• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بے نمازکے متعلق سعودی علماء کے استدلال (مکمل کتاب یونیکوڈ میں)

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اللہ کے فضل سے یہ کتاب مکمل ہوئی ، شکریہ محمد آصف مغل بھائی کا جن کی مدد سے یہ کتاب میں اس فورم پر لگا سکا، اللہ تعالی آصف بھائی کو اپنے حفظوامان میں رکھے آمین
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
جزاک اللہ خیرا
اس موضوع پر اس فورم پر میری بھی بحث ہوئی تھی، جس میں دونوں فریقین نے اپنے اپنے دلائل دئیے تھے، اس گفتگو کو آپ یہاں دیکھیں۔
بے نمازی کی تکفیر
میرا اور حافظ عمران الٰہی کا موقف یہ تھا کہ بے نمازی کا کفر کفر اصغر ہے، جبکہ اس کے برعکس محمد علی جواد بھائی اور طاہر اسلام عسکری بھائی کا موقف یہ تھا کہ بے نمازی کا کفر کفر اکبر ہے۔ مزید تفصیل کے لئے یہ گفتگو پڑھیں۔
پھر میں نے اس موضوع پر سرچنگ کی، تحقیق کی اور محدث فتویٰ ویب سائٹ بھی چیک کی۔ تو مجھے دونوں طرف کے دلائل ملے، البتہ کفر اصغر ہونے کے اور بھی ایسے دلائل ملے جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بے نمازی کی بخشش ہو سکتی ہے۔ واللہ اعلم
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بہتر روشنی تو علماکرام ہی ڈال سکتے ہیں۔ اللہ تعالی ہمیں بس صحیح دین پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ باقی ساری توجہ نماز کو پڑھنے کی طرف دلائی گئی ہے کہ نماز ہماری زندگی اور ایمان کے لیے کس حد ضروری ہے ۔ اللہ تعالی ہمیں ایسا نمازی بنائے جیسا کہ ایک مومن کو ہونا چاہیے
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
بہتر روشنی تو علماکرام ہی ڈال سکتے ہیں۔ اللہ تعالی ہمیں بس صحیح دین پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ باقی ساری توجہ نماز کو پڑھنے کی طرف دلائی گئی ہے کہ نماز ہماری زندگی اور ایمان کے لیے کس حد ضروری ہے ۔ اللہ تعالی ہمیں ایسا نمازی بنائے جیسا کہ ایک مومن کو ہونا چاہیے
آمین
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
ساجد تاج بھائی اللہ آپ کی محنت قبول فرمائے اور اسے آپ کے موازین حسنات میں اضافے کا باعث بنائے ۔
ایک بات کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا کہ شاید نظرثانی ٹھیک طرح سے نہیں ہوسکی اس لیے املاء کی اغلاط یا ٹائپنگ کی غلطیاں موجود ہیں بلکہ شاید بعض جگہوں پر سطریں یا تو چھوٹ گئی ہیں یا آگے پیچھے ہوگئی ہیں ۔ مثلا دیکھیں :
شراکت نمبر 1 سے اقتباس :
جہاں وہ جدید تہذیب کے اثرات سے پاک تھے وہاں مذہبی طور پر (؟؟)چائے پی اور اجازت چاہی ۔
اسی طرح شراکت نمبر 22 میں آیات لکھنے میں غلطیاں ہیں :
فَاِنْ تَبُوْا وَ اَقَامُوْا الصَّلاَۃَ وَ اٰتُوَالزَّکٰوۃَ فَاِخُوَانُکُمْ فِی الدِّیْنِ وَ نُفَصِّلُ الْاَیَاتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ (التوبۃ 9:11)
درست : تابوا

وَاِذَا نَادَیْتُمْ اِلَے الصَّلَاۃِ اتَّخَذُوْنَا ہُزُوًا وَّ لَعِبًا ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ قَوْمُ لاَّ یَعْقِلُوْنَ (المائدۃ 5:57)
درست : اتخذوها
اس سلسلےمیں اگر آپ مناسب سمجھیں تو محمد نعیم یونس صاحب اور محمد آصف مغل صاحب سے رہنمائی لے سکتے ہیں ۔ ان دونوں قابل قدر اراکین کی عموما شراکتیں جہاں تک میں دیکھ سکا ہوں اس طرح کی خامیوں سے پاک ہوتی ہیں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
جزاک اللہ خیرا
اس موضوع پر اس فورم پر میری بھی بحث ہوئی تھی، جس میں دونوں فریقین نے اپنے اپنے دلائل دئیے تھے، اس گفتگو کو آپ یہاں دیکھیں۔
بے نمازی کی تکفیر
میرا اور حافظ عمران الٰہی کا موقف یہ تھا کہ بے نمازی کا کفر کفر اصغر ہے، جبکہ اس کے برعکس محمد علی جواد بھائی اور طاہر اسلام عسکری بھائی کا موقف یہ تھا کہ بے نمازی کا کفر کفر اکبر ہے۔ مزید تفصیل کے لئے یہ گفتگو پڑھیں۔
پھر میں نے اس موضوع پر سرچنگ کی، تحقیق کی اور محدث فتویٰ ویب سائٹ بھی چیک کی۔ تو مجھے دونوں طرف کے دلائل ملے، البتہ کفر اصغر ہونے کے اور بھی ایسے دلائل ملے جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بے نمازی کی بخشش ہو سکتی ہے۔ واللہ اعلم

کفر اصغر یا کفر اکبر میں واقع ہونے کی بحث میں نہیں جانا چاہوں گا۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ یا سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے ایک بات (قول) اپنے پیارے استاذ محترم عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ سے سنی تھی ۔ صحابی فرماتے ہیں کہ تم ایسے ایسے کام کرتے ہو اور یوں محسوس کرتے ہو کہ ناک پر مکھی بیٹھی تھی سو اُڑا دی۔ حالانکہ ہم ایسے کام رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں ہلاکت خیز ہی گردانتے تھے۔
و ان امنوا بمثل ما امنتم بہ فقد اھتدوا۔
چنانچہ معیارِ ایمان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی ہیں۔
یہاں یہ بات بھی بڑی وضاحت کے ساتھ پیش کر دیتا ہوں کہ
کسی شخص کی کسی انتہائی جسارت کی وجہ سے کوئی دوسرا شخص ایسی جسارت کرنے والے کو کافر و مشرک کہہ دیتا ہے تو اُسے ہمیشہ کے لئے نہیں سمجھنا چاہیئے بلکہ جس تناظر میں اُس نے کافر و مشرک کہا ہے اسے بھی نظر میں رکھنا چاہیئے۔ اگر فاعل ایسے کام سے باز آجائے اور اپنی اصلاح کر لے تو دوسرا شخص کبھی بھی اُسے کافر و مشرک نہیں گردانے گا بلکہ اُس کے متعلق حسن ظن ہی رکھے گا۔ لیکن اگر پہلا شخص توبہ و استغفار نہیں کرتا، اپنے عقیدے و عمل کی اصلاح نہیں کرتا، اور اسی حالت میں اس کی موت واقع ہو جاتی ہے تو
انما الاعمال بالخواتیم
کے تحت
اللہ کے ہاں اُس کا جو مقام ہے وہ تو خود اللہ رب العالمین ہی جانتا ہے
ہمارے لئے اُس کا ظاہر ہی ہے
ظاہرا کسی کفر و شرک والے کام پر جان نکلے گی تو اُسے کافر و مشرک نہ گرداننا، ایمان اور ایمان والوں کے ساتھ ناانصافی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کے بہت سے فرامین کی بھی حق تلفی ہو گی۔ اور اللہ کی واضح اور روشن آیات کے ساتھ مذاق بھی ہو گا۔ اللہ کی نافرمانی بھی ہو گی۔
اور ان چیزوں کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے۔

اب ایک ایسی بات لکھوں گا جسے کوئی بھی شخص اپنے اوپر تنقید نہ سمجھے بلکہ ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچے۔ کیونکہ اگر جذبات کے تحت سوچیں تو یہ بہت بڑا فتوی ہو گا اور اللہ تعالیٰ مجھے ایسا کام کرنے کی توفیق نہ دے۔
بات یہ ہے کہ اگر جو شخص خود نماز میں کمی و کوتاہی کرتا ہو گا اور وہ دینی علم کا بھی حامل ہو گا تو اُس کی گفتگو کا محور ایسا ہی ہو گا کہ تارک نماز کفر اصغر کا مرتکب ہے۔
اس کے بر عکس
جو شخص خود نماز میں کمی کوتاہی نہیں کرتا ہو گا وہ اس مسئلہ پر بات کرتے ہوئے تارک نماز کو کفر اکبر کا ہی مرتکب گردانے گا۔
دوبارہ عرض کر دیتا ہوں کہ میری اس بات کو جذبات کے تحت فتوی نہ سمجھا جائے بلکہ یہ سمجھا جائے کہ اگر ایسے الفاظ لکھنے، بولنے اور ادا کرنے سے کسی کی یہ بدعادت ختم ہو جائے تو مقصود یہی ہے۔ ورنہ میں نے کسی دوسرے کا حساب نہیں دینا۔

اب آج کا ایک واقعہ بتاتا ہوں۔
میرے پاس ایک شاگرد آتا ہے۔ ماشاء اللہ حافظ قرآن ہے۔ اسکول کی نویں جماعت سے چھوڑ کر کمپیوٹر کمپوزنگ سیکھنے میرے پاس آتا ہے۔ اس کے والد صاحب میرے بہت گہرے اور اچھے دوست ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ وہ نماز میں بہت سستی کرتا ہے۔ آج میں نے اُسے بہت زیادہ ڈانٹا ہے۔ وجہ صرف اور صرف آج کی عصر کی نماز میں سستی تھی۔
سوچئے میں نے اُسے سخت سست کیوں کہا؟ صرف اس لئے کہ حافظ قرآن ہو کر نماز میں سستی کرنا مجھ جیسے نالائق کی سستی سے زیادہ سنگین ہے۔ اس امید پر سختی کی کہ شاید وہ نماز ادا کرے تو اُس کو قرآن مجید کا حفظ کرنا فائدہ دے اور اس کے لئے خیر و برکت کا باعث بن جائے۔ اور اس بات کا خوف بھی مجھے دامن گیر ہے کہ ترک نماز اگر اس کی عادت بن گئی تو قرآن اُس کے سینے سے نکل جائے گا۔ کیونکہ میں نے بہت سے لوگوں کو ایسی مصیبت میں گرفتار دیکھا ہے کہ نماز نہ پڑھنے سے بہت پکا حفظ بھی جاتا رہا اور نہ جانے کیا کیا۔۔۔۔۔۔۔۔
اس لئے اگر اس مسئلہ کو اس دردِ دِل کے ساتھ دیکھا جائے تو شاید ترک نماز کا کفر، کفر اصغر یا کفر اکبر ہونا، ہم بھول جائیں اور اصلاح کی طرف توجہ کرتے ہوئے تارک نماز کو نہی عن المنکر کرتے رہیں۔
اللہ تعالیٰ نیتوں کے حال سے واقف ہے۔
واللہ علیم بالذات الصدور۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جو شخص اللہ کو واحد اور محمد (ﷺ) کورسول برحق جانے اور قیامت وغیرہ اعتقادی امور کو مانتا ہے،شرک نہیں کرتا اور نماز کو بھی فرض جانتا ہے،مگر نماز تمام عمر نہیں پڑھتا،وہ شخص مسلمان ہے یا کافر؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!


واضح ہو کہ جو شخص اللہ کو واحد جانتا ہے اور محمد ﷺ کورسول مرسل مانتا ہے اور امور ایمانیہ و اعتقادیہ کا اقرارکرتا ہے ، وہ بے شک مسلم ہے،کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ اس کو کافر کہے مگر ہاں جس قد رکہ رسول اللہﷺ نے تارک صلوٰۃ کو کافر کہا، اس قدر ہم بھی تارک صلوٰۃ کو کافر کہہ سکتے ہیں، سوائے اس کے زیادہ حکم کہ وہ سرے سےمسلمان ہی نہیں ہے یہ نہیں لگا سکتے اور یہی مذہب امام احمد کا بھی ہے۔ واللہ اعلم۔
1299 سید محمد عبدالسلام غفرلہ ... 1305 سید محمد ابوالحسن ... 1281سید محمد نذیر حسین
فتاوی نذیریہ
جلد 01 ص 162
محدث فتویٰ
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا بے نماز آدمی اہل سنت والجماعت اہل حدیث میں شمار ہو گا۔؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اہل علم کا اس بات پر تو اتفاق ہے کہ نماز کا منکر دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ لیکن اہل علم میں اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ بے نمازی دائرہ اسلام سےخارج ہے یا نہیں۔ اس بارے امام احمدرحمہ اللہ اور حنابلہ کا معروف موقف یہی ہے کہ بے نمازی دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ امام مالک اور امام شافعی رحمہما اللہ کے نزدیک دائرہ اسلام سے خارج تو نہیں ہے لیکن بطور حد قتل کیا جائے گا۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک بھی کافر نہیں ہے اور تعزیرا قید کیا جائے گا۔
شیخ صالح المنجد اس بارے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
جان بوجھ كر عمدا نماز ترك كرنے والا مسلمان اگر نماز كى فرضيت كا انكار نہ كرے تو اس كے حكم ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے۔بعض علماء اسے كافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار ديتے ہيں، اور وہ مرتد شمار ہو گا، اس سے تين يوم تك توبہ كرنے كا كہا جائيگا، اگر تو تين دنوں ميں اس نے توبہ كر لى تو بہتر وگرنہ مرتد ہونے كى بنا پر اسے قتل كر ديا جائيگا، نہ تو اس كى نماز جنازہ ادا كى جائيگى، اور نہ ہى اسے مسلمانوں كے قبرستان ميں دفن كيا جائيگا، اور نہ زندہ اور مردہ حالت ميں اس پر سلام كيا جائيگا، اور اس كى بخشش اور اس پر رحمت كى دعا بھى نہيں كى جائيگى نہ وہ خود وارث بن سكتا ہے، اور نہ ہى اس كے مال كا وارث بنا جائيگا، بلكہ اس كا مال مسلمانوں كے بيت المال ميں ركھا جائيگا، چاہے بے نمازوں كى كثرت ہو يا قلت، حكم ايك ہى ہے ان كى قلت اور كثرت سے حكم ميں كوئى تبديلى نہيں ہو گى۔زيادہ صحيح اور راجح قول يہى ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ہمارے اور ان كے درميان عہد نماز ہے، چنانچہ جس نے بھى نماز ترك كى اس نے كفر كيا "
اسے امام احمد نے مسند احمد ميں اور اہل سنن نے صحيح سند كے ساتھ بيان كيا ہے۔
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ بھى فرمان ہے:
" آدمى اور كفر و شرك كے درميان نماز كا ترك كرنا ہے "
اسے امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے صحيح مسلم ميں اس موضوع كى دوسرى احاديث كے ساتھ روايت كيا ہے۔
اور جمہور علماء كرام كا كہنا ہے كہ اگر وہ نماز كى فرضيت كا انكار كرے تو وہ كافر ہے اور دين اسلام سے مرتد ہے، اس كا حكم وہى ہے جو پہلے قول ميں تفصيل كے ساتھ بيان ہوا ہے۔ليكن اگر وہ اس كى فرضيت كا انكار نہيں كرتا بلكہ وہ سستى اور كاہلى كى بنا پر نماز ترك كرتا ہے تو وہ كبيرہ گناہ كا مرتكب ٹھرے گا، ليكن دائرہ اسلام سے خارج نہيں ہو گا، اسے توبہ كرنے كے ليے تين دن كى مہلت دى جائيگى، اگر تو وہ توبہ كر لے الحمد للہ وگرنہ اسے بطور حد قبل كيا جائيگا كفر كى بنا پر نہيں۔تو اس بنا پر اسے غسل بھى ديا جائيگا، اور كفن بھى اور اس كى نماز جنازہ بھى پڑھائى جائيگى، اور اس كے ليے بخشش اور مغفرت و رحمت كى دعاء بھى كى جائيگى، اور مسلمانوں كے قبرستان ميں دفن بھى كيا جائيگا، اور وہ وراث بھى بنے گا اور اس كى وراثت بھى تقسيم ہو گى، اجمالى طور پر اس پر زندگى اور موت دونوں صورتوں ميں گنہگار مسلمان كا حكم جارى كيا جائيگا۔
ماخوذ از: فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلميةوالافتاء ( 6 / 49 )۔
٣۔ پس امام حمد رحمہ اللہ اور حنابلہ کے معروف موقف کے مطابق بے نمازی مسلمان ہی نہیں ہے چہ جائیکہ کہ اہل سنت والجماعت یا اہل الحدیث کہلانے کا حقدار ہو جبکہ جمہور اہل علم کے نزدیک بے نماز گناہ گار اور فاسق وفاجر ہے لہذا اس بنیاد پر اہل سنت والجماعت اور اہل الحدیث میں شامل ہے۔پس جمہور اہل علم کے ہاں کبیرہ گناہ کے ارتکاب سے کوئی شخص اہل سنت والجماعت سے خارج نہیں ہو جاتا ہےبشرطیکہ وہ ان کے عقائد اور منہج کا اخلاص نیت سے قائل ہو۔عام طور پر اہل الحدیث علماء کا فتوی بے نمازی کے بارے کفر حقیقی کا نہیں ہے بلکہ وہ اسے کفرعملی یا کفر دون کفر قررا دیتے ہیں۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
محدث فتوی
فتوی کمیٹی
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
ساجد تاج بھائی اللہ آپ کی محنت قبول فرمائے اور اسے آپ کے موازین حسنات میں اضافے کا باعث بنائے ۔
ایک بات کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا کہ شاید نظرثانی ٹھیک طرح سے نہیں ہوسکی اس لیے املاء کی اغلاط یا ٹائپنگ کی غلطیاں موجود ہیں بلکہ شاید بعض جگہوں پر سطریں یا تو چھوٹ گئی ہیں یا آگے پیچھے ہوگئی ہیں ۔ مثلا دیکھیں :
شراکت نمبر 1 سے اقتباس :
جہاں وہ جدید تہذیب کے اثرات سے پاک تھے وہاں مذہبی طور پر (؟؟)چائے پی اور اجازت چاہی ۔
اسی طرح شراکت نمبر 22 میں آیات لکھنے میں غلطیاں ہیں :
فَاِنْ تَبُوْا وَ اَقَامُوْا الصَّلاَۃَ وَ اٰتُوَالزَّکٰوۃَ فَاِخُوَانُکُمْ فِی الدِّیْنِ وَ نُفَصِّلُ الْاَیَاتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ (التوبۃ 9:11)
درست : تابوا

وَاِذَا نَادَیْتُمْ اِلَے الصَّلَاۃِ اتَّخَذُوْنَا ہُزُوًا وَّ لَعِبًا ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ قَوْمُ لاَّ یَعْقِلُوْنَ (المائدۃ 5:57)
درست : اتخذوها
اس سلسلےمیں اگر آپ مناسب سمجھیں تو محمد نعیم یونس صاحب اور محمد آصف مغل صاحب سے رہنمائی لے سکتے ہیں ۔ ان دونوں قابل قدر اراکین کی عموما شراکتیں جہاں تک میں دیکھ سکا ہوں اس طرح کی خامیوں سے پاک ہوتی ہیں۔

اللہ تعالی میری غلطیوں کو معاف کرے اور اس پر میری پکڑ نہ کرےآمین۔ شاید کاپی پیسٹ میں یہ چیز مجھ سے غلط ہو گئی ہو۔ باقی نعیم یونس بھائی اور آصف بھائی سے حسبِ ضرورت ان بھائیوں سے اور دوسرے بھائیوں سے مدد لیتا رہتا ہوں۔ توجہ دلانے کا شکریہ بھائی
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
ایک صاحب کی تحقیق بتاتی ہے کہ ایمان صرف دل سے قبول کرنے کا نام ہے۔ نہ تو یہ زیادہ ہوتا ہے اور نہ کم وغیرہ وغیرہ۔
ایک شخص کہتا ہے کہ جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والا کفر اصغر کا مرتکب ہے
ایک شخص کہتا ہے کہ زکوٰۃ فرض جان کر صرف خلیفہ کو نہ دینے پر اصرار کی وجہ سے قتل ہوا، اس کا کفر بھی کفر اصغر ہے
ایک شخص کہتا ہے صحت و عافیت اور بغیر کسی شرعی عذر کے روزہ نہ رکھنے والا کفر اصغر کا مرتکب ہے
ایک شخص کہتا ہے کہ حج فرض ہونے کے بعد بغیر کسی شرعی عذر کے حج نہ کرنے والا کفر اصغر کا مرتکب ہے

اپنے مشفق اساتذہ محترم عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ اور محمد ابراہیم بھٹی حفظہ اللہ کی بات یاد آ گئی
کہ
مشرکین مکہ کے کفرو انکارِ توحیدِ اُلوہیت کی وجہ سے وہ دُنیا کے سب سے بڑے کافر و مشرک ٹھہرتے ہیں
لیکن
پیارے پیغمبر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و صحبہ وسلم کے متعلق شرکیہ اُمور کا حامل شخص مشرکین مکہ سے بھی بڑا کافر و مشرک ٹھہرا
کیونکہ
اس میں کفر و شرک مرکب ہو گیا ہے۔ یعنی مشرکین مکہ کے کفر و شرک کے ساتھ پیارے پیغمبر محمد رسول اللہ ﷺ، ان کے اہل بیت، ان کے چچا زاد بھائی اور داماد سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد کو بھی اپنے کفر و شرک میں شامل کر لیا۔

غرض یہ کہ

اگر یہی روش جاری و ساری رہی تو خطرہ ہے کہ

آہستہ آہستہ تمام فرائض کے تارک کو ہم صرف اور صرف کفر اصغر و شرک اصغر کا حامل ہی قرار دیں گے

پھر اس کے بعد وہ وقت بھی آئے گا کہ

کفر اصغر و شرک اصغر کے الفاظ بھی دیگر ‘‘مہذب الفاظ’’ سے تبدیل کر لئے جائیں گے۔

اور پھر یہ لا متناہی سلسلہ جاری و ساری رہے گا



حَتّٰى يَاْتِيَكَ الْيَقِيْنُ (الحجر:99)
حَتّٰٓي اَتٰىنَا الْيَقِيْنُ (المدثر 47)
 
Top