• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بیوی کی ذمے داریاں۔ ۔ اسعد الزوجین

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۱۱۔ صفائی ستھرائی:
خوبصورتی کو چار چاند لگانے کے لئے جو چیز سب سے زیادہ مدد دیتی ہے وہ ہے صفائی بلکہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ صفائی آدھی خوبصورتی ہے اس لئے ہر ماں اپنی بیٹی کو صاف ستھرا رہنے کی تلقین کرتی ہے۔

ایک ماں نے اپنی بیٹی کو یہ نصیحت کی: اے میری بیٹی! اپنے جسم کی صفائی سے کبھی غافل مت ہونا کیونکہ چہرے کو چمکا دیتی ہے۔ شوہر کے دل میں بیوی کی محبت پیدا کرتی ہے۔ بیماریوں سے دور رکھتی ہے اور کام کرنے کے لئے تمہارے بدن میںطاقت و خون پیدا کرتی ہے۔ گندی عورت سے سب لوگ دور بھاگتے ہیں۔ نگاہیں اسیر پڑنے سے پہلے ہی کترا کر نکل جاتی ہیں اور کان اس کا ذکر سننا پسند نہیں کرتے۔ اگر تم اپنے شوہر سے ملو تو خوش و خرم ، مسکراتے ہوئے ملو۔ کیونکہ محبت ایک جسم ہے جس کی روح چہرے پر چھائی خوشی اور ہشاش بشاش طبیعت ہے۔

صفائی خوبصورتی، ذوق اور حسنِ تربیت کی دلیل ہے اس لئے بیوی کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو، اپنے گھر کو، اپنے بچوں کو، اور اپنے شوہر کو صاف ستھرا رکھے۔ یہ ایک بہت ہی غیر مناسب بات ہے کہ جب بھی شوہر گھر میں داخل ہو تو اسے اپنے بچوں میں سے غسل نہ کرنے کی وجہ سے بو آتی محسوس ہو گھر گردوغبار اور میل کچیل سے اٹا ہوا ہو، اے سی پر دھول مٹی جمی ہے اور چھت کے کونے پر مکڑیوں نے اپنے جالے بنائے ہوئے ہیں۔ میز پر جوس گرا ہوا ہے جسے صاف کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ باتھ روم میں سے سٹرانڈ پھوٹ رہی ہے باورچی خانے میں سٹی ہوئی پلیٹیں اور دنیا جہاں کا گند جمع ہے۔

ڈسٹ بن کوڑے سے بھرا ہوا ہے اور اس کے آس پاس بھی کوڑا پڑا ہے ڈرائنگ روم کی کوئی دنوں سے صفائی نہیں ہوئی۔ بچے کے پیچس کئی دنوں سے سڑ رہے ہیں تبدیل نہیں کیا گیا۔ دوسرا بچہ کل سے اپنے میلے کپڑے پہنے گھوم رہا ہے۔ میاں بیوی کے بیڈ روم کا حشر نشر ہوا ہوا ہے نہ اس کی صفائی کی گئی ہے اور نہ ترتیب۔ اس طرح کی حالت اور بیوی کا یہ طرز عمل شوہر کا دل گھر سے اچاٹ کر سکتا ہے اور آج کل کے زمانے میں عورت کے لئے کوئی عذر بچا ہی نہیں کیونکہ صفائی کے وسائل اور مشینیں بکثرت موجود ہیں اور خوشبودار اسپرے بھی آسانی سے مل جاتے ہیں۔

امام ابن الجوزی (کتاب النساء) میں صفائی کے متعلق فرماتے ہیں: (بہترین خلقت اور کمالِ حسن کے بعد جو چیز بیوی کی شوہر کی نظروں میں قدرو منزلت بڑھاتی ہے وہ یہ ہے کہ بیوی اپنے آپ کو صاف ستھرا بنائو سنگھار کے ساتھ رکھے اور زیور مختلف قسم کے لباس اور ایسی تمام چیزیں استعمال کرے جس سے اس کا حسن دوبالا ہوتا ہو اور شوہر اسے پسند کرتا ہو نیز عورت کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ مرد کی نگاہ کسی گند یا بو یا کسی خراب چیز پر نہ پڑے۔

ایسے امور میں کوتاہی کرنا عورت کے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ اس سے شوہر یہ تاثر لے گا کہ بیوی کو اس کا کوئی خیال نہیں ہے پھر وہ کسی اور عورت کو تلاش کرے گا نیز وہ اوقات جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ذکر کئے ہیں اور جن میں عزیز و اقارب اور بچوں کو میاں بیوی کی بغیر اجازت ے ان کے پاس جانے سے منع کیا ہے ان اوقات میں خوب اچھی طرح سج دھج اور بنائو سنگار کرے) وہ اوقات یہ ہیں۔ ترجمہ: اے ایمان والو تمہارے ناکام اور تمہارے لونڈوں کو تین مرتبہ تم سے اجازت لے کر تمہارے پاس آنا چاہیے۔ فجر کی نماز سے پہلے اور ظہر میں جب تم آرام کرتے ہو اور عشاء کے بعد یہ اوقات تمہارا ستر ہیں۔ (۱) (سورہ نور (آیت ۵۸)

نیز بیوی کو یہ جاننا چاہیے کہ کتنے ہی شوہر ایسے ہیں جو گھر آتے ہیں اور ان کے دل میں بیوی کے پاس جانے کی خواہش ہوتی ہے لیکن پہلا بوسہ دیتے ہیں ان کی ناک سے جو بدبو ٹکراتی ہے وہ ان کے سارے شوق، کرور اور مستی کو کافور کر دیتی ہے نیز ی بھی دیہان رہے کہ بیوی کو جو سج دھج بنائو سنگار کا حکم ہے وہ صرف اپنے شوہر کے لئے ہے نیز اس بنائو سنگار اور زیب زینت میں حد سے زیادہ مبالغہ کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ یہ نہ ہو کہ اس کی ساری فکریں پریشانیاں اسی بنائو سنگار سے جڑی ہوں اور اسی پر آکر ختم ہوتی ہوں ایسی صورت میں یہ اسی عورت کی کم عقلی اور جہالت کی دلیل ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۱۲۔ گھر کے راز باہر نہ بتائیں:
ازدواجی تعلقات کو جو چیز سب سے زیادہ خراب کرتی ہے وہ گھر کی باتیں باہر کرنا اور گھر کے راز باہر افشاں کرنا مثال کے طور پر سہیلیوں کو بتانا، پڑوسنوں کو بتانا، عزیز و اقارب کو بتانا ماں سے کہنا۔

اس کی کئی وجوہات ہیں:

۱۔ میاں بیوی کی محبت کا اندازہ اسی وقت ہوتا ہے جب گھر مسائل اور مشکلات / مشکلیں باہر جاتی ہیں۔ ایسے میں سننے والا یہی سمجھتا ہے کہ دونوں کے درمیان محبت کا رشتہ قائم نہیں ہے۔
۲۔ کبھی مسائل کو سننے والا ایسے حل تجویز کرتا ہے جو ایک دوسرے سے سخت نفرت کرنے والے دو دشمنوں کے لئے ہوتے ہیں۔ دو ایسے محبوبوں کے لئے نہیں جن کے درمیان کوئی غلط فہمی پیدا ہوگئی ہو۔
۳۔ سننے والااپنے خیال اور اپنے دماغ کے مطابق حل تجویز کرتا ہے جو ضروری نہیں کہ میاں بیوی کے حالات منطبق ہو۔
۴۔ بعض دفعہ حالات نارمل ہوجاتے ہیں اور دونوں کی آپس کی محبت پھر واپس لوٹ آتی ہے لیکن لوگوں کی نظروں میں ان کی حیثیت و عزت خراب ہی رہتی ہے۔
۵۔ دونوں کے درمیان ہونے والی غلط فہمی کا مختلف مجالس اور بیٹھکوں میں تماشہ بننے کا خطرہ ہوتا ہے اور ان کا مذق بھی اڑایا جاسکتا ہے۔
۶۔ لوگوں ک نظروں میں میاں بیوی کا احترام کم ہوجاتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ دونوں ہر وقت لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔
۷ ۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کوئی پڑوسی یا کوئی عزیز شوہر کو اسی کے گھر کی کوئی خاص بات بتاتا ہے جس سے شوہر کو سخت طیش میں آجات اہے اور پھر وہ کچھ ہوتا ہے جو کسی حالت میں بھی نہیں ہونا چاہیے تھا۔
۸۔ ہوسکتا ہے کہ شوہر بیوی کے گھروالوں کی نظر میں وہ مقام کھو دے جو کبھی اس کا ان کی نظر میں تھا جس سے اس کے اور ان کے درمیان مسائل کھڑے ہوسکتے ہیں جس کا اثر دونوں کے تعلقات پر پڑسکتا ہے۔
۹۔ بیوی دوسروں سے بہت زیادہ شکوے شکایتیں کرنے لگتی ہے اور گھر کے مسائل حل کرنے میں اپنی ناکامی کا اعلان کر دیتی ہے۔
۱۰۔ بیوی کی سہیلیاں اس کے پاس بیٹھنے سے گریز کرنے لگتی ہیں کیونکہ وہ ہر وقت امی کو گھر کی شکایتیں سناتی رہتی ہے۔
۱۱۔ پھر باتیں ویسے کی ویسی آگے نہیں جاتیں بلکہ ان میں سو قسم کے مرچ مصالحے ڈال دیے جاتے ہیں جس سے مسئلے میں تبدیلی آسکتی ہے اور وہ چھوٹی سی مشکل سے ایک بڑی قیامت اور اتہامات و الزامات کی بوچھاڑ میں تبدیل ہوسکتی ہے۔
۱۲۔ بعض بیویاں یہ کہ انھیں اپنے مسائل و مشکلات میں کسی سے مشورہ کرنا ہے پھر وہ دیندار قابل بھروسہ عورت ڈھونڈتی ہیں جو بات کو نہ پھیلائے اور راز کو نہ افشاں کرے۔
۱۳۔ جس گھر میں شکوے شکایتیں اور لڑائیاں زیادہ ہوتی ہیں لوگ ایسے گھر میں جانے سے کتراتے ہیں اور پھر آگے جاکر اس گھر کے بچوں کے رشتے مسترد کر دیے جاتے ہیں کہ کہیں اور اد ماں کے جیسی نہ نکلے۔

آخر میں میں اپنی بہنوں سے یہی کہوں گا کہ طلاق کی زیادہ تر وجوہات انہی رازوں کوافشاں کرنے سے متعلق ہوتی ہیں اسی لئے بیوی کو احتیاط سے کام لینا چاہیے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۱۳۔ اگر شوہر سے کوئی چیز مانگنا ہو تو مناسب وقت دیکھ کر مانگے۔
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ شوہر اپنے آفس سے گھر فون کرتا ہے تاکہ جو چیز وہ بھول گیا ہے اس کے بارے میں پوچھ سکے۔ اس کی آواز سے ہی پریشانی اور فکرمندی جھلک رہی ہوتی ہے۔ لیکن بیوی جواب دیتی ہے کہ اسے وہ فلاں چیز نہیں ملی۔ پھر فوراً ہی گھر کی ضرورت کی چیزیں شوہر کو گنوانا شروع کر دیتی ہے۔ ایسے وقت میں ذہنی طور پر شوہر یہ باتیں سننے کو تیار نہیں ہوتا کیونکہ اس کا ذہن اس گمی ہوئی چیز میں اٹکاہوتا ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جیسے ہی شوہر گھر میں داخل ہوتا ہے بیوی جھٹ سے اسے سبزیاں،روٹیاں، بچوں کا دودھ وغیرہ لانے کو کہہ دیتی ہے جبکہ شوہر اس وقت کام کے بوجھ سے تھک کر چور چور ہو رہا ہوتا ہے اور بیوی یہ چیزیں ذکر کر کے اسے ایک اور جلتے آلاؤ کے درمیان میں پھینک دیتی ہے کہ یا تو وہ نہ جائے کیونکہ وہ بہت تھکا ہوا ہےیا پھر بچے بھوکے بیٹھے رہیں۔

بعض بیویاں ایسے مطالبات کچھ وقت کے لئے مؤخر کر دیتی ہیں جن کے بارے میں انہیں پہلے سے ہی پتہ ہوتا ہے یہ چیزیں لانے پر شوہر نہیں مانے گا۔ یا آسانی سے نہیںمانے گا۔یا وہ انہیں پسند ہی نہیں کرتا۔ چنانچہ وہ ان چیزوں کا ہمبستری کے وقت یا اس سے تھوڑا پہلے جب شوہر پورے موڈ میں آچکاہوتاہے شوہر سے ذکر کرتی ہیں ۔ان کاخیال ہوتا ہے کہ اس وقت شوہر یقینا مان جائے گا اور انکار نہیں کرے گا لیکن اس کا نتیجہ بہت ہی برا اور کبھی المناک نکلتا ہے ۔شوہر اکتاہٹ کاشکار ہوکر بددل ہوجاتا ہے اور اس کی ساری خوشی اور موڈ بخارات میں تحلیل ہوجاتی ہے ۔کبھی ایساہوتا ہے کہ بیوی شوہر سے اس کی ماں یابہنوں یااپنی ماں یا بہنوں کے سامنے کوئی فرمائش کرتی ہے جس سے وہ پریشان ہوجاتا ہے۔ مثلاً اس سے کہتی ہے کہ انھیں بازار لے جائے یا کسی تفریحی مقام پر لے جائے ۔بیوی کو چاہیئے کہ اگر اس قسم کی کوئی فرمائش ہوتو شوہر سے ذاتی طورپر دوسروں کو سنائے بغیر کہے اور سب کے سامنے نہ کہے تاکہ وہ پریشانی کاشکار نہ ہو۔

ایک عقل مندعورت وہ ہوتی ہے جو اس طرح کی فرمائشوں کے لئے مناسب وقت کا انتخاب کرتی ہے گھر میں کسی بھی چیز کے ختم ہونے سے پہلے وہ اس کو کسی کاپی یا نوٹ بک میںلکھ لیتی ہے پھر کسی وقت جب شوہر آرام و سکون سے ہوتا ہے ان کو ذکر کرتی ہے پھر اگر اسے کوئی کام پڑ جاتا ہے اور وہ بھول جاتا ہے تو گھر کے کام خراب نہیں ہوتے ،بہتر یہ ہے کہ وہ اپنے پاس ایک کاغذ اور ایک قلم رکھے اور جو جو اشیاء گھر میں ختم ہوتی جائیں وہ انھیں لکھتی جائے۔

پھر شوہر کو یہ کاغذ دے دے تاکہ وہ بازار سے جاکر لے آئے۔ اور اگر ساتھ ہی شوہر کے لئے چند دعائیں بھی لکھ دے تویہ مستحسن امر ہے کیونکہ اس سے شوہر کو بیوی کے دل میںاپنی محبت کااحساس ہوگا اور اس سے بھی اچھی بات یہ ہے کہ وہ کوئی مناسب دعا ہو مثلاً شوہر کے رزق میں زیادتی و وسعت کی دعا یا اس کو اچھا بدلہ دینے کی دعا وغیرہ۔

اس لئے مناسب وقت کا انتخاب کرنا اور اس ضمن میں کسی فرمائش کے لئے موقع کی مناسبت کاانتظارکرنا بہت ضروری ہے۔ اس بابت ہمارے لئے اُمّ سلیم رضی اللہ عنہا کا قصہ بہترین مثل ہے کہ اُم سلیم سے ابو طلحہ ؄ کا ایک بیٹا مر گیا ۔انہوں نے اپنے گھر والوں کو کہ جب تک ابو طلحہ کو میں نہ بتاؤں تم لوگوں نے کچھ نہیںبتانا ۔جب ابو طلحہ گھر تشریف لائے تو اُم سلیم ؓ نے انھیں رات کا کھانا پیش کیا۔ ابوطلحہ ؄ نے کھایا پیا۔ اس کے بعد وہ پہلے سے زیادہ بنی سنوری چنانچہ انھوں نے ان کے ساتھ ہمبستری کی ۔جب ام سلیم رضی اللہ عنہا نے دیکھا کہ وہ فارغ ہوگئے ہیں تو کہنے لگیں: اے ابو طلحہ اگر لوگ کسی کو کوئی چیز عارضی طور پر دیں پھر اس کے بعد واپس مانگیں تو کیا ان لوگوں کو وہ چیز دینے سے انکار کرنا چاہیے؟فرمایا: نہیں۔

اُمّ سلیم رضی اللہ عنہا نے فرمایا :تمہارے بیٹے کاانتقال ہوگیا ہے ۔اللہ سے اجر وثواب کی امید رکھو۔انس ؄ فرماتے ہیں کہ ابو طلحہ ناراض ہوگئے اور بولے :تم نے مجھے نہیں بتایا پھر جب میں جنبی ہوچکا ہوں تو تم مجھے بیٹے کے انتقال کی خبر سنارہی ہو؟اس کے بعد ابو طلحہ نبی کریم ﷺ کے پاس تشریف لے گئے اور آپ ﷺ سار اماجرا تفصیل سے سنایا ۔

آپ ﷺ نے فرمایا :اللہ تمہاری رات میںبرکت عطا فرمائے ۔انس ؓ فرماتے ہیں :آپ ؓ حمل سے ہوئیں{ FR 93 }۔ ( صحیح مسلم ۔)
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۱۴۔ بیوی مردوں والے کام کرنے سے گریزکرے:
بعض عورتیں اللہ تعالی انھیں ہدایت دے مردوں سے برابری کامطالبہ کرتی ہیں ۔یہ عورتیں یہ چاہتی ہیں کہ وہ بالکل مردوں جیسی ہوجائیں لیکن وہ اللہ تعالی کایہ فرمان بھول جاتی ہیں : ولیس الذکر کالانثی (۱)(آل عمران :۶۳) ''اور مرد عورت کی طرح نہیں ہے''۔ کچھ کام ایسے ہیں جو خاص مردوں کے کرنے کے ہوتے ہیں جنہیں عورتیں انجام نہیں دے سکتیں۔اسی طرح کچھ کام ایسے بھی ہیں جو عورتوں کے کرنے کے ہیں جنہیں مرد سرانجام نہیں دے سکتے ۔چنانچہ ہرایک کے لئے وہ کام آسان کردیاگیا ہے جس کے لئے اس کو پیدا کیاگیا ہے ۔اس لئے جو عورت مردوں کے ساتھ برابری کامطالبہ کرتی ہے وہ عنقریب نقصان اٹھائے گی کیونکہ اسے مردوں، عورتوں دونوں کے کام کرنے پڑیں گے ۔مثال کے طور پر اگر وہ گاڑی چلانے کامطالبہ کرتی ہے یاسیاست میں حصہ لینے کامطالبہ کرتی ہے یا اسی طرح کے اور کاموں کامطالبہ کرتی ہے جو عموماً مردوں کے ساتھ مخصوص ہیں تو اسکا نتیجہ یہ نکلے گا اسے مردوں اور عورتوں دونوں کے کام کرنے پڑیں گے ۔ان اعمال کے علاوہ جن کا وہ مطالبہ کر رہی ہے اسے حمل بھی سہنا پڑے گا بچے کو اپنا دودھ بھی پلانا پڑے گا۔ کھانا بھی پکانا پڑے گا۔ بچوں کاخیال بھی رکھنا پڑے گا وغیرہ کام جو عورتوں کے ساتھ مخصوص ہیں۔ اس طرح وہ خود اپنے آپ کو اپنی برداشت سے زیادہ تکلیف دے گی جبکہ شوہر آرام سے رہے گا ۔کیونکہ نہ اسے حمل ہونا ہے اور نہ ہی اس نے بچے کو دودھ پلانا ہے اور نہ اس نے گھر کی صفائی ستھرائی کاخیال رکھنا ہے ۔

ایک پڑوسی ملک میں ایک مرتبہ میری اس موضوع پر ایک بہن سے بحث ہوئی ۔اس نے کہا کہ ۱۹۷۰؁ء میں عورتوں کے گاڑی چلانے کے مطالبے اور مردوں سے برابری کے مطالبہ پر اسے سخت ندامت ہوئی ۔ان کے مطالبے پورے ہونے کے بعد شوہر ایک منفی عنصر بن کر رہ گیا ہے۔ کیونکہ صبح کو وہ گھر چلا جاتا ہے اور دوپہر میں آکر سوجاتا ہے پھر عصر کے وقت اٹھ کر دوستوں سے ملنے چلا جاتا ہے اور آدھی رات تک ادھر ہی رہتا ہے اگر اس کی بیوی اسے فون کرتی ہے اور کسی بچے کو بیماری وغیرہ کی وجہ سے ہسپتال لے جانے کاکہتی ہے تو شوہر کہتا ہے کہ اسے گاڑی میں لے کر ہسپتال چلی جائے ۔اسی طرح جب صبح ہوتی ہے تو بیوی سے بچوں کو گاڑی میں اسکول چھوڑنے کے لئے اور پھر واپس گھر لانے کے لئے کہتاہے ۔اگر گھر میں کوئی چیز ختم ہوجاتی ہے تو بیوی کو ہی گاڑی میں بیٹھ کر بازار جانا پڑتا ہے اور وہ چیز لانی پڑتی ہے ۔جبکہ شوہر کے پاس اپنے آفس اور دوستوں کے لئے وقت ہی وقت ہوتا ہے اور گھر اور گھر کے کام کاج کو اس نے بیوی کے حوالے کر دیاہوتا ہے ۔

مردوں کے کام کرنے والی عورت یہ بھول جاتی ہے کہ وہ ایسا کرکے خود مرد کے لئے آسانی پیدا کررہی ہے کیونکہ ایسی صورت میں شوہر کے پاس زیادہ وقت بچتا ہے کہ وہ اکثر اپنے دوستوں سے ملنے چلا جاتا ہے اور گھر پر اس کی توجہ کم سے کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دونوں کی ازدواجی زندگی مسائل و مشکلات کا مرکز بن کر رہ جاتی ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ بیوی صرف گھر کے کام سنبھالتی ہے کہ گھر سے باہر کے سارے کام وہ اکیلی نہیں کر سکتی اور جہاں وہ ایسی کوشش کرے گی وہیں اسکی بلکہ دونوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۱۵۔ بیوی نہ بھولے کہ وہ بہرحال ایک عورت ہے:
عورت ہونے کی حیثیت سے وہ فطرتاً نرمی ،نرم خوئی اور خوبصورتی کی طرف مائل ہوتی ہے اور یہ ایسی صفات ہیں جو اس کے مردانہ معاملات میں عمل دخل دینے کے قطعاً منافی ہیں۔بعض بیویوں کایہ حال ہوتا ہے اللہ انھیں ہدایت دے کہ وہ شوہر کی ہر چھوٹی بڑی بات جاننا چاہتی ہے اور پھر اس پر بس نہیں کرتی بلکہ ہر ایک کو نصیحت کرنا شروع کردیتی ہے اگر اس کے شوہر اور اس کے کسی رشتے دار کے درمیان کوئی غلط فہمی ہوجاتی ہے تو وہ بجائے معاملہ ٹھنڈا کرانے یاشوہر کو چپ رہنے کے بجائے الٹا اسے بھڑکاتی ہے اور اکساتی ہے ۔

اگر شوہر آفس سے واپس آتا ہے تواسے یہ جاننے کی جلدی ہوتی ہے کہ آفس میں کیاہوا اور شوہر کا دن کیساگذرا ۔اگر شوہر کے گھر والوں میں سے کوئی شخص کوئی خاص کام کرتا ہے اور اسے پتہ چلتا ہے تو یہ فوراً جاکر شوہر کوبتادیتی ہے ۔اگر اسے پتہ چلتا ہے کہ شوہر کے بھائی یابہنیں کسی ایسی جگہ گئے ہیں جوشوہر کو پسند نہیں اگرچہ وہاں کوئی قابل اعتراض بات نہ بھی ہو۔ مگر شوہر رشتہ داروں کو وہاں جانے سے منع کرتا ہے تویہ جاکر شوہر کو بتا دیتی ہے اور ان سب کے درمیان مسائل کھڑے کر دیتی ہے۔ پھر وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ شوہر کو پتہ چل جائیگا کہ اس کے اور اس کے رشتہ داروں کے درمیان اکثر مسائل کا سبب اس کی بیوی ہے تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس کا دل بیوی سے اچاٹ ہوجاتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ وہ اسے طلاق ہی دے دے تاکہ اسے سکون نصیب ہوسکے۔

اس لئے بیوی کا کام یہ ہونا چاہیئے کہ وہ مردوں کے معاملات میں دخل اندازی نہ کرے اور نہ شوہر اور اس کے گھر والوں کے بیچ میں آئے ۔ہاں اگر وہ کچھ دخل اندازی کرتی ہے تو اچھے طریقے سے کرے اور اپنے لئے رملۃ بنت زبیر کو نمونہ بنائے ۔

جب رملۃ بنت زبیر کے شوہر خالد بن یزید بن معاویہ نے اپنے بھائی عبداللہ زبیر کی برائی کی اور انہیں کنجوس کہاتو ایک طرف بیٹھی ہوئی رملۃ بن زبیر نے سر جھکا دیا اور ایک لفظ نہیںبولیں خالد نے ان سے کہا: تمہیںکیا ہوا؟ تم کیوں نہیںبول رہیں؟کیاتم میری بات سے متفق ہو یااس بارے میں بولنا نہیں چاہتیں؟وہ بولیں: نہ یہ بات ہے اور نہ وہ بات ہے۔ لیکن عورت کو اس لئے پیدا نہیں کیاگیا کہ وہ مردوں کے درمیان دخل اندازی کرے ہم صرف پھول ہیں جوسونگھنے اور سینے سے لگانے کے لئے ہوتے ہیں۔پھر ہم نے تمہارے درمیان دخل اندازی کرکے کیا کرنا ہے ۔

خالد کو ان کا قول بہت پسند آیا اور انہوں نے ان کو پیشانی پر بوسہ دیا۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر اسے ایسی جگہ پرکسی برائی کاپتہ چل جائے تو فوراً جاکر شوہر کوبتادے ۔بلکہ اس کو صبر وتحمل سے کام لینا چاہیئے کیونکہ اگر بتانے سے اس برائی کے زیادہ فساد برپا ہونے کا اندیشہ ہوجیسے قطع رحمی اور دشمنی تواسکا چپ رہنا ہی بہتر ہے اور انکار کرنا مناسب نہیں ہے ۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۱۶۔ غصہ نہ کیجئے؟
میں یہاں عورتوں سے یہ نہیں کہہ رہا کہ وہ بالکل ہی بت کی مانند ہوجائیں نہ ان میں کوئی احساس ہو اور نہ شعور ۔عقلمند عورت وہ ہوتی ہے جو معاملات اور واقعات کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کرتی ہے نہ کہ اپنے نقصان کے لئے ۔مثلاًاگر شوہر کسی ایسی تقریب یادعوت میں جانے سے منع کر دے جہاں پہلے سے جانے کاپروگرام بن چکا تھا لیکن پھربیوی کی کسی غلط فہمی کی بناء پر شوہر نے منع کر دیا تو اسکا حل یہ نہیں ہے بیوی باورچی خانہ میں جاکر اپنا غصہ دکھانے کے لئے برتن توڑنا شروع کر دے یا اپنے ہاتھ میں موجود پرس پوری قوت سے میز پر یا زمین پر دے مارے یا دروازوں کو زوردار آواز کے ساتھ لاک (بند) کرے یا بچوں پر چلانا شروع ہوجائے یااونچی آواز میںرونا شروع کر دے ۔یا جو بھی سامنے آئے اس سے سختی سے پیش آئے۔ ایسی حرکتوں سے شوہر کافیصلہ نہیںبدلے گا بلکہ ہوسکتا ہے کہ وہ نہ جانے پر بضد ہوجائے ۔

عقلمند عورت وہ ہے جسے اگر اس کاشوہر جانے سے منع کر دے تو وہ فوراً اپنا پرس اطمینان سے اسکی جگہ پر رکھتی ہے اور شوہر سے کہتی ہے ۔(جیسے آپ کہیں!میرے نزدیک آپ کی خوشی ہی سب سے اہم چیز ہے )یاکوئی دوسرا جملہ بھی بول سکتی ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ نہ جانے پر بالکل بھی ناراض نہیں ہے ۔

مثلاً: میرا اپنے محبوب شوہر کے ساتھ بیٹھنا جانے سے کہیں بہتر ہے پھر آرام کے ساتھ بیٹھ جائے ۔اس طرح کے پرسکون اور مطمئن رد عمل سے ممکن ہے کہ شوہر اپنی رائے بدل لے کیونکہ شوہر کاغصہ اگر اسے دوسری باتوں سے مزید نہ بھڑکایا جائے تو بمشکل دس منٹ کاہوتا ہے اور میرے خیال میں غصے سے زیادہ گھر کو کوئی چیز تباہ نہیں کرسکتی کیونکہ غصہ ہر برائی کی جڑ اور المناک انجام کی شروعات ہے ۔اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غصے کوضبط کرنے کی فضیلت بیان فرمائی اور فرمایا ۔پہلوان وہ نہیں ہے جو کشتی میں پچھاڑ دے بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ کو قابو میں رکھے۔ (بخاری و مسلم)

ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی ﷺ سے کہا مجھے کوئی نصیحت کیجئے ۔آپ ﷺ نے فرمایا :غصہ مت کر ۔اس نے بار بار پوچھا آپ ﷺ نے فرمایا ۔غصہ مت کر۔(بخاری)

غصہ اور غیظ و غضب تمام برائیوں کی جڑ ہے اور یہ ایک ایسا دروازہ ہے جو تفرق اختلاف اور انتشار پر جا کھلتا ہے اور یہ شیطان کے لئے ایک نہایت ہی زرخیز زمین کی طرح ہے جہاں وہ خوب چراتا ہے نیز غصہ بہت سی بیماریوں کاسبب بھی ہے ۔

میں ایک شخص کو جانتا ہوں ۔اللہ تعالی اس پر رحمت فرمائے ۔وہ غصے کی وجہ سے مرگیا۔گھر میں ایک معمولی سے مسئلے میںاسے سخت غصہ آیا اور غصے کی شدت سے اس کے سر کی ایک رگ پھٹ گئی جس سے اس کا انتقال ہوگیا ۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
ترجیحات کاخیال رکھنا
ترجیحات کو مدنظررکھنا ایک بیوی کی زندگی میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ مثلاً اگر شوہر گھر میں ہوتو اس کے ساتھ بیٹھنا اور جو وہ چاہتا ہے اسے پیش کرنا۔ ٹی۔وی۔ پر پروگرام دیکھنے سے بہتر ہے۔ گھر کی صفائی کرنا اور شوہر کے آنے سے پہلے ہی کھانا تیار کر نا فون پر سہیلیوں اور گھر والوں سے بات کرنے سے زیادہ بہتر ہے اور شوہر کے قرض کو چکانا فراک خریدنے سے زیادہ بہتر ہے ۔اسی طرح زمین یاگھر خریدنا شوہر سے گھر کے نئے فرنیچر کے خریدنے کو کہنے سے زیادہ بہتر ہے اور شوہر کے گھر والوں سے ملنے جانا سیر وتفریح وغیرہ پر جانے سے زیادہ بہتر ہے ۔پیسے کوجمع کرنا اس کو بازاروں میں اڑانے سے زیادہ بہتر ہے اسی طرح بچوں کو پڑھانا پڑوسیوں او رسہیلیوں کے یہاں جانے سے زیادہ بہتر ہے یہ نیک اور سگھڑ بیوی کاطریقہ ہوتاہے جو زیادہ اہم کو کم اہم پر ترجیح دیتی ہے اور ہر بیوی جان سکتی ہے کہ اسکی زندگی میں کیاکیا اولویات و ترجیحات ہیں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
جوچیز شوہر مانگے بیوی اسے خوشدلی سے مہیا کر دے
گھر ،شوہر اور بچوں کی ضروریات بے شمار ہوتی ہیں حتی کہ بعض بیویاں یہ سمجھنے لگی ہیں کہ یہ ضروریات کبھی ختم ہی نہیں ہوں گی جس سے بیوی مسلسل جھنجھلاہٹ کا شکار رہتی ہے ۔کبھی ایسا ہوتا ہے کہ شوہر گھر میں داخل ہوتا ہے مگر اسے معلوم نہیں ہوتا کہ بیوی اس کے آنے سے پہلے کیا کر رہی تھی اور کیا وہ تھکی ہوئی ہے یاکام کرنے کے قابل ہے چنانچہ وہ آتے ہی ا س سے اپنے کپڑے تیار کرنے کو کہتا ہے کیونکہ اسے کسی تقریب میں باہر جانا ہوتا ہے ۔ادھر بیوی کاجواب ہاں ہوتا ہے لیکن اس ہاں میں ایک غصہ جھنجھلاہٹ اور اکتاہٹ کاعنصر بھی نمایا ں ہوتا ہے۔ اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ شوہر بیوی سے کچھ کھانے یاپینے کے لئے تیار کرنے کو کہتا ہے جبکہ بیوی ٹی وی دیکھ رہی ہوتی ہے چنانچہ وہ اسے انتظار کرنے کو کہتی ہے تاکہ وہ ٹی وی دیکھ لے شوہر پھر اصرار کرتا ہے توبیوی بڑبڑاتے ہوئے اٹھتی ہے الفاظ اس کے سمجھ میں نہیں آتے لیکن بولنے سے پتہ لگ جاتا ہے کہ بیوی سخت غصے میں ہے اور اس وقت کچھ کرنا نہیں چاہتی۔ بعض بیویوں کایہ حال ہوتا ہے ۔اللہ انھیں ہدایت دے کہ جب شوہر ان سے اپنا کوئی کام کہتا ہے یابچوں کے یا گھر کے کسی کام کو کہتا ہے تووہ ایک دم کھڑی ہوکے شور مچانا شروع کر دیتی ہے اور کہتی ہے ؟سب گھر والے میرے اوپر ہی چڑھتے ہیں کوئی مجھ پر رحم نہیں کرتا۔ ایسی حرکتوں سے بعض شوہر اور زیادہ بیویوں کو کوئی نہ کوئی کام کرنے کو کہتے ہیں تاکہ وہ دیکھ سکیں کہ بیوی کتنا ان کاحکم مانتی ہے ۔پھر جب بیوی کاغصہ بڑھ جاتا ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ شاید بیوی اسے نہیں چاہتی اور اس کی محبت وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ختم ہوچکی ہے ۔اب وہ جب بھی کوئی کام کرنے کو کہتا ہے توساتھ میں لڑائی شروع کر دیتا ہے اور بعض دفعہ یہ لڑائی جبھی ختم ہوتی ہے جب بیوی اپنے ماں باپ کے گھر میں پہنچ جاتی ہے جس کی وجہ کوئی معمولی سی بات ہوتی ہے ۔جو اتنی بڑی لڑائی کی متقاضی نہیں ہوتی لیکن بہرحال انجام براہوتاہے لیکن نیک بیوی اپنے کام اور نیکی کااجر اللہ تعالی کے یہاں پانے کی امید رکھتی ہے ۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
غیر معصیت میں شوہر کی اطاعت کرنا
سب سے زیادہ جو چیز بیوی کو شوہر کامحبوب بناتی ہے وہ ہے بیوی کا شوہر کی بات ماننا ۔اور حدیث میں اس طرف اشارہ بھی ہے ۔جب آپ ﷺ سے سوال ہوا ؟ سب سے بہترین عورت کون سی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس کی طرف جب شوہر دیکھتا ہے تو وہ اسے خوش کردیتی ہے اور جب حکم کرتا ہے تو ا س کی بات مانتی ہے اور جوبات اس کو اپنے متعلق یااپنے مال میں ناپسند ہوتی ہے وہ اس سے گریز کرتی ہے (اس کی اسناد شواھد کی بناء پر صحیح ہے۔)

شوہر کی اطاعت اور فرمانبرداری اس سے محبت کی پہلی دلیل ہے اور یہ وہ راستہ ہے جو بیوی کو شوہر تک پہنچاتا ہے اس سے دونوں کے پیار و محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن خاوند کی اس اطاعت کی بھی حدود ہیں کہ اس میں اللہ کی نافرمانی نہ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''اللہ کی نافرمانی میں کسی کو کوئی فرمانبرداری نہیں''۔ فرمانبرداری صرف نیک اور اچھے کاموں میں ہے۔ (ٍبخاری و مسلم)

چنانچہ اگر شوہر اختلاط یابے پردگی یاموسیقی یا کفار کی مشابہت یا دیگر حرام کاموں کاحکم دے تو اس کی کوئی اطاعت نہیں ہے لیکن یہ بھی دھیان رہے کہ بیوی حکمت اور عقل کیساتھ منع کرے اچھے اسلوب کو استعمال کرتے ہوئے انکار کرے اور اگر بیوی ان برائیوں کو ختم کرنے کی کوشش کرتی ہے تو یہ زیادہ اچھی بات ہے اور وہ فرمانبرداری جو عورت کے لئے ضروری ہے وہ یہ ہے کہ اگر شوہر اسے پڑوسن یاکسی رشتے دار کے یہاں جانے سے اس کے برے اخلاق یا ناقابل اطمینان ہونے کی وجہ سے منع کرے تو پھر بیوی اس کے یہاں نہ جائے چاہے کچھ بھی ہوجائے۔ کیونکہ اس کی یہاں جانے میں شوہر کی نافرمانی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ بیوی کاشوہر کے منع کرنے کے باوجود جانا نئے مسائل اور مشکلات کاسبب بن جائے ۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
زیادہ باہر نہ نکلے
نیک بیوی کبھی گھر سے زیادہ باہر نہیں جاتی جسطرح دوسری عورتیں ہوتی ہیں کہ کبھی بازار تو کبھی پڑوسن کے ہاں۔ کبھی اپنے گھر والوں کے پاس تو کبھی بیمار سہیلی کے پاس، کبھی رشتے دار کی تعزیت کرنے ،کبھی اسکو ل کی تقریب میں شرکت کرنے ،کبھی رشتے دار کی منگنی میں وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ اسکی گھر سے باہر کی خدمات اپنے شوہر او ربچوں کی خدمات سے کہیں زیادہ ہوتی ہیں۔

نیک بیوی وہ ہوتی ہے جسے علم ہوتا ہے کہ شوہر کے حقوق ہیں جو دوسرے حقوق پرمقدم ہیں اور گھر اور بچے بازار وغیرہ سے زیادہ اچھے ہیں ۔جب شوہر آفس سے واپس ہوتا ہے تو اسے اپنے سامنے پاتا ہے جو اس کی خدمت کے لئے تیار کھڑی ہوتی ہے یہ بیوی اس کے لئے آرام دہ ماحول تیار کرتی ہے تاکہ وہ اپنے گھر میں سکون سے بیٹھ سکے اور گھر کادھیان رکھے۔ لیکن اگر شوہر گھر آکر بیوی کو گھر میں نہیںپاتا کہ وہ جاچکی ہوتی ہے یاجانے کیلئے تیار ہوتی ہے تو ایسی بیوی سے شوہر بیزار ہوجاتاہے اور اس کو بدل کر دوسری بیوی لانے کی سوچنے لگتا ہے ۔
 
Top