محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,783
- پوائنٹ
- 1,069
منہ پر تعریف کرنا :
(ٍٍصحیح مسلم:7698،باب النہی عن المدح)
10- بَاب فِي كَرَاهِيَةِ التَّمَادُحِ
۱۰-باب: بے جا تعریف اور مدح سرائی کی برائی کا بیان
سنن ابو داود
10- بَاب فِي كَرَاهِيَةِ التَّمَادُحِ
۱۰-باب: بے جا تعریف اور مدح سرائی کی برائی کا بیان
4804- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ هَمَّامٍ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ فَأَثْنَى عَلَى عُثْمَانَ فِي وَجْهِهِ، فَأَخَذَ الْمِقْدَادُ بْنُ الأَسْوَدِ تُرَابًا فَحَثَا فِي وَجْهِهِ، وَقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِذَا لَقِيتُمُ الْمَدَّاحِينَ فَاحْثُوا فِي وُجُوهِهِمُ التُّرَابَ >۔
* تخريج: م/الزھد ۱۴ (۳۰۰۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۴۹)، وقد أخرجہ: ت/الزھد ۵۴ (۲۳۹۳)، ق/الأدب ۳۶ (۳۷۴۲)، حم (۶/۵) (صحیح)
۴۸۰۴- ہمام کہتے ہیں کہ ایک شخص آیا اور عثمان رضی اللہ عنہ کی تعریف اُنہی کے سا منے کرنے لگا ، تو مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ نے مٹی لی اور اس کے چہرے پہ ڈال دی اورکہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : جب تم تعریف کرنے والوں ۱؎سے ملو تو ان کے چہروں پر مٹی ڈال دو ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ نے اس حدیث کواپنے ظاہر پرمحمول کیا اور علماء کے ایک گروہ نے ان کی موافقت کی ہے، اور کچھ لوگوں کاکہنا ہے کہ ان کے منہ پرمٹی ڈال دو کامفہوم یہ ہے کہ انہیں مایوس کردو اور ان کی بے جاتعریف اور چاپلوسی پر انہیں کچھ نہ دو۔
وضاحت ۲؎ : اس سے مراد ایسے لوگ ہیں جنہوں نے بے جامدح سرائی اور چاپلوسی کواپنی عادت بنالی ہو اور اسی کو اپنے کھانے کمانے کا ذریعہ بنالیا ہو،رہاکسی اچھائی یاخوبی پرکسی کی تعریف کرنا تاکہ دوسروں کے لئے انہیں اپنانے کی ترغیب ہوتویہ ایک اچھی چیز ہے اور ایسا شخص اس وعید میں داخل نہیں ہے۔
4805- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا أَبُو شِهَابٍ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَجُلا أَثْنَى عَلَى رَجُلٍ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ ، فَقَالَ لَهُ: < قَطَعْتَ عُنُقَ صَاحِبِكَ > ثَلاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ قَالَ: <إِذَا مَدَحَ أَحَدُكُمْ صَاحِبَهُ لامَحَالَةَ فَلْيَقُلْ: < إِنِّي أَحْسِبُهُ، كَمَا يُرِيدُ أَنْ يَقُولَ، وَلا أُزَكِّيهِ عَلَى اللَّهِ >۔
* تخريج: خ/الأدب ۹۵ (۶۱۶۲)، م/الزھد ۱۴ (۳۰۰۰)، ق/الأدب ۳۶ (۳۷۴۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۷۸)، وقد أخرجہ: حم (۵/۴۱، ۴۵، ۴۶، ۴۷، ۵۰) (صحیح)
۴۸۰۵- ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک شخص کی تعریف کی ، تو آپ نے اس سے فرمایا: ’’تم نے اپنے ساتھی کی گردن کاٹ دی‘‘ ،اسے آپ نے تین با ر کہا ، پھر فرمایا: ’’جب تم میں سے کسی کو اپنے ساتھی کی مدح وتعریف کرنی ہی پڑجائے تو یوں کہے : میں اسے ایسے ہی سمجھ رہاہوں،لیکن میں اللہ کے بالمقابل اس کا تزکیہ نہیں کرتا‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : مطلب یہ ہے کہ میں اس کاظاہر دیکھ کر ایسا کہہ رہاہوں رہا اس کا باطن تو اس کاعلم اللہ ہی کوہے۔
4806- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرٌ -يَعْنِي ابْنَ الْمُفَضَّلِ- حَدَّثَنَا أَبُو مَسْلَمَةَ سَعِيدُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ مُطَرِّفٍ قَالَ: قَالَ أَبِي: انْطَلَقْتُ فِي وَفْدِ بَنِي عَامِرٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَقُلْنَا: أَنْتَ سَيِّدُنَا، فَقَالَ: < السَّيِّدُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى > قُلْنَا: وَأَفْضَلُنَا فَضْلا وَأَعْظَمُنَا طَوْلا، فَقَالَ: < قُولُوا بِقَوْلِكُمْ، أَوْ بَعْضِ قَوْلِكُمْ، وَلا يَسْتَجْرِيَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۵۳۴۹)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۴، ۲۵) (صحیح)
۴۸۰۶- مطرف کے والدعبداللہ بن شخیرکہتے ہیں کہ میں بنی عامر کے وفد میں رسول اللہ ﷺ کے پاس گیا ، تو ہم نے عرض کیا: آپ ہمارے سید، آپ نے فرمایا:’’ سید ہیں تو اللہ تعالی ہے ‘‘ ۱؎،ہم نے عرض کیا : اور آپ ہم سب میں درجے میں افضل ہیں اور دوستوں کو نوازنے اور دشمنوں پر فائق ہونے میںسب سے عظیم ہیں، آپ نے فرمایا: ’’جو کہتے ہوکہو ، یا اس میں سے کچھ کہو ، (البتّہ) شیطان تمہیں میرے سلسلے میں جری نہ کر دے ( کہ تم ایسے کلمات کہہ بیٹھو جو میرے لئے زیبا نہ ہو)‘‘۔
وضاحت ۱؎ : مطلب یہ ہے کہ وہی اس لفظ کاحقیقی مستحق ہے، اور حقیقی معنیٰ میں سید اللہ ہی ہے، اور یہ مجازی اضافی سیادت جو افراد انسانی کے ساتھ مخصوص ہے منافی نہیں، حدیث میں ہے’’أنا سيد ولد آدم ولا فخر‘‘۔
لنک
Last edited: