• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تاریخ حدیث

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
کتاب کا نام
تاریخ حدیث

مصنف
ڈاکٹر مرتضیٰ مطھری
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم​
محترم اساتذہ کرام! برادران و ہمشیرگان! السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
آج کی تقریر کا موضوع تاریخ حدیث ہے۔ قرآن مجید کے بعد حدیث کا ذکر ناگزیر ہے، اس لیے کہ یہی دو چیزیں ہیں جو اسلام کا محور ہیں۔ شاید یہ نامناسب نہ ہوگا اگر میں شروع ہی میں تاریخ کے اس پہلو پر نظر ڈالوں کہ حدیث کی اہمیت کیا ہے اور یہ کہ حدیث اور قرآن کا ایک دوسرے کے ساتھ کس قسم کا تعلق ہے؟ ظاہر ہے کہ قرآن مجید میں اور کچھ نہیں تو دس پندرہ جگہ صراحت کے ساتھ مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بات مانو مثلاً
"ماآتاکم الرسول فخذوہ ومانھکم عنہ فانتھوا" (جو تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دے دیں اسے لے لو اور جس سے وہ تمہیں منع کریں اس سے رک جاؤ۔ 7:59)
اس سے بھی زیادہ زوردار صراحت کے ساتھ ایک اور آیت ہے:
"من یطع الرسول فقد اطاع اللہ" (جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت کرتا ہے وہ گویا خدا کی اطاعت کرتا ہے۔ 80:4)
تو یہ آیت نیز اس طرح کی دوسری آیتیں ہمیں بتاتی ہیں کہ قرآنی تصور میں حدیث کوئی کم درجے کی چیز نہیں بلکہ ایک لحاظ سے اس کا درجہ قرآن کے برابر ہی ہے۔ فرض کیجئے کہ ایک سفیر کسی بادشاہ کی طرف سے دوسرے بادشاہ کے پاس ایک خط لے کر جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ خط میں زیادہ تفصیلیں نہیں ہوں گی لیکن جس مسئلے کے لیے سفیر بھیجا جاتا ہے اس مسئلے پر جب گفتگو ہوگی تو سفیر کا بیان کیا ہوا ہر ہر لفظ بھیجنے والے بادشاہ ہی کا پیغام سمجھا جائے گا۔ اس مثال کے بیان کرنے سے میرا منشاء یہ ہے کہ حقیقت میں حدیث اور قرآن ایک ہی چیز ہیں دونوں کا درجہ بالکل مساوی ہے۔ ایک مثال سے میرا مفہوم آپ پر زیادہ واضح ہوگا۔ فرض کیجئے کہ آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم زندہ ہوں اور ہم میں سے کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کرنے کا اعلان کرے اور اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے مخاطب ہو کر یہ جاہل شخص اگر کہے کہ یہ تو قرآن ہے خدا کا کلام، میں اسے مانتا ہوں مگر یہ آپ کا کلام ہے اور حدیث ہے یہ میرے لیے واجب التعمیل نہیں ہے، تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ فوراً ہی اس شخص کو امت سے خارج قرار دے دیا جائے گا اور غالباً اگر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں پر موجود ہوں تو اپنی تلوار کھینچ کر کہیں گے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اجازت دیجئے کہ میں اس کافر و مرتد کا سر قلم کر دوں۔ غرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی موجودگی میں یہ کہنا کہ یہ آپ کی نجی بات ہے اور مجھ پر واجب العمل نہیں ہے گویا ایک ایسا جملہ ہے جو اسلام سے منحرف ہونے کا مترادف سمجھا جائے گا۔ اس لحاظ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جو بھی ہمیں حکم دیں اس کی حیثیت بالکل وہی ہے جو اللہ کے حکم کی ہے۔ فرق دونوں میں جو کچھ ہے وہ اس وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ قرآن مجید کی تدوین اور قرآن مجید کا تحفظ ایک طرح سے عمل میں آیا ہے اور حدیث کی تدوین اور حدیث کا تحفظ دوسری طرح سے۔ اس لیے تحقیق اور ثبوت کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی موجودگی میں تو ثبوت کا کوئی سوال نہیں تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مبارک سے جو بھی ارشاد ہوا وہ یقینی طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا حکم تھا۔ لیکن بعد کے زمانے میں یہ بات نہیں رہتی۔ میں ایک حدیث سن کر آپ سے بیان کرتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تو بالکل سچے ہیں لیکن میں جھوٹا ہو سکتا ہوں۔ مجھ میں انسانی کمزوری کی وجہ سے خامیاں ہوں گی۔ ممکن ہے میرا حافظہ مجھے دھوکہ دے رہا ہو۔ ممکن ہے مجھے غلط فہمی ہوئ ہو۔ ممکن ہے میں نے غلط سنا ہو۔ کسی وجہ سے مثلاً دھیان کم ہو جانے کی وجہ سے یا کوئی چیز حرکت میں تھی اس کے شور کی وجہ سے میں نے کوئی لفظ نہیں سنا تو خلط مبحث پیدا ہو گیا۔ غرض مختلف وجوہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد حدیث یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے احکام کا دوسروں تک ابلاغ اتنا یقینی نہیں رہتا جتنا قرآن کا یقینی ہے۔ قرآن مجید کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی نگرانی میں مدون کرایا اور اس کے تحفظ کے لیے وہ تدبیریں اختیار کیں جو اس سے پہلے کسی پیغمبر نے نہیں کی تھیں یا کم از کم تاریخ میں ہمیں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ مگر حدیث کے متعلق یہ صورت پیش نہیں آئ اور اس کی وجہ ممکن ہے رسول للہ صلی اللہ علیہ و سلم کے خصائل مبارکہ کا یہ پہلو بھی ہو کہ آپ میں تواضع بہت تھی۔ اپنے آپ کو محض انسان سمجھتے تھے۔ (انما انا بشر مثلکم)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
یہ خیال آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر زیادہ غالب رہتا تھا، بہ نسبت اس خیال کے کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ شاید یہ تصور رہا یا کوئی اور، بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حدیث کی تدوین پر وہ توجہ نہ فرمائ جو قرآن مجید کے متعلق رہی۔ اس کی وجہ ایک اور بھی ہے جو بہت اہم ہے اور وہ یہ کہ قرآن کریم میں
(وما ینطق عن الھوی۔ ان ھوا الاوحی یوحی 4,3:53)
کے ذریعے سے یہ واضح کیا گیا کہ جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تم سے بیان کرتے ہیں وہ اپنی خواہش سے نہیں کرتے بلکہ وہ اللہ کی وحی کردہ چیز ہوتی ہے۔ اس طرح ہمیں یقین دلایا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جو بھی بیان کرتے ہیں وہ خدا کی وحی پر مبنی ہوتا ہے۔ جب وحی آتی آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس میں غلطی نہیں کرتے اسے من و عن پہنچاتے ہیں لیکن اگر وحی نہ آئے تو انتظار کرتے ہیں۔ کیونکہ وحی پیغمبر کے اختیار میں نہیں۔ جب خدا چاہتا ہے وحی کرتا ہے اور جب نہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے سوائے انتظار کے کوئی چارہ نہیں ہوتا اور وہ اپنی طرف سے کچھ کہہ کر من گھڑت طور سے اپنی بات کو وحی قرار نہیں دے سکتے۔ ہمیں حدیث میں ایسی کافی مثالیں ملتی ہیں جن سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بعض دنیوی معاملات میں آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مشورہ بھی فرماتے تھے۔
مثال کے طور پر ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کچھ احکام دیے۔ صحابہ نے کہا کہ کیا یہ وحی پر مشتمل ہیں۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب دیا کہ اگو وحی پر مشتمل ہوتے تو میں تم سے مشورہ نہ کرتا۔ ایک دوسری حدیث بہت دلچسپ ہے جو کھجور کے درختوں کے متعلق ہے۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب مدینہ تشریف لائے اور وہاں دیکھا کہ نر درختوں کے پھول مادہ پھول کے اندر ڈالے جاتے ہیں گویا اس عمل کی وجہ سے کھجور پیدا ہوتی ہے۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طبیعت میں جو حیا تھی اس کی بناء پر آپ کو یہ عمل پسند نہیں آیا اور کہا کہ نر اور مادہ کا تعلق پیدا کرنا درختوں میں مناسب نہیں ہے، بہتر ہے کہ تم یہ نہ کرو۔ لوگوں نے جب اس حکم پر عمل کیا تو کھجور کی پیداوار اس سال بہت خراب گئ۔ سب لوگ آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہم نے اس سال بیج ڈالنے (Pollination) کا عمل نہیں کیا جس کی وجہ سے کھجور کی پیدا وار نہیں ہوئی اس پر (ترمذی شریف وغیرہ کی حدیثوں کے مطابق)
آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا جواب یہ تھا
"انتم اعلم بامورر ادنیا کم" (تم اپنے دنیاوی یمعاملات کو میرے مقابلے میں بہتر جانتے ہو)
اس مثال سے یہ ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب کوئی چیز وحی کے تحت بیان کریں تو اس کی حیثیت قرآن کے مطابق ہوگی۔ لیکن کوئی بات اپنی طرف سے بیان کریں تو وہ ایک ذہین، ایک فہیم انسان کا بیان ہوگا لیکن خدائی وحی نہیں ہوگی، انسانی چیز ہوگی اور انسانی چیز میں خامیاں ہو سکتی ہیں۔ چنانچہ حدیثوں میں اس کا ذکر آتا ہے کہ کبھی کبھی حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے بجائے چار رکعت کے تین ہی رکعت کے بعد سلام پھیر لیا، یا یہ کہ بجائے دو کے تین رکعتیں پڑھ لیں، سہو ہو گیا تو یہ انسانی بھول چوک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بھی ممکن ہے اور ایسا مصلحت الٰہی کے تحت واقع ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو خدا نے اسوہ حسنہ قرار دیا ہے۔ کوئی رسول اسوہ حسنہ اور کامل نمونہ اس وقت ہو سکتا ہے جب وہ انسانی دائرے میں رہے۔ یعنی وہ ایسا ہی کام کرے جسے اور انسان بھی کر سکتے ہیں۔ اس کے بر خلاف اگر رسول "فوق البشر" بن جائے تو ہمارے لیے اسوہ حسنہ نہیں رہے گا۔ اس لیے ایسی مثالیں پیش آتی ہیں کہ فجر کی نماز کا وقت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سو رہے ہیں، بیدار نہیں ہوتے جب سورج طلوع ہوتا ہے تو سورج کی کرنوں کی گرمی اور جلن سے بیدار ہوتے ہیں یا جیسا کہ میں نے بیان کیا، کبھی نماز پڑھنے میں رکعتوں کی تعداد میں سہو فرماتے ہیں، یا اسی طرح کی چیزیں پیش آتی ہیں جن کا حکمت الٰہی کے تحت منشاء اور غرض و غایت یہ ہوتی ہے کہ ہمیں یقین دلایا جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی انسان ہی ہیں۔ وہ جو کام کرتے رہے اس کے متعلق کبھی یہ خیال نہ کرنا چاہیے کہ ہم نہیں کر سکتے بلکہ ہم بھی چاہیں تو کر سکتے ہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں یاد رہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ہمیشہ طرز عمل یہ رہا کہ ایسے کام نہ کریں جو امت کی طاقت سے بالاتر اور ان کی استطاعت سے باہر ہوں۔ مثال کے طور پر "وصال" نامی روزے کا میں آپ سے ذکر کروں گا۔ "وصال" کے معنی یہ ہیں کہ چوبیس گھنٹے کی جگہ اڑتالیس گھنٹے کا روزہ رکھا جائے۔ اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم شدت سے منع فرماتے تھے اور کہتے تھے کہ چوبیس گھنٹے کا بھی روزہ نہ رکھو بلکہ سحری کرو، اور اس پر بہت زور دیتے تھے۔ ایک مرتبہ صحابہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ تو ہمیں حکم دیتے ہیں یوں کرو مگر خود آپ کا طرز عمل اس کے برخلاف ہے۔ ہم بھی ویسا ہی کرنا چاہتے ہیں، تو حدیث میں ایک دلچسپ ذکر آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہا اچھا کوشش کر کے دیکھو۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے چوبیس گھنٹے روزہ رکھا، افطار نہیں کیا اسے اور بڑھایا اور اڑتالیس گھنٹے گزرے، اب لوگوں کو شدید پریشانی ہوئ۔ حسن اتفاق سے شوال کا چاند 29 تاریخ کو نظر نہ آتا تو رسول صلی اللہ علیہ و سلم شاید 72 گھنٹے کا روزہ رکھتے پھر ان لوگوں کو پتہ چلتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تقلید کرنے کی جو تم خواہش رکھتے ہو وہ تمہارے لیے مناسب نہیں ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
امت کے لیے مصلحت یہی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم پر عمل کریں، یہ نہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی تقلید میں وہ کام کرنا چاہیں جو ان کے بس کی چیز نہیں۔ ممکن ہے کوئی ایک شخص ایسا کر سکے لیکن عوام الناس ضعیف اور کمزور لوگ ہوتے ہیں وہ ایسا نہیں کر سکتے۔ غرض حدیث کی اہمیت قرآن کی اہمیت سے کسی طرح کم نہیں۔ اگر ان دونوں میں فرق ہے تو اس قدر کہ حدیث کا ثبوت ہمیں اس طرح کا نہیں ملتا جس طرح قرآن کے متعلق ملتا ہے کہ متواتر چودہ سو سال سے اس کے ایک ایک لفظ، ایک ایک نقطے اور ایک ایک شوشے کے متعلق ہمیں کامل یقین ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے کا جو قرآن تھا وہی اب بھی باقی ہے۔ حدیث کے متعلق ایسا نہیں ہوا۔
اس تمہید کے بعد میں آپ سے یہ عرض کروں گا کہ قرآن کی مماثل چیزیں اور قوموں میں بھی ملتی ہیں، مثلاً یہودیوں کے ہاں توریت اللہ کی نازل کردہ کتاب ہے یا مثلاً اور قوموں کی طرف خدا کی بھیجی ہوئ کتابیں ہیں، تو قرآن کے مماثل الہامی کتابوں کی مثالیں ہمیں ملتی ہیں، لیکن حدیث کی مماثل چیزیں دیگر قوموں میں مجھے نظر نہیں آتیں۔ بدھ مت میں ایسی چیز موجود ہے مگر اس کی اہمیت وہ نہیں ہے جو ہمارے ہاں حدیث کی ہے۔ بدھ مت کی اساسی اور بنیادی کتاب اسی قسم کی ہے جیسے ہمارے ہاں ملفوظات کے نام سے مشہور مجموعے ہیں جن میں کسی ولی، کسی بزرگ یا کسی مرشد کے اقوال کو ان کے مریدوں میں سے کسی نے قلم بند کیا ہے۔ گوتم بدھ کے ملفوظات بھی صرف ایک شخص کے جمع کردہ ہیں لیکن حدیث کے مماثل کوئی ایسی چیز نہیں ملتی کہ بہت سے اہل ایمان اپنے مشاہدات اور اپنے محسوسات کو جمع کر کے بعد والوں تک پہنچانے کی کوشش کریں، جیسا کہ حدیث کے مجموعوں میں کوشش کی گئ ہے۔ یہ بات دوسروں کے ہاں مفقود ہے۔ گویا حدیث ایک ایسا علم ہے اور حدیث کے مندرجات ایسی چیزیں ہیں جن کے مماثل کوئی اور چیز دوسرے مذاہب میں ہمیں نظر نہیں آتی ان حالات میں تقابلی مطالعے کا امکان باقی نہیں رہتا لہٰذا براہ راست رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث کی تاریخ ہی پر اکتفا کرنا پڑے گا۔
حدیث کے سلسلے میں اولاً چند اصطلاحوں کا بیان کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ایک لفظ حدیث ہے اور ایک لفظ سنت، اب یہ دونوں تقریباً مترادف الفاظ سمجھے جاتے ہیں۔ حدیث سے مراد وہی ہے جو سنت کا مفہوم ہے۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیان کردہ چیزیں، رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے عمل کردہ امور جن کا تذکرہ کسی مشاہدہ کرنے والے کی طرف سے ہوکہ میں نے دیکھا کہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ کہا یا یوں کیا اور تیسرے وہ امور جنہیں ہمارے مؤلفین "تقریر" کی اصطلاح سے تعبیر کرتے ہیں۔ یعنی وہ امور جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے برقرار رکھا اور اس سے مراد یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے کسی صحابی کو کوئی کام کرتے ہوئے دیکھا اور اسے منع نہ کیا یا خاموش رہے، تو گویا اپنی خاموشی سے آپ نے اس عمل کو برقرار رکھا۔ یعنی آپ کے سکوت سے بھی اسلامی قانون بن جاتا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فریضہ ہے کہ وہ کسی برائ کو دیکھیں تو "نہی عن المنکر" کریں یعنی اپنے صحابی کے کسی ایسے فعل کو جو اسلام کے مطابق نہیں ہے آپ معاف تو کر دیں گے کہ اس صحابی نے غفلت سے یا ناواقفیت سے کیا ہے لیکن اسے روکیں گے ضرور کہ آئندہ ایسا نہ کرے۔ مختصر یہ کہ حدیث سے متعلق تین چیزیں پائ جاتی ہیں، ایک رسول اللہ کا قول، دوسرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا عمل، تیسرا رسول اللہ کا کسی دوسرے کے قول و فعل کو برقرار رکھنا یعنی اصطلاحی طور پر رسول اللہ کی "تقریر" پہلی دو اصطلاحوں یعنی حدیث اور سنت میں اب تو کوئی فرق نہیں لیکن ابتدا میں فرق تھا۔ حدیث کے معنی بولنا یعنی قول اور سنت کے معنی ہیں طرز عمل۔ اب گویا قول اور فعل دونوں ایک ہی طرح کی چیزیں ہو گئی ہیں کیونکہ بارہا صحابہ کی نقل کردہ روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا قول بھی ہوتا ہے اور رسول اللہ کا عمل بھی مگر اس کے لیے حدیث کو حدیث اور سنت میں تقسیم کر کے ان کو الگ الگ کر کے جمع کرنا ناممکن بات تھی۔ اس لیے کثرت استعمال سے حدیث سے مراد قول بھی ہے اور عمل بھی۔ اسی طرح سنت سے مراد قول بھی ہے اور عمل بھی۔ اب عملاً ان میں کوئی فرق باقی نہیں ہے، جہاں تک میرے علم میں ہے۔
حدیث اور قرآن کے مابین ایک تیسری چیز بھی آتی ہے اس سے بھی واقفیت ہوجانی چاہیے۔ اگر چہ اس میں اور حدیث میں کوئی بڑا فرق نہیں ہے، لیکن ایک حد تک فرق ضرور ہے وہ چیز ہے حدیث قدسی۔ حدیث قدسی کے معنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیان کردہ وہ حدیث جس کے شروع میں یہ الفاظ آتے ہیں "اللہ کہتا ہے کہ ۔۔۔ فلاں فلاں"
یوں ہم کہہ سکتے ہیں۔ حدیث ساری ہی اللہ کے الہام پر مبنی ہے کیونکہ یہ
(وما ینطق عن الھوی ان ھوالا وحی یوحی 4,3:53) کی آیت کے مطابق ہے۔ لیکن اگر حدیث میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم صراحت فرمائیں کہ "اللہ کہتا ہے کہ فلاں چیز تو اس کو ہمارے مؤلف ایک مستقل درجے میں رکھتے ہیں اور اسے "حدیث قدسی" کا نام دیتے ہیں البتہ اس کی روایت اس کا ایک دور سے دوسرے دور تک منتقل ہونا بالکل اسی طرح ہوا جس طرح عام حدیثوں کا ہے۔ ہم ان میں کوئی فرق نہیں پاتے ہیں۔ ایسی حدیث کی ابتدا عموماً اس طرح ہوتی ہے کہ "اللہ" ضمیر متکلم کے ذریعے سے ایک امر ذکر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں ایسا کروں گا تو خدا خود کلام کرتا ہے اور اس کو رسول اللہ ہم تک پہنچاتے ہیں۔ اس موضوع پر قدیم زمانے ہی سے متعدد مؤلفوں نے کتابیں لکھی ہیں جو ہم تک پہنچی ہیں۔ بعض چھپ بھی گئی ہیں اور بعض ممکن ہے ابھی تک قلمی حالت میں موجود ہوں۔ اس موقع پر آپ کی دلچسپی کے لیے ایک واقعہ سناتا ہوں۔ پیرس میں ایک نومسلم لڑکی آج کل اس موضوع پر اپنے ڈاکٹریٹ کا مقالہ تیار کر رہی ہے اس لڑکی کا نام عائشہ ہے یہ بہت ذہین لڑکی ہے۔ دو سال ہوئے اس نے عربی شروع کی اور اب اس درجہ کی اسے عربی آ گئی ہے کہ ریاض الصالحین نامی سات آٹھ سو صفحوں کی ضخیم کتاب کا ترجمہ عربی سے اس نے فرنچ میں کر ڈالا ہے اور اب ایک مقالہ لکھ رہی ہے اس موضوع پر کہ "حدیث قدسی کیا ہے" اور ایسی حدیثوں کے اندر کیا کیا چیزیں ملتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس میں ہر چیز حدیث قدسی کے موضوع کی تشریح کے ساتھ ساتھ آئے گی۔ حدیث قدسی کے دو چار رسالے جو دستیاب ہیں ان میں سے بھی بعض کا وہ ترجمہ کر رہی ہے تاکہ مقالہ میں شامل کر سکے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
حدیث کی دو بڑی قسمیں
حدیث کی دو بڑی قسمیں بیان کی جا سکتی ہیں ایک سرکاری مراسلے اور دوسرے صحابہ کرام کا اپنے طور پر مراسلے یا سرکاری تحریریں۔ ہجرت سے پہلے ہی ہمیں چند چیزوں کا پتہ چلتا ہے مثلاً آپ واقف ہیں کہ تقریباً سنہ 5 نبوت میں ہجرت سے سات آٹھ سال پہلے مکے میں جب مشرکین مکہ نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کیا تو کچھ لوگ رسول اللہ کے حکم اور اجازت سے حبشہ کو ہجرت کر گئے، اس سلسلے میں ایک دستاویز ہمیں ملتی ہے۔ ممکن ہے آپ میں سے بعض اس سے واقف بھی ہوں کہ اس کا ذکر سیرت کی کتابوں میں آتا ہے یہ ایک خط ہے جو رسول اللہ نے اپنے چچا زاد بھائ جعفر طیار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیا کہ یہ خط نجاشی کو جو حبشہ کا حکمران تھا پہنچا دیں۔ اس کے آخر میں الفاظ یہ ہیں:
"میں اپنے چچا زاد بھائی جعفر کو تیرے پاس بھیج رہا ہوں اس کے ساتھ کچھ اور بھی مسلمان ہیں جب یہ تیرے پاس پہنچیں تو ان کی مہمان نوازی کرنا۔"
ظاہر ہے کہ خط پر تاریخ نہ ہونے کے باوجود یہ خط ہجرت حبشہ کے زمانے ہی کا ہو سکتا ہے۔ اسی طرح ہمیں اس زمانے کی ایک اور چیز ملتی ہے جو کافی دلچسپ کہی جا سکتی ہے۔ بعض لوگوں کو اس پر حیرت بھی ہوتی ہے۔
یہ تمیم داری کا واقعہ ہے۔ تمیم داری شام کے رہنے والے ایک عیسائی تھے۔ وہ مکہ آتے ہیں، اسلام قبول کرتے ہیں اور پھر اپنے قصے بھی بیان کرتے ہیں۔ وہ ایک جہاز ران تھے بہت سے بحری سفر کر چکے تھے۔ جن کا تفصیل کے ساتھ "صحیح مسلم" میں ذکر آیا ہے۔ تمیم داری نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ کہا کہ مجھے یقین ہے کہ آپ کی فوج بہت جلد میرے وطن یعنی شام کو فتح کرے گی جب یہ ہو تو مجھے فلاں فلاں گاؤں بطور جاگیر مرحمت فرمائیں۔ تاریخی کتابوں کے مطابق رسول اللہ نے ایک پروانہ لکھوایا اور اس کو دیا۔ اس کے الفظ یہ ہیں کہ اگر مرطوم، خبرون (اور چند گاؤں کے نام ہیں) وغیرہ فتح ہو جائیں تو تمیم داری کو دیے جائیں۔
غرض یہ بھی ہجرت مدینہ سے پہلے کی تحریری چیزوں میں ایک چیز کہی جاتی ہے۔ اسی طرح کچھ اور چیزیں ہمیں ملتی ہیں۔ دوسرا مختصر دور ہجرت کا وقت ہے۔ یعنی مکہ سے مدینہ کے سفر کے دس بارہ دن کا زمانہ۔ اس زمانے میں بھی ہمیں بعض تحریری چیزوں کا پتہ چلتا ہے۔ مثال کے طور پر سراقہ بن مالک کا واقعہ ہے کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا تعاقب کیا۔ چاہا کہ آپ کو گرفتار کر لے اور قریش کے ہاتھ حضور کو بیچ دے۔ کیونکہ قریش نے اعلان کیا تھا کہ جو محمد کو گرفتار کرے گا اسے اتنا انعام دیا جائے گا وغیرہ وغیرہ۔ اس اثناء میں کئی معجزات بھی پیش آئے۔ کہتے ہیں کہ آخر میں سراقہ نے معافی چاہی۔ رسول اللہ نے اسے معاف کیا تو اس پر اس نے درخواست کی کہ مجھے پروانہ امن دیا جائے۔ ہمارے راوی بیان کرتے ہیں کہ اس ہجرت کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ دوات قلم اور کاغذ بھی موجود تھا اور حضور کے ہمراہیوں میں لکھنا پڑھنا جاننے والا ایک غلام بھی موجود تھا جس کا نام عامر بن فہیرہ تھا۔ چنانچہ اس کو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے املا کروایا، جس میں سراقہ بن مالک کو رسول اللہ کی طرف سے امن اور پناہ دینے کا ذکر تھا۔ بعد میں سراقہ مسلمان ہو گیا اور جس وقت وہ مسلمان ہونے کے لیے آیا اس نے بتایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا عطا کردہ پروانہ میرے پاس ہے، چنانچہ اس تحریر کی اساس پر صحابہ نے اسے قریب ہونے کا موقعہ دیا، باوجود ہجوم کے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچ گیا اور گفتگو کی۔ اسے ہجرت کے زمانے کی تحریروں میں شامل کیا جائے گا۔ ایسی چیزیں زیادہ تو نہیں ہیں۔ غالباً ہجرت کے دوران کی یہ واحد مثال ہے۔ مگر جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ منورہ پہنچے تو اب سرکاری تحریروں کی تعداد روز بروز بڑھتی چلی گئ۔ ان میں کچھ سرکاری کاغذات ہیں اور کچھ تحریریں خالص پرائیویٹ قسم کی ہیں۔ بعض تحریریں ایسی ہیں جن کی کوئی توقع بھی نہیں ہو سکتی کہ ایسی چیزیں بھی اس زمانے میں پائ جاتی ہوں گی۔ مثلاً "صحیح بخاری" میں ہے کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا کہ جتنے لوگ مسلمان ہوئے ہیں ان کے نام لکھو۔ چنانچہ مردم شماری کی گئ۔ صحیح بخاری کے مطابق اس فہرست میں پندرہ سو لکھے گئے۔ مردوں، عورتوں، بچوں، بوڑھوں سب کی تعداد پندرہ سو کی تعداد ایسی ہے کہ میرے خیال میں ہجرت سے عین بعد کی معلوم ہوتی ہے۔ فرض کیجئے کہ مکہ سے آئے ہوئے مہاجرین دو سو خاندان ہوں گے تو پانچ سو کے لگ بھگ افراد ہونے چاہئیں۔ اسی طرح اس میں مدینہ منورہ کے مسلمان بھی ہوں گے تو اس طرح پندرہ سو مسلمانوں کا ہونا ہجرت کے ابتدائی سالوں کا واقعہ معلوم ہوتا ہے، بہت بعد کا نہیں۔ کیونکہ بعد میں مسلمانوں کی تعداد اتنی زیادہ ہو گئی کہ شمار نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً حجۃ الوداع میں ایک لاکھ چالیس ہزار حضرات فریضہ حج ادا کرنے کو آئے تھے تو پندرہ سو اور ایک لاکھ چالیس ہزار میں ظاہر ہے کوئی نسبت نہیں پائ جاتی۔ مردم شماری کے علاوہ ایک اور چیز بھی ملتی ہے جس کا تعلق غالباً سنہ ١ھ سے ہے اس کی بھی ہمیں کوئی توقع نہیں تھی۔ یہ بھی ایک عجیب و غریب چیز ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
پہلے میں بتا دوں کہ یہ ایک دستور مملکت ہے۔ اس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ جیسا کہ معلوم ہے کہ ہجرت کے موقع پر قریش کی اذیت کے باعث مکے کے مسلمان اور آخر میں خود رسول اللہ ہجرت کر کے مدینہ چلے آئے تھے۔ اب اگر قریش چپ رہتے تو شاید مسلمان جلدی ہی اپنی مصیبت، اپنی جائیداد کی تباہی، اپنے وطن سے بے وطنی وغیرہ کو بھی بھول جاتے اور نئے ملک اور نئے وطن میں نئی زندگی کا آغاز کر لیتے لیکن قریش مکہ نے ان کو چین لینے نہ دیا۔ قریشیوں کو یہ دیکھ کر کہ ان کے دشمن، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان کے ہاتھ سے بچ کر چلے گئے ہیں، اتنی جلن ہوئی اور اتنا غصہ آیا کہ مدینہ والوں کو ایک خط لکھا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہمارا دشمن تمہارے ملک میں آیا ہے یا تو اس کو مار ڈالوں یا اس کو اپنے ملک سے نکال دو، ورنہ ہم مناسب تدبیریں اختیار کریں گے۔ ظاہر ہے کہ مدینے کے مسلمان ان میں سے کسی بات کو قبول نہیں کر سکتے تھے۔ آخری دھمکی یا الٹی میٹم کہ ہم مناسب تدبیریں اختیار کریں گے، اگر کوئی حکمران جاہل یا غافل ہوتا تو اس کو غیر اہم چیز سمجھ کر نظر انداز کر دیتا لیکن جس نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اسوہ حسنہ بننا تھا ان کے لیے ضروری تھا کہ اپنے بعد آنے والے حکمرانوں کو بتائیں کہ ان حالتوں میں کیا کرنا چاہیے، یعنی دشمن خاص کر قومی دشمن سے اپنے اور اپنی قوم کے مفادات کو محفوظ رکھنے کے لیے کیا تدابیر اختیار کرنا چاہئیں۔ چنانچہ آپ نے دو تین احتیاطی تدابیر اختیار فرمائیں پہلی تدبیر یہ تھی کہ جو لوگ ہجرت کر کے بے وطن ہو کر ایک نئے ملک میں آئے تھے اور جن کے پاس، ان کے بدن کے کپڑوں کے سوا، کوئی چیز نہ تھی، ان کی گزر بسر کا انتظام کیا۔ آپ لوگوں کو پاکستان میں مہاجرین کے مسائل کے پیش نظر اچھی طرح واقفیت ہے کہ یہ کتنا دشوار کام ہے۔ برسوں گزر جانے کے بعد بھی مہاجرین کی ساری گتھیاں، ساری دشواریاں حل نہیں ہو پائیں، اور پھر باوجود ان وافر وسائل کے جو موجودہ زمانے میں ہمارے پاس ہیں اور باوجود اس حقیقت کے کہ ہماری حکومت کی آمدنی کروڑوں روپے کی ہے، ہم مہاجرین کے مسائل آسانی سے حل نہیں کر سکے۔ پاکستان ہی میں نہیں، جرمنی وغیرہ جیسے بہت سے ممالک میں یہ واقعات پیش آئے ہیں اور ہر جگہ یہ ایک نہایت ہی دشوار اور پیچیدہ مسئلہ رہا ہے۔ جو لوگ مدینہ سے آئے تھے ان کی تعداد اگرچہ زیادہ نہیں تھی۔ شاید چند سو آدمی ہوں گے لیکن اس زمانے میں وسائل بہت کم تھے۔ ان چند سو آدمیوں کو ایک چھوٹی سی بستی میں مستقل گزر بسر کے وسائل فراہم کر دینا آسان کام نہیں تھا۔ تقریباً اتنا ہی مشکل کام تھا جتنا کسی بڑے ملک میں آج کل مثلاً ایک ہزار کی جگہ ایک لاکھ یا دس لاکھ افراد کا آنا۔ تو ایسی ہی دشواری اس وقت پیدا ہوئ ہوگی۔ مگر اس مشکل کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی سیاسی فراست سے ایک لمحے میں حل کر لیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے شہر مدینہ کے ان لوگوں کو بلایا جو نسبتاً خوشحال تھے اور ساتھ ہی مکی مہاجرین کے ان نمائندوں کو بھی بلایا جو اپنے اپنے خاندان کے سربراہ تھے۔ جب دونوں جمع ہو گئے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے مہاجرین کی سفارش کرتے ہوئے انصار سے خطاب فرمایا کہ یہ تمہارے بھائ ہیں، تمہارے ہی دین والے ہیں اور اس دین ہی کی خاطر اپنے وطن، اپنے ملک اور اپنی ہر چیز کو چھوڑ کر یہاں آئے ہیں۔ اس لیے تمہارا فریضہ ہے کہ ان کی مدد کرو۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تجویز کی کہ انصار میں سے ہر خاندان مکہ والوں کے ایک خاندان کو اپنے خاندان میں شامل کر لے۔ مواخاۃ یا بھائی چارہ کا مفہوم یہ نہیں کہ یہ کوئی طفیلی Parasite کے طور پر مفت خوری کرنے والے مہمانوں کی طرح رہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اب بجائے چھوٹے خاندانوں کے بڑا خاندان ہوگا۔ بجائے دو آدمیوں کے چار آدمیوں کا خاندان ہوگا اور دونوں خاندان کام کریں گے۔ جب کام زیادہ کیا جائے گا تو آمدنی زیادہ ہوگی۔ آمدنی زیادہ ہوگی تو دونوں کی گزر بسر کا انتظام با آسانی ہو سکے گا۔ کوئی شخص کسی خاندان پر بار نہیں بنے گا۔ اس لیے سب ہی نے یہ تجویز بخوشی قبول کر لی۔ مواخات کے اس اصول کا یہ نتیجہ نکلا کہ کئی سو خاندان ایک لمحے میں گزر بسر کے انتظامات حاصل کرنے کے قابل ہو گئے اور پھر اس کے بعد کبھی یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوا کہ کون خوش حال ہے کون بے روزگار ہے، کون پناہ دہندہ ہے اور کون باہر سے آیا ہوا مہاجر ہے۔ اس اہم کام سے فارغ ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک اور امر کی طرف توجہ فرمائ وہ یہ کہ اس زمانے سے پہلے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ہجرت سے پہلے مدینہ میں کوئی ریاست یا مملکت نہیں پائ جاتی تھی۔ وہاں آبادی کا ایک گروہ تھا جو قبیلوں میں بٹا ہوا تھا۔ تقریباً پچیس تیس قبیلے تھے اور ہر قبیلہ دوسرے قبیلے سے اتنا ہی آزاد اور خود مختار تھا جتنا آج کل کی دنیا کی سلطنتیں ہوتی ہیں اور اس خودمختاری کا نتیجہ بھی وہی تھا جو آزاد مملکتوں میں ہوتا ہے یعنی آپس میں جنگ بھی ہوتی ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ہمارے مؤرخوں نے لکھا ہے کہ مدینے کے انصار درحقیقت دو بڑے قبیلوں میں بٹے ہوئے تھے (بلکہ دو بڑے گروہوں میں، اور ہر گروہ میں کئی قبیلے تھے) یعنی اوس اور خزرج۔ ان دونوں میں ایک سو بیس سال سے خانہ جنگیوں کا سلسلہ جاری تھا۔ ظاہر ہے کہ جب دو قبیلوں میں جنگ ہو رہی ہو تو دونوں کی مشترکہ حکومت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مدینہ میں ان عربوں کے علاوہ اور بھی لوگ آباد تھے۔ مثلاً یہودیوں کے قبائل وہاں تھے۔ ان کی کئ ہزار کی آبادی تھی تخمیناً نصف آبادی یہودیوں پر مشتمل تھی اور نصف آبادی عربوں پر۔ یہودیوں کے علاوہ کچھ عیسائ بھی تھے جن کی صحیح تعداد معلوم نہیں۔ ایک روایت میں پندرہ، ایک روایت میں پچاس کا ذکر ملتا ہے اور یہ قبیلہ اوس کے اندر تھے۔
بہر حال اس آبادی میں جس میں یکجہتی نہیں پائ جاتی تھی، ایسا انتظام کرنا کہ سب کی مشترکہ حکومت قائم ہو یہ بظاہر خیال و خواب کی بات معلوم ہوتی ہے۔ مگر اس کی ضرورت تھی، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مہاجرین کی مواخات کے ذریعے سے گزر بسر کا انتظام کرنے کے بعد جو کام کیا وہ یہ تھا کہ ان سارے گروہوں کے نمائندوں کو اپنے پاس بلایا، مسلمان بھی یہودی بھی، صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میرے والد کے مکان پر یہ اجتماع ہوا۔ اس میں یہودیوں کے نمائندے بھی تھے، عربوں کے بھی۔ عربوں میں اوس کے نمائندے بھی تھے، خزرج کے بھی۔ اسلام قبول کرنے والے اوس اور خزرج کے نمائندہ بھی اور وہ بھی جو تا حال مسلمان نہیں ہوئے تھے، اور مہاجرین کے نمائندے بھی تھے۔ ان سب کو جمع کیا اور ان سے مخاطب ہو کر غالباً یہ فرمایا (کیونکہ صراحت نہیں ملتی کہ اجتماع میں کیا چیز شروع میں پیش آئ) کہ آپ اس وقت مختلف قبیلوں میں بٹے ہوئے ہیں اور بالکل ایک دوسرے سے آزاد ہیں اور نتیجہ یہ ہے کہ اگر ایک قبیلہ پر اس کا دشمن باہر سے حملہ آور ہوتا ہے تو باقی سب لوگ غیر جانبدار رہتے ہیں اور اس قبیلہ کو دشمن کی مجموعی قوت سے تنہا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ اسے شکست ہو۔ پھر کچھ دنوں کے بعد دوسرے قبیلے پر کوئی بیرونی دشمن حملہ آور ہو اور اسی طرح تیسرے اور چوتھے پر تو نتیجہ یہی ہوگا کہ رفتہ رفتہ دشمنوں کے ہاتھوں سب ختم ہو جاؤ گے۔ اس لیے، کیا یہ مناسب نہیں کہ تم سب قبیلے اپنی ایک مشترکہ حکومت قائم کرو تاکہ تمہاری مشترکہ حکومت کے باعث دشمن کو بھی یہ خوف ہو کہ ہمارا ایک دشمن نہیں، بلکہ بہت سے قبیلے وہاں موجود ہیں وہ سب ہمارا مقابلہ کریں گے اور ہم اپنی تنہا قوت پر اس سارے شہر مدینہ کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ یہ ایک مشترکہ معاہدہ ہے جو دشمنوں سے تمہارے تحفظ ، تمہارے معاشی اور مالی فوائد کا ضامن ہوگا۔ تجویز معقول تھی اس لیے سبھوں نے یا کم از کم اکثر قبیلوں نے قبول کر لیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اکثر کا لفظ صحیح ہے کیونکہ اس واقعہ کا ذکر ملتا ہے کہ اوس کے چار قبیلے شروع میں اس میں شریک نہیں تھے۔
بہر حال اہل مدینہ کے اجتماع کا مقصد صرف یہی نہ تھا جو میں نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہوگا کہ تمہاری مشترکہ قوت تم سب کی حفاظت کا باعث ہوگی۔ بلکہ ایک اور چیز بھی تھی جس کو ہم اس دستور کے اندر دیکھتے ہیں اور جس پر سب نے اتفاق کیا، وہ یہ کہ ہر قبیلے کو بہت سے امور میں حسب سابق کامل آزادی رہے گی صرف چند چیزوں کے متعلق یہ وضاحت کی گئ کہ وہ بجائے انفرادی کے مشترکہ ہوں گی اور مرکزی حکومت سے متعلق رہیں گی۔ ان مرکزی امور میں سے ایک عسکری مسئلہ بھی تھا یعنی جنگ۔ اجنبیوں سے جنگ کرنا اور صلح کرنا ناقابل تقسیم قرار دیا گیا یعنی یہ نہ ہوگا کہ جنگ صرف ایک قبیلہ سے ہو اور صلح صرف ایک قبیلہ سے ہو اور باقی لوگ اس میں شریک نہ ہوں بلکہ آئندہ سے صلح اور جنگ ناقابل تقسیم، ایک مشترکہ مسئلہ سمجھی جائے گی۔ اسی طرح انشورنس (یعنی بیمہ زندگی) کا ایک انتظام کیا گیا جس کی تفصیل میں آگے بیان کروں گا۔ یہ سب گویا مشترکہ امور قرار پائے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
عدالت کے متعلق ایک حد تک قبائلی نظام برقرار رکھا گیا لیکن اگر فریقین مقدمہ دو مختلف قبیلوں کے ہوں تو مرکز سے رجوع کرنا ہوگا، اپیل کورٹ کو (اگر ہم ایسا کہہ سکیں) مشترکہ قرار دیا گیا، یعنی جھگڑوں کے آخری فیصلے کے لیے شہر کے حکمران سے رجوع کیا جائے گا۔ اسی طرح اس میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ مذہبی آزادی ہوگی۔ یہود کے لیے یہود کا دین رہے گا، مسلمانوں کے لیے مسلمانوں کا دین، دین میں مذہب، قانون اور عدل گستری سب داخل سمجھے گئے، وغیرہ وغیرہ۔ ایک دستاویز مرتب کی گئ جو ہم تک لفظ بہ لفظ پہنچی ہے اور اس کی 52 دفعات ہیں ان میں تفصیل بتائ گئ ہے کہ کیا کام انجام دینے چاہئیں۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ اس وقت کی اسلامی مملکت کا تحریری دستور تھا۔
ابھی میں نے اشارتاً کہا کہ اس میں کچھ انشورنس کا بھی ذکر ہے۔ یہ ایک عجیب و غریب شے ہے۔ قدیم زمانے میں وہ ضرورتیں جو آج پائ جاتی ہیں نہیں پائ جاتی تھی، اس زمانے کی جو ضرورتیں تھیں وہ آج کل ہمارے لیے بے سود نظر آتی ہیں۔ قدیم زمانے میں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں، مدینہ منورہ میں دو مسئلے بہت اہم تھے۔ ایک یہ کہ اگر کوئی شخص غلطی سے (یعنی عمداً نہیں) کسی شخص کے قتل کا مرتکب ہوتا تو اسے خون بہا دینا پڑتا تھا۔ خون بہا کی رقم رواج و قانون کے مطابق اتنی زیادہ تھی کہ عملاً ساری آبادی میں سے ایک آدھ شخص ہی اس کو ادا کر سکتا تھا۔ دوسرے لوگوں کے لیے وہ ناممکن سی بات تھی، یعنی ایک سو اونٹ کی قیمت کا اندازہ یوں کیجئے کہ ایک اونٹ سو آدمیوں کے لیے دن بھر کی پوری غذا کا کام دیتا ہے۔ اس حساب سے سو اونٹ کے معنی ہوئے دس ہزار دن تک ایک شخص کو غذا مہیا کرنا۔ یہ ہوتا تھا خون بہا۔ اتنی بڑی رقم دینا اتنا بڑا خون بہا ادا کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہ تھی۔ سوائے مال دار سردار قبیلے کے کسی اور شخص کے لیے یہ ناممکن تھا۔ لیکن یہ واقعات روز مرہ پیش آتے تھے اس کے لیے اجتماعی انشورنس کا انتظام کیا گیا یعنی ایک قاتل ہی اس کا ذمہ دار نہ ہوگا بلکہ پوری انشورنس کمپنی اس کی ذمہ داری قبول کرے گی اور اس کی طرف سے خون بہا ادا کرے گی۔ دوسری چیز جس کی اس زمانے میں ضرورت تھی اور آج ہمارے عہد میں اس کی ضرورت عملاً نظر نہیں آتی وہ یہ ہے کہ کسی شخص کو دشمن گرفتار کر کے قید کر لے تو وہ فدیہ دے کر اپنی آزادی حاصل کرتا تھا۔ یہ فدیہ بھی بہت گراں تھا یعنی سو اونٹ فدیہ دینا ہوتا تھا۔ کوئی غریب شخص گرفتار کر لیا جاتا تو اس کی رہائ کی کوئی صورت نہ ہوتی تھی۔ وہ عملاً اپنے دشمن کا غلام بن جاتا۔ ایسے وقت میں انشورنس کمپنی کام دیتی۔ اس کی طرف سے ذمہ داری قبول کرتی اور فدیہ ادا کرتی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ انتظام کیا کہ مدینہ منورہ میں ہر ہر قبیلے میں ایک انشورنس یونٹ قائم ہوا اور یہ کہا کہ تمہارے قبیلے کے کسی آدمی کو قتل یا گرفتاری کے سلسلے میں رقم ادا کرنی ہو اور وہ شخص ادا نہ کر سکے تو یہ انشورنس یونٹ ادا کرے گی اور اگر کسی یونٹ کے پاس اتنی گنجائش نہ ہو تو حکم تھا کہ اس کی قریبی محلے کی انشورنس یونٹ جو ہے اس کے ساتھ تعاون کر کے رقم ادا کرے اور اگر اس کے پاس بھی نہ ہو تو دوسری یونٹ سے انتظام کیا جائے۔ جب ساری آبادی کی انشورنس یونٹیں بھی بار نہ اٹھا سکیں تو ایسی صورت میں مرکزی حکومت بھی مدد کرے گی۔ یہ ایک خاص نظام تھا جو مدینہ منورہ میں قائم کیا اور اس دستور کے اندر ضبط تحریر میں لے لیا گیا۔ غرض سرکاری طور پر حدیث کے لکھوانے کی ایک مثال یہ دستور مملکت مدینہ کی دستاویز بھی ہے۔ ان ابتدائ کاموں میں ایک اور چیز یہ ہے کہ جب مہاجرین کی بسر و بود کا انتظام مواخات کے ذریعے کر دیا گیا اور اس کے بعد شہری مملکت وجود میں آ گئی یعنی ایسی مملکت جس کا رقبہ صرف ایک شہر تھا اور اس کے اندر عدالت اور قانون غرض ساری چیزوں کا انتظام کر دیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اسی پر اکتفا نہیں فرماتے ہیں، آپ مکہ کے الٹی میٹم کے جواب میں ایک اقدام فرماتے ہیں وہ اقدام یہ تھا، کہ مدینہ منورہ کے اطراف کا آپ دورہ شروع کر دیتے ہیں۔ مثلاً شمال کی طرف جاتے ہیں وہاں کے قبیلوں سے کہتے ہیں تم اس وقت ایک آزاد قبیلہ ہو اور خودمختار ہو، لیکن دشمن سے مقابلہ ہو تو تنہا ہو گے۔ کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ ہم دونوں میں ایک حلیفی معاہدہ ہو جائے۔ تم پر کوئی دشمن حملہ کرے تو ہم تمہاری مدد کو دوڑیں گے، اگر ہم پر کوئی دشمن حملہ کرے اور ہم تمہیں بلائیں تو تم بھی ہماری مدد کو آنا۔ یہ بات ان کے دل کو لگی اور ان کے ساتھ معاہدہ ہو گیا۔ یہ معاہدہ تحریری طور پر عمل میں آیا اور وہ ہم تک پہنچا ہے۔ پھر آپ مشرق کی طرف جاتے ہیں، پھر جنوب کی طرف، غرض مختلف علاقوں میں، مدینہ کے اطراف میں وقتاً فوقتاً دورہ کر کے ہجرت کے پہلے اور ہجرت کے دوسرے سال مختلف غیر مسلم قبائل سے حلیفی کے معاہدے کیے گئے اور یہ معاہدے تحریری صورت میں لائے گئے اس کے بعد اس کا سلسلہ اور چلتا رہا۔ غرض یہ ابتدائ نظام تھا کہ ایک طرف مدینے کے اندر امن و امان کا اور یکجہتی کا انتظام کیا جائے اور مدینے کے اطراف میں دوست قبائل کا جال پھیلا دیا جائے تاکہ دشمن اگر حملہ کرے تو اولاً اسے ہمارے آس پاس کے قبیلوں سے جنگ کرنا پڑے اور ہم محفوظ رہیں، یہ سیاسی تدبیر تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمائ اور جس کے سلسلے میں تحریر کا بار بار ذکر آیا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اس کے بعد اور بے شمار چیزیں ایسی ملتی ہیں جو تحریراً عمل میں آئیں ان میں سے بعض چیزیں پرائیویٹ ہیں۔ مثلاً حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ایک غلام خریدتے ہیں اس کا پروانہ موجود ہے کہ میں نے یہ غلام فلاں شخص سے خریدا، اتنی رقم دی گئ یا ایک غلام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آزاد فرماتے ہیں، اسے آزادی کا تحریری پروانہ دیا جاتا ہے کہ فلاں شخص کو آزاد کیا جاتا ہے، اسے سب تسلیم کر لیں کہ یہ شخص آزاد ہے، اب آئندہ اسے غلام نہ قرار دیا جائے وغیرہ وغیرہ۔ ایک اور چیز ذرا بعد کی ہے غالباً ٨ ہجری میں رسول اللہ ایک شخص کو خط لکھتے ہیں کہ "جیسے ہی یہ پیغام رساں پہنچے زمزم کا پانی صبح ہو کہ شام فوراً اس کے ہاتھ مجھے بھیجو"۔ اسی طرح مثلاً جب اسلامی مملکت توسیع پاتی ہے تو مختلف اضلاع اور صوبوں کے گورنروں کے نام پروانے بھیجے جاتے ہیں کہ فلاں کام انجام دو۔ یا گورنر خود دریافت کرتا ہے کہ اس خاص صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ تو اس کا جواب مدینہ سے بھیجا جاتا ہے۔ غرض سرکاری تحریروں کی کثیر تعداد ہے اور اس وقت ان کی تعداد جو ہم تک پہنچی ہے، کم سے کم چار سو مکتوبات نبی پائے جا چکے ہیں جن میں کچھ تبلیغی بھی ہیں۔ مثلاً قیصر و کسریٰ کو دین اسلام کی دعوت دی گئ ہے۔ کچھ حلیفی کے معاہدے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
اب تحریری حدیث کا دوسرا پہلو لیجئے یعنی وہ حدیثیں جو سرکاری تحریریں نہیں ہیں بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اسے نجی طور پر مرتب کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ عام طور پر صحابہ کرام امی تھے۔ لکھنا پڑھنا انہیں نہیں آتا تھا لیکن اچھے مخلص مسلمان ضرور تھے۔ جب مدینہ میں ہوتے تو اکثر مسجد نبوی میں حاضر ہوتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کو سنتے، اس پر عمل کرتے۔ لیکن ایک واقعہ ایسا پیش آیا جو غالباً آغاز ہے حدیث کے مدون کرنے کا۔ واقعہ یوں ہے کہ ایک دن ایک صحابی آئے، ان کا نام بیان نہیں ہوا ہے۔ ترمذی میں یہ حدیث موجود ہے کہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا "یا رسول اللہ! آپ روزانہ جو چیزیں ہمیں بیان کرتے ہیں وہ بے حد دلچسپ، بے حد اہم اور ضروری ہوتی ہیں لیکن میرا حافظہ کمزور ہے، میں انہیں بھول جاتا ہوں، کیا کروں؟ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب میں الفاظ فرمائے "استعن بیمینک" (اپنے سیدھے ہاتھ سے مدد لو) یعنی لکھ لیا کرو۔ غالباً انہوں نے اس اجازت سے فائدہ اٹھایا ہوگا اور لکھا ہوگا۔ ہمیں، بعد میں کیا ہوا، اس کے متعلق تفصیل نہیں ملتی۔ بعد میں ایک دوسرا واقعہ جو غالباً اسی حکم اور "استعن بیمینک" کے الفاظ کا نتیجہ سمجھنا چاہیے وہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ ہے۔ یہ نوجوان تھے غالباً سولہ سترہ سال کی عمر ہوگی۔ بے حد ذہین، بے حد دیندار اور علمی ذوق رکھنے والے تھے۔ ان کے علمی ذوق کا اندازہ اس سے کیجئے کہ بعد میں انہوں نے سریانی زبان بھی سیکھی اور وہ عیسائیوں کی دینی کتاب انجیل کو سریانی زبان میں پڑھ بھی سکتے تھے۔ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اجازت بھی دی تھی کہ اپنے علمی مشاغل جاری رکھیں۔ یعنی قرآن کے ساتھ ساتھ بائیبل بھی پڑھ سکتے ہیں۔ غرض عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب یہ سنتے ہیں کہ فلاں شخص کو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا "استعن بیمینک" تو انہوں نے خود لکھنا شروع کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے جو کچھ بھی سنتے اسے فوراً نوٹ کر لیتے تھے۔ دو چار دن غالباً اسی طرح کا واقعہ گزرا ہوگا، پھر ان کے دوستوں نے ان سے کہا "اے عبداللہ یہ تم کیا کر رہے ہو؟ رسول اللہ بشر ہیں، کبھی خوش ہوتے ہیں، کبھی خفا ہوتے ہیں، تم ان کی ہر چیز نوٹ کرتے جا رہے ہو، یہ مناسب نہیں۔ کوئی اور شخص ہوتا تو وہ ان کے کہنے پر عمل کرتا اور اسے چھوڑ دیتا، مگر وہ ذہین تھے۔ انہوں نے سوچا کہ بجائے ان سے مشورہ لینے یا ان کی بات ماننے کے کیوں نہ براہ راست اصل سے رجوع کیا جائے۔ ان کے استفسار پر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، ضرور لکھو۔ اطمینان کے لیے وہ پوچھتے ہیں کہ کیا اس وقت بھی جب آپ خفا ہوں؟ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا جواب یہ ہے "اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، یہاں سے جو چیز نکلتی ہے (اپنے منہ کی طرف اشارہ فرمایا) وہ حق ہی ہوتی ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ پورے اطمینان کے ساتھ حدیثوں کو لکھتے رہے۔ بعض روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے مجموعہ احادیث میں کوئی دس ہزار حدیثیں تھیں اور اس کے بعد ان کے بیٹے اور ان کے پوتے اس قلمی نسخے کی مدد سے دوسرے لوگوں کو حدیث کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ عمرو بن شعیب بن عبداللہ بن عمرو بن العاص مشہور محدث گزرے ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ایسی اور بھی مثالیں ملتی ہیں۔ مثلاً ابو رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک آزاد شدہ غلام تھے وہ بھی ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آ کر کہتے ہیں کہ کیا میں آپ کی حدیثوں کو لکھ سکتا ہوں؟ حضور نے انہیں بھی اجازت دے دی۔ انہوں نے بھی مجموعہ تیار کیا ہوگا۔ ان میں سب سے اہم حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ ان کا قصہ یہ ہے کہ ہجرت کے وقت ان کی عمر دس سال کی تھی۔ بہت کم سن بچے تھے لیکن ایک ایسے بچے جس کے والدین نہایت مخلص مسلمان تھے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود فرماتے ہیں کہ جب مدینہ میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے تو میری والدہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے مکان پر جا کر حضور کے سامنے پیش کیا اور بہت ہی فخر کے ساتھ کہنے لگیں "یا رسول اللہ! میرا بچہ لکھنا پڑھنا بھی جانتا ہے" ٹھیک اسی طرح جیسے آج ہم آپ کہیں کہ میرا بیٹا ڈاکٹریٹ یعنی پی ایچ ڈی کی ڈگری لے چکا ہے غرض بڑے فخر سے بیان کرتی ہیں اور پھر کہتی ہیں "یا رسول اللہ! میری عزت افزائی کا باعث ہوگا کہ اگر اسے آپ خادم کے طور پر قبول کر لیں۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میری والدہ کی درخواست کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قبول کیا چنانچہ میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے مکان میں آپ کی وفات تک رہا۔ اس دس سال کے عرصہ میں ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ظاہری و باطنی زندگی کو دیکھتا۔ مسجد میں آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کیا کرتے ہیں وہ بھی دیکھتا، مکان کے اندر اپنی ازواج مطہرات سے کس طرح برتاؤ کرتے ہیں، کیا کھاتے ہیں، کس طرح سوتے ہیں، غرض ہر چیز کا میں مشاہدہ کر سکتا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ سہولت، جو ان کو حاصل تھی بڑے سے بڑے صحابہ مثلاً حضر ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی میسر نہیں آسکتی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی کو اس قدر قریب سے دیکھیں۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد کے زمانے میں مسلمانوں کی جماعت کی تعداد بڑھی اور انہیں رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے حالات معلوم کرنے کا شوق پیدا ہوا تو میرے پاس بہت سے شاگرد آیا کرتے تھے۔ اس بارے میں ان کی روایت کے دو الفاظ ہیں "اذا کثروا" (جب ان کی تعداد زیادہ ہوتی) اور "اذا اصروا" (اور جب وہ زیادہ اصرار کرتے) بہر حال جو بھی صحیح ہو، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایسے موقع پر میں ایک صندوق میں سے ایک پرانا رجسٹر یا پرانی کتاب نکالتا اور اپنے شاگردوں کو بتاتا اور کہتا کہ یہ وہ چیز ہے جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق نوٹ کی ہے اور اسے رسول اللہ کے حضور میں وقتاً فوقتاً پیش بھی کیا ہے۔ میری تحریر میں اگر کوئی کمی یا غلطی ہوتی تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم اصلاح فرما دیتے۔ یہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مجموعہ ہے جو یقیناً کئی ہزار حدیثوں پر مشتمل ہوگا۔ یہ ایک ایسی حدیث کی کتاب کہی جا سکتی ہے جو صحیح ترین حدیث کی کتاب ہے، کیونکہ لکھنے کے بعد خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس پر نظر ثانی فرماتے ، یعنی سن کر اس کی اصلاح فرماتے ایسی اور مثالیں بھی ملتی ہیں۔ غرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں، ان کی اجازت سے، ان کے حضور میں حدیث کی تدوین ہو رہی تھی۔ بخاری شریف میں دو ہزار سے زیادہ حدیثیں نہیں ہیں جبکہ بعض روایات کے مطابق حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مجموعہ احادیث میں دس ہزار حدیثیں تھی۔ اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ کتنی کثیر حدیثیں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں تحریری طور پر مدون ہو چکی تھیں۔ بد قسمتی میں وہ سب کی سب کتابی صورت میں ہمارے پاس نہیں پہنچیں بعد کے مؤلفوں نے ان کو تتر بتر کر دیا ہے۔ یعنی حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیثوں میں سے ایک حدیث کو ایک باب میں دوسری حدیث کو دوسرے باب میں تحریر کیا ہے۔ اس طرح ان کا جو اصل مجموعہ تھا وہ ہم تک نہیں پہنچ سکا۔ بہر حال یہ بالکل واضح ہے کہ عہد نبوی میں حدیثوں کی جمع و تدوین کا آغاز ہو چکا تھا اور اس میں اضافہ بھی ہوتا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد ہم کو ایسے صحابہ کی تعداد روز افزوں نظر آتی ہے جو اپنی یادداشتوں کو مدون کرنا ضروری سمجھتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں انہیں خیال نہیں آیا، اب انہیں احساس ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم باقی نہ رہے میں بھی آج نہیں کل مرنے والا ہوں، اگر میں اپنی یادداشتوں کو محفوظ نہ کر سکا تو یہ سب ضائع ہو جائیں گی۔ کم از کم میں خود اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حالات تحریر کر لوں۔ چنانچہ ایسی متعدد کتابوں کا ذکر حدیث کی کتابوں میں آتا ہے۔ حضرت سمرہ بن جندب، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دوسرے بہت سے صحابہ تھے جنہوں نے کتابیں اور رسالے لکھ ڈالے۔ ان مجموعہ ہائے حدیث میں سے ایک کے متعلق ابن حجر نے لکھا ہے "فیہ علم کثیر" (اس میں بہت علم ہے)۔ ایک اور رسالے کے متعلق لکھا ہے کہ بہت ضخیم تھا۔ یہ جمع حدیث کی ایک صورت ہوئ۔ ایک دوسری صورت تدوین حدیث کی یہ ہے کہ لوگ صحابہ سے لکھ کر پوچھتے تھے۔ مثلاً ایک شخص کو کسی مسئلے کے متعلق کچھ دریافت کرنا ہے تو وہ کسی بزرگ صحابی کو اس خیال سے ممکن ہے وہ جانتے ہوں ایک خط لکھتا ہے۔ وہ صحابی جواب میں حدیث لکھ بھیجتے ہیں کہ ہاں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ سنا ہے یا رسول اللہ کو یہ کرتے دیکھا ہے۔ غرض خط و کتابت کے ذریعے سے حدیث کی تدوین اور حدیث کی تعلیم کا یہ سلسلہ ہمیں نظر آتا ہے اور اس میں ایسی بڑی شخصیتیں بھی ہیں جیسے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ان کے ہاں اکثر خطوط آیا کرتے تھے اور وہ جواب لکھوا کر بھیجتیں۔ حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ دوسرے صحابی ہیں اور ان کے متعلق صحیح بخاری میں یہ مذکور ہے کہ ان کے پاس ایک خط آیا جس کا انہوں نے جواب لکھ بھیجا۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی یہی حال تھا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے خلیفہ وقت ان سے لکھ کر دریافت کرتے کہ اس بارے میں آپ کی کیا معلومات ہیں۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top