• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بے نمازکے متعلق سعودی علماء کے استدلال (مکمل کتاب یونیکوڈ میں)

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
بھائی! آپ اپنی بات مکمل کر لیں، پھر بعد میں آپ کی باتیں پڑھ کر فیصلہ کیا جائے گا کہ جواب دینے کے لائق ہیں یا نہیں۔ ابھی تک جو آپ نے پوسٹ کی ہے، اس کا جواب ملاحظہ فرما لیں۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
محمد آصف مغل
گذارش ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی تحقیق میں مسئلہ زکوٰۃ کو مسئلہ نماز پر ہی قیاس کیا تھا۔ اس لئے آپ بھی تحقیق فرما لیں تاکہ آپ کے موقف کو سمجھ کر اور آپ کی علمی قابلیت دیکھ کر آپ کو جواب دیا جا سکے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے زکوۃ کا انکار کرنے والوں کے خلاف جہاد کیا تھا۔ اور انہوں نے مسئلہ نماز سے قیاس کیا بھی ہو گا تو نماز کے منکر پر قیاس کیا ہو گا۔ واللہ اعلم،اور نماز کے منکر کو میں بھی کفر اکبر کا مرتکب سمجھتا ہوں۔
محترم شیخ عبداللہ ناصر رحمانی صاحب تو یہ بھی فرمایا کرتے ہیں کہ اگر کوئی شخص رات کو سونے سے پہلے صبح اُٹھنے کے لئے اس وقت کا آلارم لگائے جبکہ فجر کا وقت گذر چکا ہو تو اُسی وقت سے کافر ہو جاتا ہے کیونکہ اُس نے فجر کی نماز کے لئے نہ اُٹھنے کا ارادہ کر لیا ہے۔
آپ مزید تحقیق کے لئے محترم استاذ (عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ) اور دیگرعلماء سے پوچھ لیں۔
نیت کا معاملہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے، یہ ایک شخص کا اپنا ذاتی فہم ہے، جس پر کتاب و سنت سے کوئی دلیل نہیں دی گئی، اور ہمارے نزدیک کتاب و سنت سے دلیل ازحد ضروری ہے۔
آپ مزید تحقیق کے لئے محترم استاذ (عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ) اور دیگرعلماء سے پوچھ لیں۔
ہو سکتا ہے کہ شیخ صاحب دوسری رائے رکھنے والوں میں شمار ہوتے ہوں، البتہ میرا رجحان کفر اصغر کہنے والے علماء کی طرف ہے، اور مضبوط دلائل بھی ان کے ہی میرے نزدیک ہیں۔
اس کے بعد آپ سے بات کریں گے۔واضح رہے کہ آپ کے تمام نکات کا فردا فرداجواب تیار کر رکھا ہے۔
آپ جب بھی بات کریں گے آپ کو ضرور جواب دیا جائے گا، ان شاءاللہ
بس آپ تین باتوں کا ضرور خیال رکھئے گا۔
  1. گفتگو میں دلائل کتاب و سنت سے ہونے چاہئیں ناکہ فلاں کے نزدیک فلاں کرنے سے کافر ہو جاتا ہے یا فلاں کا فلاں موقف ہے۔
  2. گفتگو احسن انداز میں کیجئے گا۔
  3. گفتگو میں ذاتی تنقید اور شخصی حملوں سے قطعا گریز کیجئے گا۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اسی بات کی توقع تھی کہ جب آپ سے جواب نہیں بن پائے گا تو ارشاد فرمائیں گے:
بھائی! آپ اپنی بات مکمل کر لیں، پھر بعد میں آپ کی باتیں پڑھ کر فیصلہ کیا جائے گا کہ جواب دینے کے لائق ہیں یا نہیں۔ ابھی تک جو آپ نے پوسٹ کی ہے، اس کا جواب ملاحظہ فرما لیں۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
محترم انس بھائی اور شاکر بھائی کے ساتھ کل ملاقات میں محترم نعیم یونس بھائی کی موجودگی میں آپ نے شکایت کی تھی تو سوچا کہ دیکھ لوں کیا معاملہ ہے
محترم بھائی واللہ آپ کے دین پر حریص ہونے کی انتہائی قدر کرتا ہوں مگر شریعت میں خلوص کے ساتھ مسئلہ کی حیثیت کو بھی دیکھا جاتا ہے ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ اسلام کے بارے میں بہت ہی زیادہ پر خلوص تھے حتی کہ جو اپنے لئے پسند کرتے بالکل وہی اپنے غلام کے لئے پسند کرتے زکوۃ ادا کرنے کے بعد بھی مال کو جمع کرنے کے خلاف تھے انکی پوری زندگی قربانیوں سے بھری پڑی ہے مگر جمہور صحابہ سے انکا اختلاف ہی رہا ہے حتی کہ اپنی آخری زندگی مدینہ سے باہر ایک ویران علاقہ میں گزاری
پس محترم بھائی اور بحث میں دو باتیں دیکھی ہیں
ایک یہ کہ کیا پکا بے نمازی کافر ہے تو اس میں میرا موقف بھی مکمل آپ کے ساتھ ہے اور دوسرے دلائل مجھے کمزور لگتے ہیں
دوسری بحث یہ کہ جو بے نمازی کو کافر نہیں سمجھتا اسکو بھی آپ گمراہ سمجھ رہے ہیں تو محترم بھائی میرے نزدیک یہ ایک خطرناک رجحان ہے جو انسان کو خارجیوں کے منیج کی طرف لے جا سکتا ہے
جس طرح بے نمازی یا تحکیم بغیر ما انزل اللہ کے مرتکب کو کافر کہنے والوں کو خارجی کہ دینا ایک خطرناک ارجائی رجحان ہے اسی طرح اسکے برعکس نظریہ رکھنے والے کو گمراہ کہنا بھی خارجیوں کی طرح ایک خطرناک تکفیری رجحان ہے جس سے امت مسلمہ کبھی ترقی نہیں کر سکتی

کسی شخص کی کسی انتہائی جسارت کی وجہ سے کوئی دوسرا شخص ایسی جسارت کرنے والے کو کافر و مشرک کہہ دیتا ہے تو اُسے ہمیشہ کے لئے نہیں سمجھنا چاہیئے بلکہ جس تناظر میں اُس نے کافر و مشرک کہا ہے اسے بھی نظر میں رکھنا چاہیئے۔
محترم بھائی یہی حق میرے خیال میں بے نمازی کے کفر کو کفر اصغر سمجھنے والے کو بھی دینا چاہئے کہ پتا نہیں وہ کس تناظر میں ایسا کہ رہا ہے اور اسکے پیچھے بھی مخلص علماء ہیں

ہمارے لئے اُس کا ظاہر ہی ہے
ظاہرا کسی کفر و شرک والے کام پر جان نکلے گی تو اُسے کافر و مشرک نہ گرداننا، ایمان اور ایمان والوں کے ساتھ ناانصافی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کے بہت سے فرامین کی بھی حق تلفی ہو گی۔ اور اللہ کی واضح اور روشن آیات کے ساتھ مذاق بھی ہو گا۔ اللہ کی نافرمانی بھی ہو گی۔اور ان چیزوں کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے۔
محترم بھائی یہاں ظاہر کا معاملہ نہیں ظاہر کا جھگڑا تو تب ہوتا جب دوسرے گروہ والے اسکو غلط نہ مان رہے ہوتے بلکہ یہاں معاملہ تو بے نمازی کے کافر ہونے یا نہ ہونے کا ہے جس میں دونوں طرف دلائل اور علماء موجود ہیں جن میں راجح کا حکم تو لگایا جا سکتا ہے مگر غلط کا نہیں لگایا جا سکتا اور اسکی دلیل یہ ہے کہ آپ اور میں جن علماء کے دلائل کو مان کر بے نمازی کو کافر کہتے ہیں ان میں سے میں نے کسی عالم کو دوسرے گروہ کو گمراہ کہتے نہیں دیکھا البتہ اجتہادی غلطی پر کہا ہے
اب محترم بھائی اوپر مجھے کسی بھائی کی کوئی بات ایسی نہیں ملی جس میں آپ سے بے نمازی کو کافر کہنے کا حق چھینا گیا ہو واللہ اعلم

اب ایک ایسی بات لکھوں گا جسے کوئی بھی شخص اپنے اوپر تنقید نہ سمجھے بلکہ ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچے۔ کیونکہ اگر جذبات کے تحت سوچیں تو یہ بہت بڑا فتوی ہو گا اور اللہ تعالیٰ مجھے ایسا کام کرنے کی توفیق نہ دے۔
بات یہ ہے کہ اگر جو شخص خود نماز میں کمی و کوتاہی کرتا ہو گا اور وہ دینی علم کا بھی حامل ہو گا تو اُس کی گفتگو کا محور ایسا ہی ہو گا کہ تارک نماز کفر اصغر کا مرتکب ہے۔ اس کے بر عکس جو شخص خود نماز میں کمی کوتاہی نہیں کرتا ہو گا وہ اس مسئلہ پر بات کرتے ہوئے تارک نماز کو کفر اکبر کا ہی مرتکب گردانے گا۔
محترم بھائی اگر یہ بات پرانے فقہاء اور محدثین پر فٹ کریں تو میرے خیال میں اسکے غلط ہونے میں کوئی مانع نہیں ہو گا اور اگر آج کی بات کر رہے ہیں تو شاید آپ مطلقا ایسا نہیں کہ سکتے کیونکہ میں نے اپنے گروہ والوں میں سے بھی کچھ کو سستی کرتے دیکھا ہے واللہ اعلم
دوبارہ عرض کر دیتا ہوں کہ میری اس بات کو جذبات کے تحت فتوی نہ سمجھا جائے بلکہ یہ سمجھا جائے کہ اگر ایسے الفاظ لکھنے، بولنے اور ادا کرنے سے کسی کی یہ بدعادت ختم ہو جائے تو مقصود یہی ہے۔
محترم بھائی یہاں پر آپ دوسرےگروہ(جو بے نمازی کی تکفیر نہیں کرتا) سے بھی لازمی یہ کہلوانا چاہتے ہیں کہ وہ بہتر نتائج کے لئے ہی سہی مگر بے نمازی کی تکفیر کر دے تو محترم بھائی یہی وہ خطرناک رجحان ہے جسکو خارجیوں نے اپنایا
مجھے بتائیں کہ پھر تو خارجی اچھے ہی تھے کہ گناہ کبیرہ کو کفر کہتے تھے تاکہ لوگ اس گناہ کو ترک کر دیں کیا انکو یہ دلیل دینے کا حق آپ دے سکتے ہیں
مگر مجھے محترم بھائی لگتا ہے کہ آپ سے یہ سب لاشعوری طور پر ہوا ہے ورنہ واللہ مجھے پتا ہے کہ آپ جانتے بوجھتے ایسا نہیں سمجھتے اللہ ہمیں سمجھ دے امین

اس لئے اگر اس مسئلہ کو اس دردِ دِل کے ساتھ دیکھا جائے تو شاید ترک نماز کا کفر، کفر اصغر یا کفر اکبر ہونا، ہم بھول جائیں اور اصلاح کی طرف توجہ کرتے ہوئے تارک نماز کو نہی عن المنکر کرتے رہیں۔
جی محترم بھائی آپ نے بڑی اچھی بات کی ہے اور ہمیں واقعی ایسا ہی کرنا چاہئے کہ دعوت کے لئے کفر اصغر اور اکبر کو بھول کر دعوت دیں یا پھر جس کو دعوت دے رہے ہیں اس معاملے میں اسکے عقیدہ کو دیکھ کر دعوت حکمت کے ساتھ دیں
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
جزاک اللہ خیرا
اس موضوع پر اس فورم پر میری بھی بحث ہوئی تھی، جس میں دونوں فریقین نے اپنے اپنے دلائل دئیے تھے، اس گفتگو کو آپ یہاں دیکھیں۔
میرا اور حافظ عمران الٰہی کا موقف یہ تھا کہ بے نمازی کا کفر کفر اصغر ہے، جبکہ اس کے برعکس محمد علی جواد بھائی اور طاہر اسلام عسکری بھائی کا موقف یہ تھا کہ بے نمازی کا کفر کفر اکبر ہے۔ مزید تفصیل کے لئے یہ گفتگو پڑھیں۔
پھر میں نے اس موضوع پر سرچنگ کی، تحقیق کی اور محدث فتویٰ ویب سائٹ بھی چیک کی۔ تو مجھے دونوں طرف کے دلائل ملے، البتہ کفر اصغر ہونے کے اور بھی ایسے دلائل ملے جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بے نمازی کی بخشش ہو سکتی ہے۔ واللہ اعلم
محترم بھائی میرے نزدیک بھی استادِ محترم حافظ طاہر اسلام عسکری بھائی والا موقف زیادہ راجح ہے البتہ دوسروں کو میں اپنی سوچ کی آزادی دیتا ہوں
جہاں تک محترم ارسلان بھائی کے اور نشان زدہ دلائل کا تعلق ہے تو مجھے بھی انکے موقف کے ٹھوس دلائل میں سے یہی دلائل ملے ہیں کہ بے نمازی کی بھی بخشش کا ثبوت شریعت سے دیا جا سکتا ہے
لیکن محترم بھائی مجھے یہ دلیل درست معلوم نہیں ہوتی کیونکہ کسی کی بخشش کا ثابت ہونا اس بات کو لازم نہیں کرتا کہ وہ کفر اکبر کا مرتکب نہیں کہلایا جا سکتا مثلا قرآن و حدیث سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ مشرک کے علاوہ ہر ایک کی بخشش ہو سکتی ہے لیکن کیا ہم مشرک کے علاوہ ہر ایک کو کافر کہنا ہی چھوڑ دیں گے مجھے سمجھ نہیں آئی شاید استادِ محترم کچھ وضاحت کر دیں اللہ انکو جزائے خیر دے امین
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں نے مناسب سمجھا کہ تارک نماز کے بارے ارشاد ربانی ، فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور کچھ اقوال ایک ہی جگہ اکھٹے کردوں تاکہ بھائیوں کو استدلال کرنے میں آسانی ہو۔ اور یہ بھی علم میں آجائے کہ احادیث واقوال صحت کے اعتبار سے کیسے ہیں؟
جزاک اللہ خیرا۔

آیت وتفسیر
مُنِيبِينَ إِلَيْهِ وَاتَّقُوهُ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِ‌كِينَ ﴿٣١﴾
(لوگو!) اللہ تعالٰی کی طرف رجوع ہو کر اس سے ڈرتے رہو اور نماز قائم رکھو اور مشرکین میں سے نہ ہو جاؤ (١)
31-1یعنی ایمان تقوٰی اور اقامت صلاۃ سے گریز کر کے، مشرکین میں سے نہ ہو جاؤ۔
"تفسیر احسن البیان"

احادیث
عَنْ اَبِیْ سُفْیَانَ قَالَ : سَمِعْتُ جَابِرًا یَّقُوْلُ : سَمِعْتُ النَّبِیَّﷺ یَقُوْلُ : ''اِنَّ بَیْنَ الرَّجُلِ وَبَیْنَ الشِّرْکِ وَالْکُفْرِ تَرْکَ الصَّلَاۃِ ''۔
رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایاکہ : ''بندے کے کفر اور ایمان کے درمیان (فرق کرنے والی ) شے نماز ہے ، اسے ترک کرنے پر (بندہ) شرک کا مرتکب ہو جاتا ہے ''۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ : ''...لاَ دِیْنَ لِمَنْ لاَّ صَلاَۃَ لَہُ...''
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : '' جس کی نماز نہیں اس کا کوئی دین نہیں '' ۔

عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ : جَائَ رَجُلً فَقَالَ : جَائَ رَجُلً فَقَالَ : یَارَسُوْلَ اﷲِ اَیُّ شَیْئٍ عِنْدَ اﷲِ فِیْ الاَسْلَامِ ؟ قَالَ : '' الصَّلاَۃُ لِوَقْتِھَا ، وَمَنْ تَرَکَ الصَّلاَۃَ فَلاَ دِیْنَ لَہُ...
''ایک آدمی نے آکر ( رسول اللہ ﷺ نے ) پوچھا : اے اللہ کے رسول ! اللہ کے ہاں اسلام میں (سب سے افضل ) کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وقت پر نماز ادا کرنا کیونکہ تارک نماز کا کوئی دین نہیں ...

عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ : اَوْصَانَا رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ فَقَالَ : '' لاَ تُشْرِکُوْا بِاﷲِ شَیْئًا ، وَلاَ تَتْرُکُوْا الصَّلَاۃَ عَمَدًا ، فَمَنْ تَرَکَھَا عَمَدًا مُتَعَمِّدًا فَقَدْ خَرَجَ مِنَ الْمِلَّۃِ '' ۔
رسول اللہ ﷺ نے بطور وصیت فرمایا : '' کسی کو بھی اللہ تعالیٰ کا شریک نہ ٹھہراؤ ، قصداً نماز ترک نہ کرو ، جس کسی نے جانتے بوجھتے قصداً نماز ترک کی وہ ملت اسلامیہ سے نکل گیا '' ۔

عَنْ اَبِی الدَّرْدَائِ قَالَ: اَوْصَانِیْ خَلِیْلِیْ ﷺ (فَقَالَ): '' لاَتُشْرَِکْ بِاﷲِ شَیْئًا وَاِنْ قُطِّعْتَ وَ حُرِقْتَ وَلاَ تَتْرُکؤ صَلاَۃً مَکْتُوْبَۃً مُتَعَمِّدًا ، فَمَنْ تَرَکَہَا مُتَعَمِّدًا ، فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْہُ ذِمَّۃُ اﷲِ '' ۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' اللہ عزوجل کا کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ، اگر چہ تیرے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے جائیں یا تجھے جلا دیا جائے ۔ اور فرض نماز کو جانتے بوجھتے ترک نہ کرنا ، جس کسی نے فرض نماز کو جانتے ہوئے ترک کیا اس سے اللہ کا ذمہ بری ہوگیا '' ۔

عَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ عَمْرٍو: عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ ﷺ اَنَّہُ ذَکَرَ الصَّلَاۃَ یَوْمًا فَقَالَ: '' مَنْ حَافَظَ عَلَیْھَا کَانَتْ لَہُ نُوْرًا وَبْرْہَانًا وَنَجَاۃً یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، وَمَنْ لَمْ یَحَافِظُ عَلَیْھَا لَمْ یَکُنْ لَہُ بُرْھَانٌ وَلاَنُوْرٌ وَلاَنَجَۃٌ، وَکَانَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مَعَ قَارُوْنَ وَھَامَانَ وَفِرْعَوْنَ وَاُبَیِّ بْنِ خَلَفٍ''۔
ایک دن رسول اللہ ﷺ نے نماز کے بارے میں گفتگوکی اور فرمایا: '' جس نے (پانچ) وقت نماز کی حفاظت کی، نماز قیامت کے دن اس کے لئے نور ، برہان اور (وسیلہ ) نجات ہوگی۔ اور جس کسی نے (پانچ وقت) نماز کی حفاظت نہ کی تو قیامت کے دن (نماز ) اس کے لئے نہ دلیل ، نہ ہور اور نہ ہی (باعث ) نجات ہوگی اور وہ (بے نماز ) قیامت کے دن قارون ، ہامان، فرعون، اور ابی خلف کے ساتھ (جہنم میں) ہوگا '' ۔

عَنْ بُرَیْدَۃَ الْاَسْلَمِیِّ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ: مَنْ تَرَکَ صَلَاۃَ الْعَصْرِ مُتَعَمِّدًا اَحْبَطَ اﷲُ عَمَلُہُ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو کوئی جانتے بوجھتے (ایک نماز عصر ترک کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے کردہ (دیگر تمام) اعمال بھی برباد کر دے گا

عَنْ اَبِی الْمَلِیْحِ قَالَ: کُنَّا مَعَ بُرَیْدَۃَ فِی غَزْوَۃٍ فِی یَوْمٍ ذِیْ غَیْمٍ فَقَالَ: بَکِّرُوْا بِصَلَاۃِ الْعَصْرِ، فَاِنَّ النَّبِیَّ ﷺ قَالَ: مَنْ تَرَکَ صَلَاۃَ الْعَصْرِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہُ
ابو ملیح بیان کرتے ہیں کہ ایک ابر آلود دن میں ہم سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ کی معیت میں کسی غزوہ میں (برسرپیکار) تھے۔ سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ نے (ہمیں مخاطب کر کے) فرمایا کہ نماز عصر کو اول وقت ادا کرو کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے: جس کسی نے نماز عصر ترک کر دی بلا شبہ اس کے تمام اعمال برباد ہو گئے۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ ﷺ قَالَ: اُمِرْتُ اَنْ اُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَشْھَدُوا اَنْ لَا اِلٰـہَ اِلَّا اﷲُ، وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اﷲِ، وَیُقِیْمُوْا الصَّلَاۃَ وَیُؤْتُوْا الزَّکَاۃَ فَاِذَا فَعَلُوْا ذٰلِکَ عَصَمُوْا مِنِّی دِمَائَھُمْ وَ اَمْوَالَھُمْ اِلَّا بِحَقِ الْاِسْلَامِ، وَ حِسَابُھُمْ عَلَی اﷲِ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھے لوگوں سے اس وقت تک لڑنے کا حکم دیا گیا ہے جب تک وہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود برحق نہ ہونے اور محمد ﷺ کے اللہ کے رسول ہونے، کی شہادت نہ دیں، نماز قائم نہ کریں اور زکوۃ ادا نہ کریں۔ جب وہ یہ کام کرنے لگ جائیں تب انہوں نے اپنے خون اور مال مجھ سے محفوظ کروا لئے تاہم اسلام کا حق باقی ہے اور ان کا حساب و کتاب اللہ کے ذمے ہے۔

عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ: اُمِرْتُ اَنْ اُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَشْھَدُوا اَنْ لَا اِلٰـہَ اِلَّا اﷲُ، وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَ رَسُوْلُہُ، وَاَنْ یَسْتَقْبِلُوْا قِبْلَتَنَا وَاَنَّ یَاْکُلُوْا ذَبِیْحَتَنَا وَاَنَّ یُصَلُّوْا صَلاتَنَا فَاِذَا فَعَلُوْا ذٰلِکَ حُرُمَتْ عَلَیْنَا دِمَائُھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ اِلَّا بِحَقِّھَا لَھُمْ مَا لِلْمُسْلِمِیْنَ وَعَلَیْہِمْ مَا عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھے لوگوں کے ساتھ لڑنے کا حکم دیا گیا ہے جب تک وہ اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کے الٰہ نہ ہونے اور محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہونے کی شہادت نہ دیں ہمارے قبلے کی طرف رخ نہ کریں ہمارا ذبیحہ نہ کھائیں اور ہماری نماز ادا نہ کریں جب وہ یہ کریں گے تب ان کی جانیں اور مال ہمارے لئے حرام ہیں صرف (اسلام کا) حق مستثنیٰ ہے۔ (نیز اب) ان کے وہی حقوق ہیں جو مسلمانوں کے ہیں اور ان کے ذمے بھی وہی کچھ ہے جو مسلمانوں کے ذمے ہے۔

عَنْ عَبْدِ الرَٗحْمٰنِ بْنِ اَبِیْ نَعِیْمٍ قَالَ: سَمِعْتُ اَبَا سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ یَقُوْلُ: بَعَثَ عَلِیُّ بْنُ اَبِی طَالِبٍ رَسُوْلِ اﷲِ ﷺ مِنَ الْیَمَنِ، بِذَھَبَۃٍ فِیْ اَدِیْمٍ مَقْرُوْظٍ۔ لَمْ تُحَصَّلْ مِنْ تُرَابِھَا۔ قَالَ: فَقَسَمَھَا بِیْنَ اَرْبَعَۃِ نَفَرٍ؛ بَیْنَ عُیَیْنَۃَ ابْنِ بَدْرٍ ، وَالْاَقْرَعَِ بْنِ حَابِسٍ ، وَزَیْدِ الْخَیْلِ ، وَالرَّابِعُ اِمَّا عَلْقَمَۃُ بْنُ عُلاَثَۃَ وَاِمَّا عَامِرُ بْنُ الطُّفَیْلِ ۔ قَقَالَ رَجُلٌ مِّنْ اَصْحَابِہٖ : کُنیَّا نَحْنُ اَحَقَّ بِہٰذَا مِنْ ھٰؤُلَائِ ۔ قَالَ : فَبَلَغَ ذٰلِکَ النَّبِیَّ ﷺ فَقَالَ : '' اَلاَ تَاْمَنُوْنِیْ ؟ وَاَنَ اَمِیْنُ مَنْ فِیْ السَّمَائِ ، یَاْتِیْنِیْ خَبَرُ السَّمَائِ صَبَا حًا وَمَسَائٌ '' ۔ قَالَ : فَقَامَ رَجُلٌ غَائِرُ الْعَیْنَیْنِ ، مُشْرِفُ الْوَجْنَتَیْنِ نَاشِزُ الْجَیْھَۃِ ، کُثُّ الْلِحْیَۃِ ، مَحْلُوْقُ الرَّاْسِ ، مُشَمِّرُ الَاِزَارِ ۔ فَقَالَ یَارَسُوْلَ اﷲِ ! اتَّقِ اﷲَ ۔ فَقَالَ :'' وَیْلَکَ اَوَلَسْتُ اَحَقَّ اَھْلِ الاَرْضِ اَنْ یَتیَّقِیَ اﷲَ '' قَالَ: ثُمَّ وَلَّی الرَّجُلُ ۔ فَقَالَ خَالِدُبْنُ الْوَلِیْدِ : یَا رَسُوْلَ اﷲِ ! اَلاَ اَضْرِبُ عُنُقَہُ ؟ فَقَالَ : '' لاَ ، لَعَلَّہُ اَنْ یَکُوْنَ یُصَلِّی '' ۔ قَالَ خَالِدٌ : وَکَمْ مِنْ مُصَلٍّ یَقُوْلُ بِلِسَانِہٖ مَالَیْسَ فِیْ قَلْبِہٖ ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ : ''اِنِّیْ لَمْ اُوْمَرْ اَنْ اَنْقُبَ عَنْ قُلُوْبِ النَّاسِ وَلاَ اَشُقَّ بُطُوْنَھُمْ
''سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے کچھ سونا دباغت شدہ چمڑے میں بھیجا جو کہ تاحال مٹی سے جدا نہیں کیا گیا تھا ۔ رسول اللہ ﷺ نے ان چار آدمیوں میں اسے تقسیم فرمادیا ۔ عینیہ ابن بدر ، اقرع بن حابس ، زیدالخیل اور چوتھے علقمہ بن علاثہ تھے یا عامر بن طفیل ۔
اصحاب رسول اللہ ﷺ میں سے کسی ایک نے کہا ہم اس احسان کے ان کی نسبت زیادہ حق دار تھے ۔ یہ بات نبی کریم ﷺ تک پہنچنے پر نبی کریم ﷺنے فرمایا کیا تم مجھ پر اعتماد نہیں کرتے ہو ؟ میں تو سات آسمانوں کے اوپر والے رب العزت کاامین ہوں ۔ صبح و شام میرے پاس آسمان سے خبر (یعنی وحی) آتی ہے ۔ اس پر ایک آدمی کھڑا ہوتا ہے۔ جس کی دونوں آنکھیں گڑھی ہوئی تھیں ، دونوں گال (کپے کی طرح) پھولے ہوئے ، پیشانی ابھری ہوئی ، داڑھی گھنی ، سر منڈاہوا اور تہبند اوپر کو اٹھائے ہوا تھا ۔ وہ کہنے لگا۔ اے اللہ کے رسول ﷺ !اللہ سے ڈرو ''۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا تیرا ستیاناس ہو۔ کیا اس روئے زمین پر تمام انسانوں سے زیادہ اللہ سے ڈرنے کے لائق میں نہیں ہوں؟اس پر وہ آدمی پیٹھ پھیر کر چل دیا ۔
سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ۔ اے اللہ کے رسول ﷺ کیا میں اس کی گردن نہ اڑادوں ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' شاید نماز ادا کرتا ہو '' اس پر سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ۔ اے اللہ کے رسول اللہ ﷺ کتنے ہی نمازی ایسے ہیں جو اپنی زبان سے وہ بات کہتے ہیں جوان کے دل میں نہیں ہوتی '' ۔ تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ''مجھے لوگوں کے دل چیرنے اور پیٹ پھاڑنے کا حکم نہیں دیا گیا ہے '' ۔

عَنْ عُبَیْدِاﷲِ بْنِ عَدِی بْنِ الْخِیَارِ اَنَّ عَبْدَاﷲِ بْنَ عَدِیْ حَدَّثُہُ اَنَّ النَّبِیَّ ﷺ بَیْنمَا ھُوَ جَالِسٌ بَیْنَ ظَھْرَانِیْ النَّاسِ ، اِذْ جَائَ ہُ رَجُلٌ یَسْتَاْذِنُہُ اَنْ یَسَارَّۃُ ، فَاَذِنَ لَہُ ، فَسَارَّہُ فِیْ قَتْلِ رَجُلٍ مَنَ الْمُنَافِقِیْنَ ، فَجَھَرَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ بِکَلاَمِہٖ وَقَالَ : '' اَلَیْسَ یَشْہَدُ اَنْ لاَ اِلٰہَ الاَّ اﷲُ ؟ '' قَالَ : بَلٰی ، یَارَسُوْلَ اﷲِ ، وَلاَشَھَادَۃَ لَہُ ۔قَالَ : '' اَلَیْسَ یُصَلِّی ؟'' قَالَ : بَلٰی یَارَسُوْلَ اﷲِ ، وَلاَ صَلاَۃَ لَہُ ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ : ''اُوْلٰئِکَ الَّذِیْنَ نُہِیْتُ عَنْ قَتْلِہِمْ ''۔
ایک دن نبی کریم ﷺ صحابہ کرام کے درمیان تشریف فرماتھے ۔ کہ ایک آدمی آیا ۔ آپ ﷺ سرگوشی کرنے کی اجازت چاہی ۔ آپ ﷺ نے اجازت دی تو اس نے (ایک منافق) کے قتل کے بارے میں سرگوشی کی۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے بآواز بلند کہا ۔ '' کیا وہ لاالہ الا اﷲ کی شہادت نہیں دیتا ''؟ اس نے کہا جی ہاں اے اللہ کے رسول ﷺ ! لیکن اس کی کوئی شہادت نہیں دیتا '' ؟ اس نے کہا جی ہاں اے اللہ کے رسول ﷺ ! لیکن اس کی کوئی شہادت نہیں ہے پھر رسول اللہ ﷺ نے پوچھا: '' کیا وہ نماز نہیں پڑھتا ہے '' ؟ اس آدمی نے کہا جی ہاں اے اللہ کے رسول ﷺ ! لیکن اس کی کوئی نماز نہیں ہے ۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ۔ یہی وہ (لا الہ الا اﷲ کی شہادت دینے اور نماز ادا کرنے والے ) لوگ ہیں جن کے قتل سے مجھے منع کیا گیا ہے ۔

اقوال
عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ : '' مَنْ تَرَکَ الصَّلَاۃَ فَلاَ دِیْنَ لَہُ '' ۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: '' جس نے نماز ترک کی اس کا دین (باقی ) نہیں ہے '' ۔

عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرٍ وَقَالَ : '' مَنْ تَرَکَ الصَّلَاۃَ لاَ دِیْنَ لَہُ ''
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ''تارک نماز کا کوئی دین نہیں ہے '' ۔

عَنْ اَبِی الدّرَدَائِ قَالَ : ''...لاَ اِیْمَانَ لِمَنْ لاَّ صَلاَۃَ لَہُ ''۔
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ''بے نماز کا کوئی ایمان نہیں ہے''۔

عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ : '' لاَ حَظَّ فِی الاَسْلاَمِ لِمَنْ تَرَاکَ الصَّلاَۃَ '' ۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: '' تارک نماز کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں ۔

اَخْبَرْنَا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدِ الْیَمَامِی بَطْرَسُوْسَ قَالَ : سَاَلْتُ اَبَا عَبْدِاﷲ عَنِ الْحَدِیْثِ الَّذِیْ یُرْوَی عَنِ النَّبِیَّ ﷺ قَالَ: '' لاَ یُکَفَّرُ اَحَدٌ مِنْ اَھْلِ التَّّوْحِیْدِ بِذَنْبٍ '' ۔ قَالَ مَوْضُوْعٌ ، لاَ اَصْلَ لَہُ ۔ کَیْفَ بِحَدِیْثِ النَّبِیَّ ) : ''مَنْ تَرَکَ الصَّلَاۃَ فَقَدْ کَفَرَ ''۔ قُلْتُ : اَیُوَرَّثُ ؟ قَالَ : لاَ یَرِثُ وَلاَ یُوَرَّثُ ۔
عباس بن محمد الیمامی بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابو عبداللہ (یعنی امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ) سے نبی کریم ﷺ سے نقل کی جانے والی اس روایت کے بارے میں پوچھا کہ '' اہل توحید کی کسی بھی گناہ کے سبب تکفیر نہیں کی جاسکتی '' ۔ انہوں نے جواب دیا کہ یہ روایت موضوع ہے اس کی کوئی اصل نہیں (بنیاد ) نہیں ہے ۔ نیز یہ کیسے صحیح ہو سکتی ہے جبکہ نبی کریم ﷺ کی یہ حدیث بھی ہے کہ '' جس کسی نے نماز ترک کی اس نے کفر کیا (یعنی کافر ہوگیا ) ''۔ اس پر میں نے پوچھا آیا تارک نماز سے میراث آئے گی؟ جواب میں (امام مالک بن حنبل رحمہ اللہ نے ) یوں فرمایا ''نہیں وہ نہ تو میراث کا حق دار ہے اور نہ ہی اس سے میراث ملتی ہے '' ۔

عَنْ مُحَمَّدٍ بْنِ الْفَضْلِ بْنِ زِیضاد ، سِئُلَ اَبُوْ عَبْدِاﷲِ عَنِ اِمْرَاَۃٍ لَہَا زَوْدٌ یَسْکَرُوَ یَدَعُ الصَّلَاۃَ ۔ قَالَ : اَنْ کَانَ لَہَا وَلِیٌّ فَرَّقَ بَیْنَھُمَا ۔
ابو عبداللہ (امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ) سے پوچھا گیا کہ ایک عورت کا خاوند شراب پیتا اور نماز ترک کرتا ہے ۔ آپ رحمہ اللہ نے فرمایا اگر اس عورت کا ولی موجود ہے تو دونوں کے درمیان تفریق کروا دے ۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
بہت بہت شکریہ جناب عبدہ بھائی کا اور محمد نعیم یونس بھائی کا۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی دین پر استقامت عطا فرمائے اور مجھے جیسے ناتواں کو بھی دین پر عمل کرتے ہوئے زندگی کی کشتی پار لگانے کی توفیق عطا فرما دے آمین۔
عبدہ بھائی میں آپ کی باتوں کو بغور پڑھتا رہا ہوں۔ اور محمد نعیم یونس بھائی کے پیش کردہ دلائل کو بھی بہت انہماک سے پڑھا رہا تھا۔
دل تو نہیں چاہتا تھا کہ اس کے بعد کچھ لکھوں لیکن آپ کی ایک بات کو آگے بڑھانے اور محمد نعیم یونس بھائی کے پیش کردہ دلائل میں ایک اضافہ کرنے کی نیت سے کچھ عرض ہے کہ:
ہم فرض کر لیتے ہیں کہ بےنماز کی بھی بخشش ہو جائے گی۔ (واللہ العظیم میں اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں)۔

قرآن کریم کی آیات پیش خدمت ہیں:

مَا سَلَكَكُمْ فِيْ سَقَرَ ۔ قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّيْنَ
(پوچھیں گے) تمہیں کیا چیز دوزخ میں لے گئی، وہ کہیں گے: ہم نماز پڑھنے والوں میں نہ تھے۔

اب ہم ایک حدیث کا مفہوم دیکھتے ہیں کہ

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے سماعت فرمایا کہ جس کسی نے بھی لا الہ الا اللہ کہا وہ ضرور جنت میں داخل ہو گا۔ رسول اللہ ﷺسے اجازت طلب کر کے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس خوشخبری کو دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تک پہنچانے کے لئے نکل کھڑے ہوئے۔ راستے میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے سامنا ہو گیا۔ پوچھنے پر بتایا کہ یہ خوشخبری سنانے چلا ہوں۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ نے انہیں روک لیا۔ اور واپس رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے گئے۔ اور عرض کی کہ اگر یہ بیان کر دیا گیا تو لوگ اس پر بھروسہ کر کے بیٹھ جائیں گے اور دیگر اعمال صالحہ بجا لانا چھوڑ دیں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ٹھیک ہے آپ اسے بیان نہ کریں۔

اب ہم فرض کی گئی بات کو اس پر منطبق کرتے ہیں کہ
اللہ کی رحمت سے ہمیں مایوسی نہیں اگر وہ شیطان کو معاف فرمانے پر قادر ہے تو بےنماز کو بھی معاف فرما سکتا ہے

بحث یہ ہے کہ ہمیں یا ہمارے کسی مفتی صاحب کے لئے کیا یہ چیز ازحد ضروری ہے کہ وہ لازماً ایک ایسی چیز مسلمانوں کو بتا دیں کہ جس سے وہ دین کی افضل ترین عبادت یعنی بروقت نماز ادا کرنا، چھوڑ دیں یا اس میں کمی کوتاہی کے مرتکب ہو جائیں۔ اور ہم اللہ تعالیٰ کی رحمت پر بھروسہ کرتے ہوئے یہ کہتے جائیں کہ بےنماز بھی جنت میں جائے گا لیکن براستہ جہنم۔
انا للہ و انا الیہ راجعون۔

واللہ العظیم میں نہ تو تکفیری ہوں اور نہ خارجی۔ اگر ایسا ہوتا تو شاید بہت سی اہل الحدیث مساجد میں نماز قائم کرنے کے لئے نہ جایا کرتا۔

اگر بالفرض میری یہ سوچ خروج پر مبنی ہے بھی تو میں اُس وقت تک اس سے رجوع نہیں کر سکتا جب تک کہ فریق ثانی افضل ترین عبادت کے متعلق ایسے فتاوی جات جاری فرماتے رہیں کہ جس سے مسلمانوں کی جماعت کا ایک بڑا حصہ تارک نماز بن جائے۔

دیگر باتیں یہ ہیں کہ
میرے نزدیک وہ شخص واقعی کفر اکبر میں داخل ہو جائے گا کہ جسے کو شرعی عذر نہ ہو اور اُسے نماز کا موقعہ بھی ملے اور مسئول اس سے ادائیگی نماز کا تقاضا بھی کرے لیکن وہ نماز ادا نہ کرے۔ کیونکہ حدیث میں لفظ متعمدا کا مفہوم مجھے یہی سمجھ آتا ہے۔

اس کے علاوہ میں نے جہاں سے یہ بات شروع کی تھی وہ ایک حافظ قرآن لڑکے کی تھی۔ میرے پاس وہ کمپوزنگ وغیرہ سیکھنے آتا تھا۔ اب میں اللہ کے سامنے تو اس کا مسئول ہوں ہی، اس کے والد صاحب جو کہ میرے گہرے دوست ہیں، ان کے سامنے بھی جوابدہ ہوں۔ چنانچہ میں نے اس دردِ دِل کے ساتھ اُس لڑکے کو نماز کی تلقین کی کہ اگر وہ نماز قائم نہیں کرے گا تو قرآن بھی اس کے سینے سے نکل جائے گا۔

اس کے برعکس جب اُسےفریق ثانی کا موقف معلوم ہوا تو
اللہ اکبر۔ اے اللہ تو مجھے معاف فرما دینا۔ یہ لکھتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے کہ
اس اٹھارہ سالہ نوجوان نے چہرے پر آنے والی ڈاڑھی بھی کاٹ ڈالی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔

کیا اس اُمت کو دین پر لانے کی مسئولیت ہر اُس بندے کی نہیں جسے علم نافع (قرآن و سنت کا علم) عطا کیا گیا ہے؟
اگر مسئولیت ہے تو بجائے خود عمل کرنے کے دوسروں کو بھی روکنے کا سبب ہم کیوں بنیں۔

ارسلان صاحب میرے بھائی کے بیٹے ہیں۔ نعیم یونس صاحب اگر اُن کے انکل ہیں تو میں نے بھی ارسلان صاحب سے درخواست کی تھی کہ مجھے بھی چچا کہہ لیا کریں۔ مجھے بھی اُن سے ہمدردی ہے۔ اور اس ہمدردی کی جھلک آپ کو میری تحریروں میں نظر آ رہی ہو گی ان شاء اللہ۔

آپ سب سے التماس ہے کہ میرے لئے دُعا کیجیے کہ میری جان اُس دن نکلے جب میرا رب مجھ سے راضی ہو اور میں اپنے رب سے راضی ہوں۔ آمین یارب العالمین۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں نے مناسب سمجھا کہ تارک نماز کے بارے ارشاد ربانی ، فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور کچھ اقوال ایک ہی جگہ اکھٹے کردوں تاکہ بھائیوں کو استدلال کرنے میں آسانی ہو۔ اور یہ بھی علم میں آجائے کہ احادیث واقوال صحت کے اعتبار سے کیسے ہیں؟
جزاک اللہ خیرا۔

آیت وتفسیر
مُنِيبِينَ إِلَيْهِ وَاتَّقُوهُ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِ‌كِينَ ﴿٣١﴾
(لوگو!) اللہ تعالٰی کی طرف رجوع ہو کر اس سے ڈرتے رہو اور نماز قائم رکھو اور مشرکین میں سے نہ ہو جاؤ (١)
31-1یعنی ایمان تقوٰی اور اقامت صلاۃ سے گریز کر کے، مشرکین میں سے نہ ہو جاؤ۔
"تفسیر احسن البیان"

احادیث
عَنْ اَبِیْ سُفْیَانَ قَالَ : سَمِعْتُ جَابِرًا یَّقُوْلُ : سَمِعْتُ النَّبِیَّﷺ یَقُوْلُ : ''اِنَّ بَیْنَ الرَّجُلِ وَبَیْنَ الشِّرْکِ وَالْکُفْرِ تَرْکَ الصَّلَاۃِ ''۔
رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایاکہ : ''بندے کے کفر اور ایمان کے درمیان (فرق کرنے والی ) شے نماز ہے ، اسے ترک کرنے پر (بندہ) شرک کا مرتکب ہو جاتا ہے ''۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ : ''...لاَ دِیْنَ لِمَنْ لاَّ صَلاَۃَ لَہُ...''
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : '' جس کی نماز نہیں اس کا کوئی دین نہیں '' ۔

عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ : جَائَ رَجُلً فَقَالَ : جَائَ رَجُلً فَقَالَ : یَارَسُوْلَ اﷲِ اَیُّ شَیْئٍ عِنْدَ اﷲِ فِیْ الاَسْلَامِ ؟ قَالَ : '' الصَّلاَۃُ لِوَقْتِھَا ، وَمَنْ تَرَکَ الصَّلاَۃَ فَلاَ دِیْنَ لَہُ...
''ایک آدمی نے آکر ( رسول اللہ ﷺ نے ) پوچھا : اے اللہ کے رسول ! اللہ کے ہاں اسلام میں (سب سے افضل ) کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وقت پر نماز ادا کرنا کیونکہ تارک نماز کا کوئی دین نہیں ...

عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ : اَوْصَانَا رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ فَقَالَ : '' لاَ تُشْرِکُوْا بِاﷲِ شَیْئًا ، وَلاَ تَتْرُکُوْا الصَّلَاۃَ عَمَدًا ، فَمَنْ تَرَکَھَا عَمَدًا مُتَعَمِّدًا فَقَدْ خَرَجَ مِنَ الْمِلَّۃِ '' ۔
رسول اللہ ﷺ نے بطور وصیت فرمایا : '' کسی کو بھی اللہ تعالیٰ کا شریک نہ ٹھہراؤ ، قصداً نماز ترک نہ کرو ، جس کسی نے جانتے بوجھتے قصداً نماز ترک کی وہ ملت اسلامیہ سے نکل گیا '' ۔

عَنْ اَبِی الدَّرْدَائِ قَالَ: اَوْصَانِیْ خَلِیْلِیْ ﷺ (فَقَالَ): '' لاَتُشْرَِکْ بِاﷲِ شَیْئًا وَاِنْ قُطِّعْتَ وَ حُرِقْتَ وَلاَ تَتْرُکؤ صَلاَۃً مَکْتُوْبَۃً مُتَعَمِّدًا ، فَمَنْ تَرَکَہَا مُتَعَمِّدًا ، فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْہُ ذِمَّۃُ اﷲِ '' ۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' اللہ عزوجل کا کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ، اگر چہ تیرے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے جائیں یا تجھے جلا دیا جائے ۔ اور فرض نماز کو جانتے بوجھتے ترک نہ کرنا ، جس کسی نے فرض نماز کو جانتے ہوئے ترک کیا اس سے اللہ کا ذمہ بری ہوگیا '' ۔

عَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ عَمْرٍو: عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ ﷺ اَنَّہُ ذَکَرَ الصَّلَاۃَ یَوْمًا فَقَالَ: '' مَنْ حَافَظَ عَلَیْھَا کَانَتْ لَہُ نُوْرًا وَبْرْہَانًا وَنَجَاۃً یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، وَمَنْ لَمْ یَحَافِظُ عَلَیْھَا لَمْ یَکُنْ لَہُ بُرْھَانٌ وَلاَنُوْرٌ وَلاَنَجَۃٌ، وَکَانَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مَعَ قَارُوْنَ وَھَامَانَ وَفِرْعَوْنَ وَاُبَیِّ بْنِ خَلَفٍ''۔
ایک دن رسول اللہ ﷺ نے نماز کے بارے میں گفتگوکی اور فرمایا: '' جس نے (پانچ) وقت نماز کی حفاظت کی، نماز قیامت کے دن اس کے لئے نور ، برہان اور (وسیلہ ) نجات ہوگی۔ اور جس کسی نے (پانچ وقت) نماز کی حفاظت نہ کی تو قیامت کے دن (نماز ) اس کے لئے نہ دلیل ، نہ ہور اور نہ ہی (باعث ) نجات ہوگی اور وہ (بے نماز ) قیامت کے دن قارون ، ہامان، فرعون، اور ابی خلف کے ساتھ (جہنم میں) ہوگا '' ۔

عَنْ بُرَیْدَۃَ الْاَسْلَمِیِّ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ: مَنْ تَرَکَ صَلَاۃَ الْعَصْرِ مُتَعَمِّدًا اَحْبَطَ اﷲُ عَمَلُہُ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو کوئی جانتے بوجھتے (ایک نماز عصر ترک کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے کردہ (دیگر تمام) اعمال بھی برباد کر دے گا

عَنْ اَبِی الْمَلِیْحِ قَالَ: کُنَّا مَعَ بُرَیْدَۃَ فِی غَزْوَۃٍ فِی یَوْمٍ ذِیْ غَیْمٍ فَقَالَ: بَکِّرُوْا بِصَلَاۃِ الْعَصْرِ، فَاِنَّ النَّبِیَّ ﷺ قَالَ: مَنْ تَرَکَ صَلَاۃَ الْعَصْرِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہُ
ابو ملیح بیان کرتے ہیں کہ ایک ابر آلود دن میں ہم سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ کی معیت میں کسی غزوہ میں (برسرپیکار) تھے۔ سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ نے (ہمیں مخاطب کر کے) فرمایا کہ نماز عصر کو اول وقت ادا کرو کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے: جس کسی نے نماز عصر ترک کر دی بلا شبہ اس کے تمام اعمال برباد ہو گئے۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ ﷺ قَالَ: اُمِرْتُ اَنْ اُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَشْھَدُوا اَنْ لَا اِلٰـہَ اِلَّا اﷲُ، وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اﷲِ، وَیُقِیْمُوْا الصَّلَاۃَ وَیُؤْتُوْا الزَّکَاۃَ فَاِذَا فَعَلُوْا ذٰلِکَ عَصَمُوْا مِنِّی دِمَائَھُمْ وَ اَمْوَالَھُمْ اِلَّا بِحَقِ الْاِسْلَامِ، وَ حِسَابُھُمْ عَلَی اﷲِ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھے لوگوں سے اس وقت تک لڑنے کا حکم دیا گیا ہے جب تک وہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود برحق نہ ہونے اور محمد ﷺ کے اللہ کے رسول ہونے، کی شہادت نہ دیں، نماز قائم نہ کریں اور زکوۃ ادا نہ کریں۔ جب وہ یہ کام کرنے لگ جائیں تب انہوں نے اپنے خون اور مال مجھ سے محفوظ کروا لئے تاہم اسلام کا حق باقی ہے اور ان کا حساب و کتاب اللہ کے ذمے ہے۔

عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ: اُمِرْتُ اَنْ اُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَشْھَدُوا اَنْ لَا اِلٰـہَ اِلَّا اﷲُ، وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَ رَسُوْلُہُ، وَاَنْ یَسْتَقْبِلُوْا قِبْلَتَنَا وَاَنَّ یَاْکُلُوْا ذَبِیْحَتَنَا وَاَنَّ یُصَلُّوْا صَلاتَنَا فَاِذَا فَعَلُوْا ذٰلِکَ حُرُمَتْ عَلَیْنَا دِمَائُھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ اِلَّا بِحَقِّھَا لَھُمْ مَا لِلْمُسْلِمِیْنَ وَعَلَیْہِمْ مَا عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھے لوگوں کے ساتھ لڑنے کا حکم دیا گیا ہے جب تک وہ اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کے الٰہ نہ ہونے اور محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہونے کی شہادت نہ دیں ہمارے قبلے کی طرف رخ نہ کریں ہمارا ذبیحہ نہ کھائیں اور ہماری نماز ادا نہ کریں جب وہ یہ کریں گے تب ان کی جانیں اور مال ہمارے لئے حرام ہیں صرف (اسلام کا) حق مستثنیٰ ہے۔ (نیز اب) ان کے وہی حقوق ہیں جو مسلمانوں کے ہیں اور ان کے ذمے بھی وہی کچھ ہے جو مسلمانوں کے ذمے ہے۔

عَنْ عَبْدِ الرَٗحْمٰنِ بْنِ اَبِیْ نَعِیْمٍ قَالَ: سَمِعْتُ اَبَا سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ یَقُوْلُ: بَعَثَ عَلِیُّ بْنُ اَبِی طَالِبٍ رَسُوْلِ اﷲِ ﷺ مِنَ الْیَمَنِ، بِذَھَبَۃٍ فِیْ اَدِیْمٍ مَقْرُوْظٍ۔ لَمْ تُحَصَّلْ مِنْ تُرَابِھَا۔ قَالَ: فَقَسَمَھَا بِیْنَ اَرْبَعَۃِ نَفَرٍ؛ بَیْنَ عُیَیْنَۃَ ابْنِ بَدْرٍ ، وَالْاَقْرَعَِ بْنِ حَابِسٍ ، وَزَیْدِ الْخَیْلِ ، وَالرَّابِعُ اِمَّا عَلْقَمَۃُ بْنُ عُلاَثَۃَ وَاِمَّا عَامِرُ بْنُ الطُّفَیْلِ ۔ قَقَالَ رَجُلٌ مِّنْ اَصْحَابِہٖ : کُنیَّا نَحْنُ اَحَقَّ بِہٰذَا مِنْ ھٰؤُلَائِ ۔ قَالَ : فَبَلَغَ ذٰلِکَ النَّبِیَّ ﷺ فَقَالَ : '' اَلاَ تَاْمَنُوْنِیْ ؟ وَاَنَ اَمِیْنُ مَنْ فِیْ السَّمَائِ ، یَاْتِیْنِیْ خَبَرُ السَّمَائِ صَبَا حًا وَمَسَائٌ '' ۔ قَالَ : فَقَامَ رَجُلٌ غَائِرُ الْعَیْنَیْنِ ، مُشْرِفُ الْوَجْنَتَیْنِ نَاشِزُ الْجَیْھَۃِ ، کُثُّ الْلِحْیَۃِ ، مَحْلُوْقُ الرَّاْسِ ، مُشَمِّرُ الَاِزَارِ ۔ فَقَالَ یَارَسُوْلَ اﷲِ ! اتَّقِ اﷲَ ۔ فَقَالَ :'' وَیْلَکَ اَوَلَسْتُ اَحَقَّ اَھْلِ الاَرْضِ اَنْ یَتیَّقِیَ اﷲَ '' قَالَ: ثُمَّ وَلَّی الرَّجُلُ ۔ فَقَالَ خَالِدُبْنُ الْوَلِیْدِ : یَا رَسُوْلَ اﷲِ ! اَلاَ اَضْرِبُ عُنُقَہُ ؟ فَقَالَ : '' لاَ ، لَعَلَّہُ اَنْ یَکُوْنَ یُصَلِّی '' ۔ قَالَ خَالِدٌ : وَکَمْ مِنْ مُصَلٍّ یَقُوْلُ بِلِسَانِہٖ مَالَیْسَ فِیْ قَلْبِہٖ ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ : ''اِنِّیْ لَمْ اُوْمَرْ اَنْ اَنْقُبَ عَنْ قُلُوْبِ النَّاسِ وَلاَ اَشُقَّ بُطُوْنَھُمْ
''سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے کچھ سونا دباغت شدہ چمڑے میں بھیجا جو کہ تاحال مٹی سے جدا نہیں کیا گیا تھا ۔ رسول اللہ ﷺ نے ان چار آدمیوں میں اسے تقسیم فرمادیا ۔ عینیہ ابن بدر ، اقرع بن حابس ، زیدالخیل اور چوتھے علقمہ بن علاثہ تھے یا عامر بن طفیل ۔
اصحاب رسول اللہ ﷺ میں سے کسی ایک نے کہا ہم اس احسان کے ان کی نسبت زیادہ حق دار تھے ۔ یہ بات نبی کریم ﷺ تک پہنچنے پر نبی کریم ﷺنے فرمایا کیا تم مجھ پر اعتماد نہیں کرتے ہو ؟ میں تو سات آسمانوں کے اوپر والے رب العزت کاامین ہوں ۔ صبح و شام میرے پاس آسمان سے خبر (یعنی وحی) آتی ہے ۔ اس پر ایک آدمی کھڑا ہوتا ہے۔ جس کی دونوں آنکھیں گڑھی ہوئی تھیں ، دونوں گال (کپے کی طرح) پھولے ہوئے ، پیشانی ابھری ہوئی ، داڑھی گھنی ، سر منڈاہوا اور تہبند اوپر کو اٹھائے ہوا تھا ۔ وہ کہنے لگا۔ اے اللہ کے رسول ﷺ !اللہ سے ڈرو ''۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا تیرا ستیاناس ہو۔ کیا اس روئے زمین پر تمام انسانوں سے زیادہ اللہ سے ڈرنے کے لائق میں نہیں ہوں؟اس پر وہ آدمی پیٹھ پھیر کر چل دیا ۔
سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ۔ اے اللہ کے رسول ﷺ کیا میں اس کی گردن نہ اڑادوں ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' شاید نماز ادا کرتا ہو '' اس پر سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ۔ اے اللہ کے رسول اللہ ﷺ کتنے ہی نمازی ایسے ہیں جو اپنی زبان سے وہ بات کہتے ہیں جوان کے دل میں نہیں ہوتی '' ۔ تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ''مجھے لوگوں کے دل چیرنے اور پیٹ پھاڑنے کا حکم نہیں دیا گیا ہے '' ۔

عَنْ عُبَیْدِاﷲِ بْنِ عَدِی بْنِ الْخِیَارِ اَنَّ عَبْدَاﷲِ بْنَ عَدِیْ حَدَّثُہُ اَنَّ النَّبِیَّ ﷺ بَیْنمَا ھُوَ جَالِسٌ بَیْنَ ظَھْرَانِیْ النَّاسِ ، اِذْ جَائَ ہُ رَجُلٌ یَسْتَاْذِنُہُ اَنْ یَسَارَّۃُ ، فَاَذِنَ لَہُ ، فَسَارَّہُ فِیْ قَتْلِ رَجُلٍ مَنَ الْمُنَافِقِیْنَ ، فَجَھَرَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ بِکَلاَمِہٖ وَقَالَ : '' اَلَیْسَ یَشْہَدُ اَنْ لاَ اِلٰہَ الاَّ اﷲُ ؟ '' قَالَ : بَلٰی ، یَارَسُوْلَ اﷲِ ، وَلاَشَھَادَۃَ لَہُ ۔قَالَ : '' اَلَیْسَ یُصَلِّی ؟'' قَالَ : بَلٰی یَارَسُوْلَ اﷲِ ، وَلاَ صَلاَۃَ لَہُ ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ : ''اُوْلٰئِکَ الَّذِیْنَ نُہِیْتُ عَنْ قَتْلِہِمْ ''۔
ایک دن نبی کریم ﷺ صحابہ کرام کے درمیان تشریف فرماتھے ۔ کہ ایک آدمی آیا ۔ آپ ﷺ سرگوشی کرنے کی اجازت چاہی ۔ آپ ﷺ نے اجازت دی تو اس نے (ایک منافق) کے قتل کے بارے میں سرگوشی کی۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے بآواز بلند کہا ۔ '' کیا وہ لاالہ الا اﷲ کی شہادت نہیں دیتا ''؟ اس نے کہا جی ہاں اے اللہ کے رسول ﷺ ! لیکن اس کی کوئی شہادت نہیں دیتا '' ؟ اس نے کہا جی ہاں اے اللہ کے رسول ﷺ ! لیکن اس کی کوئی شہادت نہیں ہے پھر رسول اللہ ﷺ نے پوچھا: '' کیا وہ نماز نہیں پڑھتا ہے '' ؟ اس آدمی نے کہا جی ہاں اے اللہ کے رسول ﷺ ! لیکن اس کی کوئی نماز نہیں ہے ۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ۔ یہی وہ (لا الہ الا اﷲ کی شہادت دینے اور نماز ادا کرنے والے ) لوگ ہیں جن کے قتل سے مجھے منع کیا گیا ہے ۔

اقوال
عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ : '' مَنْ تَرَکَ الصَّلَاۃَ فَلاَ دِیْنَ لَہُ '' ۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: '' جس نے نماز ترک کی اس کا دین (باقی ) نہیں ہے '' ۔

عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرٍ وَقَالَ : '' مَنْ تَرَکَ الصَّلَاۃَ لاَ دِیْنَ لَہُ ''
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ''تارک نماز کا کوئی دین نہیں ہے '' ۔

عَنْ اَبِی الدّرَدَائِ قَالَ : ''...لاَ اِیْمَانَ لِمَنْ لاَّ صَلاَۃَ لَہُ ''۔
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ''بے نماز کا کوئی ایمان نہیں ہے''۔

عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ : '' لاَ حَظَّ فِی الاَسْلاَمِ لِمَنْ تَرَاکَ الصَّلاَۃَ '' ۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: '' تارک نماز کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں ۔

اَخْبَرْنَا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدِ الْیَمَامِی بَطْرَسُوْسَ قَالَ : سَاَلْتُ اَبَا عَبْدِاﷲ عَنِ الْحَدِیْثِ الَّذِیْ یُرْوَی عَنِ النَّبِیَّ ﷺ قَالَ: '' لاَ یُکَفَّرُ اَحَدٌ مِنْ اَھْلِ التَّّوْحِیْدِ بِذَنْبٍ '' ۔ قَالَ مَوْضُوْعٌ ، لاَ اَصْلَ لَہُ ۔ کَیْفَ بِحَدِیْثِ النَّبِیَّ ) : ''مَنْ تَرَکَ الصَّلَاۃَ فَقَدْ کَفَرَ ''۔ قُلْتُ : اَیُوَرَّثُ ؟ قَالَ : لاَ یَرِثُ وَلاَ یُوَرَّثُ ۔
عباس بن محمد الیمامی بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابو عبداللہ (یعنی امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ) سے نبی کریم ﷺ سے نقل کی جانے والی اس روایت کے بارے میں پوچھا کہ '' اہل توحید کی کسی بھی گناہ کے سبب تکفیر نہیں کی جاسکتی '' ۔ انہوں نے جواب دیا کہ یہ روایت موضوع ہے اس کی کوئی اصل نہیں (بنیاد ) نہیں ہے ۔ نیز یہ کیسے صحیح ہو سکتی ہے جبکہ نبی کریم ﷺ کی یہ حدیث بھی ہے کہ '' جس کسی نے نماز ترک کی اس نے کفر کیا (یعنی کافر ہوگیا ) ''۔ اس پر میں نے پوچھا آیا تارک نماز سے میراث آئے گی؟ جواب میں (امام مالک بن حنبل رحمہ اللہ نے ) یوں فرمایا ''نہیں وہ نہ تو میراث کا حق دار ہے اور نہ ہی اس سے میراث ملتی ہے '' ۔

عَنْ مُحَمَّدٍ بْنِ الْفَضْلِ بْنِ زِیضاد ، سِئُلَ اَبُوْ عَبْدِاﷲِ عَنِ اِمْرَاَۃٍ لَہَا زَوْدٌ یَسْکَرُوَ یَدَعُ الصَّلَاۃَ ۔ قَالَ : اَنْ کَانَ لَہَا وَلِیٌّ فَرَّقَ بَیْنَھُمَا ۔
ابو عبداللہ (امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ) سے پوچھا گیا کہ ایک عورت کا خاوند شراب پیتا اور نماز ترک کرتا ہے ۔ آپ رحمہ اللہ نے فرمایا اگر اس عورت کا ولی موجود ہے تو دونوں کے درمیان تفریق کروا دے ۔
جزاکم اللہ خیرا!
اگر احادیث مبارکہ کا ریفرنس ساتھ ہوتا تو یہ بہت مفید ہوتا۔ یہاں احادیث مبارکہ کی صحت وضعف واضح نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
جزاکم اللہ خیرا!
اگر احادیث مبارکہ کا ریفرنس ساتھ ہوتا تو یہ بہت مفید ہوتا۔ یہاں احادیث مبارکہ کی صحت وضعف واضح نہیں ہے۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
شیخ محترم!
یہ احادیث مبارکہ و اقوال اسی دھاگے میں بمعہ حوالہ جات موجود ہیں۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
بحث یہ ہے کہ ہمیں یا ہمارے کسی مفتی صاحب کے لئے کیا یہ چیز ازحد ضروری ہے کہ وہ لازماً ایک ایسی چیز مسلمانوں کو بتا دیں کہ جس سے وہ دین کی افضل ترین عبادت یعنی بروقت نماز ادا کرنا، چھوڑ دیں یا اس میں کمی کوتاہی کے مرتکب ہو جائیں۔ اور ہم اللہ تعالیٰ کی رحمت پر بھروسہ کرتے ہوئے یہ کہتے جائیں کہ بےنماز بھی جنت میں جائے گا لیکن براستہ جہنم۔
انا للہ و انا الیہ راجعون۔
واللہ العظیم میں نہ تو تکفیری ہوں اور نہ خارجی۔ اگر ایسا ہوتا تو شاید بہت سی اہل الحدیث مساجد میں نماز قائم کرنے کے لئے نہ جایا کرتا۔
اگر بالفرض میری یہ سوچ خروج پر مبنی ہے بھی تو میں اُس وقت تک اس سے رجوع نہیں کر سکتا جب تک کہ فریق ثانی افضل ترین عبادت کے متعلق ایسے فتاوی جات جاری فرماتے رہیں کہ جس سے مسلمانوں کی جماعت کا ایک بڑا حصہ تارک نماز بن جائے۔
دیگر باتیں یہ ہیں کہ
میرے نزدیک وہ شخص واقعی کفر اکبر میں داخل ہو جائے گا کہ جسے کو شرعی عذر نہ ہو اور اُسے نماز کا موقعہ بھی ملے اور مسئول اس سے ادائیگی نماز کا تقاضا بھی کرے لیکن وہ نماز ادا نہ کرے۔ کیونکہ حدیث میں لفظ متعمدا کا مفہوم مجھے یہی سمجھ آتا ہے۔
اس کے علاوہ میں نے جہاں سے یہ بات شروع کی تھی وہ ایک حافظ قرآن لڑکے کی تھی۔ میرے پاس وہ کمپوزنگ وغیرہ سیکھنے آتا تھا۔ اب میں اللہ کے سامنے تو اس کا مسئول ہوں ہی، اس کے والد صاحب جو کہ میرے گہرے دوست ہیں، ان کے سامنے بھی جوابدہ ہوں۔ چنانچہ میں نے اس دردِ دِل کے ساتھ اُس لڑکے کو نماز کی تلقین کی کہ اگر وہ نماز قائم نہیں کرے گا تو قرآن بھی اس کے سینے سے نکل جائے گا۔
اس کے برعکس جب اُسےفریق ثانی کا موقف معلوم ہوا تو
اللہ اکبر۔ اے اللہ تو مجھے معاف فرما دینا۔ یہ لکھتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے کہ
اس اٹھارہ سالہ نوجوان نے چہرے پر آنے والی ڈاڑھی بھی کاٹ ڈالی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
کیا اس اُمت کو دین پر لانے کی مسئولیت ہر اُس بندے کی نہیں جسے علم نافع (قرآن و سنت کا علم) عطا کیا گیا ہے؟
اگر مسئولیت ہے تو بجائے خود عمل کرنے کے دوسروں کو بھی روکنے کا سبب ہم کیوں بنیں۔
محترم آصف بھائی!

اولاً: کسی مسئلے میں دلائل کی بناء پر اختلاف ہو سکتا ہے لیکن مدّ مقابل (عالم یا اس کی بات کو دلائل کی بناء پر صحیح سمجھنے والے عوام) کو گمراہ سمجھنا مناسب نہیں۔ اجتہاد میں غلطی کرنے والا بھی ایک اَجر تو پاتا ہے۔ نبی کریمﷺ کا فرمان ہے:
إذا حكم الحاكمُ فاجتهد ثم أصاب فله أجرانِ ، وإذا حكم فاجتهدَ ثم أخطأَ فله أجرٌ ۔۔۔ البخاري

اس مسئلے میں امام احمد رحمہ اللہ ایسے شخص کو کافر سمجھتے ہیں۔ باقی تینوں ائمہ اسے کافر نہیں سمجھتے۔ کیا تینوں ائمہ کرام رحمہم اللہ کو گمراہ (والعیاذ باللہ) سمجھنا صحیح ہوگا؟

ثانیا: قرآن وسنت میں کسی مذموم شے کی مذمت کا طریقہ صرف یہ نہیں کہ اسے لازماً کفر (اکبر) ہی باور کرایا جائے۔ کسی شے کی مذمت اور انداز سے بھی ہوتی ہے، مثلاً یہ عمل بہت بُرا، حرام، مکروہ،گناہ، کبیرہ گناہ، اکبر الکبائر، ہلاک کرنے والا گناہ، اللہ کو ناراض کرنے والا، اللہ کو غصے دلانے والا، عذاب الیم یا عظیم کا باعث، اللہ رسول کی لعنت کا باعث، جہنم میں لے جانے کا باعث، نفاق کی علامت، کفر (دون کفر) کی علامت وغیرہ وغیرہ ہے، یا اس عمل پر کسی مخصوص عذاب کی وعید ہو وغیرہ۔

غلطی یہ ہے کہ ہم کہیں: ’’کسی شے کی صحیح مذمت تب ہی ہو سکے گی جب اسے ’کفر اکبر‘ کہا جائے۔ اگر اسے ’کفر اکبر‘ نہ کہا جائے تو گویا یہ کسی شے کو جائز کرنے کا لائسنس ہے۔‘‘ نہیں! ہرگز نہیں!

مثلاً عقوق الوالدین، شراب نوشی، چوری، فحاشی وغیرہ اسلام میں بڑے بڑے گناہ ہیں۔ لیکن انہیں کفر اکبر قرار نہیں دیا گیا، نہ ہی ان کے مرتکب پر خالد مخلد فی النار کی وعید ہے۔ اگر کوئی شخص کہے: ’’جو شخص ان کبیرہ گناہوں کو کفر اکبر یا اس کے مرتکب کو خالد مخلد فی النار قرار نہیں دیتا، گویا وہ تمام چوروں، زانیوں، ماں باپ کے نافرمانوں کو ان کے غلط اعمال کی کھلی چھٹی دے رہا ہے لہٰذا ان تمام جرم کرنے والوں کا جرم بھی ان اعمال کو کفر قرار نہ دینے والوں کے کھاتے جائے گا۔‘‘ تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ زیادتی وظلم ہے۔ خارجیوں کا موقف بھی یہی تھا اسی بناء پر انہوں نے اپنی دانست میں غلطی کا قائم صحابہ کرام (مثلاً سادات عثمان، علی، امیر معاویہ وغیرہم) رضوان اللہ علیہم کو کافر قرار دیا۔

ثالثا: علمائے کرام اپنے فتاویٰ کا اعلان نہیں کرتے پھرتے کہ جا جا کر ہر شخص یا بے نماز کو بتائیں کہ ’’بھئی فکر نہ کرو، تم کافر نہیں، آئندہ بھی نماز نہ پڑھنا۔‘‘ نہیں ایسی بات نہیں، بلکہ جب لوگ سوال کرتے ہیں کہ ’’فلاں شخص بہت گنہگار ہے، نماز میں کوتاہی کرتا ہے وغیرہ اس کے ساتھ کافروں والا معاملہ کیا جائے یا مسلمانوں والا؟‘‘ تو انہیں علمائے کرام رحمہم اللہ کا فتویٰ بتایا جاتا ہے۔

آپ سب سے التماس ہے کہ میرے لئے دُعا کیجیے کہ میری جان اُس دن نکلے جب میرا رب مجھ سے راضی ہو اور میں اپنے رب سے راضی ہوں۔ آمین یارب العالمین۔
آمین یا رب العٰلمین! اللهم اجعل خير أعمارنا أواخرها وخير أعمالنا خواتيمها وخير أيامنا يوم نلقاك
 
Top