• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تبصرہ دھاگہ "علل احادیث امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ"

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
اس قول کو امام ابو حنیفہ کے دیگر اقوال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں:
امام خطیب روایت کرتے ہیں: "أخبرنا ابن الفضل، قال: أخبرنا ابن درستويه، قال: حدثنا يعقوب، قال: حدثنا عبد الرحمن بن إبراهيم، قال: حدثنا أبو مسهر، وقرأت على الحسن بن أبي بكر، عن أحمد بن كامل القاضي، قال: حدثنا الحسن بن علي قراءة عليه، أن دحيما، حدثهم قال: حدثنا أبو مسهر، عن مزاحم بن زفر، قال: قلت لأبي حنيفة: يا أبا حنيفة، هذا الذي تفتي، والذي وضعت في كتبك، هو الحق الذي لا شك فيه؟ قال: فقال والله ما أدري لعله الباطل الذي لا شك فيه." مزاحم بن زفر کہتے ہیں کہ میں نے ابو حنیفہ سے پوچھا کہ آپ نے جو فتوی اور جو آپ کی کتب میں موجود ہے کیا وہ بالکل حق بات ہے جس پر کوئی شک نہیں؟ تو انہوں نے کہا: اللہ کی قسم میں نہیں جانتا، ہو سکتا ہے کہ وہ ایسا باطل کلام ہو جس پر کوئی شک نہیں ہو سکتا۔ (تاریخ بغداد: 15:544)

اس قول سے درج ذیل باتیں اخذ کی جا سکتی ہیں:
1- امام ابو حنیفہ نے اپنے نزدیک اصح ترین رائے کو اپنی کتب میں درج کر دیا اور اس پر فتوی دے دیا اور اس کے خطاء وصواب ہونے کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا، ہو سکتا ہے ان کی رائے صحیح ہو اور ہو سکتا ہے کہ غلط ہو۔
2- امام ابو حنیفہ اپنے فتوے اور رائے کو حتمی فیصلہ نہیں سمجھتے تھے کہ اس کے علاوہ سب باطل ہے۔
3- یہ معاملہ صرف رائے کا ہے حدیث کا ذکر اس قول میں نہیں ہے۔ یعنی جہاں تک رائے کا تعلق ہے تو ابو حنیفہ نے اپنے اجتہاد کی مطابق فیصلہ کر لیا اور اس کو وہ پتھر کی لکیر نہیں سمجھتے، بلکہ اپنی مخلص کاوش کے تحت اس پر عمل کرتے ہیں۔

چونکہ وہ اپنی رائے کو حتمی فیصلہ نہیں سمجھتے بلکہ وہ خود بھی انہیں شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو اس کا لکھے جانا بھی وہ پسند نہیں کرتے، چنانچہ خطیب روایت کرتے ہیں:
أخبرنا علي بن القاسم بن الحسن البصري، قال: حدثنا علي بن إسحاق المادرائي، قال: سمعت العباس بن محمد، يقول: سمعت أبا نعيم، يقول: سمعت زفر، يقول: كنا نختلف إلى أبي حنيفة ومعنا أبو يوسف ومحمد بن الحسن، فكنا نكتب عنه، قال زفر، فقال يوما أبو حنيفة لأبي يوسف: ويحك يا يعقوب، لا تكتب كل ما تسمع مني، فإني قد أرى الرأي اليوم فأتركه غدا، وأرى الرأي غدا وأتركه بعد غد. ابو حنیفہ نے ابو یوسف سے ایک دن کہا: افسوس ہے تم پر اے یعقوب، میری ہر چیز جو تم سنتے ہو اسے لکھی مت جاؤ کیونکہ میں آج ایک رائے رکھتا ہوں تو اگلے دن اسے ترک کر دیتا ہوں، اور اگلے دن ایک رائے رکھتا ہوں تو اس سے اگلے دن اسے ترک کر دیتا ہوں (ایضا)َ۔

یعنی امام ابو حنیفہ کو اپنے آراء پر مکمل اعتماد نہیں تھا اسی لئے بار بار ان میں ترامیم کیا کرتے تھے۔
اور یہی خیال ان کا اپنی حدیث کے متعلق بھی تھا، یعنی انہیں اپنی روایات پر مکمل طور پر یقین نہیں تھا کہ یہ صحیح ہیں یا غلط۔ گویا انہیں بھی اپنے ضبط پر شک تھا۔ اسی لئے وہ کہہ دیتے تھے کہ مجھے نہیں پتہ کہ یہ روایت صحیح ہے یا غلط، چنانچہ خطیب روایت کرتے ہیں:
أخبرني الخلال، قال: حدثنا محمد بن بكران، قال: حدثنا محمد بن مخلد، قال: حدثنا حماد بن أبي عمر، قال: حدثنا أبو نعيم، قال: سمعت أبا حنيفة، يقول لأبي يوسف لا ترو عني شيئا، فإني والله ما أدري أمخطئ أنا أم مصيب. ابو حنیفہ نے ابو یوسف سے کہا: مجھ سے کچھ بھی روایت مت کرو کیونکہ اللہ کی قسم مجھے نہیں پتہ کہ میں خطاء پر ہوں یا صحیح (ایضا)۔

اس روایت میں امام ابو حنیفہ کے خلوص کی طرف اشارہ ہے۔

اسی لئے انہوں نے کہا: "عامة ما أحدثكم به خطأ.

امام ابن ابی حاتم روایت کرتے ہیں: "أنا إبراهيم بن يعقوب الجوزجاني كتب إليّ عن أبي عبد الرحمن المقريء قال: كان أبو حنيفة يحدثنا فإذا فرغ من الحديث قال: هذا الذي سمعتم كله ريح وباطل." المقری کہتے ہیں کہ ابو حنیفہ ہمیں حدیث سناتے اور جب اس سے فارغ ہوتے تو کہتے: یہ جو تم سب نے سنا ہے یہ سب ریح وباطل ہے (الجرح والتعدیل)۔

گویا جس طرح امام ابو حنیفہ کو اپنی رائے کے صحیح وضعیف ہونے پر مکمل اعتماد نہ تھا اسی طرح انہیں اپنی روایت حدیث کے بارے میں بھی مکمل اعتماد نہیں تھا کہ وہ صحیح ہے یا ضعیف۔ بندے کو اپنے ضبط کا خود اندازہ ہوتا ہے اور اسی لئے وہ لوگوں کو دھوکا میں رکھنے کی بجائے خود ہی کہہ دیتا ہے کہ میری بات پر مکمل اعتماد مت کرنا کیونکہ مجھے خود بھی اس پر مکمل یقین نہیں ہے۔ اور یہ اس شخص کے مخلص ہونے کی نشانی ہے۔ اور اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اس شخص نے اپنی طرف سے پوری کوشش کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکالا ہے لہٰذا اس کو غلطی پر بھی ایک اجر مل جائے گا۔
یہی اس قول کا معنی معلوم ہوتا، بعض اوقات سیدھی باتوں کا مطلب واقعی میں وہی ہوتا جو ان میں کہا گیا ہے، ان کو موڑنے سے بات مزید بعید ہو جاتی ہے۔
واللہ اعلم
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اس قول کو امام ابو حنیفہ کے دیگر اقوال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں:
امام خطیب روایت کرتے ہیں: "أخبرنا ابن الفضل، قال: أخبرنا ابن درستويه، قال: حدثنا يعقوب، قال: حدثنا عبد الرحمن بن إبراهيم، قال: حدثنا أبو مسهر، وقرأت على الحسن بن أبي بكر، عن أحمد بن كامل القاضي، قال: حدثنا الحسن بن علي قراءة عليه، أن دحيما، حدثهم قال: حدثنا أبو مسهر، عن مزاحم بن زفر، قال: قلت لأبي حنيفة: يا أبا حنيفة، هذا الذي تفتي، والذي وضعت في كتبك، هو الحق الذي لا شك فيه؟ قال: فقال والله ما أدري لعله الباطل الذي لا شك فيه." مزاحم بن زفر کہتے ہیں کہ میں نے ابو حنیفہ سے پوچھا کہ آپ نے جو فتوی اور جو آپ کی کتب میں موجود ہے کیا وہ بالکل حق بات ہے جس پر کوئی شک نہیں؟ تو انہوں نے کہا: اللہ کی قسم میں نہیں جانتا، ہو سکتا ہے کہ وہ ایسا باطل کلام ہو جس پر کوئی شک نہیں ہو سکتا۔ (تاریخ بغداد: 15:544)

اس قول سے درج ذیل باتیں اخذ کی جا سکتی ہیں:
1- امام ابو حنیفہ نے اپنے نزدیک اصح ترین رائے کو اپنی کتب میں درج کر دیا اور اس پر فتوی دے دیا اور اس کے خطاء وصواب ہونے کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا، ہو سکتا ہے ان کی رائے صحیح ہو اور ہو سکتا ہے کہ غلط ہو۔
2- امام ابو حنیفہ اپنے فتوے اور رائے کو حتمی فیصلہ نہیں سمجھتے تھے کہ اس کے علاوہ سب باطل ہے۔
3- یہ معاملہ صرف رائے کا ہے حدیث کا ذکر اس قول میں نہیں ہے۔ یعنی جہاں تک رائے کا تعلق ہے تو ابو حنیفہ نے اپنے اجتہاد کی مطابق فیصلہ کر لیا اور اس کو وہ پتھر کی لکیر نہیں سمجھتے، بلکہ اپنی مخلص کاوش کے تحت اس پر عمل کرتے ہیں۔

چونکہ وہ اپنی رائے کو حتمی فیصلہ نہیں سمجھتے بلکہ وہ خود بھی انہیں شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو اس کا لکھے جانا بھی وہ پسند نہیں کرتے، چنانچہ خطیب روایت کرتے ہیں:
أخبرنا علي بن القاسم بن الحسن البصري، قال: حدثنا علي بن إسحاق المادرائي، قال: سمعت العباس بن محمد، يقول: سمعت أبا نعيم، يقول: سمعت زفر، يقول: كنا نختلف إلى أبي حنيفة ومعنا أبو يوسف ومحمد بن الحسن، فكنا نكتب عنه، قال زفر، فقال يوما أبو حنيفة لأبي يوسف: ويحك يا يعقوب، لا تكتب كل ما تسمع مني، فإني قد أرى الرأي اليوم فأتركه غدا، وأرى الرأي غدا وأتركه بعد غد. ابو حنیفہ نے ابو یوسف سے ایک دن کہا: افسوس ہے تم پر اے یعقوب، میری ہر چیز جو تم سنتے ہو اسے لکھی مت جاؤ کیونکہ میں آج ایک رائے رکھتا ہوں تو اگلے دن اسے ترک کر دیتا ہوں، اور اگلے دن ایک رائے رکھتا ہوں تو اس سے اگلے دن اسے ترک کر دیتا ہوں (ایضا)َ۔

یعنی امام ابو حنیفہ کو اپنے آراء پر مکمل اعتماد نہیں تھا اسی لئے بار بار ان میں ترامیم کیا کرتے تھے۔
اور یہی خیال ان کا اپنی حدیث کے متعلق بھی تھا، یعنی انہیں اپنی روایات پر مکمل طور پر یقین نہیں تھا کہ یہ صحیح ہیں یا غلط۔ گویا انہیں بھی اپنے ضبط پر شک تھا۔ اسی لئے وہ کہہ دیتے تھے کہ مجھے نہیں پتہ کہ یہ روایت صحیح ہے یا غلط، چنانچہ خطیب روایت کرتے ہیں:
أخبرني الخلال، قال: حدثنا محمد بن بكران، قال: حدثنا محمد بن مخلد، قال: حدثنا حماد بن أبي عمر، قال: حدثنا أبو نعيم، قال: سمعت أبا حنيفة، يقول لأبي يوسف لا ترو عني شيئا، فإني والله ما أدري أمخطئ أنا أم مصيب. ابو حنیفہ نے ابو یوسف سے کہا: مجھ سے کچھ بھی روایت مت کرو کیونکہ اللہ کی قسم مجھے نہیں پتہ کہ میں خطاء پر ہوں یا صحیح (ایضا)۔

اس روایت میں امام ابو حنیفہ کے خلوص کی طرف اشارہ ہے۔
یہ رائے اور فتوے کے بارے میں ہے. ہر مخلص عالم اپنی رائے کو اسی طرح متہم سمجھتا ہے لیکن جو سب سے اصح معلوم ہو وہ بتا دیتا ہے.

اسی لئے انہوں نے کہا: "عامة ما أحدثكم به خطأ."۔

امام ابن ابی حاتم روایت کرتے ہیں: "أنا إبراهيم بن يعقوب الجوزجاني كتب إليّ عن أبي عبد الرحمن المقريء قال: كان أبو حنيفة يحدثنا فإذا فرغ من الحديث قال: هذا الذي سمعتم كله ريح وباطل." المقری کہتے ہیں کہ ابو حنیفہ ہمیں حدیث سناتے اور جب اس سے فارغ ہوتے تو کہتے: یہ جو تم سب نے سنا ہے یہ سب ریح وباطل ہے (الجرح والتعدیل)۔
یہ روایت کے بارے میں ہے اور روایت میں بغیر یقین کے بات کرنا وعید کے تحت داخل ہے جو کہ کوئی مخلص محدث نہیں کر سکتا. ذہبی نے خطیب پر اس کی باقاعدہ جرح کی ہے.
حد سے حد بھی ہو تو یہ کسر نفسی پر محمول ہو سکتا ہے.
لیکن یہ کہنا کہ یقین نہیں تھا اور روایت کر کے اسے باطل کہتے تھے تو پہلے کیوں کرتے تھے؟

گویا جس طرح امام ابو حنیفہ کو اپنی رائے کے صحیح وضعیف ہونے پر مکمل اعتماد نہ تھا اسی طرح انہیں اپنی روایت حدیث کے بارے میں بھی مکمل اعتماد نہیں تھا کہ وہ صحیح ہے یا ضعیف۔ بندے کو اپنے ضبط کا خود اندازہ ہوتا ہے اور اسی لئے وہ لوگوں کو دھوکا میں رکھنے کی بجائے خود ہی کہہ دیتا ہے کہ میری بات پر مکمل اعتماد مت کرنا کیونکہ مجھے خود بھی اس پر مکمل یقین نہیں ہے۔ اور یہ اس شخص کے مخلص ہونے کی نشانی ہے۔ اور اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اس شخص نے اپنی طرف سے پوری کوشش کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکالا ہے لہٰذا اس کو غلطی پر بھی ایک اجر مل جائے گا۔
یہی اس قول کا معنی معلوم ہوتا، بعض اوقات سیدھی باتوں کا مطلب واقعی میں وہی ہوتا جو ان میں کہا گیا ہے، ان کو موڑنے سے بات مزید بعید ہو جاتی ہے۔
واللہ اعلم
رائے میں تو یہ کہنا سمجھ میں آتا ہے لیکن روایت میں باطل سمجھنے کے باوجود روایت کرنا اس حدیث کے تحت آتا ہے: من حدث عني بحديث يُرى أنه كذب فهو أحد الكاذبِِينَ" رواه مسلم
واللہ اعلم
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
ابو یوسف کے قول میں یہ بالکل واضح ہے کہ امام صاحب نے اپنی روایت کے متعلق کہا ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ وہ خطاء پر ہیں یا صواب پر ہیں۔ اس قول کو مد نظر رکھتے ہوئے امام ابو حنیفہ کا دوسرا قول جس میں انہوں نے کہا کہ یہ جو تم نے سنا وہ ہوا اور باطل ہے، تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ امام صاحب نے ایسا عاجزی کے طور پر کہا ہے اسے یقین کے ساتھ باطل مانتے ہوئے نہیں کہا۔ بلکہ ان کو اپنے ضبط وحافظے کے مطابق جو کچھ پتہ تھا وہ انہوں نے روایت کر دیا، اور اب وہ اس بات کی وضاحت کر رہے ہیں کہ جتنا مجھے آتا تھا میں نے بتا دیا البتہ چونکہ مجھ سے غلطیاں ہو جایا کرتی ہیں اس لئے ان پر مکمل اعتماد کر کے ہی مت بیٹھ جاؤ بلکہ اگر اس کے خلاف کوئی روایت ملے تو اس کو اصح سمجھو۔ اسی لئے کہا کہ میری باتیں کچھ بھی نہیں ہیں۔
 
Last edited:

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اور یہی خیال ان کا اپنی حدیث کے متعلق بھی تھا، یعنی انہیں اپنی روایات پر مکمل طور پر یقین نہیں تھا کہ یہ صحیح ہیں یا غلط۔ گویا انہیں بھی اپنے ضبط پر شک تھا۔ اسی لئے وہ کہہ دیتے تھے کہ مجھے نہیں پتہ کہ یہ روایت صحیح ہے یا غلط، چنانچہ خطیب روایت کرتے ہیں:
أخبرني الخلال، قال: حدثنا محمد بن بكران، قال: حدثنا محمد بن مخلد، قال: حدثنا حماد بن أبي عمر، قال: حدثنا أبو نعيم، قال: سمعت أبا حنيفة، يقول لأبي يوسف لا ترو عني شيئا، فإني والله ما أدري أمخطئ أنا أم مصيب. ابو حنیفہ نے ابو یوسف سے کہا: مجھ سے کچھ بھی روایت مت کرو کیونکہ اللہ کی قسم مجھے نہیں پتہ کہ میں خطاء پر ہوں یا صحیح (ایضا)۔
اس روایت میں حماد بن ابی عمر کون ہیں؟
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
اس روایت میں حماد بن ابی عمر کون ہیں؟
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ حماد بن واقد ابو عمر ہیں، اور غلطی سے حماد بن ابی عمر لکھا گیا ہے۔ واللہ اعلم۔
حماد بن واقد صدوق ہے البتہ لین الحدیث ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ حماد بن واقد ابو عمر ہیں، اور غلطی سے حماد بن ابی عمر لکھا گیا ہے۔ واللہ اعلم۔
حماد بن واقد صدوق ہے البتہ لین الحدیث ہے۔
جزاک اللہ خیرا
مجھے ان کے بارے میں صدوق کا قول تو نہیں ملا سرسری دیکھنے پر، جرح ہی ملی ہے۔ لیکن بہرحال حدیث کی جرح کو ہم بعینہ تاریخ میں جاری نہیں کر سکتے۔
مسئلہ یہ ہے کہ اگر یہ حماد بن واقد ہیں تو اس سند میں خلال کے شیخ محمد بن بکران بن عمران کے شیخ ہیں محمد بن مخلد الدوری۔ ان کی پیدائش ہے 233 ھ کی (تاریخ بغداد)۔ ان کے شیخ ہیں حماد بن واقد العیشی اور ان کی وفات ہے 191 ھ سے 200ھ کے درمیان (تاریخ اسلام للذہبی) تو ان دونوں کے درمیان کافی فاصلہ ہے۔ پھر نہ تو ابو نعیم الفضل بن دکین کے تلامذہ میں کسی کا نام حماد ملتا ہے اور نہ ہی محمد بن مخلد کے اساتذہ میں کسی کا۔
اب يا تو یہ حماد بن ابی عمر مجہول ہیں اور یا پھر خطیبؒ کی طرف سے مسئلہ ہے۔ کیوں کہ جتنی تحدیث کی صراحت خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ میں کی ہے اتنی تو شاید کتب حدیث میں بھی کسی کتاب میں نہ ملے حالانکہ حدیث کی حفاظت کا اہتمام زیادہ ہوتا ہے۔ اکثر معنعن روایات خطیب کے پاس آکر حدثنا اور اخبرنا کے ساتھ مذکور ہوتی ہیں۔ غالباً تحدیث کے بارے میں تاریخ میں خطیب کا منہج کچھ اور ہے۔ ورنہ یہ ناسخین کا کمال ہے۔

بہرحال اگر یہ صحیح بھی ہوتب بھی یہاں روایت سے مراد بھی مسائل فقہ کی روایت ہے نہ کہ حدیث کی۔ جیسا کہ ابن نجار نے کہا ہے:
وروى عن الخلال إلى حماد بن أبى عمر قال قال أبو نعيم سمعت أبا حنيفة يقول لأبي يوسف: لا ترو عني شيئا فإني والله ما أدري أمخطئ أنا أم مصيب. هذا لم ينقل عن أبى حنيفة لكن نقل عنه ما هو قريب من هذا، وذلك أنه كان إذا بلغ أحد أصحابه رتبة الاجتهاد قال له: لا يحل لك بعد أن تأخذ عنى. فهذا يدل على دينه ووفور عقله وهذا لم يفعله أحد من العلماء قبل أبى حنيفة ولا بعده، والعلة في هذا أن المجتهد كما بيننا يخطئ ويصيب، والواجب على كل مسلم أن يجتهد فإن قدر على الاجتهاد مثل الفقهاء كان، وإن لم يقدر اجتهد فيمن يأخذ عنه. وهذا عليه إجماع الأمة فكان أبو حنيفة يقرئ الناس الفقه فإذا بلغ أحدهم رتبة الاجتهاد قال له هذا القول.
(الرد علی الخطیب)
اس سے یہ تو معلوم ہوتا ہی ہے کہ یہ روایت فقہ کے بارے میں ہے۔ ساتھ یہ بھی نوٹ کرنے کی چیز ہے کہ ابن نجار (متوفی 643 ھ) کے پاس جو نسخہ تھا اس میں حماد بن ابی عمر کی ابو نعیم سے تحدیث کی صراحت نہیں تھی۔ جبکہ ہمارے نسخوں میں یہ صراحت موجود ہے۔

اس لیے یہ روایت بوجوہ روایت حدیث کے سلسلے میں نا قابل اعتبار ہے۔ واللہ اعلم
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
مسئلہ یہ ہے کہ اگر یہ حماد بن واقد ہیں تو اس سند میں خلال کے شیخ محمد بن بکران بن عمران کے شیخ ہیں محمد بن مخلد الدوری۔ ان کی پیدائش ہے 233 ھ کی (تاریخ بغداد)۔ ان کے شیخ ہیں حماد بن واقد العیشی اور ان کی وفات ہے 191 ھ سے 200ھ کے درمیان (تاریخ اسلام للذہبی) تو ان دونوں کے درمیان کافی فاصلہ ہے۔
اگر ایسا ہی ہے تو پھر یہ کوئی دوسرا مجہول شخص ہے۔
اب يا تو یہ حماد بن ابی عمر مجہول ہیں اور یا پھر خطیبؒ کی طرف سے مسئلہ ہے۔ کیوں کہ جتنی تحدیث کی صراحت خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ میں کی ہے اتنی تو شاید کتب حدیث میں بھی کسی کتاب میں نہ ملے حالانکہ حدیث کی حفاظت کا اہتمام زیادہ ہوتا ہے۔ اکثر معنعن روایات خطیب کے پاس آکر حدثنا اور اخبرنا کے ساتھ مذکور ہوتی ہیں۔ غالباً تحدیث کے بارے میں تاریخ میں خطیب کا منہج کچھ اور ہے۔ ورنہ یہ ناسخین کا کمال ہے۔
اولا اس راوی کا حماد بن واقد ہونا حتمی بات نہیں ہے، میں نے تو صرف نام کی مماثلت دیکھ کر اندازہ لگایا تھا۔ لیکن آپ نے ثابت کر دیا کہ وہ یہ شخص نہیں ہے۔ لہٰذا یہاں اس مجہول شخص کا خطیب کی تحدیث سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
البتہ جن مثالوں کی طرف آپ اشارہ کر رہے ہیں کہ وہ خطیب کے پاس آکر معنعن نہیں رہتیں ان کو پیش کر دیں۔ اگر تو خطیب نے اپنے شیوخ سے تحدیث کی ہے تو اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے اور اگر خطیب کے شیوخ کے بعد کے کسی راوی میں تحدیث پائی جاتی ہے تو ضروری نہیں کہ مسئلہ خطیب میں ہے بلکہ جس راوی نے اس میں تحدیث نقل کی ہے وہ اس کی اپنی روایت ہے، اور اگر اس نے اپنے شیخ سے تحدیث نقل کی ہے تو جائز ہے لیکن اگر غلطی ہوئی ہے تو بھی ضروری نہیں کہ خطیب کی طرف سے ہے بلکہ پہلا شک اس راوی پر ہی جائے گا، اور اگر اس راوی کے دیگر تلامذہ نے روایت بغیر معنعن کے روایت کی ہے تو پھر شک اس سے نچلے والے راوی میں جائے گا کیونکہ غلطی وہاں سے شروع ہوئی، لیکن ایسا ہرگز نہیں ہوتا کہ ایک روایت میں تحدیث یا غلطی ہے تو اس کو سیدھی چھلانگ لگا کر اسناد کے شروع والے راوی یا مصنف کی طرف ہی منسوب کر دیا جائے۔ ابتسامہ۔ غلطی کی نشاندہی کے بھی اصول ہوتے ہیں، اور روایت کی دیگر اسانید کو دیکھ کر باآسانی بتایا جا سکتا ہے کہ غلطی کس سے ہوئی ہے۔
ابن نجار (متوفی 643 ھ) کے پاس جو نسخہ تھا اس میں حماد بن ابی عمر کی ابو نعیم سے تحدیث کی صراحت نہیں تھی۔
ایسا ضروری نہیں ہے کیونکہ ابن نجار نے اس سند کو بطور روایت ذکر ہی نہیں کیا ہے بلکہ انہوں نے محض اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بات کہی ہے، اور اشارہ کے لئے ضروری نہیں کہ صیغہِ روایت بعینہ نقل کیا جائے۔ اس کی مثالیں کئی ملتی ہیں، جہاں محض اشارہ یا واسطے کی نشاندہی کے لئے صیغہ روایت ذکر نہیں کیا جاتا، خاص طور پر یہ طریقہ احادیث کی تخریج کے دوران بہت عام ہے۔ اس سے روایت پر شک نہیں کیا جا سکتا۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اولا اس راوی کا حماد بن واقد ہونا حتمی بات نہیں ہے، میں نے تو صرف نام کی مماثلت دیکھ کر اندازہ لگایا تھا۔ لیکن آپ نے ثابت کر دیا کہ وہ یہ شخص نہیں ہے۔ لہٰذا یہاں اس مجہول شخص کا خطیب کی تحدیث سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
البتہ جن مثالوں کی طرف آپ اشارہ کر رہے ہیں کہ وہ خطیب کے پاس آکر معنعن نہیں رہتیں ان کو پیش کر دیں۔ اگر تو خطیب نے اپنے شیوخ سے تحدیث کی ہے تو اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے اور اگر خطیب کے شیوخ کے بعد کے کسی راوی میں تحدیث پائی جاتی ہے تو ضروری نہیں کہ مسئلہ خطیب میں ہے بلکہ جس راوی نے اس میں تحدیث نقل کی ہے وہ اس کی اپنی روایت ہے، اور اگر اس نے اپنے شیخ سے تحدیث نقل کی ہے تو جائز ہے لیکن اگر غلطی ہوئی ہے تو بھی ضروری نہیں کہ خطیب کی طرف سے ہے بلکہ پہلا شک اس راوی پر ہی جائے گا، اور اگر اس راوی کے دیگر تلامذہ نے روایت بغیر معنعن کے روایت کی ہے تو پھر شک اس سے نچلے والے راوی میں جائے گا کیونکہ غلطی وہاں سے شروع ہوئی، لیکن ایسا ہرگز نہیں ہوتا کہ ایک روایت میں تحدیث یا غلطی ہے تو اس کو سیدھی چھلانگ لگا کر اسناد کے شروع والے راوی یا مصنف کی طرف ہی منسوب کر دیا جائے۔ ابتسامہ۔ غلطی کی نشاندہی کے بھی اصول ہوتے ہیں، اور روایت کی دیگر اسانید کو دیکھ کر باآسانی بتایا جا سکتا ہے کہ غلطی کس سے ہوئی ہے۔
یہ ایک الگ موضوع ہے جس کی یہ جگہ نہیں۔ اس کی بات تفصیل سے کسی وقت کرتے ہیں ان شاء اللہ۔

ایسا ضروری نہیں ہے کیونکہ ابن نجار نے اس سند کو بطور روایت ذکر ہی نہیں کیا ہے بلکہ انہوں نے محض اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بات کہی ہے، اور اشارہ کے لئے ضروری نہیں کہ صیغہِ روایت بعینہ نقل کیا جائے۔ اس کی مثالیں کئی ملتی ہیں، جہاں محض اشارہ یا واسطے کی نشاندہی کے لئے صیغہ روایت ذکر نہیں کیا جاتا، خاص طور پر یہ طریقہ احادیث کی تخریج کے دوران بہت عام ہے۔ اس سے روایت پر شک نہیں کیا جا سکتا۔
ابن نجار نے یوں کہا ہے:
وروى عن الخلال إلى حماد بن أبى عمر قال
"خطیب نے خلال سے حماد بن ابی عمر تک روایت کیا ہے کہ انہوں (حماد) نے کہا:"
یہاں تک تو اشارہ ہے لیکن اس "قال" کے آگے حماد کا قول ہے۔
قال أبو نعيم سمعت أبا حنيفة
"ابو نعیم نے کہا: میں نے ابو حنیفہ کو سنا"
یہ باقاعدہ حماد کا قول نقل کیا ہے ورنہ ابن نجار سند کو حماد بن ابی عمر کی طرف اشارے میں نہیں چھوڑتے بلکہ یہ کہتے: "و روی عن الخلال الی ابی نعیم قال سمعت ابا حنیفۃ"۔ ابن نجار نے باقاعدہ قول نقل کر کے یہ دکھایا ہے کہ حماد نے ابو نعیم سے قول میں یہ تصریح نہیں کی کہ انہیں کہاں سے پہنچا ہے۔

اگر ایسا ہی ہے تو پھر یہ کوئی دوسرا مجہول شخص ہے۔
جی یہ روایت اس کی جہالت کی وجہ سے ضعیف ہے۔

اب جب کہ یہ روایت ضعیف ہے تو ہمارے پاس روایت یا تحدیث ابو حنیفہؒ کے بارے میں دو روایات رہ گئیں: عامۃ ما احدثکم خطا اور ھذا الذی سمعتم کلہ ریح و باطل
اس میں دوسری والی تو واضح ہے کہ جب اپنی روایت کو یقیناً ریح اور باطل سمجھ رہے ہیں تو اس یقین کے بعد بھی روایت کرنا تو عقل سے باہر ہے۔ اس لیے یہی مطلب نکالا جا سکتا ہے کہ کسی خاص موضوع پر یا خاص مجلس میں روایات باطلہ سنا کر ان کے بارے میں یہ کہا ہے۔ ممکن ہے اس کی باقاعدہ مجالس ہوتی ہوں جیسا کہ امام ابو یوسفؒ کے بارے میں منقول ہے کہ انہیں کئی ہزار ضعیف روایات یاد تھیں۔
مسائل کے استنباط اور استدلال کی ابحاث اور مجالس میں تو ضعیف یا باطل احادیث کا ذکر کر کے ان کی تفصیل بتانا ایک عمومی بات تھی اور امام شافعیؒ کے مناظروں میں یہ واضح دیکھا جا سکتا ہے۔
 
Last edited:

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
ابن نجار نے یوں کہا ہے:
وروى عن الخلال إلى حماد بن أبى عمر قال
"خطیب نے خلال سے حماد بن ابی عمر تک روایت کیا ہے کہ انہوں (حماد) نے کہا:"
یہاں تک تو اشارہ ہے لیکن اس "قال" کے آگے حماد کا قول ہے۔
قال أبو نعيم سمعت أبا حنيفة
"ابو نعیم نے کہا: میں نے ابو حنیفہ کو سنا"
یہ باقاعدہ حماد کا قول نقل کیا ہے ورنہ ابن نجار سند کو حماد بن ابی عمر کی طرف اشارے میں نہیں چھوڑتے بلکہ یہ کہتے: "و روی عن الخلال الی ابی نعیم قال سمعت ابا حنیفۃ"۔ ابن نجار نے باقاعدہ قول نقل کر کے یہ دکھایا ہے کہ حماد نے ابو نعیم سے قول میں یہ تصریح نہیں کی کہ انہیں کہاں سے پہنچا ہے۔
ایسا ضروری نہیں ہے۔ "قال سمعت فلان یقول" کو مختصر کر کے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ "قال قال فلان" کیونکہ مقصود قول کا بتانا ہے نہ کہ بتانے کے طریقے کو بتانا۔ یہ طریقہ عام زبان میں بھی استعمال ہوتا ہے، اور اس کی کئی مثالیں بھی ڈھونڈنے پر مل جائیں گی۔
خیر اگر یہ غلطی ہے بھی تو یا تو ناسخ کی غلطی ہے یا ابن النجار کی غلطی ہے کیونکہ ایک مثال کی بنیاد پر آپ کسی ایک کو غلط اور دوسرے کوصحیح یقینی طور پر نہیں کہہ سکتے جب تک دونوں میں سے ایک کی طرف پلڑا بھاری نہ ہو جائے۔
بلکہ اسے ابن النجار کی غلطی کہنا زیادہ مناسب ہے نا کہ ابن النجار کی غلطی کی بنا پر اصل روایت کو غلط کہنا، کیونکہ تاریخ بغداد کے کئی نسخے ہیں جن کا مقارنہ کر کے تحقیق کی گئی ہے اور بشار عواد اور مصطفی عبد القادر عطاء دونوں کے مطبوعہ نسخوں میں یہ روایت اسی طرح ہے جبکہ ابن النجار نے اگر اپنے نسخے سے روایت کیا ہے تو وہ ایک ہی نسخہ ہے اور اگر یہ ان کی اپنی غلطی ہے تو بات اور بھی واضح ہے۔
اس میں دوسری والی تو واضح ہے
البتہ پہلی والی تو پھر بھی اسی بات کی طرف اشارہ کر رہی ہے جو اوپر میں نے بیان کی ہے۔ اور امام ابو حنیفہ کا اپنی رائے پر شک کرنا بھی اس بات کو تقویت دیتا ہے کہ ان کا اپنی روایت پر چک کرنا بھی بعید نہیں ہے۔ واللہ اعلم
جیسا کہ امام ابو یوسفؒ کے بارے میں منقول ہے کہ انہیں کئی ہزار ضعیف روایات یاد تھیں۔
اس کا مجھے علم نہیں یہ کون سی روایت ہے۔ اس کا حوالہ ذکر کر دیں۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
البتہ پہلی والی تو پھر بھی اسی بات کی طرف اشارہ کر رہی ہے جو اوپر میں نے بیان کی ہے۔ اور امام ابو حنیفہ کا اپنی رائے پر شک کرنا بھی اس بات کو تقویت دیتا ہے کہ ان کا اپنی روایت پر چک کرنا بھی بعید نہیں ہے۔ واللہ اعلم
صرف ایک امکان ہے. جبکہ دوسری والی روایت میں غالب ظن وہ ہے جو میں نے عرض کیا ہے. آپ کا اپنا طرز ہے کہ آپ روایات کو ایک دوسرے کی روشنی میں دیکھتے ہیں جیسے ان روایات کو ابو یوسف رح والی روایت کی روشنی میں دیکھ رہے تھے.
تو جب ہم پہلی روایت کو دوسری کی روشنی میں دیکھیں گے تو اس کا مطلب بھی وہی ہوگا.

اصل میں عامۃ ما احدثکم کا ترجمہ دو طرح سے کیا جا سکتا ہے:
1.وہ روایات جو میں تمہیں بیان "کرتا" ہوں ان میں سے اکثر.
اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ عام طور پر بیان کی جانے والی اکثر روایات غلطی ہیں.
2. وہ روایات جو میں تمہیں بیان کر "رہا" ہوں ان میں سے اکثر.
اس صورت میں یہ ایک مجلس میں بولا جانے والا جملہ ہوگا کہ جو ابھی روایات بیان کر رہا ہوں وہ اکثر غلط ہیں.
لفظا کسی ایک کا بھی قرینہ نہیں ہے.

اگر اسے دوسری روایت کی روشنی میں دیکھا جائے تو پھر تو دوسرا معنی غالب ہے.
اور اگر اس کی روشنی میں نہ دیکھیں اور صرف الفاظ کو دیکھیں تو اس میں دونوں معانی کا احتمال ہے اور کم از کم اذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال کا قاعدہ تو ہے ہی.
 
Top