• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بچے کی وجہ سے نماز کو مؤخر کرنا

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ.

کیا کوئ عورت اپنے بچے کی وجہ سے نماز کو مؤخر کر سکتی ہے؟؟؟
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک عورت اپنے چھوٹے بچے کو رات میں سلاتی ہے تو وہ جلدی سوتا نہیں ہے. تاخیر ہو جاتی ہے. اور عشاء کا وقت نکل جاتا ہے. تو کیا اسکے لۓ کوئ رخصت ہے؟؟؟؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
دیکھئے اللہ تعالےٰ کا ارشاد ہے :
( وَاعْلَمُوا أَنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ وَأَنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ (سورۃ الانفال 28)
اور جان لو کہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد (تمہارے لئے سامان) آزمائش ہیں۔ اور (یہ بھی نہ بھولو کہ) بڑا اجر اللہ ہی کے پاس ہے۔"
علامہ لقمان السلفی اس آیہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
(22) مال ااولاد کی محبت میں آدمی بہت سے گناہ کر بیٹھتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسے مسلمانوں کے لیے امتحان اور آزمائش کا سبب بنایا ہے اور دیکھنا ہے کہ کون ان کو وجہ سے خیانتوں کا مرتکب ہوتا ہے اور کون شیطان کے فریب میں نہیں آتا اللہ کی نافرمانی نہیں کرتا اور اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہوتا اسی لیے اللہ نے آیت کے آخر میں فرمایا ہے کہ جو اللہ کی رضا کو مال ودولت کی ہوس اور اولاد کی محبت پر ترجیح دے گا اللہ اسے اجر عظیم فرمائے گا۔"
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
لیکن یہ بتانے سے مراد یہ نہیں کہ اس بچے کو چیختا چلاتا چھوڑ کر نماز شروع کردی جائے ،
کیونکہ حدیث شریف میں رحمۃ للعالمینﷺ کا طرز عمل یہ بتایا گیا کہ :
عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنِّي لَأَقُومُ فِي الصَّلاَةِ أُرِيدُ أَنْ أُطَوِّلَ فِيهَا، فَأَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ، فَأَتَجَوَّزُ فِي صَلاَتِي كَرَاهِيَةَ أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمِّهِ»(صحیح البخاری حدیث نمبر 707 )
ابوقتادہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں نماز میں کھڑا ہوتا ہوں تو تو چاہتا ہوں کہ اس میں طول دوں لیکن چونکہ بچہ کے رونے کی آواز سن کر میں اپنی نماز میں اختصار کردیتا ہوں اس امر کو برا سمجھ کر کہ میں اس کی ماں کی تکلیف کا باعث ہو جاوں "
اور دوسری حدیث میں ہے :
" شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: «مَا صَلَّيْتُ وَرَاءَ إِمَامٍ قَطُّ أَخَفَّ صَلاَةً، وَلاَ أَتَمَّ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِنْ كَانَ لَيَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ، فَيُخَفِّفُ مَخَافَةَ أَنْ تُفْتَنَ أُمُّهُ»
(صحیح البخاری حدیث نمبر 708 )
سیدنا انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ میں نے کسی امام کے پیچھے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زیادہ ہلکی اور کامل نماز نہیں پڑھی اور بے شک آپ بچہ کا گریہ سن کر اس خوف سے کہ اس کی ماں پریشان ہوجائے گی نماز کو ہلکا کردیتے تھے "
اس لئے بچے کو چپ کرانے یا سلانے کا کوئی معقول مناسب طریقہ اختیار کرنے کے بعد نماز کے مقررہ وقت پر نماز ادا کی جائے ، اور نماز کے وقت کو ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے ،
کیونکہ اللہ عزوجل کا حکم ہے :
{إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى المُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا} [النساء: 103]کہ نماز مومنین پر مقررہ اوقات میں فرض کی گئی ہے "
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
درج ذیل فتوی دیکھیں :

ميں ہميشہ بروقت نماز ادا كرنے كى كوشش كرتى ہوں، ميرا ڈيڑھ برس كا بچہ ہے بعض اوقات نماز ادا كرتے وقت اس كا خيال ركھنے والا كوئى نہيں ہوتا، مشكل يہ جب ميں اس كے قريب نماز ادا كروں تو وہ ميرے آگے بيٹھ كر ميرى نماز خراب كرتا ہے.
ميرا سوال يہ ہے كہ كيا اس كے ايسا كرنے سے ميرى نماز قبول ہوتى ہے يا نہيں ؟
كيا اس بنا پر نماز ميں تاخير كرنى افضل ہے اور بعض اوقات اس كا وقت نكل جائے تو بعد ميں قضاء كرتى ہوں ؟

----------------------------------
الجواب
الحمد للہ :

مسلمان كے ليے بروقت نماز ادا كرنى واجب ہے، اور بغير كسى عذر كے نماز ميں تاخير كرنى حتى كہ نماز كا وقت ہى جاتا رہے جائز نہيں، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا ارشاد ہے:

{إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى المُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا} [النساء: 103]
﴿ يقينا مؤمنوں پر نماز وقت مقررہ پر ادا كرنى فرض كى گئى ہے ﴾.
يعنى اس كا وقت ہے جس سے نہ تو تاخير ہو سكتى ہے اور نہ ہى وقت سے قبل ادا كى سكتى ہے، اور پھر نماز كى شروط ميں وقت سب سے زيادہ بڑى شرط ہے، اگر كوئى شخص نماز كى بعض شروط سے عاجز ہو تو وہ نماز كے وقت ميں ہى حسب استطاعت نماز ادا كرے گا، ليكن اس ميں تاخير نہيں كر سكتا، اس كى دليل يہ ہے كہ شريعت اسلاميہ نے نماز كے وقت كو بہت اہميت دى ہے اور اس كا اہتمام كيا ہے كہ؛ اگر مسلمان شخص كو پانى نہ ملے تو وہ تيمم كر كے نماز ادا كر لے، چاہے اسے يقين بھى ہو كہ نماز كا وقت نكل جانے كے بعد اسے پانى حاصل ہو جائيگا.

رہا مسئلہ يہ كہ ماں نماز ادا كر رہى ہو اور بچہ آگے سے گزر جائے تو اس كى نماز باطل ہو گى يا نہيں تو اس سے نماز فاسد نہيں ہوتى اور نہ ہى باطل ہو گى، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ آپ نے ايك بچى كو اٹھا كر نماز پڑھائى جب كھڑے ہوتے تو اسے اٹھا ليتے، اور جب سجدہ كرتے تو اسے زمين پر بٹھا ديتے.

جيسا كہ بخارى اور مسلم ميں ابو قتادہ انصارى رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى نواسى امامہ بنت زينب كو اٹھا كر نماز پڑھائى جو ابوالعاص بن ربيعہ بن عبد شمس كى بيٹى تھى، چنانچہ جب سجدہ كرتے تو اسے نيچے بٹھا ديتے اور جب كھڑے ہوتے تو اسے اٹھا ليتے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 486 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 844 ).

اور اسى طرح يہ بھى ثابت ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز پڑھا رہے تھے كہ ايك بچہ ان كى كمر پر چڑھ گيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسى حالت ميں نماز مكمل كى.

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي إِحْدَى صَلَاتَيِ الْعِشَاءِ وَهُوَ حَامِلٌ حَسَنًا أَوْ حُسَيْنًا، فَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَضَعَهُ، ثُمَّ كَبَّرَ لِلصَّلَاةِ فَصَلَّى فَسَجَدَ بَيْنَ ظَهْرَانَيْ صَلَاتِهِ سَجْدَةً أَطَالَهَا، قَالَ أَبِي: فَرَفَعْتُ رَأْسِي وَإِذَا الصَّبِيُّ عَلَى ظَهْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ سَاجِدٌ فَرَجَعْتُ إِلَى سُجُودِي، فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ قَالَ النَّاسُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّكَ سَجَدْتَ بَيْنَ ظَهْرَانَيْ صَلَاتِكَ سَجْدَةً أَطَلْتَهَا حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ قَدْ حَدَثَ أَمْرٌ أَوْ أَنَّهُ يُوحَى إِلَيْكَ، قَالَ: «كُلُّ ذَلِكَ لَمْ يَكُنْ وَلَكِنَّ ابْنِي ارْتَحَلَنِي فَكَرِهْتُ أَنْ أُعَجِّلَهُ حَتَّى يَقْضِيَ حَاجَتَهُ»

عبد اللہ بن شداد اپنے والد سے بيان كرتے ہيں وہ كہتے ہيں كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم عشاء كى نمازوں ميں سے ايك نماز پڑھانے كے ليے ہمارے پاس آئے تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے حسن يا حسين رضى اللہ تعالى عنہما كو اٹھايا ہوا تھا، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم آگے آئے اور انہيں بٹھا كر نماز كے ليے تكبير كہہ دى اور نماز پڑھانے لگے، اور اپنى نماز ميں سجدہ كيا تو اسے بہت لمبا كر ديا.
ميرے والد كہتے ہيں: ميں نے اپنا سر اٹھايا تو بچہ رسول كريم صلى اللہ وسلم كى كمر پر سوار تھا اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سجدہ ميں تھے لہذا ميں بھى دوبارہ سجدہ ميں چلا گيا، جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نماز مكمل كى تو لوگ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كہنے لگے:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم آپ نے اپنى نماز ميں سجدہ اتنا لمبا كر ديا كہ ہم گمان كرنے لگے كہ كوئى واقع اور حادثہ پيش آ گيا ہے، يا پھر آپ پر وحى نازل ہو رہى ہے.
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے: ايسا تو كچھ بھى نہيں تھا، بلكہ ميرا بيٹا ميرى كمر پر سوار ہوا تو ميں نے اسے اپنى حاجت اور ضرورت پورى كيے بغير جلد اتارنا مناسب نہ سمجھا "

سنن نسائى حديث نمبر ( 1141 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح سنن نسائى ( 1 / 246 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اس ليے اگر آپ اپنے بچے كو نماز ميں اٹھا ليں يا اسے بٹھا ديں تو اس ميں كوئى حرج نہيں اور آپ كى نماز كو كچھ نقصان اور ضرر نہيں ہو گا، آپ بروقت نماز ادا كرنے كى حرص ركھيں اور كوشش كريں.
اللہ تعالى ہميں اور آپ كو ہر خير وبھلائى كے كام كرنے كى توفيق عطا فرمائے.

واللہ اعلم .(الاسلام سؤال و جواب )
 
Last edited:

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک عورت اپنے چھوٹے بچے کو رات میں سلاتی ہے تو وہ جلدی سوتا نہیں ہے. تاخیر ہو جاتی ہے. اور عشاء کا وقت نکل جاتا ہے
عشاء کا وقت کب تک رہتا ہے؟
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
جزاک اللہ خیرا محترم شیخ.
اللہ آپکے علم عمل اوع وقت میں برکت عطا فرمائے. آمین
 
Top