• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تاریخ قراء اتِ متواترہ اور حل اِشکالات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ امام شافعی﷫ فرماتے ہیں:
’’خداتعالیٰ نے قرآن، توریت اور انجیل میں صحابہ کرام﷢ کی تعریف کی ہے اور ان کے لیے وعدہ کیا ہے جو اُن کے بعد کسی اور کے لیے نہیں۔ اُن حضرات نے سنت رسولﷺ ہم تک پہنچائی۔ نزول وحی کا مشاہدہ کیا اور حضورﷺ کی مراد عموم، مخصص اور عزم و ارشاد اور سنت میں سے جو کچھ ہمیں معلوم نہیں وہ اُس سب کو جانتے تھے اور ہم سے ہر طرح کے علم، اجتہاد، ورع، عقل اور استنباط میں افضل تھے۔ اُن کی رائے ہمارے لیے ہماری رائے سے بدرجہا محمود اولیٰ ہے۔‘‘
٭ محقق﷫ کہتے ہیں:
’’صحابہ کرام﷢ نے الصراط، المصیطرون اور یبصط کو اصل کے خلاف جو بالسین تھی صاد سے اسی واسطے لکھا ہے کہ حامل قراتین ہوسکے اور یہی رعایت حذف و اثبات میں ہر جگہ رکھی ہے۔) اور سند صحیحہ متصلہ سے ثابت اور ائمہ فن کے یہاں مشہور ہو ( مقصد یہ ہے کہ اس قراء ۃ کو عادل ضبط نبیﷺ تک اپنے مثل سے روایت کرتے ہوں اور ائمہ ضابطین کے نزدیک مشہور بھی ہو، یعنی غلط اور شاذ نہ سمجھی جاتی ہو۔) وہ قراء ۃ صحیحہ اور ان اَحرف سبعہ میں سے ہے جن پر قرآن نازل ہوا۔‘‘
٭ محقق﷫ کہتے ہیں:
’’جو قراء ۃ اس طرح ثابت ہو اُس کا ردو انکار جائز نہیں بلکہ مسلمانوں پر اس کا قبول کرنا واجب ہے خواہ اَئمہ سبعہ کی قراء ات میں ہو یا عشرۃ کی یا مافوق عشرہ کی اور اگر اَرکان ثلٰثہ میں سے کوئی رکن مختل ہوجائے تو وہ ضعیف شاذ اور فاسد و باطل ہے خواہ سبعہ سے ہو یا مافوق سبعہ سے۔ تمام محققین اَئمہ سلف و خلف اس تعریف کو صحیح کہتے ہیں۔‘‘
حافظ ابوعمرو دانی﷫،اور مہدوی﷫ نے یہی تصریح کی ہے باقی تمام متقدمین کابھی یہی مذہب ہے اور اُن میں سے کوئی اس کے خلاف نہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ حافظ ابوشامہ﷫ مرشد الوجیز میں کہتے ہیں:
’’ہراُس قراء ۃ کو جو اَئمہ سبعہ کی جانب منسوب اور صحیح کہلاتی ہو اُسی وقت منزل من اللہ اور صحیح کہہ سکتے ہیں۔ جب وہ اس ضابطہ میں آجائے اور مطابقت ضابطہ کی صورت میں کوئی مصنف اس کی نقل میں متفرد نہیں ہوسکتا اورنہ وہ کسی امام سے مختص ہوسکتی ہے۔اصل اعتماد ان اَوصاف ثلثہ پر ہے نہ انتساب پر۔ اور بیشک ہر قراء ۃ میں خواہ سبعہ میں سے ہو یا غیر سبعہ سے وجوہ صحیحہ اور شاذ پائی جاتی ہیں۔ البتہ قرائاتِ سبعہ سے بوجہ شہرت اور کثرت وجوہ صحیحہ متفق علیہ طمانیت اور میلان خاطر زیادہ ہوتا ہے۔‘‘
٭ نیز کہتے ہیں:
’’متاخرین مقریوں اور اُن کے مقلدین کی زبان پر چڑھا ہواہے کہ قراء ات سبعہ تمام و کمال متواتر ہیں یعنی قرائِ سبعہ مشہورہ سے جو حرف منقول ہے وہ متواتر منزل من اللہ اور واجب التسلیم ہے۔ ہم بھی یہی کہتے ہیں، مگر اُن حروف کے بارہ میں جن کو اَئمہ سے نقل کرنے میں تمام طرق اور رواۃ متفق ہیں ۔حالانکہ (بعض حروف میں) اختلاف و تفرقہ شائع اور مشہور ہے پس اس حال میں کم اَز کم اُن حروف کے اندر یہ ضابطہ برتنا پڑے گا جن میں تواتر محتقق نہیں ہوا۔‘‘
٭ علامہ جعبری﷫ کہتے ہیں:
’’قراء ۃ کے لیے ایک شرط ہے۔صحت نقل اور باقی دونوں چیزیں لازم ہیں۔ احرف سبعہ کے معلوم کرنے کا یہی ضابطہ ہے جس کو ناقلین کی معرفت عربیت میں امعان نظر رسم کا اتقان ہو اس کے لیے یہ شبہ خود بخود منکشف ہوجاتا ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
بعض متاخرین کا قول کہ صحت قراء ت کے لیے تواتر شرط ہے صحیح نہیں ہے
٭ محقق ابن جزری﷫ کہتے ہیں:
’’بعض متاخرین نے صحت قراء ۃ کے لیے رسم و عربیت کی موافقت کے ساتھ تواتر کی شرط لگائی ہے اور صحت سند کو کافی نہیں سمجھا۔ وہ کہتے ہیں کہ تواتر کے بغیر قرآن ثابت نہیں ہوسکتا، مگر ان لوگوں نے یہ خیال نہیں کیاکہ جب کوئی حرف تواتر سے ثابت ہوجائے تو اس کے لیے نہ عربیت کی موافقت کی شرط ہے اور نہ رسم کی مطابقت کی، بلکہ اُس کاقبول کرنا شرط واجب ہے ، کیونکہ وہ قطعاً قرآن ہے لیکن جب ہم ہر حرف کے لیے تواتر کی شرط لگا دیں تو قراء سبعہ کی بہت سی اختلافی وجوہ مرتفع ہوجائیں گی۔پہلے میرا بھی یہی خیال تھا مگر جب مجھے اس کی خرابی معلوم ہوئی تو میں نے ائمہ سلف کی رائے کی جانب رجوع کرلیا۔‘‘
حضرت محقق﷫ نے متاخرین کی جس رائے کا ذکر کیا ہے وہ چھٹی صدی کے بعد بعض علمائے مصر نے قائم کی تھی جس پر وہ صدیوں قائم رہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ علامہ سید غیث النفع میں کہتے ہیں:
’’مذاہب اَربعہ کے فقہا ، اصولیوں اور تمام محدثین و قراء کا مذہب ہے کہ صحت قراء ۃ کے لیے تواتر شرط ہے۔‘‘
اس کے بعد ضابطۂ مندرجہ نقل کرکے بایں الفاظ اس کی تردید کرتے ہیں:
’’یہ بدعت ہے جس سے غیر قرآن، قرآن سے مساوی ہوجاتا ہے اور اختلاف قراء ۃ سے ثبوت تواتر میں کوئی خرابی نہیں آتی، کیونکہ ایک قراء ۃ کسی قوم کو متواتراً پہنچی اور دوسری کو نہیں پہنچی۔اسی وجہ سے کسی قاری نے دوسرے کی قراء ت نہیں پڑھی، کیونکہ وہ اس کو علیٰ وجہ تواتر نہیں پہنچی تھی۔‘‘ الخ۔
پھر کہتے ہیں:
’’جو متواتر نہیں وہ شاذ ہے اور اس وقت ماسواء عشرۃ ہر قراء ۃ شاذ ہے۔‘‘
سید﷫ کے مزاج میں تشدد ہے، ورنہ بوجوہات ذیل ایسانہ کہتے:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اوّل: اصولی فقہاء و محدثین کہتے ہیں کہ قرآن متواتر ہے۔یہ نہیں کہتے کہ ہر اختلافی وجہ متواتر ہے باقی رہے قرائ، اُن میں سے مشاہیر اَئمہ کا مسلک اوپر بیان ہوا۔ اور حضرت محقق﷫ کی اس تصریح کے بعد کہ ،جملہ اَسلاف کا یہی مذہب ہے اور اُن میں سے کوئی اس کے خلاف نہیں، سید﷫ کا پہلا دعویٰ کہاں تک قابل قبول ہے۔
دوم: غیر قرآن قرآن سے کس طرح مساوی ہوسکتا ہے، جبکہ صحت سند اور شہرت کی قید لگی ہوئی ہے اور اگر مساوات فی التعریف مراد ہے تو کیا نماز وغیرہ کی بعض احادیث کو، جو متواتر ہیں، اس لیے متواتر نہیں کہہ سکتے کہ قرآن کومتواتر کہتے ہیں۔
سوم: قراء اتِ سبعہ اور عشرہ کی ہر وجہ اختلافی کے متواتر ہونے کا کس نے دعویٰ کیا ہے، وہ ظاہر کیا جائے، جبکہ علامہ دانی﷫ وغیرہ کی تصریحات اس کے خلاف موجود ہیں۔
چہارم: کسی وجہ کے غیر متواتر ہونے سے یہ کس طرح لازم آگیا کہ وہ ضرور شاذ ہے جبکہ ان کے درمیان صحیح و مشہور کامرتبہ موجود ہے۔ خود سید﷫ اور دیگر شیوخ مصر نے اپنی کتابوں میں ایسی وجوہ بیان کی ہیں اور سید﷫ کایہ کہنا کہ کسی قاری نے دوسرے کی قراء ۃ اس لیے نہیں پڑھی کہ وہ اسے تواتر اً نہیں پہنچی ،بے معنی بات ہے۔ شاید موصوف رواۃ اور طرق کے اختلاف کے بارہ میں بھی یہی کہہ دیں، حالانکہ وہاں شیخ ایک ہے اور آیا یہ ممکن ہے کہ جو وجہ عاصم﷫ و ابن کثیر﷫ کو تواتراً پہنچی ہو وہ بصری﷫ کو، جو ان کے شاگرد ہیں، نہیں پہنچی اور جو حرف حمزہ﷫ کو پہنچا وہ کسائی﷫ کونہیں پہنچا۔ یقناً ایسا ہرگز ممکن نہیں ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حق وہی ہے جو اَئمہ سلف نے بیان کیا اور نتیجۂ بحث یہ ہے کہ قرآن میں جو کچھ پڑھا جاتاہے اُس کی تین قسمیں ہیں:
(١) بالاجماع متواتر (٢) ایک جماعت کے نزدیک متواتر
پہلی قسم میں کوئی اختلاف نہیں ہوسکتا اور دوسری قسم جن حضرات کو تواتراً پہنچی اُن کے طرق کا اُس پر اِجماع ہوناچاہئے، ان دونوں اقسام کے حروف کے لیے نہ عربیت کی موافقت کی شرط ہے اور نہ رسم کی مطابقت کی، مگر ناممکن ہے کہ یہ عربیت کی کسی وجہ اور رسم کے احتمالاً مطابق نہ ہوں اور اگر بفرض محال خلاف ہوں تب بھی کوئی پرواہ نہیں۔
(٣) صحیح و مشہور جس کو حضورﷺسے ثقاۃ و ضابط و عادل بسند متصلہ روایت کریں اور اَئمہ فن کے نزدیک مشہور ہو مگر تواترکی حد کو نہ پہنچی ہو اُس کو اسی شرط سے قبول کیا جائے گا کہ وہ اس ضابطہ کے موافق ہو ورنہ ضعیف ، شاذ، یا باطل ہے۔ کما مَرّ
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِشکال
جب نبیﷺ سے صاحب اِختیار تک تواتر شرط نہیں ہے صرف صحت نقل کافی ہے، تو قراء ات کو متواترہ کیونکر کہا جاسکتا ہے۔
حل
مناھل العرفان فی علوم القرآن میں عبدالعظیم زرقانی﷫ لکھتے ہیں:
’’إن ھذہ الأرکان الثلاثۃ تکاد تکون مساویۃ للتواتر في إفادۃ العلم القاطع بالقرائات المقبولۃ۔ بیان ھذہ المساواۃ أن ما بین دفتي المصحف متواتر ومجمع علیہ من الأئمۃ في أفضل عھودھا وہو عہد الصحابۃ، فإذا صح سند القرائۃ ووافقت قواعد اللغۃ ثم جائت موافقۃ لخط ھذا المصحف المتواتر کانت ہذہ الموافقۃ قرینۃ علی إفادۃ ہذہ الروایۃ للعلم القاطع وإن کان آحادا۔ ولا تنس ما ھو مقرر في علم الأثر من أن خبر الآحاد یفید العلم إذا احتفت بہ قرینۃً توجب ذلک، فکان التواتر کان یطلب تحصیلہ في الإسناد قبل أن یقوم المصحف وثیقۃ متواترۃ بالقرآن۔ أما بعد وجود ھذا المصحف المجمع علیہ فیکفي في الروایۃ صحتھا وشھرتھا ما وافقت رسم ھذا الصمحف و لسان العرب۔
قال صاحب الکواکب الدریۃ نقلا عن المحقق ابن الجزري ما نصہ: قولنا: ’’وصح سندھا‘‘ نعني بہ أن یروي تلک القرائۃ العدل الضابط عن مثلہ، وھکذا حتی ینتھي وتکون مع ذلک مشہورۃ عند أئمۃ ھذا الشأن الضابطین لہ غیر معدودۃ عندھم من الغلط أو مما شذ بہ بعضھم‘‘ (مناہل العرفان في علوم القرآن: ۴۲۱،۴۲۰)

’’قراء اتِ مقبولہ کے بارے میں (ضابط کے) یہ تین ارکان علم قطعی کافائدہ دینے میں تواتر کے مساوی ہیں۔اس مساوات کابیان یہ ہے کہ مصحف کے درمیان جو کچھ ہے اس پر سب سے بہتر زمانہ یعنی صحابہ﷢ کے زمانہ کے اَئمہ کا تواتر اور اجماع تھا۔پھر جب سند صحیح ہو تو قواعد لغت اور مصحف تواتر کی رسم کے ساتھ موافقت، روایت کے علم قطعی کا فائدہ دینے پر قرینہ بن جاتا ہے۔اگرچہ روایت آحاد میں سے ہو۔ نیز یہ بھی مت بھولو کہ علم حدیث میں یہ بات طے شدہ ہے کہ قرائن کے ہوتے ہوئے خبرواحد علم قطعی کا فائدہ دیتی ہے۔
گویا مصحف کے متواتر وثیقہ بننے سے پیشتر تو سند میں تواتر کو طلب کیا جاسکتا ہے، لیکن متفقہ مصحف کے وجود کے بعد روایت کی صحت و شہرت ہی کافی ہے جبکہ وہ رسم خط اور عربی زبان کے موافق ہو۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
کواکب الدریہ میں محقق ابن جزری﷫ سے منقول ہے کہ روایت کی سند کے صحیح ہونے سے ہماری مراد یہ ہے کہ عادل و ضابط اپنے جیسوں سے اس قراء ت کو روایت کریں اور اسی طرح یہ سلسلہ آخر تک چلے۔پھر وہ قراء ت ماہرین فن کے نزدیک غلط اور شاذ نہ ہو بلکہ مشہور ہو۔‘‘
اس کلام کا حاصل یہ ہے کہ مصحف میں جو کچھ ہے وہ تو اجماعی اور متواتر ہے۔اب صرف اس کی اَدائیگی کامسئلہ رہ گیا؟ تو اس کی اَدائیگی کاکوئی طریقہ اگر سند صحیح سے ہو، اگرچہ متواتر نہ ہو، تب بھی وہ متواتر کے حکم میں ہے اور اس کا وہی حکم ہوگا جو متواتر کاہوتا ہے۔ غرض حکم کے اعتبار سے وہ متواتر ہے۔اس لیے اس کو مطلقاً قراء ات متواترہ کہا جاتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
خلاصہ ما فی الباب
یہ ہے کہ حضرات صحابہ کرام﷢ جن جن وجوہ پرقرآن پڑھتے تھے وہ سب صحیح اور منزل من اللہ تھیں۔ یعنی ہرصحابی﷜ کو جو حرف حضورﷺ نے پڑھایا تھا۔وہ اُن کے لیے تائید و تصدیق اور بغیرشاہد حجت تھا اور ان کے حق میں شذوذ و ضعف ہرگز نہ تھا۔ پھر جب صحابہ کرام﷢ نے مصاحف عثمانیہ پر اِجماع کرلیاتو اُمت کے لیے اُن کا اتباع ضروری ہوگیا۔
حضرات تابعین﷭ کبارنے صحابہ کرام﷢ سے قرآن پڑھا اور مصاحف عثمانیہ کے مطابق تابعین﷭ و تبع تابعین﷭ کو پڑھایا۔ ان دونوں متبرک جماعتوں کے متعدد حضرات نے کئی کئی شیوخ سے قرآن پڑھا اور وجوہ مشہورہ کا انتخاب کرکے اپنے لیے جداجدا قراء ات اختیار کرلیں اور اتباع رسم کے ساتھ اپنے اختیار کو احاد وغیر مشہور سے بچایا کیونکہ ان کے حق میں شذوذ و ضعف پیدا ہوگیا تھا نیز اقویٰ فی العربیت کابھی لحاظ رکھا۔
قرونِ ثلاثہ میں ان گنت قراء ات پڑھی اور پڑھائی جاتی تھیں اور تیسری صدی تک علماء و اَئمہ بتعداد مختلف قراء ات پڑھتے ، پڑھاتے اور روایت کرتے تھے، اور جب تیسری صدی میں سلسلۂ تصنیف و تالیف شروع ہوا تو ہرمصنف اپنی کتاب میں ان قراء ات کو بیان کرتا تھا جو اس کو بسند صحیح متصلہ پہنچتی تھیں، چنانچہ امام ابوعبید﷫ اور قاضی اسماعیل﷫ نے ۲۵۔۲۵ قراء ات بیان کی ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
باب پنجم: قراء ات میں کمی واقع ہونے کی وجہ
خیر القرون کے بعد سند کی طوالت نے جب اکثر لوگوں میں کسل پیداکردیا اوربعض کے ضبط و حفظ میں ضعف اور شوق و ہمت میں فرق آگیا تو علماء نے تعداد مروجہ میں کمی کردی۔ چنانچہ امام ابوبکر بن مجاہد مقری﷫ بغداد نے، جو اُس وقت دنیا اسلام میں امام الائمہ تھے، قراء ات مروّجہ میں سے بوجہ شہرت و کثرت وجوہ صحیحہ و موافقت رسم اور عربیت میں اَقویٰ ہونے کی بنا پراَئمہ سبعہ کو منتخب کرکے اُن کی قراء ات میں کتاب السبعہ تصنیف کی اور اس کے مطابق روایات و قراء ات پڑھانے لگے ۔ یہ پہلی کتاب ہے جس میں سبعہ پر اقتصار اور امام نافع﷫ کو باقی حضرات سے مقدم بیان کیاگیا ہے یہ امر منجانب اللہ ہے کہ اُن کو ان کے انتخاب کا دھیان آیا ورنہ بقول امام ابومحمد مکی ستر اَئمہ کی قرائات ان سے مقدم موجود تھیں اور اَئمہ ثلاثہ کی قراء ات کے برابر تھیں مگر امام موصوف﷫ کایہ اعتقاد ہرگز نہ تھا کہ ان کے سوا دیگر قراء ات شاذ یا غیر صحیح ہیں۔
اکثر أولوالعزم معاصرین نے امام موصوف کے اس عمل کو ناپسند کیااورسات کی تعداد پر تو خاص اعتراض تھا،مگر امام ابن مجاہد﷫ کی فقید المثال شخصیت و شہرت اور کتاب، سبعہ قراء ات کے رواج کا باعث بن گئی اور باقی قرائات کی تعلیم میں کمی آنے لگی۔پھر امام ابوعبداللہ قیروانی﷫،امام ابوالقاسم طرسوسی﷫ اور امام ابوالعباس﷫ مہدوی نے مشرق میں سبعہ کو اور مشہور کردیا۔
 
Top