• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تبصرہ جات ماہنامہ رُشد قراء ات نمبر

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ایک اہم مضمون ’احادیث مبارکہ میں وارد شدہ قراء ات…ایک جائزہ‘ ڈاکٹر احمد عیسی المعصراوی کی کتاب القراء ات الواردۃ في السنۃ کی کل ۱۹۶ روایات میں سے ان ۲۶ منتخب احادیث کا اُردو ترجمہ ہے جن میں برصغیر پاک وہندمیں مروّجہ روایت ِحفص سے دیگر قراء ات کا فرق بیان کیا گیا ہے، یہ ترجمہ و انتخاب مجلس التحقیق الاسلامی لاہور کے رکن عمران حیدر نے کیا ہے، یہ مضمون اس لحاظ سے ایک منفرد کاوش ہے کہ اس میں حدیث سبعہ أحرف سے قطع نظر حدیث وسنت کی روشنی میںمتنوع نصوص سے ثبوت قراء ات کو موضوع بنایا گیا ہے، مختلف کتب احادیث میں قراء ات سے متعلقہ احادیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یا تو وہ نبی کریمﷺ کی طرف یا کسی صحابی کی طرف منسوب ہیں، ان میں سے کچھ قراء ات متواترہ بھی ہیں، کچھ احادیث صحیح اور کچھ ضعیف ہیں، مذکورہ احادیث باعتبار سند درجہ صحت کو پہنچتی ہیں، لیکن رسم عثمانی سے مطابقت نہیں رکھتی، کیونکہ کتب سنن ، قراء ات کی توجیہات بیان کرنے کے بجائے صرف جمعِ احادیث تک محدود رہتی ہیں، تاہم جن تین شرائط پر قراء ات کے قبول و رد کا مدار ہے مثلاً 1. وہ قراء ت صحیح سند سے مروی ہو۔ 2.رسم عثمانی کے موافق ہو اگرچہ احتمالا ہی ہو۔ 3. نحوی وجوہ میں سے کسی ایک وجہ کے موافق ہو۔
وہی قرآنی حیثیت سے معتبر قرار پاتی ہیں، ہمارے زمانہ میں جن قراء ات میں یہ تینوں شرائط پائی جاتی ہیں، وہ قراء اتِ عشرہ ہیں، جن کو پوری اُمت سے تلقی بالقبول حاصل ہے اور صدرِ اول سے لے کر آج تک تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ جب تک کوئی قراء ت نقل تواترسے ثابت نہیں ہو جاتی اس وقت تک نہ تو اسے مصحف میں لکھا جا سکتا ہے اور نہ ہی بطورِ قرآن کریم اس کی تلاوت کرنا جائز ہے۔ (ص۱۹ ملخصًا) مقالہ ہذا میں منتخب ۲۶ سورتوں کی احادیث ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی تخریج کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔
جامعہ لاہور الاسلامیہ کے بانی و سرپرست حافظ عبدالرحمٰن مدنی کا مضمون ’ قرآن کریم کے متنوع لہجات اور ان کی حجیت‘ بھی عام فہم انداز میں قراء ات کے مسئلہ کو سلجھانے میں انتہائی مفید بیان ہے، ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’ یہ مختلف لب و لہجے دیکھ کر بعض لوگ اشکال کا شکار ہو جاتے ہیں کہ کیا قرآن مجید میں بھی اختلاف ہے، حالانکہ یہ قرآن پاک کا اختلاف نہیں۔ آسان انداز میں یہ بات یوں سمجھئے کہ دنیا کی ہر زبان کی اندر لب و لہجہ کا اختلاف ہے۔ مثال کے طور پر آپ اردو زبان کو ہی لے لیں، اس میں ایک لفظ ہے ناپ تول، بعض لوگ اسے ناپ تول کہتے ہیں جبکہ بعض لوگ ماپ تول، اس کے علاوہ ایک لفظ سسر ہے، بعض لوگ اسے سسر اور بعض اسے خسر کہتے ہیں۔ انگریزی زبان کا ایک لفظ ہے شیڈول، بعض انگلش بولنے والے اسے شیڈول اور بعض سیکیجوئل کہتے ہیں۔ کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ ایک غلط ہے اور دوسرا صحیح۔‘‘ (ص ۴۱)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
’ احادیث رسول کی روشنی میں ثبوت قراء ات‘ فن قراء ات کی عالمی شہرت کی حامل مستند شخصیت علامہ عبدالفتاح القاضی کی تصنیف ’ابحاث فی القرآن الکریم‘ اور قاری صہیب میر محمد ی کی ’جبیرۃ الجراحات‘ سے ماخوذ ہے، ترجمہ قاری محمد صفدر کے ہاتھوں انجام پایا ہے، جس میں تقریباً نو احادیث مبارکہ کی روشنی میں مسئلہ قراء ت کو ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ متعدد وضاحتیں اور فوائد و تنبیہات شامل کی گئی ہیں، واضح رہے کہ اکثر روایات صحیح بخاری ، صحیح مسلم اور مسند احمد وغیرہ سے منقول ہیں۔
اگلا مضمون بھی قاری صہیب میر محمدی کی مذکورہ تالیف کی دو فصلوں کے اردو ترجمہ پر مشتمل ہے، جس میں ’قرائات کا ثبوت‘ اجماعِ امت کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے، یہ ترجمہ قاری محمد صفدر نے کیا ہے، اس مقالہ میں علامہ سیوطی ، قسطلانی، ابن جزری، ابن نجیم، علامہ زرکشی، امام طبری، ابو اسحاق زجاج، ابن خالویہ ، امام غزالی، امام خطابی، سبکیؒ اور دیگر﷭ کے اقوال سے قراء ات کی حجیت، ان کے تواتر اور قرآن ہونے کو مصرح کیا گیا ہے، امام ابو شامہؒ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ’’منزل حروف سبعہ میں سے کسی ایک کا انکار کرنے پر نبیﷺ نے کفر کا حکم لگایا ہے۔ (ص ۶۷)
تاریخ قراء ات کے حوالہ سے ’بر صغیر پاک وہند میں تجوید و قراء ات کا آغاز و ارتقاء‘ کے عنوان سے اہم تحریر شامل اشاعت کی گئی، یہ مضمون شیخ القراء قاری اظہار تھانوی ؒ کے افادات پر مبنی ہے، ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں انگریزوں کے مظالم کی تاب نہ لاتے ہوئے برصغیر پاک و ہند کے بعض معزز خاندانوں نے ہجرت کا منصوبہ بنایا، حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی ؒ نے تھانہ بھون سے اورردّ عیسائیت کے پاسبان حضرت مولانا رحمت اللہ کیروانوی ؒ نے کیرانہ سے اور جناب محمد بشیر خانؒ، انکے بڑے بھائی اور ان کے خاندان سمیت سترہ افراد نے ہندوستان سے مکہ معظمہ کی طرف ہجرت فرمائی، اللہ تعالیٰ نے علم قراء ات کی خدمت کیلئے ان افراد میں سے اکثریت کو قبولیت بخشی، ۱۸۷۶ء میں حاجی امداداللہ مہاجر مکی ؒ اور مولانا رحمت اللہ کیرانوی نے مل کر مکہ مکرمہ میں ’مدرسہ صولتیہ‘ قائم کیا، جناب محمد بشیر خانؒ کے تین صاحبزادے تھے: بڑا بیٹا عبداللہ، اس سے چھوٹا عبد الرحمن اور سب سے چھوٹا حبیب الرحمن تھا، بشیرخان نے مذکورہ تینوں صاحبزادوں کو مولانا رحمت اللہ کیروانویؒ کی سرپر ستی میں دیا، قاری عبداللہ نے مدرسہ صولتیہ ہی میں عظیم قاری ابراہیم سعد بن علی الازہری ؒ سے علم قرا ء ت سیکھا، قاری عبداللہ مکی ؒ کے دورانِ تدریس مولانا رحمت اللہ نے شیخ ابراہیم سعد سے کہا ’’میں سمجھتا ہوں کہ قاری عبد اللہ نے بڑی مہارت حاصل کر لی ہے، ہندوستان میں ان کی نظیر و مثال نہیں ‘‘ تو اس پر استادِ محترم شیخ ابراہیم سعد بن علی الا زھری ؒ نے فرمایا بل لا نظیر لہ في العالم یعنی اس وقت پورے عالم میں اس کی نظیر نہیں ہے، آپ حرم میں نمازِ تراویح پڑھاتے تھے، جناب بشیر احمد خان کے دوسرے بیٹے قاری عبدالر حمن نے اپنے بھائی قاری عبداللہ سے اس فن کو سیکھا اور مہارت تامہ حاصل کی، ایک دن مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ اور مولانا حاجی امدادا للہ مہاجر مکی ؒ نے باہم مشورہ کر کے متعدد علماء و صلحاء کی موجودگی میں دونوں بھائیوں عبداللہ اور عبدالرحمن کو بلابھیجا، مولانا رحمت اللہ نے دونوں بھائیوں (یعنی اپنے بھتیجوں)کو مخاطب کر کے فرمایا ’عبد اللہ کو تو میں یہاں مدرسہ صولیتہ کیلئے رکھتا ہوں اور عبدالرحمن تم کو حکم دیتا ہوں تم ہندوستان جا کر قرآن کی خدمت کرو اور تجوید و علوم قراء ات کی ترویج کرو، نیز مصری اور عربی لہجوں کی بھی تعلیم دو جن سے اہل ہند نا بلد ہیں، (ص۷۳) چنانچہ آپ ہندوستان پلٹے اور جامع العلوم کانپور میں تدریسی سرگرمیوں میں مصروف رہے، یہاں آپ سے بہت سے لوگوں نے فیضِ علمی پایا، جبکہ تیسرے فرزند قاری حبیب الرحمن تھے، جنہوں نے اپنے بڑے بھائی قاری عبداللہ سے فن قراء ات سیکھا، انتہائی پرکشش آواز پائی، مدرسہ صولیتہ میں تدریس اور حرم میں قرآن سناتے رہے، لکھنؤ میں مدرسہ عالیہ فرقانیہ میں بھی تدریسی فرائض سر انجام دئے، اس دور میں قاری محمد حسن ؒ سے استفادہ کیا، اس طرح یہ خانوادہ ہندوستان میں علم قراء ات و تجوید کو مستقل بنیادوں پر پھیلانے کا سبب بنا، دوسرا خاندان علی گڑھ کے معزز فرزند جیون علی ؒ کے دو بیٹوں عبد الخالق اور چھوٹے بیٹے عبد المالک پر مشتمل تھا، یہ دونوں بیٹے مدرسہ صولیتہ میں پڑھتے رہے اور روایت حفص کی تکمیل کے بعد وطن واپس تشریف لائے، دونوں نے مدرسہ تجوید القرآن سہارنپور میں تدریسی فرائض سر انجام دیئے ، قاری عبد الخالق ؒکے نامور تلامذہ میں سے قاری اظہار احمد تھانوی ؒ بھی شامل ہیں، جبکہ استاذ القراء قاری عبد المالک نے ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں میں تدریس فرمائی، ہندوستان تشریف آوری کے بعد انہیں مدرسہ تجوید القرآن سہارنپور میں تدریس علم تجوید و قرا ء ات کی دعوت دی گئی جسے آپ نے بخوشی قبول فر مایا، یہیں دوران محفلِ قراء ات مولانا اشرف علی تھانویؒ جلسہ میں تشریف فر ما تھے، قاری عبدالمالک کی تلاوت سننے کے بعد خوشی کا اظہار کیا اور درخواست کی کہ آپ میرے ہاں امداد العلوم تھانہ بھون میں علم تجوید و قراء ات میں خدمت سر انجام دیں، آپ کی پانچ یا پندرہ روپے تنخواہ مقرر ہوئی، آپ کی خدمات سے تھانہ بھون میں اس علم کو کافی فروغ ملا ، قاری اظہار احمد تھانویؒ نے آپ سے خوب استفادہ فر مایا ، قاری صاحب نے جامعہ اشرفیہ نیلا گنبد، دار العلوم اسلامیہ لاہور، مدرسہ تعلیم القرآن مکھڈ(کیمل پور)، مدرسہ تجوید القرآن مسجد چینیانوالی اہلحدیث لاہور میں فیض رسانی کرنے کے بعد ۱۹۸۱ء میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں ایسوسی ایٹ پروفیسر متعین ہوئے، آپکے نامور تلامذہ میں قاری یحییٰ رسو لنگر ی ، قاری محمد ادریس عاصم اور قاری احمد میاں تھانوی وغیرہ شامل ہیں ، آپ نے اس فن پر متعدد کتب بھی تالیف کیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
علم تجوید و قراء ات میں اہل ِ حدیث قراء کے کردار کے حوالے سے حافظ میاں نذیر حسین محدث دہلویؒ ، حافظ محمد لکھویؒ، مولانا عبد الستار دہلویؒ، مولانا ثناء اللہ امر تسریؒ، مولانا میر سیالکوٹی ؒ، نواب صدیق حسن خانؒ اور حافظ محمد گوندلویؒ وغیرہ معروف حیثیت رکھتے ہیں، عصر حاضر میں اس فن کی اشاعت و ترویج کے حوالے سے اہل حدیث قراء کرام میں قاری محمد یحییٰ رسولنگری، قاری محمد ادریس عاصم ، قاری عزیر احمد اور قاری ابراہیم میر محمدی کے نام قابل ِ ذکر ہیں، غرض یہ مقالہ بر صغیر میں علم قراء ات کی ترویج و اشاعت کے ضمن میںایک عمدہ تعارفی دستاویز ہے، مناسب ہوتا اگر مولانا محمد صدیق ارکانی کا مقالہ ’ بر صغیر پا ک و ہند کے قراء کرام کی سندات‘ بھی ترتیب کے اعتبار سے ما سبق مقالہ کے ساتھ طبع ہوتا، جس میں واضح کیا گیا ہے کہ سلسلہ سند ِ حدیث کی طرح سند قرآن بھی موجود ہے اور اس ضمن میں شیخ المشائخ قاری محی الاسلام پانی پتی ؒکی تالیف’شجرۂ قراء ات سبعہ‘ یعنی قراء سبعہ کی اسانید، شیخ القراء قاری اظہار احمد تھانوی کی ’شجرۃ الاساتذہ ‘ اور مرزا بسم اللہ بیگ کی تالیف’تذکرہ قاریان ہند‘ وغیرہ سے مدد لیتے ہوئے فاضل مقالہ نگار نے بر صغیر پاک و ہند کے قراء کرام کی تین سند یں تیار کی ہیں اور آخر میں چند مستند مشائخ قراء ات کے تلامذہ کی فہرست بھی دے دی ہے تا کہ موجودہ دور کے ہر قاری قرآن کیلئے اپناسلسلہ متعین کرنا آسان ہو، یہ مضمون اپنی افادیت کے اعتبار سے اس لحاظ سے وقعت کا حامل ہے کہ متواترطریق پر قراء ات کا وجود آنحضرت1 تک پوری حفاظت کے ساتھ پیش کی جا سکتا ہے گو اس قدر عظیم تواتر میں سند کا اہتمام ضروری نہیں رہتا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حدیث سبعہ أحرف کے حوالے سے تین مقالات اس مجلہ کی زینت ہیں،پہلا مقالہ مدینہ یونیورسٹی کے شعبہ کلیۃ القرآن کے سابق سر براہ شیخ عبد العزیز القاری﷾ کا ہے جس میں انہوں نے قرآن کی متعدد قراء ات کو ثابت کرنے والی حدیث سبعہ أحرف کے متواتر ہونے کو مبرھن کیا ہے، نیز اس کی مختلف اسانید اور متون کی ترویج کرنے والے محدثین کا ذکر کیا ہے، اس حوالے سے دوسرا مضمون ڈاکٹر مفتی عبد الواحد صاحب کا ہے جس میں ڈاکٹر صاحب نے سبعہ أحرف کی مراد کی تعین اور قراء ات عشرہ کی حجیت کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے، خاص طور پر صحت ِ قراء ات کیلئے جو ضابطہ متقدمین سے طے چلا آرہا ہے اُس پر متاخرین کا یہ اعتراض کہ اس میں تواتر روایت کو شرط قرار نہیں دیا گیا لہٰذا قراء ات کو متواتر کیو نکر کہا جا سکتا ہے؟ کے جواب میں علامہ زرقانی ؒکا قول مناھل العرفان سے نقل کیا گیا ہے، جس میں ہے کہ ’’مقبول قراء ات کے بارے میں (ضابطہ کے) یہ تین ارکان علم قطعی کا فائدہ دینے میں تواتر کے مساوی ہیں، اس مساوات کا بیان یہ ہے کہ مصحف کے اندر (کتابت شدہ صورت میں) جو کچھ ہے اس پر سب سے بہتر زمانہ یعنی صحابہ کے زمانہ کے ائمہ کا تواتر اور اجماع تھا، پھر جب کسی وجہ کی روایت کی سند صحیح ہو تو قواعد لغت اور مصحف متواتر کی رسم کے ساتھ موافقت روایت کے علم قطعی کا فائدہ پر قرینہ بن جاتی ہے، اگرچہ روایت احاد میں سے ہو، نیز یہ بھی مت بھولو کہ علم حدیث میں یہ بات طے شدہ ہے کہ قرائن کے ہوتے ہوئے خبر واحد علم قطعی کا فائدہ دیتی ہے، گویا مصحف کے متواتر وثقہ بننے سے بیشتر تو سند میں تواتر کوطلب کیا جا سکتا تھا لیکن متفقہ مصحف کے وجود کے بعد روایت کی صحت و شہرت ہی کافی ہے جبکہ وہ رسم خط اور عربی زبان کے موافق ہو۔‘‘ (ص ۱۳۷)، اس موضوع پر تیسرا مضمون مفتی تقی عثمانی صاحب کی معروف کتاب علوم القرآن کے باب سوم سے ماخوذ، شامل اشاعت ہے، ہمارے مطالعہ کی حد تک غالباً یہ تحریر اس موضوع پر اردو زبان میں سب سے جامع تحریر ہے، مفتی صاحب موصوف کے نزدیک سبعہ أحرف کی سب سے بہتر تشریح اور تعبیر یہ ہے کہ حدیث میں حروف کے اختلاف سے مراد قراء توں کا اختلاف ہے اور سات حروف سے مراد، اختلافِ قراء ات کی سات نوعیتیں ہیں، گو ان سات نوعیتوں کی تعیین میں محققین حضرات کے اقوال میں تھوڑا بہت فرق ہے کیونکہ ہرایک نے قراء ات کی انواع کا استقراء اپنے طور پر الگ الگ کیا ہے، ان میں جن صاحب کا استقرء سب سے زیادہ منضبط، مستحکم اور جامع ومانع ہے، وہ امام ابو الفضل رازی ؒ ہیں۔ (دیکھئے ص ۱۴۶)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
’مروجہ قراء ات قرآنیہ اور مطبوع مصاحف کا جائزہ‘ کے عنوان سے قاری محمد مصطفٰی راسخ، رکن مجلس التحقیق الاسلامی، لاہور کا اہم مقالہ ہے، اس میںروایت حفص کے علاوہ ورش، قالون اور روایت دوری پر مشتمل مختلف اکنافِ عالم سے چھپے ہوئے مصاحف کے نمونہ جات پیش کرتے ہوئے اس حقیقت کو ظاہر کیا ہے کہ ہمارے دیار میں بھی قراء ات کے طلبہ جب مذکورہ روایات کو ادا کرتے ہیں تو ان روایات سے سر مو فرق نہیں آتا ، جس سے حفص کے علاوہ دیگر روایات کا تواتر ثابت ہو تا ہے۔
ڈاکٹر حافظ حمزہ مدنی سلمہ کا مضمون ’تعارف علم قرا ء ات … اہم سوالات و جوابات‘ آسان اسلوب میں قرا ء ات سے متعلقہ اہم اور پیچیدہ مباحث کے حل پر مشتمل ایک وقیع مقالہ ہے، اس مضمون کو پڑھنے سے ایک عام قاری بھی اس مشکل فن کی تاریخی مباحث سے واقف ہو سکتا ہے۔ متقدمین میں مکی ابن ابی طالب القیسی کی کتاب ’الابانۃ عن معانی القراء ات ‘ بھی اسی اسلوب کی حامل ہے، یہ اسلوب زیادہ مفید اور قابل فہم ہے ، راقم کے خیال میں اس مضمون کو اس شمارہ کے اولین تعارفی مضامین میں شامل ہونا چاہئے تھا، الغرض یہ مقالہ اس پورے شمارے کا مرکزی اور بیش قیمت حصہ ہے جو بطور قسط اول شامل ہے۔ قسط دوم اگلے شمارے کا حصہ ہوگی، ہماری تجویز کے مطابق اس مقالہ کو کتابی صورت میںشائع کر کے مدارس وجامعات میں نصاب کا حصہ بنانے کی بھی ضرورت ہے ،البتہ اس کی کتابی صورت میں اشاعت سے قبل حوالہ جات و حواشی نیزتنقیح وتحقیق کا مزید اہتمام درکارہو گا، موصوف ایک جگہ قراء ات اور قرآن میں فرق بیان کرتے ہوئے انتہائی جامعیت سے لکھتے ہیں کہ ’قرآن کہتے ہیں ان الفاظ وحی کو جو منزل من اللہ ہیں اور قراء ات اسی قرآن کی خبر کو کہتے ہیں‘ (ص ۲۴۸) اس مقالہ میں قراء ات سے متعلق بیس اہم سوالات کے عمدہ جوابات دئے گئے ہیں، بقیہ چالیس سوالات کے جوابات اگلے شمارہ میں شائع ہو ں گے ۔
اگلا مضمون ’علم قراء ات اور قراء ات شاذہ‘ کے عنوان سے حافظ انس نضر مدنی کا تحریر کردہ ہے، جو اس سے قبل نومبر / دسمبر ۰۷ئکے ا سی مجلہ میں شائع ہو چکا ہے، قراء ات کے صحیح ہونے کیلئے جن تین ارکان کا ضابطہ قراء کے ہاں معروف ہے، اگر ان ارکان میں سے ایک رکن بھی رہ جائے تو وہ قراء تِ شاذہ کہلائے گی، قراء اتِ شاذہ کے چار معروف قراء ہیں: 1. حسن بصریؒ 2. ابن محیصن ؒ 3. یحییٰ ا لیزیدی ؒ 4. امام اعمش ؒ
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
شاذہ قراء ات کو نماز میں پڑھنا جائز نہیں ہے البتہ ان کا فائدہ تفسیر و فقہ میں مشاہدہ کیا جاتا ہے، تفصیل کیلئے اسلم صدیق صاحب کا مقالہ برائے ایم فل ’قراء ات شاذہ اور تفسیر و فقہ پر اثرات‘ مطبوعہ شیخ زاید اسلامک سنٹر، جامعہ پنجاب لاہور، ملاحظہ کیا جائے جو اس جیسے اہم موضوعات پر ایک عمدہ کاوش ہے، اس مضمون کے مندرجات بھی اس مقالہ سے خارج نہیں ہیں، اس سے اگلا مضمون بھی اسی موضوع پر حافظ عمران ایوب لاہوری کا تحریر کردہ ہے ، جو سابقہ مضمون سے مختلف نہیں، اچھا ہوتا کہ صرف اسلم صدیق صاحب سے ہی اس موضوع پر ان کے مقالہ سے انتخاب لے کر چھاپا جاتا ، وہ زیادہ جاندار مقالہ ہے۔
اگلا مقالہ ’قراء اتِ قرآنیہ میں اختلاف کی حکمتیں اور فوائد‘ کے موضوع پر جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے سابق سربراہ ڈاکٹر ابو مجاہد عبد العزیز القاری کے طویل مقالہ کے ایک حصہ کا اُردو ترجمہ ہے، قاری محمد حسین نے ترجمہ کیا ہے ، جو ایک عمدہ ترجمہ ہے، اختلافِ قراء ات کی حکمتوں اور فوائد میں سے قرآن مجید کے لفظ اور اس کے نقل کو اُمت پر آسان کرنا، اختلافی مذہب میں راجح کی وضاحت کرنا، دو مختلف اوقات کیلئے دو مخالف شرعی حکموں کی وضاحت اور مرادِ الٰہی کی تعین میں وہم دور کرنا وغیرہ شامل ہیں، اگلا مضمون بھی قاری محمد حسین کا ترجمہ کردہ ہے، جو جامعہ ازہر کے استاذ ڈاکٹر عبدالکریم ابراہیم صالح کا اہم مقالہ ہے، جس میں انہوں نے مسائل عقیدہ پر قرا ء ات کے اثرات کا جائزہ لیا ہے ، یہ مضمون توجیہات قراء ات کے ضمن میں مختلف آیات سے مسائل عقیدہ مستنبط کرنے میں ایک اہم کاوش ہے، اسی طرح اس سے اگلے مضمون میں تفسیر قرآن میں قراء ات کے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے، یہ مضمون ڈاکٹر نبیل بن محمد ابراہیم کا ہے جو اس موضوع پر کئی مقالات تحریر کر چکے ہیں، اس کا ترجمہ محمد عمران اسلم نے کیا ہے، اس مضمون میں قرآنی قراء ات کے علم نحو پر اثرات کا بھی تفصیلی مواد موجود ہے، واضح رہے کہ اس موضوع پر۱۹۹۶ء میں ریاض (سعودی عرب) سے شیخ محمد بن عمر سالم بازمول کا مقالہ ’القراء ات و اثرھا فی التفسیر و الاحکام‘ بھی دو جلدوں میں چھپ چکا ہے اور اس کے مندرجات بھی اس مضمون سے کافی مماثلت رکھتے ہیں، دلچسپی رکھنے والے حضرات کو بازمول صاحب کے مقالہ کی طرف مراجعت کرنی چاہئے، اس شمارہ میں قراء ات سے متعلقہ چنددقیق فنی مقالات کو بھی شامل کیا گیا ہے، ان میں مسئلہ خلط قرا ء ات اور علم تحریر ات کا فنی مقام خصوصیت سے قابل ذکر ہے، یہ مضمون حافظ حمزہ مدنی اور قاری فہد اللہ کی مشترکہ کاوش ہے، اس میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ قاری ایک قراء ت کی تلاوت کرتے ہوئے دوسری قراء ت میں داخل ہو سکتا ہے یا نہیں؟ عہد نبویﷺسے لے کر آئمہ ِ قراء ات کے زمانہ تک تو اختلاط قراء ات کے بے شمار دلائل موجود ہیں جن کے مطابق ماہرین ہمیشہ اپنے اختیارات (Selections) کے مطابق تلاوت کرتے رہے، ’’اس بات کی انتہائی سادہ دلیل یہ ہے کہ قرآن کریم کا نزول تو سات متعین اسالیب (سبعہ احرف) پر ہوا ہے،جبکہ وہ قراء ات جو امت میں بطور قرآن رائج ہیں وہ سات سے بڑھ کر دس (۱۰)، چودہ(۱۴)، بیس(۲۰) اور اسی(۸۰) وغیرہ کی تعداد میں معروف ہیں۔ دراصل قراء ات ثلاثہ ہوں یا قرا ء ات عشرہ، بیس قرا ء ات (روایات) ہوں یا اسی قرا ء تیں(طرق)یہ سب انداز تلاوت اختلاط سبعہ احرف کے نتیجہ میں وجود میں آئے، سبعہ احرف سے ایسے ترتیبات تلاوت(Sets) اگر سینکڑوں بھی تشکیل دے دئیے جائیں، بشرطیکہ وہ سبعہ احرف سے باہر نہ ہوں تو کوئی حرج کی بات نہیں۔ ‘‘ (ص ۳۶۷) غرض یہ کہ شروع زمانہ میں تو ہر کوئی سبعہ احرف سے ماخو ذ اپنی اختیار کردہ ترتیب سے تلاوت کرتا تھا اور یہ سلسلہ اس قدر وسیع تھا کہ بیسیوں صاحب اختیار آئمہ تھے جن میں قراء عشرہ بھی شامل ہیں، البتہ اب مسئلہ یہ ہے کہ آیا ان قراء ات عشرہ متواترہ میں جو ہم تک پہنچی ہیں ان کا آپس میں اختلاط جائز ہے یا نہیں؟اس بارے میں قراء کے ہاں دو آراء پائی جاتی ہیں، ایک گروہ جس میں امام سخاوی ؒاور قسطلانی ؒ وغیرہ شامل ہیں ان کے نزدیک ان قراء ات عشرہ میں اختلاط جائزنہیں ہے، جبکہ دوسرا گروہ جس میں امام ابو شامہؒ اور ابن حجر عسقلانی ؒ وغیرہ شامل ہیں، کے نزدیک اختلاطِ قراء ات جائز ہے، فریقین کے دلائل کا تجزیہ پیش کر کے مقالہ ہذا میں ایک معتدل موقف اختیار کیا گیا ہے، جس کے مطابق نہ تو علی الاطلاق ممانعت ہی صحیح موقف ہے اور نہ ہی جواز بلکہ فنی امور کی رعایت کرتے ہوئے خلط قراء ات میں باعتبار شریعت کوئی حرج نہیں اور جن اہل فن نے اس سے منع فرمایا ہے ان کے پیش نظر بھی بعض فنی اُمورہیں جن کی رعایت بہر حال ضروری ہے۔ (دیکھئے ص۳۶۱ تا ص۳۷۳ ملخصاً)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قار ی فہد اللہ کا مضمون ’ قرآن کریم کو قواعد ِموسیقی پر پڑھنے کی شرعی حیثیت‘ ایک عمدہ بحث ہے جس میں موسیقی کے قواعد کو باالاختیار تلاوتِ قرآنی میں استعمال کرنے کی مذمت اور عدمِ جواز کو احادیث رسولﷺ کی روشنی میں ثابت کیا گیا ہے، مصر میں قواعد موسیقی کو ’مقامات‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ ’’اکثر مصری قراء قرآن کریم کو قواعد موسیقی پر تلاوت کرتے ہیں اور مصر میں مقامات یعنی قواعد موسیقی پر قرآن کو پڑھنے کی باقاعدہ تعلیم دی جاتی ہے کہ قرآن کریم کو کس طرح موسیقی کی دھنوں پر پڑھا جائے۔ اس کی تعلیم کیلئے باقاعدہ درسگاہیں بھی قائم ہیں اور یہ مرض اس قدر بڑھتا جارہا ہے کہ اس کو انٹرنیشنل سطح پر انٹرنیٹ کے ذریعہ تعلیم دی جارہی ہے اور بعض ویب سائٹس باقاعدہ اس پر کام کر رہی ہیں۔ جب سے مصری قراء نے اپنے مبارک قدم ارض پاکستان پر رنجہ فرمائے ہیں، اس وقت سے یہ رجحان بڑھ رہا ہے، چونکہ وہ قواعد موسیقی (مقامات) کے مطابق تلاوت کرتے ہیں جس کا اندازہ وہ حضرات بخوبی کر سکتے ہیں جو ایسی محافل میں شریک رہے ہیں، مثلاً اپنے ہاتھوں اور انگلیوں کو ایک خاص انداز میں حرکت دینا جس طرح کوئی موسیقار پیانو بجاتے وقت کرتا ہے تو انکی دیکھا دیکھی ہمارے حقیقت سے ناآشنا قراء کرام مقامات پر پڑھنے کی کوشش شروع کردی ہے۔‘‘ (ص ۳۸۳) اس بحث میں راجح مؤقف وہی ہے جو حافظ ابن قیم الجوزیہ ؒ نے زاد المعاد میں بیان کیا ہے کہ قرآن کریم کو خوش ا لحانی اورسر لگا کر پڑھنے کی قسمیں ہیں: ایک وہ خوش الحانی جس کا طبیعت تقاضا کرتی ہے اور بغیر تکلف اور تعلیم زبان پر جاری ہوجائے یعنی جب طبیعت کو کھلا چھوڑدیا جائے تو مذکورہ خوش الحانی اور سر خود بخود ہی جاری ہوجائے تو یہ درست اور جائز ہے، اس میں تصنع اور بے جا تکلف کا عنصر بھی نہیں ہوتاجبکہ دوسری قسم وہ خوش الحانی اور سر ہے جس میں تکلف اور تصنع ہو اور طبیعت کے غیر موافق ہو اور اس میں موسیقی کے مخصوص اوزان کی بالاختیار پیروی بھی کی گئی ہو، سلف صالحین نے اسکو معیوب قراردیا ہے (مزیدتفصیل کیلئے دیکھئے: ص۳۹۱)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء ات کی حجیت اور ان کے استناد میں شبہات پیدا کرنے میں طبقہ مستشرقین اور چند مسلم متجد دین کا اہم کردار ہے، مستشرقین میں آرتھر جیفری نے قرآنی قراء ات میں تبدیلیوں اور اختلافات کے مسئلہ کو بہت اچھالا ہے ، خصوصاً اس کی کتاب Materials اور کتاب المصاحف کے شروع میں مقدمہ مستشرقین کے ہاں ایک منفرد حیثیت کا کام ہے، جیفری نے صحابہ اور تابعین سے منقول اختلافِ قراء ات کو مقابل نسخہ جات (Rival Codices) کے عنوان سے پیش کیا ہے اور تقریباً ۶۰۰۰ سے زائد اختلافاتِ قراء ات (ثانوی مصادر سے جمع کر تے ہوئے) تحریر کر کے قرآنی مرتبہ کو بائبل کے بالمقابل لا کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے، یہ اور اس طرح کے دیگر استشراقی غیرتحقیقی رویوں کی عکاسی ہمارے استاذ ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری کے مقالہ بعنوان ’اختلافِ قراء اتِ قرآنیہ اور مستشرقین… آرتھر جیفری کا خصوصی مطالعہ‘ سے ہوتی ہے، آپ کا یہ مضمون اصلاً انگریزی میں تھا، جو ۱۹۹۵ء میں AJISS میں Variant Readings of the Text of the Quran ... The Case of Arthur Jeffery کے عنوان سے طبع ہوا تھا ، یہ مضمون بلا مبالغہ اُصولی طور پر جملہ استشراقی شبہات کا جامع ردّ پیش کرتا ہے، یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جیفری کی آرا پر جس قدر بھی کام ملتا ہے وہ سب اسی آرٹیکل پرموقوف نظر آتا ہے مثلاً محب الدین سبحان واعظ کی کتاب المصاحف پر تحقیق اور میرے مقالہ ’اختلافِ قراء ات اور نظریۂ تحریف قرآن‘ مطبوعہ جامعہ پنجاب ۲۰۰۵ء میں جیفری پر بحث اسی مقالہ کو بنیاد بنا تے ہوئے کی گئی ہے، اردو ترجمہ علی اصغر سلیمی نے کیا جو فکر و نظر میں طبع ہوا تھا، یہ مضمون مصنف کی اجازت سے وہیں سے لے کر دوبارہ چھاپا گیا ہے، اس کے بعد مسلم متجددین اور قراء ات کے حوالے سے میرا مضمون طبع کیا گیا ہے جو کچھ تر میمات اور اضافوں کے ساتھ میر ی مذکورہ بالا کتاب سے ماخوذ ہے، استاذ قاری ابراہیم میر محمدی، قاری صفدر، قاری طاہر رحیمی مدنی ؒاور قاری محمد زبیر کے مقالات میں تمناعمادی، پرویز اور غامدی وغیرہ کے قراء ات کے بارے میں مؤقف کے نقائص بیان کئے گئے ہیں، یہ موقف جمہور قراء ومحققین کے رائے سے ہٹا ہواہے، اس خصوصی شمارہ میں ایک مضمون ’رسم عثمانی کی شرعی حیثیت اور تبدیلی سے متعلق فتاویٰ جات‘ کے عنوان سے بھی شامل اشاعت ہے۔ گو مضمون کے مندرجات علمی اور مفید ہیں، تاہم مقالہ نگار نے شروع سے آخر تک بہت سے مقامات حافظ سمیع اللہ فراز کی کتاب ’رسم عثمانی کی شرعی حیثیت‘ سے نقل کردئے ہیں اور چندمقامات پر فراز صاحب کے الفاظ کو معمولی ردّ وبدل کے ساتھ اپنے خیال کے طور پر بغیر حوالہ تحریر کیا گیا ہے، مثلا دیکھئے ص۵۵۳ کی عبارت ـ’’اس کتاب لاریب کی جمع وکتابت میں شکوک…‘‘ ’رسم عثمانی کی شرعی حیثیت‘ کے ص۴۲ پر ملاحظہ کی جاسکتی ہے، نیز بعض مقامات پر کتابِ مذکور کاحوالہ ضروردیا گیا ہے لیکن وہ ناقص اور غیر مکمل ہے، مثلاً ص۵۵۵ اورص ۵۶۱ پر جو عبارات موجود ہیں ان میںکتابِ مذکور کے ص ۲۹۳ اور ۲۹۴ سے مواد ماخوذ ہے، لیکن حوالہ نہیں دیا گیا۔ میری رائے میں یہ مضمون فراز صاحب سے طلب کیا جاتا تو اصل کے زیادہ قریب اور تفہیم کے اعتبار سے بھی زیادہ مفید ہوتا۔
شمارہ کے آخر میں ’علم تجوید وقراء ات کے متعلق رسائل وجرائدمیں شائع ہونے والے مضامین کا اشاریہ‘بھی ترتیب دے کرشامل اشاعت کیاگیا ہے، جو اہل علم کیلئے اس موضوع پر وسعت ِمطالعہ کی دعوت ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رُشد قراء ات نمبر (حصہ دوم)
’ماہنامہ رشد‘ کے قراء ات نمبر دوم کی اشاعت نہ صرف یہ کہ خاص اہل فن کیلئے مفید اور اہم علمی مقالات پر مشتمل دستاویزہے بلکہ یہ حصہ تو قراء ات کی اہم مباحث کی تفہیم کیلئے مبتدیوں کیلئے بھی یکساں طور پر کام کی چیز ہے۔
میں تو اس سلسلۂ اشاعت کو خیر دلیل علیٰ فن القراء ات سے تعبیر کروں گا۔ یہ شمارہ بھی سابقہ شمارے کی طرح متعدد پہلوؤں پر مشتمل ہے، البتہ بعض مضامین میں مباحث کا تکرار نظر آیا ہے جو شاید اتنے ضخیم کام میں لا بدی ہوتا ہے، مقالہ جات کی فہرست بھی مکمل طور پر ابتدا میں شامل کی گئی ہے جو قابل ِتحسین ہے۔
جہاں تک ان مضامین پر تبصرے کا تعلق ہے تو ہر مضمون کی ابتدا میں برادرِ عزیز جناب ڈاکٹر قاری حمزہ مدنی﷾ کے قلم سے تحریر کردہ تمہیدی وتعاروفی کلمات ہی ان پر جامع ومانع تبصرہ قرار دئیے جانے کے اہل ہیں، تاہم میری نظر میں چند قابل ذکر مضامین میں امام ابو عمرو حفص الدوری﷫(م ۲۴۶ھ) کی قراء ات النبیﷺ کا اردو ترجمہ ہے جو مرزا عمران حیدر نے کیا ہے۔ بقول ڈاکٹر حمزہ مدنی ’’اس کتاب کی تخریج وتحقیق کے سلسلہ میں دو محققین کے کیے گئے کام سے استفادہ کر کے حوالہ جات کی تکمیل کی گئی ہے، ان میں سے ایک تحقیقی کاوش تو جمہوریہ مصر کے حالیہ شیخ المقاری ڈاکٹر محمد عیسیٰ المعصراوی کی ہے، جبکہ دوسری تحقیق شیخ زاید اسلامک سنٹر پشاور یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر معراج الاسلام ضیاء نے فرمائی ہے (ص ۱۴) اس حوالہ سے یہ بھی واضح رہے کہ یہ کتاب ۱۴۰۸ھ میں ڈاکٹر حکمت بشیر یاسین کی تحقیق سے مکتبہ الدار، مدینہ منورۃ سے بھی شائع ہو چکی ہے، اسی سلسلہ میں ایک وضاحت اور بھی قابل ذکر ہے کہ علماء نے ایسی قراء ات جن کی نسبت آئمہ قراء ات کی طرف نہ ہو قراء ات النبیﷺسے منسوب کی ہیں لیکن اس سے ہرگز یہ مراد نہیں ہوتا کہ باقی آپﷺسے منقول نہیں۔ (تفصیل کیلئے دیکھئے محمد بن عمر سالم بازمول: القراء ات وأثرہا في التفسیر والأحکام ہامش ج۱ ص۱۹۹ ) اسی مصنف (امام دوری) کے بارے میں ابن جزری م۸۳۳ھ نے لکھا ہے کہ ’’یہ پہلا شخص ہے جس نے قراء ات النبیﷺ جمع کیں (غایۃ النہایۃ ۱/۲۵۵، مکتبہ الخانجی، مصر ۱۹۳۲ء)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دوسرا اہم مضمون پانی پتی سلسلۂ قراء ات کے عظیم استاد قاری محمد طاہر رحیمی مدنی کا مضمون ’کیا حدیث سبعہ أحرف متشابہات میں سے ہے؟‘ انتہائی اہمیت کا حامل ہے، یہ مضمون در اصل راقم کے استاذ حضرت مفتی سید عبدالشکور ترمذیؒ کی سوانح ’حیاتِ ترمذی‘ کیلئے قاری طاہر رحیمیؒ نے ایک تفصیلی تعزیتی مضمون کے ہمراہ ’ضیافت مدینہ‘ کے عنوان سے بھیجا تھا جس کے بارے میں انہوں نے لکھا کہ اسی عنوان سے اس کو ’حیاتِ ترمذی‘ کا حصہ بنایا جائے (میں نے اس مسودہ کو اس کی طباعت سے قبل اپنے استاد حضری مفتی عبد القدوس ترمذیؒ کے توسط سے دیکھا تھا) جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ لغت ِقریش جامع اللغات ہونے کی حیثیت سے سامنے آچکی تھی لہٰذا جملہ سبعہ احرف مصاحف ِعثمانیہ میں موجود ہیں۔
سبعہ احرف ہی کے حوال سے اہم نکات پر مشتمل قاری حمزہ مدنی کا سلسلہ وار مضمون ’تعارف علم القراء ات اہم سوالات وجوابات‘ بڑی خاصے کی چیز ہے، صفحہ نمبر ۳۳۵ تا ۳۵۱ خاص طور پر اس موضوع پر اہم سوالات پر روشنی ڈالنے کیلئے صرف کئے گئے ہیں، ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’کوئی بھی لغت ہو وہ متعدد لہجات، مترادفات اور اسالیب ِبلاغت وغیرہ کو شامل ہوتی ہے۔ تعددِ قراء ات کے ضمن میں موجود تقدیم وتاخیر، حرکات وسکنات، غیب وخطاب اور حذف وزیادت وغیرہ کے قبیل کے اختلافات بات کو سمجھانے کیلئے متعدد اسالیب بلاغت سے تعلق رکھتے ہیں، علمائے قراء ات کی اصطلاح میں اس قسم کے اختلافات کو ’فرش الکلمات‘ کے نام سے بیان کیا جاتا ہے، لہجوں کے اختلاف کی مثالوں کے ضمن میں امالہ وتقلیل، اظہار وادغام، مد وقصر اور ہمزہ قطعیہ میں تحقیق وتسہیل، نقل وابدال وغیرہ کو پیش کیا جا سکتا ہے، انہیں قراء حضرات فروش کے بالمقابل اصولی اختلاف کے عنوان سے بیان کرتے ہیں۔‘‘
مزید لکھتے ہیں: ’’عرضہ اخیرہ میں مترادفات کا اختلاف منسوخ ہوجانے کے بعد اب سبعہ أحرف کے ضمن میں جو اختلاف باقی بچا ہے وہ لہجوں اور اسالیب ِبلاغت کے اختلافات کی دو نوعیتوں پر مشتمل ہے۔‘‘ (ص ۳۳۰)
 
Top