• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بچوں کی تربیت

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
بچوں کی تربیت کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا۔ اردو زبان میں سراج الدین ندوی صاحب کی کتاب بچوں کی تربیت کیسے کریں ایک اچھی کتاب ہے۔ مختلف عمر کے بچوں کے مسائل بھی مختلف ہوتے ہیں۔ فی الحال ہم سات سے دس سال کے بچوں کے بعض مسائل پر گفتگو کرنا چاہ رہے ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جب بچہ سات سال کا ہو جائے تو اسے نماز کی تلقین کرو اور اگر دس سال کا ہو جائے تو نماز نہ پڑھنے پر اسے سزا بھی دو۔

بچوں کو نماز کی طرف کیسے لایا جائے، یہ عام طور والدین کے لیے ایک اہم ایشو ہے۔ بچوں کی نیکی شعوری نہیں ہوتی ہے بلکہ کسی جبر یا لالچ کے سبب سے ہوتی ہے۔ اس لیے بعض اوقات سختی اور بعض اوقات پیار سے ان سے کام لیا جا سکتا ہے۔ ہر حال میں سختی یا پیار سے بچے بگڑ جاتے ہیں۔

کچھ والدین چونکہ اپنے مزاج میں سخت ہوتے ہیں اور اگر صرف سخت ہوں تو بھی گزارہ چل جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ وہ بچوں سے لاپرواہ بھی ہوتے ہیں یعنی ان کے پاس بچوں کی تربیت کے لیے وقت نہیں ہوتا۔ ایسے والدین بچے کو عمر کے ساتویں، آٹھویں یا نویں سال تو بالکل نہیں پوچھیں گے اور دسویں سال ڈنڈے سے نماز پڑھانے کی کوشش کریں گے اور بچہ اس وقت سختی قبول کرنے کے لیے آمادہ نہ ہو گا۔ بچوں کی تربیت کی یہ ترتیب بالکل غلط ہے۔ ایک والد صاحب نے اپنے ایک بچے کی شکایت کی کہ وہ نماز نہیں پڑھتا اور جب میں اس پر سختی کرتا ہوں تو وہ مجھ سے الجھ پڑتا ہے۔ مولانا صاحب نے پوچھا کہ بچے کی عمر کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ سترہ سال کا ہو گا۔ مولانا نے کہا کہ کیا چودہ پندرہ سال کی عمر تک اسے کبھی نماز کے لیے کہا تھا۔ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں۔ مولانا نے کہا تو اب آپ کی سختی کا یہی نتیجہ نکلنا ہے اور فطری نتیجہ ہے۔

اسی طرح بعض والدین عمر کے ساتویں سال میں ہی بچے سے یہ امید کرنے لگ جاتے ہیں کہ وہ حسن بصری یا جنید بغدادی بن جائے۔ یہ بھی غلط رویہ ہے کہ ساتویں سال میں ہی بچے کو جماعت یا فجر کی نماز وقت پر پڑھنے کے لیے ڈنڈے کا استعمال کیا جائے۔ یہ عمر اس پر اس معاملے میں سختی کرنے کی نہیں ہے۔

یہ بات بہتر معلوم ہوتی ہے کہ کسی بھی معاملے میں بچے کی تربیت میں تدریج کے اصول کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔ مثلا نماز ہی کا معاملہ لے لیں۔ عمر کے ساتویں برس والدین بچے کو نماز سکھا دیں اور اس کے پڑھنے کا کہنا شروع کر دیں۔ وہ کبھی پڑھ لے گا اور کبھی نہیں پڑھے گا۔ اگر پڑھ لیتا ہے تو اسے شاباش دیں اور اگر نہیں پڑھتا تو نظر انداز کریں۔ آٹھویں برس میں اسے نماز کا پابند بنانے کے لیے کچھ لالچ بھی دیں۔ اس لالچ میں نماز سے آخرت میں حاصل ہونے والے مادی فوائد اور دنیا میں نماز پڑھنے پر کسی قدر انعام بھی شامل ہو سکتا ہے۔

میں نے اپنے بیٹے پر ایک تجربہ کیا کہ وہ مجھے کافی عرصے سے فلائنگ ہیلی کاپٹر مانگ رہا تھا۔ میں نے کہا یہ مہنگا کھلونا ہے، تمہیں ایسے نہیں لے کر دوں گا۔ اگر تم چالیس دن پانچوں نمازیں پڑھ لو تو لے دوں گا اور اس میں بھی کوئی جماعت کے ساتھ پڑھنے کی شرط نہیں لگائی اور یہ بھی کہا کہ صرف فرض پڑھ لو تو پھر بھی انعام مل جائے گا۔ یہ بات طے ہو جانے کے بعد نماز کا ایک چارٹ بنایا اور گھر میں ڈرائنگ روم کے دروازے پر لگا دیا۔ مجھے ویسے امید نہیں تھی کہ وہ چالیس دنوں کی نمازیں پوری کرے گا لیکن بچوں میں انرجی اور جذبہ بہت ہوتا ہے اور اس نے بھی ایک خاص جذبے کے ساتھ چالیس دن کی نمازیں مکمل کر لیں۔ وہ ہر دن کی نمازوں کے آگے اپنے سائن بھی کرتا رہا۔ اس طرح چالیس دن بعد اسے ہیلی کاپٹر تو مل گیا لیکن وہ فرائض کا پابند بھی ہو گیا۔ اس کی یہ عادت اتنی پختہ ہو گئی کہ اب اسے نماز چھوڑنے پر الجھن ہوتی تھی۔ جب اس معاملے کو کوئی چھ ماہ گزر گئے تو اس کی نانی اماں نے اسے سنتوں کی ترغیب دلائی تو اب چونکہ فرائض کا عادی تو تھا ہی، ساتھ ہی ترغیب میں سنتیں بھی پڑھنے لگا۔ اگرچہ ابھی بھی اس کی نماز میں یہ کمی ہے کہ جلد پڑھتا ہے اور بعض اوقات لیٹ کر دیتا ہے لیکن پڑھتا ضرور ہے۔

کئی دفعہ میں نے دیکھا کہ کارٹون دیکھتے یا گیم کھیلتے ہوئے اذان ہوئی اور اس نے درمیان میں وقفہ دے کر خود سے ہی نماز پڑھ لی۔ میری اہلیہ نے مجھ سے پوچھا کیا یہ آپ کے ڈر سے نماز پڑھتا ہے یا اسے اللہ کا خوف ہے۔ میں نے کہا مجھے اتنی خوش امیدی نہیں ہے۔ میرے خیال میں نہ میرا ڈر ہے اور نہ اللہ کا خوف بلکہ یہ اس کی عادت بن گئی ہے۔ اور عادت اگر پوری نہ ہو تو انسان الجھن اور بے چینی کا شکار ہو جاتا ہے لہذا یہ عادتا نماز پڑھ رہا ہے۔ اور اس عمر میں اتنا بھی کافی ہے۔

عمر کے نویں برس میں بچے کو نماز چھوڑنے پر ڈانٹ ڈپٹ کریں اور پھر دسویں برس میں اگر وہ نماز میں کوتاہی کرے تو ایک دو لگا بھی دیں۔ اس طرح کی تدریج کو اگر ملحوظ رکھا جائے گا تو بچے میں کم از کم دین سے رد عمل پیدا نہیں ہو گا۔

ہمارا المیہ یہ بھی ہے کہ ہم میں سے ہر شخص اپنے بچوں کے بارے بڑی اونچی امیدیں لگائے بیٹھا ہے۔ اگر دین دار ہے تو اس کا دل ہے کہ میرا بچہ احمد بن حنبل یا ابن تیمیہ رحمہما اللہ بن جائے۔ دنیا دار ہے تو اس کی خواہش ہے کہ ڈاکٹر عبد القدیر یا ڈاکٹر عبد السلام بن جائے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچوں کی تربیت ہو لیکن اس تربیت میں ہم سے کوئی مطالبہ نہ کیا جائے بلکہ یہ سارا کام اسکول یا مدرسہ کے اساتذہ کریں۔ ہمارے بچوں کی اس وقت تک تربیت نہیں ہو گی جب تم ہم خود ان کے لیے فارغ نہیں ہوں گے یا وقت نہیں نکالیں گے۔ بچے کو نماز سکھانی ہے تو ہماری خواہش ہے کہ قاری صاحب سکھا دیں۔ اور یہ ایک آزمائی ہوئی بات ہے کہ اگر والدین خود سے بچے کو نماز سکھائیں تو بچے کا ایک تو نماز سیکھنے میں انٹرسٹ بہت بڑھ جاتا ہے اور دوسرا اس کے سیکھنے کی رفتار بھی تیز ہو جاتی ہے۔

میرا بیٹا حفظ کر رہا ہے، تقریبا تین پارے کر لیے ہیں۔ شروع میں ایک پارے تک اسے قاری صاحب سبق یاد کرواتے تھے تو نہ تو اس کا حفظ میں دل لگتا تھا اور روزانہ شکایات بھی آ جاتی تھیں کہ سبق صحیح یاد نہیں ہے یا سبق یاد کرنے میں کافی ٹائم لگا دیتا ہے۔ پھر میں نے اسے خود سے ٹائم دینا شروع کیا اور گھر سے سبق یاد کروا کے قاری صاحب کے پاس بھیجنا شروع کر دیا۔ اب الحمد للہ، حفظ اس کے لیے ذرا بھی بوجھ نہیں رہا جبکہ وہ حفظ کے ساتھ اسکول بھی جا رہا ہے۔ میں جب اسے سبق یاد کرواتا ہوں تو ساتھ میں حوصلہ دیتا ہوں۔ اپنے حفظ کے کچھ واقعات سنا دیے۔ کچھ ایسی تدابیر بتلا دیں یا استعمال کر لیں کہ جس سے وہ سبق جلد یاد کر لے۔ اب ظاہری بات ہے کہ جو توجہ والدین اپنے بچوں کو دے سکتے ہیں وہ کوئی بھی استاذ نہیں دے سکتا۔ بچے کو جب کوئی چیز یاد نہ ہو تو وہ اسے بوجھ سمجھنا شروع کر دیتا ہے اور پڑھائی سے بھاگے گا یا بہانے بنائے گا اور جب اسے سبق یاد ہو گا تو وہ کبھی بھی پڑھائی سے بھاگنے کا نام نہیں لے گا کیونکہ اس میں اتنی انرجی ہوتی ہے کہ وہ اس محنت کو جذب کر سکے۔
 
Top