• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بیس(٢٠) رکعات تراویح سے متعلق تمام روایات کا جائزہ۔

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
بیس رکعات تراویح سے متعلق روایات کا جائزہ



بیس رکعات سے متعلق جوروایات پیش کی جاتی ہیں ان کی تین قسمیں ہیں:

قسم اول : مرفوع روایات ۔
قسم ثانی: موقوف روایات۔
قسم ثالث: مقطوع روایات۔



نوٹ: اس پوری بحث کو پی ڈی ایف میں پڑھنے کے لئے ہماری یہ کتاب ڈاؤنلوڈ کریں۔
مسنون رکعات تراویح دلائل کی روشنی میں
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
قسم اول: مرفوع روایات



ذخیرہ احادیث میں صرف دو مرفوع روایات ملتی ہیں جن سے بیس رکعات تراویح کی دلیل لی جاتی ہے ، ذیل میں ان دونوں مرفوع روایات کا جائزہ پیش خدمت ہے:

پہلی مرفوع روایت


امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قَالَ: أَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عُثْمَانَ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ ( فِي غَيْرِ جَمَاعَةٍ ) عِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرَ»[مصنف ابن أبي شيبة: 2/ 164 رقم7692 ، واخرجہ ایضا عبدبن حمید فی ’’المنتخب من المسند‘‘ ص: 218 رقم 653 ، و ابن ابی ثابت فی ’’الجزء الأول والثاني من حديث ابن أبي ثابت، مخطوط‘‘ 1/ 12 ترقیم جوامع الکلم ، و الطبرانی فی ’’المعجم الکبیر‘‘ رقم 11/ 393 رقم 12102 وفی ’’الاوسط‘‘ 1/ 244 رقم 798 و فیہ ایضا 5/ 324 رقم 5440 ، وابن عدی فی ’’الكامل في ضعفاء الرجال‘‘ 1/ 391 و ابوالحسن النعالی فی ’’حدیثہ‘‘ رقم 33 ترقیم جوامع الکلم ، و البیھقی فی ’’السنن الكبرى ‘‘2 / 496 ، و الخطیب فی ’’موضح أوهام الجمع والتفريق ‘‘ 1/ 387 و ’’ تاريخ بغداد‘‘ 13/ 501 ، وابن عبدالبر فی ’’التمهيد لابن عبد البر: 8/ 115، وعمروبن مندہ فی ’’المنتخب من الفوائد‘‘ 2 /265 ، وابوطاھر ابن ابی الصقر فی ’’مشيخة أبي طاهر ابن أبي الصقر‘‘ ص: 86 کلھم من طریق ابی شیبہ ابراہیم بن عثمان بہ والزیادہ عند ابن عدی و البیھقی اسنادہ موضوع]۔


’’ ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان‘‘ پر محدثین کی جرح :
اس روایت کی سند میں ایک راوی ’’ ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان‘‘ ہے جس پر محدثین نے سخت جرحین کی ہیں ، قدرے تفصیل ملاحظہ ہو:

امام شعبة بن الحجاج رحمه الله (المتوفى 160)نے کہا:
كذب وَالله[العلل ومعرفة الرجال 1/ 287 واسنادہ صحیح]۔

امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
ضَعِيفُ الْحَدِيثِ[الطبقات الكبرى لابن سعد: 6/ 384]۔

امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
ليس بثقة [تاريخ ابن معين - رواية الدارمي: ص: 242]۔

امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
منكر الحديث [الجرح والتعديل لابن أبي :2/ 115]۔

امام جوزجاني رحمه الله (المتوفى259)نے کہا:
أبو شيبة إبراهيم بن عثمان ساقط[أحوال الرجال للجوزجانى: ص: 9]۔

امام أبو زرعة الرازي رحمه الله (المتوفى264)نے کہا:
ضعيف[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 2/ 115نے کہا]۔

امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
ضعيف الحديث. سكتوا عنه وتركوا حديثه[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم : 2/ 115]۔

امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
سكتوا عَنْهُ[التاريخ الكبير للبخاري: 1/ 310]۔

امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)نے کہا:
ولأبي شيبة أحاديث غير صالحة غير ما ذكرت عن الحكم وعن غيره، وَهو ضعيف على ما بينته [الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 1/ 392]۔

امام ترمذي رحمه الله (المتوفى279)نے کہا:
إبراهيم بن عثمان هو أبو شيبة الواسطي منكر الحديث[سنن الترمذي ت شاكر 3/ 337]۔

امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
إِبْرَاهِيم بن عُثْمَان أَبُو شيبَة مَتْرُوك الحَدِيث كُوفِي [الضعفاء والمتروكون للنسائي: ص: 12]۔

امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے بھی اسے متروکین مین ذکرکیاہے:
إبراهيم بن عثمان. أبو شيبه قاضي واسط[الضعفاء والمتروكين للدارقطني: ص: 4]۔

امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458)نے کہا:
تفرد به أبو شيبه إبراهيم بن عثمان العبسي الكوفي وهو ضعيف [السنن الكبرى للبيهقي: 2/ 496]

امام ابن عبد البر رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
وليس بالقوي[التمهيد لابن عبد البر: 8/ 115]۔

امام ابن القيسراني رحمه الله (المتوفى:507)نے کہا:
وإبراهيم متروك الحديث[ذخيرة الحفاظ لابن القيسراني: 1/ 548]۔

امام نووي رحمه الله (المتوفى676)نے کہا:
وَأَبُو شَيْبَةَ هُوَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ عُثْمَانَ وَكَانَ قَاضِيَ وَاسِطٍ وَهُوَ ضَعِيفٌ مُتَّفَقٌ عَلَى ضَعْفِهِ[شرح النووي على مسلم 1/ 64]۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
ترك حديثه [الكاشف للذهبي: 1/ 219]۔

امام هيثمي رحمه الله (المتوفى807)نے کہا:
وفيه إبراهيم بن عثمان أبو شيبة وهو متروك[مجمع الزوائد للهيثمي: 4/ 180]۔

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
متروك الحديث[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 215]


راوی مذکور کی کسی بھی امام نے توثیق یا تعدیل نہیں کی ہے:
راوی مذکورسے متعلق بہت سے ناقدین کی جرحیں ملتی ہیں لیکن ہم نے اوپر صرف ان جروح کو پیش کیا ہے جو اپنے قائلین سے ثابت ہیں ، ان ناقدین کے برخلاف کسی ایک بھی ناقد سے راوی مذکور کی توثیق سرے سے منقول ہی نہیں ، توثیق تو درکنار اس بدنصیب راوی کی تعدیل بھی کسی امام سے نہیں ملتی ۔
امام سيوطي رحمه الله (المتوفى:911)نے کہا:
مَعَ أَنَّ هَذَيْنِ الْإِمَامَيْنِ الْمُطَّلِعَيْنِ الْحَافِظَيْنِ الْمُسْتَوْعِبَيْنِ حَكَيَا فِيهِ مَا حَكَيَا وَلَمْ يَنْقُلَا عَنْ أَحَدٍ أَنَّهُ وَثَّقَهُ وَلَا بِأَدْنَى مَرَاتِبِ التَّعْدِيلِ [الحاوي للفتاوي 1/ 414]۔

لیکن کچھ لوگ مغالطہ دینے کے لئے امام ابن عدی اور یزید بن ہارون کا غیرمتعلق قول پیش کرکے یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس راوی کی تعدیل کی گئی ہے اور یہ دیندار راوی ہے ، حالانکہ ان دونوں اماموں نے بھی نہ تو اس راوی کی توثیق کی ہے اورنہ ہی تعدیل ، ذیل میں ان اماموں کے کلام کی وضاحت کی جارہی ہے۔

امام ابن عدی کا قول:

امام ابن عدی سے نقل کیا جاتا ہے کہ انہوں نے کہا:
ولأبي شيبة أحاديث(؟)صالحة غير ما ذكرت عن الحكم وعن غيره[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 1/ 392]۔

عرض ہے کہ:
اولا:
یہ عبارت ’’الکامل‘‘ کے جس نسخہ سے نقل کی گئی ہے اس میں اس عبارت کے اندر ناسخ سے ایک لفظ چھوٹ گیا ہے اوروہ ہے ’’صالحة‘‘سے قبل ’’غیر‘‘ کا لفظ ، یعنی اصل عبارت یوں ہے :
ولأبي شيبة أحاديث غير صالحة غير ما ذكرت عن الحكم وعن غيره[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 1/ 392]۔

یعنی اس عبارت میں ’’صالحة‘‘سے قبل موجود لفظ ’’غیر‘‘ کی کتابت ایک نسخہ میں ناسخ سے چھوٹ گئی ہے ، اس کی دو دلیلیں ہیں:

پہلی دلیل :
’’الکامل‘‘ کے کئی مخطوطات میں اس مقام پر لفظ ’’غیر‘‘ موجود ہے انہیں میں سے وہ مخطوطہ بھی جو دکتوربشار عواد کے زیر مطالعہ تھا جیساکہ انہوں نے تہذیب الکمال کے حاشیہ میں وضاحت کی ہے ان کے الفاظ آگے آرہے ہیں، اسی طرح تین محققین کی تحقیق سے بیروت سے ’’الکامل‘‘ کا جو نسخہ طبع ہوا ہے اس میں بھی متعلقہ عبارت لفظ ’’غیر‘‘ کے اثبات کے ساتھ ہے اور محققین نے کل گیارہ (١١)مخطوطوں سے اس کتاب کی تحقیق کی ہے لیکن حاشیہ میں اس مقام پر نسخوں کا کوئی اختلاف نہیں بتایا ہے، جس سے معلوم ہوتا کہ ان کے پاس تمام مخطوطوں میں موجود یہ عبارت لفظ ’’غیر‘‘ کے اثبات ہی کےساتھ تھی ورنہ محققین حاشیہ میں نسخوں کا اختلاف ضرور بتلاتے جیساکہ دیگرمقامات پر انہوں نے نسخوں کے اختلافات کو بتلایاہے، ذیل میں ہم اس محقق نسخہ کا عکس پیش کرتے ہیں ملاحظہ ہو:




دوسری دلیل:
عبارت کاسیاق وسباق بھی اس لفظ ’’غیر‘‘ کے اثبات پر شاہد ہے۔
غورکریں کہ امام ابن عدی رحمہ اللہ نے سب سے پہلے اس روای کی غیرصالح احادیث پیش کی ہیں اس کے بعد کہا کہ مذکورہ غیر صالح احادیث کے علاوہ بھی اس کی مزید غیرصالح احادیث ہیں ، چنانچہ ابن عدی رحمہ اللہ کا پورا کلام یہ ہے:
ولأبي شيبة أحاديث غير صالحة غير ما ذكرت عن الحكم وعن غيره[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 1/ 392]۔

اس عبارت میں ’’غير ما ذكرت عن الحكم وعن غيره‘‘ پرغورکیجئے ، یعنی امام ابن عدی فرمارہے ہیں کہ اوپر میں نے اس کی جو چند غیرصالح احادیث پیش کی ہیں اس کے علاوہ بھی اس سے غیرصالح احادیث مروی ہیں ۔ یہ سیاق صاف بتلاتا ہے کہ ابن عدی نے راوی مذکور کی جن احادیث کو گنایا ہے اورجن کی طرف اشارہ کیا ہے دونوں کی نوعیت ایک ہی ہے ، مزید یہ کہ اس کے فورا بعد اپنے اس فیصلہ کی یہ علت بھی بتلائی ہے کہ :
وهو ضعيف على ما بينته[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 1/ 392]۔
یعنی ایسا اس وجہ سے ہے کیونکہ یہ ضعیف راوی ہے۔

دکتور بشار عواد نے بھی مذکورہ دونوں دلائل کی بنیاد پر اپنا یہی موقف پیش کیا ہے کہ اس عبارت میں لفظ ’’غیر‘‘ بھی موجود ہے موصوف تہذیب الکمال کے حاشیہ میں فرماتے ہیں:
الذي في نسختي المصورة من الكامل لابن عدي : غير صالحة"وهو الاصوب فيما أرى لقول ابن عدي قبل هذا بعد أن أورد لابراهيم جملة من الاحاديث غير الصالحة : ولابي شَيْبَة أحاديث غير صالحة غير ما ذكرت عن الحكم وعن غيره ، وهو ضعيف على ما بينته". والظاهر لنا من المقارنات الكثيرة أن المزي اعتمد رواية أخرى من الكامل لابن عدي غير التي عندي ، لكثرة ما أجد من الاختلاف بين الذي في "الكامل" وبين الذي ينقله المزي عنه ، وهذا ليس من عادته فهو دقيق في النقل في الاغلب الاعم.[حاشیہ رقم٤ :تهذيب الكمال للمزي: 2/ 151]




دکتور بشار کی وضاحت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ امام مزی رحمہ اللہ کے سامنے بھی وہی مخطوطہ تھا جس میں مذکورہ عبارت ادھوری تھی ۔

ثانیا:
اگراس عبارت ’’غیر‘‘ کا اثبات نہ بھی مانیں تب بھی اس عبارت میں راوی مذکور کی نہ تو توثیق ہے اورنہ ہی تعدیل ، اس میں صرف یہ ہے اس کی بعض مرویات صالح ہیں ، بس ۔ اب اگرکسی راوی نے چند درست باتیں نقل کردیں تو اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ وہ راوی معتبر یا دیندار ہے ، بخاری کی ایک روایت کے مطابق تو شیطان نے بھی آیۃ الکرسی سے متعلق درست بات کہی ، اوراللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تصدیق بھی کی لیکن ساتھ میں اسے جھوٹا بھی قرار دیا چنانچہ فرمایا:
أَمَا إِنَّهُ قَدْ صَدَقَكَ وَهُوَ كَذُوبٌ[صحيح البخاري: 3/ 101 رقم 2311]۔

معلوم ہوا کہ کذاب لوگ بھی کبھی کبھی صحیح بات بیان کردیتے ہیں لیکن اس سے یہ قطعا ثابت نہیں ہوتا کہ ایسی چند روایت بیان کرکے وہ قابل اعتبار ہوگئے ۔

نیز امام ابن عدی رحمہ اللہ مذکورہ کلام کے بعد فورا کہا :
وهو ضعيف على ما بينته[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 1/ 392]۔

یہ اس بات کا زبردست ثبوت ہے کہ امام ابن عدی رحمہ اللہ اسے بہر صورت ضعیف ہی مانتے ہیں ، لہٰذا قائل کی منشا کے خلاف اس کے قول کی تشریح کرنا بہت بڑی خیانت ہے۔

یزید بن ہارون کا قول:
امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
يزيد بن هارون ما قضى على الناس رجل يعنى في زمانه أعدل في قضائه منه [تاريخ ابن معين ، رواية الدوري: 3/ 523]۔

عرض ہے کہ یزید کے اس قول میں محض درست فیصلہ کرنے کی بات ہے اور درست فیصلہ کرنے کے کسی کی دینداری قطعا ثابت نہیں ہوتی ، مسلمان تو درکنار کتنے غیرمسلمین ہیں تو درست فیصلے کرتے ہیں تو کیا ان کو دیندار اورمتقی مان لیا جائے ؟

علامہ نذیر احمد املوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’عدل فی القضاء تو بعض غیر مسلموں کا بھی ضرب المثل ہے ، نوشیرواں عادل کا نام آپ نے بھی سنا ہوگا ، بقول شیخ سعدی مرحوم:
نوشیرواں نہمرد کہ نام نکو گذاشت (انوار مصابیح : ص ١٨١، ١٨٢)۔​
اس کے بعد علامہ رحمہ اللہ نے شریح رضی اللہ عنہ کی مثال پیش کی ہے حالت کفر میں یہ اتنے درست فیصلے کرتے تھے کہ ابوالحکم سے مشہور ہوگئے ، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کے فیصلہ کی تحسین کی لیکن ان کی کنیت تبدیل کردی (ابوداؤد رقم 4955 واسنادہ صحیح)۔

اس کے بعد علامہ رحمہ اللہ آگے چل کر لکھتے ہیں:
’’سوچنے کی بات ہے کہ جب عدل فی القضاء سے کسی شخص کا مسلمان ہونا لازمی نہیں تو بھلا تدین اور تقوی ،حفظ اور ضبط کا وہ مرتبہ جو قبول روایت کے لئے محدثین کے نزدیک معتبرہے اس کاثبوت صرف اتنی سی شہادت سے کیسے ہوجائے گا‘‘ (انوار مصابیح : ص ١٨١، ١٨٢)۔
یادرہے کہ یزید کے اس کے قول کے ناقل ابن معین رحمہ اللہ بکثرت دینداری کے اعتبارسے بھی رواۃ کو ثقہ کہتے رہتے ہیں اور دوسرے مقام پر انہیں رواۃ کی حفظ و ضبط کے اعتبار سے تضعیف بھی کرتے ہیں لیکن زیر تذکرہ راوی کو ابن معین رحمہ اللہ نے صرف ضعیف کہا اورکسی بھی موقع پر اسے ثقہ نہیں کیا جس سے معلوم ہوا کہ ابن معین رحمہ اللہ کی نظر میں بھی یزید کے اس قول سے زیرتذکرہ راوی کی دینداری ثابت نہیں ہوتی۔





اس روایت کے مرودو ہونے پر اجماع ہے:

بیس رکعات والی یہ روایت محدثین کے یہاں بالاتفاق مردود یعنی ناقابل قبول ہے البتہ اسے رد کرتے ہوئے کسی نے ضعیف کہا ، کسی نے سخت ضعیف کہا،کسی نے منکر کہا ، کسی نے معلول کہا تو کسی نے موضوع کہا لیکن بہرحال اسے مردود قرار دینے پرتمام کے تمام محدثین متفق ہیں ، ذیل میں ہم چندمحدثین کی تصریحات پیش کرتے ہیں:


حدیث مذکور کی تضعیف کرنے والے محدثین:

امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458)نے کہا:
تفرد به أبو شيبه إبراهيم بن عثمان العبسي الكوفي وهو ضعيف [السنن الكبرى للبيهقي: 2/ 496]

امام ابن عبد البر رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
و سلم أنه كان يصلي في رمضان عشرين ركعة والوتر إلا أنه حديث يدور على أبي شيبة إبراهيم بن عثمان جد بني أبي شيبة وليس بالقوي[التمهيد لابن عبد البر: 8/ 115]۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
ومن مناكير أبى شيبة ما روى البغوي، أنبأنا منصور بن أبى مزاحم، أنبأنا أبو شيبة، عن الحكم، عن مقسم، عن ابن عباس: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلى في شهر رمضان في غير جماعة بعشرين ركعة والوتر.[ميزان الاعتدال للذهبي: 1/ 48]

امام هيثمي رحمه الله (المتوفى807)نے کہا:
عن ابن عباس قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي في رمضان عشرين ركعة والوتر. رواه الطبراني في الكبير والأوسط وفيه أبو شيبة إبراهيم وهو ضعيف.[مجمع الزوائد للهيثمي: 3/ 224]۔

امام بوصيري رحمه الله (المتوفى840):
وَمَدَارُ أَسَانِيدِهِمْ عَلَى إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُثْمَانَ أَبِي شَيْبَةَ، وَهُوَ ضَعِيفٌ، وَمَعَ ضَعْفِهِ مُخَالِفٌ لِمَا رَوَاهُ مُسْلِمٌ فِي صَحِيحِهِ مِنْ حَدِيثِ عَائِشَةَ قَالَتْ: "كَانَتْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - بِاللَّيْلِ فِي رَمَضَانَ وَغَيْرِهِ ثَلَاثَ عشرة ركعة منها ركعتي الْفَجْرِ.[إتحاف الخيرة المهرة للبوصيري: 2/ 384]

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
وأما ما رواه بن أبي شيبة من حديث بن عباس كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي في رمضان عشرين ركعة والوتر فإسناده ضعيف وقد عارضه حديث عائشة هذا الذي في الصحيحين مع كونها أعلم بحال النبي صلى الله عليه وسلم ليلا من غيرها [فتح الباري لابن حجر: 4/ 254]۔

أحمد بن محمد بن علي بن حجر الهيتمي (المتوفى: 974) نے کہا:
وَأَمَّا مَا وَرَدَ مِنْ طُرُقٍ أَنَّهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - كَانَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرَ. وَفِي رِوَايَةٍ زِيَادَةُ (فِي غَيْرِ جَمَاعَةٍ) فَهُوَ شَدِيدُ الضَّعْفِ اشْتَدَّ كَلَامُ الْأَئِمَّةِ فِي أَحَدِ رُوَاتِهِ تَجْرِيحًا وَذَمًّا [الفتاوى الفقهية الكبرى:1/ 194 ]۔

امام سيوطي رحمه الله (المتوفى:911):
هَذَا الْحَدِيثُ ضَعِيفٌ جِدًّا لَا تَقُومُ بِهِ حُجَّةٌ[الحاوي للفتاوي 1/ 413]۔



حدیث مذکور کی تضعیف کرنے والے حنفی اکابرین:


حنفیوں کے امام زيلعي الحنفی رحمه الله (المتوفى762)نے کہا:
وَهُوَ مَعْلُولٌ، بِأَبِي شَيْبَةَ إبْرَاهِيمَ بْنِ عُثْمَانَ، جَدِّ الْإِمَامِ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ، وَهُوَ مُتَّفَقٌ عَلَى ضَعْفِهِ، وَلَيَّنَهُ ابْنُ عَدِيٍّ فِي "الْكَامِلِ"، ثُمَّ إنَّهُ مُخَالِفٌ لِلْحَدِيثِ الصَّحِيحِ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ، كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ؟، قَالَتْ: مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ، وَلَا فِي غَيْرِهِ، عَلَى إحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً[نصب الراية للزيلعي: 2/ 153]۔

حنفیوں کے علامه عينى الحنفی رحمه الله (المتوفى855) نے کہا:
کذبہ شعبۃ وضعفہ احمد وابن معین والبخاری والنسائی وغیرھم و اورد لہ ابن عدی ھذا الحدیث فی الکامل فی مناکیرہ [عمدۃ القاری:ج١١ص١٨٢].
تنبیہ:
یاد رہے کہ مکتبہ شاملہ میں عمدۃ القاری کا جو نسخہ ہے اس میں اتفاق سے وہ صفحات غائب ہیں، جن میں علامہ عینی رحمہ اللہ کا مذکورہ کلام موجود ہے اس لئے ہم ذیل میں عمدۃ القاری کے مطبوعہ نسخہ سے متعلقہ صفحات کا عکس پیش کررہے ہیں:




حنفیوں کے امام ابن الهمام الحنفی (المتوفى861) نے کہا:
وَأَمَّا مَا رَوَى ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ فِي مُصَنَّفِهِ وَالطَّبَرَانِيُّ وَعِنْدَ الْبَيْهَقِيّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ «أَنَّهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - كَانَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً سِوَى الْوِتْرِ» فَضَعِيفٌ بِأَبِي شَيْبَةَ إبْرَاهِيمَ بْنِ عُثْمَانَ جَدِّ الْإِمَامِ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ مُتَّفَقٌ عَلَى ضَعْفِهِ مَعَ مُخَالِفَتِهِ لِلصَّحِيحِ.[فتح القدير للكمال ابن الهمام:1/ 467]۔

دیوبندیوں کے علامه أنور شاه رحمه الله (المتوفى1353) کہتے ہیں:
وأما النبي - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فصح عنه ثمان ركعات، وأما عشرون ركعة فهو عنه بسند ضعيف وعلى ضعفه اتفاق[العرف الشذي للكشميري: 2/ 208]۔
یعنی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آٹھ رکعات والی روایت صحیح ہے رہی بیس رکعات والی روایت تو وہ ضعیف سند سے منقول ہے اور اس کے ضعف پرسب کا اتفاق ہے۔

ابوالطیب محمدبن عبدالقادر سندی حنفی نے کہا:
ووردعن ابن عباس قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یصلی فی رمضان عشرین رکعۃ والوتر ، رواہ ابن ابی شیبۃ و اسنادہ ضعیف وقد عارضہ حدیث عائشۃ ھذا وھو فی الصحیحین فلا تقوم بہ الحجۃ [شرح الترمذی: ج١ ص٤٢٣]۔

مولانا محمدزکریا فضائل اعمال والے کہتے ہیں:

لا شک ان تحدید التراویح فی عشرین رکعۃ لم یثبت مرفوعا عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم بطریق صحیح علی اصول المحدثین وماورد فیہ من روایۃ ابن عباس فمتکلم فیھا علی اصولھم [اوجزا المسالک ج١ ص٣٩٧]۔

حنفیوں کے علامہ حبیب الرحمان اعظمی کہتے ہیں:

بہرحال ہم کو اتنا تسلیم ہے کہ ابراہیم ضعیف راوی ہے اور اس کی وجہ سے یہ حدیث بھی ضعیف ہے [رکعات تراویح:ص ٥٩ ، بحوالہ انوار مصابیح :ص١٧٣ ]۔

عبدالشکورلکھنوی نے کہا:
اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آٹھ رکعت تراویح مسنون ہے ، اور ایک ضعیف روایت میں ابن عباس سے بیس رکعت بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔[علم الفقہ:ص١٩٨]۔

یعنی عبدالشکورصاحب کو اعتراف ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔

غلام حبیب دیوبندی لکھتے ہیں:
ولکنھما ضعیفان [ضیاء المصابیح فی مسئلۃ التراویح:ص٥].

موصوف نے یہ بات بیس والی روایت کو دو کتابوں سے نقل کرنے کے بعدلکھا ہے۔

حدیث مذکور صحیح حدیث کے خلاف اوربالاتفاق مردودہے:
بعض لوگ بے بسی میں یہ تو تسلیم کرلیتے ہیں کہ حدیث مذکور ضعیف ہے لیکن پھر کہتے ہیں کہ اسے تلقی بالقبول حاصل ہے اس لئے یہ حدیث ضعیف ہونے کے باوجود مقبول ہے ۔
عرض ہے کہ یہ دعوی سراسر جھوٹ ہے کہ اس حدیث کو تلقی بالقبول حاصل ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس حدیث کو امت نے قبول کرنے بجائے صحیح حدیث کے خلاف بتلاکر رد کردیا ہے ، ملاحظہ ہوں چند حوالے:

امام بوصيري رحمه الله (المتوفى840)نے کہا:
وَمَدَارُ أَسَانِيدِهِمْ عَلَى إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُثْمَانَ أَبِي شَيْبَةَ، وَهُوَ ضَعِيفٌ، وَمَعَ ضَعْفِهِ مُخَالِفٌ لِمَا رَوَاهُ مُسْلِمٌ فِي صَحِيحِهِ مِنْ حَدِيثِ عَائِشَةَ قَالَتْ: "كَانَتْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - بِاللَّيْلِ فِي رَمَضَانَ وَغَيْرِهِ ثَلَاثَ عشرة ركعة منها ركعتي الْفَجْرِ.[إتحاف الخيرة المهرة للبوصيري: 2/ 384]۔

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
وأما ما رواه بن أبي شيبة من حديث بن عباس كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي في رمضان عشرين ركعة والوتر فإسناده ضعيف وقد عارضه حديث عائشة هذا الذي في الصحيحين مع كونها أعلم بحال النبي صلى الله عليه وسلم ليلا من غيرها [فتح الباري لابن حجر: 4/ 254]۔

امام سيوطي رحمه الله (المتوفى:911)نے کہا:

مَعَ تَصْرِيحِ الْحَافِظَيْنِ الْمَذْكُورَيْنِ نَقْلًا عَنِ الْحُفَّاظِ بِأَنَّ هَذَا الْحَدِيثَ مِمَّا أُنْكِرَ عَلَيْهِ، وَفِي ذَلِكَ كِفَايَةٌ فِي رَدِّهِ، وَهَذَا أَحَدُ الْوُجُوهِ الْمَرْدُودِ بِهَا.[الحاوي للفتاوي 1/ 414]

حنفیوں کے امام زيلعي الحنفی رحمه الله (المتوفى762)نے کہا:
وَهُوَ مَعْلُولٌ، بِأَبِي شَيْبَةَ إبْرَاهِيمَ بْنِ عُثْمَانَ، جَدِّ الْإِمَامِ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ، وَهُوَ مُتَّفَقٌ عَلَى ضَعْفِهِ، وَلَيَّنَهُ ابْنُ عَدِيٍّ فِي "الْكَامِلِ"، ثُمَّ إنَّهُ مُخَالِفٌ لِلْحَدِيثِ الصَّحِيحِ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ، كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ؟، قَالَتْ: مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ، وَلَا فِي غَيْرِهِ، عَلَى إحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً[نصب الراية للزيلعي: 2/ 153]۔

حنفیوں کے امام ابن الهمام الحنفی (المتوفى861) نے کہا:
وَأَمَّا مَا رَوَى ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ فِي مُصَنَّفِهِ وَالطَّبَرَانِيُّ وَعِنْدَ الْبَيْهَقِيّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ «أَنَّهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - كَانَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً سِوَى الْوِتْرِ» فَضَعِيفٌ بِأَبِي شَيْبَةَ إبْرَاهِيمَ بْنِ عُثْمَانَ جَدِّ الْإِمَامِ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ مُتَّفَقٌ عَلَى ضَعْفِهِ مَعَ مُخَالِفَتِهِ لِلصَّحِيحِ.[فتح القدير للكمال ابن الهمام:1/ 467]۔

ابوالطیب محمدبن عبدالقادر سندی حنفی نے کہا:
ووردعن ابن عباس قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یصلی فی رمضان عشرین رکعۃ والوتر ، رواہ ابن ابی شیبۃ و اسنادہ ضعیف وقد عارضہ حدیث عائشۃ ھذا وھو فی الصحیحین فلا تقوم بہ الحجۃ [شرح الترمذی: ج١ ص٤٢٣]۔



حدیث مذکور موضوع ہے:
مذکورہ حدیث کے مردود ہونے پر تو اہل علم کا اتفاق ہے لیکن یہ حدیث مرودو ہونے میں کس درجہ کی ہے اس بابت اہل فن کے اقوال مختلف ہیں کسی نے اسے ضعیف کہا تو کسی نے ضعیف جدا کہا تو کسی نے نے معلول کہا تو کسی نے منکر کہا اورعلامہ البانی رحمہ اللہ نے موضوع کہا اوریہی آخری بات ہی راجح ہے ، کیونکہ اس کی سند میں ’’ ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان‘‘ نامی جھوٹا راوی موجود ہے۔

امام شعبة بن الحجاج رحمه الله (المتوفى 160)نے کہا:
كذب وَالله[العلل ومعرفة الرجال 1/ 287 واسنادہ صحیح]۔

حنفیوں کے علامه عينى الحنفی رحمه الله (المتوفى855) نے امام شعبہ کی اس جرح کو برضاء ورغبت نقل کرتے ہوئے کہا:
کذبہ شعبۃ وضعفہ احمد وابن معین والبخاری والنسائی وغیرھم و اورد لہ ابن عدی ھذا الحدیث فی الکامل فی مناکیرہ [عمدۃ القاری:ج١١ص١٨٢].

امام سیوطی رحمہ اللہ نے بھی امام شعبہ رحمہ اللہ کی اس جرح کو برضاء وتسلیم نقل کرتے ہوئے کہا:
وَمَنْ يُكَذِّبُهُ مِثْلُ شُعْبَةَ فَلَا يُلْتَفَتُ إِلَى حَدِيثِهِ[الحاوي للفتاوي 1/ 414]۔


امام شعبہ رحمہ اللہ کی تکذیب ابراہیم بن عثمان سے متعلق دو شبہات کا ازالہ:

پہلا شبہ:
کہاجاتاہے کہ امام شعبہ رحمہ اللہ نے ابراہیم بن عثمان کو جو جھوٹا کہا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ابراہیم بن عثمان نے الحکم سے یہ روایت بیان کی کہ جنگ صفین میں ستر بدری صحابہ نے شرکت کی ، لیکن امام شبعہ رحمہ اللہ نے خود الحکم سے اس موضوع پر مذاکرہ کیا تو الحکم کے ساتھ اس مذکرہ میں خزیمہ بن ثابت کے علاوہ کسی اور کی شرکت معلوم نہ ہوسکی۔ حالانکہ یہ معروف بات ہے کہ جنگ صفین میں متعدد صحابہ نے شرکت کی۔
اسی لئے امام ذہبی رحمہ اللہ نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ:
قلت: سبحان الله، أما شهدها على ! أما شهدها عمار.[ميزان الاعتدال للذهبي: 1/ 47]۔

عرض ہے جنگ صفین میں کتنے لوگ شریک تھے اصل مسئلہ یہ نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ الحکم نے کتنی تعداد بتلائی ہے ۔

امام عبد الله بن أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى:290)نے کہا:
حَدثنِي أبي قَالَ حَدثنَا أُميَّة بن خَالِد قَالَ قلت لشعبة أَن أَبَا شيبَة حَدثنَا عَن الحكم عَن عبد الرَّحْمَن بن أبي ليلى أَنه قَالَ شهد صفّين من أهل بدر سَبْعُونَ رجلا قَالَ كذب وَالله لقد ذاكرت الحكم ذَاك وَذَكَرْنَاهُ فِي بَيته فَمَا وجدنَا شهد صفّين أحد من أهل بدر غير خُزَيْمَة بن ثَابت [العلل ومعرفة الرجال لأحمد رواية ابنه عبد الله 1/ 287 واسنادہ صحیح]۔
یعنی ابراہیم بن عثمان نے الحکم کے حوالہ سے ستر کی تعداد بتلائی ، لیکن امام شعبہ نے الحکم سے مذاکرہ کیا تو الحکم کو صرف ایک ہی صحابی کے شرکت کی بات معلوم تھی۔
یعنی امام شعبہ رحمہ اللہ نے ابراہیم بن عثمان کو اصحاب صفین کی تعداد نقل کرنے میں جھوٹا نہیں کہا، بلکہ یہ تعداد الحکم کے حوالہ سے نقل کرنے پر جھوٹا کہا کیونکہ الحکم کو اس تعداد کا علم ہی نہیں تھا۔
اس سے ثابت ہوا کہ ابراہم بن عثمان نے الحکم پرجھوٹ بولا۔

رہا امام ذہبی رحمہ اللہ کا اظہار تعجب تو محض الحکم کی معلومات پر ہے ، یعنی امام ذہبی رحمہ اللہ اس بات حیرت کا اظاہر کررہے ہیں کہ الحکم کو اصحاب صفین میں سے صرف ایک ہی نام کا علم کیسے رہا جبکہ اور لوگ بھی اس میں شرک تھے، یعنی امام ذہبی رحمہ اللہ کا اظہار تعجب الحکم کی معلومات پر ہے نہ کہ ابراہیم بن عثمان کو جھوٹا کہے جانے پر ، ایسی صورت میں امام ذہبی رحمہ اللہ کا یہ اظہار تعجب تو ابراہم بن عثمان کے کذاب ہونے پر دلالت کرتا ہے کیونکہ جس شخص کو صرف ایک صحابی کی شرکت معلوم ہو ، عین اسی شخص سے سترصحابہ کی شرکت نقل کرنا بہت بڑا جھوٹ ہے۔

اگرکوئی کہے کہ مذاکرہ میں الحکم نے یہ تو نہیں کہا کہ میں نے ابراہیم سے یہ تعداد نہیں بیان کی ۔
تو عرض ہے کہ مذکرہ میں الحکم کے سامنے اس بات کا تذکرہ ہی کہاں ہوا کہ ان کے حوالے سے ابراہیم بن عثمان ستر صحابہ کی شرکت بیان کررہاہے، مذاکرہ تو اس بات پر تھا کہ جنگ صفین میں کتنے بدری صحابہ نے شرکت کی ، اور اس مذکرہ میں خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ کے علاوہ کوئی اورنام سامنے نہ آسکا ، تو اسی بات کو امام شعبہ رحمہ اللہ نے دلیل بنایا ہے کہ جب الحکم کو صرف ایک ہی صحابی کا نام معلوم تھا تو انہی کے حوالہ سے ابراہیم بن عثمان نے ستر صحابہ کا نام کیسے بتادیا ، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ابراہیم بن عثمان نے الحکم پرجھوٹ بولا ہے۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھیں : علامہ نذیر احمد الاملوی رحمہ اللہ کی کتاب انوارالمصابیح ص ١٧٣، ١٧٧۔


دوسرا شبہ:
بعض لوگ کہتے ہیں کذب کا اطلاق غلطی پر بھی ہوتا ہے لہٰذا امام شعبہ نے جو کذب کی بات کہی ہے وہ غلطی کرنے کے معنی میں ہے۔

عرض ہے کہ:
اول: تو یہ دعوی بلادلیل ہے کہ ابراہیم بن عثمان کو کثیرالغلط کے معنی میں کذاب کہا گیا ہے ، کیونکہ مطلقا جب کسی کے کذب کی بات کہی جائے تو حقیقی معنی ہی مراد ہوگا الایہ کہ کوئی قرینہ مل جائے ، اوریہاں کوئی قرینہ نہیں۔
دوم: امام شعبہ رحمہ اللہ کے دیگر اقوال اس بات پرزبردست شاہد ہیں کہ انہوں نے ابراہیم بن عثمان کو حقیقی معنوں میں جھوٹا قرار دیا ہے۔
چنانچہ خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
أخبرنا محمد بن أحمد بن رزق، أخبرنا جعفر بن محمد بن نصير الخالدي، حدثنا محمد بن عبد الله بن سليمان الحضرمي، حدثنا محمد بن موسى، حدثنا المثنى- هو ابن معاذ- حدثنا أبي قال: كتبت إلى شعبة- وهو ببغداد- أسأله عن أبي شيبة القاضي أروي عنه؟ قال: فكتب إلي: لا ترو عنه فإنه رجل مذموم، وإذا قرأت كتابي فمزقه. [تاريخ بغداد: 6/ 110 واسنادہ صحیح واخرجہ ایضا ابن حبان فی المجروحين:1/ 104 من طریق المثنی بہ]۔

امام شعبہ رحمہ اللہ کے اس قول میں غورکیجئے اس میں امام شعبہ ، ابراہیم کو برا آدمی کہہ رہے ہیں ، غورکریں کہ اگرامام شعبہ کی نظر میں ابراہیم بن عثمان دیندار شخص ہوتا اوراس کے تعلق سے امام شعبہ نے کذب ، غلطی کے معنی میں استعمال کیا ہوتا تو اسے ’’رجل مذموم‘‘ برا آدمی نہ کہتے۔ معلوم ہوا کہ امام شعبہ رحمہ اللہ نے حقیقی معنی میں کذب کا اطلاق کا اطلاق کیا ہے۔

یادرہے کہ کچھ لوگ ابراہیم بن عثمان کے دفاع میں امام ابن عدی اوریزید بن ہارون کا قول بھی پیش کرتے ہیں ، اس کی پوری وضاحت اوپر کی جاچکی ہے۔

معلوم ہوا کہ اس روایت میں موجود ابوشیبہ، ابراہم بن عثمان نامی راوی پرجھوٹ بولنے کی جرح ہے اوراس کا جھوٹ بولنا ثابت بھی ہے لہٰذا اس کی بیان کردہ یہ روایت موضوع ومن گھڑت ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
دوسری مرفوع روایت


أبو القاسم حمزة بن يوسف بن إبراهيم السهمي القرشي الجرجاني (المتوفى427) نے کہا:
حَدَّثَنَا أَبُو الْحَسَنِ عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ الْقَصْرِيُّ الشَّيْخُ الصَّالِحُ رَحِمَهُ اللَّهُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ الْمُؤْمِنِ الْعَبْدُ الصَّالِحُ قَالَ أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ هَارُونَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحنازِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عَتِيكٍعَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ خَرَجَ النبي صلى اللَّه عليه وسلم ذَاتَ لَيْلَةٍ فِي رَمَضَانَ فَصَلَّى النَّاسُّ أَرْبَعَةً وَعِشْرِينَ رَكْعَةً وَأَوْتَرَ بِثَلاثَةٍ . [تاريخ جرجان (ص: 317) ].
یعنی جابررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رمضان میں ایک رات اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اورلوگوں کو چوبیس رکعات تراویح اورایک رکعات وترپڑھائی۔

یہ روایت موضوع ومن گھڑت ہے اس میں درج ذیل علتیں ہیں۔

پہلی علت:

عبد الرحمن بن عطاء بن أبي لبيبة

امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
فيهِ نَظَرٌ[التاريخ الكبير للبخاري: 5/ 336]۔

امام أبو زرعة الرازي رحمه الله (المتوفى264)نے کہا:
عبد الرحمن بن عطاء [الضعفاء لابي زرعه الرازي: 2/ 633]

امام ابن عبد البر رحمه الله (المتوفى:463)نے کہا:
ممن لا يحتج به فيما ينفرد به فكيف فيما خالفه فيه من هو أثبت منه [الاستذكار 4/ 83]

نیز کہا:
ليس عندهم بذلك وترك مالك الرواية عنه وهو جاره وحسبك بهذا[التمهيد لابن عبد البر: 17/ 228]۔

امام ابن الجوزي رحمه الله (المتوفى597)نے کہا:
أدخله البخاري في الضعفاء وقال الرازي يحول من هناك[الضعفاء والمتروكين لابن الجوزي: 2/ 97]

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
صدوق فيه لين[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 3953]

تحرير التقريب كے مؤلفين (دكتور بشار عواد اور شعيب ارنؤوط)نے کہا:
ضعيف يعتبر به[تحرير التقريب: رقم3953]۔


دوسری علت:
عمر بن هارون
امام عبد الرحمن بن مهدى رحمه الله (المتوفى198)نے کہا:
لَمْ تكن لَهُ قيمة عندي[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 6/ 57 واسنادہ صحیح]۔

امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
تَرَكوا حَديثِه[الطبقات الكبير لابن سعد 9/ 378]۔

امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
عمر بن هارون كذاب[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 6/ 141 واسنادہ صحیح]۔

امام ابن حبان نے ابن معین کی تائید کرتے ہوئے کہا:
والمناكير في روايته تدل على صحة ما قال يحيى بن معين فيه[المجروحين لابن حبان: 2/ 91]۔

امام صالح بن محمد جزرة رحمه الله سے بھی منقول ہے۔
كان كذابا [تاريخ بغداد للخطيب البغدادي: 13/ 15 واسنادہ ضعیف]۔

امام ابن المبارك رحمه الله سے بھی منقول ہے۔
هو كذاب[تاريخ بغداد للخطيب البغدادي: 13/ 15واسنادہ ضعیف]۔

نوٹ: امام صالح بن محمد اور ابن مبارک رحمہاللہ کے اقوال کی سند ضعیف ہے لیکن ابن معین رحمہ اللہ کا قول بسند صحیح ثابت ہے اورابن حبان نے بھی ان کی تائیدکی ہے۔


امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
لا اروى عنه شيئا[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 6/ 141]۔

امام جوزجاني رحمه الله (المتوفى259)نے کہا:
عمر بن هارون: لم يقنع الناس بحديثه[أحوال الرجال للجوزجانى: ص: 355]۔

امام عجلى رحمه الله (المتوفى:261)نے کہا:
عمر بن هارون بن يزيد الثقفي ضعيف [تاريخ الثقات للعجلي: 2/ 171]۔

امام أبو زرعة الرازي رحمه الله (المتوفى264)نے کہا:
الناس تركوا حديثه[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 6/ 141]۔

امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
ضعيف الحديث[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 6/ 141]۔

امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
عمر بن هَارُون الْبَلْخِي مَتْرُوك الحَدِيث بَصرِي[الضعفاء والمتروكون للنسائي: ص: 84]۔

امام عقيلي رحمه الله (المتوفى322)نے کہا:
عمر بن هارون البلخي[الضعفاء الكبير للعقيلي: 3/ 194]۔

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
كان ممن يروي عن الثقات المعضلات ويدعى شيوخا لم يرهم[المجروحين لابن حبان: 2/ 90]۔

امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
عمر بن هارون البلخي، ضعيف[كتاب الضعفاء والمتروكين للدارقطني: ص: 16]۔

امام أبو نعيم رحمه الله (المتوفى430)نے کہا:
عمر بن هَارُون الْبَلْخِي عَن بن جريج وَالْأَوْزَاعِيّ وَشعْبَة الْمَنَاكِير لَا شَيْء[الضعفاء لأبي نعيم: ص: 113]۔

امام ابن القيسراني رحمه الله (المتوفى:507)نے کہا:
عمر بن هارون البخلي ليس بشيء في الحديث[معرفة التذكرة لابن القيسراني: ص: 176]۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
واه اتهمه بعضهم [الكاشف للذهبي: 2/ 70]۔

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
متروك وكان حافظا[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 4979]۔

تیسری علت:
محمد بن حميد الرازی۔


امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
فِيهِ نَظَرٌ[التاريخ الكبير للبخاري: 1/ 69]

امام جوزجاني رحمه الله (المتوفى259)نے کہا:
محمد بن حميد الرازي: كان رديء المذهب، غير ثقة.[أحوال الرجال للجوزجانى: ص: 350]۔

أبو حاتم محمد بن إدريس الرازي، (المتوفى277)نے کہا:
هذا كذاب[الضعفاء لابي زرعه الرازي: 2/ 739]۔

امام عقيلي رحمه الله (المتوفى322)نے اسے ضعفاء میں ذکرکیا:
محمد بن حميد الرازي۔۔۔[الضعفاء الكبير للعقيلي: 4/ 61]

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
كان ممن ينفرد عن الثقات بالأشياء المقلوبات[المجروحين لابن حبان: 2/ 303]

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
وثقه جماعة والاولى تركه[الكاشف للذهبي: 2/ 166]۔

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
محمد بن حميد بن حيان الرازي حافظ ضعيف[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 5834 ]۔

خان بادشاہ بن چاندی گل دیوبندی لکھتے ہیں:
کیونکہ یہ کذاب اوراکذب اورمنکرالحدیث ہے۔[القول المبین فی اثبات التراویح العشرین والرد علی الالبانی المسکین:ص٣٣٤].

نیز دیکھئے رسول اکرم کاطریقہ نماز از مفتی جمیل صفحہ ٣٠١ ۔


اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ روایت موضوع ومن گھڑت ہے۔

جابررضی اللہ عنہ کی صحیح روایت:
جابررضی اللہ عنہ سے منقول مذکورہ روایت موضوع ومن گھڑت ہونے کے ساتھ ساتھ ، جابررضی اللہ عنہ ہی سے منقول صحیح حدیث کے خلاف بھی ہے ، کیونکہ جابررضی اللہ عنہ نے بسندصحیح منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکعات تراویح پڑھائی، چنانچہ:

امام بن خزيمة رحمہ اللہ(المتوفى311) نے کہا:
نا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ بْنِ كُرَيْبٍ، نا مَالِكٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْمَاعِيلَ، نا يَعْقُوبُ، ح وَثنا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْعِجْلِيُّ، نا عُبَيْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ مُوسَى، نا يَعْقُوبُ وهو ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْقُمِّيُّ، عَنْ عِيسَى بْنِ جَارِيَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ ثَمَانِ رَكَعَاتٍ وَالْوِتْرَ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْقَابِلَةِ اجْتَمَعْنَا فِي الْمَسْجِدِ وَرَجَوْنَا أَنْ يَخْرُجَ إِلَيْنَا، فَلَمْ نَزَلْ فِي الْمَسْجِدِ حَتَّى أَصْبَحْنَا، فَدَخَلْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْنَا لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، رَجَوْنَا أَنْ تَخْرُجَ إِلَيْنَا فَتُصَلِّيَ بِنَا، فَقَالَ: «كَرِهْتُ أَنْ يُكْتَبَ عَلَيْكُمُ الْوِتْرُ» [صحيح ابن خزيمة 2/ 138 رقم 1070]۔
جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں رمضان میں آٹھ رکعات تراویح اوروترپڑھائی پھراگلی بارہم مسجدمیں جمع ہوئے اوریہ امیدکی کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس(امامت کے لئے)آئیں گے یہاںتک کہ صبح ہوگئی،پھراللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے توہم نے کہا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں امیدتھی کہ آپ ہمارے پاس آئیں گے اورامامت کرائیں گے،توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھے خدشہ ہوا کہ وترتم پرفرض نہ کردی جائے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
قسم ثانی :موقوف روایات


بیس رکعات تراویح سے متعلق پیش کردہ احادیث کی دوسری قسم موقوف روایات ہیں ، یعنی وہ روایات جو صرف صحابہ کی طرف منسوب ہیں ، یہ کل پانچ صحابہ کرام ہیں


  1. عمربن الخطاب رضی اللہ پر موقوف روایت۔
  2. علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ پر موقوف روایت۔
  3. عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ پر موقوف روایت۔
  4. ابی بن کعب انصاری رضی اللہ عنہ پرموقوف روایات۔
  5. عبد الرحمن بن أبي بكرة رضی اللہ عنہ پر موقوف روایت۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
پہلی موقوف روایت
(عمربن الخطاب رضی اللہ پرموقوف)


یہ روایت تین طرق سے مروی ہے:

پہلا طریق : از ابی بن کعب رضی اللہ عنہ

امام ضياء المقدسي رحمه الله (المتوفى643)نے کہا:
أخبرنا أبو عبدالله محمود بن أحمد بن عبدالرحمن الثقفي بأصبهان أن سعيد بن أبي الرجاء الصيرفي أخبرهم قراءة عليه أنا عبدالواحد بن أحمد البقال أنا عبيدالله بن يعقوب بن إسحاق أنا جدي إسحاق بن إبراهيم بن محمد بن جميل أنا أحمد بن منيع أنا الحسن بن موسى نا أبو جعفر الرازي عن الربيع بن أنس عن أبي العالية عن أبي بن كعب أن عمر أمر أبيا أن يصلي بالناس في رمضان فقال إن الناس يصومون النهار ولا يحسنون أن ( يقرؤا ) فلو قرأت القرآن عليهم بالليل فقال يا أمير المؤمنين هذا ( شيء ) لم يكن فقال قد علمت ولكنه أحسن فصلى بهم عشرين ركعة [الأحاديث المختارة للضياء المقدسي 2/ 86]۔

یہ رویات ضعیف ہے ، سند میں موجود ابو جعفرالرازی سی الحفظ ہے ۔

امام أبو زرعة الرازي رحمه الله (المتوفى264)نے کہا:
شيخ يهم كثيرا[الضعفاء لابي زرعه الرازي: 2/ 443]۔

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
كان ممن ينفرد بالمناكير عن المشاهير لا يعجبني الاحتجاج بخبره إلا فيما وافق الثقات[المجروحين لابن حبان: 2/ 120]۔


تنبیہ بلیغ:
امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275)نے کہا:
حَدَّثَنَا شُجَاعُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنِ الْحَسَنِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ جَمَعَ النَّاسَ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، «فَكَانَ يُصَلِّي لَهُمْ عِشْرِينَ لَيْلَةً، وَلَا يَقْنُتُ بِهِمْ إِلَّا فِي النِّصْفِ الْبَاقِي، فَإِذَا كَانَتِ الْعَشْرُ الْأَوَاخِرُ تَخَلَّفَ فَصَلَّى فِي بَيْتِهِ، فَكَانُوا يَقُولُونَ أَبَقَ أُبَيٌّ»[سنن أبي داود: 1/ 454 رقم 1429]۔

اس روایت میں بیس رات کا ذکر ہے لیکن کچھ لوگوں نے اس میں تحریف کرکے اسے بیس رکعات بنالیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنن ابی داؤد کے کسی بھی معتبرنسخہ میں رات کی جگہ رکعت کا لفظ نہیں ہے ۔ احناف کے پسندیدہ محقق محمد عوامہ نے بھی سنن ابی داؤد کی تحقیق کی ہے اور اس روایت پرحاشیہ لگاتے ہوئے لکھتے ہیں:
لهم عشرين ليلة من الأصول كلها
یعنی اصل تمام مخطوطات میں بیس رات ہی کا ذکر ہے (سنن ابی داؤد بتحقیق عوامہ ج2 ص256)
جب تمام مخطوطات میں رات ہی کا ذکر ہے تو رات کو رکعت بنادینا تحریف نہیں تو اورکیا ہے۔
رہی بات یہ کہ بعض اہل علم نے ابوداؤد ہی سے یہ روایت نقل کی ہے اور رات کی جگہ رکعت کا لفظ نقل کیا ہے تو عرض ہے کہ اہل علم کی اکثریت نے تو ابوداؤد ہی سے اس روایت کو رات کے لفظ کے ساتھ بھی نقل کیا ہے ، جس سے صاف واضح ہوجاتا ہے کہ اصل روایت رات کے لفظ کے ساتھ اورجن کتابوں میں رکعت کے لفظ کے ساتھ نقل ہوگیا وہ کتابت کی غلطی یا وہم ہے ۔
بالخصوص جبکہ بیس رکعت کا پروپیگنڈہ خوب کیا گیا ہے اس لئے تراویح کی بحث میں عشرین کا لفظ دیکھتے ہیں اس کے ساتھ رکعت لکھنے کے وہم میں پڑجانا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے ۔
اس لئے ضروری ہے کہ اصل کتاب کے نسخوں میں رکعت کے لفظ کا ثبوت دکھایا جائے اور پھر ان نسخوں کی اس بات کی ترجیح بھی دلائل کے ساتھ ثابت کی جائے ۔مزید تفصیل کے لئے دیکھئے : نعم الشہود علی تحریف الغالین فی سنن ابی داؤد ، للشیخ سلطان محمود رحمہ اللہ ، نیز دیکھیںقرآن وحدیث میں تحریف ص 210 تا 242
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن بہر صورت یہ روایت ضعیف ہی ہے کیونکہ حسن بصری مدلس ہیں اور روایت عن سے ہے ۔
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ابن حجر نے طبقات المدلسین میں اسے مدلسین کے دوسرے طبقہ میں رکھا ہے جن کی معنعن روایت مقبول ہوتی ہے ، عرض کہ حسن بصری کو دوسرے طبقہ میں رکھنا درست نہیں ہے کیونکہ یہ کثیر التدلیس ہیں اور جو مدلس کثیر التدلیس ہو وہ تیسرے طبقہ کا ہوتا ہے۔
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748) نے کہا:
كان الحسن كثير التدليس، فإذا قال في حديث عن فلان ضعف سماعه، ولا سيما عمن قيل إنه لم يسمع منهم
حسن بصری کثیر التدلیس ہیں ، لہٰذا جب یہ کسی حدیث میں عن فلاں کہیں تو ان کا سماع ضعیف ہوگا ، بالخصوص جب یہ ایسے لوگوں سے عن سے روایت کریں جن کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ انہوں نے ان سے نہیں سنا ہے [ميزان الاعتدال، ن مؤسسة الرسالة: 1/ 481]
یہ دونوں باتیں اس روایت میں ہیں کیونکہ حسن بصری نے یہاں عن سے روایت کیا ہے اور عمر فاروق سے روایت کیا ہے جن سے ان کے سماع ثابت نہیں ہے۔

رہی بات یہ کہ اگر یہ کثیر التدلیس ہیں اور ان کا عنعنہ مضر ہے تو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے انہیں دوسرے طبقہ میں کیوں رکھا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا تسامح ہے اور خود حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی دوسرے مقام پر کہا:
وهو مع ذلك كثير الإرسال فلا تحمل عنعنته على السماع
حسن بصری اس کے ساتھ کثیر الارسال ہیں اس لئے ان کا عنعنہ سماع پر محمول نہیں [فتح الباري لابن حجر، ط السلفية: 1/ 109]
لیجئے خود ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی فیصلہ کردیا کہ حسن بصری کا عنعنہ سماع پر محمول نہیں ہوگا۔

علاوہ بریں حسن بصری کی ملاقات عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے نہیں ،علامه عينى رحمه الله (المتوفى855)نے کہا:
أن فيه انقطاعًا , فإن الحسن لم يدرك عمر بن الخطاب[شرح أبي داود للعيني 5/ 343]۔

ایک صاحب نے کہا کہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس کی سند الحسن عن ابی کے الفاظ سے نقل کی ہے



دوسرا طریق: از سائب بن یزید رضی اللہ عنہ

اس طریق سے تین لوگوں نے روایت کیا ہے:

پہلی روایت : از حارث بن عبدالرحمان:

امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى211)نے کہا:
عَنِ الْأَسْلَمِيِّ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي ذُبَابٍ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: «كُنَّا نَنْصَرِفُ مِنَ الْقِيَامِ عَلَى عَهْدِ عُمَرَ، وَقَدْ دَنَا فُرُوعُ الْفَجْرِ، وَكَانَ الْقِيَامُ عَلَى عَهْدِ عُمَرَ ثَلَاثَةً وَعِشْرِينَ رَكْعَةً»[مصنف عبد الرزاق: 4/ 261]۔

یہ روایت موضوع ہے تفصیل کے لئے دیکھئے مضمون : آٹھ (٨) رکعات تراویح سے متعلق روایت موطا امام مالک کی تحقیق اورشبہات کا زالہ ، پوسٹ نمبر٨ ۔

دوسری روایت: از یزید بن خصیفہ:

علي بن الجَعْد بن عبيد البغدادي (المتوفى230ھ) نے کہا:
أنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُصَيْفَةَ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: «كَانُوا يَقُومُونَ عَلَى عَهْدِ عُمَرَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً، وَإِنْ كَانُوا لَيَقْرَءُونَ بِالْمِئِينَ مِنَ الْقُرْآنِ» [مسند ابن الجعد:ص: 413]۔

یہ روایت شاذ ہے تفصیل کے لئے دیکھئے مضمون : آٹھ (٨) رکعات تراویح سے متعلق روایت موطا امام مالک کی تحقیق اورشبہات کا زالہ پوسٹ نمبر ٩ ۔


تیسری روایت: از محمدبن یوسف:

امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى211) نےکہا:
عَنْ دَاوُدَ بْنِ قَيْسٍ، وَغَيْرِهِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، " أَنَّ عُمَرَ: جَمَعَ النَّاسَ فِي رَمَضَانَ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، وَعَلَى تَمِيمٍ الدَّارِيِّ عَلَى إِحْدَى وَعِشْرِينَ رَكْعَةُ يَقْرَءُونَ بِالْمِئِينَ وَيَنْصَرِفُونَ عِنْدَ فُرُوعِ الْفَجْرِ "[مصنف عبد الرزاق: 4/ 260]۔

یہ روایت ضعیف ومنکرہے تفصیل کے لئے دیکھے مضمون : آٹھ (٨) رکعات تراویح سے متعلق روایت موطا امام مالک کی تحقیق اورشبہات کا زالہ پوسٹ نمبر١١ ۔


تیسرا طریق : از مسقوط روای:

اس طریق سے تین لوگوں نے روایت کیا ہے:

پہلی روایت: از یزید بن رومان:

امام مالك رحمه الله (المتوفى179)نے کہا:
عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ أَنَّهُ قَالَ: «كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي رَمَضَانَ بِثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ رَكْعَةً»[موطأ مالك ت عبد الباقي: 1/ 115]۔

یہ روایت منقطع ہے یزید بن رومان نے عمرفاروق کا زمانہ نہیں پایا ہے۔

امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458)نے کہا:
وَيَزِيدُ بْنُ رُومَانَ لَمْ يُدْرِكْ عُمَرَ [نصب الراية للزيلعي: 2/ 154 نقلہ من کتابہ ’’معرفة السنن والآثار‘‘]۔

علامه عينى حنفی رحمه الله (المتوفى855)نے کہا:
قَالَ الْبَيْهَقِيّ: وَالثَّلَاث هُوَ الْوتر، وَيزِيد لم يدْرك عمر فَفِيهِ انْقِطَاع. [عمدة القاري شرح صحيح البخاري 5/ 267]۔

عينى موصوف اسی کتاب میں دوسرے مقام پر اس روایت کو منقطع قرار دیتے ہوئے کہا:
رَوَاهُ مَالك فِي (الْمُوَطَّأ) بِإِسْنَاد مُنْقَطع [عمدة القاري شرح صحيح البخاري 11/ 127]۔

نیموی حنفی اس روایت کے بارے میں کہتے ہیں:
یزید بن رومان لم یدرک عمربن الخطاب [آثارالسنن:253]۔

دوسری روایت: از یحیی بن سعید:

امام ابن أبي شيبة رحمه الله(المتوفى235)نے کہا:
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، «أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَمَرَ رَجُلًا يُصَلِّي بِهِمْ عِشْرِينَ رَكْعَةً» [مصنف ابن أبي شيبة: 2/ 163 رقم 7682]۔

یہ روایت بھی منقطع ہے یحیی بن سعید نے عمربن الخطاب کو نہیں پایا ہے۔

امام علي بن المديني رحمه الله (المتوفى234)نے کہا:
لا أعلمه سمع من صحابي غير أنس[تهذيب التهذيب 11/ 195 نقلہ من کتابہ ’’العلل‘‘]۔

امام ابن حزم رحمه الله (المتوفى456)نے کہا:
وَعَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ - وَلَمْ يُولَدْ إلَّا بَعْدَ مَوْتِ عُمَرَ بِنَحْوِ خَمْسٍ وَعِشْرِينَ سَنَةً [المحلى لابن حزم: 9/ 207]۔

نیموی حنفی اس روایت کے بارے میں کہتے ہیں:
یحیی بن سعد الانصاری لم یدرک عمر [آثارالسنن:253]۔
یعنی یحیی بن سعید نے عمرفاروق کا زمانہ نہیں پایا۔


تیسری رویات: از محمدبن کعب القرضی:
امام مروزي رحمه الله (المتوفى294)نے کہا:
وقال محمد بن كعب القرظي : « كان الناس يصلون في زمان عمر بن الخطاب رضي الله عنه في رمضان عشرين ركعة يطيلون فيها القراءة ويوترون بثلاث » [قيام رمضان لمحمد بن نصر المروزي ص: 21، ۔

یہ روایت بھی منقطع ہے محمدبن کعب القرظی نے عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا۔

محمدبن کعب القرظی کی وفات ١٢٠ ہجری میں ہوئی اورانہوں نے ٨٠ سال کی عمر پائی دیکھئے۔[تهذيب الكمال للمزي: 26/ 347]۔
اس حساب سے موصوف کی تاریخ پدائش ٤٠ ہجری ہے۔

اوراس سے قبل عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت ٢٣ہجری میں ہی ہوچکی ہے۔
 
Last edited:

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
دوسری موقوف روایت
(علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ پرموقوف)


یہ روایت دو طریق سے مروی ہے:

پہلاطریق: ابوعبدالرحمان السلمی:

امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458)نے کہا:
أخبرنا أبو الحسن بن الفضل القطان ببغداد أنبأ محمد بن أحمد بن عيسى بن عبدك الرازي ثنا أبو عامر عمرو بن تميم ثنا أحمد بن عبد الله بن يونس ثنا حماد بن شعيب عن عطاء بن السائب عن أبي عبد الرحمن السلمي عن على رضي الله عنه قال : دعا القراء في رمضان فأمر منهم رجلا يصلي بالناس عشرين ركعة قال وكان علي رضي الله عنه يوتر بهم وروى ذلك من وجه آخر عن علي[السنن الكبرى للبيهقي: 2/ 496]۔

یہ روایت سخت ضعیف ہے اس میں درج ذیل علتیں ہیں:

پہلی علت:
عطاء بن السائب اخیر میں مختلط ہوگئے تھے اوران سے یہ روایت اختلاط کے بعد نقل کی گئی ہے کیونکہ اختلاط سے قبل جن رواۃ نے ان سے روایت کی ہے ان کی فہرست میں حماد بن شعیب کا نام نہیں ، جیساکہ اہل فن نے صراحت کی ہے ، چنانچہ:

امام طحاوي رحمه الله (المتوفى321)نے کہا:
وَإِنَّمَا حَدِيثُهُ الَّذِي كَانَ مِنْهُ قَبْلَ تَغَيُّرِهِ يُؤْخَذُ مِنْ أَرْبَعَةٍ لَا مِمَّنْ سِوَاهُمْ، وَهُمْ شُعْبَةُ، وَالثَّوْرِيُّ وَحَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، وَحَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ[شرح مشكل الآثار 6/ 293]۔

امام زيلعي رحمه الله (المتوفى762)نے کہا:
جَمِيعُ مَنْ رَوَى عَنْهُ رَوَى عَنْهُ فِي الِاخْتِلَاطِ، إلَّا شُعْبَةَ، وَسُفْيَانَ[نصب الراية للزيلعي: 3/ 58]۔

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
من مشاهير الرواة الثقات إلا أنه اختلط فضعفوه بسبب ذلك وتحصل لي من مجموع كلام الأئمة أن رواية شعبة وسفيان الثوري وزهير بن معاوية وزائدة وأيوب وحماد بن زيد عنه قبل الاختلاط وأن جميع من روى عنه غير هؤلاء فحديثه ضعيف لأنه بعد اختلاطه[مقدمة فتح الباري: ص: 424]۔

دوسری علت:
اس کی سند میں موجود حماد بن شعيب پر محدثین نے سخت جرح کی ہے مثلا:

امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
حماد بن شعيب التميمي أبو شعيب الحماني عن أبي الزبير يعد في الكوفيين فيه نظر [التاريخ الكبير للبخاري 3/ 25]۔

امام بخاری رحمہ اللہ کی فیہ نظر کہنا سخت جرح ہے۔

امام أبو زرعة الرازي رحمه الله (المتوفى264):
واهي الحديث حدث عن أبي الزبير وغيره بمناكير[الضعفاء لابي زرعه الرازي: 2/ 436]۔

اس کے علاوہ اوربھی محدثین نے حمادبن شعیب پرجرح کی ہے۔

نیز نیموی حنفی فرماتے ہیں:
قلت: حمادبن شعیب ضعیف [آثار السنن: ٧٨٥]۔

دوسرا اطریق :از ابوالحسناء:
امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458)نے کہا:
أنبأ أبو عبد الله بن فنجويه الدينوري ثنا أحمد بن محمد بن إسحاق بن عيسى السني أنبأ أحمد بن عبد الله البزاز ثنا سعدان بن يزيد ثنا الحكم بن مروان السلمي أنبأ أبو الحسن بن علي بن صالح عن أبي سعد البقال عن أبي الحسناء : أن علي بن أبي طالب أمر رجلا أن يصلي بالناس خمس ترويحات عشرين ركعة وفي هذا الإسناد ضعف والله أعلم [السنن الكبرى للبيهقي: 2/ 497]۔


یہ روایت بھی ضعیف ہے کیونکہ ابوالحسناء مجہول ہے۔

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
أبو الحسناء بزيادة ألف قيل اسمه الحسن وقيل الحسين مجهول[تقريب التهذيب لابن حجر: 1/ 541]۔

مزید یہ کہ علی رضی اللہ عنہ سے اس کی ملاقات کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے۔

نیز نیموی حنفی اس روایت کے ضعیف ہونے کی دلیل دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
قلت: ومدار ھذا الاثر علی ابی الحسناء وھو لایعرف [آثار السنن:٧٨٥]۔

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
روى عن الحكم بن عتيبة عن حنش عن علي في الأضحية[تهذيب التهذيب 12/ 79]۔

یعنی اس نے دوسرے مقام پر دو واسطوں سے علی رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کیا ہے اورزیرنظر روایت میں اس نے سماع کی صراحت نہیں کی ہے لہٰذا حافظ ابن حجررحمہ اللہ کی اس صراحت سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ سے اس کی ملاقات نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔

تنبیہ:
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ حَسَنِ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي الْحَسْنَاءِ، «أَنَّ عَلِيًّا أَمَرَ رَجُلًا يُصَلِّي بِهِمْ فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً»[مصنف ابن أبي شيبة 2/ 163رقم 7681 ]

اگرکتابت کی غلطی نہیں ہے تو ابن ابی الحسناء بھی نامعلوم ہے ۔

تنبیہ بلیغ:
بعض لوگ علی رضی اللہ عنہ ہی کی طرف منسوب بیس رکعت والی ایک روایت شیعوں کی کتاب ’’مسند الامام زیدبن علی ص158‘‘ سے نقل کرتے ہیں۔
عرض ہے کہ اس کے جواب میں صرف یہ کہہ دینا کافی ہے کہ یہ شیعوں کی کتاب ہے اہل سنت کی نہیں ، مزید یہ کہ اس کتاب کا بنیادی راوی ابو خالد عمر و بن خالد الواسطی کذاب ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
تیسری موقوف روایت
(عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ پرموقوف روایت)


امام مروزي رحمه الله (المتوفى294)نے کہا:
أخبرنَا يحيى بن يحيى أخبرنَا حَفْص بن غياث عَن الْأَعْمَش عَن زيد بن وهب، قَالَ: (كَانَ عبد الله بن مَسْعُود يُصَلِّي لنا فِي شهر رَمَضَان) فَيَنْصَرِف وَعَلِيهِ ليل، قَالَ الْأَعْمَش: كَانَ يُصَلِّي عشْرين رَكْعَة ويوتر بِثَلَاث) [ قیام اللیل للمروزی بحوالہ عمدة القاري شرح صحيح البخاري 11/ 127]۔

یہ روایت ضعیف ہے اس میں درج ذیل تین علتیں ہیں:

پہلی علت :
یہ روایت منقطع ہے، سلیمان بن مہران الاعمش نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا بلکہ موصوف عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد پیداہوئے۔

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی وفات٣٢ ہجری میں ہوئی ہے چنانچہ:
امام أبو نعيم رحمه الله (المتوفى430)نے کہا:
تُوُفِّيَ سَنَةَ اثْنَتَيْنِ وَثَلَاثِينَ بِالْمَدِينَةِ [معرفة الصحابة لأبي نعيم 4/ 1767]۔

اور سلیمان بن مہران الاعمش کی تاریخ پیدائش ٦٠ ہجری ہے۔
خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
أخبرني ابن الفضل، قال: أخبرنا دعلج بن أحمد، قال: أخبرنا أحمد بن علي الأبار، قال: حدثنا أبو عمار، قال: يعني: الحسين بن حريث، قال: سمعت أبا نعيم، يقول مات الأعمش وهو ابن ثمان وثمانين سنة وولد سنة ستين [تاريخ بغداد للخطيب البغدادي: 10/ 5 واسنادہ صحیح]۔

یعنی ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی وفات کے تقریبا ٣٠ سال بعد امام اعمش رحمہ اللہ پیدا ہوئے ۔
معلوم ہوا یہ روایت منقطع ہے۔


دوسری علت:
سلیمان بن مہران الاعمش نے عن سے روایت کیا اورموصوف مدلس ہیں۔
امام شعبة بن الحجاج رحمه الله (المتوفى 160)نے انہیں مدلس ماناہے:
قال الامام ابن القيسراني رحمه الله : أخبرنا أحمد بن علي الأديب، أخبرنا الحاكم أبوعبد الله إجازة، حدثنا محمد بن صالح بن هاني، حدثنا إبراهيم بن أبي طالب، حدثنا رجاء الحافظ المروزي، حدثنا النضر بن شميل. قال: سمعت شعبة يقول: كفيتكم تدليس ثلاثة: الأعمش، وأبي إسحاق، وقتادة[مسألة التسمية لابن القيسراني: ص: 47 واسنادہ صحیح]۔

امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
ولعل الأعمش دلسه عن حبيب وأظهر اسمه مرة[علل الدارقطني: 10/ 95]۔

امام ابن عبد البر رحمه الله (المتوفى 463)نے کہا:
وقالوا لا يقبل تدليس الأعمش لأنه اذا وقف أحال على غير ملىء يعنون على غير ثقة[التمهيد لابن عبد البر: 1/ 30]۔

صلاح الدين العلائي رحمه الله (المتوفى 761)نے کا:
وسليمان الأعمش والأربعة أئمة كبار مشهورون بالتدليس[جامع التحصيل للعلائي: ص 106]۔

امام أبو زرعة ابن العراقي رحمه الله (المتوفى 826)نے کہا:
سليمان الأعمش مشهور بالتدليس أيضاً[المدلسين لابن العراقي: ص: 55]۔

امام سبط ابن العجمي الحلبي رحمه الله (المتوفى 841)نے کہا:
سليمان بن مهران الأعمش مشهور به[التبيين لأسماء المدلسين للحلبي: ص: 31]۔

امام سيوطي رحمه الله (المتوفى 911)نے کہا:
سليمان الأعمش مشهور به بالتدليس [أسماء المدلسين للسيوطي: ص: 55]۔

ان کے علاوہ اوربھی بہت سے محدثین نے امام اعمش کو مدلس قراردیاہے۔

تنبیہ:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے طبقات میں انہیں دوسرے طبقہ میں رکھا ہے لیکن یاد رہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس سے رجوع کرلیا ہے کیونکہ النکت میں آپ نے امام اعمش رحمہ اللہ کو تیسرے طبقہ میں ذکر کیا ہے اور تلخیص میں ان کے عنعنہ کی وجہ سے ایک روایت کو ضعیف بھی کہا ہے۔

دکتور عواد الخلف نے صحیحین کے مدلسین پر دو الگ الگ کتاب لکھی ہے ان میں دکتور رموصوف نے امام اعمش کے بارے میں یہ تحقیق پیش کی ہے وہ طبقہ ثالثہ کے مدلس ہیں ، دکتور موصوف نے یہ بھی کہا ہے حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے طبقات میں انہیں دوسرے طبقہ میں رکھا ہے تو یہ ان کا سہہو ہے اور نکت میں انہوں نے درست بات لکھی ہے اوروہی معتبر ہے کیونکہ نکت کو حافظ ابن حجر نے طبقات کے بعد تصنیف کیا ہے۔

دکتور مسفر الدمینی نے بھی مدلسین پر ایک مستقل کتاب لکھ رکھی ہے انہوں نے بھی اعمش کو تیسرے طبقہ میں رکھا ہے اور طبقات میں حافظ ابن حجر کی تقسیم کو غلط قرار دیا ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
چوتھی موقوف روایت
(ابی بن کعب رضی اللہ عنہ پرموقوف روایات)


امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَسَنٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ ؟ قَالَ: «كَانَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ فِي رَمَضَانَ بِالْمَدِينَةِ عِشْرِينَ رَكْعَةً، وَيُوتِرُ بِثَلَاثٍ» [مصنف ابن أبي شيبة: 2/ 163 رقم 7684]۔

یہ روایت منقطع ہے عبدالعزیز نے ابی بن کعب کو نہیں پایا۔
عبدالعزیز بن رفیع کی وفات ١٣٠ ہجری میں ہوئی ہے (تھذیب) یا ١٣٠ ہجری کے بعد ہوئی ہے، چنانچہ:
امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
مات بعد الثلاثين ومائة[الثقات لابن حبان: 5/ 123]۔

اورموصوف نے ٩٠ سال سے زائد کی عمرپائی ہے چنانچہ:
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
قال مُحَمد بن حُميد، عن جَرِير : أتى عليه نيف وتسعون سَنَة[التاريخ الكبير للبخاري: 6/ 11]۔

اس حساب موصوف کی پیدائش ٣٠ ہجری کے بعد ہوئی ہے اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی تاریخ وفات کے بارے میں اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کہ ان کی وفات عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوئی جب کہ بعض کہتے ہیں عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوئی اوریہی راجح ہے چنانچہ:
امام أبو نعيم رحمه الله (المتوفى430):
اخْتُلِفَ فِي وَفَاتِهِ، فَقِيلَ: سَنَةَ ثِنْتَيْنِ وَعِشْرِينَ فِي خِلَافَةِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، وَقِيلَ: سَنَةَ ثَلَاثِينَ فِي خِلَافَةِ عُثْمَانَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، وَهُوَ الصَّحِيحُ لِأَنَّ زِرَّ بْنَ حُبَيْشٍ لَقِيَهُ فِي خِلَافَةِ عُثْمَانَ[معرفة الصحابة لأبي نعيم 1/ 214]۔

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
صحح أبو نعيم أنه مات في خلافة عثمان بخبر ذكره عن زر بن حبيش أنه لقيه في خلافة عثمان[تهذيب التهذيب لابن حجر: 3/ 180]۔

معلوم ہوا کہ عبدالعزیزبن رفیع نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا دور پایا ہی نہیں۔

مشہورحنفی نیموی کہتے ہیں:
عبد العزيز بن رفيع لم يدرك أبي بن كعب[٣٩٧].

لہٰذا یہ روایت منقطع ہے ۔
نیز یہ روایت منقطع ہونے کےساتھ ساتھ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے منقول صحیح روایت کے خلاف بھی کیونکہ متعدد صحیح روایات میں منقول ہے کہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے حکم سے گیارہ رکعات پڑھاتے تھے، مثلا :
امام مالك رحمه الله (المتوفى179)نے کہا:
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، أَنَّهُ قَالَ: أَمَرَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ وَتَمِيمًا الدَّارِيَّ أَنْ يَقُومَا لِلنَّاسِ بِإِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً قَالَ: وَقَدْ «كَانَ الْقَارِئُ يَقْرَأُ بِالْمِئِينَ، حَتَّى كُنَّا نَعْتَمِدُ عَلَى الْعِصِيِّ مِنْ طُولِ الْقِيَامِ، وَمَا كُنَّا نَنْصَرِفُ إِلَّا فِي فُرُوعِ الْفَجْرِ»[موطأ مالك : 1/ 115واسنادہ صحیح علی شرط الشیخین ومن طريق مالك رواه النسائی فی السنن الکبری 3/ 113 رقم 4687 و الطحاوی فی شرح معاني الآثار 1/ 293 رقم1741 وابوبکر النیسابوی فی الفوائد (مخطوط) ص 16 رقم 18 ترقیم الشاملہ و البیہقی فی السنن الكبرى 2/ 496 رقم 4392 کلھم من طریق مالک بہ]۔
سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب اور تمیم داری کو گیارہ رکعات تراویح پڑھانے کا حکم دیا ، سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ امام سوسو آیتیں ایک رکعت میں پڑھتا تھا یہاں تک کہ ہم طویل قیام کی وجہ لکڑی پر ٹیک لگا کرکھڑے ہوتے تھے اورفجرکے قریب ہی نماز سے فارغ ہوتے تھے۔
اس روایت کی استنادی حالت پرمفصل بحث کے لئے دیکھئے: آٹھ (٨) رکعات تراویح سے متعلق روایت موطا امام مالک کی تحقیق اورشبہات کا زالہ

اسی طرح یہ روایت عہدی نبوی میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے اس عمل کے بھی خلاف ہے جس پراللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رضامندی ظاہر کی تھی ، چنانچہ:
امام أبو يعلى رحمه الله (المتوفى307)نے کہا:
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، عَنْ عِيسَى بْنِ جَارِيَةَ، حَدَّثَنَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: جَاءَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ كَانَ مِنِّي اللَّيْلَةَ شَيْءٌ يَعْنِي فِي رَمَضَانَ، قَالَ: «وَمَا ذَاكَ يَا أُبَيُّ؟»، قَالَ: نِسْوَةٌ فِي دَارِي، قُلْنَ: إِنَّا لَا نَقْرَأُ الْقُرْآنَ فَنُصَلِّي بِصَلَاتِكَ، قَالَ: فَصَلَّيْتُ بِهِنَّ ثَمَانَ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ أَوْتَرْتُ، قَالَ: فَكَانَ شِبْهُ الرِّضَا وَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا [مسند أبي يعلى الموصلي :3/ 336 وقال الھیثمی:’’رواه أبو يعلى والطبراني بنحوه في الأوسط وإسناده حسن‘‘ ، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد 2/ 74]۔
جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اورکہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم گذشتہ رات (یعنی رمضان کی رات) مجھ سے
ایک چیز سرزد ہوئی ہے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا وہ کیا چیز ہے ہے ؟ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے گھر میں خواتین نے مجھ سے کہا کہ ہم قران نہیں پڑھ سکتیں لہٰذا ہماری خواہش ہے کہ آپ کی اقتداء میں نماز پڑھیں ، ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر میں نے انہیں آٹھ رکعات تراویح جماعت سے پڑھائی پھر وتر پڑھایا، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پرکوئی نکیر نہ کی گویا اسے منظور فرمایا۔
معلوم ہوا کہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے بیس رکعات تراویح ثابت نہیں بلکہ اس کے برعکس ان سے آٹھ رکعات تراویح کا ثبوت ملتا ہے ، والحمدللہ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
پانچویں موقوف روایت
(عبد الرحمن بن أبي بكرة رضی اللہ عنہ پرموقوف روایت)


امام ابن أبي الدنيا رحمه الله (المتوفى281)نے کہا:
حدثنا شجاع ، ثنا هشيم ، أنبا يونس ، قال : « شهدت الناس قبل وقعة ابن الأشعث وهم في شهر رمضان ، فكان يؤمهم عبد الرحمن بن أبي بكر صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم ، وسعيد بن أبي الحسن ، ومروان العبدي ، فكانوا يصلون بهم عشرين ركعة ، ولا يقنتون إلا في النصف الثاني ، وكانوا يختمون القرآن مرتين » وزاد المروزی : فإذا دخل العشر زادوا واحدة [فضائل رمضان لابن ابی الدنیا: ص: 53، قيام رمضان لمحمد بن نصر المروزي ص: 21 ]۔
يونس بن عبيد العبْدي البصري کہتے ہیں کہ میں نے اشعت کے فتنہ سے قبل ماہ رمضان میں لوگوں دیکھا انہیں صحابی رسول عبدالرحمان بن ابی بکرہ رضی اللہ عنہ ، سعیدبن ابی الحسن اورمروان العبدی امامت کرواتے اوریہ انہیں بیس رکعات پڑھاتے تھے اورآدھے رمضان کے بعد ہی وتر پڑھتے تھے اور دو دفعہ قران ختم کرتے تھے ۔ امام مروزی کی روایت میں یہ بھی ہے کہ جب آخری عشرہ آتا تھا تو چاررکعات مزید اضافہ کرلیتے ۔

اولا:
ہماری نظر میں یہ روایت ضعیف ہے اوراس کی سند کے ساتھ مذکورہ متن کا الحاق کسی راوی کا وہم ہے اس کی دلیل یہ ہے عین اسی طریق سے دیگر اوثق لوگوں نے روایت کیا تو اس میں دیگر متن کا ذکر ہے ، چنانچہ سب سے پہلے اس طریق پرغور کریں جویوں ہے:
حدثنا شجاع ، ثنا هشيم ، أنبا يونس بن عبید قال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اورعین اسی طریق سے اس روایت کو امام ابوداؤد جیسے ثقہ وثبت نے روایت کیا تو اس میں اسی طریق سے حسن بصری کی روایت یوں منقول ہے:
امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275)نے کہا:
حَدَّثَنَا شُجَاعُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنِ الْحَسَنِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ جَمَعَ النَّاسَ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، «فَكَانَ يُصَلِّي لَهُمْ عِشْرِينَ لَيْلَةً، وَلَا يَقْنُتُ بِهِمْ إِلَّا فِي النِّصْفِ الْبَاقِي، فَإِذَا كَانَتِ الْعَشْرُ الْأَوَاخِرُ تَخَلَّفَ فَصَلَّى فِي بَيْتِهِ، فَكَانُوا يَقُولُونَ أَبَقَ أُبَيٌّ»، قَالَ أَبُو دَاوُدَ: «وَهَذَا يَدُلُّ عَلَى أَنَّ الَّذِي ذُكِرَ فِي الْقُنُوتِ لَيْسَ بِشَيْءٍ، وَهَذَانِ الْحَدِيثَانِ يَدُلَّانِ عَلَى ضَعْفِ حَدِيثِ أُبَيٍّ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَنَتَ فِي الْوِتْرِ» [سنن أبي داود: 1/ 454 رقم 1429]۔

ظن غالب یہی ہے کہ اس طریق کے ساتھ ابوداؤد رضی اللہ عنہ کی روایت ہی درست ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ عین اسی طریق سے امام ابن ابی الدنیا نے دوسرے مقام یوں نقل کیا:
حدثنا شجاع بن مخلد ، قال : ثنا هشيم ، قال منصور : أنبا الحسن ، قال : كانوا يصلون عشرين ركعة ، فإذا كانت العشر الأواخر زاد ترويحة شفعين [فضائل رمضان ص: 56، ]۔

یہ روایت بھی شجاع ہی کے طریق سے ہے ، صرف ھشیم کے استاذ کی جگہ یونس کے بجائے منصور کاذکر ہے، غورکریں کہ مذکورہ طریق ہی سے یہ روایت بھی حسن بصری سے منقول ہے نیز اس روایت کے اخیرمیں یہ صراحت ہے کہ :
فإذا كانت العشر الأواخر زاد ترويحة شفعين

یہ بالکل وہی الفاظ ہیں جو زیربحث روایت میں بھی منقول ہیں جیساکہ امام مروزی کے حوالہ سے شروع میں ہی درج کیا گیا ، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ فی الحقیقت زیربحث روایت حسن بصری والی ہی روایت ہے جس میں کسی راوی کے وہم سے دوسری غیر معلوم السند روایت بھی ضم ہوگی ہے ۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ مذکورہ سند گرچہ بظاہر صحیح معلوم ہوتی ہے مگراس میں مخفی علت یہ ہے کہ اس کے متن میں راوی کے وہم کی وجہ سے دوسری روایت ضم ہوگئی ہے جس کی اصل سند نامعلوم ہے ، اوراس روایت کے ساتھ جو سند ہے وہ حسن بصری کی روایت والی سند ہے جو کی منقطع ہے ، لہٰذایہ روایت ضعیف ہے۔

شجاع بن مخلد کی متابعت کا جائزہ:

بعض حضرات کا کہنا ہے کہ نے شجاع بن مخلد کی متابعت کی ہے جیساکہ ابن عساکر نے کہا:
امام ابن عساكر رحمه الله (المتوفى571)نے کہا:
أخبرنا أبو غالب بن البنا أنا أبو محمد الجوهري أنا أبو عبد الله الحسين بن عمر بن عمران بن حبيش الضراب نا حامد بن محمد بن شعيب البلخي نا سريج بن يونس نا هشيم أنا يونس بن عبيد قال شهدت وقعة ابن الأشعث وهم يصلون في شهر رمضان وكان عبد الرحمن بن أبي بكرة صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم وسعيد بن أبي الحسن وعمران العبدي فكانوا يصلون بهم عشرين ركعة ولا يقنتون إلا في النصف الثاني وكانوا يختمون القرآن مرتين [تاريخ مدينة دمشق 36/ 13،رجالہ ثقات]۔

عرض ہے کہ یہ متابعت بجائے خود مختلف المتن ہے اس لئے کہ یہ جس طریق سے منقول ہے عین اسی طریق اسی روایت کو امام ابن الجوزی نے نے نقل کیا تو یہ متن نہ بیان کرکے حسن بصری کی روایت والا متن بیان کیا چنانچہ التحقیق لابن الجوزی میں عین اسی طریق کے ساتھ یہ رویت یوں ہے:
امام ابن الجوزي رحمه الله (المتوفى597)نے کہا:
أخبرنا به أبو المعمر أنبأنا محمد بن مرزوق أنبأنا أبو بكر أحمد بن علي أنبأنا أبو محمد الجوهري: ح و أنبأنا محمد بن عبد الملك عن الجوهري: أنبأنا الحسين بن عمر الضراب حدثنا حامد بن محمد بن شعيب حدثنا سريج بن يونس حدثنا هشيم أنبأنا يونس عن الحسن أن عمر بن الخطاب جمع الناس على أبي بن كعب فكان يصلي بهم عشرين ليلة من الشهر ولا يقنت بهم إلا في النصف الثاني فإذا كان العشر الأواخر تخلف فصلى في بيته [التحقيق في أحاديث الخلاف لابن الجوزی: 1/ 459 رجالہ ثٖقات]۔

معلوم ہوا کہ اس طریق کے متن میں بھی وہی اختلاف ہے جو شجاع بن مخلد کے طریق میں ہے یعنی اس طریق سے بھی دونوں روایت نقل کی گئی ہیں ، ایسی صورت میں مشکل یہ ہے کہ کی اس متابعت کو شجاع کے بیان کردہ کس متن کا متابع قراردیں گے ؟؟؟

ہم تو کہتے کہ اس متابعت کا بھی مختلف المتن ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ زیربحث روایت کا متن صحیح طور سے ضبط نہیں کیا جاسکا ہے اور اس میں کسی دوسری روایت کے متن کی بھی آمیزش ہوگئی ہے ہے ، یاد رہے کہ یہ طریق صرف انہیں روایات میں معروف ہے اور اس سے دیگر دیگرروایات منقول نہیں ہوئی ہیں لہٰذا تعدد متن اورتعدد روایت کی کوئی گنجائش نہیں ہے بلکہ لازمی بات یہی ہے کہ اس طریق سے نقل ہونا متن ایک ہی ہے ، اور ہماری نظر میں راجح بات یہ ہے کہ یہ متن حسن بصری والی روایت ہی کی متن ہے اوروجہ ترجیح وہی ہے جو ہم نے اوپربیان کی ہے۔



اس پوری تفصیل سے معلوم ہوا کہ شجاع بن مخلد کے طریق سے اصل روایت وہی ہے جو ابوداؤ میں ہے یعنی حسن بصری کی روایت ہے اوریہ روایت ضعیف ہے نیز اس میں عشرین رکعہ کے بجائے عشرین لیلہ ہے ۔


ثانیا:
یادرہے کہ اگراس روایت کو ثابت بھی مان لیں تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ عبدالرحمان بن ابی بکر بیس رکعات سنت سمجھ کرپڑھ رہے تھے کیونکہ روایت میں ایسی کوئی صراحت نہیں ہے بلکہ امام مروزی کی روایت سے پتہ چلتاہے کہ یہ لوگ سنت نہیں بلکہ مطلق نفل ہی کی نیت سے بیس رکعات پڑھتے تھے چنانچہ:

امام مروزي رحمه الله (المتوفى294)نے کہا:
يُونُسُ رَحِمَهُ اللَّهُ: «أَدْرَكْتُ مَسْجِدَ الْجَامِعَ قَبْلَ فِتْنَةِ ابْنِ الْأَشْعَثِ يُصَلِّي بِهِمْ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ وَسَعِيدُ بْنُ أَبِي الْحَسَنِ , وَعِمْرَانُ الْعَبْدِيُّ كَانُوا يُصَلُّونَ خَمْسَ تَرَاوِيحَ , فَإِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ زَادُوا وَاحِدَةً , وَيَقْنُتُونَ فِي النِّصْفِ الْآخِرِ , وَيَخْتِمُونَ الْقُرْآنَ مَرَّتَيْنِ»[قيام رمضان لمحمد بن نصر المروزي ص: 222]۔

اس روایت میں ہے کہ فَإِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ زَادُوا وَاحِدَةً ہے یعنی آخری عشرہ میں ایک ترویح کا اوراضافہ کرلیتے تھے ، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ لوگ نفل سمجھ کی ہی پڑھتے تھے لہٰذا اگراس روایت کو ثابت بھی مان لیا جائے تو اس سے بلاتعینن آٹھ رکعات سے زائد تراویح پڑھنے کا ثبوت ملتاہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
قسم ثالث: مقطوع روایات


بعض لوگ بیس رکعات تراویح کی مسنونیت میں بعض تابعین اور بعض اہل علم کے اثار پیش کرتے ہیں ۔

عرض ہے کہ تابعین اور بعد کے اہل علم کے اثار بالاتفاق حجت نہیں ہے ، لہٰذا ان کی استنادی حالت پر بحث کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔


خلاصہ کلام یہ کہ بیس رکعات تراویح پڑھنا نہ تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور نہ ہی کسی صحابی سے ، اس کے برعکس اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے آٹھ رکعات تراویح ہی ثابت ہے۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top