• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بیٹی پر ظلم کیوں؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
بیٹی پر ظلم کیوں؟


بشریٰ امیر

زینب اور مریم بہت خوش تھیں۔ خوش کیوں نہ ہوتیں، باپ نے جو بلا لیا کہ آؤ برگر کھلانے لے چلوں۔ برگر کھانے کے شوق میں زینب اور مریم اپنے باپ کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتے ہوئے باپ کی انگلیاں پکڑتے ہوئے دائیں اور بائیں ہو لیں۔ ان کے معصوم ذہنوں میں تو کوئی خدشہ کوئی ڈر نہیں تھا۔ کسی قسم کا کوئی شک نہیں تھا کہ ان کا باپ واقعی انہیں برگر کھلانے جا رہا ہے یا اس کی کوئی اور ہی نیت ہے۔ 7 سالہ مریم اور 11 سالہ زینب اپنے باپ کے ساتھ برگر کھانے جا رہی تھیں۔ باپ جو کہ محافظ ہوتا ہے۔ اپنے بچوں کو ہر آفت سے بچاتا ہے۔ اپنی اولاد کے لئے شجر سایہ دار ہوتا ہے۔ اسی لئے وہ معصوم جانیں بے دھڑک باپ کے ساتھ چل رہی تھیں۔ وہ انہیں شکر گڑھ میں ایک قریبی نالہ بئیں کی طرف لے گیا۔ اس وقت بچیاں پوچھ رہی ہوں گی بابا ہمیں اس طرف کیوں لے آئے۔ ادھر تو کوئی برگر کی دکان نہیں ہے۔ آپ تو ہمیں برگر کھلانے لائے تھے نا! لیکن سفاک باپ امجد کو کوئی ترس نہ آیا اس ظالم باپ نے بچیوں کو پانی میں ڈبونا شروع کر دیا۔ بچیاں چیخ چلا رہی تھیں۔ لیکن سفاک باپ کو ان پر کوئی رحم نہیں آ رہا تھا۔ وہ معصوم کلیوں کو پانی میں غوطے دے دے کر مارنے کی کوشش کر رہا تھا۔ بچیاں اس وقت چیخ و پکار کر کے اپنی ماں کو آوازیں دے رہی ہوں گی۔ ماں ہمیں بچا لو، ہم تمہیں ساتھ نہیں لے کر نہ آئیں ورنہ تم ہمیں بچاتیں۔ ماں اس سفاک باپ سے بچاؤ ہم کمزور ہیں باپ کے مضبوط ہاتھوں نے ہمیں پکڑ رکھا ہے، وہ ہمیں پانی میں ڈبو ڈبو کر مار رہا ہے۔ ماں اسے بتلا دو ہم نے برگر نہیں کھانے۔ پھر وہ پھٹی آنکھوں سے باپ سے التجائیں کر رہی ہوں گی بابا ہمیں برگر نہیں کھانے۔ بابا جی! ہم آپ سے کسی چیز کا مطالبہ نہیں کرتیں۔ بابا ہمیں چھوڑ دو ہمیں نہ مارو دونوں بچیاں واویلا اور فریادکر رہی تھیں۔ اس دوران ننھی مریم کی آواز تو ختم ہو گئی اس کی چیخیں تھم گئیں، اس کا جسم لٹک گیا۔

اتنی سفاکیت دیکھ کر تو درختوں پر بیٹھے معصوم پرندے بھی دبک گئے ہوں گے وہ بھی آہ و فعاں کر رہے ہوں گے کہ ہمیں تو اپنے بچے اتنے پیارے ہیں کہ ہم بے غرض انہیں کھلاتے پلاتے ہیں۔ ان کو ہر آفت و بلا سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے ننھے بچوں کو کوئی ہاتھ لگائے تو کمزور ہوتے ہوئے بھی ان کا دفاع کرتے ہیں، لیکن یہ کیسا اشرف المخلوقات ہے جسے اللہ نے تمام مخلوق میں شرف و عزت سے نوازا ہے۔ اپنی اولاد کے لئے اتنا سفاک ہو سکتا ہے اور خاص طور پر بیٹی کے لئے جو باپ کو اپنا محافظ و گارڈ سمجھتی ہے۔ اسے باپ کے ہونے سے تحفظ کا احساس ہوتا ہے۔ بیٹی کو لگتا ہے کہ باپ جیسی عظیم ہستی کے ہوتے ہوئے کوئی اس کی طرف بری آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ باپ ایک بیٹی کے لئے شجر سایہ دار ہوتا ہے۔ جس کا سایہ اسے زمانے کی تپش اور گرمی سے بچا کر راحت دلاتا ہے۔ لیکن یہ کیسا باپ ہے؟ جس نے برگر کے بہانے بیٹیوں کو پانی میں ڈبو ڈبو کر مارنے کی کوشش کی، مریم تو جلد ہی اپنے رب سے جا ملی اور زینب تشویش ناک حالت میں ہے۔ وہ بھی گھر والوں نے جب بچیوں کی تلاش شروع کی تو قریبی نالہ بئیں سے چیخوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ لوگوں کو آتے دیکھ کر امجد وہاں سے فرار ہو گیا جس سے ایک بچی کی جان بچ گئی اور وہ لاہور ہسپتال میں زیر علاج ہے۔ ایس ایچ او سٹی شعیب کامران کی ٹیم نے چھاپہ مار کر ملزم کو گرفتار کر لیا ہے۔ سلاخوں کے پیچھے بند امجد اپنی بچ جانے والی بیٹی زینب کو کیا منہ دکھائے گا۔ بیٹی کو تو باپ کے نام سے ہی نفرت ہو جائے گی۔ کیا ایک بیٹی جس کے ساتھ باپ نے اس طرح کا سفاکانہ سلوک کیا اس کے سامنے اس کی چھوٹی بہن کو ڈبو کر مار دیا۔ کیا کبھی وہ اپنے باپ کو معاف کر پائے گی؟ اور اس کے ساتھ جو اس قدر ہیبتناک واقعہ ہوا۔ کیا وہ اسے بھول پائے گی؟ وہ بچ تو گئی لیکن اس دردناک صورتحال کی وجہ سے وہ اپنی زندگی نارمل گزار سکے گی؟ کیا وہ کسی کو اپنا محافظ سمجھ سکے گی؟ یہ بہت سارے دکھی سوال وابستہ ہیں اس بچ جانے والی معصوم زینب کے ساتھ جو اپنے سب سے پیارے رشتے کے ستم کا شکار ہوئی۔

مریم کا معاملہ تو اس سے بھی الگ ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سورہ التکویر میں قیامت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

”جب سورج لپیٹ دیا جائے گا اور جب ستارے بے نور ہو جائیں گے اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے اور جب دس ماہ کی حاملہ اونٹنیاں بے کار چھوڑ دی جائیں گی اور جب جنگلی جانور اکٹھے کئے جائیں گے اور جب سمندر بھڑکائے جائیں گے اور جب جانیں ملائی جائیں گی، قیامت کی ان تمام باتوں کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں: واذالموءدة سئلت، بایی ذنب قتلت ”اور جب زندہ دفن کی گئی (لڑکی) سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس گناہ کے بدلے قتل کی گئی“۔

ہائے افسوس! اس وقت زندہ درگور کرنے والی کا باپ مریم کو ڈبو کر مارنے والا باپ اللہ کی عدالت میں کس منہ سے کھڑا ہو گا۔ اللہ عدالت لگا کر مریم کو سامنے کھڑا کریں گے۔ مریم سے پوچھیں گے تمہیں کس گناہ کے بدلے میں مارا گیا۔ مریم اس وقت اپنے اللہ رحمن و رحیم سے کہے گی کہ میں نے تو برگر کا مطالبہ بھی نہیں کیا تھا میں تو بابا سے کچھ بھی نہیں مانگتی تھی پھر بھی بابا نے مجھے ڈبو ڈبو کر مار دیا۔

اے جاہل باپو! ذرا غور کرو بیٹیوں کے ساتھ اس طرح کا معاملہ کرنے والو اللہ کے سامنے کس منہ سے پیش ہو گے، اس وقت تمہارا کیا حشر ہو گا۔

اس سنگدل باپ کا کیا حشر ہو گا، شادباغ کے علاقے عظیم پارک میں ایک سنگدل باپ نے اپنی 13 سالہ بیٹی عنیقہ کو گول روٹی نہ بنانے پر قینچی اور ڈنڈے مار مار زخمی کر دیا تھا جس کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ دم توڑ گئی تھی۔ اب بیٹی کی لاش پر جھوٹ موٹ کے آنسو بہا رہا تھا لیکن جرم کب چھپتا ہے۔ اگر اب چھپ بھی جاتا تو قیامت والے دن جب سارے اعمال نامے پھیلا دیئے جائیں گے اس وقت مجرم کیسے چھپ پائے گا۔ اس وقت عنیقہ سے پوچھا جائے گا تمہیں کیوں مارا گیا۔

اللہ اللہ! ایسے باپ کیا جواب دیں گے؟ کس منہ سے اللہ کا سامنا کریں گے؟ ایسے باپ دنیا و آخرت میں ذلیل و رسوا ہو جاتے ہیں۔ اللہ ایسے باپوں کو ہدایت دے۔ بیٹیوں کو بوجھ نہ سمجھیں، ان کے محافظ بنیں۔ بیٹی کی اعلیٰ تربیت کر کے جنت میں رسول کریم کے ساتھی بن جائیں۔

رسول کے امتی ہونے کے ناطے اسوہ رسول اپنائیں۔ رسول کریم کے اخلاق جیسا اخلاق بنانے کی کوشش کریں اور بیٹیوں کے ساتھ رسول کریم جیسا حسن سلوک اپنانے کی کوشش کریں۔ حضرت محمد رحمت دو عالم اپنی اولاد اور ساری امت کے لئے ایک مثالی باپ تھے۔ اللہ کے رسول حضرت محمد اکرم بیٹیوں سے بے حد محبت کرتے تھے۔ آپ کی چار بیٹیاں تھیں۔ حضرت زینبؓ حضرت رقیہؓ، حضرت ام کلثوم اور سب سے چھوٹی بیٹی حضرت فاطمہؓ، آپ فاطمہؓ کو اپنی لخت جگر کہتے تھے۔ رسول کریم کو آپ سے بہت محبت تھی۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ فرمایا کرتی تھیں کہ رسول کریم جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو نمازسے فارغ ہو کر سیدھے حضرت فاطمہؓ کے گھر جاتے اور حضرت عائشہ ام المومنین فرماتی ہیں کہ جب فاطمہؓ اپنے بابا کے گھر آتیں تو اللہ کے رسول اٹھ کھڑے ہوتے بیٹی کی طرف بڑھتے ، بیٹی کا ہاتھ پکڑ لیتے۔ اسے بوسہ دیتے اور اپنی جگہ پر حضرت فاطمہ کو بٹھاتے۔ اسی طرح جب آپ فاطمہؓ کے گھر تشریف لے جاتے تو وہ اٹھ کھڑی ہوتیں اپنے بابا کی طرف چل پڑتیں آپ کا ہاتھ پکڑ لیتیں، بوسہ دیتیں اور اپنی جگہ پر بٹھا دیتیں۔ (ابو داؤد کتاب الادب)

رسول کریم ایک بہترین اور محبت کرنے والے باپ تھے۔ شفیق اور میزبان والد تھے اللہ امت محمدیہ کی بیٹیوں کے باپوں کو رسول کریم کے نقش پا جیسا باپ ہونے کی توفیق عطا فرما کہ وہ اپنی بیٹیوں کے لئے نرم وگداز اور ریشم جیسے بن جائیں، کمزور جنس کے لئے مہربان بن جائیں۔ اے اللہ! اصلاح فرما دے۔ آمین وما توفیقی الاباللہ
 
Top