• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تبصرہ جات ماہنامہ رُشد قراء ات نمبر

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تبصرہ جات ماہنامہ رُشد قراء ات نمبر

حافظ محمد عبد اللہ​
[ ۱ ]

مکرمی ومحترمی جناب مولانا حافظ عبد الرحمن مدنی صاحب! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مجلہ رُشد کی خصوصی اشاعت ، قراء ات نمبر کے (تین حصے) ایک مستحسن اور عظیم علمی و تحقیقی اقدام ہے۔ جس میں بہت ساری ملکی وغیر ملکی قد آور علمی شخصیات کے بہترین مضامین نے رسالہ کی خصوصی اشاعت کو چار چاند لگا دیئے ہیں۔ اس کے مضامین و مقالہ جات صدیوں تک پڑھنے اور پڑھانے والوں کیلئے اہم مراجع کی حیثیت رکھیں گے۔ اس سے قبل اس موضوع پر اتنا عظیم الشان کام نہیں ہوا۔ اللہ احکم الحاکمین نے یہ توفیق ان کودی جن کا مسلک اللہ کا قرآن اور پیارے نبیﷺ کا فرمان ہے۔
اس رسالہ میں خصوصاً حجیت و حقانیت ِقراء ات پر ضخیم مضامین علمی خزینہ ہیں او راس میں منکرین قراء ات کو دندان شکن جوابات دیئے گئے ہیں۔ نیز سبعۃ احرف پرگراں قدر، وافر اور تحقیقی مواد جمع کیا گیا ہے۔ ہرمکتب فکر کے شناور اساتذہ قراء ات کے حالات زندگی کواحسن انداز سے موتیوں کی طرح پرو دیا گیا ہے۔ اسی طرح دیگر مضامین کی اہمیت بھی اپنی اپنی جگہ پر مسلّم ہے۔
الحمدﷲ ! نتیجہ قارئین کے سامنے ہے، اللہ تعالیٰ شرف قبولیت سے نوازے اور آپ کے لیے اور آپ کے قابل فرزندان جناب الدکتور حافظ حسن مدنی﷾، جناب القاری انس مدنی﷾اور جناب الدکتور القاری حمزہ مدنی﷾و دیگر معاونین و منتظمین کیلئے ذریعہ نجات بنائے۔ (آمین یا رب العالمین)
قاری محمد ادریس العاصم
صدر مدرّس مدرسہ تجوید القرآن، جامع مسجد لسوڑیوالی، لاہور
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
[ ۲ ]


ماہنامہ ’رُشد‘ لاہور کے قراء ات نمبر کے دوشمارے نظر سے گزرے ہیں۔ ان کے بارے میں کسی تبصرے کیلئے میں اَولاً یہ عرض کروں گا (مشک آنست کہ ببوید نہ کہ عطار بگوید) حضرت مولانا عبدالرحمن مدنی کی علمی کاوشوں کے تو ہم اوّل سے معترف ہیں مگر علم قراء ات میں (پدرنہ تواند پسر تمام کند) کا حقیقی مصداق عزیز القدر القاری المقری حمزہ مدنی نے جو تاریخی کارنامہ اَنجام دیا ہے اس کی تعریف کیلئے میں نے عملی قدم اس طرح اٹھایا کہ اپنے تلامذہ کو ان شماروں کو خریدنے کی ترغیب دی جہاں جہاں علم قراء ت سے متعلق کام ہورہا ہے وہاں اَحباب سے اِصرار کرکے ان شماروں سے اِستفادہ کی دعوت دی ہے۔
یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ علم قراء اتِ عشرہ متواترہ اور اس کے متعلقہ علوم پر اُردو زبان میں ایک بہت بڑا ذخیرہ ماہنامہ ’رُشد‘ کے ان نمبرات کے ذریعہ اَہل علم کے سامنے آگیا ہے۔ ہم طالب علموں کیلئے اس دور میں فن قراء ات کی پیاس بجھانے کیلئے آسان اور سہل الحصول ذریعہ ان رسائل میں موجود ہے ۔ تمام دینی مدارس بلا تفریق مسلک ومشرب اپنے مدارس ، لائبریریوں میں ان قراء ات نمبروں کو داخل فرمائیں۔ علم قراء ات پر یہ ایک موسوعہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان حضرات کی ان مساعی کو شرفِ قبولیت عطا فرمائیں۔ آمین!
ڈاکٹر قاری اَحمد میاں تھانوی،
نائب مہتمم جامعہ دار العلوم الاسلامیہ، لاہور
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
[ ۳ ]


نحمدہ و نصلی و نسلم علی رسولہٖ الکریم،أمابعد
!
ماہنامہ ’رُشد‘ قراء ت نمبر۲ کا چند چیدہ چیدہ مقامات سے مطالعہ کا موقع ملا۔ الحمدﷲ اِنتہائی مسرت ہوئی کہ تمام مضامین اِنتہائی محنت اور تحقیق کے ساتھ لکھے گئے ہیں اور علم قراء ت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس سلسلہ سے علم قراء ت کو کافی فائدہ ہوگا اور اس علم سے لوگوں کی دلچسپی بڑھے گی۔
قراء ات نمبر (۱) اور اب قراء ات نمبر(۲)، ان میں نہ صرف علم قراء ت کی تاریخ کو جمع کیا گیا بلکہ نبی پاکﷺسے لے کر آج تک اس علم کے تواتر کو بھی ثابت کیاگیا ہے۔ اس علم کی اَحادیث اور اہمیت کو بھی کافی پُراثر اَنداز میں اُجاگر کیا گیا ہے۔ اس دور میں جبکہ علم قراء ت پر مختلف اَطراف سے اعتراضات اٹھائے جارہے ہیں یہ کاوش اِنتہائی قابل تحسین او رلائق صد مبارکباد ہے۔ جو اعتراضات اٹھائے جارہے ہیں ان کے انتہائی محققانہ اَنداز میں جو جوابات دیئے گئے ہیں ان کو اگر اعتراضات اٹھانے بھی انصاف کا دامن تھام کر پڑھیں گے تو ان کے ذہن بھی بالکل صاف اور مطمئن ہوجائیں گے۔
اس تمام کاوش کا سہرا محترم جناب قاری حمزہ مدنی صاحب، ان کی ٹیم اور معاونین کو جاتا ہے، جنہوں نے نہ صرف اس ضرورت کو محسوس فرمایا بلکہ عملی طور پر قدم بھی اُٹھایا اور ماہنامہ ’رُشد‘ کے ذریعہ سے قراء ات نمبرز کا اِجراء فرمایا۔ اللہ تعالیٰ ان تمام اَحباب، جملہ معاونین کی علم قراء ات سے اس محبت کو قبول فرمائے اور مزید خدمت کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے۔ آمین! والسلام
قاری محمد برخوردار احمد سدیدی،
مہتمم جامعہ کریمیہ سدیدیہ، لاہور​
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
[ ۴ ]


محترم جناب ڈاکٹر حمزہ مدنی صاحب﷾ السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ
اُمید ہے کہ آپ بخیریت ہوں گے، حق تعالیٰ آپ کو اپنی حفظ واَمان میں رکھے۔ آمین
خلاصۃ المرام: اس وقت آپ کے رسالہ ’رشد‘ کے قراء ات سے متعلق دوشمارے بندہ کے پاس ہیں، حقیقت یہ ہے کہ اس وقت اِنکار قراء ات کا فتنہ جس طرح پھن پھیلائے کھڑا ہے، ان دو شماروں میں اس کی سرکوبی کی ایک عمدہ اور اچھی کاوش کی گئی ہے، جس طرح مستشرقین نے قرآن و حدیث میں طرح طرح کے بے سروپا شبہات پیدا کرکے ان کو بے وزن کرنے کی ناکام کوشش کی، اسی طرح مستشرقین کے پروردہ تمنا عمادی اور غامدی جیسے لوگوں نے قرائات متواترہ جیسی اُمت کی اِجماعی متاع پر نقب زنی کی کوشش ہے۔ لیکن حق تعالیٰ نے ان کے خیالات فاسدہ کو دور کرنے کا انتظام فرما دیا، تمنا عمادی کے ’دلائل‘ کا پول تو حضرت قاری محمد طاہر رحیمی﷫ نے ’دفاع قراء ات‘ میں اس طرح کھول دیا کہ ہر حقیقت شناس شخص کیلئے سرمۂ بصیرت بنا دیا ہے۔ فجزاہ اﷲ خیرا۔
دور ِحاضر میں غامدی جیسے کور چشموں نے پھر قراء اتِ متواترہ پربیہودہ اور بیجا اعتراضات کرکے خدام قرآن کی غیرت کو للکارا۔ الحمدللہ اس کے بھی ردّ میں قلم اٹھے، اور اِتمام حجت کیا گیا، ’رشد‘ کے یہ خصوصی شمارے اسی سلسلہ کی کڑی ہیں اور بحمدﷲ اس سے قراء ات کے متعلق ایک اچھا مواد یکجا ہوگیا ہے اور عربی مواد کا معتدبہ حصہ اُردو میں منتقل ہوگیا ہے، جس سے اُردو داں طبقہ مستفید ہوسکتا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ اس کے بعض مضامین سے اختلاف رائے کے باوجود مجموعی طور پر ایک اچھی کاوش ہے، حق تعالیٰ اسے اپنی بارگاہ میں شرفِ قبولیت بخشے اور مزید کام کی توفیق عطا فرمائے۔
جہاں تک بعض مضامین سے اختلاف رائے کا معاملہ ہے ان پر تفصیلی کلام پھر سہی، کہ ابھی بستر علالت پر ہوں، تاہم وہ مضمون جس میں آج بھی نئی قراء ات ترتیب دینے کا تصور (صدیوں سے اُمت کے اجماعی معمول کے خلاف) پیش کیا گیا ہے۔ خطرناک سمجھتا ہوں کہ اس سے ایک نئے فتنے کا ایسا باب کھلے گا جس کو بند کرنا تصور پیش کرنے والے کے بس میں بھی نہیں ہوگا، کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک فتنے کا دروازہ بند کرتے کرتے نئے فتنے کا دروازہ کھل جائے۔ اللھم وفقنا لما تحبّ و ترضی! والسلام
قاری عبدالملک شہزادہ
شیخ التجوید والقراء ات، جامعہ دارالعلوم، کراچی​
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
[ ۵ ]


ماہنامہ’ رُشد‘’قراء ات نمبر‘ (حصہ اوّل)
ماہنامہ ’رُشد‘ ایک علمی جریدہ ہے، جو پچھلے کئی برسوں سے میدان عمل میں ہے۔ اس کی بیس جلدیں مکمل ہوچکی ہیں۔ پیش نظر مجلہ قراء ات نمبر کا حصہ اوّل ہے۔ جس میں بیس کے قریب انتہائی اہم علمی مضامین شامل ہیں۔ یہ شمارہ ضخیم ہے اور۷۲۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ جس میں منکرین ِقراء ات کے باطل نظریات کی تغلیط کی گئی ہے اور ایسے مضامین کو بطورِ خاص شامل اِشاعت کیا گیا ہے، جن میں قراء ات کی حیثیت اور ان کے جواز کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں ڈاکٹر محمد اکرم چودھری کا مضمون اِنتہائی اہمیت کا حامل ہے، جس کا عنوان ’اختلافاتِ قراء اتِ قرآنیہ اور مستشرقین‘ ہے۔ جس میں آرتھر جیفری کے نظریات پر بحث ہے اور دلائل کے ذریعے ان کے نظریات کو غلط ثابت کیا گیا ہے۔اسی طرح دیگراہم مضامین کی فہرست اس طرح ہے:
٭ اَحادیثِ مبارکہ میں وارد شدہ قراء ت ٭ قرآن کریم کے متنوع لہجات اور ان کی حجیت
٭ متعدد قراء ات کو ثابت کرنے والی جملہ اَحادیث ٭ سبعہ اَحرف سے مراد اور قراء اتِ عشرہ کی حجیت
٭ قراء اتِ عشرہ کے اسانید اور ان کا تواتر ٭ قراء اتِ قرآنیہ کا مقام اور مستشرقین کے شبہات
مستشرقین کے نظریات کے علاوہ بعض مسلمان مفکرین بھی ہیں کہ قراء ات کے بارے میں ان کا ذہن پوری طرح صاف نہیں یا تو وہ مستشرقین کے نظریات سے متاثر ہیں یا پھر اختلافِ قراء ات کی اصل سے اُنہیں پوری شناسائی نہیں اور اُنہوں نے بھی اپنی تحریروں میں ایسے خیالات کا اِظہار کرنے میں باک محسوس نہیں کی، جن سے مختلف قراء ات کی اہمیت اور جواز پر تشکیک کا پہلو اُجاگر ہوتا ہے۔ ’رشد‘ کی موجودہ اِشاعت میں ایسے مفکرین کے نظریات پر دو مضامین اہم ہیں۔ پہلا ’منکر قراء ات تمنا عمادی کے نظریات کا جائزہ‘ از مولانا طاہر رحیمی﷫ جبکہ دوسرا مضمون ’قراء ات کے بارے میں اصلاحی اور غامدی کا مؤقف‘ ہے جو پروفیسر رفیق چودھری کے قلم سے ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اگرچہ ’رشد‘ میں شامل بیشتر مضامین نشر مکرر ہیں۔ یعنی ایسے ہیں جو پہلے سے طبع شدہ ہیں، لیکن ان تمام مضامین کو یکجا کرکے شائع کرنا اپنی جگہ بڑا اہم کام ہے۔ ہماری دانست میں ان موضوعات پر تحقیق و تفتیش کی مزید ضرورت ہے۔ ماہنامہ ’رشد‘ نے مذکورہ نمبر شائع کرکے اَہل علم کو اس بات کی تحریک دی ہے کہ وہ اپنے قلم کو جنبش دیں اور علمِ قرائات کے حوالے سے علم کے سمندر میں اتریں اور موتی تلاش کرکے لائیں تاکہ علم قراء ات جیسا مقدس علم پاکستان میں بھی اپنی جڑیں مستحکم کرسکے۔ جس کو کئی عشروں کی دھول نے دھندلا کر رکھا ہے۔
ماہنامہ ’رشد‘ کا مذکورہ قراء ات نمبر دراصل قراء اتِ سبعہ کا دفاع ہے اور ان لوگوں کے خیال کی تردید ہے جو سبعہ قراء ات کو اجتہادی اَمر خیال کرتے ہیں۔ حدیث مبارکہ کے الفاظ بڑے واضح ہیں: ’’أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف‘‘ اس فرمان رسول ﷺکی موجودگی میں اس بات کی گنجائش ہی باقی نہیں رہ جاتی کہ قراء ات کو اجتہادی کہا جائے بلکہ یہ اَمر مسلمہ ہے کہ جس طرح قرآن مجید کی عبارت منزل من اللہ ہے اسی طرح قراء ات بھی منزل من اللہ ہیں۔ بعض حضرات اس رائے کا اظہار کرتے ہیں کہ اگرچہ قرآن سبعہ اَحرف پر نازل ہوا لیکن حضرت عثمان﷜نے اپنے عمل سے تمام قراء ات کو ختم کرکے پوری اُمت کو ایک قراء ات پر اکٹھا کردیا۔ یہ خیال کم علمی کی بناء پر ہے۔ حضرت عثمان﷜صحابی رسول ہیں جبکہ سبعہ اَحرف کی سند رسول اللہﷺنے دی۔ کوئی بھی صحابی رسول اللہﷺ کی بات میں تبدیلی کرنے کا اختیار نہیں رکھتا۔ لہٰذا اس کو حضرت عثمان﷜ کی طرف منسوب کرنا بذاتِ خود غلط ہے۔ جہاں تک قرآن مجید کو جمع کرنے کا تعلق ہے تو یہ کام حضرت ابوبکر﷜ پہلے ہی کرچکے تھے۔ حضرت عثمان﷜ کا کارنامہ یہ ہے کہ اُنہوں نے قرآن مجید کو سبع اَحرف پر لکھوا کر جمع کیا۔ اس کا ثبوت اس بات سے بھی ملتا ہے کہ آذربائیجان اور آرمینیا کے مسلمانوں کے مابین جو تنازعہ مختلف قراء اتوں کی وجہ سے پیدا ہوا تھا ، ہر قبیلہ کسی ایک قراء ات کے مطابق تلاوت کرتا تھا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ صحابہ کرام اور تابعین حضرات نے عملاً ان قراء ات کو محفوظ رکھا۔ چونکہ ہر قبیلہ اپنی قراء ات ہی کو درست خیال کرتا تھا اور دوسرے قبیلوں کی قراء ات کو غلط قرار دیتا تھا، یعنی دوسری قراء ات کو غلط سمجھتا تھا۔ یہ اَصل غلط فہمی تھی، جس کی درستی کیلئے حضرت حذیفہ﷜ بن یمان نے حضرت عثمان﷜ سے بھی عرض کی۔ أدرک ھذہ الأمۃ براہ کرام اس اُمت کو سنبھالنے کا بندوبست کیجئے۔ ان الفاظ سے ہی پتہ چل رہا ہے کہ آرمینیہ اور آذربائیجان میں اسی فتنہ کے پیدا ہوجانے کا اَندیشہ تھا کہ کہیں سبعہ اَحرف ختم نہ ہوجائیں اور ایک ہی قراء ات باقی رہ جائے۔ لہٰذا اس کا تدارک ضروری تھا تاکہ رسول اللہﷺ کی وساطت سے منقول تمام قراء اتوں کی حفاظت کا بندوبست کیا جاسکے۔ چونکہ ہرقبیلہ اپنی ہی یعنی ایک ہی قراء ات کو درست خیال کررہا تھا، لہٰذا اس فتنہ سے بچانا مقصود تھا اور دیگر قراء ات کا منزل من اللہ ہونا باور کرانے کی ضرورت تھی اور سبعہ اَحرف کو محفوظ کرنا ضروری تھا۔ نیز یہ بات قیامت تک کیلئے ثابت کرنا مقصود تھی کہ قرآن صرف ایک قراء ات پر نہیں بلکہ سبعہ اَحرف پر نازل ہوا ہے۔ لہٰذا ان تمام احرف کی پاسداری ضروری ہے اور صرف ایک قراء ات کو تسلیم کرنا درست نہیں ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اَہل علم سے علمی و تحقیقی کام کروانا بذاتِ خود بڑا کٹھن کام ہے۔ علم تجویدو قراء ات کے حوالے سے یہ کام اور بھی دشوار ہے کیونکہ عموماً اس علم کے شناور حضرات قلم کاری سے عاری ہوتے ہیں اور قلم کاری کا تجربہ رکھنے والے قابل قدر حضرات اس علم کی قدر سے محروم ہیں۔ اس حوالے سے اس خالص فنی علم پر اہل علم سے تحقیقی مضامین لکھوانا یقینا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ تاہم ’رشد‘ کے ذمہ دار حضرات اس جوئے شیر کو لانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ انہوں نے علومِ قرآنی کے حوالے سے اس اَہم علم کو ماہنامہ ’رشد‘ کی شکل میں جمع کرکے انتہائی اَہم خدمت سرانجام دی ہے۔
یہاں اِس بات کا تذکرہ بھی اِنتہائی ضروری ہے کہ انسان کی ہر کوشش توفیق الٰہی سے ہوتی ہے۔ یہ بات بھی مسلّم ہے کہ کوئی بھی انسانی کوشش تمام تر کامیابیوں کے باوجود کامل و اکمل نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی شخص اپنی کوشش پر اتمام کا دعویٰ کرسکتا ہے۔ تکمیل و اتمام کی سند صرف اور صرف کلام الٰہی کو حاصل ہے۔ اس تناظر میں یہ کہنا بے جا نہیں کہ ماہنامہ ’رشد‘ کا مذکورہ نمبر اگرچہ بنیادی طور پر قراء ات کے دفاع میں شائع کیا گیا ہے لیکن عجب اتفاق ہے کہ اس میں بعض ایسی تحریریں بھی شامل ہیں، جن سے قراء ات کی تنقیص و تردید کا پہلو بھی سامنے آتا ہے یا ان میں متنوع قراء ات کی تردید میں مضبوط دلائل بھی مہیا ہوتے ہیں۔ مثلاً صفحہ ۳۴۵ پر ایک مضمون قواعد نحو پرقراء ات قرآنیہ کے اَثرات کے عنوان سے ہے۔ یہ مضمون ڈاکٹر نبیل بن محمد ابراہیم کا ہے جس کا اُردو ترجمہ سمیع الرحمن نے کیا ہے۔ اس کا ذیلی عنوان ’قراء ات قرآنیہ کے بارے میں نحویوں کا مؤقف‘ اس حوالے سے وہ لکھتے ہیں:
’’حقیقت یہ ہے کہ نحوی جتنا قراء ات قرآن کے بارے میں ایک دوسرے کا ردّ اور معارضہ کرتے ہیں، اتنا کسی اور علم میں نہیں کرتے، چنانچہ مختلف زمانوں میں قراء اتِ قرآنیہ اکثر نحاۃ کے اختلافات کا نشانہ بنی رہیں وہ انہیں کبھی غلط، کبھی ضعیف اور کبھی صحیح قرار دیتے رہے اور یہ اختلاف طویل ہوتا چلا گیا۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پھر مزید لکھتے ہیں: ’’قواعد نحو کا مطالعہ کرنے سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ بعض نحویوں نے قراء ات کی تردید کی ہے۔ خاص طور پر ان قراء ات کی جو نحوی اِعتبار سے مشکل و پیچیدہ ہیں اور اس تردید کا سبب اُن کا یہ نظریہ و عقیدہ ہے کہ قراء ات دراصل اختیارات قراء ہیں، جو ان کی ذاتی اِختراع ہیں نیز یہ رسول اللہﷺسے تواتر سے منقول نہیں ہیں۔ اس بات کی تائید ابن منیر کے اس قول سے بھی ہوتی ہے جو انہون نے زمخشری کے تعاقب میں آنے والے قول کے بارے میں اضافتوں کے درمیان فاصلہ کرنے والی ابن عامر کی قراء ات کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے:
’’وَکَذٰلک زَیَّنَ لِکَثِیْرٍ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ قَتْلَ أَوْلَادِھِمْ شُرَکَآؤُھُمْ‘‘ (الأنعام: ۱۳۷) اس آیت مبارکہ میں امام ابن عامرشامی لفظ قتل کو مرفوع اور شرکائھم کو اضافت کی وجہ سے مجرور پڑھتے ہیں۔ابن منیر نے کہا کہ یہ زمخشری کا ظن ہے اور ابن عامر نے اس قراء ت کو اپنی رائے سے پڑھا ہے۔‘‘
اسکے علاوہ املائی اغلاط نے ’رشد‘ کے حسن کو گہنا دیا ہے۔ کاش یہ اغلاط اتنے خوبصورت علمی اور تحقیقی مجلہ میں نہ ہوتیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ماہنامہ ’رشد‘ کی تیاری میں جلدبازی سے کام لیا گیا ہے۔ حتیٰ کہ فہرست مضامین تیار کرتے ہوئے بھی احتیاط کو ملحوظ نہیں رکھا گیا اور بہت سے مضامین کا فہرست میں تذکرہ سرے سے نہیں ہے۔ مثلاً صفحہ ۲۸۷ سے لے کر ۳۸۹ تک کے تمام مضامین کا فہرست میں ذکر نہیں ہے اور مضامین کے عنوانات حسب ذیل ہیں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) ’علم قراء ات اورقراء ات شاذۃ‘ یہ مضمون حافظ انس نضر مدنی کا ہے جو صفحہ ۲۸۷ سے لے کر صفحہ ۳۰۲ تک پھیلا ہے۔
(٢) ’قراء ات شاذہ تعارف اور شرعی حیثیت‘ یہ مضمون عمران ایوب لاہوری کا ہے جو صفحہ ۳۰۳ سے ۳۰۷ تک ہے۔
(٣) ’قراء ات قرآنیہ میں اختلاف کی حکمتیں اور فوائد‘ یہ مضمون ڈاکٹر ابومجاہد عبدالعزیز القاری کا تحریر کردہ ہے، جس کا ترجمہ قاری محمد حسین نے کیا ہے۔ یہ مضمون صفحہ ۳۰۸ سے لے کر ۳۲۱ تک پھیلا ہوا ہے۔
(٤) ’مسائل عقیدہ پر قراء ات کے اَثرات‘ یہ مضمون ڈاکٹر عبدالکریم ابراہیم صالح کا ہے جس کے مترجم قاری محمد حسین ہیں۔ یہ صفحہ ۳۲۲ سے لے کر صفحہ ۳۳۵ تک ہے۔
(٥) ’تفسیر قرآن میں قراء ات کے اَثرات‘ اس کے لکھنے والے ڈاکٹر نبیل بن محمد ابراہیم ہیں۔ ترجمہ محمد عمران اسلم کا ہے۔ صفحہ ۳۳۶ سے لے کر صفحہ ۳۴۴ تک ہے۔
(٦) ’قواعد نحو میں قراء ات قرآنیہ کے اَثرات‘ یہ مضمون بھی ڈاکٹر نبیل بن محمد ابراہیم کا ہے۔ مترجم سمیع الرحمن ہیں۔ یہ مضمون صفحہ ۳۴۵ سے لے کر صفحہ ۳۶۰ تک ہے۔
(٧) ’مسئلہ خلط قراء ات اور علمی تحریرات کا فنی مقام‘ یہ مضمون حافظ حمزہ مدنی اور قاری فہد اللہ مرادنے مل کر لکھا ہے۔ صفحہ ۳۶۱ سے شروع ہوکر صفحہ ۳۷۷ پر ختم ہوتا ہے۔
(٨) ’قرآن کریم کو قواعد موسیقی پر پڑھنے کی شرعی حیثیت‘ اس مضمون کو قاری فہد اللہ مراد نے لکھا ہے۔ صفحہ ۳۷۸ سے صفحہ ۳۹۱ تک پھیلا ہوا ہے۔
یہ تمام مضامین اپنے عنوانات کے اعتبار سے نہایت اہم ہیں لیکن فہرست میں ان آٹھ مضامین کا تذکرہ بالکل نہیں۔ ہم اَدب سے عرض کریں گے کہ ان مقامات کی نشاندہی سے ہرگزتنقیص مقصود نہیں، بلکہ حق تنقید کی ادائیگی میں انصاف برتنا ہے، تاکہ نقش ثانی میں احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے اور خوب سے خوب تر کی جستجو برقرار رہے۔
ہم ماہنامہ ’رشد‘ کے تمام کارپردازوں کو اس نمبر کی تیاری پرمبارکباد پیش کرتے ہیں اور بجاطور پر اُمید کرتے ہیں کہ یہ نمبر شائقین علم تجوید و قراء ات کے لیے خصوصا اور محققین کے لیے عموماً اِنتہائی گراں بہا نعمت ثابت ہوگا۔
نوٹ: اطلاعاً عرض ہے کہ ماہنامہ ’رشد‘ کا دوسرا حصہ بھی شائع ہوچکا ہے ۔ اس پر تبصرہ ان شاء اللہ ماہنامہ التجوید کے اگلے شمارے میں شائع کیا جائے گا۔ قارئین انتظار فرمائیں۔
پروفیسر ڈاکٹر قاری محمد طاہر، ایڈیٹر ماہنامہ التّجوید​

٭_____٭_____٭
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
[ ۱ ]


برصغیر پاک و ہندکو علوم و فنون کی ترویج و اِرتقاء میں خصوصی اَہمیت حاصل رہی ہے، یہاں کے علماء نے اَدب اور دیگر فنون میں معرکۃ الاراء یادگاریں ورثہ میں چھوڑی ہیں، مثال کے طور پر صاحب ’مشارق الأنوار‘ علامہ صغانی لاہوری﷫ (م۶۵۰ھ) ہی کو لیجئے جن کو اس مٹی نے جنم دیا اور مشرق وسطیٰ میں دوران قیام اُنہوں نے ’العباب الذاخر‘ جیسی لغت تصنیف کی جو ابن منظور افریقی﷫ (م۷۱۱ھ) کی ’لسان العرب‘ سے بھی کئی لحاظ سے بہتر تسلیم کی گئی ہے، اسی طرح شاہ ولی اللہ﷫ (م۱۷۶۳ء) سے لے کر تاحال علوم حدیث اور شروحاتِحدیث میں علماء برصغیر کی شاندار خدمات عالم عرب میں بھی اَہل علم کے لیے اَہم مراجع کی حیثیت رکھتی ہیں۔
برصغیر کی علمی شخصیات اور کارناموں کی تفصیل علي متقي الہندي کی ’الثقافۃ الإسلامیۃ في الہند‘، آزاد علی بلگرامی کی ’سبحۃ المرجان‘، عبدالحئ الحسنی کی ’نزہۃ الخواطر‘ اور ڈاکٹر زبید احمد کی عربی اَدبیات میں پاک و ہند کا حصہ، مترجم شاہد حسن رزاقی میں دیکھی جاسکتی ہیں۔
تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ برصغیر میں علوم القرآن میں سے بالخصوص علم القراء ات پر نسبتاً کم توجہ رہی ہے، اگرچہ علامہ رحمت اللہ کیرانوی﷫ (م۱۳۰۸ھ) اور ان کے بھتیجوں امام القراء قاری عبداللہ مکی﷫ (م۱۹۱۹ء) اور شیخ القراء عبدالرحمن مکی الٰہ آباد﷫ (م۱۹۳۰ء) کی مساعی جمیلہ سے قراء ات کی روایت اور شفوی حفاظت کا ہندوستان میں رواج ضرور ہوا، نتیجہ ہمارے یہاں جتنے مشاہیر قراء ہیں وہ تقریباً ان ہی حضرات کے تلامذہ اور سلسلہ میں سے ہیں، لیکن ملا علی القاری﷫ (م۱۰۴۱ھ) اور حکیم الامت مولانا اَشرف علی تھانوی﷫ (م۱۳۶۲ھ) کی تجوید اور قراء ات پر چند تصنیفات ’تنشیط الطبع‘، ’وجوہ المثانی‘ اور جمال القرآن وغیرہ، قاری ابومحمد محئ الاسلام کی ’شرح سبعۃ قراء ات‘ اور قاری فتح محمد صاحب﷫ کی ’القصیدۃ الشاطبیۃ‘ کی اُردو شرح ’عنایت رحمانی‘ اور ’کاشف العسر شرح ناظمۃ الزھر‘ قاری ظہیر الدین اعظمی کی إحیاء المعاني اور چند رسالوں کے علاوہ کوئی قابل ذکر بنیادی نوعیت کا مواد نہیں ملتا۔
 
Top