• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تاریخ بغداد کی ایک سند پرسوال۔

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
آپ کے ذریعہ صحیح قراردی گئی ایک سند سے متعلق فارق صاحب نے اپنی معلومات کے لئے ایک سوال پوچھا ہے ، اس کاجواب دے دیں۔
سوال یہ ہے:
اگر میری دخل در معقولات کو محسوس نہ کیا جائے تو میں اپنی معلومات کے لیے ایک سوال پوچھ رہا ہوں کہ اوپر ایک روایت نقل کی گئی ہے
خطیب بغدادی رحمہ اللہ (المتوفى:643) نے کہا:
أخبرنا ابن رزق، أَخْبَرَنَا أَحْمَد بْن جعفر بْن سلم، حَدَّثَنَا أحمد بن علي الأبار، حدّثنا محمّد بن يحيى النّيسابوريّ- بنيسابور- حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرِ عَبْدُ اللَّه بْنُ عَمْرِو بن أبي الحجّاج ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ قَالَ: كُنْتُ بِمَكَّةَ- وَبِهَا أَبُو حَنِيفَةَ- فَأَتَيْتُهُ وَعِنْدَهُ نَفَرٌ، فَسَأَلَهُ رَجُلٌ عَنْ مَسْأَلَةٍ، فَأَجَابَ فِيهَا، فَقَالَ لَهُ الرَّجُلُ: فَمَا رِوَايَةٌ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ؟ قَالَ: ذَاكَ قَوْلُ شَيْطَانٍ. قَالَ: فَسَبَّحْتُ، فَقَالَ لِي رَجُلٌ: أَتَعْجَبُ؟ فَقَدْ جَاءَهُ رَجُلٌ قَبْلَ هَذَا فَسَأَلَهُ عَنْ مَسْأَلَةٍ فَأَجَابَهُ. قال: فَمَا رِوَايَةٌ رُوِيَتْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُومُ» ؟ فَقَالَ: هَذَا سَجْعٌ. فَقُلْتُ فِي نَفْسِي: هَذَا مَجْلِسٌ لا أَعُودُ فِيهِ أَبَدًا. [تاريخ بغداد:13/ 388 ، السنة لعبد الله بن أحمد 1/ 226 واسنادہ صحیح]۔
مزید یہ کہ اس روایت کو أَحْمَد بْن جعفر بْن سلم، بیان کرتے ہیں أحمد بن علي الأبار سے، اب احمد بن جعفر کی وفات ہے ۳۶۵ ھ کی اور احمد بن علی کی وفات بیان کی جاتی ہے ۲۸۱ تا ۲۹۰ ھ کی(یہ سنہ ان دونوں کے نام پر کلک کرنے پر سامنے آئے ہیں۔) اب مسئلہ یہ ہے کہ خطیب بغدادی ہی احمد بن جعفر کی پیدائش ۲۷۸ ھ بیان کرتے ہیں(۵۔۱۱۴) گویا جس وقت احمد بن علی کی وفات ہوئی اس وقت احمد بن جعفر کی عمر یا تین سال تھی (اگر ۲۸۱ ھ سنہ ماننا جائے) یا زیادہ سے زیادہ بارہ سال تھی۔
اب کیا تین سالہ بچے کی روایت پر امام ابوحنفیہ سے یہ شیطانی کلمات نقل کرنا جائز ہے؟ اور اگر احمد بن جعفر کی عمر بارہ سال مان لی جائے تو اولا تو یہ معاملہ ہی مشکوک ہے کہ ان کی وفات بارہ سال کی عمر میں ہوئی یا تین سال کی یا اس سے کچھ زیادہ مثلا چار ، پانچ چھ سال یا سات آٹھ نو سال یا دس گیارہ یا بارہ سال، و ثانی کیا ایک بارہ سالہ بچے کی سماعت احمد بن علی سے ثابت ہے اور یہ عمر شرعا اتنی ہوتی ہے کہ اس کی بنا پر ایسے شیطانی کلمات اپنے وقت کے ایک امام سے یوں منسوب کر دیئے جائیں؟؟؟؟
سوال کا ربط پوسٹ نمبر 42
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
اقتباس میں ملون مقامات پرغورکریں:
اس روایت کو أَحْمَد بْن جعفر بْن سلم، بیان کرتے ہیں أحمد بن علي الأبار سے، اب احمد بن جعفر کی وفات ہے ۳۶۵ ھ کی اور احمد بن علی کی وفات بیان کی جاتی ہے ۲۸۱ تا ۲۹۰ ھ کی(یہ سنہ ان دونوں کے نام پر کلک کرنے پر سامنے آئے ہیں۔) اب مسئلہ یہ ہے کہ خطیب بغدادی ہی احمد بن جعفر کی پیدائش ۲۷۸ ھ بیان کرتے ہیں۔۱۱۴) گویا جس وقت احمد بن علی کی وفات ہوئی اس وقت احمد بن جعفر کی عمر یا تین سال تھی (اگر ۲۸۱ ھ سنہ ماننا جائے) یا زیادہ سے زیادہ بارہ سال تھی۔
اب کیا تین سالہ بچے کی روایت پر امام ابوحنفیہ سے یہ شیطانی کلمات نقل کرنا جائز ہے؟ اور اگر احمد بن جعفر کی عمر بارہ سال مان لی جائے تو اولا تو یہ معاملہ ہی مشکوک ہے کہ ان کی وفات بارہ سال کی عمر میں ہوئی یا تین سال کی یا اس سے کچھ زیادہ مثلا چار ، پانچ چھ سال یا سات آٹھ نو سال یا دس گیارہ یا بارہ سال، و ثانی کیا ایک بارہ سالہ بچے کی سماعت احمد بن علی سے ثابت ہے اور یہ عمر شرعا اتنی ہوتی ہے کہ اس کی بنا پر ایسے شیطانی کلمات اپنے وقت کے ایک امام سے یوں منسوب کر دیئے جائیں؟؟؟؟
غورکریں کہ سائل نے أحمد بن جعفر بن محمد بن سَلْم کی تاریخ پیدائش تاریخ بغداد ج ٥ص ١١٤ سے نقل کی ہے ۔
جبکہ أَحْمَد بن عَليّ بن مُسْلِم. أبو العَبَّاس الأبار کی تاریخ وفات کے لئے میرے دئے گئے لنک کاحوالہ دیا ہے۔

حالانکہ اگرسائل نے أَحْمَد بن عَليّ بن مُسْلِم. أبو العَبَّاس الأبار کی تاریخ وفات بھی کتب رجال میں دیکھ لی ہوتی تو یوں شکوک وشہبات کا اظہار کبھی نہ کرتے:
اب کیا تین سالہ بچے کی روایت پر امام ابوحنفیہ سے یہ شیطانی کلمات نقل کرنا جائز ہے؟ اور اگر احمد بن جعفر کی عمر بارہ سال مان لی جائے تو اولا تو یہ معاملہ ہی مشکوک ہے کہ ان کی وفات بارہ سال کی عمر میں ہوئی یا تین سال کی یا اس سے کچھ زیادہ مثلا چار ، پانچ چھ سال یا سات آٹھ نو سال یا دس گیارہ یا بارہ سال
سائل کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ أَحْمَد بن عَليّ بن مُسْلِم. أبو العَبَّاس الأبار کی تاریخ وفات کے بارے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے بلکہ ان کی تاریخ وفات متفقہ طور پر ٢٩٠ ہجری ہے۔

امام خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
أَخْبَرَنَا مُحَمَّد بْن أَحْمَدَ بْن رزق، قَالَ: أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْن عَلِيّ، قَالَ: مات أَبُو الْعَبَّاس، وَأَخْبَرَنَا مُحَمَّد بْن عُمَر بْن درهم الخرقي، قَالَ: قَالَ لنا أَبُو بَكْر أَحْمَد بْن جعفر بْن سلم: توفي أَبُو الْعَبَّاس أَحْمَد بْن عَلِيّ الأبار يوم الأربعاء النصف من شعبان سنة تسعين ومائتين.لفظهما سواء.[تاريخ بغداد للخطيب البغدادي: 5/ 501 والاسنادان صحیحان]۔
یہی تاریخ وفات دیگر محدثین نے بھی نقل کی ہے اس بارے میں کسی بھی طرح کے اختلاف کا کوئی نام ونشان نہیں ہے۔

اصل غلط فہمی:
دراصل میرے دئے گئے لنک پر ہے :
أَحْمَد بن عَليّ بن مُسْلِم. أبو العَبَّاس الأبار الحَافِظ. [الوفاة: 281 - 290 ه]

یہاں پر [الوفاة: 281 - 290 ه] سے سائل نے یہ سمجھ لیا کہ اس راوی کی تاریخ وفات ٢٨١ سے لیکر ٢٩٠ کے بیچ میں کسی سال ہوئی ہے اور بالضبط ان کی تاریخ وفات نامعلوم ہے۔

یہی اصل غلط فہمی ہے دراصل مذکورہ ٹکڑے میں عین تاریخ وفات نہیں بلکہ طبقہ کا بیان ہے ، یعنی انتیسویں طبقہ کا ہے۔
چنانچہ امام ذہبی کی کتاب تاریخ الاسلام میں ہے:
الطبقة التاسعة والعشرون: أحداث سنة إحدى وثمانين ومائتين [تاريخ الإسلام ط التوفيقية 21/ 3]۔

یہی کتاب شاملہ میں تراجم کی فہرست میں ہے اوراس شاملہ کے نسخہ میں ہرہرراوی کے آگے اس کے طبقہ کا اشارہ بھی مذکورہ طریقہ پرکردیاگیاہے۔
مثلا انتیسویں طبقہ ہی کو لیجئے اس کا مطلب ٢٨١ سے لیکر ٢٩٠ کے دور کے رواۃ۔
اس دور کے جو بھی راوی ہیں قطع نظر اس کے کہ ان کی اصل تاریخ وفات کیا ان میں سے ہرایک کے نام کے آگے شاملہ والے نسخہ [الوفاة: 281 - 290 ه] لکھاہواہے۔
چنانچہ شاملہ کے اس نسخہ میں کل چھ سو چودہ (٦١٤) راوی ہیں جن میں سے ہر ایک کے ناموں کے آگے [الوفاة: 281 - 290 ه] لکھاہواہے۔
اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ نصف ہزار سے زائد راویوں کی تاریخ وفات کے بارے میں ایک ہی بات کہی گئی ہے۔
بلکہ مذکورہ طریقہ کے ذریعہ راویوں کے طبقات بتلائے گئے ہیں نہ کہ ان کی تاریخ وفات۔
فن رجال سے دلچسپی رکھنے والے حضرات شاملہ کی اس اصطلاح سے بخوبی واقف ہیں۔

میں نے مذکورہ لنک پر شاملہ کے اسی نسخہ سے مذکورہ راوی کا نام کاپی پیسٹ کیا تھا اور نام کے ساتھ طبقہ کی صراحت بھی تھی۔

لیکن ہمیں نہیں معلوم تھا کہ لوگ اسے طبقاتی اشاریہ کے بجائے اصل تاریخ وفات کا اختلاف سمجھ لیں گے، اسی لئے اب ہم آئندہ جب بھی مذکورہ لنک والے دھاگہ پر کسی راوی کا نام درج کریں گے تو اصل تاریخ وفات ہی درج کریں گے اورطبقاتی اشاریہ کو علیحدہ صراحت کے ساتھ ذکر کریں گے اوردیگر مقامات پر بھی ترمیم کردیں گے ، ان شاء اللہ۔

اس تفصیل سے معلوم ہواکہ أَحْمَد بن عَليّ بن مُسْلِم. أبو العَبَّاس الأبار الحَافِظ. کی تاریخ وفات : ٢٩٠ ہجری ہے۔ اور اس کے علاوہ کچھ بھی منقول نہیں ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
سماع کاثبوت

رہا سائل کا یہ کہنا:
کیا ایک بارہ سالہ بچے کی سماعت احمد بن علی سے ثابت ہے
یہ بہت ہی عجیب غریب بات ہے کیونکہ أحمد بن جعفر بن محمد بن سَلْم، أبو بكر الخُتُّليّ، نے متعدد سندوں میں أَحْمَد بن عَليّ بن مُسْلِم. أبو العَبَّاس الأبار الحَافِظ سے سماع کی باقائدہ صراحت کی ہے، اورزیرنظر روایت میں بھی حدثنا کی صراحت موجودہے۔
نیز :
خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
أَحْمَد بْن جعفر بْن مُحَمَّد بْن سلم بْن راشد أَبُو بَكْر الْخُتُلِّيّ أخو مُحَمَّد وعمر وهو الأصغر سمع أَبَا مُسْلِم الكجي، وَعَبْد اللَّهِ بْن أَحْمَدَ بْن حنبل، ويعقوب بْن يوسف المطوعي، ومحمد بْن يوسف بْن التركي، وإدريس بْن عَبْد الكريم الْمُقْرِئ، ومحمد بْن الْفَضْل الوصيفي، ومحمد بْن مُوسَى البربري، وأحمد بْن علي الأبار۔۔۔۔۔۔۔۔[تاريخ بغداد للخطيب البغدادي: 5/ 113]۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
أحمد بن جعفر بن محمد بن سلم، أبو بكر الختلي ،أخو محمد وعمر، وهو الأصغر. ، سمع: أبا مسلم الكجي، وعبد الله بن أحمد، وإدريس بن عبد الكريم المقرئ، وأحمد بن علي الأبار. [تاريخ الإسلام ت بشار 8/ 236]۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
وقت سماع


ایک روایت سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہےکہ أحمد بن جعفر نے اپنے استاذ أحمد بن علي الأبار سے ابوحنیفہ سے متعلق روایات کب سنی ہیں ، چنانچہ:
خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
أَخْبَرَنِي مُحَمَّد بن أَحْمَد بن رزق، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْر أَحْمَد بن جَعْفَر بن مُحَمَّد بن سلم الخُتُّليّ، قَالَ: أملى علينا أَبُو العَبَّاس أَحْمَد بن عَليّ بن مُسْلِم الأبَّار في شهر جُمَادَى الآخرة من سنة ثمان وثمانين ومائتين، قَالَ: ذكر القوم الَّذِين ردوا عَلَى أَبِي حنيفة: أَيوب السختياني، وجرير بن حازم، وهمام بن يَحْيَى، وَحَمَّاد بن سلمة، وَحَمَّاد بن زيد، وَأَبُو عَوَانَة، وَعَبْد الوارث، وسوار العَنْبَريّ الْقَاضِي، ويزيد بن زريع، وعَليَّ بن عاصم، ومالك بن أنس، وَجَعْفَر بن مُحَمَّد، وَعُمَر بن قيس، وَأَبُو عَبْد الرَّحْمَن المُقْرِئ، وَسَعِيد بن عَبْد العزيز، والأوزاعي، وَعَبْد الله بن المبارك، وَأَبُو إِسْحَاق الفزاري، وَيُوسُف بن أسباط، وَمُحَمَّد بن جَابِر، وسفيان الثوري، وسفيان بن عُيَيْنَةَ، وَحَمَّاد بن أَبِي سُلَيْمَان، وابن أَبِي ليلى، وحفص بن غياث، وَأَبُو بَكْر بن عَيَّاش، وشريك بن عَبْد الله، ووكيع بن الجراح، ورقبة بن مصقلة، والفضل بن موسى، وعيسى بن يُونُس، والحجاج بن أرطاة، ومالك بن مغول، والقاسم بن حبيب، وابن شبرمة.[تاريخ بغداد للخطيب البغدادي: 15/ 505]

اس روایت سے معلوم ہوا کہ أحمد بن جعفر نے اپنے استاذ أحمد بن علي الأبار سے ابوحنیفہ سے متعلق روایات کو جمادی الاخری سن ٢٨٨ ھجری میں سناہے،اوران کی پیدائیش ٢٧٨ ہجری ہے اس لحاظ سے سماع کے وقت ان کی عمر ساڑھے نو سال کی تھی ۔
اوراس سال میں بچہ سن تمییز کو پہنچ جاتا ہے لہٰذا ابوحنیفہ سے متعلق أحمد بن جعفر کی مرویات بے داغ ہیں۔


رہا سائل کا یہ کہنا
یہ عمر شرعا اتنی ہوتی ہے کہ اس کی بنا پر ایسے شیطانی کلمات اپنے وقت کے ایک امام سے یوں منسوب کر دیئے جائیں؟؟؟؟
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم کیا:
بَاب مَتَى يَصِحُّ سَمَاعُ الصَّغِيرِ
حدثني محمد بن يوسف، قال: حدثنا أبو مسهر، قال: حدثني محمد بن حرب، حدثني الزبيدي، عن الزهري، عن محمود بن الربيع، قال: «عقلت من النبي صلى الله عليه وسلم مجة مجها في وجهي وأنا ابن خمس سنين من دلو»[صحيح البخاري: 1/ 26]۔
اس روایت میں محمودبن ربیع رضی اللہ عنہ نے پانچ سال عمر میں ایک واقعہ بیان کیا اوریہ بھی کہا کہ میں اس وقت پانچ سال کا تھا ۔
اس روایت کو پوری امت نے قبول کیا اس سے ثابت ہوا کہ پانچ سال کی عمر میں بھی ضبط کی صلاحیت ہوجاتی ہے۔
بلکہ اس سے کم عمر کا بچہ بھی ضبط کی صلاحیت پا سکتا ہے کیونکہ مذکورہ حدیث میں اس بات کی دلیل تو ہے کہ پانچ سال کی عمر میں بچہ کے اندر ضبط کی صلاحیت ہوتی ہے لیکن اس بات کی دلیل نہیں کہ پانچ سال سے کم کا بچہ ضبط نہیں کرسکتاہے۔

اورامام بخاری رحمہ اللہ نے باب صغیر کا باندھا ہے پانچ سال کے بچے کا نہیں ۔
اس سے معلوم ہو اکہ امام بخاری رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف ہے کہ بچہ جب بھی ضبط کی صلاحیت والا ہوجائے اس کی روایت قابل قبول ہوگی ۔

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
وَمَقْصُودُ الْبَابِ الِاسْتِدْلَالُ عَلَى أَنَّ الْبُلُوغَ لَيْسَ شَرْطًا فِي التَّحَمُّلِ[فتح الباري لابن حجر: 1/ 171]۔

امام احمد رحمہ اللہ نے بھی یہی بات پوری صراحت کے ساتھ کہی ہے ، چانچہ:
امام عبد الله بن أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى:290)نے کہا:
سَأَلت ابي مَتى يجوز سَماع الصَّبِي فِي الحَدِيث قَالَ اذا عقل وَضبط قلت فَإِنَّهُ بَلغنِي عَن رجل سميته لَهُ انه قَالَ لَا يجوز سَمَاعه حَتَّى يكون لَهُ خمس عشرَة سنه لَان النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم رد الْبَراء وَابْن عمر استصغرهم يَوْم بدر فَأنْكر قَوْله هَذَا وَقَالَ لَا بئس القَوْل هَذَا يجوز سَمَاعه اذا عقل وَكَيف يصنع بسفيان بن عيينه ووكيع وَذكر ايضا قوم [مسائل الإمام أحمد رواية ابنه عبد الله ص: 449]۔

الغرض یہ کہ اعتبار سن تمییز کا ہوگا یہی موقف راجح ہے ۔
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
وَمِن المهمِّ أَيضاً معرِفةُ سِنِّ التَّحَمُّلِ والأداءِ ، والأصحُّ اعتبارُ سنِّ التَّحمُّلِ بالتَّمييزِ[نزهة النظر في توضيح نخبة الفكر في مصطلح أهل الأثر ص: 50]۔

اورجن لوگوں نے عمر کی بات کہی ہے ان میں بھی جمہور نے پانچ سال ہی کی شرط لگائی ہے، چنانچہ:

امام بن الصلاح ( 643 هـ) رحمہ اللہ نے کہا:
التحديدُ بخمس ٍهو الذي استقر عليه عملُ أهل ِ الحديث المتأخرين، فيكتبون لابنِ خمس ٍ فصاعدًا: سمع، ولمن لم يبلغ خَمْسًا: حضَر، أو: أُحضِر[مقدمة ابن الصلاح: ص: 315 ]۔


یاد رہے أحمد بن جعفر بن محمد بن سَلْم، أبو بكر الخُتُّليّ، عن أَحْمَد بن عَليّ بن مُسْلِم. أبو العَبَّاس الأبار الحَافِظ کے طریق سے متعدد احادیث مروی ہیں اورکسی بھی محدث نے اس طریق پر سن وعمر کا اعتراض نہیں کیا ہے ۔

نیز اس طریق سے منقول ہونے والی روایت دوسرے طریق سے بعینہ انہیں الفاظ سے مروی ہیں ،چنانچہ:
امام أبو نعيم رحمه الله (المتوفى430)نے کہا:
حدثنا أبو بكر أحمد بن جعفر بن سالم الختلي ثنا أحمد بن علي الأبار ثنا عبيد الله بن معاذ ثنا أبي ثنا شعبة ح وثنا محمد بن حميد ثنا عبدان بن أحمد ثنا عبيد الله بن معاذ ثنا أبي ثنا شعبة ح وثنا أبو محمد بن حيان ثنا محمد بن يحيى ثنا محمد بن المثنى وعمرو بن علي قالا ثنا يحيى القطان عن شعبة عن عبد الرحمن بن القاسم عن أبيه عن صالح بن خوات عن سهل بن أبي خيثمة عن النبي ( صلى الله عليه وسلم ) أنه صلى بأصحابه صلاة الخوف فجعلهم صفين خلفه فصلى بالذين يلونه ركعة ثم قام فلم يزل قائما حتى صلى الذين خلفه ركعة ثم سلم رواه مسلم عن عبيد الله بن معاذ عن أبيه لفظهم سواء[المسند المستخرج على صحيح الإمام مسلم 2/ 432]۔

اس سے معلوم ہوا کہ أحمد بن جعفر عن أحمد بن علي الأبار کا طریق بے داغ ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
أحمد بن جعفر اپنے استاذ أحمد بن علي الأبار سے ابوحنیفہ سے متعلق مروایت کو لکھ کرروایت کیا ہے



أحمد بن جعفر اپنے استاذ أحمد بن علي الأبار سے ابوحنیفہ سے متعلق جو مرویات سنی ہیں اسے لکھ لیا تھا ، چنانچہ:
خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
أَخْبَرَنِي مُحَمَّد بن أَحْمَد بن رزق، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْر أَحْمَد بن جَعْفَر بن مُحَمَّد بن سلم الخُتُّليّ، قَالَ: أملى علينا أَبُو العَبَّاس أَحْمَد بن عَليّ بن مُسْلِم الأبَّار في شهر جُمَادَى الآخرة من سنة ثمان وثمانين ومائتين، قَالَ: ذكر القوم الَّذِين ردوا عَلَى أَبِي حنيفة: أَيوب السختياني، وجرير بن حازم، وهمام بن يَحْيَى، وَحَمَّاد بن سلمة، وَحَمَّاد بن زيد، وَأَبُو عَوَانَة، وَعَبْد الوارث، وسوار العَنْبَريّ الْقَاضِي، ويزيد بن زريع، وعَليَّ بن عاصم، ومالك بن أنس، وَجَعْفَر بن مُحَمَّد، وَعُمَر بن قيس، وَأَبُو عَبْد الرَّحْمَن المُقْرِئ، وَسَعِيد بن عَبْد العزيز، والأوزاعي، وَعَبْد الله بن المبارك، وَأَبُو إِسْحَاق الفزاري، وَيُوسُف بن أسباط، وَمُحَمَّد بن جَابِر، وسفيان الثوري، وسفيان بن عُيَيْنَةَ، وَحَمَّاد بن أَبِي سُلَيْمَان، وابن أَبِي ليلى، وحفص بن غياث، وَأَبُو بَكْر بن عَيَّاش، وشريك بن عَبْد الله، ووكيع بن الجراح، ورقبة بن مصقلة، والفضل بن موسى، وعيسى بن يُونُس، والحجاج بن أرطاة، ومالك بن مغول، والقاسم بن حبيب، وابن شبرمة.[تاريخ بغداد للخطيب البغدادي: 15/ 505]

اس روایت سے معلوم ہوا کہ أحمد بن جعفر اپنے استاذ أحمد بن علي الأبار سے ابوحنیفہ سے متعلق جو مرویات سنی تھیں انہیں لکھا لیا تھا لہٰذا جو روایت قید کتابت میں آگئی اس میں غلطی کا سوال ہی نہیں۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
زیربحث روایت کے صحیح ہونے پر ایک زبردست خارجی ثبوت

سائل نے یہ شک ظاہر کیا ہے کہ أحمد بن جعفر اپنے استاذ أحمد بن علي الأبار سے روایت لیتے وقت چھوٹے تھے ۔
عرض ہے کہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ کے پاس أحمد بن علي الأبار کی لکھی ہوئی کتاب ہی موجود تھی اورخطیب بغدادی انہیں مرویات کو روایت کرتےتھے جو ان کی کتاب میں درج ہوتی تھی ایسی صورت میں أحمد بن علي الأبار سے نیچے کیسی ہی کمزور سند کیوں نہ ہو خطیب بغدادی رحمہ اللہ کی نقل کردہ روایت پر کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ان کے پاس اوپرکے مصنف کی اصل کتاب ہی موجود تھی ۔

اس کو مثال سے یوں سمجھیں کہ آج کسی کے پاس صحیح بخاری اصل کتاب موجود ہے اس کے ساتھ اس نے اپنی سند سے بھی صحیح بخاری کی روایات کسی کتاب میں درج کی ہیں۔
اب اگر اس کی اپنی سند میں کوئی کمزوری ہو تو صحیح بخاری کی روایت پر کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہ متن تو بہرحال محفوظ ہے۔
اسی چیز کو علامہ معلمی رحمہ اللہ سمجھاتے ہوئے فرماتے ہیں:
وإذا كان المتن محفوظاً بسند صحيح لم يزده سوقه مع ذلك بسند فيه مقال إلا تأكيدا على أن المقال في ابن دوما لا يضر ههنا، فإن كان الخطيب إنما يروي بذاك السند ما يأخذه من مصنف الأبار والعمدة في ذلك على أن تكون النسخة موثوقاً بها كما لو روى أحدنا بسند له من طريق البخاري مطعون فيه، وقد شرحت هذا في (الطليعة) وغيرها، والأبار هو الحافظ أحمد بن علي بن مسلم تقدمت ترجمته، والخطيب معروف بشدة التثبيت بل قد يبلغ به الأمر إلى التعنت فلم يكن ليروي عن مصنف الأبار إلا عن نسخة موثوق بها بعد معرفته صحة سماع ابن دوما[التنكيل بما في تأنيب الكوثري من الأباطيل 1/ 440]۔

ایک اورمقام پر فرماتے ہیں:
والخطيب يروي بهذا السند من مصنفات الآبار، وكذلك يروي عن الحسن بن الحسين ابن دوما عن ابن سلم عن الآبار فكل ما أسنده عن هذين عن ابن سلم عن الآبار فهو ثابت عن الآبار حتماً لا شأن لهؤلاء الثلاثة ابن رزق وابن دوما وابن سلم فيه، فإن كانت تبعه فعلى الأبار وستأتي ترجمته.[التنكيل بما في تأنيب الكوثري من الأباطيل 1/ 299]

ایک اورمقام پر فرماتے ہیں:
ما رواه الخطيب عن ابن رزق في ترجمة أبي حنيفة إنما هو من كتاب مصنف للآبار وجل الاعتماد في مثل هذا على صحة النسخة كما تقد في ترجمة الحسن بن الحسين.[التنكيل بما في تأنيب الكوثري من الأباطيل 2/ 617]


خلاصہ :
پیش کردہ روایت بالکل صحیح وثابت ہے اس کی سند بے داغ ہے، والحمدللہ علی نعمة الاسناد۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
الحمداللہ! ہمارا یقین بالکل صحیح ثابت ہوا کہ فارق صاحب نے یہاں مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے۔ انا اللہ وانا الیہ راجعون!
روزقیامت ایسا رویہ باعث نجات وفخر ہوگا یا باعث رسوائی اور ناکامی؟؟؟؟؟
 
Top