• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بین السورتین تکبیرات … تحقیقی جائزہ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
بین السورتین تکبیرات … تحقیقی جائزہ

قاری محمد ابراہیم میر محمدی
مترجم: قاری مصطفی راسخ​
زیر نظر مضمون شیخنا شیخ القراء قاری محمد ابراہیم میر محمدی﷾کی غیر مطبوع عربی تصنیف المقنع في التکبیر عند الختم من طریق التیسیر والحرزسے ماخوذ ہے۔ مصنف نے اصل کتاب دس فصول اور ایک خاتمہ پر ترتیب دی ہے، لیکن ہم مکمل کتاب کے بجائے کتاب کا صرف ابتدائی نصف حصہ قارئین رشد کی خدمت میں پیش کررہے ہیں، جبکہ آخری آدھے حصے میں پیش کردہ مباحث چونکہ علم قراء ات کی عملی تطبیقات سے تعلق رکھتی ہیں، چنانچہ اختصار کی غرض سے انہیں ہم شائع نہیں کررہے۔ فاضل مؤلف نے اپنی اصل کتاب کے حواشی میں کتاب میں پیش کیے گئے تمام رجال کے تراجم اور مختلف دعاوی کے بیان میں اَسانید کو بھی مفصلا ذکر کیا ہے، لیکن اختصار کی غرض سے ہم نے انہیں بھی شامل تحریر نہیں کیا۔جو حضرات ان تمام اُمور کی مراجعت کا شوق رکھتے ہوںوہ اصل کتاب کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔ ( ادارہ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اورجلیل القدر تابعین کرام نے تکبیرات کو نبی اکرمﷺ کی سنت مبارکہ کے طور پر روایت کیاہے۔ پھر یہ عام ہوگئی اور اتنی مشہور ہوئی کہ تواتر کی حدتک جاپہنچی۔ نیز اس پر تمام شہروں کے علماء نے عمل کیاہے اور یہ سنت متواترہ اپنے وجود کے ثبوت میں مزید کسی دلیل کی محتاج نہیں رہی۔ اسلاف کامسلسل عمل یہ چلا آرہا ہے کہ وہ سورۃ والضحٰی پڑھتے ہیں تو والضّحٰی کے شروع سے لے کر سورۃ الناس کے آخر تک ہر سورۃ کے اختتام پر تکبیر یعنی اللہ اکبر کہتے ہیں۔(سنن القراء ومناہج المجوّدین:۲۰۹)
اختتام قرآن کے موقع پر تکبیر کہنا سنت ہے۔ خواہ قاری نماز میں ہو یا نماز کے علاوہ تلاوت کررہا ہو۔تکبیر ایسی سنت ہے جو لوگوں میں شائع وذائع رہی، تواتر سے منقول ہوئی اور اس کو تلقّی بالقبول حاصل ہے۔ اس کے ثبوت میں بہت ساری مرفوع اور موقوف اَحادیث وارد ہوئی ہیں، جن کا بیان ان شاء اللہ آئندہ آئے گا۔ ( تقریب النشر: ص۱۹۱)
لفظ تکبیرکَبَّرَ یُکَبِّرُ کامصدر ہے، جس کا معنی ہے کہ اللہ ہرشے سے بڑا ہے۔ ( لطائف الإشارات: ۱؍۳۱۷ )
تکبیرات سے متعلقہ متعدد علمی مباحث کو ہم چھ عنوانات کے تحت بیان کریں گے:
(١) تکبیرات کا سبب نزول
(٢) تکبیرات کاحکم
(٣) تکبیرات کا احادیث سے ثبوت
(٤) علم قراء ات میں تکبیرات کس امام سے منقول ہیں؟
(٥) تکبیرات کے الفاظ اور اس کا محل
(٦) نماز میں تکبیر پڑھنے کا حکم
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مبحث اوّل: تکبیرات کے وارد ہونے کا سبب
اس بارے میں جمہور مفسرین اور قراء کرام اس بات کے قائل ہیں، جس کو حافظ ابوالعلاء رحمہ اللہ نے سیدنا بزی رحمہ اللہ سے اپنی سند کے ساتھ روایت کیاہے کہ نبی اکرمﷺپر وحی کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ مشرکین نے موقعہ پاکریہ طعنہ دیا کہ محمدﷺکو اس کے رب نے چھوڑ دیا ہے۔ جب سورہ والضّحیٰ نازل ہوئی تو نبی اکرمﷺنے شدت انتظار کی وجہ سے وحی کی تصدیق کرتے ہوئے اور کفار کی تکذیب کرتے ہوئے ’اللہ اکبر‘ کہا۔ (غیث النفع:۳۸۴)
نیزنبی اکرمﷺنے حکم دیاکہ سورہ والضحیٰ سے لے کر آخر قرآن تک ہرسورہ کے اختتام پر اللہ کا شکر اور اس کی تعظیم بجا لاتے ہوئے اللہ اکبر کہا جائے۔(لطائف الاشارات:۱؍۳۱۸، اتحاف فضلاء البشر: ۲؍۶۴۰، النشر: ۲؍۴۰۶)
تقریباً تمام کتب ِقراء ات میں یہ بات موجود ہے۔ (ہدایۃ القاری: ۶۰۵)
شفاء الصدورمیں ہے کہ آپ نے قسم کھا کر کہا کہ مشرکین جھوٹے ہیں۔بعض علماء نے لکھا ہے کہ عربوں کی عادت ہے کسی بڑے یاہولناک واقعہ پر’اللہ اکبر‘ کہتے ہیں،چنانچہ ممکن ہے کہ اسی پس منظر میں نبی اکرمﷺنے نزول وحی کو ایسے حالات میں بڑا معاملہ سمجھتے ہوئے اللہ اکبر کہا ہو۔ (غیث النفع: ص۳۸۴)
بعض اہل علم کا خیال ہے کہ نبی اکرمﷺنے سورہ والضحیٰ میں مذکور نعمتوں،بالخصوص اللہ کی یہ نعمت کہ’’وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی‘‘ پر خوشی اور مسرت کااظہار کرتے ہوئے اللہ اکبر کہا۔(البدور الزاہرۃ:۲؍۹۹۵ ، ہدایۃ القاری:۲؍۵۹۸)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حافظ ابن کثیررحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ اس کی اَسانید ایسی نہیں ہیں،جن پر صحت اور ضعف کاحکم لگایاجائے۔‘‘(تفسیر ابن کثیر:۴؍۵۵۷)
اِمام ابن جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ اس سے مراد یہ ہے کہ تکبیرات تواتر سے ثابت ہیں، ورنہ انقطاع وحی کا واقعہ تو مشہور ہے جس کو سفیان بن عینیہ رحمہ اللہ نے اسود بن قیس رحمہ اللہ سے اور انہوں نے جندب البجلی رحمہ اللہ سے روایت کیا ہے۔ یہ ایک ایسی سند ہے جس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔‘‘ (النشر: ۲؍۴۰۶)
بعض اہل علم کا خیال ہے کہ رسول اللہﷺنے حضرت جبرئیل علیہ السلام کی صورت کودیکھ کر اللہ اکبر کہاتھا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اتنی بڑی جسامت والا بنایا اور اس وقت نبی اکرمﷺ ’ابطح‘ مقام پر تھے، جیسا کہ ابوبکر محمد بن اسحاق رحمہ اللہ یہی کہتے ہیں۔ امام قسطلان رحمہ اللہ نے بھی اسی بات کو ترجیح دیتے ہوئے فرمایا:
’’یہ زیادہ قوی ہے، کیونکہ یہ ایک ہولناک موقع پرتکبیر تھی جو عربوں میں عام ہے۔‘‘(لطائف الاشارات:۱؍۳۱۸)
بعض کہتے ہیں کہ اللہ کی تعظیم کرتے ہوئے اور وحی کے اختتام پرشکرانہ اداکرتے ہوئے آپ نے اللہ اکبر کہا۔ (غیث النفع:۳۸۵)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مبحث دوم: تکبیرات کاحکم
تمام علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ تکبیر اگرچہ قرآن کریم کا حصہ نہیں، لیکن اختتام قرآن کے موقع پر چند سورتوں کے آخر میں تکبیر (اللہ اکبر) کہنا ایسے ہی مستحب ہے جیسے ابتدائے تلاوت میں تعوذ پڑھنا مستحب ہے۔ اسی وجہ سے تکبیر کو مصاحف عثمانیہ میں سے کسی مصحف میں بھی نہیں لکھا گیا۔ (البدور الزاھرۃ:۳۵۰)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’جس کا یہ دعویٰ ہے کہ تکبیر قرآن کریم کا حصہ ہے وہ شخص بالاتفاق تمام ائمہ کے نزدیک گمراہ ہے۔اس سے توبہ کروائی جائے گی اور اگر وہ توبہ کرے تو درست ، ورنہ اس کو قتل کردیا جائے۔ (مجموع فتاویٰ:۱۳؍۴۱۹)
موصوف رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
’’اَئمہ دین میں سے کسی سے تکبیر کا وجوب ثابت نہیں۔‘‘(مجموع فتاویٰ :۱۳؍۴۱۹)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
علامہ جعبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اثبات ِتکبیر سے رسم قرآن کی مخالفت نہیں ہوتی، کیونکہ اس کے اثبات سے استعاذہ کی طرح یہ لازم نہیں آتا کہ اس کو قرآن کریم تسلیم کیا جا رہا ہے۔‘‘(اتحاف فضلاء البشر:۲؍۶۴۷)
علامہ سلیمان الجمزوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’تکبیر کہنا اور نہ کہنا دونوں طرح سے جائز ہے، کیونکہ نبی اکرمﷺنے بعض دفعہ تکبیر کہی اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کواس کا حکم دیا، جیساکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ حضرت ابی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں اوربعض دفعہ تکبیرنہ کہی۔گویا کہ تکبیر و عدم تکبیر دونوں جائز ہیں۔‘‘(الفتح الرحمانی:ص۲۲۳ ، بحوالہ التذکرۃ از علامہ ابن غلبون:۲؍۶۶۲)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
علامہ ابوالفتح فارس رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ہم نہیں کہتے کہ ہرآدمی جو قرآن کریم ختم کرے وہ تکبیر کہے۔ جس نے تکبیر کہی اس نے بھی اچھا کیا اور جس نے نہ کہی اس پرکوئی گناہ نہیں ہے۔‘‘ (النشر: ۲؍۴۱۱)
الغرض تکبیر کا حکم یہ ہے کہ یہ نبی اکرمﷺکی سنت مبارکہ ہے، جس کو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اورجلیل القدر مکی و غیر مکی تابعین نے روایت کیا ہے۔(البدور الزاھرۃ:ص۳۵۰)
امام دانی رحمہ اللہ اپنی سند سے الشیخ المقری ابو محمد موسیٰ بن ہارون مکی رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ
’’انہیں(یعنی موسیٰ رحمہ اللہ کو) سیدنا بزی رحمہ اللہ نے بتایا کہ مجھے ابوعبداللہ محمدبن ادریس الشافعی رحمہ اللہ نے کہا کہ اگر آپ نے تکبیر کو چھوڑ دیا توگویا آپ نے نبی اکرم ﷺ کی سنتوں میں سے ایک سنت کو ترک کردیا۔‘‘ (سنن القرائ:ص۲۲۲،جامع البیان:ص۷۹۳)
علامہ ابو الحسن ابن غلبون رحمہ اللہ مؤلف ’التذکرۃ‘ کے والد گرامی، ماہر فن امام ابوالطیب عبدالمنعم ابن غلبون رحمہ اللہ تکبیرات کے حکم کو یوں بیان فرماتے ہیں:
’’ یہ سنت مبارکہ رسول اللہﷺ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے منقول ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
علامہ ابوالفتح فارس رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ تکبیرسنت ہے جو رسول اللہﷺ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی ہے۔‘‘(النشر:۲؍۴۱۱)
اپنے زمانہ کے شیخ المقاری اور امام ابو علی اہوازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’تکبیر اہل مکہ کے ہاں مشہور ہے، جس پراہل مکہ دروس اور نماز وغیرہ میں تلاوت کے موقع پرعمل کرتے رہے۔‘‘ (النشر:۲؍۴۱۰)
علامہ ابو محمدمکی بن ابی طالب القیسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اہل مکہ سورہ والضّحیٰ سے لے کر آخر الناس تک ہر سورہ کے آخر میں تمام قراء کے لئے تکبیر کہتے ہیں۔ اس سلسلہ میں وہ امام ابن کثیر مکی رحمہ اللہ کا دوسروں سے کوئی فرق نہیں کرتے۔یہ طریقہ انہوں نے اپنے شیوخ سے نقل کیا ہے۔‘‘ (النشر:۲؍۴۱۰)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام ابوالطیب ابن غلبون رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اس سنت کو اہل مکہ سیدنابزی رحمہ اللہ اور دیگر تمام قراء کے لئے اختیار کرتے ہیں۔(النشر: ۲؍۴۱۱) پھر اس سنت پر عمل عام ہوگیا اور تمام شہروں کے قراء ومشائخ اس پر عمل کرنے لگے۔‘‘(سنن القراء :۲؍۲۲۴)
امام ابن جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’تکبیر مکی قراء، علماء اورشیوخ کے نزدیک صحیح حدیث سے ثابت ہے ۔پھر یہ سنت تمام شہروں کے علماء میں پھیل گئی اور اس پر تمام نے عمل کرنا شروع کردیا، حتیٰ کہ وہ اپنی مجالس، اجتماعات میں بھی اس کو پڑھتے تھے۔ ان میں سے اکثر ایسے بھی تھے جو رمضان میں قیام اللیل میں ختم القرآن کے موقع پر بھی اسی کا اہتمام کرتے تھے۔‘‘ (النشر:۲؍۴۱۰)
تکبیرکے حکم کے بیان میں ہم اپنی بحث کو سمیٹتے ہوئے آخر میں مدینہ یونیورسٹی کے کلیۃ القرآن الکریم کے سابق ڈین ڈاکٹر عبد العزیز القاری رحمہ اللہ کا قول پیش کرتے ہیں۔ موصوف فرماتے ہیں:
’’یہ سنت اہل مکہ کے ہاں مشہور ہے،جو اسے اپنے شیوخ سے نقل کرتے ہیں اور ان کے نزدیک اس سلسلہ میں بزی رحمہ اللہ اوردیگر تمام برابر ہیں۔‘‘ (سنن القراء:۲۲۱)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مبحث سوم: حدیث ِتکبیرات کا ثبوت
مسجد حرام کے مؤذن اور مقریٔ مکہ سیدنا بزی رحمہ اللہ سے مروی تکبیرات کے ثبوت کی اَحادیث محدثین کرام کے ہاں بہت مشہور ہیں، جن کو امام حاکم رحمہ اللہ نے اپنی مستدرک (۳؍۳۰۴) میں، امام بیہقی رحمہ اللہ نے شعب الایمان میں اورامام ابوالحسن طاہر بن غلبون الحلبی رحمہ اللہ نے التذکرۃ فی القرآء ات الثمان(ص ۶۵۶)میں نقل فرمایا ہے۔
امام ابوعمرو عثمان بن سعید الدانی رحمہ اللہ نے جامع البیان(ص۳۷۱، مخطوط )میں، علامہ احمد بن علی ابن الباذش رحمہ اللہ نے الاقناع (ص ۸۱۹)میں، علامہ ابوالکرم ابن احمد الشھرزوری رحمہ اللہ نے المصباح الزاہر فی العشر البواہر(ص۲۶۶) میں، شمس الدین ابو الخیر ابن جزری رحمہ اللہ نے النشر الکبیر( ۱؍۴۱۱ تا ۴۱۵)میں ، علامہ عمر بن قاسم الانصاری رحمہ اللہ نے البدور الزاھرۃ فی القراء ات المتواترۃ ( ص ۴۶۸، مخطوط)میں اوران کے علاوہ بہت سارے شیوخ نے امام بزی رحمہ اللہ سے تکبیرات کو کثیر اَسانید کے ساتھ نقل کیا ہے۔ مذکورہ کتب میں بھی حدیث ِتکبیر کو بیسیوں سندوں سے نقل کیا گیا ہے۔
 
Top