• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تاریخ اہل حدیث ك‏ے چند نقوش

شمولیت
مئی 14، 2018
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
46
تاریخِ اہل حدیث کے چند نقوش
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

✍عبيد الله الباقي
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جماعت اہل حدیث کوئی نیا مسلک یا نیا فرقہ نہیں ہے، بلکہ ان کا وہی منہج ہے جو مَسندِ رسالت سے نکلا تھا، اور دنیا کے چہار جانب پھیل گیا، مسلک اہل حدیث اسی منہجِ سلیم پر قائم ہے؛ جو منہج سلف و صالحین کا تھا، یہ جماعت اصولِ قرآن وسنت پر قائم ہے، نصوص شرعیہ کو میزانِ " فہم سلف " پر رکھ کر عمل پیرا ہونا ان کی اصل پہچان ہے۔
لفظ " حدیث " کا اطلاق قرآن و سنت دونوں پر ہوتا ہے، اور یہ { فليأتوا بحديث مثله}[سورة الطور:34] اور{ أفمن هذا الحديث تعجبون}[سورة النجم:59] اور { فبأي حديث بعده يؤمنون}[سورة المرسلات:50] جیسی آیات کریمہ سے واضح ہے۔

اور نبی کریم - صلی اللہ علیہ وسلم- کی زبانِ مبارک سے نکلی ہوئی ہر بات در اصل اللہ کی طرف سے ہوا کرتی تھی { وما ينطق عن الهوى إن هو إلا وحي يوحى}[سورة النجم:3] اور مزید اس کی وضاحت اس آیت کریمہ{ هو الذي بعث في الأميين رسولا منهم يتلو عليهم آياته ويزكيهم ويعلمهم الكتاب والحكمة وإن كانوا من قبل لفي ضلال مبين}[ سورة الجمعة:2] سے بھی ہوتی ہے۔
لہذا جس طرح قرآن کریم کے احکامات ایک مسلمان پر فرض ہیں، ویسے ہی احادیث نبویہ( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ، فعل، اور تقریر) کی اتباع کرنا ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے، اگرکوئی انہیں قابل عمل نہیں سمجھتا تو وہ مسلمان نہیں، امام شوکانی - رحمہ اللہ - فرماتے ہیں:" سنت مطہرہ یا حدیث نبوی کا تشریعِ احکام ہونا دین کا ضروری مسئلہ ہے، اس کا انکار وہی شخص کر سکتا ہے جس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں"([1])
اسی لئے صحابہ کرام - رضي الله عنهم- خود کو اہل حدیث کہا کرتے تھے، اور یہ حضرت ابو هریرہ، اور ابن عباس - رضی اللہ عنہما- سے صراحت کے ساتھ ثابت ہے([2]).
امام شعبی - رحمہ اللہ - نے تقریبا پانچ سو سے زائد صحابہ کرام سے ملاقات کی، اور سب کو لفظ " اہل حدیث " سے یاد کیا ہے([3]).
امام شافعی - رحمہ اللہ - نے کہا کہ :" مجھے عام لوگ بھی ملتے تھے، اور اصحاب حدیث بھی، جن میں سے بعض یہ ہیں: امام احمد بن حنبل، سفیان بن عیینہ، اور اوزاعی "([4]).
اور یہی نہیں بلکہ کتب حنفیہ میں بھی اہلہدیثوں کا بکثرت ذکر آیا ہے، جیساکہ " شامی " میں لکھا ہے کہ:" قاضی ابو بکر جوزجانی کےعہد میں ایک حنفی نے ایک اہل حدیث سے اس کی بیٹی کا رشتہ مانگا، تو اس اہل حدیث نے انکار کار دیا، مگر اس صورت میں کہ وہ حنفی مذہب چھوڑ دے، اور امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھے، اور رکوع جاتے وقت رفع الیدین کرے"([5]).

واضح رہے کہ "اہل حدیث" سے مراد صرف وہ لوگ نہیں ہیں جو احادیث کی سماعت، یا کتابت، یا روایت پر اکتفا کرتے ہیں، بلکہ ان سے مراد وہ تمام لوگ ہیں جو احادیث کو یاد کرکے، اور ان کی معرفت و فہم حاصل کر کے ان پر ظاہری و باطنی طور پر عمل پیرا ہو جائیں۔۔۔۔۔۔"([6])
بر صغیر ہند کے خوبصورت و فطری مناظر، سرسبز و شاداب وادیاں، اور مختلف زبان و تہذیب سے پُر ہے، جو متعدد اقوام، اور مختلف جماعتوں کا بسیرا ہے، صدیوں سے اس ملکِ عظیم کو مرکزِ علوم و فنون کی حیثیت حاصل ہے۔
اور جب پہلی صدی ہجری ہی میں اسلام کی روشنی یہاں تک پہونچی تو اس کی خوبیوں میں چارچاند لگ گیا، قرون مفضلہ کی ایک بڑی تعداد نے اسلام کا صاف و شفاف پیغام یہاں تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا، تاریخ کی ورق گردانی سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام- رضی اللہ عنہم- تابعین، اور تبع تابعین - رحمہم اللہ - کی ایک بڑی تعداد کا سرزمین ہند میں ورود مسعود ہوا، جن میں (25) صحابہ کرام، اور (41) تابعین عظام کی آمد کتب تاریخ میں ثبت ہے([7]

یہ علماء اہل حدیث تھے، جن کے یہاں جمود و تقلید کا کوئی تصور نہ تھا، " قال اللہ اور قال الرسول" ہی ان کے لئے سب کچھ تھا، اس مبارک جماعت نے صحیح عقیدہ اور خالص اسلامی تعلیمات کی نشر و اشاعت کی، اسی منہج پر تقریبا چوتھی صدی ہجری تک یہاں کے اکثر لوگ گامزن رہے، جیسا کہ علامہ *بشاری مقدسی* نے سن 375 ہجری میں اپنے سفر علاقہ سندھ کے بارے میں لکھا ہے:" یہاں کے مسلمانوں میں اکثر اہل حدیث ہیں "([8]).
کسی بھی مذہب و فکر کی نشا و نما کے لئے دو چیزیں اہم کردار ادا کرتی ہیں:
1- موجودہ حکومت ۔
2- أمراء وحكماء سے علماء کی قربت ۔
برصغیر ہند کی اسلامی تاریخ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا " پانچویں صدی ہجری سے بارہویں صدی ہجری تک طویل عرصہ مسلم سلاطین کا شاندار دور حکومت ہے، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس وقت کے علماء و مشائخ نے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر منطق، فلسفہ، ہئیت، ریاضی، علم کلام، عقل ، علم نجوم، تصوف، و طریقت اور فقہ حنفی کی تشریح و تحشی میں اپنے علم و فضل کے جوہر دکھائے ہیں، جس کے نتیجہ میں اسلام کا سنگ بنیاد" *علم توحید* " عقلی علوم و فنون اور دماغی اوہام و شکوک کی وادیوں میں گم ہوگیا"([9]).

ہندوستانی مسلمانوں نے تو ایک لمبے عرصے تک سرزمین ہند پر راج کیا، لیکن زندگی کے اصل مقصد سے کافی دور ہوگئے، کفر وشرک نے سر چڑھ کر بولا، لوگوں کی اکثریت نے ایک اللہ کو چھوڑ قبروں اور مزاروں کی طرف رخ کر لیا، اپنے مردے اولیا و صالحین کو حاجت روا سمجھ بیٹھے، مصیبتوں اور آفتوں کے وقت ان ہی کو پکارنے لگے، ان کے لئے نذر و نیاز ماننا، ذبائح پیش کرنا وغیرہ امور شرکیہ عروج پر پہونچ چکے تھے، اور افسوس اس بات پر ہے کا آج بھی بر صغیر ہند و پاک کا ایک بڑا طبقہ اس لپیٹ سے نکل نہ سکا۔اللہ ہم سب کو صحیح سمجھ عطا کرے-
ایسے میں علماء اہل حدیث کی ذمہ داری تھی، اور اب بھی ہے کہ لوگوں کے سامنے صحیح منہج پیش کیا جائے، ان کے شبہات کی تردید کی جائے، قرآن و سنت کی روشنی میں مدلل جواب دئے جائیں، اور یہ ذمہ داری ہمارے اسلاف نے خوب ادا کی ہے۔ اللہ ان کے جہود کو قبول فرمائے-
جس کے لئے انہیں مخالفین کی طرف سے کافی تکالیف، اذیتوں اور صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا، مخالفین نے مسلک " اہل حدیث " کے صاف و شفاف چہرے کو کالا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی، مگر علماء اہل حدیث نے اپنے مسلک کے دامن کو کبھی داغ دار نہیں ہونے دیا، جماعت اہل حدیث کی طرف سے ہر میدان میں نمامندگی ہوئی، کچھ ایسے جانباز اور مرد آہن نکلے کہ مخالفین کے منہ پر قفل سکوت جَڑ دیا، چنانچہ عقیدہ توحید میں پڑی ہوئی تصوف و قبوریت کی دبیز چادروں کو علماء دہلی، علماء صادقپور، سمیت علامہ نواب صدیق حسن خان - رحمہم اللہ - جیسے اکابر مسلک" اہل حدیث " نے تار تار کر دیا، اور لاکھوں ہندوستانی مسلمانوں کو ضلالت و گمراہی سے نکالنے میں اہم کردار ادا کیا.
دروس ِاحادیث کی ترویج میں "علماء دہلی" کا سب سے اہم کردار رہا، اورجب شروح احادیث میں صوفیت اور اشعریت کوگھسیڑ نےکی سعی مذموم کی گئی تو علماء مبارکپورکھڑے ہوئے، منہج سلف پرمفصل شروحات لکھی،جنہیں پورے عالم اسلام میں بڑی قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھا گیا.
میدانِ مناظرہ میں علامہ ثناءاللہ امرتسری- رحمہ اللہ - نے ہر بار مخالفین کو پچھاڑا، جبکہ اصحاب تعطیل و تشبیہ کو خاندان غزنوی نے منہ توڑ جواب دیا۔
فقہ و اجتہاد کے میدان میں مونالا محمد جوناگڑھی اور نواب صاحب کا کارنامہ کیا ہی خوب ہے۔
جب قادیانیت کی لہر اٹھی تو " تحریک ختم نبوت" کے نام پر ڈاکٹر بہاء الدين - حفظہ اللہ - نے ایسا کارنامہ انجام دیا کہ قادیانیت کے سارے پول کھل گئے، اور چند محدود دائرے میں اس کی زہر آلود لہر سمٹ کر رہ گئی۔
نحو، بلاغہ، فلسفہ، منطق وغیرہ علوم میں علماء اہل حدیث کی ایک بڑی تعداد نے عبور حاصل کر کے مخالفین کو چت کیا۔
غرضکہ کہ ہر میدان میں جماعت اہل حدیث کی بھر پور نمامندگی ہوئی، اور لوگوں تک صحیح پیغام پہنچانے کی ہر ممکن کوششیں کی گئیں۔ الحمد لله على ذلك –
آٹھویں صدی ہجری میں شام اور مصر سے شیخ الإسلام ابن تيمية- رحمہ اللہ- کے چند شاگردوں نے سرزمین ہند پر قدم رکھا، جن میں سرفہرست علامہ عبد العزیز الأردبيلي، شيخ عليم الدين الملتاني، اور علامہ شمس الدین ابن الحريري - رحمہم اللہ - ہیں۔
انہوں نے شاہ تغلق پر بڑا اثر چھوڑا، جس کی وجہ سے بڑی حد تک تقالید، اور بدعات و خرفات پر بندش لگائی گئی([10]

نویں صدی ہجری کے اواخر میں جب شاہ اکبر " دین الہی" کی طرف مائل ہوئے، تو اس وقت بھی مسلک اہل حدیث کے چند علماء نے زبردست مخالفت کی، دعوت توحید لے کر کھڑے ہوئے، اور شرک وبدعت کی تردید کی، جن میں علامہ احمد سرہندی، اور ابو الفیض الفیضی پیش پیش رہے۔
یہ الگ بات ہے کہ ان دونوں بزرگوں کے یہاں بھی کہیں کہیں تصوف کی جھلک نظر آتی ہے۔ اللہ ان کے زلل کو در گزر فرمائے-

دسویں صدی ہجری سے لےکر بارہویں صدی ہجری تک مسلک " *اہل حدیث* " کے اکابر نے بڑی جد وجہد کی، یہاں تک شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے عقیدہ توحید کا جھنڈا لہرا یا، اور عقائد قبوریہ کو تفنید کرنا شروع کیا، کثرت تلامذہ،اور اپنے مخصلانہ جہود کے ذریعے پیغام اہل حدیث، اور دعوت توحید کو دور دور تک پہونچا دیا - اللہ ان کی تمام خدمات کو قبول فرمائے-
پھر اس کے بعد مسلک " *اہل حدیث* " کو ایک نئی جہت ملی، جذبہ ملا، افراد تیار ہوے، جماعت کو منطم کیا گیا، اور پھر کیا تھا، بر صغیر ہند و پاک کے ہر کونے تک علماء اہل حدیث نے " *دعوت توحید* "کو پھیلا دیا، اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے، اور تا قیامت جاری رہے گا - إن شاء الله-


مصادر و مراجع

1- بر صغیر ہند میں اہل حدیث کی آمد، مولانا اسحاق بھٹی۔
2- بر صغیر میں اسلام کے اولین نقش، مولانا اسحاق بھٹی۔
3- تحریک جماعت اسلامی اور مسلک اہل حدیث، مولانا داؤد راز۔
4- تاریخ اہل حدیث، مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی۔
5- تاریخ اہل حدیث، ڈاکٹر بہاء الدین۔
6- تذكرة الحفاظ، حافظ ابن حجر.
7- الإصابة، حافظ ابن حجر.
8- تاريخ بغداد، خطيب بغدادي.
9- دعوة شيخ الإسلام ابن تيمية وأثرها على الحركات الإسلامية المعاصرة وموقف الخصوم منها، صلاح الدين مقبول.
10- زهر البساتين من مواقف العلماء و الربانيين، دكتور سيد حسين اغاني.
11 - اسلامی علوم میں ہندوستانی مسلمانوں کا حصہ، ناشر:إدراة البحوث الإسلامية، جامعہ سلفیہ،بنارس۔


[1] - إرشاد الفحول، ص: 29
[2] - الإصابة:4/204، تذكرة الحفاظ، 1/29، تاريخ بغداد،ص: 227
[3] - تذكرة الحفاظ:1/72
[4] - رحلة الشافعي،ص:14
[5] - الشامي : 3/293-294، مزيد تفصیل کے لئے رجوع کریں تحریک جماعت اسلامی اور مسلک اہل حدیث،ص: 24- 35.
[6] - مجموع الفتاوی لشيخ الإسلام ابن تيمية:4/95
[7] - تفصیل کے لئے رجوع کریں بر صغیر میں اہل حدیث کی آمد، اسحاق بھٹی،ص: 67- 112
[8] - تفصيل کے لئے رجوع کریں تاریخ سندھ،ص: 124، ودعوة شيخ الإسلام ابن تيمية وأثرها على الحركات الإسلامية المعاصرة وموقف الخصوم منها، ص:164
[9] - اسلامی علوم میں ہندوستانی مسلمانوں کا حصہ،ص: 144
[10] - زهر البساتين من مواقف العلماء و الربانيين،:2/ 62
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
ما شاء اللہ ۔۔۔۔ بہت اچھا
اور فورم پر خوش آمدید
 
Top