• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تابوت یوسف علیہ السلام

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم شیخ @اسحاق سلفی صاحب!
یوسف علیہ السلام کی قبر کو کهود کر وہاں سے جسم مبارک کو لے جانے والی روایت جو کہ تفسیر ابن کثیر میں موجود ہے ،کی صحت و تخریج درکار ہے ۔
جزاک اللہ خیرا
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
تفسیر ابن کثیر کے اس مقام کی نشاندہی کرسکتے ہیں ؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
سورہ غافر کی تفسیر میں ہے شائد
مسند بزار میں بھی
جب موسی علیہ السلام اپنی قوم کو لے کر چلے تو راستہ بھول گئے تھے۔۔تو اپنی قوم سے پوچھا کہ ہم جو راستہ بھول گئے ہیں ہم سے کوئی غلطی تو نہیں ہو رہی۔۔تو ان کی قوم کے بڑے بڑے لوگوں نے کہا کہ ہاں غلطی ہو گئی ہے۔۔۔جب یوسف علیہ السلام فوت ہونے لگے تھے تو انہوں نے بنی اسرائیل سے وعدہ لیا تھا کہ جب تم لوگ اس شہر سے جانا تو میری لاش کو بھی اپنے ساتھ لے کر جانا اور مجھے بھی وہیں دفن کرنا جہاں پر میرے اباؤ اجداد دفن ہیں۔۔۔موسی علیہ السلام نے پوچھا کہ ان کو کہان دفن کیا گیا تھا؟۔۔۔۔لیکن یوسف علیہ السلام کی قبر کا کسی کو پتا نہیں تھا کہ کہاں ہے آخر پتا چلا کہ ان کی قبر کا ایک بوڑھی عورت کو پتا ہے۔۔۔۔پھر اس بوڑھی عورت کو لایا گیا تو اس نے قبر کی نشاندہی کی۔۔۔۔مفہوم۔۔۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
سورہ غافر کی تفسیر میں ہے شائد
مسند بزار میں بھی
جب موسی علیہ السلام اپنی قوم کو لے کر چلے تو راستہ بھول گئے تھے۔۔تو اپنی قوم سے پوچھا کہ ہم جو راستہ بھول گئے ہیں ہم سے کوئی غلطی تو نہیں ہو رہی۔۔تو ان کی قوم کے بڑے بڑے لوگوں نے کہا کہ ہاں غلطی ہو گئی ہے۔۔۔جب یوسف علیہ السلام فوت ہونے لگے تھے تو انہوں نے بنی اسرائیل سے وعدہ لیا تھا کہ جب تم لوگ اس شہر سے جانا تو میری لاش کو بھی اپنے ساتھ لے کر جانا اور مجھے بھی وہیں دفن کرنا جہاں پر میرے اباؤ اجداد دفن ہیں۔۔۔موسی علیہ السلام نے پوچھا کہ ان کو کہان دفن کیا گیا تھا؟۔۔۔۔لیکن یوسف علیہ السلام کی قبر کا کسی کو پتا نہیں تھا کہ کہاں ہے آخر پتا چلا کہ ان کی قبر کا ایک بوڑھی عورت کو پتا ہے۔۔۔۔پھر اس بوڑھی عورت کو لایا گیا تو اس نے قبر کی نشاندہی کی۔۔۔۔مفہوم۔۔۔
تفسیر ابن کثیر میں سورہ الشعراء کی تفسیر میں امام ابن کثیر لکھتے ہیں :
(( وأن موسى، عليه السلام، سأل عن قبر يوسف، عليه السلام، فدلته امرأة عجوز من بني إسرائيل عليه، فاحتمل تابوته معهم، ويقال: إنه هو الذي حمله بنفسه، عليهما السلام، وكان يوسف قد أوصى بذلك إذا خرج بنو إسرائيل أن يحملوه معهم، ))
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے راستے میں دریافت فرمایا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی قبر کہاں ہے؟ بنو اسرائیل کی ایک بڑھیا نے قبر بتلادی ۔ آپ نے تابوت یوسف اپنے ساتھ اٹھالیا ۔ کہا گیا کہ خود آپ نے ہی اسے اٹھایا تھا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی وصیت تھی کہ بنی اسرائیل جب یہاں سے جانے لگیں تو آپ کا تابوت اپنے ہمراہ لیتے جائیں ۔ ‘‘
امام ابن کثیرمزید لکھتے ہیں :
وقد ورد في ذلك حديث رواه ابن أبي حاتم، رحمه الله، فقال:
ابن ابی حاتم کی ایک حدیث میں ہے کہ
حدثنا علي بن الحسين، حدثنا عبد الله بن عمر (3) بن أبان بن صالح، حدثنا ابن فضيل (4) عن عبد الله (5) بن أبي إسحاق، عن ابن أبي بردة، عن أبيه، عن أبي موسى قال: نزل رسول الله صلى الله عليه وسلم بأعرابي فأكرمه، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: تعاهدنا. فأتاه الأعرابي فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ما حاجتك؟ " قال (6) ناقة برحلها وأعنز (7) يحتلبها أهلي، فقال: "أعجزت أن تكون مثل عجوز بني إسرائيل؟ " فقال له أصحابه: وما عجوز بني إسرائيل يا رسول الله؟ قال: "إن موسى لما أراد أن يسير ببني إسرائيل أضل الطريق، فقال لبني إسرائيل: ما هذا؟ فقال له علماء بني إسرائيل: نحن نحدثك أن يوسف عليه السلام لما حضره الموت أخذ علينا موثقا من الله ألا نخرج من مصر حتى ننقل تابوته معنا، فقال لهم موسى: فأيكم يدري أين قبر يوسف؟ قالوا: ما يعلمه إلا عجوز لبني إسرائيل. فأرسل إليها فقال (8) لها: دليني على قبر يوسف. فقالت: والله لا أفعل حتى تعطيني حكمي. قال لها: وما حكمك؟ قالت (9) : حكمي أن أكون معك في الجنة. فكأنه ثقل عليه ذلك، فقيل له: أعطها حكمها. قال: فانطلقت معهم إلى بحيرة -مستنقع ماء -فقالت لهم: أنضبوا هذا الماء. فلما أنضبوه قالت: احتفروا، (10) فلما احتفروا استخرجوا قبر يوسف، فلما احتملوه إذا الطريق مثل ضوء النهار (11) ".
هذا حديث غريب جدا، والأقرب أنه موقوف، والله أعلم.

حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی اعرابی کے ہاں مہمان ہوئے اس نے آپ کی بڑی خاطر تواضع کی واپسی میں آپ نے فرمایا کبھی ہم سے مدینے میں بھی مل لینا کچھ دنوں بعد اعرابی آپ کے پاس آیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کچھ چاہئے؟ اس نے کہاں ہاں ایک تو اونٹنی دیجئے مع ہودج کے اور ایک بکری دیئجے جو دودھ دیتی ہو آپ نے فرمایا افسوس تو نے بنی اسرائیل کی بڑھیا جیسا سوال نہ کیا ۔ صحابہ (رض) نے پوچھا۔ وہ واقعہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا جب حضرت کلیم اللہ بنی اسرائیل کو لے کر چلے تو راستہ بھول گئے ہزار کوشش کی لیکن راہ نہیں ملتی ۔ آپ نے لوگوں کو جمع کرکے پوچھایہ کیا اندھیر ہے؟ تو علمائے بنی اسرائیل نے کہا بات یہ ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے آخری وقت ہم سے عہد لیا تھا کہ جب ہم مصر سے چلیں تو آپ کے تابوت کو بھی یہاں سے اپنے ساتھ لیتے جائیں ۔ حضرت موسیٰ کلیم اللہ نے دریافت فرمایا کہ تم میں سے کون جانتا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کی تربت کہاں ہے؟ سب نے انکار کردیا ہم نہیں جانتے ہم میں سوائے ایک بڑھیا کے اور کوئی بھی آپ کی قبر سے واقف نہیں آپ نے اس بڑھیا کے پاس آدمی بھیج کر اس سے کہلوایا کہ مجھے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی قبر دکھا۔ بڑھیا نے کہا ہاں دکھاؤں گی لیکن پہلے اپنے حق لے لوں ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا تو کیا چاہتی ہے؟ اس نے جواب دیا کہ جنت میں آپ کا ساتھ مجھے میسر ہو ۔ آپ پر اس کا یہ سوال بھاری پڑا اسی وقت وحی آئی کہ اس کی بات مان لو اور اسکی شرط منظور کرلو اب وہ آپ کو ایک جھیل کے پاس لے گئی جس کے پانی کا رنگ بھی متغیر ہوگیا تھا کہا کہ اس کا پانی نکال ڈالو جب پانی نکال ڈالا اور زمین نظر آنے لگی تو کہا اب یہاں کھودو ۔ کھودنا شروع ہوا تو قبر ظاہر ہوگئی اسے ساتھ رکھ لیا اب جو چلنے لگے تو راستہ صاف نظر آنے لگا اور سیدھی راہ لگ گئے۔
(امام ابن کثیر فرماتے ہیں ): هذا حديث غريب جدا، والأقرب أنه موقوف، والله أعلم ‘‘لیکن یہ حدیث بہت ہی غریب ہے بلکہ زیادہ قریب تو یہ ہے کہ یہ موقوف ہے یعنی یہ صحابی کا قول ہے ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نہیں ۔ واللہ اعلم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تفسیر ابن کثیر کی تحقیق میں شیخ سامي بن محمد سلامہ لکھتے ہیں :
(11) ورواه أبو يعلى في مسنده (13/236) وابن حبان في صحيحه برقم (2435) "موارد"، والحاكم في المستدرك (2/571) من طريق محمد بن فضيل، عن يونس بن أبي إسحاق، عن أبي بردة عن أبي موسى به. وقال الهيثمي في المجمع (10/170) : "رجال أبي يعلى رجال الصحيح"
یعنی مذکورہ محدثین نے اس روایت کو نقل کیا ہے ، اور اس کے راوی صحیح کے راوی ہیں ،( یعنی ثقہ ہیں )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور علامہ ناصر الدین البانی ؒ ’’ سلسلہ الصحیحہ ‘‘ میں اس حدیث کو نقل کرکے فرماتے ہیں :
" صحيح على شرط الشيخين، وقد حكم أحمد وابن معين أن يونس سمع من أبي بردة
حديث (لا نكاح إلا بولي) " ووافقه الذهبي.
وأقول: إنما هو على شرط مسلم وحده، فإن يونس لم يخرج له البخاري في

یعنی یہ حدیث امام مسلم کی شرط پر صحیح ہے ‘‘
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
اگر مزید تخریج مطلوب ہو تو بندہ حاضر ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
جزاکم خیرا واحسن الجزاء یا شیخ!
اللہ تعالی آپ کے علم وعمل میں برکت دےـ آپ کی حفاظت کرے اور دونوں جہانوں کی مشکلات سے نجات دے۔۔آمین!
دراصل ایک صاحب علم نے اس روایت کو ذکر کرتے ہوئے لفظ تابوت کا ذکر نہیں کیا بلکہ صرف جسم اور لاش کے الفالظ استعمال کیے جس کی وجہ سے کچھ احباب کو اس بات نے تفتیش میں مبتلا کر دیا تھا۔
بارک اللہ فیک!
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
اللہ تعالی آپ کے علم وعمل میں برکت دےـ آپ کی حفاظت کرے اور دونوں جہانوں کی مشکلات سے نجات دے۔۔آمین!
آمین یا رب العالمین
وجزاکم اللہ احسن الجزاء
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
جزاکم خیرا واحسن الجزاء یا شیخ!
اللہ تعالی آپ کے علم وعمل میں برکت دےـ آپ کی حفاظت کرے اور دونوں جہانوں کی مشکلات سے نجات دے۔۔آمین!
آپ نے اتنی پیاری اور قیمتی دعاء دی ہے ،اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے ؛
اس حدیث کا متن مسند ابو یعلیٰ سے پیش خدمت ہے :

7254 - حَدَّثَنَا أَبُو هِشَامٍ الرِّفَاعِيُّ مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ يُونُسَ بْنِ عَمْرِو بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: أَتَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْرَابِيًّا فَأَكْرَمَهُ، فَقَالَ لَهُ: «ائْتِنَا» , فَأَتَاهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «سَلْ حَاجَتَكَ»، فَقَالَ: نَاقَةً نَرْكَبُهَا، وَأَعْنُزًا يَحْلُبُهَا أَهْلِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «عَجَزْتُمْ أَنْ تَكُونُوا مِثْلَ عَجُوزِ بَنِي إِسْرَائِيلَ؟»، قَالَ: " إِنَّ مُوسَى لَمَّا سَارَ بِبَنِي إِسْرَائِيلَ مِنْ مِصْرَ ضَلُّوا الطَّرِيقَ، فَقَالَ: مَا هَذَا؟ فَقَالَ عُلَمَاؤُهُمْ: إِنَّ يُوسُفَ لَمَّا حَضَرَهُ الْمَوْتُ أَخَذَ عَلَيْنَا مَوْثِقًا مِنَ اللَّهِ أَنْ لَا نَخْرُجَ مِنْ مِصْرَ حَتَّى نَنْقُلَ عِظَامَهُ مَعَنَا، قَالَ: فَمَنْ يَعْلَمُ مَوْضِعَ قَبْرِهِ، قَالَ: عَجُوزٌ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَبَعَثَ إِلَيْهَا فَأَتَتْهُ، فَقَالَ: دُلِّينِي عَلَى قَبْرِ يُوسُفَ، قَالَتْ: حَتَّى تُعْطِيَنِي حُكْمِي، قَالَ: مَا حُكْمُكِ؟ قَالَتْ: أَكُونُ مَعَكَ فِي الْجَنَّةِ، فَكَرِهَ أَنْ يُعْطِيَهَا ذَلِكَ، فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ: أَنْ أَعْطِهَا حُكْمَهَا، فَانْطَلَقَتْ بِهِمْ إِلَى بُحَيْرَةٍ: مَوْضِعِ مُسْتَنْقَعِ مَاءٍ، فَقَالَتْ: أَنْضِبُوا هَذَا الْمَاءَ، فَأَنْضَبُوا، قَالَتِ: احْتَفِرُوا وَاسْتَخْرِجُوا عِظَامَ يُوسُفَ، فَلَمَّا أَقَلُّوهَا إِلَى الْأَرْضِ إِذَا الطَّرِيقُ مِثْلُ ضَوْءِ النَّهَارِ "
قال الشیخ حسین سلیم اسد : إسناده حسن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور صحیح ابن حبان میں ہے ۔

أَخْبَرَنَا أَبُو يَعْلَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الرِّفَاعِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: أَتَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْرَابِيًّا فَأَكْرَمَهُ، فقَالَ لَهُ: «ائْتِنَا»، فَأَتَاهُ، فقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «سَلْ حَاجَتَكَ»، قَالَ: نَاقَةٌ نَرْكَبُهَا، وَأَعْنُزٌ يَحْلِبُهَا أَهْلِي، فقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَعَجَزْتُمْ أَنْ تَكُونُوا مِثْلَ عَجُوزِ بَنِي إِسْرَائِيلَ»؟ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا عَجُوزُ بَنِي إِسْرَائِيلَ، قَالَ: «إِنَّ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ لَمَّا سَارَ بِبَنِي إِسْرَائِيلَ مِنْ مِصْرَ، ضَلُّوا الطَّرِيقَ، فقَالَ: مَا هَذَا؟، فقَالَ عُلَمَاؤُهُمْ: إِنَّ يُوسُفَ عَلَيْهِ السَّلَامُ، لَمَّا حَضَرَهُ الْمَوْتُ أَخَذَ عَلَيْنَا مَوْثِقًا مِنَ اللَّهِ أَنْ لَا نَخْرُجَ مِنْ مِصْرَ حَتَّى نَنْقُلَ عِظَامَهُ مَعَنَا، قَالَ: فَمَنْ يَعْلَمُ مَوْضِعَ قَبْرِهِ؟، قَالَ: [ص:501] عَجُوزٌ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَبَعَثَ إِلَيْهَا فَأَتَتْهُ، فقَالَ: دُلِّينِي عَلَى قَبْرِ يُوسُفَ، قَالَتْ: حَتَّى تُعْطِيَنِي حُكْمِي، قَالَ: وَمَا حُكْمُكِ؟، قَالَتْ: أَكُونُ مَعَكَ فِي الْجَنَّةِ، فَكَرِهَ أَنْ يُعْطِيَهَا ذَلِكَ، فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ: أَنْ أَعْطِهَا حُكْمَهَا، فَانْطَلَقَتْ بِهِمْ إِلَى بُحَيْرَةٍ مَوْضِعِ مُسْتَنْقَعِ مَاءٍ، فَقَالَتْ: أَنْضِبُوا هَذَا الْمَاءَ، فَأَنْضَبُوهُ، فَقَالَتْ: احْتَفِرُوا، فَاحْتَفَرُوا، فَاسْتَخْرَجُوا عِظَامَ يُوسُفَ، فَلَمَّا أَقَلُّوهَا إِلَى الْأَرْضِ، وَإِذَا الطَّرِيقُ مِثْلُ ضَوْءِ النَّهَارِ»
 
Top