• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بیوہ خاتوں کی معاشی مشکلات کا حل

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
452
پوائنٹ
209
بیوہ خاتوں کی معاشی مشکلات کا حل
مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر- طائف
www.maquboolahmad.blogspot.com


جب کسی عورت کے شوہر کا انتقال ہوجاتا ہے تو اس کے بچے یتیم اور وہ بیوہ کہلاتی ہے ۔ سماج میں بیوہ عام طور سے بے سہار ا بن کر رہ جاتی ہے ، نہ ہی اس کے رشتے دار سہارا دیتے ہیں اور نہ اس کے سماج وسوسائٹی والے ۔ یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے جب عورت نفسیات کا شکار ہوجاتی ہیں بطور خاص اسوقت جب ایک طرف معاشی تنگی کا سامنا ہو اور دوسری طرف بچوں او ر اپنے گزربسر کا مسئلہ ہو۔ ایک ایسی ہی خاتون نے مجھ سے ذکر کیاکہ کچھ دن پہلے میرے شوہر کا انتقال ہوگیا ، میرے پاس چھوٹے بچے ہیں ، کوئی سہارا دینے والا نہیں اور نہ ہی کوئی ذریعہ معاش میرے پاس ہے براہ کرم مجھے قرآن وحدیث سے کوئی وظیفہ بتائیں تاکہ مجھے اللہ کی طرف سے رزق ملتا رہے اور کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی نوبت نہ آئے ۔ مجھے اللہ کی ذات پر پورا بھروسہ ہے وہ میرے لئے ضرور کوئی رزق کا دروازہ کھولے گا۔ ان شاء اللہ
یہ ایک عورت کامسئلہ نہیں اور نہ ہی ایک شہر وملک کا مسئلہ ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر ایسے بے شمار واقعات وحالات پائے جاتے ہیں ۔ ہمارے سامنے ایک سوالیہ نشان ابھرتا ہے کہ ایسے حالات میں معاشی تنگی کا شکار بیوہ خاتون کیا کرے ؟ جسے سہار امل گیا یا جسے اچھی رہنمائی مل گئی اس کے لئے تو بہتری ہے مگر جس کو نہ کوئی سہارا دینے والا ملا نہ ہی کسی نے کوئی اچھا سوچھاؤ دیا ایسی عورتیں گھٹ گھٹ کر جیتی ہیں ، مانگنے میں عار محسوس کرتی ہیں نتیجتا بہت ساری خواتین خودکشی کا راستہ اختیار کرتی ہیں یا فحش کاموں میں ملوث ہوجاتی ہیں ۔

بیوہ کی معاشی مشکلات کے حل کا دو طریقہ ہے ، ایک اجتماعیت سے تعلق رکھتا ہے تو دوسرا انفرادیت سے ۔
مشکلات کا اجتماعی حل :
اسلامی ریاست اور بیت المال کی ذمہ داری ہے کہ وہ بے سہارا خواتین اسلام اور بیوہ عورتوں کی معاشی کفالت کرے ، ان کے بچوں کی تعلیم وتربیت اور معاشی نگہداشت کرے ۔ اسلامی ریاست موجود نہیں ہو تو سماجی تنظیموں کا یہ کام ہےاور سماجی تنظیموں کے ساتھ انفرادی طور پر جو لوگ صاحب نصاب ہیں یا جن کے پاس ضرورت سے زائد مال ہے وہ لوگ اپنے بچے ہوئے پیسوں سے ان محتاجوں کی معاشی مشکلات دور کرے ۔آج خیراتی اداروں اور اصحاب ثروت کی کمی نہیں ہے مگر مجبوروں کی معاشی مشکلات جوں کے توں ہیں ۔ اگر یہ لوگ فعال ہوجائیں اور دیانتداری سے مستحقین پر مال صرف کریں تو سماج سے ہرقسم کی غربت ولاچاری کا خاتمہ ہوجائے گا۔
مشکلات کا انفرادی حل : انفرادی حل کا تعلق خود بیوہ خاتون سے ہے جسے صدقہ لاحق ہے ، مصائب سے دوچار ہے وہ چاہے تو انفرادی طور پر اپنے مسائل کو حل کرسکتی ہے اور معاشی مشکلات ختم کرسکتی ہے ۔
سب سے پہلے تو یہ بتادوں کہ ایک عورت کے لئے اس کے شوہر کا انتقال بڑا صبر آزما مرحلہ ہوتا ہے ایسے موقع پربیوہ خاتون کو صبر جمیل کی تلقین کرتا ہوں ،مصائب ومشکلات میں صبر کرنا مومن کی امتیازی صفت اور پریشانی سے نکلنے کا ایک اہم ذریعہ ہے ۔ اللہ تعالی صبر کے ذریعہ بندوں کی غیبی مدد کرتا ہے ،حزن وملال دور فرماتا ہے اور بے پناہ اجر سے نوازتا ہے ۔ فرمان الہی ہے :
إِنَّمَا یُوَفَّی الصَّابِرُوْنَ أَجْرَہُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ(الزمر: ۱۰)
ترجمہ: یقینا صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بغیر حساب کے پورا دیا جائے گا۔
مومن بندہ کو اس بات پر بھی یقین کرنا ہے کہ سب کی روزیاں آسمان میں ہیں ، اللہ تعالی جس طرح چاہتا ہے اپنے بندوں کو آسمان سے روزی بھیجتا ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے :
وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ(الذاریات: 22)
ترجمہ: اور تمہاری روزی اور جو تم سے وعدہ کیا جاتا ہے سب آسمان میں ہے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ شوہر کے انتقال کے بعد اس کے چھوڑے ہوئے ترکے میں سے بیوی کو آٹھواں حصہ ملے گا اگر اسے اولاد ہے اور اولاد نہیں تو پھر چوتھا حصہ ملے گا۔اسی طرح شوہر نے اپنی حیات میں جو تحفے تحائف اور مال وزر دئے وہ بیوی کا ہے ، مہر کی رقم بھی بیوی کی ذاتی ہے ۔
تیسری بات یہ ہے کہ اس چیزوں کے علاوہ ایسے اعمال وافعال ہیں جن کے ذریعہ بیوہ ذاتی طور پر عمل میں لاکر اپنے حالات بہتر سے بہتر کر سکتی ہے ۔ زندگی کی خوشیاں بٹورسکتی ہے اور جن مالی مشکالات کا سامناہے اللہ کی توفیق واعانت سے اس کا سدباب کرسکتی ہے ۔

نیچے میں کچھ اعمال بیان کررہاہوں جو فقر وفاقہ کے خاتمہ اسباب ہیں ،انہیں عملی جامہ پہناکر اللہ نے چاہا تو اس کی طرف سے مالداری نصیب ہوگی ۔
(1) اسلامی تجارت میں شرکت کریں :
عورت کے پاس اگر کچھ رقم ہو تو اسے اسلامی تجارت میں لگاسکتی ہے جس کے منافع سے اس کے حالات اچھے ہوسکتے ہیں ۔ کچھ لوگ کام کے ماہر ہوتے ہیں مگر رقم نہیں ہوتی تاکہ اپنی مہارت کاصحیح استعمال کرسکے۔ ایسے لوگوں کے لئے بیع سلم مفید تجارت ہے ۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ جس کام میں مہارت ہے اس کا منصوبہ تیار کریں اور اس منصوبے کے مصروفات پہلے ہی لے لیں یعنی اس چیز کا پلان دکھاکر ہی بیچ دیں اور جو مدت آپ نے خریدار سے طے کی اس کے اندر اس کے ہی پیسے سے منصوبے کی تکمیل کردیں ، اس طرح بغیر پیسے کے کام بھی ہوجائے گا اور منافع بھی حاصل ہوجائےگا۔
(2) جائز پیشہ اختیار کریں:اسلام نے عورتوں کو نوکری کرنے سے منع نہیں کیا ہے ، ایک عورت شرعی حدود میں رہ کر اس کے لئے جو وظیفہ جائز ہے انجام دے سکتی ہے اور اس کے ذریعہ وہ اپنے اور اپنے بچوں کی پرورش کرسکتی ہے ۔ مثلا سلائی ، کڑھائی ، صفائی ، امور خانہ داری ، کمپنیوں اور تعلیمی اداروں میں مزدوری وغیر ہ ۔ نوکری کے لئے شرعی حدود یعنی حجاب کی پابندی، اختلاط سے اجتناب، عفت وعصمت کی حفاظت ، محرم کے ساتھ سفر اور خلوت سے دوری ضروری ہے۔
(3) کسی دیندار مرد سے نکاح کرلیں: نکاح نہ صرف نظر وشرمگاہ کی حفاظت کا ذریعہ ہے بلکہ اس سے مالداری بھی آتی ہے ۔ بیوہ خاتون کو شادی کرلینا چاہئے تاکہ اس کی عفت وعصمت کی حفاظت ہو ، جسمانی سکون وراحت نصیب ہو اور اسلام نے شوہر کے ذمہ جو کفالت کی ذمہ داری ڈالی ہے اس سے فائدہ حاصل ہو۔ نکاح رزق کے حصول کا ذریعہ ہے ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے :
وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ(النور:32)
ترجمہ: تم میں سے جو مرد عورت بے نکاح کے ہوں ان کا نکاح کردو اور اپنے نیک بخت غلام اورلونڈیوں کا بھی اگر وہ مفلس بھی ہوں گےتو اللہ تعالٰی انہیں اپنے فضل سے غنی بنا دے گا اللہ تعالٰی کشادگی والا اورعلم والا ہے ۔
اسی طرح نبی ﷺکا فرمان ہے :
ثلاثةٌ حقٌّ على اللَّهِ عونُهُم: المُجاهدُ في سبيلِ اللَّهِ، والمُكاتِبُ الَّذي يريدُ الأداءَ، والنَّاكحُ الَّذي يريدُ العفافَ( صحيح الترمذي:1655)
ترجمہ:تین آدمیوں کی مدد اللہ کے نزدیک ثابت ہے ایک اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا، دوسرا وہ مکاتب غلام جو زر کتابت ادا کرنا چاہتا ہو اور تیسرا وہ شادی کرنے والا جو پاکدامنی حاصل کرنا چاہتا ہو۔
یہاں میں ان مردوں کو بھی مخاطب کرنا چاہتا ہوں جن کی بیوی کی وفات ہوگئی وہ کسی بیوہ خاتون سے شادی کرکے اپنی اور اس کی زندگی بہتر بنالیں ۔ بیوہ سے کوئی ضروری نہیں ہے کہ شادی شدہ مرد ہی شادی کرے ، غیرشادی شدہ مرد بھی کرسکتا ہے ۔ نبی ﷺ کا پہلا نکاح حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے ہوا تھا آپ غیر شادی شدہ اور خدیجہ رضی اللہ عنہا بیوہ تھیں۔ ان کے علاوہ کئی بیوہ خاتون سے آپ ﷺ نے نکاح کیا۔

(4) توبہ واستغفار کو لازم پکڑیں : جو کثرت سے توبہ واستغفار کرتے ہیں اللہ تعالی ان کی مدد فرماتا ہے ، تنگ دستی دور کرتا اور خوشحالی نصیب کرتا ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے :
فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا . يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا . وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَلْ لَكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَلْ لَكُمْ أَنْهَارًا(نوح : 10-12)
ترجمہ:پس میں (نوح) نے کہا، اپنے رب سے گناہوں کی معافی طلب کرو،بے شک وہ بڑا بخشنے والا ہے ، وہ آسمان سے تم پر موسلادھار بارش برسائے گااور تمہارے مالوں اور اولاد میں اضافہ کرے گا،اور تمہارے لئے باغات پیدا کرے گا،اور نہریں نکالے گا۔
گناہوں سے معافی طلب کرنے کا مطلب ہے کہ آدمی سے جو گناہ ہوگیا ہے اس پہ شرمسار ہو اور اسے آئندہ کے لئے ترک کردے اور اس گناہ کے ترک پہ پختہ ارادہ بھی کرے ۔

(5) اللہ کا تقوی اختیار کریں : اللہ تعالی سے ڈرنا اور صرف اسی سے خوف کھاناعظیم عبادت ہے ۔ اس عبادت کی انجام دہی رب کو بیحد پسند ہے ۔ جو لوگ فقرکے شکار ہیں انہیں اللہ کا تقوی اختیار کرنا چاہئے تاکہ وہ اللہ کے نردیک محبوب بن جائے اور اللہ خوش ہوکر دین ودنیا کی مالداری عطا کردے ۔ اللہ تعالی نے وعدہ کیا ہے جو اس سے تقوی اخیتار کرے گا اس کو غم والم اور حزن وملال سے نکالے گا اور رزق کے ایسے دہانے کھولے گا جس کا اس نے شعور بھی نہیں کیا تھا۔ فرمان باری تعالی ہے :
وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا، وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ
ۚ وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ(الطلاق:2-3(
ترجمہ: اور جوشخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لئے چھٹکارے کی شکل نکال دیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جس کا اسے گمان بھی نہ ہو اور جوشخص اللہ پر توکل کرے گا اللہ اسے کافی ہوگا۔
اس کی مثال تین غاروالوں کا واقعہ ہے، ان میں سے ایک اپنی چچازاد بہن پر فریفتہ تھا ، اس نے ایک سو دینار کے بدلے اس سے بدسلوکی کرنے کی کوشش کی ، جب قریب تھا کہ وہ خلوت نشینی کرے تو لڑکی نے سے اللہ سے ڈرنے کا واسطہ دیا ، وہ آدمی ڈرگیا۔ تو اللہ نے غار کے منہ سے پتھر ہٹا کر مصیبت سے نجات دیا۔ (بخاری ومسلم(

(6) اللہ ہی پر کامل بھروسہ رکھیں: جب آدمی غمزدہ ہوتا ہے تو اس کی سوچ وفکر اور اعما ل پر بہت فرق پڑتا ہے ۔ غم دور ہونے کے بجائے بڑھتا چلا جائے تو اس عالم میں اللہ پر اعتماد کرنا ایمان والوں کی پہچان ہے ۔ ہمیں یہ اعتقاد رکھنا ہے کہ پریشانی دینے والا اور دور کرنے صرف اللہ کی ذات ہے ۔ فرمان الہی ہے :
وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ‌ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ
ۖ وَإِن يَمْسَسْكَ بِخَيْرٍ‌ فَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ‌(سورة الأنعام:17)
ترجمہ: اگر اللہ تمہیں کسی قسم کا نقصان پہنچائے تو اس کے سوا کوئی نہیں جو تمہیں اس نقصان سے بچا سکے اور اگر وہ تمہیں کسی بھلائی سے بہرہ مند کرے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
جب آئی ہوئی مصیبت اللہ کی طرف سے ہے اسے کوئی ٹالنے والا نہیں تو کیوں نہ اللہ ہی پر کامل بھروسہ کریں تاکہ وہ غم سے نجات دیدے اور خوشحالی سے بھی مالا مال کردے ۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے :
لو أنَّكم كنتُم توَكلونَ علَى اللهِ حقَّ توَكلِه لرزقتُم كما يرزقُ الطَّيرُ تغدو خماصًا وتروحُ بطانًا(صحيح الترمذي:2344)
ترجمہ:اگر تم لوگ اللہ پر توکل ( بھروسہ ) کرو جیسا کہ اس پر توکل ( بھروسہ ) کرنے کا حق ہے تو تمہیں اسی طرح رزق ملے گا جیسا کہ پرندوں کو ملتا ہے کہ صبح کو وہ بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو آسودہ واپس آتے ہیں۔

(7) اللہ کی بندگی بجالائیں: اللہ وحدہ لاشریک نے بندوں کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے ، انسان کو رب کی بندگی کرتے ہوئے زندگی گزارنی چاہئے خواہ زندگی کی صعوبت سے دور ہو یا عیش وعشرت والی زندگی میسر ہو۔ ہردوحال میں اللہ کی بندگی کے لئے وقت نکالنا چاہئے اور کامل یکسوئی سے اس پروردگار کی عبادت کرنی چاہئے ۔ اس کے سبب اللہ تعالی مالداروں کی مالداری میں برکت اور زیادتی پیدا کرے گا اور محتاجوں کی محتاجی دور کرکے غنی بنادے گا۔ حدیث قدسی میں وارد ہے :
إنَّ اللَّهَ تعالى يقولُ يا ابنَ آدمَ : تفرَّغْ لعبادتي أملأْ صدرَكَ غنًى وأسدَّ فقرَكَ وإن لا تفعَل ملأتُ يديْكَ شغلاً ، ولم أسدَّ فقرَكَ(صحيح الترمذي:2466)
ترجمہ: یقینا اللہ تعالی نے فرمایا:اے ابن آدم ! میری عبادت کے لئے خود کو فارغ کرویعنی توجہ اور دلجمعی سے میری عبادت کرو، میں تیرے سینے کو تونگری سے بھر دوں گا، اور تیری محتاجی کو ختم کردوں گا۔اور اگر تونے ایسا نہ کیاتو میں تیرے ہاتھ کاموں میں الجھا دوں گا اور تیری مفلسی ختم نہ کروں گا۔
گویا عبادت کے لئے فارغ کرنا محتاجگی دور ہونے کا سبب ہے ، اسی طرح عبادت کے ذریعہ اللہ تعالی سے محتاجگی دور ہونے کا سوال بھی کرے جیساکہ اس نے اپنے بندوں کو حکم دیاہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ
ۚ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ (البقرة:153)
ترجمہ: اے ایمان والو! نماز اور صبر کے ذریعہ اللہ تعالی سے مدد طلب کرو ، بےشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔

(8) صلہ رحمی کریں: اکثر ایسا ہوتا ہے کہ معمولی معمولی باتوں پر رشتہ داریاں منقطع کرلی جاتی ہیں جس سے الفت ومحبت، مال ودولت اور اس کی برکت چلی جاتی ہے ۔ اگر کسی کے خاندان میں عورت کو طلاق ہوجائے یا بیوہ ہوجائے تواس کے مالدار رشتے دار منہ پھیر لیتے ہیں تاکہ اسے کچھ دینا نہ پڑے ۔ ایسے لوگوں کو اللہ سے ڈرنا چاہئے اور اپنے مال سے محتاج رشتہ داروں کی مدد کرنی چاہئے ، ہمارے مال کا اصل مستحق ہمارے ہی مسکین رشتے دار ہیں ۔ اس سے خرچ کرنے والے کو دنیا وآخرت میں کئی گنا بدلہ ملے گا۔ ساتھ ہی بیوہ خاتون کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ ظالم رشتہ داروں کے ظلم پر صبر کریں ، آپ اپنی طرف سے رشتے ناطے جوڑیں رکھیں اور اللہ تعالی سے حالات کی بہتری کے لئے دعا کرتے رہیں ۔ آپ اگر ظلم پر صبر کرتے ہوئے صلہ رحمی کرتے ہیں تو اللہ تعالی آپ کے تھوڑے مال میں زیادتی کردے گا جس سے آپ کی ضروریات پوری ہوجائیں گی اور آپ کو دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی نوبت نہیں آئے گی ۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے :
من سَرَّهُ أن يُبسطَ له في رزقِه ، أو يُنسأَ له في أَثَرِهِ ، فليَصِلْ رحِمَه(صحيح البخاري:2067)
ترجمہ: جو شخص اپنے رزق میں وسعت يا عمر میں اضافہ پسند کرے وہ صلہ رحمی کرے ۔

(9) دعاکا خاص اہتمام کریں :دعا مومن کا سب سے بڑا ہتھیار ہے اس کے ذریعہ اللہ تعالی سے کبھی بھی اور کچھ بھی مانگ سکتا ہے ۔ فقر ہے مالداری مانگ سکتا ہے ، پریشانی ہے آسانی مانگ سکتا ہے ، بے اولاد ہے اولاد مانگ سکتا ہے ، بیماری ہے شفا مانگ سکتا ہے ، بے روزگاری ہے روزگار مانگ سکتا ہے ، ناسمجھی ہے فہم وفراست مانگ سکتا ہے وغیرہ ۔ متعدد احادیث میں اس کا ذکر ہے کہ جب بندہ اللہ سے مانگتا ہے تو اللہ تعالی خوش ہوتا ہے کیونکہ بندہ اللہ سے سوال کرتا ہے اوربندے کو خالی ہاتھ لوٹانے میں شرم محسوس کرتا ہے ۔ یوں تو بندہ کبھی بھی اللہ سے مانگ سکتا پھر بھی بندوں سے اللہ کی محبت وچاہت دیکھیں کہ وہ روزانہ آسمان دنیا پر نزول کرتا ہے اور لوگوں کو کہتا ہے ، ہے کوئی مانگنے والا میں اسے دوں گا۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
يَنْزِلُ ربُّنا تباركَ وتعالى كلَّ ليلةٍ إلى السماءِ الدنيا ، حينَ يَبْقَى ثُلُثُ الليلِ الآخرِ ، يقولُ : من يَدعوني فأَستجيبُ لهُ ، من يَسْأَلُنِي فأُعْطِيهِ ، من يَستغفرني فأَغْفِرُ لهُ .(صحيح البخاري:1145)
ترجمہ: ہمارا پروردگار بلند برکت والا ہے ہر رات کو اس وقت آسمان دنیا پر آتا ہے جب رات کا آخری تہائی حصہ رہ جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کوئی مجھ سے دعا کرنے والا ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں، کوئی مجھ سے مانگنے والا ہے کہ میں اسے دوں کوئی مجھ سے بخشش طلب کرنے والا ہے کہ میں اس کو بخش دوں۔
اس لئے بندہ کو رات کے آخری حصے میں رب سے جو ضرورت ہو اس کا سوال کرنا چاہئے اللہ تعالی دعا قبول کرنے والا ہے ۔

(10) ذکر واذکار کرتے رہیں:نبی ﷺ نے ہمیں ایسی دعاؤں اور اذکارکی تعلیم دی ہے جن سے محتاجگی دور ہوتی اور خوشحالی میسر ہوتی ہے ۔ ان میں سے چند اذکار ودعا کو یہاں ذکر کرتا ہوں جن کا اہتمام ہمیں کرنا چاہئے بطور خاص بیوہ خاتون جن کا معاش تنگ وناکافی ہو۔ اللہ تعالی مجبور بندوں کی دعا قبول کرتا ہے اور ذکر واذکار کو پسند فرماتا ہے اور اس کے بدلے دینا میں آرام وسکون ، روزی میں کشادگی وبرکت اور آخرت میں کامیابی عطا کرتا ہے ۔
٭جب فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نبی ﷺ سے نوکر طلب کیا تو آپ نے انہیں یہ دعا سکھائی :
اللَّهمَّ ربَّ السَّمواتِ السَّبعِ، وربَّ العرشِ العظيمِ، ربَّنا وربَّ كلِّ شيءٍ منزِلَ التَّوراةِ والإنجيلِ والقرآنِ، فالقَ الحبِّ والنَّوى، أعوذُ بِكَ من شرِّ كلِّ شيءٍ أنتَ آخذٌ بناصيتِهِ، أنتَ الأوَّلُ فليسَ قبلَكَ شيءٌ، وأنتَ الآخِرُ فليسَ بعدَكَ شيءٌ، وأنتَ الظَّاهرُ فليسَ فوقَكَ شيءٌ، وأنتَ الباطنُ فليسَ دونَكَ شيءٌ، اقضِ عنِّي الدَّين، وأغنِني منَ الفقرِ(صحيح الترمذي:3481)
ترجمہ: اے اللہ! تو ساتوں آسمانوں کا رب، عرش عظیم کا رب، اے ہمارے رب! اور ہر چیز کے رب، توراۃ، انجیل اور قرآن کے نازل کرنے والے، زمین پھاڑ کر دانے اگانے اور اکھوے نکالنے والے، میں تیری پناہ چاہتا ہوں ہر چیز کے شر سے، جس کی پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے، تو پہلا ہے ( شروع سے ہے ) تجھ سے پہلے کوئی چیز نہیں ہے، تو سب سے آخر ہے تیرے بعد کوئی چیز نہیں، تو سب سے ظاہر ( یعنی اوپر ہے ) ، تیرے اوپر کوئی چیز نہیں ہے، تو پوشیدہ ہے سب کی نظروں سے، لیکن تم سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے، اے اللہ! تو میرے اوپر سے قرض اتار دے اور مجھے محتاجی سے نکال کر مالدار کر دے۔
٭فجر کی نماز کے بعد یہ دعا پڑھیں :
اللَّهمَّ إنِّي أسألُكَ عِلمًا نافعًا ورزقًا طيِّبًا وعملًا متقبَّلًا(صحيح ابن ماجه:762)
ترجمہ: اے اللہ میں تجھ سے نفع بخش علم، پاکیزه رزق اور قبولیت والے عمل کا سوال کرتا ہوں۔
٭جب کوئی نیا مسلم ہوتا تو آپ ﷺ انہیں نماز کی تعلیم دیتے اور یہ دعا پڑھنے کاحکم فرماتے :
اللهم ! اغفِرْ لي وارحمني واهْدِني وعافِني وارزُقْني(صحيح مسلم:2697)
ترجمہ: اے اللہ مجھے معاف فرما، مجھ ہر رحم فرما، مجھے عافیت دے اور مجھے رزق عطا فرما۔
٭اسے بھی کثرت سے پڑھیں:وَارْزُقْنَا وَأَنتَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ(المائدہ:114)
ترجمہ:اور ہمیں رزق دے اور تو بہترین رازق ہے۔
٭ یہ بھی ایک بہترین قرآنی دعا ہے جو دوران طواف رکن یمانی اور حجراسود کے درمیان باربار پڑھی جاتی ہے ، اس میں دنیا وآخرت کی ساری بھلائی کی دعا شامل ہے ۔
رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (201)
ترجمہ: اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی دے اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا۔
ان کے علاوہ بہت ساری دعائیں ہیں اور وہ دعائیں بھی پڑھی جاسکتی ہیں جو پریشانی ، غم اور تکلیف ومصیبت دور کرنے والی ہوں ۔

(11) اعمال صالحہ کے ذریعہ اللہ کی قربت حاصل کریں: ہمیں نیک عملوں کے ذریعہ اللہ کی قربت حاصل کرنا چاہئے اور اسے راضی کرنا چاہئے ۔ کبھی کبھی اللہ تعالی چھوٹی نیکی سے خوش ہوکر رحمت وبرکت سے نواز دیتا ہے اور کبھی کبھی چھوٹی برائی سے ناراض ہو کر مالدار کو فقیر ومسکین بنادیتا ہے اس لئے یہ بات ذہن میں رہے ۔ پنچ وقتہ نمازوں کے علاوہ نفلی عبادات مثلا ایام بیض کے روزے ، سوموار اور جمعرات کے روزے ، قیام اللیل ، اشراق کی نماز ، وضو کی نماز ، مسواک کی سنت ، اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے اذکار واستغفار کا اہتمام ، قرآن کی تلاوت ، دین کی نشر واشاعت وغیرہ سے اللہ کی رضامندی حاصل ہوتی ہے۔اس بات پر ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی جس سے راضی ہو کبھی وہ پریشانی میں ہمیشہ مبتلا نہیں رہے گا ، اللہ اسے قسم قسم کی نعمتوں سے نوازتا رہے گاجیسے مریم علیہ السلام کے گھر میں ہی روزی بھیج دیا کرتاتھا۔
 
Top