وصی‘ ساتویں ناطق اور ساتویں رسول بھی ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے ان کے قیام سے ”عالم الطبائع“ کو ختم کیا اور (حضرت محمد ﷺ) کی شریعت کو معطل کیا۔ اصل عبارت ملاحظہ کیجئے؛

۔"وصل علی القائم بالحق الناطق بالصدق التاسع من جدہ الرسول الثامن من ابیہ الکوثر السابع من آبائہ الأئمة سابع الرسل من آدم وسابع الأوصیاء من شیث وسابع الأئمة من آلہ البررة․․․ وختمت بہ عالم الطبائع وعطلت بقیامہ ظاہر شریعة محمد ﷺ ۔۔۔۔۔“ الخ
(تاریخ فاطمیین مصر ص:۵۴۳-۵۴۴ وہمارے اسماعیلی مذہب کی حقیقت ص:”م“ از مقدمہ)




(5)
صحابہ کرام سے محبت یا بغض وعداوت
مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ آنحضرت ﷺکے صحابہ کرام راست گو‘ پاکباز اور سچے مؤمن تھے ان کی شان میں خود اللہ تعالیٰ نے کئی آیتیں نازل فرمائیں‘ مثلاً؛
والسابقون الاولون من المہاجرین والانصار والذین اتبعوہم باحسان رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ واعدلہم جنات تجری تحتہا الانہار خالدین فیہا ابداً ذلک الفوز العظیم
(التوبۃ:100)

محمد رسول اللہ والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینہم تراہم رکعاً سجداً یبتغون فضلاً من اللہ ورضواناً․․․الآیة
(الفتح:29)

مگر” اسماعیلیہ “(یعنی بوہری اور آغاخانی)چونکہ ”امامیہ“ کی ایک شاخ کی حیثیت رکھتا ہے‘ اس لئے اس کے بنیادی عقائد میں صحابہ سے بغض اور ان سے بیزاری کا اظہار کرنا بھی ہے‘ یہاں تک کہ اکابر صحابہ کرام کی تکفیر بھی کرتے ہیں۔
علامہ شہرستانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں؛
ثم ان الامامیة تخطت عن ہذہ الدرجة الی الوقیعة فی کبار الصحابة طعناً وتکفیراً
(الملل والنحل :191،192،ط۔بیروت)


(6)
امامت
امامت کے قائل شیعہ فرقوں اور ”اسماعیلیہ“ کے ہاں ”عقیدہٴ امامت“ کو کس درجہ اہمیت حاصل ہے‘ اس کا کچھ اندازہ سید تنظیم حسین صاحب مصنف ”اسماعیلیہ“ کے اس قول سے ہوتا ہے‘ آپ لکھتے ہیں؛

۔"امامیہ (اثناعشری) اور امامیہ (اسماعیلیہ) میں شخصیتوں کی بنیاد پر اختلاف ہوا‘ اس وجہ سے ان دونوں کے یہاں حضرت امام جعفر صادق کے بعد امامت کے سلسلے مختلف ہوگئے‘ لیکن عقیدہ امامت میں گو کوئی بنیادی فرق نہیں ہوا‘ مگر اس کو علم حقیقت (عالم روحانی وعالم جسمانی کی ابتداء وانتہاء) کے ساتھ ایسا وابستہ کردیا کہ اسماعیلیہ کا امام اثنا عشریوں کے امام سے بلند ہوکر ”الوہیت“ کے درجہ پر پہنچ گیا"۔
(اسماعیلیہ ص:۴۷‘ط: الرحیم اکیڈمی)

عمومی طور پر ائمہ سے متعلق ان کے عقائد یہ ہیں؛
(1) "ان کا درجہ رسول اللہ ا کے برابر اور دوسرے نبیوں سے بالا ترہوتا ہے"۔
(اس کی ایک مثال عقیدہ ”رسالت“ کے تحت گذرچکی ہے)

(2) " امام‘ حرام کو حلال اور حلال کو حرام قرار دے سکتا ہے"۔
(اسماعیلیہ ص:۴۶-۴۷)

(3) "امام کو‘ شریعت میں ترمیم وتنسیخ کا اختیار ہے"۔
(اسماعیلیہ ص:۱۲۱)

(4)" ائمہ‘ خدا کے اوصاف سے موصوف ہوتے ہیں"۔
(اس کی وضاحت عقیدہ ”توحید“ کے بیان میں ہوچکی ہے)

(5)" اماموں کو اللہ کی طرف وحی آتی ہے"۔


جعفر بن منصور لکھتے ہیں؛
ولم یعلموا ان اسماعیل لم یغب عن الدار حتی خلف ولداً کاملا وان الامر رجع الیہ بامر اللہ ووحیہ وانہ لما حضرہ ما اراد اللہ من امرہ اوحی اللہ ان یسلم الامر الی ولدہ محمد
(ہمارے اسماعیلی مذہب کی حقیقت ص:۳۵۸ بحوالہ اسرار النطقاء ص:۲۲۵)

(6) "امام معصوم ہوتا ہے اس سے کوئی خطا نہیں ہوسکتی اور نہ ہی وہ کسی چھوٹے یا بڑے گناہ کا قصد وارادہ کرسکتا ہے"۔
الرسل والائمة معصومون فیما یتعلق بالرسالة والامامةمن السعو والتحریف والغلط۔۔۔الخ
(ہمارے اسماعیلی مذہب کی حقیقت ص:۵۵۴-۵۵۵ بحوالہ ”تاویل الزکاة“ ص:۱۴۹-۱۵۶)
ایضاً۔۔۔۔ وان جمیع الانبیاء والمرسلین والائمة علیہم السلام افضل من الملائکة‘ وانہم معصومون من کل دنس ورجس‘ لایہمون بذنب صغیر ولاکبیر ولایرتکبونہ
(المقیع والہدایة بابویہ القمی“ ۳۸۱ھ المجلس الثالث والتسعون ص: ایک‘ ط: مؤسسة المطبوعات الدینیہ‘ قم‘ ایران)

(7)"ہرزمانے میں ایک امام کا وجود ضروری ہے‘ اسی کے وجود کی برکت سے زمین برقرار ہے‘ ورنہ وہ متزلزل ہوجائے"۔
(تاریخ فاطمیین مصر ص:۳۷۸)

(8)"امام مذہبی اور سیاسی دونوں حکومتوں کا مالک ہوتا ہے زمین کے ہرحصے پر وہ حکومت کرسکتاہے اس کا فیصلہ آخری ہوتا ہے" ۔
(حوالہ بالا ص:۳۷۸)


(7)
قرآن پاک
۔"نبی یا رسول کا کام یہ ہے کہ وہ جو بات اس کے دل میں آتی ہے اور بہتر معلوم ہوتی ہے وہ لوگوں کو بتا دیتا ہے اور اس کا نام کلام الٰہی رکھتا ہے‘ تاکہ لوگوں میں یہ قول اثر کرجائے اور وہ اسے مان لیں۔ نبی کریم ﷺنے اس کا ظاہر بیان جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بہ حیثیت صامت کے اس کا باطن بیان کیا جو مقصود اصلی ہے"۔ (اسماعیلیہ ص:۱۲۱)

ظاہر ہے کہ بنیادی اور اصولی مسائل میں اس طرح کے عقائد کا رکھنا سراسر کفر والحاد ہے اور ایسے عقائد کا حامل شخص یا فرقہ دائرہٴ اسلام سے خارج ہے۔

بقول ایک سابق اسماعیلی محقق کے؛
۔"ایسا معلوم ہوتاہے کہ گویا اسلام کے سدا بہار درخت پر ایرانی‘ نصرانی‘ یونانی اور ہندی درختوں کی بے جوڑ قلمیں لگائی گئیں ہیں۔اصل اور قلم کا امتیاز ایسا ظاہر اور نمایاں ہے کہ سرسری نظر سے بھی چھپ نہیں سکتا‘ فروعات میں اختلاف ہوتا تو خیر کوئی بات نہ تھی‘ افسوس ہے کہ اصول ہی کچھ ایسے ایجاد کئے جو اسلام کے اصول سے الگ ہوگئے“۔ (مقدمہ ہمارے اسماعیلی مذہب کی حقیقت ص:ج)
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
جزاکم اللہ خیرا یا شیخ. بارک اللہ فی علمک
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اھلا وسھلا مرحبا یا شیخ
 

اسامہ شیخ

مبتدی
شمولیت
مارچ 04، 2021
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
9
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بوہری فرقہ کے آغاز


بوہری اور آغا خانی اور اثنا ء عشری رافضیوں کی اصل ایک ہے۔ان ہی کی روایات کے مطابق؛

۔" امام جعفر صادق کے کئی بیٹے تھے جن میں سب سے بڑے حضرت اسماعیل تھے۔امام صادق کے زمانے میں ہی کچھ لوگوں نے تصوّر کرنا شروع کر دیا تھا کہ امام صادق کے بعد اسماعیل ہی امام ہوں گے۔ لیکن حضرت اسماعیل کی وفات امام صادق کی زندگی میں ہی ہو گئی۔جب امام صادق کی شہادت ہوئی تو ان کی وصیّت کے مطابق اکثرلوگوں نے امام کاظم کو امام مان لیا، لیکن ایک جماعت نے کہا کہ اسماعیل بڑے بیٹے تھے، اب وہ نہیں تو ان کی اولاد میں امامت رہنی چاھئے، یہ لوگ "اسماعیلی" کہلائے۔ اس وقت تک یہ باعمل قسم کے شیعہ تھے لیکن اثنا عشری نہ تھے۔

جن لوگوں نے امام جعفر صادق کی شہادت کے بعد امامت کو حضرت اسماعیل کی نسل میں مان لیا تو آگے چل کر ایک وقت آیا جب ان اسماعیل کی اولاد میں سے ایک شخص مہدی کو مصر میں خلافت ملی جہاں اس نے "خلافت فاطمی" کی بنیاد رکھی۔ایک نسل میں ان کے ہاں خلافت پر جھگڑا ہوا، مستعلی اور نزار دو بھائی تھے، مستعلی کو خلافت ملی۔ لیکن لوگوں میں دو گروہ ہوئے، ایک نے مستعلی کو امام مان لیا اور ایک گروہ نے نزار کو مان لیا۔ مستعلی کو ماننے والوں کو مستعلیہ کہا جاتا ہے جو آج کل کے" بوھرہ" ہیں اور نزار کے ماننے والوں کو نزاریہ کہا جاتا ہے جو آجکل کے "آغا خانی" ہیں۔

دوسری طرف بوہریوں کی خلافت ایک طویل عرصے تک مصر میں رہی لیکن صلیبی جنگوں کے زمانے میں صلاح الدّین ایّوبی نے پے در پے حملوں کے بعد اس شیعہ اسماعیلی حکومت کو ختم کر دیا۔ جب مصر میں بوہریوں کی امامت ختم ہوئی تو انہوں نے ہندوستان و یمن کو اپنا مرکز بنالیا۔ان کی امامت کا سلسلہ خلافت فاطمی کے ختم ہوتے ہی ختم ہو چکا ہے، البتہ ان کے ہاں"داعیوں" کا سلسلہ شروع ہوا۔ موجودہ برھان الدّین ان کے داعی ہیں جن کا انتقال پچھلے دنوں ہوا۔
آگے چل کر بوہریوں کے ہاں بھی دو فرقے ہوئے؛

(1) داؤدی بوہرہ اور (2)سلیمانی بوہرہ۔
ان کا اختلاف محض علاقائی ہے۔ داؤدی بوہروں کے داعی ہندوستانی ہوتے ہیں اور گجرات کے شہر سورت میں ان کا مرکز ہے جبکہ سلیمانی بوہروں کے داعی یمن میں ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں ہندوستان کے جنوبی علاقوں میں بھی ہیں۔
البتہ پاکستان میں بھی سلیمانی بوہروں کی ایک قلیل تعداد ہے۔ داؤدی بوہرہ کے لوگ بہت آرام سے پہچانے جاتے ہیں کیونکہ ان کے مرد مخصوص لباس پہنتے ہیں اور ان کی عورتیں ایک مخصوص حجاب کرتی ہیں، جبکہ سلیمانی بوہرہ پہچانے نہیں جاتے کیونکہ ان کا کوئی مخصوص لباس نہیں ہے"۔٭(1)۔



بوہری فرقہ کے کفریہ عقائد
۔"بوہری فرقہ"کے عقائد اور شیعہ رافضیوں کے عقائد میں کوئی خاص فرق نہیں ہے بلکہ بوہری فرقہ دراصل رافضیوں کی ہی ایک شاخ ہے ۔فرق صرف یہ ہے کہ رافضیوں کی دو بنیادی شاخیں ہیں جن میں سے ایک امام جعفرصادق رحمہ اللہ کے بیٹے امام کاظم کو امام جعفر کا جانشین مانتے ہیں تو وہ "اثناعشری شیعہ" کہلائے جبکہ بوہری اور آغاخانی امام اسماعیل کی اولاد کو امام جعفر کا جانشین قرار دیتے ہیں،تو یہ "اسماعیلی شیعہ "قرار پائے ۔


رافضیوں میں اثنا ءعشری شیعوں کے ہاں ان کا بارہواں امام غائب ہے جبکہ بوہروں کا امام اوران کے جانشین سب غائب ہیں، یہ بوہروں کا اہم ترین اصول عقیدہ ہے اور جو داعی ہیں وہ امام کے حکم سے اس کے جانشین بنتےہیں۔بوہری فرقے کے لوگ خداکی وحدانیت پر یقین رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں مگراللہ کو مجرد مانتے ہیں او ر اس کو کسی بھی قسم کی صفات سے مبرا سمجھتے ہیں ۔اس کے برعکس جو صفات اللہ تعالیٰ کے لئے مخصوص ہیں ،تو اپنے اماموں کو ان کا حامل قرار دیتے ہیں ۔بوہری فرقے کے لوگ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خاتم الانبیاءتسلیم تو کرتے ہیں مگرساتھ ہی ساتھ اپنے" داعی" کورسول کا درجہ بھی دیتے ہیں ۔ان کی اذان شیعہ اثناعشری رافضیوں کی طرح ہےاور نماز بھی رافضیوں کی طرح تین وقت پڑھتے ہیں یعنی فجر ،ظہرین اور مغربین۔اثناء عشری رافضیوں کی طرح بوہری بھی نمازجمعہ کے قائل نہیں ہیں۔الوہیت کے معاملے میں اسماعیلی رافضی(یعنی بوہری) تو یہ اثناعشری رافضیوں سے ایک قدم آگے بڑھ گئے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ساتھ امام اسماعیل کے بارے میں ان کا عقیدہ یہ کہ معاذ اللہ اللہ تبارک وتعالیٰ ان کی ذات میں حلول کرگیا تھا ۔

----------------------------------


فرقہٴ بوہریہ کے عقائد اور ان کا حکم
الجواب باسم ملہم الصواب؛

۔"واضح رہے کہ ”بوہری جماعت“ کا نظریاتی تعلق شیعوں کے اسماعیلی مستعلوی فرقہ سے ہے‘ جس کا مرکز کتب تاریخ کے مطابق ۹۴۶ھ میں یمن سے احمد آباد (گجرات) ہندوستان منتقل ہوا‘ جہاں وہ اپنے مخصوص کاروبار کی وجہ سے جوکہ تجارت ہے 'بوہرے' کہلائے"۔
(تاریخ فاطمیین مصر ص:۳۷۲‘ط:میرمحمد کراچی)

اس فرقہ کے ساتھ مسلمانوں کا اختلاف فقط فروعی مسائل ہی میں نہیں‘ بلکہ بہت سے بنیادی عقائد میں بھی وہ منفرد نظریات رکھتے ہیں۔ ذیل میں مثال کے طور پر چند عقائد ونظریات درج کئے جاتے ہیں؛

(1)
توحید
مسلمانوں کا اجماعی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے‘ ذات وصفات میں اس کا کوئی شریک نہیں‘ کچھ صفات کا ذکر خود قرآن کریم میں بھی ہے۔ مثلاً:باری تعالیٰ کا ارشاد ہے؛
ہو الاول والآخر والظاہر والباطن وہو بکل شئ علیم (الحدید:3)


ہو اللہ الذی لا الہ الا ہو عالم الغیب والشہادة ہو الرحمن الرحیم ․․․الی آخر السورة (الحشر:22تا 24)


لیس کمثلہ شئ وہو السمیع البصیر(الشوریٰ :11)

مگر اسماعیلیوں کے ہاں اللہ تعالیٰ کو کسی صفت سے موصوف نہیں کیا جاسکتا‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات درحقیقت ائمہ کی صفات ہیں‘ اللہ تعالیٰ کے لئے کسی صفت کا اقرار کرنا شرک ہے‘ چنانچہ ڈاکٹر زاہد علی صاحب اپنی کتاب ”تاریخ فاطمیین مصر“ میں رقمطراز ہیں؛


۔"مبدع سبحانہ وتعالیٰ ایک ہے اور وہ کسی صفت یا نعت سے موصوف ومنعوت نہیں کیا جاسکتا‘ اسے کسی صفت سے موصوف کرنا گویا اس کی ذات میں کثرت ثابت کرنا ہے جو شرک کا مترادف ہے"۔
(تاریخ فاطمیین مصر ص:۵۳۹‘ نیز ”الملل والنحل“ للشہر ستانی: ۲۲۹‘ ط:بیروت)


اور ”ہمارے اسماعیلی مذہب کی حقیقت اور اس کا نظام“ میں تحریر کرتے ہیں؛


۔"ہمارے اعتقاد کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے تمام نعوت اور اوصاف مثلاً خالق‘ عالم‘ قادر وغیرہ مجازی ہیں‘ حقیقت میں وہ عقلِ اول پر صادق آتے ہیں جو عالم روحانی کا پہلا موجد ہے ‘ عالم جسمانی میں ان اوصاف ونعوت سے امام الزمان موصوف ہوتے ہیں‘ کیونکہ وہ اس عالم میں عقل اول کے مقابل ہیں یہاں تک کہ لفظ ”اللہ“ کا لفظ بھی جیساکہ آئندہ معلوم ہوگا عقل اول اور امام پر اطلاق کیا جاتاہے"۔
(صفحہ نمبر ایک بہ عنوان ”توحید“ ط: مکتبہ بینات)

نیز (ان کے )کئی ائمہ سے مندرجہ ذیل کلمات کا کہنا منقول ہے؛

انا الاول وانا الآخر وانا الظاہر وانا الباطن وانا بکل شئ محیط وانا الحفیظ العلیم وانا بنیت السماء ودحوت الارض نحن آل اللہ ونحن ارسلنا نبینا صادقا ما قیل فی اللہ فہو فینا وما قیل فینا فہو فی شیعتنا
(تاریخ فاطمیین مصر ص:۵۵۹ بحوالہ ”زہر المعانی“ ص:۲۶۴-۲۶۹)

ترجمہ:․․․" میں ہی اول اور آخر ہوں‘ میں ہی ظاہر اور باطن ہوں‘ میں ہر چیز کے متعلق جانتا ہوں اور میں ہی حفیظ اور علیم ہوں‘ آسمان میں نے بنائے ہیں اور زمین کو میں نے ہموار کیا ہے‘ ہم اللہ کے آل ہیں اور ہم نے ہی سچے نبی کو بھیجا ہے جو کچھ اللہ کے بارے میں کہا گیا وہ ہمارے بارے میں بھی ہے اور جو ہمارے متعلق کہا گیا وہ ہماری جماعت کے متعلق بھی ہے"۔


(2)
کلمہ


مسلمانوں کا کلمہ؛
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ


اسماعیلی بوہریوں کا کلمہ؛
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ مولانا علیَّ ولیَّ اللہ ‘ وصیَّ رسول اللہ
(اسماعیلیہ ص:۱۲۳‘ط: الرحیم اکیڈمی)


(3)
رسالت


مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حضرات انبیائے کرام علیہم السلام اللہ تعالیٰ کے انتہائی مقرب اور برگزیدہ بندے ہیں‘ ان سے خطا سرزد نہیں ہوسکتی اور نہ ہی مخلوق میں کسی کو ان جیسا مقام حاصل ہے ‘ اس کے برعکس اسماعیلیوں کے نزدیک انبیائے کرام سے گناہ بھی سرزد ہو سکتے ہیں اور ان کے ائمہ کا درجہ بھی انبیائے کرام سے بڑھا ہوا ہے۔ ملاحظہ کریں؛

۔"دور ستر میں امام خدا کے الہام سے حسب ضرورت اپنی جگہ پر اپنے نائبوں کو مقرر کرتا ہے جو ”مستودع یعنی انبیاء“ کہے جاتے ہیں اور جن میں مشہور آدم‘ نوح‘موسیٰ اور عیسیٰ ہیں“۔

(تاریخ فاطمیین مصر ص:۴۹۴)

اور جعفر بن منصور الیمن کہتے ہیں کہ؛
۔" تمام انبیاء کی حد تنزیل ہے‘ ان کی شریعتوں میں اختلاف اور شبہ پایا جاتا ہے‘ ان سے گناہ صادر ہوئے‘ کیونکہ انہوں نے ایسے مراتب طلب کئے جن کے وہ مستحق نہ تھے‘ وہ سب غیر معصوم تھے‘ ان میں آنحضرت ا بھی شامل ہیں‘ چنانچہ اللہ تعالیٰ خود آپ کو خطاب کرکے فرماتاہے؛
انا فتحنا لک فتحاً مبیناً لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک وما تأخر
بخلاف اس کے آپ کے وصی مولانا علی اور آپ کی نسل میں جتنے ائئمہ ہوئے ان کی حد تاویل ہے جس میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا‘ جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے؛


ما تریٰ فی خلق الرحمن من تفاوت
انہوں نے ایسے مراتب طلب نہیں کئے جن کے وہ مستحق نہ تھے‘ یہ سب ملائکہ بالفضل اور معصوم ہیں اور چار دررجے انبیاء مرسلین سے افضل ہیں“۔

عربی عبارت ملاحظہ کریں؛
الملائکة المقربون ہم الائمة المعصومون وہم افضل من الرسل المؤیدین ۔۔۔۔ لایعصون اللہ ما امرہم ویفعلون ما یؤمرون۔۔۔۔والملائکة بالفضل ہم المقربون فوق الرسل باربع درجات لان الانبیاء وقعت منہم الذنوب والمعاصی‘ ثم نالتہم التوبة والرحمة اذ عصیانہم متوجہ الی الطاعة فکانوا غیر معصومین لطلبہم مراتب فوق مراتبہم لم یستحقوہا وکان اسہم معصومین لانہم لم یطلبوا فوق حدہم کآدم وما ذکرہ اللہ من عصیانہم ویوسف وموسی وداود وما حکی اللہ فی قصة نبینا محمد فی قولہ :”لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک وما تأخر“ ولیس بین الرسل والملائکة مساواة فی الحقیقة ۔۔۔۔ وکذلک ان المؤمنین المعصومین لاتجری علییہم الذنوب کما ان الذنوب لاتجری علی المؤیدین من الملائکة“۔
(ہمارے اسماعیلی مذہب کی حقیقت اور اس کا نظام‘ ص:۷۰-۷۱ بحوالہ ”تاویل الزکاة“ للسید جعفر بن منصور ص:۱۴۹-۱۵۶)


(4)
ختم نبوت


مسلمانوں کا اجماعی عقیدہ ہے کہ حضرت محمد ا خاتم النبیین ہیں‘ آپ کے بعد نہ تو کوئی نیا نبی آئے گا اور نہ ہی کوئی رسول۔ آپ ﷺکی کتاب آخری کتاب اور آپ کی شریعت آخری شریعت ہے‘ سابقہ تمام شریعتیں منسوخ ہوچکیں اور قیامت تک کے لئے کامیابی صرف دین محمد ا میں منحصر ہوگئی۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے؛

ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النیین
(الاحزاب:4)

ومن یبتغ غیر الاسلام دیناً فلن یقبل منہ وہو فی الآخرة من الخاسرین
(آل عمران:85)

مشہور ومتواتر حدیث میں ہے؛
انا خاتم النبیین لانبی بعدی
(اخرجہ الترمذی‘ وقال : ہذا حدیث حسن صحیح ‘کتاب الفتن: رقم ۲۲۱۹)

ایک اور حدیث میں ہے؛
لو کان موسیٰ حیاً ما وسعہ الا اتباعی
(مسند احمد:۳/۳۸۷)

مگر فرقہ اسماعیلیہ کے امام معز (متوفی ۳۶۵ھ) سے منقول ساتویں دعا جسے اسماعیلی شنبہ (ہفتہ) کے روز پڑھتے ہیں اور اسے نہایت متبرک سمجھتے ہیں‘ میں امام محمد بن اسماعیل کے متعلق کہا گیا ہے کہ وہ ساتویں امام ہونے کے علاوہ ساتویں وصی‘ ساتویں ناطق اور ساتویں رسول بھی ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے ان کے قیام سے ”عالم الطبائع“ کو ختم کیا اور (حضرت محمد ﷺ) کی شریعت کو معطل کیا۔ اصل عبارت ملاحظہ کیجئے؛

۔"وصل علی القائم بالحق الناطق بالصدق التاسع من جدہ الرسول الثامن من ابیہ الکوثر السابع من آبائہ الأئمة سابع الرسل من آدم وسابع الأوصیاء من شیث وسابع الأئمة من آلہ البررة․․․ وختمت بہ عالم الطبائع وعطلت بقیامہ ظاہر شریعة محمد ﷺ ۔۔۔۔۔“ الخ
(تاریخ فاطمیین مصر ص:۵۴۳-۵۴۴ وہمارے اسماعیلی مذہب کی حقیقت ص:”م“ از مقدمہ)




(5)
صحابہ کرام سے محبت یا بغض وعداوت
مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ آنحضرت ﷺکے صحابہ کرام راست گو‘ پاکباز اور سچے مؤمن تھے ان کی شان میں خود اللہ تعالیٰ نے کئی آیتیں نازل فرمائیں‘ مثلاً؛
والسابقون الاولون من المہاجرین والانصار والذین اتبعوہم باحسان رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ واعدلہم جنات تجری تحتہا الانہار خالدین فیہا ابداً ذلک الفوز العظیم
(التوبۃ:100)

محمد رسول اللہ والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینہم تراہم رکعاً سجداً یبتغون فضلاً من اللہ ورضواناً․․․الآیة
(الفتح:29)

مگر” اسماعیلیہ “(یعنی بوہری اور آغاخانی)چونکہ ”امامیہ“ کی ایک شاخ کی حیثیت رکھتا ہے‘ اس لئے اس کے بنیادی عقائد میں صحابہ سے بغض اور ان سے بیزاری کا اظہار کرنا بھی ہے‘ یہاں تک کہ اکابر صحابہ کرام کی تکفیر بھی کرتے ہیں۔
علامہ شہرستانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں؛
ثم ان الامامیة تخطت عن ہذہ الدرجة الی الوقیعة فی کبار الصحابة طعناً وتکفیراً
(الملل والنحل :191،192،ط۔بیروت)


(6)
امامت
امامت کے قائل شیعہ فرقوں اور ”اسماعیلیہ“ کے ہاں ”عقیدہٴ امامت“ کو کس درجہ اہمیت حاصل ہے‘ اس کا کچھ اندازہ سید تنظیم حسین صاحب مصنف ”اسماعیلیہ“ کے اس قول سے ہوتا ہے‘ آپ لکھتے ہیں؛

۔"امامیہ (اثناعشری) اور امامیہ (اسماعیلیہ) میں شخصیتوں کی بنیاد پر اختلاف ہوا‘ اس وجہ سے ان دونوں کے یہاں حضرت امام جعفر صادق کے بعد امامت کے سلسلے مختلف ہوگئے‘ لیکن عقیدہ امامت میں گو کوئی بنیادی فرق نہیں ہوا‘ مگر اس کو علم حقیقت (عالم روحانی وعالم جسمانی کی ابتداء وانتہاء) کے ساتھ ایسا وابستہ کردیا کہ اسماعیلیہ کا امام اثنا عشریوں کے امام سے بلند ہوکر ”الوہیت“ کے درجہ پر پہنچ گیا"۔
(اسماعیلیہ ص:۴۷‘ط: الرحیم اکیڈمی)

عمومی طور پر ائمہ سے متعلق ان کے عقائد یہ ہیں؛
(1) "ان کا درجہ رسول اللہ ا کے برابر اور دوسرے نبیوں سے بالا ترہوتا ہے"۔
(اس کی ایک مثال عقیدہ ”رسالت“ کے تحت گذرچکی ہے)

(2) " امام‘ حرام کو حلال اور حلال کو حرام قرار دے سکتا ہے"۔
(اسماعیلیہ ص:۴۶-۴۷)

(3) "امام کو‘ شریعت میں ترمیم وتنسیخ کا اختیار ہے"۔
(اسماعیلیہ ص:۱۲۱)

(4)" ائمہ‘ خدا کے اوصاف سے موصوف ہوتے ہیں"۔
(اس کی وضاحت عقیدہ ”توحید“ کے بیان میں ہوچکی ہے)

(5)" اماموں کو اللہ کی طرف وحی آتی ہے"۔


جعفر بن منصور لکھتے ہیں؛
ولم یعلموا ان اسماعیل لم یغب عن الدار حتی خلف ولداً کاملا وان الامر رجع الیہ بامر اللہ ووحیہ وانہ لما حضرہ ما اراد اللہ من امرہ اوحی اللہ ان یسلم الامر الی ولدہ محمد
(ہمارے اسماعیلی مذہب کی حقیقت ص:۳۵۸ بحوالہ اسرار النطقاء ص:۲۲۵)

(6) "امام معصوم ہوتا ہے اس سے کوئی خطا نہیں ہوسکتی اور نہ ہی وہ کسی چھوٹے یا بڑے گناہ کا قصد وارادہ کرسکتا ہے"۔
الرسل والائمة معصومون فیما یتعلق بالرسالة والامامةمن السعو والتحریف والغلط۔۔۔الخ
(ہمارے اسماعیلی مذہب کی حقیقت ص:۵۵۴-۵۵۵ بحوالہ ”تاویل الزکاة“ ص:۱۴۹-۱۵۶)
ایضاً۔۔۔۔ وان جمیع الانبیاء والمرسلین والائمة علیہم السلام افضل من الملائکة‘ وانہم معصومون من کل دنس ورجس‘ لایہمون بذنب صغیر ولاکبیر ولایرتکبونہ
(المقیع والہدایة بابویہ القمی“ ۳۸۱ھ المجلس الثالث والتسعون ص: ایک‘ ط: مؤسسة المطبوعات الدینیہ‘ قم‘ ایران)

(7)"ہرزمانے میں ایک امام کا وجود ضروری ہے‘ اسی کے وجود کی برکت سے زمین برقرار ہے‘ ورنہ وہ متزلزل ہوجائے"۔
(تاریخ فاطمیین مصر ص:۳۷۸)

(8)"امام مذہبی اور سیاسی دونوں حکومتوں کا مالک ہوتا ہے زمین کے ہرحصے پر وہ حکومت کرسکتاہے اس کا فیصلہ آخری ہوتا ہے" ۔
(حوالہ بالا ص:۳۷۸)


(7)
قرآن پاک
۔"نبی یا رسول کا کام یہ ہے کہ وہ جو بات اس کے دل میں آتی ہے اور بہتر معلوم ہوتی ہے وہ لوگوں کو بتا دیتا ہے اور اس کا نام کلام الٰہی رکھتا ہے‘ تاکہ لوگوں میں یہ قول اثر کرجائے اور وہ اسے مان لیں۔ نبی کریم ﷺنے اس کا ظاہر بیان جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بہ حیثیت صامت کے اس کا باطن بیان کیا جو مقصود اصلی ہے"۔ (اسماعیلیہ ص:۱۲۱)

ظاہر ہے کہ بنیادی اور اصولی مسائل میں اس طرح کے عقائد کا رکھنا سراسر کفر والحاد ہے اور ایسے عقائد کا حامل شخص یا فرقہ دائرہٴ اسلام سے خارج ہے۔

بقول ایک سابق اسماعیلی محقق کے؛
۔"ایسا معلوم ہوتاہے کہ گویا اسلام کے سدا بہار درخت پر ایرانی‘ نصرانی‘ یونانی اور ہندی درختوں کی بے جوڑ قلمیں لگائی گئیں ہیں۔اصل اور قلم کا امتیاز ایسا ظاہر اور نمایاں ہے کہ سرسری نظر سے بھی چھپ نہیں سکتا‘ فروعات میں اختلاف ہوتا تو خیر کوئی بات نہ تھی‘ افسوس ہے کہ اصول ہی کچھ ایسے ایجاد کئے جو اسلام کے اصول سے الگ ہوگئے“۔ (مقدمہ ہمارے اسماعیلی مذہب کی حقیقت ص:ج)
 

اسامہ شیخ

مبتدی
شمولیت
مارچ 04، 2021
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
9
السلام علیکم ورحمة الله وبركاته شیخ امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے
شیخ اس تحریر میں "بوہرہ فرقہ کا آغاز" موضوع سے جو پیراگراف ہے وہ کس کتاب سے ماخوذ ہے؟؟؟
 
Top