• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بین الاقوامی صیہونیت اور فری میسن تنظیم

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
فری میسن ایک بین الاقوامی یہودی تنظیم ہے۔ ہر ملک میںا س کے مراکز ہیں۔ جو لاج کہلاتے ہیں۔ اس کی رکنیت کے کئی مدارج ہیں جو ڈگری کہلاتے ہیں۔ ہر ڈگری کی رکنیت کے لئے کچھ شرائط ہیں اور ہر ڈگری کا رکن صرف اپنے برابر کی ڈگری والوں سے ربط ضبط رکھ سکتا ہے۔ اس درجہ بندی پر اس قدر سختی سے عمل کیا جاتا ہے کہ ایک ڈگری کا رکن دوسری ڈگری کے رکن کے رکن کے مقاصد اور خفیہ منصوبوں سے کسی طرح آگاہ ہو ہی نہیں سکتا۔ اونچے درجے کے اراکین کے مقاصد دوسرے اراکین سے، خواہ ان کی پوری زندگی فری میسن تنظیم کے رکن کی حیثیت میں گزری ہو انتہائی خفیہ اور رازداری میں رکھے جاتے ہیں۔
اس تنظیم کا طریقہ کار اتنا خفیہ ہے کہ اس کے بارے میں معلوم کر لینا تقریباً ناممکن ہے۔ لاجوں کی روئدادیں غیر معمولی طور پر خفیہ اور انتہائی رازداری میں رکھی جاتی ہیں اور ان کے ارکین کے علاوہ کسی اور کو اس کی ہوا تک نہیں لگنے دی جاتی۔
بہت چھان بین کرنے کے بعد مختلف ذرائع سے جو معلومات حاصل کر کے یکجا کی جا سکی ہیں ان کے مطابق لاج کے اراکین ایک دوسرے سے خفیہ کوڈمیں بات چیت کرتے ہیں اور وہ ایک دوسرے کو اپنے خفیہ اشاروں اور الفاظ کے ذریعہ پہچانتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ اپنی برادری کے اراکین کے دروازوں پر دقل باب کرنے کا بھی ان کاایک مخصوص انداز ہے اور یہ دنیا کے کسی حصے میں بھی چلے جائیں ایک دوسرے کو بہ آسانی شناخت کر لیتے ہیں۔ اگر کوئی فری میسن بیرون ملک سفر کرے تو اسے اپنے آدمی پہچاننے کے لئے کسی تعارف کی ضرورت نہیں ہوتی۔ سوشل اجتماعات جلسوں یا تقریبات میں، مختلف ملکوں میں بھی یہ لوگ ایک دوسرے کو بغیر کسی دشواری اور بغیر کوئی لفظ منہ سے نکالے صرف اپنے ہاتھ یا جسم کے خفیہ اشاروں کی زبان سے پہچان جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ان کا ایک عام اشارہ مثلث کا نشان ہے جسے آنکھ کہا جاتا ہے۔ اگر کسی اجنبی ماحول میں، کوئی فری میسن یہ معلوم کرنا چاہے کہ وہاں اس کی برادری کے اور کتنے افراد وہاں موج ہیں تو وہ صرف اپنے کوٹ یا واسکٹ کے بٹنوں کے درمیان رکھ کر ایک طرف اپنی انگلیوں سے مثلث بنائے اور دوسری طرف اپنے کوٹ کے دامن پر ایسا ہی مثلث بنائے تو برادری کے تمام اراکین جو اس جگہ موجود ہوں گے اسے فورًا شناخت کر لیں گے اور انہیں کوئی لفظ منہ سے نکالنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔
فری میسن عام طور پر ملک کے افسران کو اپنا رکن بناتے ہیں یا غیر ملکی بڑی بڑی کمپنیوں کے مالکان او رعہدیداروں کو۔ رکن بننے ک یلئے کسی خاص رنگ، مذہب، نسل یا قومیت کی قید نہیں ہے بلکہ اس ملک کے شہریوں کو رکن بنانے کی ہمت افزائی کی جاتی ہے اور اس کے بعد منصوبے کے مطابق انہیں اپنے ڈھب پر لایا جاتا ہے۔
ان لوگوں کو اس طرح استعمال کیا جاتا ہے کہ انہیں یہ پتا بھی نہیں چلتا کہ انہیں کس مقصد کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ برادری کے اراکین کی درمیان زبردست جذبہ محبت اور ہمدردی پیدا کر دیاجاتا ہے۔ محض لاج کی رکنیت کسی سرکاری افسر کے لئے اس کا حقدار بنادیتی ہے کہ اسے دوسرے افسران کی مقابلے میں جلدی ترقی ملے۔
یہ عین ممکن ہے کہ لاج کے اراکین میں صرف ایک آدھ یہودی ہو یا ممکن ہے کہ اس میں ایک بھی یہودی نہ ہو لیکن اس کی تنظیم اس طرز پر کی گئی ہے کہ یہ بالآخر عالمی صیہونیت کے مقاصد کی خدمت کرتی ہیـ
یہ تنظیم سب سے پہلے ۱۷۱۷؁ء میں انگلستان میں قائم کی گئی تھی۔ بعد میں اس تنظیم کی چار انجمنوں (لاجوں) کا ایک گرینڈ لاج میں اتضمام کر دیا گیا اور اس کے ساتھ ہی خفیہ اشاروں کا نیا نظام شروع کیا گیا۔ لندن کی گرینڈ لاج برطانیہ کی دوسری شاخوں کی سربراہ مقرر کی گئی۔
آئندہ صفحات میں صیہونیت کے دانا بزرگوں کی دستاویزات کے مطالعہ سے معلوم ہو گا کہ جہاں تک فری میسن کے ایک کام کی نوعیت کا تعلق ہے اس تنظیم کی قیادت صرف اور صرف یہودی ہاتھوں میں ہے۔
یہ دستاویزات بہت سے حقائق پر سے پردہ اٹھاتی ہیں۔ مثلاً یہ کہ اس خطرناک تنظیم کی جڑیں سرطان کی طرح ملکوں کی انتظامیہ میں پھیلی ہوئی ہیں اور ان کے ہاتھ اتنے لمبے ہیں کہ جس کا اندازہ لگایا ہی نہیں جا سکتا۔
عام طور پر لوگ اسے ایک عام سا کلب سمجھ کر اس کے رکن بن جاتے ہیں ۔ شروع شروع میں اپنی سادہ لوحی کی وجہ سے اس کا شبہ بھی نہیں ہوتا کہ انہیں کن مقاصد کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ لہٰذا ان کی نیک نیتی ی وفاداری پر کوئی شبہ نہیں کیا جا سکتا۔
ڈاکٹر حبیب الرحمن (الٰہی) علوی اپنی کتاب ’’جادو کی حقیقت‘‘ میں فری میسن تنظیم پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
’’اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمانؑ کے تابع کچھ شیاطین بھی کئے تھے۔ یہودیوں نے تورات میں جہاں بیشمار معنوی اور لفظی تحریفیں کی ہیں وہاں ان بدبختوں نے حضرت سلیمان کو جادوگر لکھ کر شیطان کو تابع بنانے کا جواز بھی پیدا کر لیا ہے اور اس عقیدے کی بنا پر دنیا بھر میں فری میسن کا جال پھیلا رکھا ہے۔ فری میسن لاج کو اسی بنا پر ’’جادوگر‘‘ بھی کہتے ہیں۔
یہودیوں کی اس تنظیم کا اصل مقصد مختلف ممالک میں سازش اور جاسوسی کرانا ہے۔ اور مشہور یہ کیا جاتا ہے کہ یہ سماجی اور تفریحی کلب ہیں اور اس کے ممبر آپس میں ایک دوسرے کی بے انتہاء مدد اور خیال کرتے ہیں۔ اور یہ بات کسی کے اس تنظیم کا ممبر بننے کے لئے اپنے اندر بہت بڑی کشش رکھتی ہے۔ خصوصًا جب کہ بادشاہ، نواب، راجے مہاراجے، اعلیٰ فوجی اور شہری حکام کے پائے کے لوگ بھی اس کے رکن ہوں۔ معاشرے کے یہی لوگ اپنے اپنے ملکوں کے اہم رازوں سے واقف ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر برطانیہ کے جارج پنجم (SUPREEM & GRAND WORSHIPFUL MASTER) تھے۔ افغانستان کے امیر حبیب اللہ خاں GRAND WORSHIPFUL MASTER)) تھے۔ مہاراجہ پٹیالہ اور نواب رام پور سر رضا علی خاں وغیرہ بھی اپنے اپنے لاجوں کے گرینڈ ورشپ فل ماسٹر رہے۔ لاج کی ممبروں کو شراب کے استعمال کی طرف خاص طور سے مائل کیا جاتا ہے۔ کیونکہ نشہ کی حالت میں بے تکلفی پیدا کر کے ہی راز اگلوائے جا سکتے ہیں۔
اس تنظیم کے عہدے دار اور ا علیٰ درجے کے ارکان کو (WORSHIPFUL MASTER) پرستش کے قابل آقا اور GRAND WORSHIPFUL MASTER)) عظیم پرستش کے قابل آقا وغیرہ عام اور زبان زد الفاظ کی وجہ سے نئے رکن کو جادو سیکھتے وقت شیطان کی پوجا کرنے میں کراہیت محسوس نہیں ہوتی۔ مختلف (TESTS) آزمائشوں سے گزرنے کے بعد جب کسی شخص کو لاج کا مستقل ممبر بناتے ہیں تو کسی شیطان ہمزاد کو اس کا تابع کیا جاتا ہے۔ (اس طریقہ کار کا جادو سیکھنے کے باب میں بیان ہوا ہے)۔ ہمزاد کو تابع کرتے وقت صرف یہی ایک کام اس کے سپرد کیا جاتا ہے کہ وہ اس رکن کی نگرانی کرنے کے لئے ہم وقت مسلط رہے گا کہ وہ لاج کا کوئی راز
افشا نہ کرنے پائے۔ فری میسن تاحیات اس شیطان سے نجات نہیں پا سکتا چاہے وہ کتنا ہی کہے کہ اب وہ فری میسن نہیں رہا‘‘۔ (جادو کی حقیقت صفحہ ۸۹ تا ۹۱)۔
پاکستان میں فری میسنری پر قانونی پابندی لگا کر اس کی لاجیں بند کر دی گئی تھیں۔ سوال یہ ہے کہ ان کے اراکین کہاں گئے؟ وہ اب بھی بالکل اسی طرح نہ صرف تاحیات اس کے رکن رہنے پر مجبور ہیں بلکہ نئی رکن سازی کا عمل بھی اسی طرح جاری ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ فرمیسن لاجیں بند کر دی گئی ہیں اور اب یہ کام زیر زمین ہو رہاہی۔ دستاویزات میں ان کے طریقہ کار پر بھی تھوڑی سی روشنی ڈالی گئی ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
بین الاقوامی صیہونیت اور اقوام متحدہ
صہونیوں کے دانا بزرگوں کی دستاویزات میں جگہ جگہ ایک سپر گورنمنٹ کا ذکر کیا گیا ہے۔ مثلاً چھٹی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ’’ہمیں ہر ممکنہ ذریعہ سے ایک ایسی سپر گورنمنٹ کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے جو رضاکارانہ طور پر اطاعت قبول کرنے والوں کو مکمل تحفظ کی ضمانت دے سکے‘‘۔
وکٹر ۔ ای۔ مارسڈن (جس نے ان دستاویزات کا ترجمہ روسی زبان سے انگریزی میں کیا) نے ا ن دستاویزات کے تعارف میں اقوامِ متحدہ کو اسی سپر گورنمنٹ کی طرف ایک قدم قرار دیا ہے۔
اس منصوبے کو بروئے کار لاتے ہوئے اول لیگ آف نیشنز قائم کی گئی اور بعد میں اقوام متحدہ کا قیام عمل میں لایا گیا۔
اس پس منظر میں اقوام متحدہ پر یہودیوں کے تسلط کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اقوام متحدہ کے دس انتہائی اہم اداروں میں ان کے اہم ترین عہدوں پر ۷۳ یہودی فائز ہیں۔ اقوام متحدہ کے صرف نیویارک کے دفترمیں بائیس شعبوں کے سربراہ یہودی ہیں اور یہ سب کے سب انتہائی حساس شعبے ہیں جو اس بین الاقوامی تنظیم کی پالیسیاں مرتب کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر یونیسکو (UNESCO) میں نو شعبوں کے سربراہ یہودی ہیں۔ آئی ۔ ایل ۔ او (I.L.O) کی تین شاخیں یہودی افسران کی تحویل میں ہیں۔ ایف ۔ اے ۔ او (F.A.O) کے گیارہ شعبوں کی سربراہی یہودیوں کے پاس ہے۔ عالمی بینک (WORLD BANK) میں چھ اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (I.M.F) میں نو شعبوں کے سربراہ وہ لوگ ہیں جن کا تعلق یہودیوں کی عالمی تنظیم سے ہے۔ یہ تمام عہدے جویہودیوں کے پاس ہیں انتہائی اہم اور حساس ہیں اور یہ لوگ ان کے ذریعہ تمام بین الاقوامی امور پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بے شمار یہودی اور ان کے گماشتے ہر ہر شعبے میں موجود ہیں۔ ذرا اندازہ لگائیے کہ اگر یہ افراد کسی مرکزی تنظیم کے زیر اثر کام کر رہے ہوں تو وہ عالمی سیاسیات، معاشیات اور مالیات کا رخ جس سمت چاہیں موڑ سکتے ہیں اور بعینہ یہی وہ کام ہے جو وہ سر ا نجام دے رہے ہیں۔
بہت سے لوگوں کو یہ معلوم ہو کر حیرت ہو کی کہ دنیا کے تمام ممالک میں یہودیوں کی خفیہ تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ بہت سے ملکوں میںانہیں اپنی علیحدہ کوئی تنظیم قائم کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں ہوتی چونکہ ان کے اپنے آدمی خفیہ طور پر ان ملکوں میں اہم مناسب پر تعینات کروائے جا چکے ہیں جہاں بیٹھ کر وہ ہر کام کروا سکتے ہیں جس کی انہیں ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر بدنام زمانہ سی۔ آئی۔ اے (C.I.A) ان کے انگوٹھے کے نیچے ہے جسے براہِ راست اسرائیل سے ہدایات ملتی ہیں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
صیہونی دانا بزرگوں کی دستاویزات
تعارف
(۸۴ویں انگریزی اشاعت (سنہ ۱۹۶۸؁ء) سے ماخوذ)
صیہونی دانا بزرگوں کی دستاویزات کو مختصراً ساری دنیا پر ایک خفیہ برادری کے تسلط کا خاکہ کہا جا سکتا ہے۔ ان کی تالیف کی حقیقت خواہ کچھ بھی کیوں نہ ہو، ان کے شائع ہونے کے بعد ان دستاویزات پر شدید بحثوں کا سلسلہ چل نکلا۔ اس میں بہرحال کوئی شبہ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ عالمی معاشرہ جس کا قیام ان دستاویزات کا نصب العین ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ ساری دنیا کو ایک پولیس اسٹیٹ میں تبدیل کر دیا جائے۔
وہ کتاب جس کے ذریعہ یہ دستاویزات سب سے پہلے منظر عام پر آئیں۔ پروفیسر سرجی نائلس (SERGEI A. NILUS) نے ۱۹۰۵؁ء میں روس میں شائع کی تھی۔ اس کتاب کا ایک نسخہ ۱۰ اگست سنہ ۱۹۰۶؁ء کو برٹش میوزم میں موصول ہوا۔ پروفیسر نائلس کا اس کتاب کو چھاپنے کامقصد یہ تھا کہ اس بھیانک سازش کو بے نقاب کیا جائے جو نصرانی کا اس کتاب کو چھاپنے کا مقصد یہ تھا کہ اس بھیانک سازش کو بے نقاب کیا جائے جو نصرانی تہذیب کوتباہ کرنے کے لئے تیار کی گئی تھی۔
اس کتاب کی اشاعت سے پہلے اگست اور ستمبر ۱۹۰۳؁ء میں روسی اخبار سنامیا (SNAMIA) یہ دستاویزات شائع کر چکا تھا اور غالباً ۱۹۰۲؁ء اور ۱۹۰۳؁ء کی خزاں میں بھی یہ دستاویزات ایک اور روسی اخبار (MOSKOWSKIJA WINDOMODTI) میں شائع ہوئی تھیں۔ روس کے باہر کی دنیا کو ان کا علم اس وقت ہوا جب بالشویک انقلاب کے بعد روسی تارکین وطن نائلس کی کتاب اپنے ساتھ شمالی امریکہ اور جرمنی لائے۔
کتاب کی اشاعت کے وقت تو اس کوئی خاص اہمیت نہیں دی گئی تھی لیکن جب بالشویک دور میں واقعات اسی طرح پیش آتے گئے جیسے کہ اس کتاب میں پیش گوئی کی گئی تھی تو یہ دستاویزات جو اب تک بالکل غیر اہم اور معمولی سمجھی جا رہی تھیں یکایک ساری دنیا میں اہمیت اختیار کر گئیں۔ بالشویک روس میں کسی کے پاس ان دستاویزات کی محض موجودگی کی سزا موت مقرر کی گئی اور یہ قانون نہ صرف روس بلکہ روس کے حواری ملکوں میں آج تک موجود ہے۔ آہنی پردے کے باہر جنوبی افریقہ میں بھی ان دستاویزات کا ا پنے پاس رکھنا (گو اس کی سزا اتنی سخت نہیں ہے) قابل سزا جرم ہے۔
ان دستاویزات کی بڑھتی ہوئی شہرت کی وجہ سے انہیں جعلی ثابت کرنے کی بیشمار کوششیں کی گئیں لیکن ۱۹۳۳؁ء میں جب تک یہودیوں نے قانونی چارہ جوئی نہیں کی یہ کوششیں کامیاب نہ ہو سکیں۔ ۲۶ جون ۱۹۲۳؁ء کو سوئٹزر لینڈ کی یہودی انجمنوں نے وفاق اور برن کی یہودی آبادی نے سوئس نیشنل فرنٹ کے پانچ اراکین پر مقدمہ دائر کر دیا اور عدالت سے استدعا کی کہ ان دستاویزات کو جعلی قرار دے کر ان کی اشاعت پرپابندی لگائی جائے۔ عدالت کی روداد غیر معمولی طور پر حیران کن ثابت ہوئی۔ اس میں سوئٹزر لینڈ کے دیوانی قوانین کو دیدہ و دانستہ نظر انداز کر دیا گیا۔ مدعیوں کے بلائے ہوئے چالیس گواہوں میں سے صرف ایک کو پیش ہونے کی اجازت مل سکی۔ جج نے بجائے اس کے کہ قانون کے مطابق عدالت کے مختصر نویس یہ کام کرتے، مدعیوں کواس بات کی اجازت دی کہ وہ نجی طور پر اپنے دو مختصر نویس عدالت میں لا کر ان کے اپنے گواہوں کی شہادت کی دوران عدالت کی کاروائی قلم بند کر سکتے ہیں۔
اس طرح کی اورا س کے علاوہ اور دوسری بدعنوانیوں کے پیش نظر یہ بات تعجب خیز نہیں کہ دو سال تک مقدمہ چلنے کے
بعد عدالت نے اپنا فیصلہ یہ صادر کیا کہ یہ دستاویزات جعلی اور بدنیتی پر مبنی ہیں۔ یہ فیصلہ ۱۴ مئی ۱۹۳۴؁ء کو سنایا کیا لیکن فیصلہ صادر ہونے سے قبل ہی یہودی پریس اسے باقائدہ شائع کر چکا تھا۔
یکم نومبر ۱۹۳۷؁ء کو سوئس فوجداری عدالت نے مدعیوں کی اپیل پر اس فیصلے کو یکسر پلٹ دیا لیکن یودی آج تک اسی فیصلے کا ڈھنڈورا پیٹے جا رہے ہیں کہ عدالت نے ان دستاویزات کو جعلی قرار دیا تھا۔ ان دستاویزات کی تشہیر کی وجہ سے چونکہ یہودیوں کے دوسرے منصوبے بھی عوامی توجہ کا مرکز بنتے جا رہے تھے اس لئے قدرتی طور پر ان کی یہی کوشش رہی کہ ان دستاویزات کو جعلی ہی سمجھا جاتا رہے۔
ڈسرائیلی (وزیر اعظم برطانیہ) کی کتاب ’’دی لائف آف جارج بئنک‘‘ میں جو ۱۸۵۲؁ء میں لکھی گئی تھی، مندرجہ ذیل حوالہ محل نظر ہے۔
’’یورپ کو ت باہ کرنے کی پچھلی سازش میں یہودی ہاتھ واضح طور پر کارفرما نظر آتا ہے۔ یہ بغاوت، روایت، اشرافیت، مذہب اور حق ملکیت کی خلاف تھی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ سامی تہذیب کے تمام نقوش کو صفحہ ہستی سے نیست و نابود کر دیا جائے خواہ وہ موسوی شریعت کی شکل میں ہوں یا عیسیٰ کی۔ خفیہ تنظیمیں، مساوات کے نام پر انفرادی حق ملکیت کے خلاف اعلانِ جنگ کر رہی ہیں۔ ان تمام خ فیہ تنظیموں کے اوپر ایک یہودی النسل سربراہ بیٹھا ہوا ہے۔ خدا کو ماننے والے بے دینوں سے تعاون کر رہے ہیں۔ جن لوگوں نے انتہائی عیاری سے دولیت سمیٹی ہے اور جائیدادیں بنائی ہیں وہ اشتمالیوں (کمیونسٹوں) کا ساتھ دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وہ قوم جو اپنے آپ کو خدا کی افضل ترین امت ہونے کا دعویٰ کرتی ہے یوروپ کی پست ترین اقوام کے ساتھ شیر و شکر ہو رہی ہے اور یہ سب کچھ اس لئے ہو رہا ہے کہ وہ اس احسان فراموش نصرانی دنیا کو تباہ کرنا چاہتے ہیں جس کا نام تک انہی کا دیا ہوا ہے اور جن کے مظالم وہ اب مزید برداشت نہیں کر سکتے‘‘۔
میکس نوردو (MAX NORDAU) نامی ایک یہودی نے اگست ۱۹۰۳؁ء میں باسل (BASLE) میں صیہونی کانگریس میں تقریر کرتے ہوئے یہ حیرت انگیز پیش گوئی کی تھی:
’’مجھے یہ الفاظ کہنے کی اجازت دیجئے کہ میں آپ کو وہ زینہ دکھاؤں جس کی سیڑھیاں صرف اوپر کی طرف اٹھتی چلی جا رہی ہیں۔ ہرٹزل صیہونی کانگریس منعقد ہو چکی ہے۔ اب برطانوی یوگنڈا کی تجویز پیش کی جائے گی، پھر جنگ عظیم ہو گی۔ اس کے بعد امن کانفرنس ہو کی جس میں انگلستان کی مدد سے فلسطین میں ایک آزاد یہودی ریاست وجود میں آئے گی‘‘۔
والٹر ریتھنو (WALTER RETHENAU) یہودی بینکار جو قیصر جرمنی کا پشت پناہ تھا اس کا ایک جرمن اخبار (WEINER FREI PRDSSE) میں ۲۴ دسمبر ۱۹۱۲؁ء میں یہ بیان شائع ہوا۔
’’صرف تین سو افراد جن میں سے ہر ایک باقی دوسروں سے بخوبی واقف ہے، یوروپ کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں اور وہ اپنے جانشینوں کا انتخاب اپنے ساتھیوں میں سے کرتے ہیں‘‘۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
ریتھنو کے اس قول کی تصدیق بیس سال بعد ۱۹۳۱؁ء میں اس وقت ہوئی جب ژاں ازولے (JEAN IZOULET) نے جو عالمی اسرائیلی اتحاد (ISRAELITE UNINERSELLE ALLIANCE) کا ایک سر گرم رکن تھا۔ اپنی کتاب ’’پیرس، مذاہب کا پایہ تخت‘‘ (PARISLA CAPITAL DES RELIGIONS) میں یہ لکھا
’’پچھلی صدی کی تاریخ کا ماحصل یہ ہے کہ تین سو یہودی سرمایہ کار جو فرامشن (FREE MASON) لاجوں کے ماسٹر ہیں، ساری دنیا پر حکومت کرتے رہے ہیں‘‘۔
لندن کے ایک یہودی اخبار جیوش کرانیکل (JEWISH CHRONICAL) نے اپنی ۴ اپریل ۱۹۱۹؁ء کی اشاعت میں لکھا کہ :
بالشویک تحریک حقیقت میں کچھ اور ہے ورنہ اتنے یہودی اس تحریک سے کیوں منسلک ہوتے۔ حقیقت یہ ہے کہ بالشویک تحریک کے مقاصد وہی ہیں جو صیہونیت کے ہیں‘‘۔
۱۵ مارچ ۱۹۲۳؁ء کے شمارے میں جیوش ورلڈ نے لکھا کہ:
’’بنیادی طور پر صیہونیت نصاریٰ دشمنی کا نام ہے یہ اور اس قسم کے دوسرے انکشافات جو یہودی حوالوں سے منظر عام پر آئے، یہودی نقطئہ نظر سے کافی ضرر رساں ثابت ہوئے۔ اگر ان تجریروں کو صیہونی دستاویزات کی روشنی میں، جن سے اب زیادہ سے زیادہ لوگ واقف ہوتے جا رہے ہیں، دیکھا جائے تو ایک بڑی بھیانک تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے‘‘۔
ان لوگوں کے خیالات کی ترجمانی کرتے ہوئے جنہیں نصرانی تہذیب پر بڑھتے ہوئے حملوں سے تشویش ہو رہی تھی، ہنری فورڈ سینئر (فورڈ موٹر کمپنی کے بانی) نے مندرجہ ذیل الفاظ میں اختصار سے بیان کیا ہے۔
۱۷ فروری ۱۹۲۱؁ء کو انہوں نے نیویارک کے اخبار ’’ورلڈ‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا :
’’ان دستاویزات کے بارے میں، میں صرف ایک بیان دینا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ واقعات بجنسہٖ اسی طرح رونما ہو رہے یہں جیسی کہ ان دستاویزات میں منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ یہ دستاویزات سولہ سال پرانی ہیں اور اب تک واقعات من وعن اسی طرح رونما ہوئے ہیں جیسی ان دستاویزات میںمنصوبہ بندی کی گئی تھی۔ آج کے حالات بھی ان کے عین مطابق ہیں‘‘۔
دوسرے لوگ جنہیں ہنری فورڈ کی طرح اس امر کا ادراک ہوا کہ نائلس کی کتاب کے شائع ہونے کے بعد سولہ سال کے اندر ہی رونما ہونے والے واقعات نے، ان دستاویزات کی اہمیت کی تصدیق کر دی، انہوں نے بھی اس زمانے میں بالشویک تحریک کے اثرات کا جائزہ لیا تھا لیکن ان میں سے صرف چند افراد ہی اس خطرے کی بو سونگھ سکے ہوں گے کہ یہ تحریک بین الاقوامی حیثیت اختیار کر جائے گی۔ اب جب کہ نائلس کی کتاب میں ان ستاویزات کی اشاعت کو نصف صدی گزر چکی ہے، ان حضرات پر جو عالمی کوائف کا معروضی معاہدہ کرتے رہے ہیں، یہ بات بالکل واضح ہو چکی ہو گی کہ یہ خطرہ کتنا حقیقی تھا۔
ان دستاویزات میں جگہ جگہ ایک ’’سپر گورنمنٹ‘‘کا ذکر کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر چھٹی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ:
’’ہمیں ہر ممکنہ ذریعہ سے ایک ایسی ’’سپر گورنمنٹ‘‘ کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے جو رضا کارانہ طور پر اطاعت قبول کرنے والوں کو مکمل تحفظ کی ضمانت دے سکے‘‘۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
دوسری جنگ عظیم کے بعد اقوام متحدہ کا قیام بعینہٖ اسی رضاکارنہ اطاعت کے اصول کے تحت عمل میں لایا گیا۔ اسی طرح اقوام متحدہ کے ذیلی ا دارے مثلاً یونیسکو، آئی۔ ایل۔ او، ڈبلیو۔ ایچ۔ او، ایف۔ اے۔ او، اور انسانی حقوق کا کمیشن وغیرہ قائم کئے گئے۔
پچھلے چند سالوں میں ایک اور بین الاقوامی تنظیم جو خود کو پارلیمانی تنظیم برائے عالمی حکومت کہلواتی ہے، قائم کی گئی ہے۔ اس تنظیم کے بھی وہی اغراض و مقاصد ہیں جو اس جیسی دوسری عالمی تنظیموں کے ہیں۔ یہ ادارہ برملا اعلان کرتا ہے کہ اقوام متحدہ کے منشور میں معمولی رد وبدل کے بعد اسے فوری طور پر ایک عالمی حکومت میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
کافی عرصے سے ایک عالمی پولیس فورس قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اگر یہ قائم ہو گئی تو اقوام متحدہ کی سپر گورنمنٹ انتہائی طاقتور پولیس فورس کے ذریعہ ساری دنیا پر اقتدار قائم کر سکے گی۔
۱۹۵۰؁ء کے عشرے کے آخری سالوں میں یہ پولیس فورس تقریباً قائم ہوتے ہوتے رہ گئی۔ ۱۹۵۶؁ء کے نہر سوئز کے بحران کے بعد اقوام متحدہ کی ایمرجنسی فورس کا قیام دراصل ایک تجرباتی منصوبہ تھا۔
اگر اقوام متحدہ کے منشور میں معمولی رد وبدل کے بعد اسے ایک سپر گورنمنٹ بنا دیا جائے تو اس کے ذیلی ادارے خودبخود وزارتِ تعلیم، وزارتِ محنت، وزارتِ صحت، وزارتِ انصاف اور وزارتِ خوراک بن جائیں گے۔
کیا یہ کوئی اتفاقی حادثہ ہے کہ ان تمام امور کی ان صیہونی دستاویزات میں منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ اس وقت صرف ایک مکمل عالمی سپر گورنمنٹ کا ہی خطرہ یا فوری خطرہ نہیں ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ مشرقی یوروپ کے ممالک کو روس کے تسلط میں لایا جا رہا ہے لیکن ساتھ ہی مغربی یوروپ کے حالات بھی مختلف نہیں ہیں۔ کیسا جیسا کہ بادی النظر میں معلوم ہوتا ہے، انہیں آزاد ممالک کی صف میں شمار کیا جا سکتا ہے؟ اصل میں اس کا حقیقت سے دُور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔ مغربی ممالک بھی، مشرقی یوروپ کے ملکوں کی طرح کمیونزم کے باڑے میں ہانکے جا رہے ہیں او رعام طور پر یہ سب کچھ ان ملکوں کو کمیونزم سے بچانے کے نام پر کیا جا رہا ہے کہ ان ممالک کو کمیونزم سے بچانے کا یہی واحد راستہ ہے۔ ۱۹۵۷؁ء کے اواخر میں یہ عمل کافی کامیابی کے ساتھ چلایا گیااور اس کا نام انحصار باہمی (INTERDEPENDENCE) کی پالیسی رکھا گیا۔
مغربی ممالک کو سیاسی، عسکری اور معاشی سطح پر بین الاقوامی تسلط میں لایا جا رہا ہے اور اسی طرح سماجی معاملات میں بھی انہیں تیزی کے ساتھ بین الاقوامیت کے زیراثر لانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور کہا یہ جاتا ہے کہ اپنی قومی خود مختاری قربان کر کے ہی وہ زندہ رہ سکتے ہیں۔ قومی اسمبلیوں کی جگہ یوروپین اسمبلی کو یا اطلانتک کونسل کو لے لینی چاہئیـ۔ ملکوں کی عسکری قوت کو ناٹو، بغداد پیکٹ یا سیٹو جیسے اداروں میں ضم ہو جانا چاہئیے۔ یہ اس لئے کیا جا رہا ہے تاکہ کسی ملک کا بھی اپنی دفاعی قوت پر اقتدار باقی نہ رہ سکے۔ اسی طرح قومی معیشتیں بھی آرگنائزیشن آف یوروپین کمیونٹی (OEEC) یوروپین پی منٹس یونین (EPU) اور ورلڈ بینک جیسے اداروں کی دست نگر کر دی جائیں تاکہ کوئی ملک بھی معاشی طور پر خود مختار نہ رہ سکی۔ ثقافتی سطح پر بھی قوموں کی تہذیبی انفرادیت کا خاتمہ ضروری سمجھا گیا۔ مثال کے طور پر کامن مارکٹ کے تحت وہ معاہدہ جو یوروپ کے چھ ملکوں کو معاشی طور پر منسلک کرتا ہے، اس میں ایک شق یہ بھی ہے کہ یہ ممالک ثقافتی ہم آہنگی کی پالیسی پر عمل کریں گے۔ یوروپ کے دوسرے ممالک کو بھی بشمول برطانیہ، فری ٹریڈ ایریا میں شامل کرنے کی سرتوڑ کوششیں ہو رہی ہیں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
۱۹۳۴؁ء میں برطانیہ کی لیبر پارٹی کے لیڈر (کلیمنٹ ایٹلی) نے جب پارٹی کی سالانہ کانفرنس کو بتایا تھا کہ ’’ہم دانستہ طور پر اپنی وفاداری اپنے ملک کی بجائے ایک عالمی تنظیم کو منتقل کر رہے ہیں تو بیشتر لوگوں نے بڑے بُرے بُرے منہ بنائے تھے۔
تئیس سال کا مستقل پروپیگنڈا بہرحال اپنا رنگ لائے بغیر نہ رہ سکا اور جب ۱۹۵۷؁ء میں برطانیہ کے ایک قدامت پسند (CONSERVATIVE) وزیر اعظم نے برطانوی عوام کو بتایا کہ انہیں اپنی خودمختاری کی تھوڑی سی قربانی ایک نامعلوم بین الاقوامی ٹولے کو دینی پڑے گی تو اس وقت احتجاج کی ایک آواز بھی نہ اٹھ سکی۔ ۱۹۵۷؁ء کے اختتام پر برطانوی حکومت نے ایک ایسے منصوبے کا سرکاری اعلان کیا جس کی پیش گوئی ساٹھ سال قبل صیہونی دستاویزات میں کی گئی تھی۔ ارل آف گاسفورڈ، جوائنٹ پارلیمنٹری انڈر سکریٹری آف اسٹیٹ برائے امور خارجہ نے ۷ نومبر ۱۹۵۷؁ء کو برطانیہ کے دارالامرا میں اعلان کیا:
’’مکہ معظمہ کی حکومت عالمی حکومت کے قیام کے منصوبے کی مکمل حمایت کرتی ہے۔ ہم اسے اپنی منزلِ مقصود تصور کرتے ہیں اور اس منزل پر پہنچنے کے لئے، ہر امکانی کوشش جو ہمارے بس میں ہے، کریں گے‘‘۔
ساری دنیا۔ فیڈریشن، اتحاد، علاقائیت اور باہمی انحصار کی طرف جا رہی ہے۔ ان تمام منصوبوں کے بارے میں صیہونی دستاویزات میں جو ،سرجی نائلس نے نصف صدی پہلے اپنی کتاب میںشائع کی تھیں، پیش گوئی موجود ہے۔
آج ان کے متعلق ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ یہ جعلی ہیں۔ کیا یہ سب اتفاقی حادثات ہو سکتے ہیں؟ کیا کسی جعلساز کے لئے اتنی بیش بینی ممکن تھی؟ یا ایسا ہے کہ یہ دستاویزات اس سازش کا خاکہ ہیں جس کی متعلق نائلس اور دوسرے لوگوں کو یقین تھا کہ یہ نصرانی تہذیب کو تباہ و برباد کر کے ساری دنیا پر ایک چھوٹے سے مخصوص ٹولے کی حکمرانی اور تسلط قائم کرنے کے لئے تیار کی گئی ہیں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
وضاحتیں
۱۔ ایجنٹر (AGENTUR)اور پولیٹیکل۔
انگریزی ترجمے میں دو ایسے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جن کے معنی غیر معروف ہیں۔ ایجنتر اور پولیٹیکل کے الفاظ دراصل اسم ذات کے طور پر استعمال ہوئے ہیں۔ ایجنٹر غالباً اصل مسودہ سے لیا گیا ہے اور اس سے مراد گماشتوں کی وہ پوری تنظیم ہے جو صیہونی دانا بزرگوں کے لئے کام کرتی ہے خواہ وہ اس گروہ کی رکن ہوں یا اس کے سربراہ ہوں۔ پولیٹیکل کے معنی مسٹر مارسڈن (انگریزی مترجم) کے خیال میں سیاسی ادارہ نہیں بلکہ سیاست کی پوری مشینری ہے۔
۲۔ سانپ۔ صیہونیت کا علامتی نشان۔
تیسری دستاویز صیہونیت کے علامتی نشان کے حوالے سے شروع ہوتی ہے۔ نائلس نے ان دستاویزات کی ۱۹۰۵؁ء کی اشاعت کی آخری صفحات میں اس علامتی نشان کو مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کیا ہے:
’’صیہونیت کے خفیہ تاریخی شواہد کے مطابق حضرت سلیمان اور دوسرے یہودی بزرگوں نے ۹۲۹؁ قبل مسیح میں ہی تسخیر عالم کا ایک تصوراتی خاکہ مرتب کر لیاتھا۔ جوں جوں تاریخ کے اوراق پلٹتے گئے، اس منصوبے کی جزئیات واضح ہوتی گئیں اور آئندہ آنے والی نسلوں میں سے ان لوگوں نے جنہیں، ان رازوں میں شریک کیا گیا تھا اس منصوبے کے خدوخال واضح کر کے اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ ان داناؤں نے سانپ کی روایتی عیاری اور مکاری کے ساتھ پرامن ذرائع استعمال کرتے ہوئے ساری دنیا پر صیہونی تسلط کا منصوبہ بنایا۔ اس روایتی سانپ کا سر وہ افراد ہیں جوصیہونی تنظیم کے باقاعدہ رکن ہیں اوراس کا جسم پوری یہودی قوم ہے۔ اس تنظیم کوہمیشہ سے خفیہ رکھا گیا ہے۔ یہاں تک کہ عام یہودیوں کو بھی اس کی ہوا تک نہیں لگنے دی جاتی۔ جب یہ سانپ کسی قوم کے قلب میں داخل ہوتا ہے تو اس ملک کی تمام غیر یہودی قوتوں کو اپنی گرفت میں لے کر نگل جاتا ہے۔ پیش گوئی یہ ہے کہ سانپ اس منصوبے کی جزئیات کے عین مطابق اپنا کام اس وقت تک جاری رکھے گا جب تک اس کا سر اس کی دم سے نہ مل جائے‘‘۔
اس طرح تمام ممکنہ ذرائع استعمال کرتے ہوئے، سانپ پورے یوروپ کے گرد اپنا حلقہ مکمل کرے گا اور اس طرح پورے یوروپ کو پا بہ زنجیر کرنے کے بعد یوروپ کے توسط سے ساری دنیا پر اپنا تسلط قائم کرے گا۔ ساری دنیا پر معاشی تسلط قائم کرنے کے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا جائے گا۔
سانپ کے سر کی صیہونیوں کو واپسی صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ معاشی بحران پیدا کئے جائیں، بڑے پیمانے پر تباہ کاری کی جائے اور اس کے لئے مذہب بیزاری اور اخلافی بدکرداری کی فضا قائم کی جائے۔
اس کام کے لئے خصوصیت سے یہودی عورتیں استعمال کی جائیں گی جو فرانسیسی اور اطالوی لڑکیوں کے روپ میں یہ کام کریں گی۔ یہ لڑکیاں ان ممالک کے اعلیٰ طبقوں میں بے لگام شہوت پرستی کی ہمت افزائی کر کے قابل تقلید مثالیں قائم کریں گی۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اس سانپ کے راستے کا نقشہ حسب ذیل ہے۔
پہلا مرحلہ: یوروپ میں ۴۲۹ قبل مسیح کا یونان جہاں پریکلس کے زمانے میں سانپ نے سا ملک کی طاقت کو ہڑپ کرنا شروع کیا۔
دوسرا مرحلہ: آگٹس کے زمانے میں رومی سلطنت ۶۹ قبل مسیح۔
تیسرا مرحلہ : چارلس پنجم ے زمانے کا میڈرڈ ۱۵۵۲؁ء ۔
چوتھا مرحلہ: پیرس ۱۷۹۰؁ء لوئی شش دہم کا زمانہ۔
پانچواں مرحلہ: لندن ۱۸۴۱؁ء کے بعدکا زمانہ ۔ (نپولین کی شکست کے بعد)۔
چھٹا مرحلہ: برلن ۱۸۷۱؁ء فرانس اور پریشیا سے جنگ کے بعد کا زمانہ۔
ساتواں مرحلہ: سینٹ پیٹرز برگ جس کے اوپر سانپ کا منہ بناہوا ہے اور اس پر ۱۸۸۱؁ء کی تاریخ درج ہے۔
یہ تمام ممالک جن سے یہ سانپ گزرا ان ممالک کے دساتیر کی بنیادیں ہلاتا چلا گیا۔ جرمنی بھی باوجود اپنی عظیم الشان طاقت کے اس سے مستثنیٰ نہیں رہ سکا۔ حالانکہ انگلستان اور جرمنی بدحالی کا شکار نہیں ہوئے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ سانپ کا روس پر تسلط ہونے کے بعد کیا ہوتا ہے جس پر اس کی اس وقت ۱۹۰۵؁ء تمام توانائیاں مرکوز ہیں۔
سانپ کا اگلا راستہ نہیں دکھایاگیا ہے لیکن تیر کے نشانوں سے اس کا رخ ماسکو،کیف اور اوڈیسہ کی طرف معلوم ہوتا ہے یہ بت سب کو معلوم ہے کہ مذکورہ شہر بنیاد پرست یہودیوں کے گڑھ ہیں۔
سانپ یروشلم پہنچنے سے پہلے قسطنطنیہ سے گزرتا ہوا دکھایا گیا ہے (یہ نقشہ ینگ ٹرک یعنی ترکی کے یہودی انقلاب سے بہت پہلے کا تیار کیاہوا ہے)۔
۳۔ گویم (GOYIM) کی اصطلاح
گویم کی اصطلاح جس کی معنی غیر یہودی کے ہیں دستاویزوں میں عام طور پر استعمال کی گئی ہے اور مسٹر مارسڈن نے اپنے ترجمے میں اسے جوں کا توں استعمال کیا ہے۔
اردو ترجمے میںگویم کے لئے غیر یہودی کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
پہلی دستاویز
بنیادی اصول طاقت ہی حق ہے
سیاسیات بمقابلہ اخلاقیات۔ نتائج ذرائع کو حق بجانب بناتے ہیں۔ ’’آزادی، مساوات اور اخوت‘‘ نئی اشرافیہ
پرشکوہ محاوروں کے استعمال سے گریز کرتے ہوئے ہم صرف نظریات کی اصلیت کے بارے میں بات کریں گے اور تقابلی جائزہ لے کر اور استنباط کر کے حقائق کے گرد و پیش پر روشنی ڈالیں گے۔
اب جو بات میں کہنے والا ہوں وہ یہ ہے کہ ہمارے نظام کو دو مختلف نقطہ ہائے نظر سے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک ہمارے اپنے نقطئہ نظر سے او ردوسرے غیر یہود کے نقطہ نظر سے۔
یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لیجئے کہ عوام کی اکثریت بری جبلت رکھنے والے افراد پر مشتمل ہے۔ اچھے لوگ بہت کم ہوتے ہیں اور اسی لئے ان پر کامیابی سے حکومت کرنے کے لئے علمی دلائل سے کام نہیں چلایا جا سکتا۔ حکومت کامیاب اسی وقت ہو سکتی ہے جب جبر و تشدد کے ذریعہ عوام کے دلوں پر دہشت بٹھا دی جائے۔
ہر شخص طاقت کا بھوکا ہے اگر ممکن ہو سکے تو ہر شخص مطلق العنان آمر بننا چاہتا ہے۔ ایسے لوگ شاذ و نادر ہی ملیں گے جو اپنے مفاد کے حصول کی خاطر دوسروں کی فلاح و بہبود فربان کرنے میں ذرا سی بھی جھجھک محسوس کریں۔
آج تک ان شکروں کو جنہیں ہم انسان کہتے ہیں کس چیز نے روکا ہوا ہے؟ اب تک کون ان کی راہنمائی کرتا رہا ہے؟
انسانی تہذیب کے ابتدائی ادوار میں ان کا سابقہ ایک ظالم اور اندھی طاقت سے رہا۔ بعد کے ادوار میں اسے قانونی حکمرانی کا نام دیدیا کیا۔ لیکن طاقت وہ کی وہ ہی رہی۔ صرف دوسرا پہنا دیا گیا۔ لہٰذا میں اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتا ہوں کہ قانون قدرت کی رو سے حق طاقت میں مضمر ہیـ سیاسی آزادی محض ایک نظریہ ہے۔ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اسے حسب ضرورت مروجہ حکومت کی قوت کو کچلنے کی لئے عوام کو اپنی پارٹی کے جال میں پھانسنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ کام اس وقت اور بھی آسان ہو جاتا ہے جب خود حکومت میں بھی آزادی کے نظریہ کے جراثیم موجود ہوں یعنی حکومت خود آزاد خیالی کی طرف مائل ہو اوراس آزاد خیالی کے نظریہ کے تحت دوسروں کو بھی اقتدار میں شریک کرنے پر تیار ہو۔ یہی وہ مقام ہے جہاں ہمارا نظریہ کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے۔ حکومت کی آزاد خیالی کی وجہ سے عوام پر اس کی گرفت ڈیلی پڑ جاتی ہے اور زندگی کے قانون کے مطابق یہ گرفت ڈھیلی پڑتے ہی حکومت کی باگ ڈور ایک نئے ہاتھ میں چلی جاتی ہے۔ عوام کی کور چشم طاقت ایک دن کے لئے بھی بغیر رہنما کے زندہ نہیں رہ سکتی اس لئے ایک نئی حکومت اس پرانی حکومت کی جگہ لے لیتی ہے جو اپنی آزادخیالی کی وجہ سے پہلے ہی سے کمزور ہو چکی ہوتی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ مذہب کی حکمرانی تھی لیکن موجودہ دور میں وہ طاقت جس نے آزاد خیال حکمرانوں کی جگہ لی ہے وہ ہے سونے کی طاقت۔
آزادی ایک ناممکن الحصول نظریہ ہے کوئی نہیں جانتا کہ اسے اعتدال کی حدود میں رکھ کر کس طرح استعمال کیا جائے۔ جوں ہی کسی قوم کو خود مختاری ملتی ہے وہ فوراً افراتفری او ربدنظمی کا شکار ہو جاتی ہے اس کے بعد باہمی کشمکش شروع ہو جاتی ہے جو طبقاتی جنگ میں بدل جاتی ہے اور جب ایک مرتبہ یہ جنگ شروع ہو جائے تو ملک کی حیثیت اس آگ میں جل کر راکھ کے ڈھیر سے زیادہ نہیں رہ جاتی۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
کوئی ملک یا تو اپنے داخلی خلفشار اور سیاسی تشنج کی وجہ سے تھک کر خود ہی دم توڑ دیتا ہے یا پھر اندرونی رقابتوں کی وجہ سے اسکا کوئی دشمن ملک اس پر تسلط حاصل کر لیتا ہے۔ دونوں صورتوں میں اس میں دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی صلاحیت باقی نہیں رہتی اور اس طرح مکمل طور پر یہ ہمارے زیر اثر آ جاتا ہے۔ سرمایہ کی استبدادی قوت جو مطلقًا ہمارے ہاتھ میں ہے اس ڈوبتے ہوئے ملک کے لئے تنکے کا سہارا بن کر اس کی مدد کو موجود ہوتی ہے اور یہ مدد اس ملک کو بجرو اکراہ اس لئے قبول کرنی پڑتی ہے کہ اگر ایسا نہ کرے تو بالکل ہی ڈوب جائے۔
اگر کوئی آزادخیال شخص یہ کہے کہ مندرجہ بالا طریقہ کار غیر اخلاقی ہے تو میں اس سے یہ سوال کروں گا کہ اگر کسی ملک کے دو دشمن ہوں ایک خارجی دوسرا داخلی۔ تو اگر خارجی دشمن کے مقابلے میںکسی بھی قسم کا حربہ استعمال کرنا غیر اخلاقی فعل نہیں ہے۔ (مثال کے طور پر دشمن پر حملے ا ور دفاع کے منصوبوں سے دشمن کو لا علم رکھنا اس پر شب خون مارنا یا اس پر اس کی تعداد سے زیادہ بڑی تعداد میں حملہ آور ہونا غیر اخلاقی فعل نہیں ہیں) تو پھر اس سے بھی بڑے دشمن کے لئے جو سارے معاشرے کا تار و پود بکھیر رہاہو یہ فعل کس طرح غیر اخلاقی اور ممنوع قرار دیا جاس کتاہے۔
کیا کوئی صحیح الدماغ آدمی یہ تصور کر سکتا ہی کہ عوام الناس کو منطقی دلائل اور براہین سے قائل کر کے ان کی صحیح رہنمائی کی جاسکتی ہے ۔ ان لوگوں میں جن کی ذہنی استعداد اور منطقی استدلال کی صلاحیت محض سطحی ہو، معمولی معمولی اعتراضات اور منفی دلائل خواہ وہ کتنے ہی ہیچ کیوں نہ ہوںزیادہ قبولیت حاصل کر لیتے ہیں۔ عوام صرف جذبات کی رو میں بہتے ہیں اور انہیں نظریات میں الجھا کر ان میں پھوٹ ڈالی جا سکتی ہے۔ اس کے بعد کتنے ہی معقول دلائل کیوں نہ پیش کئے جائیں ان میں اتحاد اور اتفاق کا امکان ختم ہوجاتا ہے۔
عوامی ہجوم کی قراردادوں کی قوت کا انحصار افراد کی کثرت پر ہوتا ہے اور یہ اکثریت سیاسی امور کی لاعلمی کی وجہ سے ایسے مضحکہ خیر فیصلے کراتی ہے کہ انتظامیہ طوائف الملوکی کا شکار ہو جاتی ہے۔
سیاسیات اور اخلاقیات کے مابین کوئی قدر مشترک نہیں ہے۔ جو حکمران اخلاقی قدروںکا دامن ہاتھ سے نہیں چھ,ٹا کبھی بھی پرکار سیاستدان نہیں بن سکتا اور اس وجہ سے اس کا راج سنگھاسن ہمیشہ ڈولتا رہتا ہے۔ جو حکومت کرنا چاہتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ عیار اور مکار ہو۔ اعلیٰ اخلاقی صفات مثلاً بے باکی، جرأت اور ایمانداری میدانِ سیاست میں گناہ ہیں۔ ایسی صافت حکمران کو اقتدار سے اس کے مقابلے میں جلدی سبکدوش کروا دیتی ہیں جتنی دیر میں وہ کسی طاقتور دشمن کے مقابلے میں ہوتا یہ خوبیاں غیر یہودی حکمرانوں میں ہونا احسن ہیں لیکن ہمیں ان سے سبق لینا چاہئیے۔
ہمارا حق طاقت میں پنہاں ہے۔ لفظ حق ایک موہوم نظریہ ہے اور اسے ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ اس لفظ کی معنی اسا کے علاوہ کچھ نہیں کہ ’’جو میں حاصل کرنا چاہتا ہوں مجھے دیدو تاکہ میں ثابت کر سکوں کہ میں تم سے زیادہ طاقتور ہوں‘‘۔
حق کہاں سے شروع ہوتا ہے کہاں ختم ہوتا ہے؟ جب کسی ملک کی مرکزی طاقت کمزور ہو جاتی ہے او رملک کے قوانین اور اس کے حکمراں آزادخیالی کی افزودگی کے نتیجہ میں حقوق کے سیلاب میں اپنا تشخص کھو بیٹھتے ہیں تو مجھے ایک نیا حق نظر آتا ہے اور وہ حق ہے طاقتور کے حملہ کرنے کا حق اور اس حق کو استعمال کر کے مروجہ نظام اور قوانین کی دھجیاں اڑانا، تمام فرسودہ اداروں کی تشکیل نو کرنا اور ان لوگوں پر اقتدار اعلیٰ حصال کرنا جنہوں نے اپنی آزاد خیالی کی وجہ سے اپنی طاقت کو اختیاری طور پر ہمارے قدموں میں لا ڈالا ہے۔
 
Top