• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بھویں تراشنا

شمولیت
دسمبر 31، 2017
پیغامات
60
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
23
السلام علیکم!
اگر دونوں بھنویں ملی ہوئی ہوں تو کیا انھیں تراش سکتے ہیں؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
السلام علیکم!
اگر دونوں بھنویں ملی ہوئی ہوں تو کیا انھیں تراش سکتے ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ــــــــــــــــــــــــــ
حكم تخفيف شعر الحاجب إذا كان كثيفاً
السؤال :
هل يجوز للمرأة حلق أو قص حاجبيها ، إن كان شكلهما يشبه شكل الرجل ، بأن كان حاجباها كثيفين جداً وغير منظمين ؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الجواب :
الحمد لله
أولاً :
اختلف أهل العلم رحمهم الله : في إلحاق الحلق والتقصير بالنتف في مسألة النمص ، فمن العلماء – وهم الجمهور – أن الحلق والتقصير مثل النتف ، فلا يجوز للشخص أن يحلق أو يقصر من شعر حاجبيه ، كما يحرم عليه نتفهما .
والقول الثاني : أن النمص خاص بالنتف فقط ، فيجوز إزالة شعر الحاجبين بالحلق أو التقصير ، وهذا مذهب الحنابلة .
جاء في " الموسوعة الفقهية " (14/82) : " اتَّفَقَ الْفُقَهَاءُ عَلَى أَنَّ نَتْفَ شَعْرِ الْحَاجِبَيْنِ دَاخِلٌ فِي نَمْصِ الْوَجْهِ الْمَنْهِيِّ عَنْهُ بِقَوْلِهِ صلى الله عليه وسلم : ( لَعَنَ اللَّهُ النَّامِصَاتِ , وَالْمُتَنَمِّصَاتِ ) .
وَاخْتَلَفُوا فِي الْحَفِّ وَالْحَلْقِ : فَذَهَبَ الْمَالِكِيَّةُ وَالشَّافِعِيَّةُ إلَى أَنَّ الْحَفَّ فِي مَعْنَى النَّتْفِ ، وَذَهَبَ الْحَنَابِلَةُ إلَى جَوَازِ الْحَفِّ وَالْحَلْقِ , وَأَنَّ الْمَنْهِيَّ عَنْهُ هُوَ النَّتْفُ فَقَطْ " انتهى .
وينظر للفائدة جواب السؤال رقم : (22393) .
ثانياً :
يخرج من النماص المحرم أخذ الشعر الزائد إذا كان يؤذي العين أو كان خارجاً عن الحد المألوف ، بحيث تكون الحواجب ملفتة للأنظار ومحرجة للمرأة ، فيؤخذ منها في هذه الحالة حتى تعود كحواجب عامة الناس ؛ لأن الأخذ منها في هذه الحال ، إنما هو من باب دفع الأذية وإزالة الضرر ، وهو إرجاع له إلى وضعه الطبيعي .
قال الشيخ ابن عثيمين رحمه الله : " تخفيف شعر الحاجب إذا كان بطريق النتف ، فهو حرام بل كبيرة من الكبائر ، لأنه من النمص الذي لعن رسوله الله صلى الله عليه وسلم مَنْ فَعله .
وإذا كان بطريق القص أو الحلق ، فهذا كرهه بعض أهل العلم ، ومنعه بعضهم ، وجعله من النمص ، وقال : إن النمص ليس خاصّاً بالنتف ، بل هو عام لكل تغيير لشعر لم يأذن الله به إذا كان في الوجه .
ولكن الذي نرى أنه ينبغي للمرأة - حتى وإن قلنا بجواز أو كراهة تخفيفه بطريق القص أو الحلق - أن لا تفعل ذلك إلا إذا كان الشعر كثيراً على الحواجب ، بحيث ينزل إلى العين ، فيؤثر على النظر فلا بأس بإزالة ما يؤذي منه " انتهى من " مجموع فتاوى ابن عثيمين " (11/133) .
وقال رحمه الله – أيضاً -: " وأما التخفيف من الحاجبين فإن كانا غليظين غلظاً غير معتاد ، فلا حرج ، وإن كانا غليظين غلظاً معتاداً ، فالأولى إبقاؤهما على ما كان عليه ، ولا بأس يعني بالمقص أو الموس أو ما أشبه ذلك لا بالنتف ؛ لأن النتف نمص " .
انتهى من " فتاوى نور على الدرب " .
والله أعلم .

موقع الإسلام سؤال وجواب
فتاوى ذات صلة
تخفيف الحواجب بالقص
______________

_____-
ترجمہ :
ابرو کے بال اگر بہت زیادہ گھنے اور لمبے ہوں تو انہیں تراشنے کا حکم
سوال: اگر خواتین کے ابرو مردوں کی طرح لگتے ہوں تو کیا ان کیلئے ابرو کاٹنا یا مونڈنا جائز ہے؟ یعنی کہ ابرو کے بال بہت زیادہ گھنے ہیں ، برابر نہیں ہیں۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ-
جواب
الحمد للہ:
اول:

اہل علم کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ ابرو کے بالوں کو مونڈنا یا تراشنا ان دونوں کا حکم نوچنے کے ساتھ ملایا جائے گا یا نہیں؟ چنانچہ جمہور علمائے کرام کے مطابق بالوں کو مونڈنا یا تراشنا بھی نوچنے کا ہی حکم رکھتا ہے، اس لیے کسی بھی شخص کیلئے اپنے ابرو مونڈنا یا تراشنا اسی طرح جائز نہیں ہے جیسے نوچنا حرام ہے۔

دوسرا موقف یہ ہے کہ: ابرو کے بال صرف نوچنا حرام ہے، اس لیے ابرو کے بال مونڈ کر یا تراش کر زائل کیے جا سکتے ہیں، یہ موقف حنبلی فقہائے کرام کا ہے۔

چنانچہ " الموسوعة الفقهية " (14/82) میں ہے کہ:
"فقہائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ابرو کے بالوں کو نوچنا بھی چہرے [کے بال]نوچنے کی ممانعت میں شامل ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (اللہ تعالی کی لعنت ہو بال نوچنے والی اور نوچنے کا کام کروانے والی پر)

لیکن فقہائے کرام کا مونڈنے اور تراشنے کے بارے میں اختلاف ہے، چنانچہ مالکی، شافعی فقہائے کرام تراشنے کو بھی نوچنے میں شمار کرتے ہیں، جبکہ حنبلی فقہائے کرام تراشنے اور مونڈنے کو جائز کہتے ہیں، چنانچہ ان کے نزدیک صرف نوچنا منع ہے" انتہی

اس بارے میں مزید کیلئے سوال نمبر: (22393) کا جواب ملاحظہ کریں۔

دوم:

چہرے کے بال نوچنا حرام ہے، لیکن اس میں سے ابرو کے وہ بال مستثنی ہونگے جن کی وجہ سے آنکھوں کو تکلیف ہو ، یا حد سے زیادہ بڑھے ہوئے ہوں، یعنی اتنے زیادہ بڑھے ہوئے ہوں کہ دکھنے میں عجیب لگے اور عورت کیلئے شرمندگی کا باعث بنے، تو ایسی حالت میں ابرو تراش کر عام لوگوں کے مطابق بنائے جائیں گے؛ کیونکہ ایسی صورت حال میں ابرو کو اس لیے تراشا جا رہا ہے کہ ابرو اذیت کا باعث نہ بنیں، اور یہ اسی وقت ہوگا جب انہیں معمول کے مطابق بنایا جائے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ابرو کے بال اگر نوچ کر ہلکے کئے جائیں تو یہ حرام ہے، بلکہ کبیرہ گناہ ہے؛ کیونکہ ابرو کے بالوں کو نوچنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے۔

اور اگر تراش کر یا مونڈ کر ابرو کے بال ہلکے کیے جائیں تو اسے اہل علم نے مکروہ کہا ہے، جبکہ کچھ نے اسے بھی حرام ہی کہا ہے، کیونکہ یہ ان کے نزدیک بال نوچنے کے مترادف ہی ہے، چنانچہ ان کا کہنا ہے کہ : چہرے کے بالوں میں کسی بھی تبدیلی کو بھی نوچنے میں ہی شمار کیا جائے گا، کیونکہ اللہ تعالی نے اس کی بالکل اجازت نہیں دی۔

لیکن جو بات ہمیں سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اگرچہ ہم ابرو مونڈنے یا تراشنے کے عمل کو جائز یا مکروہ کہہ بھی دیں پھر بھی خواتین اپنے ابرو تراش کر یا مونڈ کر ہلکے مت کریں، البتہ اگر ابرو بہت ہی زیادہ لمبے ہوں کہ آنکھوں کے آگے آ جائیں، اور دیکھنے میں رکاوٹ بنیں تو پھر بقدر ضرورت انہیں تراشا جا سکتا ہے" انتہی
" مجموع فتاوى ابن عثیمین " (11/133)

نیز ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ:
"ابرو کو ہلکا کرنا صرف اسی وقت جائز ہے جب معمول سے ہٹ کر بہت ہی زیادہ گھنے ہوں، اگرچہ بہتر یہی ہے کہ انہیں بھی ہلکا مت کریں، انہیں جیسے ہیں ویسے ہی رہنے دیں، نیز انہیں ہلکا کرنے کیلئے تراشیں یا مونڈیں، نوچنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ نوچنا حرام ہے" انتہی
" فتاوى نور على الدرب "

واللہ اعلم.

اسلام سوال و جواب
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
عورتوں کے لئے بھنویں بنانے کا حکم
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سوال : عورتوں کے لئے بھنویں بنانے کا کیا حکم ہے۔؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عورت کے لیے محض زیب وزینت کے لیے بھنویں بنانا جائز نہیں اور یہ حکم سب عورتوں کے لے ہے ، جو عورت شرعی پردہ کرے، اس کے لیے بھی یہی حکم ہے ،اور جو نہ کرے اس کے لئے بھی یہی حکم ہے۔ خاوند اجازت دے یا نہ دے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، بہرحال عورت کے لیے بھنویں بنانا جائز نہیں۔ عورت پر خاوند کے لیے چہرے کا بناؤ سنگھار شرعی حدود میں رہتے ہوئے ضروری ہے ، زیب وزینت میں خلاف شرع کام کی اجازت نہیں۔

حدیث شریف میں ہے کہ ایسی عورت پر الله تعالیٰ لعنت بھیجتے ہیں ۔
’’ يلعن المتنمصات والمتفلجات والموتشمات اللاتي يغيرن خلق الله عز وجل . ‘‘ (سنن نسائی5108)
لعنت کی گئی ہے چہرے کے بالوں کو اکھاڑنے والیوں پر ، دانتوں کو رگڑنے والیوں پر اور گوندنے والیوں پر جو اللہ کی خلق کو بدل دیتی ہیں۔

ہاں البتہ چہرے پر اگر زائد بال اُگ آئے ہوں ، تو ان بالوں کو صاف کرسکتی ہے ۔کیونکہ وہ ایک مجبوری ہے۔

ھذا ما عندی واللہ أعلم بالصواب
فتاویٰ ثنائیہ
جلد 01
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
عورتوں کیلئے درج ذیل فتوی میں شرعی حکم بتایا گیا ہے :
السؤال الأول من الفتوى رقم 4962
س 1: ما الحكم في إزالة المرأة لشعر جسمها وان كان جائزا فمن يسمح له بالقيام بذلك؟
جـ 1: الحمد لله وحده والصلاة والسلام على رسوله وآله وصحبه. . وبعد:
يجوز لها ذلك ما عدا شعر الحاجب والرأس فلا يجوز لها أن تزيلهما ولا شيئا من الحاجبين بحلق ولا غيره وتتولى ذلك بنفسها أو زوجها أو أحد محارمها فيما يجوز أن يطلع عليه من جسمها أو امرأة فيما يجوز لها أن تطلع عليه من جسمها أيضا.
وبالله التوفيق، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
عضو ... نائب الرئيس ... الرئيس
عبد الله بن قعود ... عبد الرزاق عفيفي ... عبد العزيز بن عبد الله بن باز
تاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 194 - 195 ).

ترجمہ :
مستقل فتوى كميٹى ( اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء )سے يہ سوال بھى كيا گيا:
" سر اور ابرو كے بال كے علاوہ باقى بال اتارنے جائز ہيں، ابرو اور سر كے بال اتارنے جائز نہيں، اور نہ ہى وہ ابرو كا كوئى بال كاٹ سكتى ہے، اور نہ ہى مونڈ سكتى ہے، اور باقى جسم كے بال يا تو وہ خود اتارے، يا پھر اس كا خاوند، يا كوئى اس كا محرم وہاں سے جس حصہ كو وہ ديكھ سكتا ہے، يا كوئى عورت اس حصہ سے جہاں اس كو ديكھنا جائز ہے "
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 194 ).
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 
Top