• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بین السورتین تکبیرات … تحقیقی جائزہ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام حمیدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’میں نے سفیان بن عینیہ رحمہ اللہ سے سوال کیا کہ ابومحمد! ہمارے پاس بعض دفعہ نمازی جب رمضان میں اختتام کو پہنچتا ہے تو وہ تکبیر کہتا ہے، اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں صدقہ بن عبداللہ بن کثیررحمہ اللہ کو ۷۰ سال سے دیکھ رہا ہوں کہ وہ جب بھی اختتام قرآن کرتے ہیں تو آخر میں تکبیر کہتے ہیں۔‘‘(النشر:۲؍۴۲۵، الاتحاف :۲؍۶۴۷، سنن القراء :۲۲۰)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام حمیدیرحمہ اللہ سے مروی ہے کہ
’’ ان کو محمد بن عمر بن عیسیٰ رحمہ اللہ نے بتایا کہ میرے والد گرامی نے مجھے خبر دی کہ انہوں نے ماہ صیام میں نماز کے اندر سورۃ الناس پڑھی، تو ان کو امام ابن جریج رحمہ اللہ نے حکم دیا کہ سورہ والضّحیٰ سے آخر قرآن کریم تک تکبیر کہا کرو۔‘‘(النشر:۲؍۴۲۵، سنن القراء:۲۲۰)
امام حمیدی رحمہ اللہ سے ہی مروی ہے کہ
’’میں نے عمر بن سہل رحمہ اللہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ وہ فرما رہے تھے کہ میں نے عمر بن عیسیٰ رحمہ اللہ کے پیچھے رمضان المبارک میں قیام اللیل کیا تو انہوں نے سورہ والضحی پر تکبیر کہی۔ بعض لوگوں نے اس پر اعتراض کیا توانہوں نے فرمایا کہ مجھے امام ابن جریج رحمہ اللہ نے تکبیر کا حکم دیاہے، چنانچہ ہم نے امام ابن جریج رحمہ اللہ سے سوال پوچھا تو انہوں نے کہا کہ واقعی میں نے ہی حکم دیا ہے۔‘‘(النشر:۲؍۴۲۵، سنن القراء: ۲۲۱)
امام سخاوی رحمہ اللہ نے اپنی سند کے ساتھ ابومحمد الحسن القرشی رحمہ اللہ کا قول ذکر فرمایا ہے کہ
’’میں نے رمضان میں لوگوں کومسجد حرام میں نماز تراویح پڑھائی۔ جب میں سورہ والضحی پرپہنچا تو میں نے سورہ والضحیٰ سے لے کر آخر قرآن تک تکبیر کہی۔ جب میں نے سلام پھیرا تومیرے پیچھے امام ابوعبداللہ محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ تھے۔ انہوں نے بھی میرے پیچھے نماز پڑھی تھی۔ وہ مجھے دیکھ کر فرمانے لگے کہ آپ نے بہت عمدہ کام اور سنت پر عمل کیا ہے۔ (النشر:۲؍۴۲۵، الاتحاف:۲؍۶۴۷، سنن القراء: ۲۲۳)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امامر قنبل رحمہ اللہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں:
’’مجھے ابن المقرئ رحمہ اللہ نے خبردی، انہوں نے ابن الشہیدالحجبی رحمہ اللہ کو سنا کہ وہ رمضان المبارک میں مقام ِابراہیم کے پیچھے نماز کے اندر تکبیرکہتے تھے۔‘‘(النشر:۲؍۴۲۶، سنن القرائ:۲۲۱)
امام اہوازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’تکبیر اہل مکہ کے تعامل میں سنت ماثورہ کے طور پر جاری رہی ہے، جسے وہ اپنے دروس اورنمازوں میں پڑھتے تھے۔‘‘(النشر: ۲؍۴۱۰)
حافظ ابوعمرو دانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ امام ابن کثیررحمہ اللہ (القواس رحمہ اللہ اور بزی رحمہ اللہ کے طریق کی رو سے) نماز میں سورہ والضحیٰ سے لے کر آخر تک تکبیر پڑھا کرتے تھے۔‘‘ (النشر:۲؍۴۱۱)
حافظ ابن جزری رحمہ اللہ النشرمیں ایک لمبی گفتگو کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
’’نمازمیں تکبیر فقہائے اہل مکہ اور دیگر علماء سے ثابت ہوچکی ہے، خصوصاً امام شافعی رحمہ اللہ، سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ، ابن جریج رحمہ اللہ اور ابن کثیررحمہ اللہ وغیرہ کا عمل ہمارے لئے ثبوت کے طور پر کافی ہے۔‘‘(النشر:۲؍۴۲۶)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام ابن جزری رحمہ اللہ اپنے مذکورہ کلام کے بعد فرماتے ہیں:
’’میں نے بہت سارے شیوخ کو دیکھا کہ وہ تکبیر کو نماز میں پڑھتے تھے اور رمضان کی راتوں میں نماز تراویح پڑھانے والوں کو اس کا حکم دیتے تھے۔‘‘ (النشر:۲؍۴۲۷)
موصوف رحمہ اللہ مزید رقم طراز ہیں:
’’جب اللہ کے فضل خاص سے مجھے مکہ کے پڑوس میں رہنے کا موقع ملا تو میں نے دیکھا کہ جس نے بھی مسجدالحرام میں نماز تراویح پڑھائی وہ سورہ والضحی سے لے کر آخر تک تکبیرکہتا، لہٰذا میں نے سمجھ لیا کہ یہ سنت اہل مکہ کے تعامل میں تاحال جاری ہے۔‘‘ (النشر:۲؍۴۲۸)
امام جزری رحمہ اللہ اس سلسلہ میں فقہی مذاہب پر تنقیدکرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’امام شاطبی رحمہ اللہ سے تکبیرثابت ہوجانے کے باوجود اکثر شوافع کی کتب میں تکبیر کے بارے کوئی نص نہیں ملتی۔ شوافع میں سے اس کوتفصیلاً نقل کرنے والے امام ابوالحسن سخاوی رحمہ اللہ ، امام ابواسحاق الجعبری رحمہ اللہ ہیں۔ علامہ ابوشامہ رحمہ اللہ ، جو اکابر اصحاب شوافع میں سے تھے اور مرتبہ اجتہاد پر فائز تھے، نے بھی اس باب میں مفصلا بحث کی ہے۔ اسی طرح ہمیں شیخ الشافعیہ امام ابوالثناء محمود بن محمد بن جملہ رحمہ اللہ سے یہ خبر پہنچی ہے کہ وہ تکبیر پڑھنے کا فتویٰ دیتے تھے اور کبھی کبھار تراویح میں اس پر عمل بھی کرتے تھے۔‘‘ (النشر:۲؍۴۲۷)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حافظ ابن جزری رحمہ اللہ اس سلسلہ میں ایک واقعہ ذکر فرماتے ہیں:
’’ایک مرتبہ ایک بچے نے نماز تراویح میں اختتام قرآن کے موقع پرمعمول کے مطابق تکبیر کہہ دی،جس پربعض شوافع نے اعتراض کردیاکہ یہ درست نہیں ہے، چنانچہ امام زین الدین عمر بن مسلم القرشی رحمہ اللہ نے جواب دیاکہ ایساکرنا درست ہے اور یہ امام شافعی رحمہ اللہ سے ثابت ہے، جس کو امام سخاوی رحمہ اللہ اور علامہ ابوشامہ رحمہ اللہ نے نقل کیاہے۔ اس کے بعد میں نے شیخ الاسلام ابوالفضل عبدالرحمن بن احمدالرازی الشافعی رحمہ اللہ کی کتاب الوسیط میں دیکھاکہ اس میں نماز کے اندر تکبیر پڑھنے کی نص موجود ہے۔ ‘‘ (النشر:۲؍۴۲۷)
الاتحاف میں مذکور ہے:
’’ میں کہتا ہوں کہ جیساکہ خاتمۃ المجتہدین امام محمد البکری رحمہ اللہ صاحب الکنزسے اس کے بعض جلیل القدر اصحاب نے نقل کیا ہے، جس کاخلاصہ ہے کہ نماز کے اندر سورہ والضحی سے لے کر آخر قرآن تک لا إلہ إلا اﷲ واﷲ أکبر وﷲ الحمد پڑھنا اسی طرح مستحب ہے جیسے خارج نمازمیں مستحب ہے، جس کا مقصود اللہ کی حمد اور بڑائی بیان کرنا ہے اور اللہ اور اس کے رسولﷺکے دشمنوں کے منہ میں خاک پھینکنا ہے۔‘‘ (۲؍۶۴۸)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس کے بعد امام ابن جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’باوجود تتبع اورتلاش کے میں اپنے اصحاب یعنی شافعیہ کی کتب میں (چند ایک مذکورہ مثالوں کے علاوہ) تکبیر کے بارے میں کچھ نہیں پاسکا اور یہی حالت حنفی اور مالکی فقہاء کی ہے۔ البتہ حنابلہ میں سے امام ابوعبداللہ محمد بن مفلح رحمہ اللہ نے اس موضوع پر اپنی کتاب الفروع میں بحث کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ کیا سورہ والضّحی سے لے کر آخر قرآن تک تکبیرکہی جائے گی؟اس میں حنابلہ سے دو روایتیں مروی ہیں، البتہ حنابلہ کی عمومی رائے یہی ہے کہ امام ابن کثیررحمہ اللہ کے علاوہ کسی کی قراء ت میں بھی تکبیر نہ پڑھی جائے، کیونکہ روایت کی رو سے مروی ہی ان سے ہے۔اسی لیے کہا گیا ہے کہ ابن کثیر کی قراء ت میں تہلیل بھی پڑھی جائے گی۔‘‘ (النشر:۲؍۴۲۸)
فضیلۃ الشیخ عبد الفتاح السید عجمی المرصفی رحمہ اللہ محقق کی مذکورہ رائے پر حاشیہ آرائی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’حافظ ابن جزری رحمہ اللہ کے دعویٰ کہ میں شافعیہ کی کتب میں تکبیر کے بارے میں کچھ نہیں پاسکا، سے مراد دراصل مذکورہ چند آئمہ شافعیہ یعنی سخاوی رحمہ اللہ ، جعبری رحمہ اللہ ، ابوشامہ رحمہ اللہ اور رازی رحمہ اللہ وغیرہ کے ماسویٰ دیگر شوافع کی کتب ہیں۔ گویا ان اَئمہ کی کتب ہی میں صرف یہ بحث موجود ہے۔‘‘ (ھدایۃ القاری:۶۱۸)
امام ابن جزری رحمہ اللہ تکبیرات کے ثبوت کے حوالے سے مفصل بحث کے اختتام پر منکرین تکبیر کے بارے میں تاسف کا اظہار کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں:
’’افسوس توان لوگوں پر ہے جو نبی اکرمﷺ، صحابہ کرام ؓ، تابعین عظام سے اس تمام بحث اور ثبوت کے باوجود بھی تکبیر کے منکر ہیں۔‘‘ (النشر:۲؍۴۲۸)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام ابن جزری رحمہ اللہ کی مذکورہ گفتگو سے چند اہم مسائل سامنے آتے ہیں:
(١) تکبیر سنت ماثورہ ہے، جو نماز اور خارج نماز دونوں حالتوں میں عام ہے اور اہل مکہ و فقہائے اَمصار سے اس پر نماز ِتراویح اور قیام اللیل وغیرہ میں عمل ثابت ہے۔
(٢) فقہی مذاہب میں سے شوافع کے نزدیک تکبیر کو نمازمیں پڑھا جاسکتا ہے، جبکہ حنفیہ اور مالکیہ سے اس بارے میں کوئی نص ثابت ہی نہیں۔حنابلہ سے اس بارے میں تکبیر و عدم تکبیر دونوں روایات منقول ہیں، لیکن ان کے نزدیک سیدنا ابن کثیررحمہ اللہ کے علاوہ کسی قاری کے لئے تکبیر کہنا غیر مستحب ہے۔ بعض لوگ امام ابن کثیررحمہ اللہ کے لئے تکبیر کے ساتھ تہلیل کے جواز کے بھی قائل ہیں۔
(٣) نبی مکرمﷺ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ سے تکبیر کے ثابت ہوجانے کے بعد انکار کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی۔ (ھدایۃ القاری: ۶۱۸)
علامہ احمد البناء الدمیاطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’نماز کے اندر تکبیر کا پڑھنامستحب ہے،خواہ اختتام ِقرآن کا موقع ہو یا نماز کے اندر آخری سورتوں میں سے کسی ایک سورہ کو پڑھا گیاہو، مثلاً سورۃ الکافرون اور سورۃ الاخلاص کو دو رکعتوں میں پڑھا جائے تو تکبیر کہی جائے اور اس کی دلیل ووجہ واضح ہے۔ (الاتحاف :۲؍۶۴۸)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
علامہ احمد البناء الدمیاطی رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
’’جن سے نماز میں تکبیر ثابت ہے، ان میں سے بعض کا طریقہ کار یہ تھا کہ جب وہ سورۃ الفاتحہ کی قراء ت کرلیتے تو پہلے اﷲ اکبر کہتے، پھر بسم اﷲ پڑھتے اور اس کے بعد اور سورہ کو شروع کرتے۔ اس کے بالمقابل دیگر بعض کا طریقہ کاریہ تھا کہ وہ ہر سورہ کے آخر میں تکبیر کہتے، اس کے بعد رکوع کے لئے جھکتے اور رکوع کی تکبیر کہتے، حتیٰ کہ سورۃ الناس ختم کردیتے اور جب دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہوتے تو سورہ فاتحہ پڑھتے اور کچھ سورۃ البقرہ کے شروع سے۔ المختصر بعض ابتدائے سورہ میں تکبیر پڑھتے اور بعض انتہائے سورہ کے لحاظ سے تکبیر کہتے۔‘‘ (الاتحاف :۲؍۶۴۹)
امام جزری رحمہ اللہ النشر الکبیر میں فرماتے ہیں:
’’ہمارے بعض شیوخ کا طریقہ کار یہ تھا کہ وہ نمازِ تراویح پڑھاتے پڑھاتے جب سورہ والضحیٰ پر پہنچتے تو رُک جاتے، پھر سورہ والضحی سے لے کر آخر تک ایک ہی رکعت میں قیام کرتے اور ہرسورۃ کے آخر میں تکبیر کہتے۔جب سورۃ الناس ختم ہوجاتی تو اس کے آخر میں تکبیر کہتے اور اس کے بعد رکوع کے لئے علیحدہ تکبیر کہتے۔اس کے بعد دوسری رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد کچھ سورۃ البقرہ پڑھتے تھے۔ بقول ابن جزری رحمہ اللہ میں نے بھی کئی مرتبہ ایسے کیا، جب میں دمشق اور مصر وغیرہ میں امامت کرواتا تھا۔ جو تراویح میں تکبیر کہتے تھے، وہ ہرسورہ کے آخر میں پہلے اللہ اکبر کہتے، اس کے بعد رکوع کے لئے علیحدہ تکبیر کہتے تھے۔ اور ان میں سے بعض جب سورۃ الفاتحہ پڑھ لیتے اور نئی سورہ کا ارادہ ہوتا تو تکبیر کہہ کر بسم اللہ پڑھنے کے بعد سورہ کی ابتداء کرتے۔ (النشر:۲؍۴۲۷)
نوٹ:نماز میں تکبیر کے بارے میں اختلاف ہے کہ یہ سری ہوگی یا جہری؟یا تکبیر نماز کے سری وجہری ہونے کے تابع ہے ؟ اس بارے میں کئی اَقوال ہیں۔ (ھدایۃ القاری: ۶۱۹)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام محمد البکری رحمہ اللہ صاحب الکنز فرماتے ہیں:
’’یہ زیادہ لائق ہے کہ تکبیرکو مطلقاً سری پڑھا جائے اور رکوع سے پہلے کاسکتہ تکبیر کے بعد ہو۔‘‘(الاتحاف: ۲؍۶۴۸)
اس مذہب کو فضیلۃ الشیخ علامہ عبدالفتاح القاضی رحمہ اللہ نے اختیار کیاہے،فرماتے ہیں:
’’احسن بات یہی ہے کہ تکبیر نماز میں سری ہو، خواہ نماز جہری ہو یا سری۔‘‘ (البدور الزاھرۃ: ۳۵۱)
امام بکری رحمہ اللہ کی رائے کے خلاف علامہ ابن العمادرحمہ اللہ نے نقل کیاہے کہ بین السورتین تکبیرکوجہراً پڑھا جائے۔وہ تکبیر کے جہری یا سری ہونے کو نماز وغیرہ کے ساتھ مقیدنہیں کرتے۔ اسی طرح امام ابن حجر الہیثمی رحمہ اللہ نے بھی شرح الکتاب میں البدر زرکشی رحمہ اللہ سے ایسے ہی نقل کیا ہے اور اس پر زور دیا ہے کہ یہی صحیح ہے۔ (الاتحاف :۲؍۶۴۸)
ہمارے شیخ المشائخ علامہ المرصفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’میرے نزدیک تکبیر کانماز کے تابع ہونا زیادہ راجح ہے، چنانچہ جہری نماز میں جہری تکبیر اور سری میں سری تکبیر پڑھنا چاہیے۔ واللہ تعالیٰ اعلم‘‘ (ہدایۃ القاری: ۶۱۹)
فائدہ: خراسان کے امام القراء ابوالحسن علی بن احمد نیشاپوری رحمہ اللہ اپنی کتاب الارشاد فی القراء ت الاربع عشرۃمیں فرماتے ہیں کہ نماز میں تکبیر کہنے والے کے لیے مستحب ہے کہ وہ سیدنا ابن کثیر مکی رحمہ اللہ کی قراء ت میں صرف تکبیر کے بجائے تکبیر مع تہلیل کہے، تاکہ تکبیر رکوع کی تکبیر سے ملتبس نہ ہوجائے۔ ( النشر: ۲؍۴۲۶)

٭_____٭_____٭
 
Top