• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بین السورتین تکبیرات … تحقیقی جائزہ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام ابن کثیررحمہ اللہ کے راویٔ اَوّل امام بزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’میں نے عکرمہ بن سلیمان رحمہ اللہ کویہ کہتے ہوئے سنا کہ انہوں نے اسماعیل بن عبداللہ بن قسطنطین رحمہ اللہ پر قراء ت کی۔ جب سورہ والضّحیٰ پر پہنچے تو فرمانے لگے کہ اس سورہ سے لے کر آخر قرآن تک ہرسورہ کے آخر میں تکبیرکہو۔(مستدرک حاکم:۵۳۲۵بحوالہ جامع البیان:ص۷۹۲)امام شافعی رحمہ اللہ کے استاد اسماعیل بن عبداللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے سیدنا عبداللہ بن کثیر مکی رحمہ اللہ اور ان کو امام مجاہدرحمہ اللہ نے تکبیر پڑھنے کا حکم دیااور خبر دی کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھے اسی طرح پڑھایاتھا۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کواس بات کا حکم ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے دیااورابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو نبی اکرمﷺ نے تکبیر کا حکم دیا۔‘‘ (جامع البیان:ص۷۹۲،۷۹۳)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’تکبیرات کی اَحادیث صرف امام بزی رحمہ اللہ سے مرفوع ہیں،باقی تمام راوی ابن عباس رضی اللہ عنہ یا بعض مجاہدرحمہ اللہ تک موقوف ومقطوع بیان کرتے ہیں۔‘‘ (تقریب النشر: ۱۹۱)
بعض علماء نے تکبیرات کی اَحادیث میں موجود سیدنا بزی رحمہ اللہ کی وجہ سے اس حدیث کو ضعیف کہاہے۔ چنانچہ امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بزی ضعیف الحدیث ہیں،میں ان سے حدیث بیان نہیں کرتا۔ امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ منکرالحدیث ہیں۔امام ذہبی رحمہ اللہ نے بھی ان کی تضعیف فرمائی ہے، لیکن ساتھ ہی فرما دیا:
’’علم قراء ت میں بہرحال امامت کے درجہ پر فائز تھے اور نہایت پختہ تھے۔‘‘(میزان الاعتدال: ۱؍ ۱۴۴، معرفۃ القراء الکبار:۱؍۱۷۳)
البتہ ارضِ حجاز کے ہی ایک اور امام القراء ۃ، جو امام بزی رحمہ اللہ کے تلمیذاور امام ابن کثیر مکی رحمہ اللہ کے دوسرے معروف شاگرد ہیں سیدنا محمد قنبل رحمہ اللہ نے تکبیر کی روایت میں سیدنا بزی رحمہ اللہ کی متابعت کی ہے۔
امام بزی رحمہ اللہ سے تکبیر کے بارے میں راویوں کااتفاق ہے، جبکہ امام قنبل رحمہ اللہ کی نسبت اختلاف مروی ہے۔اس سنت مبارکہ کو مغاربہ کے علاوہ اہل عراق نے نقل کیاہے، جیساکہ علامہ عبدالکریم بن عبدالصمدرحمہ اللہ کی دو تصنیفات یعنی الجامع فی القراء ات العشراور التلخیص فی القراء ات الثمان میں، امام ابن سوار البغدادی رحمہ اللہ کی المستنیرمیں، امام حسن بن علی اہوازی رحمہ اللہ کی الوجیز میں، امام ابوالعز القلانسی رحمہ اللہ کی الارشاد میں، علامہ سبط الخیاط البغدادی رحمہ اللہ کی الکفایۃ اور المبہج فی القرآء ات الثمان میں اور علامہ ابوالعلاء ہمدانی رحمہ اللہ کی الغایۃ میں مرقوم ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام ابو العباس مہدوی رحمہ اللہ نے الھدایۃمیں اور امام شاطبی رحمہ اللہ نے حرز الامانی(بیت نمبر۱۱۳۳) میں امام قنبل سے تکبیر و عدم تکبیر دونوں وجوہ نقل کی ہیں۔ اسی طرح امام دانی رحمہ اللہ نے المفردات میں سیدنا قنبل رحمہ اللہ سے دو وجوہ نقل کی ہیں۔ فرماتے ہیں:
’’میں نے امام قنبل رحمہ اللہ سے تکبیر ابن مجاہدرحمہ اللہ کے طریق سے نہیں پڑھی، یعنی کسی اور طریق سے پڑھی ہے۔‘‘ (النشر:۲؍۴۱۷)
اہل عراق کے بالمقابل جمہور اہل مغرب کے ہاں امام قنبل رحمہ اللہ کے لئے تکبیر نہیں ہے، جیساکہ علامہ دانی رحمہ اللہ کی التیسیرمیں، امام ابوعبداللہ بن شریح رحمہ اللہ کی الکافی میں، علامہ اسماعیل بن خلف رحمہ اللہ کی العنوان میں، علامہ طاہر ابن غلبون رحمہ اللہ کی التذکرۃ میں، امام ابو محمد مکی القیسی رحمہ اللہ کی التبصرۃ میں، امام ابوعلی حسن بن خلف القیروانی رحمہ اللہ کی تلخیص العبارات میں،امام ابوعبداللہ محمدبن سفیان القیروانی رحمہ اللہ کی الھادی میں اور علامہ ابوالطیب ابن غلبون رحمہ اللہ کی الارشاد میں یہی مکتوب ہے۔
یاد رہے کہ امام ابن کثیرمکی رحمہ اللہ کے علاوہ بعض دیگر قراء کرام یعنی امام ابوعمروبصری رحمہ اللہ کے راویٔ ثانی امام سوسی رحمہ اللہ سے اور امام ابوجعفررحمہ اللہ کے راوی ابو عبد اللہ العمری رحمہ اللہ سے بھی تکبیر وارد ہوئی ہے، بلکہ تکبیر تقریبا تمام قراء سے بطریق طیبہ ہی ثابت ہے۔(فریدۃ الدہر:۲؍۵) جیساکہ ابوالفضل الرازی رحمہ اللہ، ابوالقاسم الھذلی رحمہ اللہ اور امام ابوالعلاء الھمدانی رحمہ اللہ، امام ابن حبش الدنیوری رحمہ اللہ، امام ابوالحسین الخبازی رحمہ اللہ، امام ابو صفوان حمید الاعرج رحمہ اللہ، امام ابن محیصن رحمہ اللہ اور امام ابن شنبوذرحمہ اللہ سے مروی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تکبیر ابن عباس رضی اللہ عنہ سے موقوفاً ثابت ہے، جیساکہ امام دانی رحمہ اللہ امام مجاہدرحمہ اللہ سے اپنی اسناد کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ
’’مجاہدرحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے تقریباً ۲۰ سے زائد مرتبہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما پر قرآن کریم ختم کیا اور وہ ہرمرتبہ مجھے ألم نشرح سے تکبیر کہنے کا حکم صادر کرتے۔‘‘(جامع البیان:۷۹۴)
امام دانی رحمہ اللہ اپنی اسناد کے ساتھ حنظلہ بن ابی سفیان رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ
’’ حنظلہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے عکرمہ بن خالد المخزومی رحمہ اللہ پر قراء ت کی۔ جب سورہ والضحیٰ پر پہنچا تو انہوں نے ھیھا کہا۔ میں نے پوچھا کہ ھیھا کہنے سے آپ رحمہ اللہ کا کیا مقصود ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ اللہ اکبر کہو، کیونکہ میں نے اپنے مشائخ کو دیکھا ہے کہ جب وہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ پر قراء ت کرتے تو وہ ان کو سورہ والضحی سے لے کر آخر تک تکبیر کاحکم دیتے۔‘‘(جامع البیان:۷۹۴)
امام دانی رحمہ اللہ اپنی اسناد کے ساتھ امام ابن کثیر مکی رحمہ اللہ کے ساتھی اور مقریٔ مکہ شِبَل بن عبادرحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ
’’ شبل رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میں نے امام ابن محیصن رحمہ اللہ اور امام ابن کثیر مکی رحمہ اللہ کو دیکھا کہ جب وہ ألم نشرح پر پہنچتے توختم قرآن تک تکبیر کہتے اور فرماتے کہ ہم نے امام مجاہدرحمہ اللہ کو ایسے کرتے ہوئے دیکھا ہے، اور امام مجاہدرحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ اس کا حکم دیتے تھے۔‘‘(جامع البیان:۷۹۳)
امام عبدالملک بن جریج رحمہ اللہ سے مروی ہے، وہ امام مجاہدرحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ
’’امام مجاہدرحمہ اللہ سورہ والضحیٰ سے لے کر سورہ الفاتحہ(۴) تک تکبیر کہتے تھے۔‘‘ (جامع البیان:۷۹۴)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام ابن جریج رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’میرے خیال میں امام یا غیر امام ہر دو تکبیر کہے۔‘‘(جامع البیان:۷۹۴)
امام سفیان بن عینیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’میں نے حمیدالاعرج رحمہ اللہ کو لوگوں کی موجودگی میں دیکھا کہ وہ سورہ والضحیٰ سے لے کر آخرقرآن تک ہر سورہ کے آخر میں تکبیر کہتے تھے۔‘‘ (جامع البیان:۷۹۵)
امام حمیدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’میں نے سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ سے تکبیر کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے جواب دیاکہ میں نے صدقہ بن عبداللہ بن کثیر رحمہ اللہ کو ستر سال سے زیادہ امامت کرواتے ہوئے دیکھا، وہ جب بھی قرآن ختم کرتے تو تکبیرات کہتے۔‘‘ (جامع البیان:۷۹۵)
امام حمیدی رحمہ اللہ سے ہی مروی ہے کہ
’’ان کو محمدبن عمر بن عیسیٰ رحمہ اللہ نے اور ان کو ان کے باپ نے بتایا کہ انہوں نے رمضان المبارک میں لوگوں کوقرآن مجید سنایا تو امام ابن جریج رحمہ اللہ نے ان کوحکم دیا کہ سورہ والضحیٰ سے لے کر آخر تک اللہ اکبر کہو۔‘‘ (جامع البیان:۷۹۵)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام حمیدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ہمیں رمضان میں عمر بن عیسیٰ رحمہ اللہ نے نماز تراویح پڑھائی، جس میں انہوں نے سورہ والضّحیٰ سے لے کر آخر قرآن تک تکبیرکہی۔ کچھ لوگوں نے اس پراعتراض کیا تو انہوں نے فرمایا کہ مجھے امام ابن جریج رحمہ اللہ نے اسی طرح پڑھنے کا حکم دیاہے۔ امام حمیدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم نے امام ابن جریج رحمہ اللہ سے اس بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا کہ انہیں میں نے ہی یوں پڑھنے کا حکم دیاہے۔‘‘(جامع البیان:۷۹۵)
امام قنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’مجھے محمد بن عبداللہ بن یزید القرشی ابن المقری رحمہ اللہ نے بتایا کہ میں نے ابن شہیدالحجبی رحمہ اللہ کو ماہ رمضان میں مقام ِابراہیم کے پیچھے تکبیرات کہتے ہوئے سنا ہے۔یہاں تک کہ انہوں نے والضحی سے آخر تک پڑھا۔‘‘(جامع البیان:۷۹۵)
ابومحمدالحسن القرشی رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ
’’میں نے مسجدِ حرام میں مقام ابراہیم کے پیچھے لوگوں کو نماز تراویح پڑھائی۔آخری رات میں نے سورہ والضُّحی سے لے کر اختتام ِقرآن تک تکبیرات پڑھیں۔ جب میں نے سلام پھیرا تو معلوم ہوا کہ فقہ کے معروف امام محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ نے بھی میرے پیچھے نماز پڑھی ہے۔ انہوں نے مجھے دیکھ کر کہا کہ آپ نے مستحسن کام کیاہے اور سنت پر عمل کیا ہے۔ ‘‘ (النشر:۲؍۴۲۵)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حافظ عماد الدین ابن کثیررحمہ اللہ حدیث ِبزی پر تبصرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’یہ حدیث صحت کی متقاضی ہے اور اس کے اثبات میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول ہی کافی ہے، جب ان سے تکبیرات کے جواز کے سلسلہ میں سوال کیاگیاتو انہوں نے قراء ۃ ابن کثیر مکی رحمہ اللہ پڑھنے والوں کو تکبیرات پڑھنے کی اجازت دی۔‘‘ (تفسیر ابن کثیر: ۴؍۵۵۷)
مؤلف کتاب (شیخ القراء قاری محمد ابراہیم میرمحمدی﷾) فرماتے ہیں:
’’حافظ ابن کثیررحمہ اللہ کی کلام، ابو محمد الحسن بن محمد القرشی المکی رحمہ اللہ کی خبر سے حجت لینے پر دلالت کرتی ہے اوریہ خبر تکبیر کی نماز میں مشروعیت پر دال ہے، جیساکہ ابن جریج رحمہ اللہ کی کلام میں گذرا ہے۔‘‘
واضح رہے کہ امام عماد الدین ابن کثیررحمہ اللہ نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے جس فتویٰ کا حوالہ دیا ہے وہ مجموع فتاویٰ جلد۱۳، صفحہ ۴۱۹ پر موجود ہے۔
علاوہ ازیں توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ قراء کرام کے نزدیک تکبیرات کے مسنون ہونے کی بنیاد امام حاکم رحمہ اللہ کی المستدرک میں ذکر کردہ حدیث ہے یا قرآن کریم کی آیات وقراء ات کے ساتھ تکبیرات کا تواتر نقل ہوناہے۔بلاشبہ یہ حدیث اور قرآن کریم کی اَسانید کے ساتھ تکبیرات کے منتقل ہونادونوں ہی حجت ہیں۔ تکبیرات قرائے اہل مکہ اور ان سے روایت کرنے والوں کے نزدیک صحیح سند سے ثابت ہیں، جیسا کہ امام ابن جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’قراء کرام کی منقولات میں تکبیرات اتنی عام اور مشہور ہیں کہ اپنی اَسانید کے اعتبار سے حد ِ تواتر تک پہنچ چکی ہیں۔‘‘ (النشر: ۲؍۴۰۵)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
علامہ سلیمان الجمزوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’امام ترمذی رحمہ اللہ، امام ابن عبد البررحمہ اللہ، خطیب بغدادی رحمہ اللہ، امام ابن صَخررحمہ اللہ، امام سیوطی رحمہ اللہ اور امام صنعانی رحمہ اللہ وغیرہ محدثین نے یہ قاعدہ ذکر کیا ہے کہ جب ضعیف حدیث کو تلقی بالقبول حاصل ہوجائے اورکسی زمانہ میں اس پرانکار نہ کیا گیاہو تو وہ ان شرائط کے ساتھ قبولیت کے مقام پر فائز ہوجاتی ہے اور اپنی شہرت ومقبولیت کی بنا پر تتبع اَسانید سے مستغنی ہوجاتی ہے۔ (الفتح الرحمانی:۲۲۳)
لہٰذا یہ سنت مبارکہ اپنے ثبوت میں اَحادیث اور اسنادِ محدثین کی محتاج نہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ڈاکٹر عبد العزیز القاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ جب کسی خبر کی سند ضعیف ہو اور اس کے معنی کوتلقی بالقبول حاصل ہو تو اس کی سند کا ضعف اس کے معانی پراثر انداز نہیں ہوتا۔ایسی صورت میں علماء کا ایسی روایت پر تعامل اتفاقی ایک قوی قرینہ ہے، جیساکہ حافظ ابن کثیررحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں تعامل اہل مکہ کو اس حدیث سے احتجاج کے لیے ایک قرینہ کے طور پر ذکر کیا۔ اس قاعدہ کی کئی دیگر مثالیں موجود ہیں، مثلا امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی قضاء کے بارے میں مروی حدیث کو اہل علم نے تلقی بالقبول سے نوازا اور اس سے حجت لی۔پس جس طرح حدیث: ’’لا وَصِیَّۃَ لِوَارِثٍ‘‘، سمندر کے پانی کے بارے میں آپ ﷺ کا اِرشاد: ’’ہُوَ الطُّہُورُ مَاؤُہٗ‘‘، حدیث: ’’إِذَا اخْتَلَفَ الْمُتَبَایِعَانِ فِی الثَّمَنِ وَالسِّلْعَۃِ قَائِمَۃ تَحَالَفَا وَتَرَادَّا البَیْعَ‘‘ حدیث: ’’الدِّیَّۃُ عَلَی العَاقِلَۃِ‘‘ وغیرہ اپنی اسانید کی جہت سے ثابت نہیں ہیں، لیکن تمام اہل علم نے ہر زمانہ میں ان احادیث کو تلقی بالقبول کے ساتھ آگے نقل کیا ہے، چنانچہ اب یہ روایات اسناد سے قطع نظر بہرحال قابل احتجاج اور صحیح ہیں، اسی طرح حدیث معاذؓ کا معاملہ ہے۔‘‘ (الفقیہ والمتفقہ:۱؍۱۸۹،سنن القراء: ص۲۲۴)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
موصوف رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
’’ حدیث تکبیرات کا معاملہ بھی مذکورہ اَحادیث ہی کی طرح ہے۔ صحت حدیث کے لیے یہ بھی ملحوظ رہے کہ ا بن عباس رضی اللہ عنہ سے تکبیرات موقوفاً ثابت بھی ہیں، لیکن اگر اس بارے میں کوئی اور حدیث نہ بھی وارد ہوتی تو بھی ثبوت کے لئے یہی تلقی بالقبول کافی تھا۔ اس بات کو کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے کہ تابعین ِمکہ نے تکبیرات کو نبی اکرم﷜ﷺسے روایت کیا ہے، جیساکہ امام شافعی رحمہ اللہ کی گفتگو سے اشارہ ملتا ہے۔ نیز اس بات سے قطع نظر کیسے کیا جاسکتا ہے کہ امام بزی رحمہ اللہ، سیدنا ابن کثیر مکی رحمہ اللہ تکبیرات کو نقل کرنے میں منفرد نہیں ہیں،بلکہ امام قنبل رحمہ اللہ اور امام القواس رحمہ اللہ نے ان کی متابعت کی ہے۔ مزید برآں امام ابن کثیررحمہ اللہ بھی منفرد نہیں ہیں، کیونکہ امام ابوعمرو ابن العلاءرحمہ اللہ، امام ابوجعفررحمہ اللہ یزید بن قعقاع رحمہ اللہ، امام ابن محیصن رحمہ اللہ اور ان کے علاوہ دیگر بہت سے تابعین نے ان کی متابعت کی ہے۔‘‘ (سنن القراء و مناہج المجودین:ص۲۲۴)
 
Top