• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بچوں کے لیے اسلامک ویڈیوز کی ضرورت کیسے پوری کریں؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
بچوں کے لیے اسلامک ویڈیوز کی ضرورت کیسے پوری کریں؟

حافظ محمد زبیر

میرا چھوٹا بیٹا دو سال کا ہے، کوئی سال بھر کا تھا کہ اس کی اماں جان اسے نرسری رائمز لگا دیتی تھیں تا کہ اس دوران گھر کے کچھ کام کاج سمیٹ لیں۔ میرے لیے یہ مشاہدہ حیران کن تھا کہ بعض نرسری رائمز ایسی بھی تھیں کہ جنہیں کروڑوں میں کلکس ملے ہوئے تھے۔ اور عام سی نرسری رائمز تھیں اگرچہ لیرکس (lyrics) اور گرافکس اچھے تھے۔ پھر یہ بھی مشاہدے میں آیا کہ بچوں کہ بہترین نرسری رائمز پر اگر کسی نے کام کیا ہے، تو وہ انگریز ہیں یا انڈین ہیں یعنی انگریزی میں ہیں یا ہندی میں۔ اور اردو میں ایسا کوئی قابل ذکر مواد موجود نہیں ہے۔

دیکھیں، اہم نکتہ کیا ہے؟ اہم نکتہ ہمارا لائف اسٹائل ہیں جو کہ تقریبا گلوبل بن چکا ہے۔ ہر دوسری ماں اپنی بچے کو یوٹیوب پر نظمیں اور رائمز لگا کر بٹھا دیتی ہے تا کہ اس دوران اپنے گھر کے کام کاج سمیٹ لے۔ دنیا بھر کے یہ کروڑوں بچے ہیں کہ جن تک آپ اسلام کا میسج پہنچا سکتے ہیں۔ بابا بلیک شیپ، ٹوئنکل ٹوئنکل لٹل اسٹار، جونی جونی یس پاپا اور نہ جانے کتنی رائمز ایسی ہیں جن سے ہر دوسرا مسلمان بچہ نہ صرف واقف ہے بلکہ اسے زبانی یاد ہیں۔ کیا مسلمان ایسی نظمیں اور رائمز نہیں ترتیب دے سکتے کہ جو بچوں کی فطرت، نیچر، ماحول، تربیت اور نفسیات سے متعلق ہوں۔

انگریزی میں دو نظمیں ایسی ملی ہیں ایک بسم اللہ اور دوسری لا الہ الا اللہ۔۔۔ لیکن اس کی پوری انڈسٹری ہونی چاہیے جیسا کہ انڈین نے بنا دی ہے۔ ہمارے شاعر اور نہ سہی “بلبل کا بچہ” ہی لکھ دیں، لیکن ہماری اردو شاعری اب تو اس قدر بامقصد ہو گئی ہے کہ اس میں بچوں کے لیے کوئی جگہ ہی نہیں ہے۔ اردو میں جتنی رائمز آپ کو اپنے بچوں کی زبان پر ملیں گی، ان میں سے اکثر ہندی ہیں۔ اب اس طرف سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ نہ صرف اردو بلکہ دنیا کی معروف زبانوں مثلا انگریزی، فرنچ، جرمن، چائنیز، رشین وغیرہ میں بچوں کے لیے ایسی نظمیں تیار کریں کہ جن میں قرآن حدیث نہ سہی کم از کم ایک مہربان خالق اور بنیادی اخلاقیات کا تصور تو موجود ہو۔

جب میں نے یہ سوچا کہ مجھے اپنے بچے کو انگریزی یا ہندی رائمز نہیں دکھانی تو میں نے ہوم میڈ ویڈیوز کی طرف توجہ دی مثلا دو سال کے بچوں کی فنی ویڈیوز کہ یہ اپنے بچے کو لگا دوں تو یقین مانیں، اس میں میدان بالکل خالی ہے۔ گھسی پٹی ویڈیوز ہیں لیکن ان کے لیے کلکس لاکھوں میں ہیں۔ اور وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ آج والدین کے پاس اپنے اور اپنے بچوں کے لیے انٹرٹینمنٹ کی اعلی ترین صورت جو موجود ہے، وہ ان کا اسمارٹ فون، آئی فون، ٹیبلٹ، لیپ ٹاپ اور یوٹیوب وغیرہ ہیں۔ اگر مسلمان اتنا ہی کر لیں کہ اپنے اسمارٹ فون سے اپنے ایک یا دو سال کے بچے کی معصوم حرکتوں کی فنی ویڈیوز اپ لوڈ کر دیں تو یہی دعوت کا ایک ذریعہ بن سکتا ہے۔

مثلا مغرب والے جب اپنے بچوں کی ویڈیوز اپ لوڈ کرتے ہیں تو ان کے والدین کی ڈریسنگ اور وضع قطع ایک خاموش تبلیغ بن جاتی ہے اور اسی طرح آپ کی ڈریسنگ اور حلیہ دنیا کے لیے ایک خاموش تبلیغ ہو گی کہ جسے اصطلاح میں سبلیمینل میسیجز کہتے ہیں۔ آپ اپنے بچے کو اللہ کہلوائیں گے، اسے نماز کے لیے سجدے میں جاتے ہوئے دکھائیں گے، اور نہ سہی اسے روتا ہی دکھا دیں لیکن ساتھ میں اس کا اسلامی نام پکار لیں جیسے عبد اللہ۔ تو یہ بھی ایک میسج ہی جا رہا ہے۔ تبلیغ صرف درس وتدریس کا نام نہیں ہے بلکہ کسی مسلمان کا حلیہ، اس کا نام، اس کی حرکات، اس کا پہننا اوڑھنا بھی تبلیغ ہی ہے۔

اگرچہ میرے علم میں بھی ہے کہ کہیں کہیں اس پر کچھ کام ہوا ہے لیکن ابھی بہت کام کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے تو بچوں کی عمر کے تعین کے اعتبار سے کام کی ضرورت ہے کہ ڈیڑھ دو سال کے بچے کی ضرورت ”عبد الباری“ جیسے کارٹونز نہیں ہیں، بلکہ نرسری رائمز ہیں۔ اسی طرح چھ سات کی عمر کے بچوں کی ضرورت اور دس بارہ سال کے بچوں کی ضرورت میں بھی فرق ہے۔ چھ سات سال کا بچہ ”عبد الباری“ دیکھ لے گا لیکن بارہ تیرہ سال کا بچہ نہیں دیکھے گا کہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ اب وہ بڑا ہونے کے قریب ہے۔

پھر بچوں کی نفسیات ہر بہت کام کرنے کی ضرورت ہے یعنی چائلڈ سائیکالوجی پر اور اس کے مطابق کاٹونز کی نہ سہی کم از کم نرسری رائمز کی انڈسٹری تو ہم تخلیق کر سکتے ہیں۔ اور جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمیں نرسری رائمز تخلیق کرنی ہیں تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ ایسی رائمز جو کہ گلوبل بن جائیں کہ ہر مذہب اور کلچر کے بچے کی زبان پر ہوں جیسا کہ اہل مغرب نے یہ کر دکھایا ہے مثلا ٹوئنکل ٹوئنکل لٹل اسٹار یا بابا بلیک شیپ۔

اور ہمارے ہاں کے او۔لیول یا اے-لیول کے بچے اور بچیاں اتنی انگریزی جانتے ہیں کہ ایسی نظمیں تخلیق کر سکتے ہیں۔ اب ٹوئنکل ٹوئنکل لٹل سٹار میں بچہ اس بات پر تو حیران ہے کہ ستارے کیا چیز ہیں لیکن اس کی یہ حیرانی ان ستاروں کے بنانے والے کے حوالے سے بھی نظم میں دکھائی جا سکتی تھی، جو کہ بالکل فطری ہے۔ لیکن یہ کام وہی کر سکتا ہے کہ جس کا ذہن اور سوچ دینی ہو۔

یہاں ایک لنک شیئر کر رہا ہوں کہ ایک مسلم میڈیا گروپ ہے کہ جنہوں نے کچھ نظمیں تخلیق کی ہیں لیکن زبان کا مجھے علم نہیں کہ ان کی زبان کون سی ہے۔ ان کی ایک نظم ”بسم اللہ“ کو انگریزی میں ٹرانسلیٹ کیا گیا ہے اور اس نظم کی گرافکس اور لیرکس اس قابل ہیں کہ یہ گلوبل نرسری رائم بن جائے۔ جن اسکولوں میں یہ لگائی جاتی ہے، وہاں بچے فرمائش کر کر کے یہ لگواتے ہیں۔ یو ٹیوب پر اس کی آفیشیل ویڈیو کو تین سالوں میں چار کروڑ اور پچیس لاکھ کلکس مل چکے ہیں۔

(Official) MV BISMILLAH (2013 Edition - ENGLISH)

[FONT=Roboto, arial, sans-serif]
[/FONT]

جہاں تک کارٹونز کی بات ہے تو ”عبد الباری“ بہت اچھے کارٹونز ہیں لیکن ہم خلا میں نہیں ہیں یہاں ایسے کارٹونز بنتے ہیں جو گلوبل انڈسٹری رکھتے ہیں اور دنیا کے ہر مذہب اور کلچر کے بچے وہ دیکھتے ہیں مثلا ٹوائے اسٹوری، کنگ فو پینڈا، آئس ایج اور مڈغاسکر وغیرہ۔ اب اگر آپ کے بچے نے یہ دیکھ رکھے ہیں تو اسے ”عبد الباری“ پر مطمئن کرنا مشکل ہو جائے گا، وہ بے چارہ ابھی حفظ کی کلاس سے چھٹی لے کر آیا ہے اور ”عبد الباری“ اسے کارٹون میں ”سورہ الفلق“ یاد کروا رہا ہے۔ عبد الباری کے کارٹون بھی بہت اچھے ہیں لیکن ہمیں اس کے علاوہ ایسے آپشنز پر بھی کام کرنا ہے کہ ہمارے کارٹونز ہر مذہب اور کلچر کے لوگ دیکھ سکیں۔ اور یہ تبھی ممکن ہے جبکہ ان میں اسلام نہیں بلکہ اسلامی سوچ اور فکر موجود ہو۔ ان دونوں باتوں میں فرق ہے۔

http://daleel.pk/2017/01/02/22512
 
Top