• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بین الاقوامی صیہونیت اور فری میسن تنظیم

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
آٹھویں دستاویز
عارضی ہنگامی حکومت
بے باکی کا قانونی جواز۔ اعلیٰ ترین تعلیم و تربیت۔ بینکاروں، صنعت کاروں اور سرمایہ داروں کو قابو میں رکھنا ۔
ہمیں اپنے آپ کو ان تمام ہتھیاروںسے لیس کرلینا چاہئیے جو ہمارے دشمن ہمارے خلاف استعمال کر سکتے ہیں۔ ہمیں قانونی جوازی کی لغت کھنگال کر، ان اقدامات کو دست ثابت کرنے کے لئے جو غیر ملکی بیباک اور غیر قانونی نظر آتے ہوں، طرح طرح کے خوشنما الفاظ اور دقیق نکات تلاش کرنے چاہئیں۔ یہ بات بہت اہمیت رکھتی ہے کہ ان اقدامات کو الفاظ کا وہ جامہ پہنایا جائے جو اعلیٰ ترین اخلاقی قدروں اور قانون کے قالب میں ڈھلے ہوئے ہوں۔
ہمارے رہنما ادارے کو اس معاشرے کے بہترین دماغون کو اپنے گرد اکٹھا کر لینا چاہئیے جہاں ان سے کام کروانا مقصود ہو۔ اس کے پاس بہترین ناشر، پیشہ ور قانون داں، انتظامی امور کے ماہرین، سفات کار اور آخر میں خصوصیت کے ساتھ ایسے افراد ہونے چاہئیں جنہیں ہماری مخصوص درسگاہوں میں اس اہم علم کی تربیت دی گئی ہو۔ یہ افراد معاشرتی ڈھانچے کے تمام رازوں کی گہرائی سے کما حقہ واقف ہوں گے، انہیں ان تمام زبانوں کا علم ہو گا جن کی خامیاں سیاسی ابجد اور الفاظ سے پوری کی جا سکتی ہیں۔ وہ انسانی فطرت میں پوشیدہ خامیوں سے واقف ہوں گے اور انہیں انسانی جبلت کے ان تمام حساس تاروں کا علم ہو کا جنہیں چھیڑ کر انہیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیاجا سکتا ہے۔ یہ تار غیر یہودیوں کی دماغی ساخت، ان کی جبلتیں، ان کی کمزوریاں، انکے عیب اور خوبیاں ہیں۔ ان کے مختلف طبقوں کی مختلف عادات و خصائل اور ان کے حالات ہیں۔
یہ بتانا غیر ضروری ہے کہ اقتدار کے ذہین اہلکار جن کا میں ذکر کر رہا ہوں غیر یہودیوں میں سے نہیں لئے جائیں گے۔ غیر یہود اپنے انتظامی امور، بغیر اپنے آپ کو یہ معلوم کرنے کی زحمت دئیے ہوئے کہ اس کا اصل مقصد کیا ہے سرانجام دینے کے عادی ہیں۔ وہ اس پر غور ہی نہیں کرتے کہ بدلتے ہوئے حالات کے مطابق ان کا عمل کیا ہونا چاہئیے۔ غیر یہودی انتظامیہ کے افراد، کاغذات کو پڑھے بغیر دستخط کر دیتے ہیں۔ یہ لوگ صرف تنخواہ پانے کے لئے یا جاہ طلبی کی خواہش کے تحت کام کرتے ہیں۔
ہم اپنی حکومت کے گرد ساری دنیا کے ماہرین معاشیات کو اکٹھا کر لیں گے۔ اسی وجہ سے جو تعلیم یہودیوں کو دی جاتی ہے اس کے نصاب میں معاشی علوم کو ایک خاص اہمیت دی جاتی ہے ۔ ہمارے گرد بینکاری، صنعت اور سرمایہ کاری کے درخشاں ستاروں کی کہکشاں ہو گی اور سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہمارے گرد کروڑ پتی ہوں گے چونکہ ہر چیز کا آخری فیصلہ دولت ہی سے کیا جائے گا۔
اس وقت تک کے لئے، جب تک کہ ان حکومتوں میں یہودیوں کو اہم عہدوں پر فائز کرنے میں تمام خطرات دُور نہ ہو جائیں، ہم یہ عہدے ان لوگوں کودیں گے جن کا ماضی کا کردار اور شہرت اتنی داغدار ہو کہ ان کے اور عوام کے درمیان بداعتمادی کی ا یک گہری خلیج حائل ہو۔ ایسے افراد، جو اکر ہماری ہدایات کی حکم عدولی کی جرأت کریں تو ان پر فوجداری کے مقدمات قائم کئے جا سکیں یا انہیں لا پتہ کیا جا سکے۔ صرف اسی قسم کے لوگ آخری دم تک ہمارے مفادات کی حفاظت کرتے رہیں گے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
نویں دستاویز
تعلیم کے بعد تعلیم
سامی دشمنی کا مطلب۔ ہمہ گیر دہشت گردی کا منبع۔ جھوٹے الزامات کی ترویج اور ارتقاء
اپنے اصولوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے آپ کو اپنی توجہ اس قوم کے کردار پر مرکوز رکھنی چاہئیے جہاں آپ رہائش پذیر ہیں اور جہاں آپ کو کام کرناہے۔ عام طور پران اصولوں کو ہر جگہ یکساں طریقے پر رو بعمل نہیں لایا جا سکتا اور جب تک کہ عوام کو ہمارے اپنے مخصوص طرز پر تعلیم نہ دی جائے یہ اصول کامیاب نہیں ہو سکتے۔ لیکن اگراحتیاط سے قدم اٹھایا جائے تو آپ دیکھیں گے کہ دس سال کا عرصہ بھی نہیں گزرنے پائے گا کہ اس قوم کی رچی بسی عادتیں تک تبدیل ہونا شروع ہو جائیں گی اور جو قومیں پہلے ہی سے ہماری مطیع ہو چکی ہیں، ہم ان میں ایک اور قوم کا اضافہ کر لیں گے
آزاد خیالوں کے اقوال یعنی ’’آزادی‘‘ ’’مساوات‘‘ اور ’’اخوت‘‘ عملاً ہمارے فری میسن ہی کے دئیے ہوئے نعرے ہیں۔ جب ہم اپنی بادشاہت قائم کریں گے تو ان نعروں کی اتنی قلب ماہیت کر دیں گے کہ یہ ہمارے نعرے نہیں رہیں گے۔ اس کے بجائے یہ صرف خیالی تصور (IDELISM) کا ذریعہ اظہار رہ جائیں گے۔ یعنی ان کے معنی بدل کر ’’آزادی کا حق‘‘ مساوات کا فرض‘‘ اور ’’اخوت کا تصور‘‘ رہ جائیں گے۔ یہ ہیں وہ معنی جو ہم ان الفاظ کو دیں گے اور اس طرح ہم ان نظریات کی آنکھوں میںآنکھیں ڈال کر بات کریں گے۔
باوجودیکہ پچھلے قوانین میں سے کافی قوانین ابھی تک برائے نام باقی ہیں لیکن عملی طور پرہم اپنے قانون کے علاوہ اور تمام قوانین کو حرف غلط کی طرح مٹا چکے ہیں۔
اس زمانے میں اگر کوئی ملک ہمارے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتا ہے تو احتجاج کا طریقہ وہی ہوتا ہے جو ہم نے انہیں بتایا ہے۔ ان کی مبینہ سامی دشمنی (SEMETISMANT) ہمارے کمزور بھائیوں کی مدد کروانے کے لئے ضروری ہے۔ میں اسکی مزید وضاحت نہیں کروں گا۔ یہ مسئلہ متعدد بار ہمارے درمیان موضوع بحث بن چکا ہے۔ ہمارا دائرہ عمل لا محدود اور ہماری سپر گورنمنٹ ماورائے قانون خطوط پر استوار ہو گی ۔ ساے عرف عام میں آمریت کے سخت اور جابر نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ یہ بات میں بالکل صاف ضمیر سے کہہ سکتا ہوں کہ مناسب وقت آنے پر ہم ، جو قانون ساز ہیں، اپنے فیصلے صادر کریں گے اور سزائیں دیں گے، ہم موت کی سزا دیں گے اور جان بخشی کریں گے۔ ہم اپنی فوجوں کی سالار کی حیثیت سے، سپہ سالار کے گھوڑے پر سوار ہیں۔ ہم اپنے حزم کی قوت سے حکمرانی کرتے ہیںـ۔ ہمارے ہاتھ میں ایک ایسے طاقتور طبقے کی باقیات ہیں جسے ہم صفحہ ہستی سے مٹا چکے ہیں۔ ہمارے ہتھیار، لا محدود الوالعزمی، بھڑکتی ہوئی طمع، بے رحم انتقام کا جذبہ، نفرت اور کینہ ہیں۔
یہ ہم ہی ہیں جو ہمہ گیر دہشت گردی پھیلاتے ہیں ۔ ہمارے تنخواہ داروں میںہر مکتبہ فکر کے افراد ہیں۔ ہر مسلک سے تعلق رکھنے والے، شاہ پسند، شورش پسند، مجمع لگانے والے تقریر باز، اشتراکی، اشتمالی اور خوابوں کی دنیا میں بسنے والے شیخ چلی۔ ہم نے سب کو کام پر لگایا ہوا ہے۔ ان میں سے ہر ایک اپنے طور پر اقتدار کی باقیات کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ ہر مستحکم نظام کو تہ و بالا کرنے میں لگا ہوا ہے ۔ ان کی کارگزاریوں سے تمام ممالک اذیت سے دوچار ہیں۔ وہ سکون حال کرنے کے لئے بیتاب ہیں اور امن قائم کرنے کے لئے اپنا سب کچھ قربان پر تیار ہیں لیکن جب تک وہ ہماری سپر گورنمنٹ کو اعلانیہ تسلیم کر کے ہماری اطاعت قبول نہیں کریں گے ہم انہیں امن و سکون سے نہیں رہنے دیں گے۔
لوگوں نے اشتراکیت کے مسئلہ کو بین الاقوامی معاہدوں کے ذریعہ حل کرنے کی ضرورت پر شور مچایا ہوا ہے لیکن یہ لوگ چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں تقسیم ہونے کی وجہ سے کلی طور پر ہمارے زیر اثر ہیں۔ مستقل جدوجہد کرنے کے لئے رقم کی ضرورت ہوتی ہے اور رقم صرف ہمارے پاس ہے۔
ہمارے پاس یہ خطر محسوس کرنے کی معقول وجوہات ہیں کہ غیر یہودی بیدار مغز بادشاہوں اور ان کے عوام کے درمیان کوئی افہام و تفہیم ہو سکتی ہے لیکن ہم نے اس ممکنہ صورت حال سے نمٹنے کے لئے تمام ضروری اقدامات کر لئے ہیں۔ ان دونوں قوتوں کے درمیان ہم نے ایک دوسرے سے خوف کی ایک فصیل حائل کر دی ہے۔ اس طرح عوام کی کور چشم قوت ہماری مددگار بن گئی ہے۔ اور ہم اور صرف ہم ہی انہیں قیادت مہیا کر سکتے ہیں اور یہ قیادت انہیں اسی راستے پر چلائے گی جو ہماری منزل مقصود کی طرف جاتا ہے۔
اس بات کویقینی بنانے کے لئے کہ کور چشم عوام، ہماری قیامت سے برگشتہ نہ ہو جائیں، اسے عوام سے مسلسل رابطہ برقرار رکھنا پڑے گا۔ اگر یہ رابطہ ذاتی طور پر ممکن نہ ہو سکے تو ہمارے کچھ معتمد بھائی اسے قائم رکھیں گے۔ اس کے بعد جب صرف ہمیں ہی صاحبِ اقتدار تسلیم کر لیا جائے گا تو ہم لوگوں سے کھل کر بات کریں گے اور سیاسی امور کے بارے میں وہ ہدایت دیں گے جو انہیں اس سمت چلائیں گی جو ہمارے لئے سود مند ہو گی۔
اس بات کی کون تصدیق کرتا پھرتا ہے کہ دیہاتی مدرسوں میں کیا پڑھایا جا رہا ہے لیکن اگر کوئی بات کسی ملک کا سفیر کہے یا خود بادشاہ اس بارے میں کوئی بیان دے تو یہ بات سارے ملک کو معلوم ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ عوام خود ہی اس بات کو ہر جگہ پھیلا دیتے ہیں۔
اس خیال کے پیش نظر کہ غیر یہودی ادارے مقررہ وقت آنے سے پہلے ہی نیست و نابود نہ ہو جائیں ہم نے اس کا بندوبست بڑی عیاری اور نفاست سے کیا ہے۔ ہم نے ان کمانیوں پر قبضہ کیا ہوا ہے جو اس مشین کو چلاتی ہیں۔ یہ کمانیاں انتظامیہ کی مشین میں انتہائی حساس مقامات پر واقع ہیں۔ ہم نے وہاں آزاد خیالی کے نام پر افراتفری پھیلانے والوں کو بٹھایا ہوا ہے۔ ہمارے ہاتھ قانون نافذ کرنے والے اداروں میں موجود ہیں۔ انتخاب کرانے والے اداروں میں موجود ہیں۔ پریس میں ہیں، انسانی حقوق کے علمبردار اداروں میں ہیں لیکن خصوصیت کے ساتھ تعلیمی اور تربیتی اداروں میں ہیں جو آزاد وجود کا سنگ بنیاد ہیں ہم ان خود ساختہ نظریات اور مسالک کی تعلیم و ترویج کے ذریعہ جن کے متعلق ہم خود جانتے ہیں ہیں کہ یہ غلط ہیں، غیر یہود کے نوجوان طبقے کو ورغلا کر اخلاقی طور پر کنگال اور ذہنی طور پر پراگندہ کر چکے ہیں۔
مروجہ قوانین میں قابل تسخیر ترمیم کئے بغیر، ان ہی کو توڑ مروڑ کر متضاد توجیہات کے ذریعہ نتائج اخذ کر کے ہم نے پرشکوہ نظریات پیش کئے۔ شروع میں یہ نتائج اس طرح ظاہر ہوئے کہ توجیہات نے اصل قانون کو پس پشت ڈال دیا اس کے بعد چونکہ غیر یہود کے لئے قانون سازی کی گتھیوں کو سلجھانا ناممکن ہو گیا اس لئے یہ قوانین ہی حکومت کی نگاہ سے یکسر اوجھل ہو گئے۔ ثالثی کے نظریہ کی بنیاد اسی طرح پڑی۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ اگر غیر یہود کو معینہ وقت سے پہلے اس کا علم ہو جائے تو یہ ہوشیار ہو کر ہمارے خلاف شمشیر بکف صف بستہ ہو جائیں گے۔ اس متوقع خطرے کی ہم پہلے ہی پیش بندی کر چکے ہیں اور یہ منصوبہ اتنا خوفناک ہے کہ اسے سن کر بڑے بڑوں کا پتہ پانی ہو جائے گا۔ زیر زمین خفیہ تنظیمیں ایسی بارودی سرنگیں ہیں جو معینہ وقت آنے سے پہلے ہی تمام دارالحکومتوں کے نیچے بچھی ہوئی ہوں گی اور ایسے دھماکے سے پھٹیں گی کہ ان کے سارے ادارے معہ ان کی یادداشتوں کے محافظ خانوں کے اپنے ساتھ اڑا دیں گی۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
دسویں دستاویز
اقتدار کی تیاری
سیاسی آزادی کی قلب ماہیت۔عام رائے دہندگی۔ جمہوریتوں کا آغاز۔ فری میسن کے جبر و استبداد تک۔ فرمانروائے عالم کا اعلان۔ بیماریوں کا ٹیکہ۔
آج میں اپنی بات اسی کا اعادہ کر کے شروع کر رہا ہوں جو پہلے کہہ چکا ہوں اور آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لیں کہ امور مملکت کے بارے میں حکومتیں اور عوام صرف ظاہری شکل و صورت سے مطمئن ہو جاتے ہیں۔ حقیقت امر یہ ہے کہ غیر یہودی ان کی اصل حقیقت سے واقف بھی کیسے ہو سکتے ہیں جب کہ ان کے نمائندے اپنی بہترین صلاحیتیں لہو لعب پر صرف کر رہے ہوں۔ ہماری حکمت عملی کی کامیابی کے لئے اس کی جزئیات کو ذہن میں رکھنا بے حد ضروری اور اہم ہے۔ جب ہم تقسیم اقتدار، آزادی تقریر، پریس کی آزادی، مذہب اختیار کرنے کی آزادی، جماعت سازی کی آزادی، قانون کی نظر میں سب کی برابری، حق ملکیت کا تقدس، گھر کی چہار دیواری کی حرمت، محصولات (خفی محصولات سے مراد ہے) اور قوانین کی اضطراری قوت پر غور کریں گے تو یہ جزئیات بہت کارآمد ثابت ہوں گی۔ یہ تمام مسائل ایسے ہیں کہ ان کا ذکر کھل کر براہِ راست عوام کے سامنے نہیں کیاجا سکتا۔ لیکن اگر ان کا ذکر کرنا بالکل ہی ناگزیر ہو جائے تو ایسی صورت میں ہمیں قطعیت سے گریز کرنا چاہئیے۔ یعنی تفصیلی وضاحت کئے بغیر، اشارتًا ان کا ذکر کر دینا کافی ہے کہ ہم مروجہ قوانین کو تسلیم کرتے ہیں۔ ان معاملات میں خاموش رہنے کی وجہ یہ ہے کہ اگر ہم کسی قانون کی جزئیات کا اعلان نہ کریں تو ہم اپنے عمل کی آزادی برقرار رکھ سکتے ہیں اور کسی کی توجہ مبذول کرائے بغیر اس قانون کی جزئیات اور باریک پہلوؤں کو نظر انداز کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر قطعیت کے ساتھ ان کی تفصیلات بھی بیان کر دی جائیں تو ہم ان کے پابند ہو جاتے ہیں اور بالآخر یہ آزادیاں دینے پر مجبور ہوں گے۔
نادان عوام سیاستدانوں کی ذہانت اور فطانت کو بڑی عقیدت اور احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ان کی تشدد تک کو مستحسن سمجھتے ہیں۔ یہ شیطانیت ہی ہے لیکن ہے کتنی ذہانت کے ساتھ۔ آپ اگر چاہیں تو اسے ایک چال کہہ سکتے ہیں لیکن ذرا سوچئے تو سہی یہ چال کتنی عیاری اور مکاری کے ساتھ چلی گئی اور کتنے شاندار طریقے سے مکمل کی گئی ہے۔ کتنی دیدہ دلیری اور بیباکی کے ساتھ۔
ہمیں یقین ہے کہ تمام ممالک یہ جدید بنیادی ڈھانچہ قائم کرنا چاہیں گے جس کا منصوبہ ہم نے تیار کیاہے۔ اسی وجہ سے سب سے پہلی اور اہم ترین ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے آپ کو مکمل بیباکی اور ناقابل تسخیر روحانی طاقت سے لیس کریں۔ یہ قوت ہمارے عملی کارکنوں کی شکل میں ہماری راہ کی تمام مزاحمتوں کو تہس نہس کر دے گی۔
جب ہم ناگہانی انقلاب کی ضرب کاری لگا کر کامیاب ہو جائیں گے تو انقلاب کا جواز یہ پیش کریں گے کہ ہر چیز تباہ ہو گئی تھی اور عوام کی قوت برداشت جواب دے چکی تھی۔ ہم نے زمام اقتدار اپنے ہاتھوں میں اس لئے لی تاکہ عوام کے مصائب کی بنیادی وجوہات یعنی قومیتیں، سرحدیں اور کرنسی وغیرہ کے اختلافات ختم کئے جا سکیں۔ تمہیں یہ حق ہے کہ ہمارے لئے جو سزا
چاہو تجویز کرو لیکن فیصلہ کرنے سے پہلے یہ دیکھ لو کہ ہم تمہیں کیا پیش کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے تمہاری تجویز کی ہوئی سزا انصاف پر مبنی نہیں ہو سکتی۔ یہ سننے کے بعد لوگ ہمارا احترام کریںگے اور بیک زبان، فتح، امید اور توقعات کی خوشی میں جھومتے ہوئے ہمیں اپنے کندھوں پر بٹھا لیں گے۔
انتخابات، جنہیں ہم نے بڑی محنت اور جانفشانی سے بنی نوع انسان کی چھوٹی چھوٹی اکائیوں میں جلسے کرا کرا کے اور گروہوں کے درمیان معاہدے کرا کے ذہن نشین کروایا ہے یہی انتخابات دنیا کی تخت نشینی کے حصول میں ہماری مدد کریں گے۔ اب یہ اپنا مقصد پورا کر چکے ہوں گے اور صرف ایک مرتبہ اور۔ اور آخری مرتبہ ان سے یہ کام لیا جائے گا کہ ہمیں الزام دینے سے پہلے عوام یکزبان ہو کر اپنی خواہش سے ہماری طرف اپنی دوستی کا ہاتھ بڑھائیں گے۔
مطلق اکثریت، چونکہ صرف تعلیم یافتہ متمول لوگوں کے ووٹ دینے سے حاصل نہیں کی جا سکتی اس لئے اس مقصد کے حصول کے لئے ہم ہر فرد کو اس کے طبقے اور تعلیم کے امتیاز کے بغیر ووٹ دینے کا حق دلوائیں گے اور اس طرح ہر فرد میں اپنی اہمیت کا احساس اجاگر کر کے ہم غیر یہود میں خاندان کی اہمیت اور تعلیم کی قدر و قیمت ختم کر دیں گے۔ عوام، جن کی قیادت ہمارے ہاتھ میں ہو گی، ایسے افراد کو آگے آنے کا موقع نہیں دیں گے اور ان کی بات تک سننے کے روادار نہیں ہوں گے۔ عوام ہماری با ت سننے کے عادی ہو چکے ہ وں گے اور ہم ہی ان کی اطاعت اور توجہ خرید سکیں گے۔
اس طرح ہم ایک کور چشم ناعاقبت اندیش عظیم قوت پیدا کریں گے جو کبھی بھی اس قابل نہیں ہو سکے گی کہ ہمارے گماشتوں کی رہنمائی کے علاوہ جنہیں ہم نے عوام کا قائد بنایا ہے کسی اور کی رہنمائی قبول کرے۔ لوگ صرف انہی کی رہنمائی قبول کریں گے چونکہ انہیں باور کرا دیاگیاہو گا کہ ان کی معاشی فلاح ، خوشحالی اور حقوق کے حصول کا انحصار انہی قائدین پرہے۔
حکومت کی منصوبہ بندی صرف ایک فرد کو کرنی چاہئیے اگر اس منصوبہ بندی میں بہت سے دماغ شامل ہو جائیں تواس پر کبھی بھی کامیابی سے عمل درآمد نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا ہمیں صرف اس بات کی اجازت ہے کہ لائحہ کار کو سمجھ سکیں۔ اس پر گفتکو کرنے اور رائے زنی کی اجازت نہیں ہے۔ اگر رائے زنی کی اجازت دیدی جائے تو منصوبے کی اصل حقیقت کا بھانڈا پھوٹنے کا خطرہ ہے۔ منصوبے کی اجزائے ترکیبی کا ایک دوسرے پر انحصار ہوتا ہے اور اس کی ہر شق کے خفیہ مطالیب کی عملی قوت ہوتی ہے۔ لہٰذا منصوبے کی جزئیات کو معرض بحث میں لانا اور ان میں مختلف آراء کے مطابق ترمیمات کرنا، ان لوگوں کی ذہنوں میں غلط فہمیوں کی مہر تصدیق ثبت کروانے کے مترادف ہے جو اس سازش کی گہرائی اور گیرائی تک پہنچنے کے اہل نہیں ہے۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے منصوبے بیحد پروکار اورمعاملے کے ہر پہلو کو مدنظر رکھ کر تیار کئے جائیں لہٰذا ہمیں رہبر کی فطانت کے شاہکار کو عوام تو عوام، خواص تک کی رائے زنی کے حوالے نہیں کرنا چاہئیے۔
یہ حکمت عملیاں موجودہ اداروںکو ابھی تہ وبالا نہیں کریں گی وہ ابھی صرف ان کے معاشی معاملات پر اثرانداز ہوں گی جس کے نتیجے میں ان کی ترقی کی اجتماعی رفتار پر اثر پڑے گا لیکن اس کے بعد ہم اپنے منصوبے کے مطابق اس کا رخ اپنی حسب منشا سمت میں موڑ سکیں گے۔
کم و بیش ایک ہی چیز کو مختلف ملکوں میں مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ نمائندگی، وزارت، سینٹ، اسٹیٹ کونسل، مقننہ اور ا نتظامیہ وغیرہ۔ چونکہ آپ ان سب سے بخوبی واقف ہیں لہٰذا میں ان اداروں کے باہمی ربط کے طریقہ کار پر کسی وضاحت کی ضرورت نہیں سمجھتا۔ صرف یہ بات قابل توجہ ہے کہ یہ تمام مذکورہ ادارے مملکت کا کوئی نہ کوئی اہم فرض منصبی انجام
دیتے ہیں اور میں یہ کہنے کی اجازت چاہوں گا کہ لفظ اہم سے میری مراد بذاتِ خود وہ ادارہ نہیں بلکہ وہ فرض منصبی ہے جووہ انجام دیتا ہے۔ لہٰذا یہ ادارے نہیں جو اہمیت رکھتے ہیں، اصل اہمیت اس فرض منصبی کی ہے جو وہ انجام دیتے ہیں۔ ان اداروں نے حکومت کی جملہ ذمہ داریوں کو آپس میں تقسیم کیا ہوا ہے۔ انتظامی امور، قانون سازی اور نظم و نسق کے ادارے اسی طرح کام کرتے ہیں جس طرح جسم کے مختلف اعضاء جسم میں کام کرتے ہیں۔ اگر حکومت کے کسی ادارے کو مجروح کر دیاجائے تو پوری حکومت انسانی جسم کی طرح بیمار ہو کر مفلوج ہو جاتی ہے۔
جب ہم نے ریاست کے جسم میں آزاد خیالی کا زہر داخل کر دیا تو اس کا پورا سیاسی نظام درہم برہم ہو گیا۔ ملک ایک لاعلاج مرض میں مبتلا ہو گیا۔ زہر اس کے خون میں سرائیت کر گیا۔ اب صرف یہ باقی رہ جاتا ہے کہ اسے سسکنے کے لئے چھوڑ دیا جائے اور اس کی موت کا انتظار کیاجائے۔
آزاد خیالی کے تصور نے آئینی طرز پر چلنے والی حکومتوں کو جنم دیا اور ان حکومتوں نے اس ادارے کی جگہ لے لی جو غیر یہود کی حقوق کا واحد محافظ تھا۔ یعنی مطلق العنان حکمراں۔ آئینی حکومت جیسا کہ آپ کو معلوم ہے نفروں، غلط فہمیوں، جھگڑوں، اختلاف رائے، بے معنی احتجاج اور جماعتی انا کی تسکین کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے ۔ ایک جملے میں اس کی تعریف یوں کی جا سکتی ہے کہ یہ ایک ایسا ادارہ ہے جو ہر اس چیز کی خدمت کرتا ہے جو مملکت کی استعداد کے تشخص کو نیست و نابود کرتی ہے۔
افواہ سازی نے بھی حکمرانوں کو بے عملی اور بے بسی کا مجرم قرار دلوانے میں پریس سے کم اہم کردار ادا نہیں کیا اور بالآخر انہیں بے مصرف اور غیر ضروری تسلیم کروا دیا۔درحقیقت انہی وجوہات کی بناء بر اکثر ملکوں میں بادشاہت کو معزول کیا جا چکا ہے اور اس کے بعد ہی جمہوری حکومتوں کے قیام کا ایسا امکان پیدا ہو سکا کہ اسے روبعمل لایا جا سکے۔ اس کی بعد ہم نے حکمرانوں کے بدلے، صدر کی شکل میں ایک کاٹھ کا الو دیدیا جو عوام میں چنا جاتا ہے اور ان کٹھ پتلیوں کامنتخب کردہ ہوتا ہے جو ہمارے غلام ہیں۔
یہ اس بارودی سرنگ کی بنیاد تھی جو ہم نے غیر یہودی حکومتوں کے نیچے بچھائی بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہو گاکہ تمام غیر یہودیوں کے نیچے بچھائی تھی۔
مستقبل قریب میں ہم ان صدور کی ذمہ داریاں اور فرائض مرتب کریں گے اس وقت تک ہم کام چلانے کے تمام معروف طریقوں کو نظرانداز کرنے کے قابل ہو چکے ہوں گے جس کی ذمہ دار ہمارے بے نام کٹھ پتلی ہو گی۔ ہمیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ جاہ طلب افراد کی تعداد میں کچھ کمی واقع ہو جائے یا قحط الرجال کی وجہ سے مناسب صدر کی تلاش تعطل کا شکارہو جائے ایسا تعطل جو بالآخر ملک کا نظام درہم برہم کر دے۔
اس بات کو یقینی بنانے کے لئے ہماری حکمت عملی سے وہی نتیجہ نکلے گا جو ہم نکالنا چاہتے ہیں، ہمیں ایسے صدی کا انتخاب کروانا ہو گا جس کا ماضی کسی سربستہ گناہ سے داغدار ہو۔ اس طرح وہ ہمارے مقاصد کے حصول کے لئے زیادہ قابل اعتماد ثابت ہو سکے گا۔ چونکہ ایک طرف تو اسے یہ خوف لاحق ہو گاکہ کہیں ہم اس کا راز فاش نہ کر دیں اور دوسری طرف (جیسی کہ ہر اقتدار پسند کی خواہش ہوتی ہے) وہ خود ان مراعات، فوائد اور اس شان و شوکت کو جو صدر کے عہدے کا لازمہ ہوتی ہے، باقی اور قائم رکھنے کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرے گا۔
صدر کی حقوق کا تحفظ او راس کا انتخاب ایوان نمائندگان کر ے گا لیکن ہم نئے قوانین تجویز کرنے کا اور مروجہ قانون
میں تبدیلی کرنے کا حق ایوان نمائندگان سے واپس لے لیں گے۔ یہ حق صرف ایک ذمہ دار ہی کو سونپا جا سکتا ہے جو ہمارے ہاتھ میں کٹھ پتلی ہو۔ قدرتی طور پر صدر کے یہ وسیع اختیارات اسے ہر قسم کے حملوں کا ہدف بنا دیں گے۔ لیکن ہم اسے اپنی حفاظت کے لئے یہ حق دے کر کہ وہ عوام سے مرافعہ (اپیل) کر سکتا ہے، اسے اپنی حافظت کے ذرائع مہیا کر دیں گے تاکہ وہ انہی کور چشم عوام سے جو ہمارے غلام ہیں، ان کے اپنے نمائندوں کو نظر انداز کروا کے اپنے حق میں فیصلہ کرا سکے۔
اس کے علاوہ ہم صدر کو حالتِ جنگ کا اعلان کرنے کا حق بھی دیںگے۔ اس موخر الذکر حق کو حق بجانب ثابت کرنے کے لئے جواز یہ ہو گا کہ چونکہ نئی جمہوریہ کے آئین کا دفاع ضروری ہے اس لئے اس آئین کا ذمہ دار نمائندہ ہونے کی حیثیت سے یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ ملک کی تمام فوجوں کا سربراہ ہونے کی حیثیت سے وہ ان کی کمان کرے۔
یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں ہے کہ ان حالات میں درگاہ کی کنجی ہمارے ہی ہاتھ میں ہو گی اور ہمارے علاوہ کوئی دوسرا، قانون سازی کی قوت کی راہنمائی نہیں کر سکے گا۔
اس کے علاوہ، جمہوری آئین کے نفاذ کی ساتھ ہی مملکت کے رازوں کی حفاظت کے نام پر ہم ایوان نمائندگان سے حکومت کے اقدامات پر بحث کرنے کا حق بھی واپس لے لیں گے۔ علاوہ ازیں نئے آئین کی رو سے، ہم ایوان میں نمائندگان کی تعداد بھی کم سے کم کر دیں گے تاکہ اسی تناسب سے ان کی سیاسی ہوائے نفس اور سیاست کاری کم ہو سکے لیکن اگر اس کے باوجود، جس کی امید بہت کم ہے، وہ ذرا سابھی ہنگامہ کرنے کی کوشش کریں گے تو ہم عوام میں ان پر عدم اعتماد پیدا کر کے معاملہ عوام کی عدالت کے سپرد کر دیں گے۔ایوان نمائندگان کے صدر، نائب صدر اور سینٹ کے ارکان کا تقرر صدر کی صوابدیدہ پر ہو گا۔
بجائے اس کے کہ پارلیمان کے اجلاس تواتر کے ساتھ ہوں ہم ان کے اجلاسوں کی تعداد میں تخفیف ر کے ان کی مدت چند مہینوں تک محدود کر دیں گے۔ علاوہ ازیں صدر، انتظامیہ کا سربراہ ہونے کی وجہ سے پارلیمان کو بلا سکے گا اور اسے توڑ سکے گا اور متاخرہ صورت میں نئی اسمبلی کے تقرر کو لمبے عرصے کے لئے ملتوی کر سکے گا۔ لیکن اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کہ ان اقدامات کے عواقب کی ذمہ داری جو اصل میں غیر قانونی ہوں گے، ہماری حکمت عملی پوری ہونے سے پہلے، اس صدر پراثرانداز نہ ہو، ہم انتظامیہ کے دوسرے اعلیٰ افسران کو صدر کے احکامات کی مخالفت پر اکسائیں گے اور ان سے الٹے سیدھے فیصلے کروائیں گے تاکہ انہیں کالی بھیڑیں بنا کر ساری ذمہ داری ان پر ڈالی جا سکے۔ اس سلسلے میں ہماری تجویز یہ ہے کہ یہ کام بجائے کسی فرد واحد سے کروانے کے اداروں سے لیا جائے۔ مثلاً یہ کہ الٹے سیدھے فیصلے سینٹ یا کابینہ سے کروائے جائیں ۔صدر، مروجہ قوانین کی (جن کی مختلف تشریحات ممکن ہیں) ہماری صوابدیدہ کے مطابق تشریح کرے گا اور جب ہم اسے اس ضرورت کا احساس دلائیں گے کہ وہ قوانین کو منسوخ بھر کر سکے گا۔ اس کے علاوہ اسے عارضی قوانین تجویز کرنے کا حق بھی ہو گا۔ یہاں تک کہ حکومت کے معروف آئینی طریقہ کار سے انحراف کرتے ہوئے یکسر نئے اقدامات بھی کر سکے گا۔ یہ سب کام ملک کے بہترین مفاد کے نام پر پیش کئے جائیںگے۔
یہ اقدامات کر کے ہم شروع ہی میں تھوڑا تھوڑا کر کے ان اداروں کو ختم کرنے کی قوت حاصل کر لیں گے تاکہ جب ہماری حکومت قائم ہو تو ہمیں ایک دم یہ اقدامات نہ کرنے پڑیں۔ جب ہماری مطلق العنان حکومت قائم ہو جائے گی تو ہر قسم کا آئین منسوخ کر دیا جائے گا لیکن وہ وقت آنے سے پہلے اس درمیانی مدت میں یہ اقدامات بہت ضروری ہیں۔
آئین کی منسوخی سے پہلے ہی ہمارے مطلق العنان حکمران کو تسلیم کر لیا جائے گا اس کے تسلیم کئے جانے کا وقت وہ ہو گا جب حکومت کی بدعنوانیوں اور نااہلی سے بیزار ہو کر (جس کاہم عوام کو یقین دلا چکے ہوں گے) عوام خود چیخنے لگیں گے کہ ہمیں ان نااہل حکمرانوں سے بچاؤ اور ایسے حکمراں کی خواہش کرنے لگے گے جو انہیں متحد کر کے نفرت اور اختلاف کے اسباب، ملکی حدود، قومیتیں مذاہب اور ملکی قرضوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے اور انہیں ایسا امن و سکون مہیا کر سکے جو موجودہ حکمراں اور نمائندے فراہم نہیں کر سکتے تھے۔
لیکن آپ کو خود اس کا بخوبی علم ہے کہ اقوامِ عالم کی اس خواہش کے اظہار کو ممکن بنانے کے لئے یہ ناگزیر ہے کہ دنیا کے عوام کو ان کی حکومتوں کے خلاف صف آراء کیا جائے اور باہمی اختلافات ، نفرت، جدوجہد، جسمانی اذیت، بھوک، امراض و احتیاج اتنی بڑھا دی جائیں کہ انسانیت تھک کر چور ہو جائے اور غیر یہودیوں کے لئے ہماری دولتمند اور وسائل سے مالا مال حکومت کی محکومی کے علاوہ اور کوئی جائے قرار باقی ہی نہ رہے۔
لیکن اگر ہم نے دنیا کی اقوام کو سانس لینے کا موقعہ دیا تو وہ لمحہ موعود جس کی ہم دعائیں کر رہے ہیں شاید کبھی بھی نہ آ سکے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
گیارہویں دستاویز
مکمل مطلق العنان حکومت
نیا آئین۔ انسانی حقوق کا تعطل ۔ ’’تماشا‘‘ فری میسن لاجوں کی پلٹن
اسٹیٹ کونسل ہمیشہ سے حکمرانوں کے اقتدار کا مظہر رہی ہے۔ اب یہ مقننہ کا نمائشی ادارہ ہو جائے گی جسے حکمراں کے فرامین اور اس کی طرف سے جاری ہونے والے قوانین کی مجلس ادارت کہا جا سکتا ہے۔
اب نئے آئین کا لائحہ کار یہ ہو کا۔ ہم قانون بنانے ا ور حق و انصاف مہیا کرنے کے لئے مندرجہ ذیل طریقے استعمال کریںگے۔
۱۔ مقننہ کو تجاویز پیش کر کے۔
۲۔ صدر کے فرامین کو عام احکامات کی شکل میں اورسینٹ کے احکامات اور اسٹیٹ کونسل کی تجاویز کو وزارتی احکامات کی شکل میں جاری کر کے۔
۳۔ اگر مناسب موقع ملے تو ملک میں انقلاب برپا کر کے۔
تقریباً اس قسم کا طریقہ کار طے کر لینے کے بعد ہم ان مختلف عوامل کی جزئیات پر اپنی توجہ مرکوز کریں گے جن سے حکومت کی مشینری کا رخ متعینہ سمت میں موڑ کر انقلاب کو تکمیل تک پہنچانا مقصود ہے۔
ان مختلف عوامل سے میری مراد پریس کی آزادی، جماعت سازی کا حق، ضمیرکی آزادی، رائے دہندگی کے اصول اور اس قسم کی دوسری خرافات ہیں جو انسانی حافظے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محو کر دی جائیں گی یا نئے آئین کے نافذ ہوتے ہی ان میں بنیادی تبدیلیاں کر دی جائیںگی۔
یہی وہ وقت ہو گا کہ جب ہم اپنے قوانین کا ایک دم اعلان کریںگے چونکہ بعد میں کی گئی کوئی بھی قابل ذکر تبدیلی مندرجہ ذیل وجوہات کی بناء پر خطرناک ہو گی۔
* اگر کوئی تبدیلی لانے میں شدت برتی گئی اور اس میں کچھ پابندیاں اور سختیان ہوئیں تو اس قسم کی مزید تبدیلیوں کے خوف سے عوام میں بددلی پیدا ہوگی۔
* ان تبدیلیوں کے نتیجے میں اگر کچھ مراعات دی گئیں تو یہ سمجھا جائے گا کہ ہم نے اپنی غلطیوں کو تسلیم کر لیا ہے اور یہ احساس کہ منزہ عن الخطاء نہیں ہیں ہمارے وقار کو ٹھیس پہنچائے گا۔
* یا یہ سمجھا جائے گا کہ ہم خطرے کی بو سونگھ کر رعایات دینے پر مجبور ہو گئے ہیں اور چونکہ ان کی خیال کے مطابق یہ کام مجبوراً کیا گیا ہو گا اس لئے کوئی ہمارا شکریہ ادا نہیں کرے گا۔
ان تمام صورتوں میں نئے آئین کاوقار مجروح ہو گا۔ ہم چاہتے ہیں کہ نیا آئین نافذ ہونے کے فوراً بعد جب دنیا کے عوام انقلاب کی کامیاب تکمیل پر استعجاب کی حالت میں ہوں اور ان پر ابھی تک خوف ا ور بے یقینی کی کیفیت طاری ہو تو وہ قطعی طور پر یہ تسلیم کر لیں کہ ہم اتنے طاقتور، ناقابل تخریج اور قوت سے بھرپور ہیں کہ ہماری نظر میں ان کی کوئی اہمیت ہی نہیں اور جہاں تک ان کی رائے اور مطالبات پر توجہ دینے کا تعلیق ہے تو ہم محض اس کے اظہار کو اپنی ناقابل مزاحمت قوت سے کسی وقت اور کسی بھی جگہ کچلنے کی اہلیت رکھتے ہیں ا ور اس کے لئے تیار بھی ہیں۔ ہم جو کچھ چاہتے تھے وہ سب کا سب ایک دم حاصل کر چکے ہوں گے اور اس لئے انہیں اقتدار میں شریک کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ معلوم ہو جانے کے بعد وہ مارے خوف کے ہر چیز سے اپنی آنکھیں بند کر کے خاموشی سے یہ انتظار کرنے بیٹھ جائیں گے کہ دیکھیں اب کیا ہوتا ہے۔
غیر یہودی، بھیڑوں کا گلہ ہیں اور ہم ان کے لئے بھڑئیے اور آپ کو معلوم ہی ہے کہ جب بھیڑئیے گلے پر قابو پا لیتے ہیں تو اس وقت کیا ہوتا ہے۔
ان کی آنکھیں بند کرنے کی ایک وجہ اور بھی ہو گی اور وہ یہ کہ ہم انہیں مستقل دلاسے دیتے رہیں گے کہ جوں ہی ہم نے امن دشمنوں کی شورش فرو کی اور تمام جماعتوں کو اپنے قابو میں کر لیا، ہم انہیں وہ تمام آزادیاں دیدیں گے جو ہم نے ان سے چھینی تھیں۔یہ بات کہ انہیں آزادیاں ملنے کا کب تک انتظار کرنا پڑے گا، قابلِ گفتگو نہیں ہے۔
آخر ہم نے کس مقصد کے لئے اس تمام حکمت عملی کو اختیار کیا تھا اور غیر یہود کو اس کاموقع دئیے بغیر کہ وہ اس حکمت عملی میں مضمر معانی کا جائزہ لے سکیں، پوری طرح ذہن نشین کرایا تھا۔ اس کے علاوہ اس کی اور کیا وجہ تھی کہ ہماری منتشر قوم جو چیز سیدھے سبھاؤ حاصل نہیں کر سکتی تھی ہم نے وہی چیز گھما پھرا کر حاصل کرنی چاہی تھی۔ یہی وہ چیز تھی جو ہماری خفیہ تنظیم فری میسن کی بنیاد بنی جس کا نہ کسی کو علم ہے اور جس کے مقاصد اس سے کہیں زیادہ ہیں جتنا ان پر شبہ کیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے غیر یہودی ریوڑ اپنے آدمیوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے ہماری فری میسن لاجوں کی نمائشی پلٹن میں کھنچا چلا آیا۔
خدا نے ہمیں، جو اس کی منتخب امت ہیں۔ منتشر ہونے کی صلاحیت سے نوازا ہے اور اس صلاحیت میں جو دوسروں کی نظر میں ہماری کمزوری ہے، اصل میں ہماری طاقت مضمر ہے۔ ایسی طاقت جس نے ہمیں اب ساری دنیا کی مطلق العنان بادشاہت کی دہلیز پر لا کھڑا کیا ہے۔ ہم نے جو بنیادیں استوار کی ہیں اس پر عمارت تعمیر کرنا اب کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
بارھویں دستاویز
پریس کوقابو میں لانا
فری میسن۔ ’’آزادی‘‘۔ ذرائع نشر و اشاعت پر قبضہ۔ وشنو، پریس کا دیوتا۔
آزادی کے لفظ کی مختلف طرح سے تشریح کی جا سکتی ہے۔ ہم اس کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ ’’آزادی وہ کام کرنے کا حق ہے جس کی قانون اجازت دے‘‘۔ آزادی کے لفظ کی یہ تشریح مناسب موقع پر ہمارے کام آئے گی۔ چونکہ قانون صرف ان ہی چیزوں کی اجازت دے گا یا ممنوع قرار دی گا جو مندرجہ بالا حکمت عملی کے مطابق ہمارے لئے سود مند ہوں گی، اس لئے مکمل آزادی صرف ہمارے ہاتھ میں ہو گی۔ پریس سے ہم مندرجہ ذیل طریقے سے نمٹیں گے۔
موجودہ دور میں پریس کا کیا کردار ہے؟ یا تو ان جذبات کو ابھارتا اور ہوا دیتا ہے جو ہمارے مقاصد کے لئے ضروری ہوتے ہیں یادوسری جماعتوں کے خود غرضانہ مقاصد کی خدمت کرتا ہے۔ پریس عام طور پر خشک ہوتا ہے اور بے ایمانی اور دروغ گوئی سے کام لیتاہے۔ عوام کی اکثریت کو اس کا خفیف سا اندازہ بھی نہیں ہے کہ یہ اصل میں کس مقصد کے لئے کام کر رہا ہے۔ ہم اس پر زین کس کر لگام دیں گے اور یہی عمل ہم چھاپہ خانوں کی دوسری مطبوعات کے ساتھ کریں گے۔ چونکہ اگر ہم بدستور اشتہاروں اور کتابوں کی تنقید کا نشانہ بنتے رہیں تو صرف اخباروں کے منہ بند کرنے سے کیا فائدہ۔
اشتہارات، جن پر نظارت (CENSOR SHIP) کی پابندی کی وجہ سے کافی خرچ کرنا پڑتا ہے، انہیں ملک کے لئے ایک نفع بخش ذریعہ آمدنی میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ ہم ان پر ایک خصوصی محصول لگائیں گے اور کسی اشاعتی اداریے کو اجازت دینے سے پہلے اس سے کثیر زر ضمانت طلب کیا جائے گا۔ ان اداروں کویہ ضمانت دینی پڑے گی کہ وہ حکومت کے خلاف کوئی تنقیدی مواد شائع کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ لیکن اگراس کے باوجود بھی وہ ایسا کرنے کی جرأت کریں گے تو ہم ان پر بے دریغ جرمانے عائد کریں گے۔ یہ اقدامات یعنی محاصل، زر ضمانت اور جرمانے، حکومت کو کثیر آمدنی فراہم کریں گے۔ یہ درست ہے کہ وہ رسالے جو کسی جماعت کے ترجمان ہیں، رقم کی چنداں پرواہ نہیں کرتے لیکن اگر انہوں نے اس پابندی کے باوجود اس کی جسارت کی تو ہم انہیں بند کر دیں گے۔ کسی فرد کو ہماری حکومت کی غلطیوں پر، بغیر سزا ملے، انگلی اٹھانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ کسی اشاعت کو صرف یہ کہہ کر بند کیا جا سکے گا کہ یہ بلاضرورت اور بغیر کسی معقول وجہ کے عوام کے ذہن کو پراگندہ کر رہی تھی۔ برائے مہربانی یہ ذہن نشین کر لیجئے کہ ہمارے اوپر تنقید کرنے والوں میں ایسے اخبار بھی ہوں گے جنہیں خود ہم نے جاری کیا ہو گا لیکن وہ صرف ان اقدامات پر تنقید کریں گے جنہیں ہم خود ہی پہلے سے تبدیل کرنا چاہتے ہوں گے۔
ہماری اجازت کے بغیر کوئی خبر عوام تک نہیں پہنچ سکے گی۔ آج کل بھی یہ مقصد اسی طرح حاصل ہو رہا ہے چونکہ تمام خبریں چند خبر رساں اداروں کے ذریعہ سے ہی ملتی ہیں جن کے دفتروں میں یہ ساری دنیا سے آکر جمع ہوتی ہیں۔ اس وقت یہ سارے خبر رساں ادارے ہماری ملکیت ہوں گے اور صرف وہ خبریں شائع کریں گے جن کے شائع کرنے کا ہم حکم دیں گے۔
اگر ہم نے اپنی تدبیر سے غیر یہودی دماغوں کو اس حد تک اپنے قابو میں لے لیا ہے کہ وہ دنیا میں ہونے والے واقعات کو ان ہی رنگین شیشوں کی عینک سے دیکھتے ہیں جو ہم نے ان کی ناکوں پر لگا دی ہے۔ اگر اس وقت بھی کوئی ملک ایسا نہیں رہ کیا ہے جہاں ہماری اس چیز تک رسائی نہ ہو جسے غیر یہود حماقت سے ملکی رازوں کا نام دیتے ہیں تو سوچئے کہ اس وقت ہماری کیا حیثیت ہو گی جب ساری دنیا کے بادشاہ کی شکل میں ہمیں حکمرانِ اعلیٰ تسلیم کر لیا گیا ہو گا۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اب ذرا پھر چھاپہ خانہ کے مستقبل کی طرف آئے ہر وہ شخص جو چھاپہ خانے کا مالک، کتب خانے کا مہتمم یا ناشر بننا چاہے گا اسے یہ کام کرنے کے لئے ایک سند کی ضرورت ہو کی جو کسی بھی حکم عدولی کی صورت میں ضبط کی جا سکے گی۔ ان اقدامات سے فکر کا آلہ ہماری حکومت کے ہاتھ میں علم کا ایک ذریعہ بن جائے گا جو قوم کے عوام کو اس بات کی اجازت نہیں دے گا کہ وہ ترقی کی نعمتوں کے واہمے کو، خیال کی گلیوں میں بھٹکنے کے لئے چھوڑ دے۔ کیا ہم میں سے کوئی ایسا ہے جو یہ نہ چانتا ہو کہ خیالی نعمتیں احمق واہموں کی طرف جانے والی سیدھی شاہراہیں ہیں جو عوام میں طوائف الملوکی کو اور اقتدار کے مقابلے میں نراجیت کو جنم دیتی ہیں۔ چونکہ ترقی، بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہو گا کہ ترقی کے خیال نے ہر قسم کی نجات کے تصور کی بنیاد ڈالی ہے۔ لیکن یہ خیال اپنی حدود کا تعین کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ تمام نام نہاد آزاد خیال نراجی ہیں۔ اگر حقیقت میں نہیں تو فکری طور پر وہ ضرور نراجی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک، آزادی کے پیکر کو شکار کرنا چاہتا ہے اور اس کوشش میں وہ بے لگام غیر معتدل بے اصولی کے دلدل میں بلا شرکت غیرے دھنستا چلا جا رہا ہے۔ یعنی احتجاج برائے احتجاج کی بدنظمی اور افراتفری کا شکار ہوا جا رہا ہے۔
اب ہم ماہوار رسالوں کی طرف آتے ہیں۔ ہم ان پر بھی، دوسرے طبع شدہ مواد کی طرح ہر صفحہ کی اشاعت کے حساب سے محصول عائد کریں گے۔ اور اسی طرح ان سے بھی زر ضمانت رکھوائیں گے۔ جن رسالوں کی ضخامت تیس صفحہ سے کم ہو گی انہیں دوگنا محصول ادا کرنا پڑے گا۔ ہم انہیں اشتہاروں کے زمرے میں شمار کریں گے۔ اس طرح ایک طرف تو ان رسالوں کی تعداد، جو چھپا ہوا زہر ہیں، کم ہو جائے گی اور دوسری طرف یہ اقدام، لکھنے والوں کو لمبے لمبے مضمون لکھنے پر مجبور کر دے گا اور اس لئے لوگ انہیں پڑھ ہی نہ سکیں گے۔ خصوصیت سے اس وجہ سے اور بھی کہ ان کی قیمت زیادہ ہو گی۔ اس کے ساتھ ہم خود اپنے مقاصد کے حصول کے لئے متعینہ سمت میں ذہنی ارتقاء کو متاثر کرنے کے لئے جو کچھ چھاپیں گے وہ نہایت کم قیمت ہو گا اور لوگ ندیدوں کی طرح اسے پڑھیں گے۔ محاصل، خشک اور غیر دلچسپ ادب چھاپنے والوں کی امنگوں کو حدود میں رکھیں گے۔ اور جرمانے کا خطرہ ادیبوں کو ہمارے قابو میں رکھے گا۔ اگر کوئی ادیب ایسا ہوا بھی جو ہمارے خلاف لکھنے کی جرأت کرے تو اسے کوئی ناشر نہیں ملے گا۔ ہر طابع اور ناشر کو کوئی مواد چھاپنے کے لئے قبول کرنے سے پہلے ہم سے اجازت کی درخواست دینی پڑے گی اور اس طرح ہمیں پہلے سے ہی ان چالوں کا علم ہو جائے گا جو ہمارے خلاف چلی جا رہی ہوں گی۔ اور ہم پہلی سے ہی اس کی پیش بندی کر کے اس کے توڑ تیار کر سکیں گے۔
ادب اور صحافت عوام کا ذہن تیار کرنے کے لئے دو اہم قوتیں ہیں اور اس لئے بیشتر رسالے ہم اپنی حکومت کی ملکیت میں رکھیں گے۔ یہ رسالے نجی ملکیت کے پریس کے منفی اثرات زائل کریں گے اور رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کے ئے ہمارے ہاتھ میں ایک زبردست طاقت ہوں گے۔ اگر عوام کو ہم دس رسالوں کے اجراء کی اجازت دیں گے تو یہ اجازت اپنے تیس رسالوں کو دیں گے اور جتنے بھی رسالے چھپیں گے ان کا تناسب یہی رہے گا۔ عوام کو بہرحال اس کا شبہ بھی نہیں ہونے دیا جائے گا۔ عوام کی نظروں میں اپنا اعتماد بحال رکھنے کے لئے ہم جو رسالے چھاپیں گے وہ ظاہر بظاہر ہمارے مخالف ہوں گے اس طرح ہمارے مخالفین بھی کوئی شبہ کئے بغیر ہمارے ہمنوا بن جائیں گے اور ہمارے جال میں پھنس کر بے ضرر ہو جائیں گے۔
صف اوّل کے رسالے سرکاری نوعیت کے ہوں گے۔ یہ ہمیشہ ہمارے مفادات کی نگرانی کریں گے اور اس لئے ان کا اثر نسبتاً کم ہو گا۔
دوسری صف کے رسالے نیم سرکاری نوعیت کے ہوں گے جن کا کام یہ ہو گا کہ وہ غیر جانبداروں کی توجہ اپنی طرف
مبذول کرائیں۔
تیسری صف کے رسالے وہ ہوں گے جو ہم اپنی مخالفت کرنے کے لئے جاری کریں گے جو بظاہر کلی طور پر (کم ازکم ایک آدھ رسالہ ایسا ضرور ہو گا) ہماری حکمت عملی کی شدید مخالفت کریں گے۔ ہمارے ازلی دشمن اس مصنوعی مخالفت کو اپنی آواز سمجھ کر اپنا باطن ہمارے سامنے کھولتے رہیں گے۔
ہمارے یہ سب اخبارات تمام ممکنہ نظریات کے نقیب ہوں گے اس میں امراء کے حامی، جمہوریت پسند، انقلابی یہاں تک کہ نراجی نظریات والے اخبار بھی ہوں گے۔ ان سب باتوں کی اجازت بہرحال اس وقت تک ہو گی جب تک آئین کا وجود برقرار رہے گا۔
ہندوؤں گے دیوتا وشنؤ کی طرح اس کے سو ہاتھ ہوں گے اور ان میں سے ہر ایک کی انگلی حسب ضرورت رائے عامہ کے ہر شعبے پر رکھی ہوئی ہو گی۔ جب نبض کی رفتار تیز ہو گی یہ ہاتھ رائے عامہ کا رخ کے ہر شعبے پر رکھی ہوئی ہو گی۔ جب نبض کی رفتار تیز ہو گی یہ ہاتھ رائے عامہ کا رخ ہمارے نصب العین کی سمت موڑ دیں گے۔ چونکہ پریشان مریض میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت باقی نہیں رہتی لہٰذا جو تجویز اس کے سامنے پیش کی جاتی ہے وہ اسے آسانی سے قبول کر لیتا ہے۔ وہ احمق جو یہ خیال کریں گے کہ وہ کسی ایسے اخبار کی رائے سے ا تفاق کر رہے ہیں جو خود ان کے نظریہ کاحامل ہے تو وہ دراصل ہمارے نظریہ کی تائید کر رہے ہوں گے۔ یا کم سے کم وہ نظریہ ہمارے لئے قابل قبول ہو گا۔ وہ اپنے خیال میں تو اپنی جماعت کے اخبار کی رائے سے متفق ہوں گے لیکن اصل میں اس جھنڈے کے نیچے آگئے ہوں گے جو ہم نے اس کے لئے نصب کیا ہو گا۔
اپنے اخباروں کی پلٹن کی اس سلسلے میں رہنمائی کرنے کے لئے ہمیں بیحد احتیاط سے کام لینا پڑے گا اور ان کی تنظیم میں پھونک پھونک کر قدم اٹھانا ہوگا۔
پریس کے مرکزی شعبے کے نام سے ہم ادبی اجتماعات منعقد کرائیں گے جس میں ہمارے گماشتے بغیر کسی کی توجہ منعطف کرائے احکامات دیں گے اور اس دن کی لئے مخصوص موضوع پیش کریںگے۔ ان اجتماعات میں خوب بحث و تمحیص کی جائے گی لیکن یہ سب کچھ محض سطحی قسم کی ہوگی اور نفس مضمون کی بارے میں کوئی بات نہیں کی جائے گی۔ ان محفلوں میں ہمارے ا خبارات کی سرکاری اخبارات سے نورا کشتی کرائی جائے گی۔ اس طرح جو بات سرکاری اعلان کے ذریعہ عوام تک پہنچانی مقصود ہو گی اس کے مقابلے میں یہاں یہ بات زیادہ کھل کر اور واضح انداز میں بیان کی جا سکے گی اور ساتھ ہی اس کا اثر بھی زیادہ ہو گا۔ بہرحال یہ سب کچھ اسی صورت میں کیا جائے گا بشرطیکہ اس سے ہمارا مقصد پورا ہوتا ہے
اس طرح ہم خود تنقید کو دعوت دیکر ایک اور فائدہ حاصل کریں گے اور وہ فائدہ یہ ہو گا کہ ہم عوام کو یہ باور کرا سکیں گے کہ اظہار خیال کی مکمل آزادی ہے اور اس سے ہمارے گماشتوں کو بھی یہ ثابت کرنے کا موقع ملے گا کہ چونکہ ہمارے مخالفین ہمارے اقدامات پر کوئی معقول اعتراض نہیں کر سکتے اس لئے ان کی رائے زنی محض بکواس ہے۔
اس قسم کا طریقہ کار، گوکہ اس تک عام آدمی کے ذہن کی رسائی نہیں ہو سکتی، بالکل یقینی ہے اور یہ عوام کی توجہ حاصل کرنے اور حکومت پر اعتماد قائم کرنے میں شرطیہ کامیابی کا ضامن ہے۔ اس طریقہ کار کی بدولت ہم وقتاً فوقتاً حسب ضرورت عوام کا مزاج دیکھتے ہوئے کہ آیا وہ اسے پسند کریں گے یا نہیں، سیاسی امور پر ان کے جذبات برانگیختہ کر سکیں گے یا انہیں ٹھنڈا کر سکیں گے۔ انہیں ترغیب دے سکیں گے یا مسائل کو الجھا سکیں گے۔ کبھی سچی بات لکھوا دی کبھی بے پر کی اڑا دی۔ کبھی حقیقت کا
اظہار کر جیا کبھی اس کی تردید کرا دی مگر ہمیشہ بہت احتیاط سے ایک ایک قدم پھونک پھونک کر رکھنا پڑے گا۔
ہمارے مخالفین کے پاس چونکہ پریس کے وہ ذرائع نہیں ہوں گے جن کے ذریعہ وہ اپنے خیالات کا کما حقہ اور حتمی طور پر اظہار کر سکیں، ہم پریس کو مندرجہ بالا طریقہ سے استعمال کر کے اپنے مخالفین پر یقینی فتح حاصل کر سکیں گے۔ دراصل سوائے ایک رسمی سی تردید کرنے کے ہمیں ان کی اصل تردید کرنے کی ضرورت پیش بھی نہیں آئے گی۔
جب ضرورت محسوس ہو گی تو اپنے تیسرے درجے کے پریس سے اپنے اوپر تنقید کے آزمائشی تیر چلوا کر ہم اپنے نیم سرکاری اخباروں کے ذریعہ انہیں سختی سے جھٹلا دیں گے۔
صرف فرانسیسی پریس کی مثال لے لیجئے، آج کل بھی ایسے طریقے موجود ہیں کہ جن کے ذریعہ ایک خفیہ لفظ استعمال کر کے فری میسن کا اتحاد ظاہر کیا جا سکتا ہے۔
پریس کے تمام نمائندے پیشہ ورانہ رازداری کے تحت متحد ہوتے ہیں۔ محافت کے پیشے میں خبر کے ذریعہ کاانکشاف کرنا قابل بد سمجھا جاتا ہے اور کوئی صحافی خبر کے ذریعہ کا اس وقت تک انکشاف نہیں کر سکتا جب تک کہ تمام صحافی مل کر یہ طے نہ کر لیں گہ اسے فاش کر دیا جائے۔
جب تک کسی صحافی کے ماضی میں اس کے دامن پر بدنما داغ یا اس قسم کی کوئی چیز نہ ہو اسے صحافت کے میدان میں آنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ لہٰذا کوئی صحافی بھی خبر کا ذریعہ اس خوف سے ظاہر کرنے کی جرأت نہیں کر سکے گا کہ ایسا کرنے کی صورت میں اس کے اپنے بدنما داغ منظر عام پر لے آئے جائیں گے۔ کسی صحافی کا وقار، ملک کی اکثریت کی نظر میں اسی وقت تک بلند رہتا ہے اور لوگ اسی وقت تک اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جب تک کہ اس کا راز چند سینوں تک محفوظ رہے۔
ہمیں اپنے منصوبوں کو صوبوں میں خصوصیت کے ساتھ زیادہ وسعت دینی ہے۔ ہماری حکمت عملی کی کامیابی کے لئے یہ ناگزیر ہے کہ ان کی توقعات اور تحریکوں کو خوب بھڑکایا جائے تاکہ مرکز پر کسی وقت بھی دباؤ ڈالا جا سکے اور صورت حال اس طرح پیش کی جا سکے کہ یہ صوبوں کی اپنی جائز توقعات اور تحریکیں ہیں۔
قدرتی طور پر ان تحریکوں کا ماخذ ہمیشہ ایک ہی ہو گا یعنی ہم خود۔ ہمی ہ چاہتے ہیں کہ جب تک ہم مکمل قوت حاصل نہ کر لیں مرکز کا ناطقہ اس اکثریت کی رائے سے، جو ہمارے گماشتے صوبوں میں منظم کریں گے، مستقل تنگ رہے
ہمارے مقاصد کو بروئے کار لانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ مرکز کو نفسیاتی طور پر اس نقطہ پر پہنچا دیا جائے کہ وہ صوبوں کے مطالبات کو طے شدہ حقیقت سمجھ کر بات چیت کرنے سے پہلے ہی مان جائے اگر کسی اور وجہ سے نہیں تو صرف اس سیدھی سادھی وجہ سے ہی کہ یہ صوبوں کے عوام کی اکثریت کی آواز ہے۔
نئی حکومت قائم ہونے کے بعد سے لے کر اس وقت تک جب تک ہم مکمل مطلق العنانی حاصل نہیں کر لیتے، پریس کو اس بات کی اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ کسی بھی قسم کی بدعنوانی کو منظر عام پر لائے۔ اس وقت یہ تاثر دینا ضروری ہو گا کہ نئی حکومت سے ہر شخص اتنا مطمئن ہے کہ جرائم تک ختم ہو گئے ہیں۔ کسی جرم کا علم، سوائے اس فرد کے جو جرم کا شکار ہوا ہو یا جرم کا اتفاقیہ گواہ بن گیا ہو، کسی دوسرے فرد کو نہیں ہونے دیا جائے گا۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
تیرھویں دستاویز
توجہ بھٹکانا
نان شبینہ، تفریحی مراکز، شبہ سے بالاتر منصوبہ
نان شبینہ کی احتیاج غیر یہودیوں کو خاموش رہنے پر مجبور کرتی ہے اور ہمار زر خرید غلام بنائے رکھتی ہے۔ اخباروں میں کام کرنے والے ہمارے غیر یہودی گماشتے، ہمارے حکم کے مطابق ہر وہ چیز معرض بحث میں لائیں گے جو ہم اپنے طور پر سرکاری کاغذات میں شائع کرنا مناسب خیال کرتے ہوں گے۔ اس پر کافی چہ میگوئیاں ہوں گی لیکن ہم اسی دوران خاموشی سے اپنے حسب خواہش اقدامات کر کے عوام کے سامنے انہیں اس طرح پیش کریں گے گو وہ طے شدہ امور ہوں۔ اور جو بات ایک مرتبہ طے ہو گئی، اسے کوئی منسوخ کرنے کامطالبہ کرنے کی جرأت نہیں کرے گا۔ خصوصیت سے ا یسی صورت میں کہ اسے یہ کہہ کر پیش کیا جائے کہ یہ پہلے کے مقابلے میں بہتر ہے۔
اس کے بعد فورًا ہی اخبارات عوام کی توجہ کا دھارا نئے مسائل کی طرف موڑ دیں گے (کیا ہم نے لوگوں کو ہمیشہ نئی چیز کی جستجو کرنے کی تربیت نہیں دی؟) ان نئے مسائل کی بحث میں وہ عقل سے عاری لوگ بھی کود پڑیں گے جو ابھی تک بھی یہ نہیں سمجھے کہ جن مسائل پر وہ بحث کر رہے ہیں انہیں اس کا موہوم سا تصور بھی نہیں ہے۔ رموزِ مملکت سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے اس علم کی بنیاد رکھی اور صدیوں سے اس میں رہنمائی کر رہے ہیں، دوسروں کی فہم سے بالاتر ہیں۔
ان تمام باتوں سے آپ کو معلوم ہو گا کہ عوام کی رائے ہموار کر کے ہم صرف اپنے نظام کی کامیابی کی راہ ہموار کریں گے۔ آپ اسے یوں کہہ سکتے ہیں کہ ہم مختلف مسائل پر ان کی رائے سے، اپنے عمل کی نہیں بلکہ اپنے قول کی توثیق کرائیں گے۔ ہم بارہا اس کا اظہار کر چکے ہیں کہ ہم ہر معاملے میں اپنی رہنمائی اس امید اور یقین سے حاصل کرتے ہیں کہ ہم عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کام کر رہے ہیں۔
امور مملکت سے ان لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لئے جو خواہ مخواہ ان مسائل کو زیر بحث لا کر ہمارے لئے پریشانی کا باعث بن سکتے ہوں، اب ایسے مسائل پیش کئے جائیں گے جنہیں ہم امورِ مملکت کے نئے مسائل کا نام دیں گے۔ ان کا تعلق صنعتی شعبے سے ہو گا۔ اس میدان میں انہیں کھلی چھوٹ دیدی جائے گی کہ وہ اس پر جتنی چاہیں احمقانہ بحث کریںـ عوام بدستور غیر فعال رہیں گے اور اسے امور مملکت کا حصہ سمجھتے ہوئے اس بحث سے اس لئے اور لا تعلق رہیں گے کہ اس میں انہیں روزگار کے مواقع حاصل ہوتے ہوئے نظر آئیں گے اور جو کچھ ہم تجویز کر رہے ہیں وہ کم و بیش اسی سیاسی مقصد کے لئے ہے۔ (غیر یہودی حکومتوں کے خلاف استعمال کرنے کے لئے ہم نے ان کی تربیت انہی خطوط پر کی تھی)۔
اس بات کو یقینی بنانے کے لئے خود عوام کو یہ سوچنے کا موقعہ نہ مل سکے کہ وہ کہاں کھڑے ہیں، ہم ان کی توجہ، تفریحوں، کھیل تماشوں اور اس قسم کی دوسری خرافات کی طرف موڑ دیں گے پھر کچھ عرصے کے بعد پریس کے ذریعہ ہم فنکاروں، کھلاڑیوں اور اس قسم کے لوگوں کے لئے مقابلوں کاا علان کریں گے۔ اس قسم کی دلچسپیاں بالآخر ان کے ذہن ایسے مسائل کی طرف سے، جن کی مخالفت کرنا ہمارے لئے ضروری ہو، ہٹا دیں گی۔ رفتہ رفتہ جب وہ ردّ عمل کی صلاحیت کھو بیٹھیں گے اور خود اپنی رائے قائم کرنے کے قابل نہیں رہیں گے اور چونکہ صرف ہم ہی ان کے سامنے خیال کی نئی جہتیں پیش کر رہے ہوں گے اس لئے اب وہ صرف ہمارے لہجے میں بات کرنے پر مجبور ہوں گے۔ یہ کام، یقینا ان لوگوں کے ذریعہ کروایا جائے گا جن پر
ہمارے ساتھی ہونے کا شبہ بھی نہیں کیا جا سکے گا۔
آزاد خیال اور خیالی پلاؤ پکانے والوں کا کردار اس ڈرامے میں اس وقت ختم ہو جائے گا جب ہماری حکومت کو تسلیم کر لیا جائے گا۔ وہ وقت آنے تک یہ ہماری مفید خدمت انجام دیتے رہیں گے اور اس وقت تک ہم ان کی فکر کا رخ بھانت بھانت کے سنکی نظریات کے موہوم تصورات کی طرف، جو نئے اور ترقی پسند کہلائے جائیں گے، موڑے رہیں گے۔ کیا ہم غیر یہود کے خالی الذہن دماغوں کو ’’ترقی پسندی‘‘ کی راہ پر نہیں موڑ چکے ہیں؟ یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ غیر یہودیوں میں ایک دماغ بھی ایسا نہ رہے جو یہ سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہو کہ اس لفظ میں مضمر معانی کا، (مادی ایجادات کے استشناء کے علاوہ) حقیقت سے دُور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔ حقیقت صرف ایک ہی ہے اور اس میں ’’ترقی‘‘ کے لفظ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ترقی کا لفظ ایک سراب ہے۔ یہ لفظ حقیقت پر پردہ ڈالنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے تاکہ ہمارے علاوہ کوئی اور اس سے واقف نہ ہو سکے۔ ہم جو خدا کی منتخب کردہ امت ہیں اور دنیا میں اس کے ولی ہیں۔
جب ہماری بادشاہت قائم ہو جائے گی تو ہمارے مقررنین ان اہم مسائل کی نشاندہی کریں گے جنہوں نے انسانیت کو تہ وبالا کر کے رکھ دیا تھا اور یہ بتائیں گے کہ ہماری فلاحی اور کریم النفس حکومت ان مسائل کا خاتمہ کرنے کے لئے وجود میں آئی ہے۔
اس کے بعد اس پر کون شبہ کرے گا کہ یہ تمام لوگ سیاسی حکمت عملی کے اسٹیج پر ہمارے سدھائے ہوئے کردار تھے جن کا ان تمام پچھلی صدیوں میں کوئی اندازہ تک نہیں لگا سکا۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
چودھویں دستاویز
مذہب پر حملہ
موجودہ مذاہب کو نیست و نابود کر کے موسیٰ کی شریعت نافذ کرنا۔ غلامی کاایک نیا دور ۔ ترقی پسند ممالک میں فحش نگاری کی ہمت افزائی۔
جب ہماری بادشاہت قائم ہو جائے گی تو ہمیں اپنے مذہب کے علاوہ کسی اور مذہب کا وجود ناقابل قبول ہو گا۔ ایک خدا، جس کے ساتھ ہماری تقدیر، منتخب امت ہونے کی وجہ سے وابستہ ہے اور اس کے توسط سے ہماری تقدیر دنیا کی تقدیر سے وابستہ ہے۔ اس کے پیش نظر میں تمام عقائد کو حرف غلط کی طرح مٹانا پڑے گا اور اگر اس وجہ سے ایسی لا مذہبیت وجود میں آجائے جیسی کہ آج کل ہم دیکھ رہے ہیں تویہ ایک عارضی صورت ہونے کی وجہ سے ہماری راہ میں حائل نہیں ہو سکے گی بلکہ ان نسلوں کے لئے تنبیہ ثابت ہو کی۔ پھر لوگ موسیٰ کے مذہب کی تعلیمات پر توجہ دیں گے جنہوں نے اپنے مستحکم اور مکمل وضاحت کئے ہوئے نظام کی وجہ سے ساری دنیا کی قوموں کو ہمارا مطیع بنا دیا ہو گا۔ اب ہم موسیٰ کے مذہب پر پراسرار باطنی علم پر زور دیں گے ا ور لوگوں کو بتائیں گے کہ اس باطنی علم پر اس مذہب کی تمام تر سبق آموز قوت کاانحصار ہے۔ اس کے بعد ہر ممکنہ موقع پر ہم ایسے مضامین شائع کراتے رہیں گے جس میں ہماری موجودہ فلاحی مملکت کا پچھلی حکومتوں سے موازنہ کیا جائے گا۔ سکون و اطمینان کی نعمت، خواہ وہ سکون صدیوں کی شورش کے بعد بزور قوت ہی کیوں نہ قائم کیا گیا ہو، اس حکومت کے فوائد کی قدر و قیمت بڑھا دے گی۔
غیر یہود کی حکومتوں کی غلطیوں کی ہم بڑے واضح رنگوں میں تصویر کشی کریں گے اور ان کے خلاف دلوں میں ایسی
نفرت بٹھا دیں گے کہ لوگ اس بلند بانگ آزادی کے ماتحت ملے ہوئے حقوق کے مقابلے میں جس سے انسانیت کو شدید اذیت برداشت کرنی پڑی اور جس نے انسانی وجود کے سرچشمے کوہی سکھا دیا تھا، اس پر سکون غلامی کو ترجیح دیں گے۔
جب ہم غیر یہودی حکومتوں کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہے تھے تو ہم نے طرزِ حکومت میں معمولی تبدیلیاں لانے کے لئے غیر یہودی عوام کو شورش اور احتجاج پر اکسایا تھا اور ان بدمعاش مہم جویوں کے ہجوم سے جنہیں یہ معلوم تک نہیں تھا کہ وہ کیا کر رہے ہیں ان سر چشموں کا استیصال کروایا تھا۔ ان شورشوں کی وجہ سے اب عوام اتنے تھک چکے ہوں گے کہ وہ مزید شورشوں اور ان مصائب کا، جن سے وہ گزر چکے ہیں، خطرہ مول لینے کے مقابلے میں ہماری حکومت کے زیر سایہ ہر قسم کی تکلیف برداشت کرنے پر تیار ہو جائیں گے۔
ساتھ ہی ہم غیر یہودی حکومتوں کی تاریخی غلطیوں کو، جن کی وجہ سے انسانیت صدیوں تک کرب میں مبتلا رہی، نمایاں کرنا نظر انداز نہیں کریں گے۔ انہوں نے یہ غلطیاں اپنی ہر اس چیز سے نافہمی کی بنا پر کیں جو انسانیت کی حقیقی فلاح کی تعمیر کرتی ہیں۔ وہ معاشری نعمتوں کے حصول کے لئے موہوم حکمت عملیوں کاتعقب کرتے رہے لیکن یہ کبھی نہ سوچا کہ ان حکمت عملیوں کے نتیجے میں حالت بد سے بد تر ہوتے چلے جائیں گے ا ور بین الاقوامی تعلقات جو انسانی زندگی کی بنیاد ہیں بہتر نہیں ہو سکیں گے۔
ہمارے اصولوں اور طریقہ کار کا سارا زور اس حقیت کے اظہار پر ہو گا کہ ہم اپنے دئیے ہوئے نظام کو معاشری زندگی کے اس مردہ اور سڑے ہوئے نظام کے مقابلے میں اس طرح پیش کریں کہ ہمارا دیا ہوا نظام کہیں زیادہ بہتر اور شاندار معلوم ہو۔
ہمارے مفکرین، غیر یہودی عقائد کی تمام تر کمزوریوں کو زیر بحث لائیں گے لیکن چونکہ ہمارے مذہب کے بارے میں سوائے ہمارے کسی اور کو اس کا علم ہی نیہں ہے اور ہم میں سے کوئی فرد بھی اس کا راز فاش کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا اس لئے کوئی شخص ہمارے مذہب پر اس کے اصلی نقطہ نظر سے بات نہیں کر سکے گا۔
ان ملکوں میں جو ترقی پسند اور روشن خیال کہے جاتے ہیں ہم نے ایک بے مقصد، گندا، غلیظ اور گھناؤنا ادب روشناس کرا دیا ہے قوت حاصل کرنے کے بعد کچھ عرصے تک ہم اس کی ہمت افزائی کریں گے تاکہ ان تقریروں اور جماعت کے لائحہ عمل کے مقابلے میں جو ہمارے اعلیٰ حلقوں کی طرف سے پیش کیا جائے گا، اس قسم کے ادب سے بین فرق محسوس کرایا جا سکے۔
ہمارے دانا افراد جنہیں غیر یہود کی قیادت کی تربیت دی گئی ہے، تقریریں لکھیں گے، منصوبے بنائیں گے، یادداشتیں اور مضامین لکھیں گے جو غیر یہودی دماغوں کو متاثر کرنے میں استعمال کئے جائیں گے تاکہ انہیں گھیر کر علم کی اس فہم اور ترتیب کی طرف لایا جائے جو ہم نے ان کے لئے متعین کی ہوئی ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
پندرھویں دستاویز
استیصال
بیک وقت عالمی انقلاب۔ فری میسن کا مقصد اور سمت، منتخب امت۔ طاقتور کا غیر استدلالی حق۔ اسرائیل کا بادشاہ
جب یہ بات حتمی طور پر ثابت ہو جائے گی کہ مروجہ نظام ہائے حکومت میں سے کوئی نظام بھی کامیابی سے نہیں چلایا جا سکتا اور آخر کار ہم ایک فوری انقلاب کے ذریعہ جو یوم مقررہ پر برپا کیا جائے گا اپنی بادشاہت یقینی طور پر قائم کر لیں گے۔ (یہ وقت آنے میں کچھ عرصہ درکار ہو گا اور اس میں ممکن ہے کہ ایک صدی تک لگ جائے) تو ہم ایسے اقدامات کریں گے کہ سازش نام کی کوئی چیز ہمارے خلاف نہیں کی جا سکے گی۔ اس مقصد کے پیش نظر جو بھی ہماری حکومت بنانے کی راہ میں مزاحمت کر کے
ہمارے خلاف ہتھیار اٹھائے گا اسے ہم بیدردی سے قتل کر دیں گے۔ خفیہ انجمنوں جیسے نئے ادارے قائم کرنے کی سزا بھی موت ہو گی۔ وہ ادارے جو اس وقت موجود ہیں وہ سب کے سب ہمارے علم میں ہیں اور ہمارے لئے ہی کام کر رہے ہیں اور پہلے بھی کرتے رہے ہیںـ۔ ہم ان اداروں کو توڑ کر ان کے اراکین کو یورپ سے دور براعظموں میں جلا وطن کر دیں گے۔ یہی عمل ہم فری میسن کے ان غیر یہودی اراکین کیساتھ کریں گے جنہیں ہمارے متعلق کچھ معلومات ہیں ایسے لوگ جنہیں ہم بوجوہ معاف کر دیں گے انہیں مستقل طور پر جلا وطنی کے خوف میں مبتلا رکھا جائے گا۔ ہم ایسا قانون نافذ کریں گے جس کی رو سے خفیہ انجمنوں کے اراکین یورپ سے، جو ہماری حکومت کا مرکز ہو گا، جلا وطن کئے جا سکیں گے۔ ہماری حکومت کے فیصلے حتمی ہوں گے اور ان پر کوئی اپیل نہیں کی جا سکے گی۔
غیریہودی معاشروں میں، جہاں ہم نے نفرتوں اور احتجاج کے بیج بو کر ان کی جڑیں بہت گہری کر دی ہیں، وہاں امن و امان قائم کرنے کا واحد طریقہ ایسے سفاکانہ اقدامات ہیں جو اقتدار کی قوت کو واضح طور پر منوا سکتے ہوں۔ ظاہر ہے کہ کچھ لوگ ان اقدامات کا شکار بھی ہوں گے لیکن ہمیں اس کی پرواہ نہیں کرنی چاہئیے۔ ایک بہتر مستقبل کے لئے ان کی قربانی ضروری ہے۔ ہر حکومت جو اپنے وجود کے جواز کے لئے صرف حقوق ہی نہیں اپنے فرائض کی انجام دہی بھی ضروری خیال کرتی ہے اس کی ذمہ داری ہے کہ معاشرے کو خوشحالی سے ہمکنار کرے خواہ اس کے لئے قربانیاں ہی کیوں نہ دینی پڑیںـ۔
حکومت کے استحکام کی اہم ترین ضمانت اس کے چہرے پر قوت کا ہالہ بنانا ہے اور یہ ہالہ صرف اس بے لچک زبردست قوت کے استعمال سے ہی بنتا ہے جس کے چہرے پر باطنی پراسرار قوتوں کی وجہ سے ناقابل تسخیر ہونے کا نشان مرتسم ہو۔ یعنی خدا کے منتخب کردہ ہونے کا نشان۔ روسی مطلق العنانی کچھ عرصہ پہلے تک اسی طاقت کے بل پر چلتی تھی۔ یہ مطلق العنانی ، کلیسا کی طاقت کے استشناء کے علاوہ دنیا بھر میں ہماری واحد اور خطرناک ترین دشمن تھی۔
وہ مثال ذہن میں رکھئے کہ جب اطالیہ خون میں نہایا ہوا تھا تو اس نے اس سلا (SULLA) کا ایک بال بھی بیکا نہ کیا جس نے یہ خون کی ہولی کھیلی تھی۔ اپنی قوت کی وجہ سے عوام کی نظر میں وہ دیوتا بنا رہا۔ حالانکہ اس نے ان کے پرخچے اڑا دئیے تھے لیکن جب وہ جرأت اور بیباکی کے ساتھ اطالیہ واپس آیا تو عوام نے اسے ناقابلِ شکست تسلیم کر لیا۔ یاد رکھئے جو شخص اپنی جرأت اور ذہنی قوت سے لوگوں پر تنویم کا عمل کر سکتا ہے لوگ اس پر ایک انگلی تک نہیں اٹھاتے۔
۱۔ سلا (LUCIUS CORNELIUS SULLA) رومن جنرل اور آمر ۱۳۸؁ قبل مسیح میں پیدا ہوا۔ سینہ ۹۰ ؁ قبل مسیح سے ۸۹ ؁ قبل مسیح تک اطالیہ کی خانہ جنگی میں باغیوں کی سرکوبی کی اور بعد میں جب اس کے دشمنوں نے اس کے خلاف سازش کی تو اسنے روم پر چڑھائی کر کے ان کا مکمل قلع قمع کر دیا۔ اس کے بعد جب وہ مشرقی محاذ پر مصروف جنگ تھا اور اس کے دشمن دوبارہ برسراقتدار آگئے تو ۸۳ ؁ قبل مسیح میں کولن گیٹ کے خونی معرکہ میں دشمن کا مکمل صفایا کر کے روم پر بلا شرکت غیرے اقتدار کا مالک بن بیٹھا۔
اس دوران میں جب تک ہم اپنی بادشاہت قائم نہیں کر لیتے، ہمارا عمل اس کے متضاد ہو گا ۔ ہم فری میسن لاجوں کو دنیا کے تمام ملکوں میں قائم کر کی ان کی تعداد میں اضافہ کریں گے۔ ان لاجوں کا رکن ان لوگوں کو بنایا جائے گا جو سرکاری عہدوں میں ممتاز عہدوں پر فائز ہوں گے یا ہونے والے ہوں گے۔ یہ لاج جاسوسی کے لئے اہم ترین کردار ادا کریں گے اور رائے عامہ کو متاثر کریں گے۔ ان تمام لاجوں کو ہم ایک مرکزی تنظیم کے تحت لے آئیں گے اور ساکاعلم صرف ہمیں ہی ہو گا۔ دوسرے اس
سے واقف نہیں ہو سکیں گے۔ یہ مرکزی تنظیم ہمارے دانا بزرگوں پر مشتمل ہو گی ۔ لاجوں کے اپنے نمائندے ہوں گے جو متذکرہ بالا مرکزی تنظیم کے لئے پردے کا کام کریں گے۔ مرکزی تنظیم نصب العین ظاہر کرنے والے لفظ (WATCH WORD) اور لائحہ کار جاری کرے گی۔ یہ لاج وہ بندھن ہوں گے جو تمام انقلابیوں اور آزاد خیالوں کو ایک دوسرے سے منسلک کر دیں گے۔ ان میں معاشرے کے ہر طبقے کی نمائندگی ہو گی۔ انتہائی خفیہ سیاسی سازشوں کا علم صرف ہمیں ہو گا اور جس روز اس سازش کا ذہنی خاکہ مرتب کیا جائے گا اسی وقت سے ا س پر ہماری رہبرانہ دسترس ہو گی۔ لاج کے اراکین میں تمام بین الاقوامی اور قومی پولیس کے اہلکار ہوں گے۔ ہمارے کام کے لئے پولیس کی خدمات بے بدل ہیں چونکہ پولیس اس حیثیت میں ہوتی ہے کہ نہ صرف یہ کہ وہ اپنے ماتحتوں سے مخصوص کام لینے کی اہلیت رکھتی ہے بلکہ ہماری کارگزاریوں کے لئے ایک پردہ بن کر عوام کے عدم اطمینان اور بے چینی کی وجوہات بھی گھڑ سکتی ہے۔
عوام کا وہ طبقہ جو ہماری خفیہ تنظیم میں شامل ہونے پر آمادہ ہو جاتا ہے وہ ہے جو محض اپنے بذلہ سنجی کے زور پر زندہ رہتا ہے۔ یہ پیشہ ور عہدے دار ہوتے ہیں اور عام طور پر ایسے لوگ ہوتے ہیں جو اپنے ذہنوں پر خواہ مخواہ بوجھ نہیں ڈالتے۔ ان لوگوں کے ساتھ معاملہ کرنے میں ہمیں کوئی دشواری نہیں ہوتی۔ ان لوگوں کو ہم اپنی ا یجاد کردہ مشین میں چابی دینے کے لئے استعمال کریں گے۔ اگر دنیا میں کہیں ہیجانی کیفیت پیدا ہوتی ہے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ہمیں عوام کے اتحاد میں دراڑ ڈانے کے لئے تھوڑا سا جھنجھوڑنا پڑا ہے۔ لیکن اگر اس دوران میں کوئی سازش جنم لیتی ہے تو اس کا سربراہ سوائے ہمارے کسی معتبر گماشتے کے اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ قدرتی طور پرظاہر ہے کہ ہمارے علاوہ کوئی دوسرا فری میسن سرگرمیوں کی سربراہی کا اہل نہیں ہو سکتا چونکہ صرف ہمیں ہی اس کاعلم ہے کہ کدھر جانا ہے۔ ہم ہی ہر سرگرمی کی منزل مقصود سے واقف ہیں جبکہ غیر یہودی اس سے قطعی نابلد ہیں۔ وہ تویہ تک نہیں جانتے کہ کسی عمل کا فوری رد عمل کیا ہو گا۔ عام طور پر ان کے مدنظر ذاتی انا کی وہ وقتی تسکین ہوتی ہے جو ان کی رائے کے مطابق نتائج حاصل کرنے پر ملتی ہے۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ اس کا بنیادی خیال ان کی اپنی اختراع نہیں تھا بلکہ یہ خیال ہم نے ا ن کے ذہن میں پیدا کیا تھا۔
غیر یہودیوں میں، لاجوں میں شامل ہونے کا محرک یا تو ان کا جذبہ تجسس ہوتا ہے یا یہ امید کہ وہ حکومت کے خوان نعمت سے خوشہ چینی کر سکیں گے ۔ کچھ لوگ اس لئے شامل ہونا چاہتے ہیں کہ حکومت کے عہدے داروں میں، ان کے ناقابل عمل اور بے سروپا خیالی منصوبوں کو سننے والے سامعین مل جائیںگے۔ وہ اپنی کامیابی کے جذبے اورتعریف کے ڈونگرے بر سوانے کے بھوکے ہوتے ہیں اور یہ کام کرنے میں ہم بڑے فراخ دل واقع ہوئے ہیں۔ ہماری ان کی ہاں میں ہاں ملانے کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح ہم ان کی اس خود فریبی کو جس میں وہ اس طرح مبتلا ہوتے ہیں استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی یہ بے حسی، انہیں ہماری تجویزیں غیر محتاط انداز میں قبول کرنے پر مائل کرتی ہے اور وہ بزعم خود پورے اعتماد کے ساتھ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ خود ان کے منزہ عن الخطاء نظریات ہیں جو ان کے الفاظ میں جلوہ گر ہو رہے ہیں۔ وہ اپنے طور پر یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ان کے لئے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ کسی اور کا اثر قبول کریں۔ آپ اس کا اندازہ نہیں کر سکتے کہ غیر یہود کا ذہین ترین آدمی بھی خود فریبی کے جال میں پھنس کر کس حد تک غیر شعوری سادہ لوحی کا شکار ہو سکتا ہے اور اس کے ساتھ ہی اسے ذرا سی ناکامیابی پر بددل کیا جا سکتا ہے۔ خواہ اس کی ناکامیابی کی نوعیت اس سے زیادہ کچھ نہ ہو کہ اس تعریف میں ذرا سی کمی کر دی جائے جس کا وہ عادی ہو چکا ہے۔ اسے دوبارہ کامیابی حاصل کروانے کے لئے غلاموں کی طرح فرمانبردار بنایا جا سکتا ہے۔ اگر ہم ان کے منصوبوں کی کامیابی سے صرف نظر
کرنا شروع کریں تو غیر یہودی اپنی تعریف سننے کے لئے اپنے کسی بھی منصوبے کو قربان کرنے کے لئے تیار ہو جائیں گے۔ ان کی یہ نفسیاتی کیفیت ہمیں ان کا رخ حسب دالخواہ سمت میں موڑنے میں ہمارا کام عملی طور پر آسان کر دیتی ہے۔ یہ جو شیر نظر آتے ہیں ان کے سینوں میں بھیڑ کا دل ہے اور ان کے دماغوں میں بھوسہ بھرا ہوا ہے۔
ہم نے انہیں انفرادیت کو اجتماعیت کی علامتی اکائی میں ضم کرنے کے نظریہ کا کاٹھ کا گھوڑا دیدیا ہے۔ انہیںآج تک اس بات کا شعور نہیں ہے اور نہ آئندہ کبھی ہو گا کہ یہ کاٹھ کا گھوڑا، فطرت کے اہم ترین ازلی قانون کی ضد اور نفی کا مظہر ہے۔ اور وہ قانون یہ ہے کہ ہر اکائی دوسری سے مختلف ہے اور انفرادیت کے قیام کے لئے تو یہ قانون قطعیت پر مبنی ہے۔
اگر ہم ان کی احمقانہ کور چشمی کو اس حد تک پہنچانے میں کامیاب ہو چکے ہیں تو کیا یہ اس بات کا ثبوت اور حیرت انگیز طور پر صاف اور صریح ثبوت نہیں ہے کہ غیر یہود کا دماغ ہمارے دماغ کے مقابلے میں کتنا ناپختہ ہیـ یہی وہ خاص وجہ یہ جو ہماری کامیابی کی ضامن ہے۔
زمانہ قدیم میں ہمارے دانا بزرگوں نے یہ اصول قائم کر کے کتنی دور اندیشی کا ثبوت دیا تھا کہ اہم مقاصد حاصل کرنے کے لئے کوئی بھی ذریعہ استعمال کرنے سے دریغ نہیں کرنا چاہئیے اور مقصد کے حصول کے لئے کتنی ہی جانوں کی قربانی دینی پڑے انہیں شمار نہیں کرنا چاہئیے۔ ہم نے غیر یہودی نسل کی قربان ہونے والی بھیڑوں کو شمار نہیں کیا۔ حالانکہ ہم نے بھی اپنے بہت سے آدمیوں کی قربانی دی ہے لیکن اس کے بدلے میں اب ہم نے انہیں دنیا میں وہ حیثیت دیدی ہے جس کا وہ خواب میں بھی تصور نہیں کر سکتے تھے۔ ہم میں سے قربانیاں دینے والوں کی تعداد نسبتاً کم ہونے کی وجہ سے ہماری قوم تباہی سے محفوظ رہی۔
موت سب کا لابدی انجام ہے۔ ہم جو اس منصوبے کے بانی ہیں، اپنا انجام قریب لانے کے مقابلے میں یہ بہتر سمجھتے ہیں کہ ان لوگوں کاانجام قریب تر لے آئیں جو ہمارے راستے کی رکاوٹ ہیں۔ ہم فری میسن کے اراکین کو اس طرح ختم کر دیتے ہیں کہ سوائے ہماری برادری کے کوئی کبھی بھی اس پر شبہ نہیں کر سکتا۔ حد یہ ہے کہ جن کے نام موت کا پروانہ جاری ہوتا ہے وہ تک شبہ نہیں کر سکتے۔ جب ضرورت ہوتی ہے تو ان کی موت بالکل اس طرح واقع ہوتی ہے گویا وہ کسی عام بیماری میں مرے ہوں۔ یہ معلوم ہونے کے بعد برادری کے اراکین تک احتجاج کرنے کی جرأت نہیں کر سکتے۔ یہ طریقے استعمال کر کے، ہم نے فری میسن کے درمیان سے) اپنے اختیار کے استعمال کے خلاف احتجاج کی جڑیں تک نکال پھینکی ہیں۔ ہم غیر یود کو آزاد خیالی کی تبلیغ کی ساتھ ساتھ خود اپنے آدمیوں و اور اپنے گماشتوں کو بے عذر اطاعت کی حالت میں رکھتے ہیں ہمارے اثر کے تحت غیر یہودیوں کے ثوانین پر عمل درآمد کم سے کم ہو گیا ہے۔ قانون کے شعبے میں آزاد خیال تشریحات کے رواج پانے کی وجہ سے قانون کی اخترام کی دھجیاں اڑ چکی ہیں۔ اہم ترین اور بنیادی معاملات اور مسائل میں جج صاحبان وہی فیصلہ کرتے ہیں جو ہم انہیں املاء کراتے ہیں۔ وہ مسائل کو اسی روشنی میں دیکھتے ہیں جس کے ذریعہ ہم انہیں غیر یہود کی انتظامیہ کو پابند کرا سکیںـ یہ کام ان لوگوں کے ذریعہ کروایا جاتا ہے جو ہمارے آلہ کار ہوتے ہیں حالانکہ ظاہری طور پر ہمارا ان سے کوئی ربط ضبط نہیں ہوتا۔ یہ کام اخباروں سے یا دوسرے ذرائع سے بھی کروایا جا سکتاہے۔ حد یہ ہے کہ سینئیر اور انظامیہ کے اعلیٰ اراکین ہمارے مشوروں پر عمل کرتے ہیں۔ غیر یہود کا اجڈ دماغ تجربے اور مشاہدے کی صلاحیت سے عاری ہے اور اس سیاق و سباق میں پیش بینی کا تو بالکل ہی اہل نہیں ہے کہ اگر کسی مسئلے کو ایک خاص انداز سے ترتیب دیا جائے تو اس کے نتائج کیا ہوں گے۔
ہم میں اور غیر یہود میں فکری استعداد کا یہ فرق ہمارے منتخب امت ہونے پر مہر تصدیق ثبت کرنے کے لئے کافی ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اعلیٰ انسانی صفات اگر ہمارا طرئہ امتیاز ہیں توغیر یہود اپنے اجڈ دماغ کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں ۔ ان کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں لیکن سامنے کی چیز نظر نہیں آتی۔ وہ کوئی اختراع نہیں کر سکتے (غالباً سوائے مادی ایجادات کے) اس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ خود قدرت نے ہمارے لئے قیادت کرنا اور دنیا پر حکومت کرنا مقدر کر دیا ہے۔
جب ہماری اعلانیہ حکومت کا وقت آئے گا اور وقت اپنی نعمتوں کاانکشاف کرے گا تو ہم ازسر نو قانون سازی کریں گے۔ ہمارے بنائے ہوئے تمام قوانین، جامع، واضح اور مستحکم ہوں گے ا ور انہیں کسی مزید تشریح کی ضرورت نہیں ہو گی تاکہ ہر شخص آسانی سے سمجھ سکے۔ ان قوانین کی قدر شترک احکامات کا سختی سے نفاذ ہو گا۔ اور یہ اصول درجہ کمال تک لیجایا جائے گا۔ اس کے بعد تمام بدعنوانیاں ختم ہو جائیں گی چونکہ چھوٹی سے چھوٹی اکائی تک ہر شخص اقتدار بالا کو، جو قوت کا نمائندہ ہو گأ) جو اب دِہ اور ذمہ دار ہو گأ۔ نچلی سے نچلی سطح تک عہدے کے غلط استعمال پر اتنی بے رحمی سے سزا دی جائے گی کہ کوئی بھی اپنی طاقت کے غلط استعمال کا تجربہ کرنے کے لئے بے چین نہیں ہو گا۔
ہم انتظامیہ کے ہر ع مل کی، جس پر حکومت کا نظام سکون سے چلنے کا دارو مدار ہوتا ہے، بڑی سختی سے نگرانی کریں گے۔ اس میں ذرا سا بھی تساہل ہر شعبے میں تساہل پیدا کرتا ہے۔ لہٰذا کوئی بھی غیر قانونی حرکت یا طاقت کاناجائز استعمال سخت ترین سزا سے نہیں بچ سکے گا۔
اخفائے جرم، انتظامیہ کے افراد کی ملی بھگت یا ایک دوسرے کی غلطیوں سے اغماض اور اس قسم کی تمام بدعنوانیاں شدید ترین سزا کی پہلی مثال کے بعد ہی ناپید ہو جائیں گی۔ ہماری قوت کا ہالہ، عظیم ترین وقار کے حصول کی خاطر، خفیف سی خلاف ورزی پر مناسب یعنی سخت ترین سزا کا متقاضی ہو گا۔ سزا پانے والا، خواہ اس کی سزا جرم کی نسبت سے متجاوز ہی کیوں نہ ہو، ایسا سپاہی تصور کیا جائے گا جو انتظامیہ کے میدانِ جنگ میں، اقتدار، اصول اور قانون کی خاطر مارا جائے۔ قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ جن کے ہاتھوں میں حکومت کے گھوڑے کی عنان ہو وہ حکومت کی شاہرہ سے بھٹک کر کر اپنے نجی پگڈنڈی پر چلنا شروع کر دیں۔ مثال کے طور پرہمارے ججوں کو یہ معلوم ہو گا کہ اگر ان کے دل میں رحم کا حماقت آمیز جذبہ پیدا ہوا تو وہ انصاف کے اس اصول کو توڑیں گے جو انسانوں کی کوتاہیوں پر جرمانے کی عبرتناک سزائیں دینے کے لئے قائم کیا گیا ہے۔ نہ کہ اس لئے کہ وہ ججوں کی روحانی صلاحیتوں کے اظہار کا ذریعہ بنے۔ اس قسم کی صلاحیتوں کا اظہار نجی زندگی میں تو مستحسن ہو سکتا ہے لیکن حکومت کے میدان میں ہرگز نہیں جو انسانی زندگی کی تربیت کی بنیاد ہے۔
قانون کے شعبے میں کام کرنے والے ہمارے اہلکار پچپن سال کی عمر کے بعد ملازمت نہیں کر سکیں گے۔ اوّلاً اس لئے کہ بوڑھے کسی موافقت یامخالفت کے میلان میں بہت ضدی ہو جاتے ہیں اور نئی جہات کو قبول کرنے کے اہل نہیں رہتے۔ ثانیاً اس لئے کہ یہ پابندی لگانے کے بعد ہم لوگوں کو آسانی سے تبدیل کر سکیں گے اور اس طرح وہ ہمارے دباؤ کا آسانی سے شکار ہو سکیں گے۔ ہر وہ شخص جو اپناعہدہ برقرار رکھنا چاہے گا اسے اس کااہل ثابت کرنے کے لئے آنکھیں بند کر کے ہمارے احکامات کی پیروی کرنی پڑے گی۔ عام طور پر ہم اپنے جج ایسے لوگوں میں سے منتخب کریں گے جو یہ بات اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ ان کا کام سزا دینا اور قانون کا اطلاق کرنا ہے اور حکومت کی تربیتی حکمت عمل کی قیمت پر، غیر یہودی ججوں کی طرح، اپنی آزاد خیالی کے اظہار کے خواب دیکھنا نہیں ہے۔
اہلکاروں کو تبدیل کرنے کے طریقے کار سے، ان لوگوں کا اجتماعی اتحاد، جو اس محکمے میں کام کرتے ہیں، ختم ہو جائے
گااور ان سب کو حکومت کے مفادات سے منسلک کر دی گا جس پر ان کی قسمت کا انحصار ہے۔ ججوں کی نئی نسل کو بتا دیا ائے گا کہ اس قسم کی بدعنوانیاں جن سے مروجہ نظام میں خلل پڑنے کا اندیشہ ہو بالکل ناقابل معافی ہیں۔
موجودہ حکمراں، ججوں کا تقرر کرتے وقت، چونکہ اس بات کا خیال نہیں رکھتے کہ ان میں احساس ذمہ داری اور اس اہمیت کا شعور پیدا کیا جائے جو اس منصب کے لئے ضروری ہے اس لئے اس زمانے میں غیر یہودی جج بغیر اپنے عہدے کی اہمیت کااحساس کئے ہوئے ہر قسم کے جرم میں رعایت دینے پر تیار ہو جاتے ہیں۔
جس طرح درندے اپنے بچوں کو شکار کی تلاش کے لئے کھلا چھوڑ دیتے ہیں بالکل اسی طرح غیر یہودی اپنی رعایا منفعت بخش عہدوں پر بغیر یہ سوچے سمجھے تعینات کردیتے ہیں کہ انہیں جن عہدوں پر فائز کیا جا رہا ہے ان عہدوں کو کس مقصد کے لئے قائم کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی حکومتیں خود اپنی انتظامیہ کی طاقت کے غلط استعمال کی وجہ سے تباہ ہو رہی ہیں۔ ان حرکتوں کے نتائج کی روشنی میں ہم اپنی حکومت کے لئے ایک اور نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں۔
ہم حکومت کے ان تمام عہدوں سے جو حکومت چلانے والے ماتحت افسران کو تربیت دینے پر مامور ہیں، آزاد خیالی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔ ان عہدوں پر صرف ان لوگوں کاتقرر کیا جائے گا جنہیں ہم نے حکومت کے انتظامی امور میں تربیت دی ہو گی۔
پرانے افسران کو ریٹائر کرنے پر ایک اعترا یہ کیا جاسکتا ہے کہ اس سے خزانے پر کافی بوجھ بڑے گا۔ اس کا جواب میں یہ دیتا ہوں کہ اوّل تو جن لوگوں کو ریٹائر کیا جائے گا انہیں کوئی متبادل نجی ملازمت مہیا کر دی جائے گی۔ دوسرے یہ کہ ساری دنیا کی دولت کاارتکاز ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہونے کی وجہ سے ہماری حکومت کو اخراجات کی چنداں پرواہ نہیں ہو کی۔ ہماری مطلق العنانی کے ہر عمل میںایک منطقی تسلسل ہو گا اور ہر ضابطے میںجھلکتی ہوئی ہماری قوت ارادی احترام کی نظروں سے دیکھی جائے گی اور اس وجہ سے ہر قانون کی بے چوں چرا تعمیل کی جائے گی۔ اس کے علاوہ شدید ترین سزاؤں کا خوف ساری بڑبڑ اور بے اطمینانی کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکے گا۔ ہم مرافعہ (CASSATION) کا حق موقو کر دیں گے اور یہ صرف ہماری صوابدید کے مطابق ہو گا یعنی ہمارے حکمراں کی مرضی پر موقوف ہو گا۔ ہم ہر گز اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے کہ ہمارے مقرر کئے ہوئے جج کوئی غلط فیصلہ صاد رکریں۔ لیکن اس کے باوجود اگر کوئی اس قسم کا واقعہ ہو جائے تو ہم خود اس فیصلے پر نظرثانی کر سکتے ہیں لیکن اس جج کو اس کے فرائض منصبی سے نافہمی اور اپنے تقرر کے مقصد سے لاعلمی کی اتنی شدید سزا دیں گے کہ آئندہ کوئی دوسرا جج اس قسم کی حرکت کرنے کی جرأت نہیں کر سکے گا۔ میں مکرر کہتا ہوں کہ یہ بات بالکل واضح طور پر سمجھ لینی چاہئیے کہ ہمیں اپنے نظم و نسق کے ہر قدم کا علم ہو گا جس کی ہم بڑی کڑی نگرانی کریں گے تاکہ عوام ہم سے مطمئن رہیں۔ ایک اچھی حکومت سے اچھے افسروں کی امید کرنا عوام کا حق ہے۔
ہماری حکومت ظاہر بظاہر سرداری نظام پر کام کرے گی۔ اس میں حکمراں کی حیثیت ایک سرپرست یا باپ جیسی ہو گی۔ ہماری قوم اور ہمارے عوام اس کی شخصیت کو باپ کی حیثیت میں پہچانیں گے جو ان کی ہر ضرورت کا خیال رکھتا ہیاور ان کے ہر عمل کو دیکھتا ہے۔ حکمراں، رعایا باہمی تعلقات اور عوام سے اپنے تعلقات پر نظر رکھے گا۔ اس کے بعد وہ اس رنگ میں ایسے رنگ جائیں گے کہ انہیں اپنے حکمراں کی سرپرستی اور رہنمائی کے بغیر زندگی گزارنا مشکل ہو جائے گا۔ اگر وہ امن و سکون سے رہنا چاہیں گے تو وہ ہمارے حکمراں کی مطلق العنانی ایسے تسلیم کریںگ ے کہ حکمراں سے ان کی اطاعت دیوتاؤں کی اطاعت کی سرحدوں کو
چھونے لگے گی خصوصیت سے ایسی صورت میں کہ انہیں یہ اطمینان ہو کہ جنہیں ہم نے ان کا حاکم مقرر کیاہے وہ خود اپنے حکم نہیں چلاتے بلکہ حکمراں اعلیٰ کے حکم کی آنکھیں بند کرکے تعمیل کرتے ہیں وہ اس بات پر خوشی محسوس کریں گے کہ ہم نے زندگی کے ہر شعبے کو اس طرح منظم کر دیاہے جس طرح عقلنمد والدین اپنے بچوں کی زندگی فرض اور اطاعت کی بنیاد پر استوار کرتے ہیں۔
جہاں تک رموز مملکت کا تعلق ہے تو دنیا کے عوام ان سے اتنے ہی نابلد رہیں گے جیسے شیر خوار بچے۔ بالکل اسی طرح نابلد جیسی ان کی حکومتیں ہیں۔
آپ نے ملاحظہ کیا ہو گا کہ ہماری مطلق العنانی کی بنیاد حق اور فرض پر استوار ہو گی۔ ایک ایسی حکومت جو اپنی رعایا کے ساتھ باپ جیسا سلوک کرتی ہے اس کی اوّلیں ذمہ داری یہ ہے کہ وہ عوام کو فرض کی ادائیگی پر مجبور کرنے کا حق استعمالا کرے۔ طاقتور ہونے کی وجہ سے اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس طاقت کو انسانیت کی اس سمت میں رہنمائی کرنے کے لئے استعمال کرے جو فطرت نے اس کے لئے متعین کیا ہوا ہے۔ یعنی عوام کو اطاعت کی طرف مائل کرنا۔ دنیا کی ہر شے اطاعت کی کیفیت میں ہے۔ اگر یہ اطاعت انسان کی نہیں ہے تو حالات کی ہے یا پھر اس کے ضمیر کی ہے۔ بہرحال جو بھی طاقتور ہے اس کی اطاعت فرض ہے۔ وہ طاقت ہم ہی ہیں اور اسے عمل خیر کے لئے استعمال کریں گے۔
غلطی پر سزا دینے میں دوسروں کے لئے عبرت کا عظیم پہلو مضمر ہے۔ اس لئے ہم بغیر کسی ہچکچاہٹ اور جھجھک کے ان افراد کو قربان کرنے پر مجبور ہوں گے جو ہمارے مروجہ نظام میں شگاف ڈالنے کی کوشش کریں گے۔
جب اسرائیل کا باشداہ اپنے مقدس سر پر وہ تاج پہنے گا جو یورپ نے اسے پیش کیا ہو گاتو اسے اس کے توسط سے ساری دنیا کی سرداری مل جائے گی۔ وہ ناگزیر قربانیاں جو اسرائیل کا بادشاہ موقع کی مناسب کے مطابق پیش کرے گا ان قربانیوں کے مقابلے میں بہت کم ہوں گی جو غیر یہودی ایک دوسرے پر سبقت لیجانے اور عظمت حاصل کرنے کے جنون میں صدیوں سے دیتے رہے ہیں۔
ہمارا بادشاہ عوام سے مستقل رابطہ رکھے گا اور جمہوریت کی حمایت میں تقریریں کرے گا اور ان تقریروں کی شہرت چار دانگ عالم میں ہو گی۔
 
Top