• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تاریخ کے سنہرے اور تاریک ابواب کی داستان خلافت سے خلیفہ تک

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔​
درسفالیں کا ستہ رنداں بخواری منگوید
کیں حریفان خدمت جام جہاں میں کردہ اند
قدسیاں بےبہرہ انداز جرعہ کاس الکرام
ایں تطادل ہیں کہ یاعشتاق مسکین کردہ اتد
دوستو!۔ آج تلبیسات، تحریفات، تدلیسات اور تشکیات کے خارہائے واژگونہ نے حق ویقین کے چمنستانوں کو ڈھانپ کر بیک ظرف وزمان، دین اسلام کے صراط مستقیم پر گامزن قافلوں کے قلوب واذہان کو اشتراک وبدعات اور یاس وقنوطیت کے سراب کی بھول بھلیوں میں دھکیلنے پرپورا زور صرف کردیا ہے۔۔۔۔

حاملین علوم نبویہ نے یقین وحکمت کے ان سرچشموں سے جو نورنبوت سے مُستیز خلافت علی منہاج النبوۃ کے راحت بخش، سردارآور اور عدل واحسان کے ظل رافت ومودت کے سکون بخش سایہ میں چار دانگ عالم میں پھیلے ہوئے تھے صرف نظر بلکہ غض بصر کر کے بالک نظر انداز کردیا ہے۔۔۔

اور چند بدباطن، بدکردار، بداعمال، بدافعال اور بد نہاد وجودوں کی دسیسہ کاریوں کو جو لاکھوں بلکہ کروڑوں قلوب واذہان کو اپنی لپیٹ میں لے چکے تھے کی ہمنوائی کو عین اسلام سمجھ لیا ہے الاماشاء اللہ۔۔۔

بدکردار اغیار کی اس یلغار کے پاس علمی، عقلی، یا روایتی قسم کو کوئی متاع نہ تھی اور نہ ہے ان کے پاس صرف سائوی، چاپلوسی اور دنیوی مفاد کے ہتھیار تھے اور ہمارے حاملین جبہ ودستار ہندنشیناں منبرومحراب اور بزعم خویش ابرارواخیار نے ہمیشہ اپنے آپ کو آلیل روادی کی اصطلاح کے نقاب میں ان کے مالہ وما علیہ کے سمجھنے سے بلند رکھا کہ اشرار کی ہی پُرفن یکغار اندر ہی اندر کس طرح اماس ملت سے نور ایمان اور روح اسلام کا آخری قطرہ بھی نچوڑ لینے پر اپنی تمام تر توانائیاں داؤ پر لگائے ہوئے ہے۔۔۔۔

جن عباد الطوغیت کے ہاں الوہیت نذربدا، رسالت بے کار، قرآن محروف، صحابیت مجروح، اور امہات المومنین کی طہارت وعصمت داغدار ہو ایسے مشککین محجوبین، منافقین، مشرکین اور لااوریین سے اس اُمید پر گفتگو کہ یہ گروہ ضالین ومضلین راہ راست پر آجائے گا یا ان کے اعتراضات وشبہات جن کا منبع وسرچشمہ یونانیات، ملاحدات، مادیات، مجوسیات، یہودیات اور اسرائیلیات کے دفاتر و مقالات کا چربہ ہوں ان کے سامنے حق و یقین کی شاہرہ کی طرف رہنمائی نتیجہ خیز ثابت ہوگی؟؟؟۔۔۔ بالکل خام خیالی یا یوں کہیں دیوانے کا خواب ہے۔۔۔

اس لئے یہ جو کچھ بھی ہے اپنے ان خود فراموش فریب خوردہ بھولے بھٹکے ہم کیش وہم نواؤں کے لئے ہے جو ان بدنہاد ابالسی کے چکموں میں آکر اپنے وظائف کو بھول چکے ہیں اور یہ طواغیت وابالسہ؟؟؟۔۔۔

کہا جاتا ہے کہ دوا بیمار کو کھلائی جاتی ہے اگرچہ بحالت جانکنی ہو کیوں نہ، مگر ٹھنڈی لاش کو بقراط وجالینوس کی مسیحائیاں تو درکنار خود دست مسیحا سے زندگی کا لوٹ آنا ناممکن ہے۔۔۔

جن کی ذہنی توانائیاں نذرطاغوت عقل کی تمام پہنائیاں تلبس ابلیس کی بھینٹ چڑھی ہوئی ہوں پھر اُن سے افہام وتفہیم؟؟؟۔۔۔

جوہر طنیت آدم زحمیرد گراست
توتوقع گل کوزہ گراہ میداری

صم بکم عمی فھم لا یرجعون
فرزندان اسلام کا خالق، مالک رازق اور معبود ایک اور اس کے ملائکہ، کتابیں، رسول برحق تقدیر معاد حشر ونشر برحق مگر اچانک ایک آفت نے سرنکالا اور ہانک لگائی۔۔۔

رب سے جھوٹ کا صدور ممکن، یہ قرآن وہ نہیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تو سوچنے والا سوچے کے کہ بتلائیے باقی رہ کیا گیا؟؟؟۔۔۔

الیوم اکملت لکم دینکم کیا ہے۔۔۔
ورایت الناس یدخلون فی دین اللہ افواجا کا مطلب ہے؟؟؟۔۔۔۔
سب کچھ کیا کرایا، دھرا دھرایا رہ گیا اور اس کے بجائے تین چار قد آور شخصیتوں کے علاوہ سات آٹھ مجہول الاحوال قسم کے لوگ رب الوح والقلم، رب السموات والارض بنادیئے گئے اس دعوٰی کے مدعٰی خود ہی بتائیں اس تحقیق کے خالق اور محقق خود ہی فیصلہ کرلیں کہ ایسے عقائد کے حامل بھی اپنے اس دعوے میں کچھ صداقت رکھتے ہیں کہ ہم بھی مسلمان ہیں۔۔۔ قل ھاتو برھانکم ان کنتم صدقین۔۔۔

اور اپنوں کی طرف سے ہمیں وعظ پلائے جاتے ہیں کہ وہ اپنے ان دعوے میں صادق ہیں یا کاذب ان کو ان کےدین ومذہب میں سرمست چھوڑ دیا جائے مگر ایسے عقل سے پیدل ابن الدارہم والدینار ان باتوں کو کیوں بھولے جارہے ہیں کہ انہیں ان کی دنیا میں جب مست چھوڑا گیا انہوں نے کیا کیا گُل کھلائے جن لوگوں کے جبڑوں سے آج تک فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے خون کے قطر ٹپک رہے ہوں، جن کے پنجوں میں ابھی تک عثمان رضی اللہ عنہ کے گوشت کے لوتھڑے لٹک رہے ہوں جن کے خنجر ابھی تک علی رضی اللہ عنہ کے خود سے آلودہ ہوں جن کے نیزے حسین رضی اللہ عنہ کے قلب کو شگافتہ کرچکے ہوں جنہوں نے بغداد میں ایک کروڑ سے زائد فرزندان اسلام کو گھائل کیا ہو جن کے بےنیام تلواروں نے دہلی میں قتل عام کیا ہو جن کی دسیسہ کاریوں نے میسور کا جنازہ نکال کر فرنگی کی برات کے محمل کو کندھا دیا ہو جن کی عبادت کا مرکزی نقطہ امہات المومنین رضی اللہ عنھما پر دشنام طرازی اور سب صحابہ رضی اللہ عنھم ہو، جن کا مذہبی شعار پر فرض عظیم عائد ہوتا ہے بشرطیکہ اس کے دل میں ایک خشخش بھر ہی ایمان کی رمق ہو کہ مجوسی ویہود کے کاشتہ اس زہر آلود پودے کی مسموم فضاء سے فرزندان توحید کو بچایا جائے۔۔۔

مگر جب بعض داعیان حق نے اپنوں کی اس زہرآلود، متعفن اور کرب آلود فضا سے بچنے کی تلقین کی بنیاد ڈالی تو چند ایسے ہاتھ جو بظاہر اپنوں کے تھے مگر اس متعف کی آلودگیوں سے الشیطان من المس کے مصداق نور ایمان سے تہی ہوچکے تھے اور انہی کی سُرتال پر جھوم رہے تھے ایسے آڑے آگئے جو اپنوں میں ٹھن گئی اور ایسی ٹھنی کی داعیان حق بھی اپنے نصب العین کو بھول کر انہی اپنوں سے دست وگریباں ہوکر غیر محسوس انداز میں اپنی توانائیاں صرف کرنے میں مصروف ہوگئے اور نتیجہ یہ کہ وہ لوگ اپنے تخریبی مقاصد میں کامیاب ہوتے چلے گئے دور نہ جائیے۔۔۔

دورحاضر میں جبکہ اہلسنت اپنے عقائد وحقوق کے تحفظ سے غافل ہیں ردشیعیت کے سلسلے میں نہایت توجہ اور بہت کوشش کی ضرورت ہے اس حیثیت کی طویل عرصہ تاریخ شیعیت کا مطالعہ کیا جائے اور قدیم وجدید سنی وشیعہ مصادر کی روشنی میں ایسے مواد کو جمع کیا جائے جس میں شیعہ مذہب کا آغاز پس منظر، ان کے مختلف آئمہ اور فرقے، عہد بعہد ترقی، اسلام کش سرگرمیاں موذی اہلبیت کوشیشیں، دین میں بدعات، خلافت بنوامیہ، بنوعباس اور خلافت عثمانی اور سلطنت مغلیہ میں شیعوں کے کارنامے، اسماعیلی فرقہ کے عقائد اور شاخیں علویوں اور اموویوں کے تعلقات اور حادثہ کربلا وغیرہ بہت سے متنازعہ امور پر مورخانہ گفتگو کی گئی ہو۔۔۔

اہلسنت والجماعت پر شیعی اثرات کے ضمن میں کئی حقائق سے پردہ اُٹھایا گیا ہو مگر اس ساری محنت کو صرف دلچسپی کا سامان نہ سمجھا جائے۔۔۔

حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے خون کی سرخی سے اسلام کی صداق کی ایک ایسی ان مٹ مثال چھوڑی ہے کہ جسے اب دنیا محمود احمد عباسی، حیرت دہلوی اور فیض عالم صدیقی، جیسے لاکھوں یزید پیدا کری رہے اس کو مٹانہ سکے۔۔۔

نذر عقیدت
اس معلوم دنیا میں وہ وقت صرف ایک بار ہی آیا کہ چالیس لاکھ مربع میل پر مشتمل مذہب ترین انسانوں کی آبادی کا ملجاء وماوٰی ریگزار حجاز کا مرکزی مقام مدینہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم بنا، قیصر وکسرٰی کی ہزار سالہ عظیم الشان سلطنتیں صفحہ ارضی سے نیست ونابود ہوچکی ہیں معلوم دنیا کا ہر ادنٰی واعلٰی فرد وقت کے "شہنشاہ اعظم رضی اللہ عنہ" کی خوشنودی کے حصول کے لئے مدینہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا رُخ کئے ہوئے ہے وحدت دین، وحدت فکر وحدت اعمال کا یہ دور اپنی مثال آپ ہے امن، فراغت، آسودگی خوشحالی اور للہیت کا یہ عالم ہے کہ کوئی زکوۃ قبول کرنے والا نہیں ملتا گویا اسلامی عروج کا نقطہ انجام ہے اس عظیم الشان سلطنت کا شہنشاہ اعظم علم الٰہی ہیں "رحمھما بینھم ملا اعلٰی کی زبان میں فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اور ساکنین سطح ارضی کی زبان میں امیر المومنین کے لقب سے مقلب ہے حجاز کے بدو اسے عمر رضی اللہ عنہ کے نام سے پہچانتے اور جانتے ہیں۔۔۔

مجوسیت کا باطنی بغض، ناطق بالصدق والصواب خلیفہ دوم کو ابولولو کی شکل میں شہید کرچکا ہے جس سے متاثر ہوکر یہودیت عبداللہ بن سباء کی شکل میں پرپرزے نکال رہی ہے اشدء علی الکفار کی بجائے رُحمھما بینھم کی رافت، نرم دلی تواضع انکساری اور رحم نے مجوسیت اور یہودیت کو کھلم کھلا گٹھ جوڑ کا موقع دیا تو تمام سلطنت میں ان کی تخریبی سرگرمیوں نے ایک جال پھیلا دیا امیر المومنین کو خبریں پہنچیتی ہیں تو وہ سب کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔

مگر تخریبی عناصر مدینہ میں گھس کر قصر امارات کو گھیر لیتے ہیں یہ دیکھ کر تمام بزرگ ہستیاں عرض پرداز ہیں۔۔۔
امیرالمومنین حکم دیجئے کہ ان باغیوں کو بزورشمشیر مدینہ سے نکال دیا جائے۔۔۔

نہیں میرے بھائیوں!۔۔۔
امیرالمومنین جواب دیتے ہیں۔۔۔ میں نہیں چاہتا کہ میری ذات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر میں کسی انسانی جان کے ضیاع کا موجب بنے اور پھر اپنے طور پر چند نوجوان قصر امارت پر پہرہ دے رہے ہیں مگر باغی عقبی دیوار پھاند کر اس عظیم انسان کو شہید کردیتے ہیں۔۔۔ آپ کی شہات ملت اسلامیہ کا وہ المیہ ہے جو آگے چل کر جنگ جمل وصفین کے معرکوں میں ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں کی شہادت کا موجب بنا مگر شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کا یہ قصاص بھی کارکنان قضا قضاوقدر کے ہاں پورا نہ اترا اور ربع صدی تک تمام عالم اسلام خاک وخون میں تڑپتا رہا اور آج تک شیعہ سنی کی چپلقش کی صورت میں موجود ہے۔۔۔

تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے!۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ان تمام خصائص سے ہمہ صفت موصوف خلیفہ ہوئے آپ نے اڑھائی سال کی قلیل مدت میں منکرین زکوۃ، مدعیان نبوت، اور منافقین کا قلع قمع اس طرح کیا کہ آج ہم وہ حالات پڑھ کر حیران ہوجاتے ہیں واقعات اس حدتک سرکشی وطغیان، نافرمانی وبغا کی صورت میں امنڈ رہے تھے کہ مدینہ النبی کو گھیرے میں لے چکے تھے کہ کبار صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کی خدمت میں عرض کرنے پر مجبور ہوگئے کہ اسامہ رضی اللہ عنہ کا لشکر واپس بلالیا جائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور نبوت ورحمت کی نہج کا مکمل نقشہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت وحمت کا طرہ امتیار بنا رہا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد سطح ارضی کا وہ کامل ترین انسان خلعت خلافت کا جامہ دربر کئے نمودار ہوا کہ ایک طرف قادیہ اور یرموک میں دنیا کی دوبڑی سلطنیوں کا تختہ الٹا جارہا ہے اور دوسری طرف خلیفہ وقت ایک بدو کے چولہے میں پھونکیں مار مار کر آگ جالا رہا ہے اور ان کی بیوی بدو کی درد زہ میں مبتلا عورت کو خیمہ میں سنبھالے ہوئے ہے۔۔۔

اور جب اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو چالیس لاکھ مربع میل کا علاقہ ایک خوشحال اور فارغ البال سلطنت کی صورت میں پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔۔۔

اب خلعت خلافت کا جامہ شہید اعظم حضرت ذوالنورین رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی سے زینت افروز ہوتا ہے کہ سلطنت کی وسعت ملک میں فارغ البالی، نومسلموں کے جھمگٹے یہودیت، نصرانیت، اور مجوسیت کی ملی بھگٹ ملی بھگت سے اندر ہی اندر ایک آتش فشاں لاوا بن چکی ہے اور آخر خلیفہ ثالت رضی اللہ عنہ شہید کردیئے جاتے ہیں۔۔۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت تک خلافت کا انعقاد اور خلافت کی ذمہ داریوں سے عہدہ برائی غرضیکہ امورات سلطنت "خلافت علی منہاج النبوہ" کا جیتا جاگتا نمونہ تھا۔۔۔

حالات کی ستم ظریفی کہ اب خلافت کا جامہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی پہنایا جاتا ہے مگر صورتحال یہ ہے کہ سب سے پہلے قاتلین عثمان کا سرکردہ لیڈر اشترنخعی آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہے اور بیعت کے لئے آگے بڑھنے والے ہاتھ رک جاتے ہیں کبار صحابہ شش وپنج میں پڑجاتے ہیں تمام ملک میں پھیلے ہوئے اجل صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حیران رہ جاتے ہیں۔۔۔

ابن خلدون کہتے ہیں!۔
رہا علی رضی اللہ عنہ کا واقعہ تو لوگ عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے وقت مختلف شہروں میں تھے اور علی رضی اللہ عنہ کے بیعت کے وقت موجود نہ تھے ان میں سے بعض نے بیعت کی اور بعض نے توقف کیا تاآنکہ جمہور کا اجماع ہوجائے اور وہ کسی امام پر متفق ہو جائیں ان میں سعد رضی اللہ عنہ، سعید رضی اللہ عنہ، کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ، کعب بن مالک رضی اللہ عنہ، نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ، ابن عمر رضی اللہ عنہ، اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ، حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ، مسلمہ بن مخلد رضی اللہ عنہ فضامہ بن عبیدہ رضی اللہ عنہ غرضیکہ بڑے بڑے صحابہ کرام بیعت سے رکے رہے۔۔۔

ابن خلدون آگے چل کر لکھتے ہیں کہ ایسے حضرات کی رائے تھی ان کی بیعت منعقد نہیں ہوئی جو صحابہ اہل حل عقد تھے وہ دور دور بکھرے ہوئے تھے اور بہت تھوڑے اصحاب موقع پر موجود تھے بیعت اس وقت منعقد ہوتی ہے جب اہل حل وعقد متفق ہوجائیں آگے چل کر لکھتے ہیں کہ ان کے بعد کی صدی کے لوگوں نے اس پر اتفاق کرلیا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بیعت ہوگئی تھی اور تمام مسلمانوں پر اس کی پاسداری لازمی تھی اور یہ کہ رائے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی درست تھی نیز یہ کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ خطاء پر تھے خصوصا سیدنا طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنھم کیونکہ انہوں نے بقول بعض راویوں کے بیعت کرکے توڑ دی تھی (مقدمہ ابن خلدون صفحہ ١٥٠ طبع مصر المطبعہ الٰہیہ)۔۔۔

حالانکہ ابن خلدون کایہ قول غلط ہے کہ طلحہ رضی اللہ عنہ اور زیبر رضی اللہ عنہ نے بیت کرکے توڑ دی تھی بلکہ بعض روایات کے مطابق بیعت کی ہی نہیں تھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں کی اکثریت قاتلین عثمان کی تھی اور اسی وجہ سے کبار صحابہ رضی اللہ عنھم کی اکثریت اس معاملہ میں بالکل کنارہ کش رہی الغرض جنگ جمل اور صفین کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنے ایک لشکری کے ہاتھ سے جو بعد میں خارجی ہوگیا تھا شہید ہوگئے آپ رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ چھ ماہ سے کم عرصہ ہی میں تمام امورات سے دستبردار ہوگئے اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر کے گوشہ نشین ہوگئے اور تمام اُمت نے نہایت خوشی سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔۔۔

اسی موقعہ کے کسی من چلے نے یہ حدیث سفینہ رضی اللہ عنہ گھڑی جسے امام مسلم نے اپنی صحیح میں درج کیا کرکے دنیائے رفض کے ہاتھ میں ایک بہت بڑا ہتھیار تھما دیا۔۔۔

اس حدیث کے الفاظ ہیں خلافت تیس برس رہے گی اور پھر ملک ہوجائے گا۔۔۔
یاران طریقیت نے ہر دور میں تمام نصوص کے مقابلے میں اس حدیث کو حرف آخر کے طور پر پیش کرکے اس پر بےشمار عمارتیں کھڑی کیں یہاں تک کہ ابولکلام آزاد اور ابوالاعلی مودودی بھی اس تسامح کا شکار ہوگئے یا نسلی عصبیت کی بھینٹ چڑھ گئے گویا قیدزمانی ومکانی سے آزاد دین کو تیس برس کے زمانہ میں محدود کرکے رکھ دیا اور خیال نہ کیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت اگر ٤١ ہجری میں نہ ہوتی اور مزید چند برس زندہ رہتے تو خلفائے راشدین کے زمرے سے نکل جاتے یا اگر سیدنا معاویہ رضی اللہ کی بجائے اور کوئی جلیل القدر صحابی بن جاتے تو وہ بھی کھٹکنے بادشاہ ہوتے پھر یہ بھی دریافت طلب امر ہے کہ حضرت سفینہ رضی اللہ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی یا نہیں کی تھی اگر کی تھی تو کیا انہیں یہ حدیث یاد نہ تھی اور پھر انہوں نے کسی دور میں یہ حدیث بیان کیوں نہ کی؟؟؟۔۔۔ درائت کے علاوہ روایت کے لحاظ سے ابن العربی نے العصوام من القواصم میں اس حدیث کو غیر صحیح بتایا ہے اور فرمایا یہ کہ یہ بفرض محال یہ حدیث صحیح ہی سہی مگر نصوص صریحہ یعنی کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اجماع صحابہ رضی اللہ عنھم اور قیاس سب کے خلاف ہے یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ کیا صرف حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ کو ہی خلافت جیسے اہم مسئلے کا جمہور صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین سے ہٹ کر کوئی مخصوص علم دیا گیا تھا کہ خلافت تیس برس تک رہے گی (رسالۃ مشکورۃ المصابیح جلد ٣ پر فوائد غزنویہ پر ایک نظر میں یہ مفصل بحث موجود ہے)۔۔۔ پھر حدیث بیان کرنے سے کیا بہتر نہیں تھا کہ وہ خود حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو کہتے کہ تم خلیفہ نہیں ہو اس لئے تمہیں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت لینے کا حق حاصل نہیں عقلا ونقلا روایتا ورایتا غرضیکہ کسی صورت میں باور نہیں کیا جاسکتا کہ حضرت سفینہ رضی اللہ عنہھا نے یہ لفظ کہے ہوں رفض کی ہمنوائی میں حدیث سفینہ کو و خوب اچھالا گیا جو روایت ودرایت دونوں طرق سے قابل حجت نہیں مگر سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کا کہیں ذکر نہیں۔۔۔

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھرتی رہے گی حسکی دین اسلام کی پینتیس ال یا چھتین سال یا سینتین سال پس اگر ہلاک ہوں پس ان کا راستہ ہے ہلاکت کا اور اگر دین کا کاروبار ان کے لئے مضبوط ہوجائے تو ستر برس تک رہے گا کہا میں نے ستربرس اس وقت سے ہیں کہ باقی رہے گا اس وقت سے کہ گزرا فرمایا تمام ہوگا ابتداء اس وقت سے کہ گزرا (رواہ ابوداؤد)۔۔۔

اس حدیث کے واضع طور پر تین حصے ہیں۔۔۔ پہلاحصہ ٣٥، ٣٦، یا ٣٧ سال کا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معاہدہ یہود سے شروع ہوا یعنی جب اسلامی اسٹیٹ کی بنیاد رکھی گئی اور شہادت ذوالنورین رضی اللہ پر ختم ہوگیا۔۔۔ دوسرا دور یہ دور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا برائے نام خلافت کا دور ہے اور تیسرا سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت سے شروع ہوکر ١٠٥ھ ہشام تک پہنچا یہاں ایک بات اور ذہن میں رکھئے الخلاقہ بالمدینہ سیدنا ذوالنورین رضی اللہ عنہ پر ختم اور والملک بالشام سیدنا معاویہ سے شروع سیدنا حضرت علی تو کوفی میں تھے اس روایت کو ان روایات سے ملاکر دیکھئے جن کا مفہوم اس قسم کا ہے یعنی اکثر مواقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔۔ میں نے ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنھم نے فلاں کام کیا۔۔۔

سیدنان معاویہ رضی اللہ عنہ کا صحابی اور مجتہد ہونا مسلم ہے آپ نے بیس سال تک خلافت کے منصب سنمبھالے رکھا اور ہمیں کسی مقام پر اُن کے دورخلافت میں یہ جھول نظر نہیں آیا کہ ان سے کسی ایک فرقہ نے کسی ایک امر میں کسی ایک مقام پر بھی اختلاف کیا ہو جبکہ یہ نظر آتا ہے کہ جنگ جمل وصفین کے معرکوں کے بعد جو خلاء پیدا ہوگیا تھا اس کو کس طرح آپ نے پُر کیا خوارج جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کا موجب بنے تھے انہیں کس طرح حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نےختم کیا تاریخ اسلام کا یہ دور امن، فارغ البالی، خوشحالی، آزادی رائے میں اپنی مثال آپ تھا حتٰی کے حضرت عقیل رضی اللہ عنہ اپنے سگے بھائی حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ چھوڑ کر آپ کی مصاحبت قبول کرچکے تھے سیدنا حیسن رضی اللہ عنہ، سیدنا عبداللہ عباس بن جعفر رضی اللہ عنہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سیدنا محمدبن علی رضی اللہ عنہ ابی طالب اور دیگر اجلہ صحابہ دمشق جاتے رہتے تھے اور مہینوں وہاں قیام کرتے تھے۔۔۔

یہاں بعض اذہان نے افضل ومفضول کا مسئلہ تخلیق کرکے اس بحث کا ایک اور انداز میں ذکر شروع کرنے کی بنیاد ڈالی مگر ان عقل اور دیانت سے محروم لوگوں کو سمجھ میں یہ بات نہ آئی کے سیدنا علی رضی اللہ عنہ اگرچہ بےمثل عالم عارف، زاہد اور فقہہ ہونے کے علاوہ شجاعت، سخاوت، عزیمیت، خطابت اور جوانمردی میں ایک خاص مقام رکھتے تھے مگر یہ تمام مناقت وفضائل اور اخلاقی مکارم ان کی ذات تک ہی محدود رہے اس لئے آپ کی بیعت کے وقت جن لوگوں کی اکثریت آپ کے گرد جمع تھی وہ ایسے لوگ تھے جن کے کردار، جن کے اخلاق جن کی ذہنیتیں نہایت گھٹیا تھیں وہ لوگ خون عثمان رضی اللہ عنہ میں اپنے ہاتھ رنگ چکے تھے ان کی پیش نظر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی آڑ میں اُمت کو تباہ وبرباد کرنا تھا اور جو واقعی مخلص تھے ان کی رائے دب کر رہ گئی اور یہی وجہ تھی کہ سگا بھائی ساتھ چھوڑ ک الگ ہوگیا تھا۔۔۔

بخلاف آپ رضی اللہ عنہ کے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ کی پشت پر ایسی طاقت تھی جو مخالف اور تباہ کن تحریکوں کو سراٹھانے سے پہلے ہی اس کا سر کچل دینے کی طاقت اپنے اندر رکھتی تھی۔۔۔

جو لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کا موجب بنے جن لوگوں نے چھ ماہ کی قلیل مدت میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو خلع خلافت پر مجبور کیا وہی لوگ حضرت معاویہ رضی اللہ کی خلافت کے پرچم کے نیچے آتے ہی تمام چوکڑیاں بھول گئے ؟؟؟۔۔۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بڑی دور اندیشی، عقلمندی اور فراست سے تمام حالات کاجائزہ لے کر ہی امیر یزید رحمہ اللہ کی ولی عہدی کی بیعت لی اور جن لوگوں نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی انہوں نے بصدق دل امیر یزید رحمہ اللہ کی ولی عہدی کو قبول کیا۔۔۔

بیشک سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ، یا حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، یا حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو بھی نامزد کیا جاسکتا تھا مگر انہوں نے خود برضا ورغبت امیر یزید رحمہ اللہ کی ولیعہدی کو قبول کر لیا تو دوسروں کو اس میں کلام کرنے کا کیا حق ہے؟؟؟۔۔۔

بیس سال کامیاب خلافت کے بعد امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوگیا اور امیر یزید رحمہ اللہ کو خلیفہ بنے آپ مخالف وموافق تاریخوں کے تمام کونے کھدرے کھنگالئے اور ایڑی چوڑی کا زور لگا کر دیکھ لیجئے آپ کو صرف دو اشخاص کے علاوہ ایک فرد نظر نہیں آئے گا جس نے امیر یزید رحمہ اللہ کی بیعت نہ کی ہو اور ان دونوں نے بھی بیعت سے اس وقت صرف توقف کیا اور خود مدعی خلافت بعد میں ہوئے اور دونوں یعنی عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ حرم مکہ میں پناہ گزین ہوکر بیٹھ گئے۔۔۔

یہ ہے خلافت امیر یزید رحمہ اللہ اصل صورتحال جسے جبرو زور کہا جائے، یا سیاسی چال، مکر وفریب کہا جائے یا لالچ وتحریص لیکن قانونا اور شرعا اجماع تھا اور ان لوگوں کا اجماع جیسے میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کے جنھیں اللہ تعالٰی نے بہترین جماعت قرار دیا اور زمین پر اپنا گواہ بنایا۔۔۔

اور یہ وہ لوگ تھے جو اپنی اخلاقی جرات، ایمانی جوش، ثبات قلب، سیاسی اور ملی حمیت میں انسانیت کی ان اعلٰی اقدار کے مالک تھے کہ معمولی سی وجہ سے امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر مجتمع نہ ہوئے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ جیسے عابد الشجع علم وادب کے آفتاب پیکر شجاعت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لعاب دہن سے سیراب کا آپ کا ساتھ دینے سے الگ ہوگئے۔۔۔

انہیں یزید رحمہ اللہ کی ایسی کسی ہیبت نے مرعوب کیا کہ وہ اپنی تمام دینی استقامت سے دستبردار ہوکر اسے خلیفہ المومنین ماننے پر تیار ہوگئے پھر امارت یزید رحمہ اللہ اور اپ کی ولی عہدی کے درمیان دنوں یا مہنوں کا فاصلہ نہیں بلکہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت کے پورے ادوار میں تمام اُمت جانتی تھی کہ ہمارے ہونے والے خلیفہ یہی امیر یزید ہیں مگرکامل ان پورے سالوں میں سب کے سب خاموش ہے اور انہیں اس وقت امیر یزید رحمہ اللہ علیہ میں شراب نوشی، زناکاری اور دیگر فسق وفجور کا شمہ بھر نظر نہ آیا؟؟؟۔۔۔

اب کسی شرعی یا عقلی بنیاد پر کہا جاتاہے کہ امیر یزید کی خلافت پر تمام امت کا اجماع نہیں ہوا تھا ہم عصر اکابرین ملت انہیں نہایت زاہد، صوم صلوہ کا پابند شجاع ترین خلیفہ، علم وعمل کا پیکر اخلاص وایثار کا منبع جانتے اور سمجھتے تھے۔۔۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے امیر یزدی کے خلیفہ ہونے کے وقت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے لئے مغفرت کی اور فرمایا۔۔۔

ان فرزند (یعنی یزید رحمہ اللہ) ان کے گھر کے صالح افراد میں سے ہیں آپ لوگ اپنی جگہ پر بیٹھے رہیں اور اپنی اطاعت اور بیعت پر مستقیم رہیں (الانساب والاشراف بلاذری)۔۔۔

بلاذری المتوکل علی اللہ اور دیگر عباسی خلفاء کے ندیموں میں سے تھے اور عباسی خلفاء کے سامنے انہوں نے امیر یزید کو امیرالمومنین کے لقب سے ہی اپنی کتاب میں ذکر کیا مگر کسی عباسی خلیفہ نے انہیں نہ ٹوکا۔۔۔

حضرت نافع سے روایت ہے کہ جب اہل مدینہ کے چند افراد نے امیریزید رحمہ اللہ کی بیعت توڑ دی تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے متعلقین اور فرزندوں کو جمع کر کے فرمایا میں نے بنی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے کہ قیامت کے دن ہر عذر کرنے والے کے لئے ایک جنھڈا ہوگا ہم نے اس شخص (یزید رحمہ اللہ) سے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسل کی بیعت اور مجھے اس سے بڑا کوئی عذر نظر نہیں آتا کہ ہم ایک شخص سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کریں اور پھر اس کے خلاف لڑنے کھڑے ہوجائیں اگر مجھے ہوا کہ تم میں سے کسی نے اس کی بیعت توڑی ہے یا ہنگامہ میں کوئی حصہ لیا ہے تو پھر میرا اور اس کا کوئی تعلق نہیں رہے گا (صحیح بخاری کتاب الفتن)۔۔۔

حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ کے داعی عبداللہ بن مطیع اپنے ساتھیوں کے ساتھ محمد بن علی ابوطالب المعروف الحنفیہ کے پاس گئے اور کہا کہ یزید رحمہ اللہ شراب پیتا ہے نماز نہیں پڑھتا کتاب اللہ کے احکام کی پیروی نہیں کرتا آپ اس کی بیعت توڑ کر حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا ساتھ دیں تو آپ نے فرمایا!۔۔۔

میں کافی عرصہ امیر یزید رحمہ اللہ کے ساتھ رہا ہوں میں نے ان میں ایسی کوئی بات نہیں دیکھی میں نے انہیں ہمیشہ نماز کا پابند خیر کا متلاشی فقہ کا سائل اور سنت کا متبع پایا ہے عبداللہ بن مطیع رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ وہ صرف آپ کو دکھانے کے لئے ایسا کرتے تھے تو محمد بن ابن حنیفہ نے فرمایا انہیں مجھ سے کیا خوف تھا جو وہ میرے سامنے بندگی کا اظہار کرتے تم جو شراب کی بات کرتے ہو کیا انہوں نے تمہارے سامنے پی ہے اور تم خاموش رہے تو تم بھی اس گناہ میں برابر کے شریک ٹھہرے اور اگر چھپا کر پی ہے تو جس بات کا تمہیں علم نہیں اس کا بیان کرنا جائز نہیں یہ طویل گفتگو البدایہ والنہائی جلد ٨ صفحب ٢٣٣ اور العواصم میں القواصم میں موجود ہے اور اس بات کو بھی ذہن میں رکھئے کہ محمد بن علی بن حسین رضی اللہ کے بھائی اور یزید کا مفروضہ قاتل۔۔۔

بالکل یہی موقف تمام بنوہاشم کا تھا سیدنا علی رضی اللہ عنہ (زین العابدین) جو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے وارث اور والی الدم تھے سیدنا زید بن حسن رضی اللہ عنہ سیدنا حسن المثنٰی رضی اللہ عنہ بن حسن رضی اللہ جو کہ کربلا میں موجود ھ ان سب نے امیر المومنین یزید رحمہ اللہ کو اپنا بزرگ اور مربی سمجھا اُن کی بیعت پر مستقیم رہے اہل مدینہ کی بغاوت کی خبر سب سے پہلے انہوں نے امیر المومنین کو دی اور سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا ساتھ نہ دیا سیدنا علی زین العابدین نے کربلا کا تمام واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اگر وہ امیر یزید رحمہ اللہ کو اپنے والد کا قاتل سمجھتے تو ایسا ہرگز نہ کرتے۔۔۔

ان کے علاوہ سیدنا عمر بن ابی طالب سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہم سیدہ زینت کے شوہر سندنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہم بلکہ سب بنو ہاشم امیر یزید رحمہ اللہ کی بیعت میں تھے اور آخر تک سبائیوں کی فتنہ انگیزیوں سے الگ تھلگ رہے بلکہ ایک موقع پر سیدنا حسن المثنٰی نے سیدنا حسن بن سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایک رافضی سبائی کو کہا کہ بخدا اگر اللہ نے ہم کو تم پر قابو کا موقع دیا تو ہم تمہارے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالیں گے اور تمہاری توبہ قبول نہیں کریں گے امام ابن عساکر ٤\١٦٥ منقول از العواصم میں القواصم حاشیہ ١٨٥ بلکہ سیدہ زینب نے مدینہ کی نسبت اپنے اس نیک طبع داماد کے ہاں باقی زندگی گزار کر داعی اجل کو دمشق میں ہی لبیک کہا ان کا مزاز کچھ عرصے پہلے تک دمشق میں سلامت تھا۔۔۔

امیر یزید رحمہ اللہ سیدنا عبداللہ ابن جعفر کے داماد تھے سیدنا عبداللہ کی دختر کا نام اُم محمد تھا جو سیدہ زینب کی سوتیلی بیٹی تھیں بلکہ قرائن اس بات کے موید ہیں کہ وہ سیدہ کی سگی بیٹی تھیں۔۔۔

غرضیکہ امیریزید رحمہ اللہ کی خلافت پر اجماع امت نے اس حقیقت کو واضع کردیا کہ آپ خلیفہ برحق تھے اور اسی وجہ سے وہ تمام تحریکیں جو بنوامیہ کے خلاف وقتا فوقتا ابھرتی رہیں ظاہرا باطنا ہر طرح سے ناکام رہیں۔۔۔

اور یہ تحریکیں کیوں فنا نہ ہوتیں جبکہ اللہ تعالٰی کا واضح ارشاد ہے کہ۔۔۔
اے ایمان والوں تابعداری کرو اللہ کی اور تابعداری کرو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور ان کی تابعداری کرو جو تم میں حکم والے ہیں۔۔۔

محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ہر مسلم شخص پر امیر کی بات سننی اور اطاعت کرنی واجب ہے حکم اسے پسند یاناپسند بشرطیکہ معصیت کا حکم نہ ہو اگر معصیت کا حکم دیا جائے تو نہ سننا ہے نہ اطاعت کرنا (رواہ احمد عن عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ)۔۔۔

جس نے اطاعت کا عہد کرنے کے بعد توڑ دیا تو اللہ کے سامنے اس طرح حاضر ہوگا کہ اس کے پاس کوئی حجت نہیں ہوگی اور جو ایسی حالت میں مرگیا کہ اس کی گردن میں بیعت نہ ہو تو جاہلیت کی موت مرا (رواہ مسلم عن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ)۔۔۔

غرضیکہ اس قسم کی تصریحات کا احاطہ ایک طویل وقت کا متقاضی ہے۔۔۔
افسوس کے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کوفیوں کے چکمہ میں آکر مکہ سے روانہ ہوئے مگر حقیقت حال کے انکشاف کے بعد جب مقام کربلا میں فرمایا کہ مجھے اپنے ابن عم (امیریزید) کے پاس جانے دو تو جو کوفیوں کے وفد کے لوگ آپ کے ساتھ تھے انہوں نے حضرت حسین رضی اللہ کے اس اقدام میں اپنی موت کے سائے لہراتے دیکھ کر آپس میں فیصلہ کیا کہ ہمارے بچاؤ کی صرف ایک یہی صورت ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کو ختم کردیا جائے اور اپنے فیصلے کے مطابق حضرت حسین رضی اللہ عنہ پر ہلہ بول دیا امیر سعد نے ہی ہڑبونگ دیکھی تو لشکر کے کر پہنچ گئے مگر سیدنا حسین رضی اللہ معہ اپنے چند خاندان والوں کے شہید ہوچکے تھے غدار کوفی امیر ابن سعد کے ہاتھوں دراصل واصل بجہنم ہوگئے مگر آج تک کئی خود ساختہ مجدد اور مجتہدین بدطن اور کذاب رافضیوں کی روایات کے بل بوتے پر امیر یزید رحمہ اللہ کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا قاتل گردان کر انہیں جہنمی بنانے کی فکر میں اپنے آپ کو جہنم کا ایندھن بنانے کا سامان کررہے ہیں۔۔۔

امیر یزید رحمہ اللہ کی وفات کے بعد سیدنا عبداللہ بن زبیر پر بھی انعقاد خلافت نہ ہوسکا اور مرج راہط میں امیر مروان خلیفہ منتخب ہوگئے اور یہ سلسلہ خلافت سلطان عبدالحمید عثمانی تک چلتا رہا یہاں تک کہ اسی یہودی سازش کے ہاتھوں خلافت کا خاتمہ ہوا ۔۔۔

اقتباس حقیقت مذہب شیعہ!۔
آج ہر بصیرت سے کورا دیانت سے عاری، بظاہر علم وتحقیق کا مدعی مگر یہ باطن ضد اور عصبیت کا شیار یہی رٹ لگائے جارہا ہے کہ ظالم یزید رحمہ اللہ کے ہاتھوں مظلوم حسین رضی اللہ عنہ شہید کردیئے گئے۔۔۔
کیا کبھی کسی نے اس طرف بھی غور کیا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ ٩،١٠ ذی الحجہ کو مکہ سے روانہ ہو کر ٩ میل کا فاصلہ طے کرکے کس طرح یکم محرم کو کربلا پہنچے حقیقت یہ ہے کہ آپ نے یہ سفر تیس دن میں طے کیا اور ٩ محرم کو کربلا پہنچے اگر آپ کی روانگی کے بعد مکہ کے گورنر نے امیر یزید کو اطلاع دی تو مکہ سے دمشق کا سفر ١٨٠ میل کاہے جو ٣٧ دن میں قاصد نے طے کیا پھر امیر یزید رحمہ اللہ حکم لے کر قاصد نے دمشق سے کوفہ کا ٤٤٠ میل کا سفر ١٣ دن میں طے کیا پھر کوفہ سے ایک دن میں کربلا پہنچا اس حساب سے سفر میں اس کے ٥٠ دن صرف ہوئے جس سے صاف یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ قاصد کے کربلا پہنچنے سے ٢٠ دن پہلے شہید ہوچکے تھے اور قاصد کے کربلا پہنچنے سے ٧ دن پہلے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا کنبہ چارسو چالیس میل کا سفر طے کر کے دمشق پہچن چکا تھا اس زمانہ میں سفر کی منزلیں مقرر تھیں منزل سے ادھر یا ادھر جنگلوں یا صحراؤں میں قیام کرنا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔۔۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے مدینہ ہجرت ١١ دن میں کی تھی تین دن غار کے نکال دیں باقی سفر وہی ٣٠\٣٢ میل کا بنتا ہے مگر چند مجہول رافضیوں کی وضعی روایات نے آج بڑے بڑے نابغہ عصر کے ذہنوں کو تلپٹ کرکے رکھ دیا ہے۔۔۔
اسی طرح اس امر کی طرف بھی کیجئے کہ آج ہر شخص حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں کی تعداد ٧٢ بیان کرتا ہے مگر مشہور شیعہ فاضل آل محمد بحوالہ ملائے مجلسی محمد حسن قزدینی اور صاحب قمقام اپنی مشہور تصنیف تصویر کربلا میں ١٤٥ افراد کے نام لکھتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ ان میں سے ٩ زندہ بچ گئے تھے مشہور شیعہ مورخ مسعودی پانچ سو اور اس سے زیادہ بیان کرتا ہے ابوقاسم زیدی ہزار سوار سو پیادے اور پچاس دکاندار بیان کرتا ہے ملا باقر مجلسی کا بیان ہے کہ اس روز ٣٢ افراد ابن سعد کے لشکر یہ کٹ کر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل گئے تھے۔۔
واللہ اعلم۔۔۔
 

ضدی

رکن
شمولیت
اگست 23، 2013
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
275
پوائنٹ
76
اُف کردی آپ نے تو بھائی جی! اللہ تعالٰی دنیا اور آخرت میں کامیاب فرمائیں۔
 
Top