• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تبصرہ دھاگہ "علل احادیث امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ"

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
روایت ابو حنیفہ 2۔ تبصرہ
@رضا میاں بھائی! اسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
آپ کی علل احادیث ابی حنیفہ میں نئی پوسٹ دیکھی۔ آپ ما شاء اللہ بہت عمدہ کام کر رہے ہیں۔ کافی عرصے سے اس کام کا خیال دل میں آتا تھا لیکن وقت کبھی نہیں مل سکا۔
اس پوسٹ میں جو آپ نے روایت نمبر 2 پیش فرمائی ہے اور اس کے مخالفات و متتابعات پیش کیے ہیں ان پر کچھ تبصرہ کرنا چاہتا ہوں۔
لیکن اس سے پہلے عرض ہے کہ تین کاموں کا خیال رکھیے تاکہ اشتباہ کم سے کم ہو۔
اول: روایت مکمل تحریر کیا کیجیے۔
ثانی: تفصیلات کا کم از کم کتاب کے نام کی حد تک حوالہ ضرور دیا کیجیے۔
ثالث: اپنے الفاظ کو عربی میں شامل نہیں کیا کیجیے۔

عامر بن شراحیل الشعبی رحمہ اللہ سے اس روایت پر اختلاف ہے:
امام ابو حنیفہ کی اس روایت میں شعبی نے اس روایت کو براہ راست المغیرۃ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، اور درمیان میں کوئی واسطہ ذکر نہیں کیا ہے۔
جبکہ دیگر رواۃ نے اسے عن شعبی عن عروہ بن المغیرۃ عن المغیرۃ بن شعبہ کے طریق سے عروۃ کے واسطے کے ساتھ روایت کیا ہے۔
مطلقاً یہ بات کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ گویا اس میں امام ابو حنیفہؒ اکیلے ہیں اور تمام ثقہ رواۃ دوسری جانب ہیں۔ لیکن یہ تاثر دینا درست نہیں۔ اس کی تفصیل آگے دیکھیے۔

1- یونس بن ابی اسحاق السبیعی
  • اخرجه الشافعي في المسند (75) وفي الأم (ج 1 ص 48)، والحميدي (776) وابن خزيمة (191) والدارقطني (763) وأبو عوانة في المستخرج (700، 702) والطبراني في الكبير (ج 20 372 ح 867) من طريق سفيان بن عيينة عن يونس عن الشعبي عن عروة بن المغيرة به
  • وأخرجه أحمد في المسند (18242) وأخرجه الترمذي (1768) عن يوسف بن عيسي كلاهما قالا حدثنا وكيع - وفي رواية أحمد قال - حدثنا يونس بن أبي إسحاق سمعته من الشعبي قال: شهد لي عروة بن المغيرة، على أبيه، أنه شهد له أبوه على رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكر الحديث
  • واخرجه ابو داؤد في السنن (151) قال حدثنا مسدد حدثنا عيسي بن يونس حدثني أبي عن الشعبي قال سمعت عروة بن المغيره به
  • وأخرجه الطبراني في الكبير (ج 20 ص 371 ح 865) من طريق محمد بن يوسف الفريابي قال ثنا يونس بن أبي إسحاق عن الشعبي به
  • وأخرجه الرامهرمزي في المحدث الفاصل (ص 467) وغيره من طريق سلم بن قتيبة قال: أشهد على يونس بن أبي إسحاق، قال: أشهد على الشعبي، قال: أشهد على عروة بن المغيرة، قال: أشهد على المغيرة
یونس ابن ابی اسحاق کے بارے میں محدثین کرام کا اختلاف ہے۔
معدلین:
قال عبد الرحمن بن مهدى : يونس بن أبى إسحاق لم يكن به بأس
و قال إسحاق بن منصور و أحمد بن سعد بن أبى مريم و عثمان بن سعيد الدارمى ، عن يحيى بن معين : يونس بن أبى إسحاق ثقة . قال عثمان : قلت : فيونس أحب إليك أو إسرائيل ؟ قال : كل ثقة .
و قال النسائى : ليس به بأس .
و قال أبو أحمد بن عدى : له أحاديث حسان ، و روى عنه الناس و إسرائيل بن يونس ابنه ، و عيسى بن يونس ابنه و هما أخوان ، و هم أهل بيت العلم ، و حديث الكوفة عامته يدور عليهم .

جارحین:
و قال صالح بن أحمد بن حنبل ، عن على ابن المدينى : سمعت يحيى ، و ذكر يونس بن أبى إسحاق ، فقال : كانت فيه غفلة و كانت فيه سجية ، كان يقول : حدثنى أبى ، قال : سمعت عدى بن حاتم :
" اتقوا النار و لو بشق تمرة " .
قال يحيى : و هذا حدثنا سفيان و شعبة عن أبى إسحاق ، عن ابن معقل ، عن عدى بن حاتم . قال يحيى : و كانت فيه غفلة .
و قال بندار ، عن سلم بن قتيبة : قدمت من الكوفة فقال لى شعبة : من لقيت ؟
قال : لقيت فلان و فلان و لقيت يونس بن أبى إسحاق . قال : ما حدثك ؟ فأخبرته ، فسكت ساعة ، و قلت له : قال : حدثنا بكر بن ماعز . قال : فلم يقل لك : حدثنا عبد الله بن مسعود ! ؟
و قال أبو بكر الأثرم : سمعت أبا عبد الله ، و ذكر يونس بن أبى إسحاق فضعف حديثه عن أبيه . و قال : حديث إسرائيل أحب إلى منه .
و قال أبو طالب : قال أحمد بن حنبل : يونس بن أبى إسحاق حديثه فيه زيادة على حديث الناس . قلت : يقولون إنه سمع فى الكتب فهى أتم . قال : إسرائيل ابنه قد سمع من أبى إسحاق و كتب فلم يكن فيه زيادة مثل ما يزيد يونس .
و قال عبد الله بن أحمد بن حنبل : سألت أبى عن يونس بن أبى إسحاق ، فقال : حديثه مضطرب .
و قال أبو حاتم : كان صدوقا إلا أنه لا يحتج بحديثه .

(تہذیب الکمال)
اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ یونس کی تعدیل غیر مفسر جبکہ جرح مفسر ہے۔ یونس میں غفلت تھی جس کی وجہ سے وہ تحدیث بھی کہیں سے کہیں کر ڈالتے تھے جیسا کہ شعبہ نے اپنی جرح میں اشارہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ وہ احادیث میں زیادتی بھی کر دیتے تھے۔ اس لیے ان کی روایات زیادہ سے زیادہ حسن کی حد تک پہنچتی ہیں جیسا کہ ذہبی اور ابن عدی نے کہا ہے۔
قُلْتُ: ابْنَاهُ أَتْقَنُ مِنْهُ، وَهُوَ حَسَنُ الحَدِيْثِ.

(سیر الاعلام)
مزید یہ کہ یہ طبقہ ثانیہ کے مدلس تھے۔ لیکن انہیں طبقہ ثانیہ میں قلت تدلیس کی وجہ سے شامل کیا گیا ہے ورنہ یہ ضعفاء سے بھی تدلیس کرتے تھے۔ حضرت علی رض سے ایک حدیث میں انہوں نے حارث الاعور کو ساقط کیا ہے (طبقات المدلسین لابن حجر)۔

لہذا ان کی روایت مطلقاً بغیر جرح و تعدیل کے لکھنا مناسب نہیں ہے۔

2- زکریا بن ابی زائدۃ
  • اخرجه الشافعي في المسند (75) وفي الأم (ج 1 ص 48)، والحميدي (776) وابن خزيمة (191) والدارقطني (763) وأبو عوانة في المستخرج (702)، وابن حبان (ج 4 : ص 156) والطبراني في الكبير (ج 20 372 ح 867) من طريق سفيان بن عيينة عن زكريا عن الشعبي عن عروة بن المغيرة به
  • وأخرجه أحمد في المسند (18196) قال حدثنا إسحاق بن يوسف حدثنا زكريا بن أبي زائدة عن الشعبي به
  • وأخرجه أحمد أيضا (18235) قال حدثنا يحيي بن سعيد - يعني القطان - عن زكريا عن عامر به
  • وأخرجه الدارمي (740)، والبخاري في الصحيح (5799)، والبيهقي في الكبري من طريق علي بن الحسن بن أبي عيسي الهلالي كلهم قالوا حدثنا أبو نعيم عن زكريا بن أبي زائدة عن الشعبي به - وأبو نعيم هو الفضل بن دكين
  • وأخرجه مسلم في صحيحه (274) وقال حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير حدثنا أبي - يعني عبد الله بن نمير - قال حدثنا زكريا، عن عامر به
  • وأخرجه ابن المنذر في الأوسط (ج 1 ص 441) من طريق عبيدالله بن موسي أنا زكريا بن أبي زائدة عن عامر عن عروة به
  • وأخرجه البيهقي في الكبري (1336) من طريق جعفر بن عون قال ثنا زكريا بن أبي زائدة عن الشعبي به
زکریا بن ابی زائدہ ویسے تو مجموعی طور پر ثقہ ہیں لیکن شعبی سے تدلیس کرتے ہیں اور اتفاق سے یہ روایت بھی شعبی سے ہی ہے اور ساری سندیں معنعن ہیں۔
زكريا بن أبي زائدة قال أبو حاتم الرازي يدلس عن الشعبي وعن ابن جريج.
(المدلسین لابن العراقی)
و قال أبو زرعة : صويلح يدلس كثيرا عن الشعبى .
و قال أبو حاتم : لين الحديث ، كان يدلس ، و إسرائيل أحب إلى منه
قال يحيى بن زكريا : لو شئت لسميت لك من بين أبى و بين الشعبى .
(تہذیب الکمال)


3- عبد اللہ بن عون البصري
  • أخرجه أحمد في المسند (18193) والطحاوي في شرح مشكل الآثار (5653) من طريق يزيد بن هارون، أخبرنا ابن عون، عن الشعبي، عن عروة بن المغيرة به
  • وأخرجه النسائي في السنن (82) من طريق بشر بن المفضل عن عن ابن عون عن الشعبي به
ان کی روایات صحیح ہیں ليكن یہ اس حدیث کو دو سندوں سے روایت کرتے تھے:
عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الْمُغِيرَةِ، عَنِ الْمُغِيرَةِ
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ رَجُلٍ حَتَّى رَدَّهُ إِلَى الْمُغِيرَةِ

اس کے بعد فرماتے تھے: وَلَا أَحْفَظُ حَدِيثَ ذَا مِنْ حَدِيثِ ذَا (مجھے ان کی حدیث دوسرے کی حدیث سے الگ یاد نہیں ہے۔)
اس روايت ميں مذکور ہے:
كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر فقرع ظهري بعصا كانت معه، فعدل وعدلت معه
یہ الفاظ عروۃ بن المغیرۃ کے نہیں ہیں۔ انہوں نے (میری تحقیق کے مطابق) عصا سے کمر کو یا اونٹنی کی گردن کو تھپتھپانے کا کہیں ذکر نہیں کیا۔ یہ الفاظ عمرو بن وہب الثقفی کے ہیں جن سے محمد بن سیرینؒ نے روایت کی ہے (اور بعض روایات میں عن رجل عن عمرو ہے)۔ چنانچہ مسند احمد میں ابن سیرین کی سند سے ہی مروی ہے:
حدثنا يزيد، أخبرنا هشام، عن محمد، قال: دخلت مسجد الجامع، فإذا عمرو بن وهب الثقفي قد دخل من الناحية الأخرى، فالتقينا قريبا من وسط المسجد، فابتدأني بالحديث، وكان يحب ما ساق إلي من خير، فابتدأني بالحديث، فقال: كنا عند المغيرة بن شعبة، فزاده في نفسي تصديقا الذي قرب به الحديث، قال: قلنا: هل أم النبي صلى الله عليه وسلم رجل من هذه الأمة غير أبي بكر الصديق؟ قال: نعم، كنا في سفر كذا وكذا، فلما كان في السحر، ضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم عنق راحلته، وانطلق فتبعته، فتغيب عني ساعة، ثم جاء، فقال: «حاجتك؟» فقلت: ليست لي حاجة يا رسول الله، قال: «هل من ماء؟» قلت: نعم، فصببت عليه، فغسل يديه، ثم غسل وجهه، ثم ذهب يحسر عن ذراعيه، وكانت عليه جبة له شامية فضاقت، فأدخل يديه، فأخرجهما من تحت الجبة، فغسل وجهه، وغسل ذراعيه، ومسح بناصيته، ومسح على العمامة، وعلى الخفين، ثم لحقنا الناس، وقد أقيمت الصلاة وعبد الرحمن بن عوف يؤمهم، وقد صلى ركعة، فذهبت لأوذنه، فنهاني، فصلينا التي أدركنا، وقضينا التي سبقنا بها.
حدثنا أسود بن عامر، حدثنا جرير بن حازم، عن محمد بن سيرين، قال: حدثني رجل، عن عمرو بن وهب يعني فذكر نحوه

جب یہ معلوم ہو گیا کہ یہ روایت محمد بن سیرینؒ کی ہے اور یہاں صرف تحویل بھی نہیں ہے کہ ہم یہ سمجھیں کہ راوی نے ایک کے الفاظ ذکر کیے ہیں اور دوسرے کا مضمون بھی وہی ہے بلکہ ابن عونؒ نے وضاحت کی ہے مجھے الگ حدیث یاد نہیں ہے تو اس کا مطلب ہوا کہ ابن عونؒ نے عروۃ بن المغیرہ کی روایت بیان ہی نہیں کی۔ انہیں اشتباہ ہوا تھا کہ یہ روایت کس سند سے ہے تو انہوں نے دونوں اسناد بیان کر دیں اور ہم نے معلوم کرلیا کہ صحیح کون سی سند ہے۔ اس لیے یہ عامر عن عروہ کی روایت نہیں ہے۔

4- عمر بن ابی زائدۃ الکوفی
  • أخرجه مسلم في صحيحه (274) وأبو عوانة في المستخرج (701) من طريق إسحاق بن منصور قال حدثنا عمر بن أبي زائدة عن الشعبي به
  • وأخرجه ابن الأعرابي في معجمه (2400) وقال: نا هشام، نا عبد الله بن رجاء، نا عمر بن أبي زائدة، عن عبد الله بن أبي السفر، عن الشعبي، عن عروة به، وذكر واسطة عبد الله بن أبي السفر بين عمر والشعبي لعله خطاء من عبد الله بن رجاء وهو صدوق يهم عند الحافظ
یہ آپ کی اس تفصیل کی واحد بغیر اشکال کی صحیح روایت ہے۔

5- اسماعیل بن ابی خالد
اسماعیل بن ابی خالد سے اس روایت پر اختلاف ہے۔ چنانچہ:
  • أخرجه الطبراني في المعجم (ج 20 ص 372 ح 869) وقال: حدثنا محمد بن أحمد بن البراء، ثنا المعافى بن سليمان، ثنا موسى بن أعين، عن إسماعيل بن أبي خالد، عن الشعبي، عن عروة بن المغيرة بن شعبة، عن أبيه
  • وخالفه القاسم بن معن فرواه عن إسماعيل بن أبي خالد عن الشعبي عن المغيرة بن شعبة، ولم يذكر بينهما أحدا ( أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط 5287 من طريق المعافي بن سليمان، وانظر العلل الدارقطني ج 7 ص 99)
طبرانی نے ذکر کیا ہے کہ دونوں طرق کو المعافی بن سلیمان نے روایت کیا ہے البتہ القاسم بن معن کی روایت میں طبرانی نے یہ ذکر نہیں کیا ہے کہ اس طریق کو المعافی سے کس نے روایت کیا ہے۔ ممکن ہے یہ بھی محمد بن احمد بن البراء کی سند سے ہی ہو۔ بہرحال دونوں صورتوں میں موسی بن اعین کی روایت زیادہ راجح ہے کیونکہ یہ دیگر روایات کے موافق ہے۔
آپ کی یہ بات درست نہیں کہ "یہ دیگر روایات کے موافق ہے" کیوں کہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ سوائے عمر ابن ابی زائدہ کے اور کوئی روایت اشکالات سے خالی نہیں ہے تو ان کے موافق ہونا چہ معنی دارد۔ یوں کہنا چاہیے کہ اس روایت میں عروہ کا ذکر اور عدم ذکر برابر ہے یعنی دونوں چیزیں موجود ہیں۔ یہ اگر ذکر میں اوپر والی روایات کا ساتھ دیتی ہے تو عدم ذکر میں امام ابو حنیفہؒ کی روایت کا ساتھ دیتی ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 
Last edited:

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
مطلقاً یہ بات کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ گویا اس میں امام ابو حنیفہؒ اکیلے ہیں اور تمام ثقہ رواۃ دوسری جانب ہیں۔ لیکن یہ تاثر دینا درست نہیں۔ اس کی تفصیل آگے دیکھیے۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حالانکہ پوسٹ جاری ہے اس لئے جواب نہیں دے سکتا، لیکن ایک بات واضح کرنا ضروری ہے کہ میں نے یہ ضرور کہا ہے کہ اس روایت میں امام ابو حنیفہ اکیلے ہیں لیکن میں نے ہرگز نہیں کہا ہے کہ اس کو اکیلے روایت کرنے میں امام ابو حنیفہ غلطی پر ہیں، بلکہ شعبی عن مغیرۃ کی اصل روایت ہی غلط ہے۔ کیونکہ درمیان میں واسطہ چھوڑا گیا ہے جو دیگر اسانید میں واضح ہے۔ اور یہ کہ یہ روایت واسطے کے ساتھ زیادہ راجح ہے۔
باقی جواب بعد میں، ان شاء اللہ
 
Last edited:

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
6- حصین بن عبد الرحمن ابو الہذیل السلمی الکوفی
حصین بن عبد الرحمن سے اس روایت میں اختلاف ہے چنانچہ:
  • اخرجه الشافعي في المسند (75) وفي الأم (ج 1 ص 48)، والحميدي (776) وابن خزيمة (191) والدارقطني (763) وأبو عوانة في المستخرج (700، 702) والطبراني في الكبير (ج 20 372 ح 867) من طريق سفيان بن عيينة عن حصين عن الشعبي عن عروة بن المغيرة عن المغيرة بن شعبة
اس روایت میں سفیان بن عیینہ نے اسے حصین بن عبد الرحمن سے عروہ بن المغیرۃ کے واسطے کے ساتھ روایت کی ہے جبکہ: محمد بن فضیل اور عبثر بن القاسم نے اسے عروۃ کے واسطے کے بغیر ذکر کیا ہے، چنانچہ:
  • أخرجه الطبراني في الكبير (ج 20 ص 413 ح 990) قال: حدثنا الحسين بن إسحاق التستري، ثنا عثمان بن أبي شيبة، ثنا محمد بن فضيل، عن حصين، عن الشعبي، قال: سمعت المغيرة، وهو يخطب على المنبر
  • وأخرجه ابو بكر الأنباري قال حدثنا جعفر، قثنا محمد بن سابق، قثنا عبثر بن القاسم، عن حصين، عن الشعبي، وسعد بن عبيدة، عن المغيرة بن شعبة" (حدیث ابی بکر الانباری: جزء2 ص 81 ح 80 وجالہ ثقات)
حصین کی روایات کے تمام اختلافات سے ایک بات تو واضح ہے کہ شعبی نے مغیرۃ بن شعبہ سے سماع کی صراحت کسی بھی روایت میں نہیں کی ہے سوائے محمد بن فضیل کی روایت میں۔

یہ محمد بن فضیل کی روایت پر جرح کی کوئی وجہ نہیں ہے اور ظاہر یہی ہے کہ آپ نے بھی جرح کا قصد نہیں کیا۔ محمد بن فضیل کی تحدیث کی سماعت زیادۃ ثقہ ہے کیوں کہ کسی نے ان کے خلاف روایت نہیں کی بلکہ سب نے "عن" کہا ہے۔ "عن" سے ہونے والی روایت میں ابتدا سے ہی دونوں احتمالات ہوتے ہیں کہ راوی نے مروی عنہ سے سنی ہے یا نہیں سنی۔ اکثر روایت بالمعنی کرتے ہوئے راوی تحدیث کے بجائے "عن" کا لفظ ذکر کرتے ہیں اور متقدمین میں معنعن روایت بہت عام تھی کیوں کہ اس زمانے میں تدلیس پر زیادہ گرفت نہیں کی جاتی تھی۔ اسی لیے بے شمار روایات تابعین و تبع تابعین میں جا کر معنعن ملتی ہیں۔ اب اگر شعبی ایک روایت کو معنعن ذکر کرتے ہیں اور ایک ثقہ محدث اس میں تحدیث کی تصریح کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس نے اس تصریح کو روایت کیا ہے اور باقیوں نے نہیں کیا۔ تصریح کی نفی تو کسی نے بھی نہیں کی۔
مزے کی بات یہ ہے کہ یہاں آپ ان کی تصریح تو قبول نہیں کرتے حالانکہ یہ ثقہ ہیں اور آگے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ وہاں انقطاع کا اشارہ ملتا ہے:
أخرجه الترمذي في السنن (1769) قال: حدثنا قتيبة قال: حدثنا ابن أبي زائدة، عن الحسن بن عياش، عن أبي إسحاق هو الشيباني، عن الشعبي قال: قال المغيرة بن شعبة
اس روایت کو محمد بن فضیل عن حصین کی روایت کی روشنی میں دیکھیں تو بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ یہاں شعبی نے قال المغیرۃ سے اسی وقت کا ذکر کیا ہے جب مغیرہ منبر پر تھے اور شعبی سن رہے تھے۔ بس یہاں ان کے منبر پر اس بات کے بیان کا ذکر موجود نہیں ہے۔ یہ روایت انقطاع پر دلالت نہیں کرتی بلکہ محمد بن فضیل کی روایت کے ساتھ مل کر اتصال پر دلالت کرتی ہے۔
انقطاع پر جو اس سے اگلی دو روایات دی گئی ہیں وہ تو انقطاع پر سرے سے ہی دلالت نہیں کرتیں۔ ان پر ان کی جگہ پر بات کرتے ہیں۔
آگے آپ نے حصین کی روایت کے ضمن میں فرمایا ہے:
ان میں سے سفیان بن عیینہ کی روایت زیادہ راجح معلوم ہوتی ہے کیونکہ سفیان بن عیینہ ان دونوں سے زیادہ احفظ ہیں۔
یہ بات درست ہے کہ سفیان سفیان ہیں۔ ایک ثقہ امام ہیں۔ لیکن یہ بھی درست ہے کہ اسی ثقہ امام کا حافظہ آخری عمر میں کمزور ہو گیا تھا۔ بہرحال غرض یہ نہیں ہے کہ ان سے جنہوں نے سماع کیا ہے انہوں نے آخری عمر میں کیا ہے، ایسا نہیں ہے بلکہ بتانا یہ ہے کہ ہر ثقہ ترین شخص سے بھی غلطی ہونا ممکن ہے۔ جب دو ثقہ راوی ان کے خلاف روایت کر رہے ہیں تو پھر دو اشخاص کے بجائے ایک شخص کا غلطی کا شکار ہونا زیادہ اقرب ہے۔ ہم یہ کہیں کہ سفیان سے حصین کی روایت میں بھول ہوئی ہے، یہ آسان ہے بنسبت اس کے کہ ہم یہ کہیں کہ دو ثقہ شخص ایک ساتھ بھول گئے اور بھولے بھی ایسے کہ ایک سماع کی صراحت کے ساتھ روایت کرنے لگ گیا اور ایک راوی ساقط کرنے لگ گیا۔
آگے فرماتے ہیں:
مزید یہ کہ حصین بن عبد الرحمن کا حافظہ عمر کے اخری دور میں متغیر ہو گیا تھا اور سفیان بن عیینہ کی حصین سے روایت تغیر سے پہلے کی ہے، جبکہ محمد بن فضیل اور عبثر کی روایت کا زمانہ مجہول ہے۔ لہٰذا سفیان بن عیینہ کی روایت ہی زیادہ راجح ہے اور یہی شعبی کے دیگر اصحاب کے بھی موافق ہے۔
یہ تو مجھے علم نہیں کہ سفیان کی روایت حصین سے تغیر سے پہلے کی ہے یا نہیں۔ لیکن یہ بات ضرور ہے کہ حصین عبثر کے سب سے مشہور استاد ہیں اور عبثر عن حصین کی روایت بخاریؒ نے اپنی صحیح میں لی ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عبثر کی روایت حصین سے مقبول ہے۔
عبثر کی حصین سے روایت سے متعلق حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں:
حصين بن عبد الرحمن السلمي أبو الهذيل الكوفي متفق على الاحتجاج به إلا أنه تغير في آخر عمره وأخرج له البخاري من حديث شعبة والثوري وزائدة وأبي عوانة وأبي بكر بن عياش وأبي كدينة وحصين بن نمير وهشيم وخالد الواسطي وسليمان بن كثير العبدي وأبي زبيد عبثر بن القاسم وعبد العزيز العمي وعبد العزيز بن مسلم ومحمد بن فضيل عنه فأما شعبة والثوري وزائدة وهشيم وخالد فسمعوا منه قبل تغيره وأما حصين بن نمير فلم يخرج له البخاري من حديثه عنه سوى حديث واحد كما سنبينه بعد وأما محمد بن فضيل ومن ذكر معه فأخرج من حديثهم ما توبعوا عليه
(فتح الباری)
لیکن امام بخاریؒ نے دو روایتیں ایک ساتھ کی ہیں اور ایک میں محمد بن فضیل اور دوسری میں عبثر ہیں۔
حدثني عمران بن ميسرة، حدثنا محمد بن فضيل، عن حصين، عن عامر، عن النعمان بن بشير رضي الله عنهما، قال: أغمي على عبد الله بن رواحة، فجعلت أخته عمرة تبكي واجبلاه، واكذا واكذا، تعدد عليه، فقال حين أفاق: " ما قلت شيئا إلا قيل لي: آنت كذلك
حدثنا قتيبة، حدثنا عبثر، عن حصين، عن الشعبي، عن النعمان بن بشير،» قال أغمي على عبد الله بن رواحة بهذا فلما مات لم تبك عليه "
اس میں "فلما مات لم تبک علیہ" (میری تحقیق کے مطابق) صرف عبثر کی زیادتی ہے اور عبثر کے اس میں متفرد ہونے کے باوجود بخاریؒ نے ان کی اس زیادتی کو قبول کیا ہے۔
لہذا خلاصہ کلام یہ ہوا کہ حصین عن عامر الشعبی کی روایت بغیر عروہ کے واسطے کے راجح ہے۔
رہ گئی یہ بات کہ یہ عروہ کے واسطے سے روایت کرنے سے دیگر شعبی کے دیگر اصحاب کے موافق ہو جائے گی تو دیگر اصحاب کی روایات کا حال تو ہم جان ہی چکے ہیں۔

ابو اسحاق الشیبانی سے اس روایت میں اختلاف ہے:
  • أخرجه الطبراني في الكبير (ج 20 ص 371 ح 866) من طريق أسد بن موسي ثنا إسرائيل عن أبي إسحاق عن عامر الشعبي عن عروة بن المغيرة عن أبيه
  • وأخرجه الطبراني في الأوسط (8933) من طريق أسد بن موسي ثنا شريك عن أبي إسحاق عن عامر الشعبي عن عروة بن المغيرة بن شعبه عن أبيه
الغرض اسرائیل اور شریک دونوں نے اسے ابو اسحاق سے عروہ کے واسطے کے ساتھ ذکر کیا ہے، جبکہ:
  • أخرجه البيهقي في الكبري (1346) من طريق ثنا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، ثنا أَبِي، عَنِ الشَّيْبَانِيِّ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ
اولا: عمر بن حفص صدوق یہم ہیں۔ دوسرا یہ کہ حفص بن غیاث کا حافظہ بھی آخر عمر میں کچھ کمزور ہو گیا تھا۔

اگر عمر بن حفص بقول حافظ ابن حجر "ثقۃ ربما وہم" (ثقہ ہیں لیکن بسا اوقات وہم لگ جاتا ہے) ہیں تو اسد بن موسی بھی تو حافظ کے نزدیک "صدوق یغرب و فیہ نصب" (سچے ہیں، عجیب چیزیں لاتے ہیں اور ان میں ناصبیت تھی) کے مرتبے پر ہیں۔ دونوں روایات برابر ہی ہیں تقریباً۔ عمر بن حفص کی روایت میں اگر حفص بن غیاث کا حافظہ آخر عمر میں تھوڑا سا کمزور ہو گیا تھا تو اسد بن موسی سے روایت کرنے والا مقدام بن داود ضعیف ہے۔ بلکہ اس لحاظ سے تو عمر بن حفص کی روایت میں ضعف کم ہے بنسبت اسد بن موسی کی روایت کے۔

اس طریق میں انقطاع کی طرف ہلکہ سا اشارہ ملتا ہے کیونکہ شعبی نے اسے صیغہ احتمال سے روایت کیا ہے اور یہ بطور روایت نہیں بلکہ بطور حکایت بیان کی گئی روایت معلوم ہوتی ہے۔ یہ بات مزید واضح ہو جاتی ہے جب ہم اگلے چند طریق دیکھتے ہیں، چنانچہ:
  • أخرجه الطبراني في الكبير (ج 20 ص 413 ح 992) قال حدثنا محمد بن عبد الله الحضرمي، وثنا الحسين بن إسحاق التستري قالا , ثنا أبو سعيد الأشج، ثنا أبو أسامة، ثنا إسحاق بن أبي إسحاق الشيباني، عن أبيه، قال: لما حدث الشعبي، بحديث المغيرة بن شعبة أنه رأى النبي صلى الله عليه وسلم توضأ ومسح على خفيه قلت: يا أبا عمرو , ومن أين كان للنبي صلى الله عليه وسلم خفان؟ قال: أهداهما له دحية الكلبي "

اس روایت میں یہ ہے: "جب شعبی نے حدیث مغیرہ بن شعبہ سنائی کہ۔۔۔۔ الی آخر الحدیث تو میں نے کہا: اے ابو عمرو! نبی ﷺ کے موزے کہاں سے آئے تھے؟ انہوں نے کہا: آپ ﷺ کو دحیہ کلبی رض نے ہدیہ کیے تھے۔" یہاں دیکھیے کہ شعبی کی حدیث کو راوی بیان نہیں کر رہا کہ اس میں انقطاع یا اتصال کی بحث ہو بلکہ ایک اور واقعہ بتا رہا ہے کہ جب شعبی نے یہ حدیث سنائی تو میں نے پوچھا۔ شعبی نے یہ حدیث متصلا سنائی یا منقطعاً؟ راوی نے نہ یہ بتایا اور نہ یہ بتانا اس کا مقصود تھا۔
وأخرجه الطبراني في الكبير (ج 20 ص 413 ح 991) وأبو بكر الأزدي (حديث أبي بكر الأزدي: ح ١)، وأبو الشيخ الأصبهاني في أخلاق النبي (374) من طريق الحسن بن عياش عن الشيباني، عن عامر، قال: قيل للمغيرة بن شعبة
اس روايت ميں اسی سوال کے بارے میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ سوال مغیرہ رض سے کیا گیا۔ اس میں بھی حدیث نہیں سنائی گئی کہ انقطاع کی طرف اشارہ یا اس کا کوئی ذکر ہو۔

8- مجالد بن سعید الکوفی
مجالد سے بھی اس روایت میں اختلاف ہے، چنانچہ:
  • أخرجه الطبراني في الكبير (871) وفي الأوسط (533) قال حدثنا أحمد بن القاسم بن مساور الجوهري، وعبدان بن أحمد، قالا: ثنا عبد الله بن عمر بن أبان، ثنا عبيدة بن الأسود، عن القاسم بن الوليد، ومجالد، عن عامر الشعبي، حدثني عروة بن المغيرة، عن أبيه
  • وخالف القاسم في هذه الرواية عبدة بن سليمان فأخرجه عنه أحمد في المسند (18141) وقال حدثنا عبدة بن سليمان أبو محمد الكلابي، حدثنا مجالد، عن الشعبي، عن المغيرة بن شعبة ولم يذكر بينهما عروة بن المغيرة
البتہ مجالد ضعیف ہیں۔

مجالد ضعیف ہیں کما قلت۔

9 - سلیم مولی الشعبی
  • أخرجه أبو نعيم في طبقات المحدثين بأصبهان (ج 4 ص 301)، قال: حدثني يعقوب بن إسحاق , قال: ثنا محمد بن غالب , قال: ثني عبد الصمد بن النعمان , قال: ثنا سليم مولى الشعبي، عن عامر الشعبي , عن عروة بن المغيرة , عن أبيه
  • وأخرجه الطبراني في الكبير (ج 20 ص 374 ح 874) قال: حدثنا محمد بن عبدان بن أحمد، ثنا محمد بن غالب به

سلیم مولی الشعبی ضعیف ہیں۔ اور مزے کی بات کہ ابن عدی کہتے ہیں:
وقال ابن عدي : ليس له متن منكر، إنما عيب عليه الأسانيد. (الثقات لابن قطلوبغا)
یعنی ان کا مسئلہ ہی سند میں تھا اور یہاں بھی سند کی بحث ہے۔

10- داود بن یزید الأودی
  • أخرجه الطحاوي في شرح معاني الآثار (522) قال: حدثنا ابن مرزوق قال: ثنا مكي بن إبراهيم قال: ثنا داود بن يزيد , عن عامر , عن عروة بن المغيرة أنه سمع أباه يقول۔
  • وأخرجه الطبراني في الكبير (ج 20 ص 374) قال: حدثنا عبد الله بن محمد بن شعيب الرحابي، ثنا يحيى بن حكيم المقوم، ثنا مكي بن إبراهيم، ثنا داود بن يزيد الأودي به
  • ورواه أيضا في المعجم الأوسط (8524)، قال حدثنا معاذ قال نا أبي قال نا مكي بن إبراهيم قال نا داود بن يزيد الأودي به

داود بن یزید بھی ضعیف ہیں۔

خلاصہ کلام:
اب خلاصہ کلام یہ نکلا کہ صحیح روایات میں ہمارے پاس صرف عمر بن ابی زائدہ کی روایت ایسی ہے جس میں عامر شعبی اور مغیرۃ بن شعبۃ رض کے درمیان عروۃ بن المغیرۃ کا فاصلہ ہے۔ اس کے علاوہ یا ضعیف روایات ہیں اور یا ایسی روایات جن میں دونوں اطراف موجود ہیں اور کسی کو ترجیح نہیں دی جا سکتی۔
اس کے بر عکس عروہ کے واسطے کے بغیر ہمارے پاس حصین کی روایت ہے جس کے ایک طریق میں عامر شعبی کا مغیرہ رض سے براہ راست سماع بھی موجود ہے لیکن ایک طریق عروہ کے واسطے سے بھی ہے۔
چنانچہ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عامر شعبیؒ نے یہ حدیث عروہ بن مغیرہؒ سے بھی سنی تھی اور مغیرۃ بن شعبہ رض سے بلاواسطہ بھی۔ اس لیے وہ کبھی عروہ کے واسطے سے روایت کرتے تھے اور کبھی عروہ کے واسطے کے بغیر۔
عروہ کے واسطے سے ان سے عمر بن ابی زائدہ، اسماعیل بن ابی خالد اور حصین نے روایت کی ہے اور عروہ کے واسطے کے بغیر اسماعیل بن ابی خالد اور حصین نے روایت کی ہے۔
اور عروہ کے واسطے کے بغیر ہی ایک طریق میں ابو حنیفہؒ نے بھی روایت کی ہے۔
روایت کے دونوں طریق صحیح ہیں البتہ عروہ کے واسطے والا طریق زیادہ احسن ہے کیوں کہ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے اور اس کی متابعت ضعیف روایات سے ہوتی ہے۔
اسی لئے امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"وأحسنها إسنادا حديث الشعبي، عن عروة بن المغيرة، عن أبيه." (علل الدارقطنی: ج 7 ص 100)

ھذا ما ظہر لی۔ واللہ اعلم بالصواب
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حالانکہ پوسٹ جاری ہے اس لئے جواب نہیں دے سکتا، لیکن ایک بات واضح کرنا ضروری ہے کہ میں نے یہ ضرور کہا ہے کہ اس روایت میں امام ابو حنیفہ اکیلے ہیں لیکن میں نے ہرگز نہیں کہا ہے کہ اس کو اکیلے روایت کرنے میں امام ابو حنیفہ غلطی پر ہیں، بلکہ شعبی عن مغیرۃ کی اصل روایت ہی غلط ہے۔ کیونکہ درمیان میں واسطہ چھوڑا گیا ہے جو دیگر اسانید میں واضح ہے۔ اور یہ کہ یہ روایت واسطے کے ساتھ زیادہ راجح ہے۔
باقی جواب بعد میں، ان شاء اللہ
میں نے بھی یہ نہیں کہا کہ آپ نے یہ فرمایا ہے۔ ظاہر یہ ہو رہا تھا۔
اس حکم میں میں آپ کے ساتھ نصف میں اتفاق کرتا ہوں اور نصف میں اختلاف۔

شعبی عن مغیرۃ کی اصل روایت ہی غلط ہے۔
اس میں اختلاف ہے جس کی تفصیل آ چکی ہے۔
اور یہ کہ یہ روایت واسطے کے ساتھ زیادہ راجح ہے۔
اس میں اتفاق ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اب اگر شعبی ایک روایت کو معنعن ذکر کرتے ہیں اور ایک ثقہ محدث اس میں تحدیث کی تصریح کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس نے اس تصریح کو روایت کیا ہے اور باقیوں نے نہیں کیا۔ تصریح کی نفی تو کسی نے بھی نہیں کی۔
اس میں ذرا سا ابہام رہ گیا ہے۔ اس کی وضاحت کرنا چاہوں گا۔
شعبیؒ سے روایت کرنے والے حصین ہیں۔ حصین سے آگے محمد بن فضیل، عبثر اور سفیان بن عیینہ ہیں۔ محمد بن فضیل نے یہ سماعت کی زیادتی روایت کی ہے اور باقی دونوں نے معنعن روایت کی ہے۔ محمد بن فضیل ثقہ ہیں اس لیے یہ زیادتی ثقہ ہے۔ اس زیادتی سے معلوم ہوا کہ حصین سے سماعت کی زیادتی کے ساتھ بھی یہ روایت مروی ہے اور معنعن بھی۔
آگے حصین اس زیادتی کو شعبی سے روایت کرتے ہیں۔ شعبی سے روایت کرنے والے ثقہ رواۃ میں عمر بن ابی زائدہ، اسماعیل بن ابی خالد اور حصین ہیں (اگر ہم امام ابو حنیفہؒ سے قطع نظر دیکھیں کیوں کہ انہی کی بحث ہو رہی ہے اصل میں)۔ یہاں حصین کی یہ زیادتی ثقہ ہے۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
اول: روایت مکمل تحریر کیا کیجیے۔
اس سے کیا مراد ہے؟ روایت مکمل نہیں؟ امام ابو حنیفہ کی روایت کا متن یہی ہے اور اسے میں نے ابو نعیم کی مسند سے بعینہ نقل کیا ہے۔
ثانی: تفصیلات کا کم از کم کتاب کے نام کی حد تک حوالہ ضرور دیا کیجیے۔
حوالہ جات بھی موجود ہیں۔ کون سا حوالہ موجود نہیں؟
ثالث: اپنے الفاظ کو عربی میں شامل نہیں کیا کیجیے۔
اوکے
لہذا ان کی روایت مطلقاً بغیر جرح و تعدیل کے لکھنا مناسب نہیں ہے۔
جرح تو میں نے کسی پر بھی نقل نہیں کی۔ بلکہ یہاں پر مقصد تو صرف متابعات ومخالفات کو ذکر کرنا ہے۔ ہاں ترجیح کا مسئلہ آئے تو جرح ہو گی۔
مزید یہ کہ اگرچہ ان پر جرح ہے لیکن جب دیگر رواۃ کی موافقت ہو گئی تو ان کی روایت بھی مضبوط ہو گئی یہ نہیں کہ محض جرح کی موجودگی پر ان کی روایت کا ہونا اور نا ہونا ایک برابر ہو جائے۔
زکریا بن ابی زائدہ ویسے تو مجموعی طور پر ثقہ ہیں لیکن شعبی سے تدلیس کرتے ہیں اور اتفاق سے یہ روایت بھی شعبی سے ہی ہے اور ساری سندیں معنعن ہیں۔
اولا: زکریا شعبی کے خاص شاگرد ہیں۔
ثانیا: ان کی تدلیس کے مصادر معلوم ہیں۔
ثالثا: وہ شعبی سے کتاب کے زریعے روایت کرتے تھے گویا ان کی روایت بعض دوسری روایات سے زیادہ راجح ہے
رابعا: یحیی بن سعید القطان بھی ان سے یہ روایت نقل کرتے ہیں اور یحیی اپنے شیوخ کی صرف مصرح بالسماع روایات نقل کرتے تھے۔
چنانچہ حافظ ابن حجر ایک جگہ اسی سند سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"قوله حدثنا زكريا هو بن أبي زائدة عن عامر هو الشعبي وزكريا مدلس ولم أره من حديثه إلا بالعنعنة لكن أخرجه أحمد عن يحيى القطان عن زكريا والقطان لا يحمل من حديث شيوخه المدلسين إلا ما كان مسموعا لهم صرح بذلك الإسماعيلي" (فتح الباری: ص 309)
اسی لئے یہ روایت صحیحین میں بھی موجود ہے، گویا اس پر کسی کو تدلیس کی وجہ سے اعتراض نہیں ہے۔
لہٰذا یہاں تدلیس کا الزام غلط ہے۔
جب یہ معلوم ہو گیا کہ یہ روایت محمد بن سیرینؒ کی ہے اور یہاں صرف تحویل بھی نہیں ہے کہ ہم یہ سمجھیں کہ راوی نے ایک کے الفاظ ذکر کیے ہیں اور دوسرے کا مضمون بھی وہی ہے بلکہ ابن عونؒ نے وضاحت کی ہے مجھے الگ حدیث یاد نہیں ہے تو اس کا مطلب ہوا کہ ابن عونؒ نے عروۃ بن المغیرہ کی روایت بیان ہی نہیں کی۔ انہیں اشتباہ ہوا تھا کہ یہ روایت کس سند سے ہے تو انہوں نے دونوں اسناد بیان کر دیں اور ہم نے معلوم کرلیا کہ صحیح کون سی سند ہے۔ اس لیے یہ عامر عن عروہ کی روایت نہیں ہے۔
عبد الله بن عون نے اس روایت کو دو اسانید سے روایت کیا ہے اور دونوں الگ سندیں ہیں۔
ان کا کہنا کہ وَلَا أَحْفَظُ حَدِيثَ ذَا مِنْ حَدِيثِ ذَا تو اس سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے دونوں احادیث کے متن کو ملا کر ایک ساتھ یاد کیا ہے۔ یعنی انہوں نے دو احادیث کو الگ الگ یاد نہیں کیا ہے۔ اسی لئے انہوں نے دونوں کی اسانید ذکر کر کے دونوں کا متن اکھٹا ذکر کر دیا ہے۔
اس میں کہیں یہ نہیں ہے کہ ابن عون نے اسے عامر عن عروۃ سے روایت نہیں کیا۔
یہ آپ کی اس تفصیل کی واحد بغیر اشکال کی صحیح روایت ہے۔
اشکال ہونا نہ ہونا بعد کی بات ہے جو اصل بات ہے وہ یہ کہ ان سب رواۃ سے یہ روایت ایک طریقے سے مروی ہے۔ اور اشکال ہونے سے روایت کالعدم نہیں ہو جاتی بلکہ صرف شک پیدا ہوتا ہے جو دیگر موافقات سے دور ہو جانا چاہیے۔

یہ محمد بن فضیل کی روایت پر جرح کی کوئی وجہ نہیں ہے اور ظاہر یہی ہے کہ آپ نے بھی جرح کا قصد نہیں کیا۔ محمد بن فضیل کی تحدیث کی سماعت زیادۃ ثقہ ہے کیوں کہ کسی نے ان کے خلاف روایت نہیں کی بلکہ سب نے "عن" کہا ہے۔ "عن" سے ہونے والی روایت میں ابتدا سے ہی دونوں احتمالات ہوتے ہیں کہ راوی نے مروی عنہ سے سنی ہے یا نہیں سنی۔ اکثر روایت بالمعنی کرتے ہوئے راوی تحدیث کے بجائے "عن" کا لفظ ذکر کرتے ہیں اور متقدمین میں معنعن روایت بہت عام تھی کیوں کہ اس زمانے میں تدلیس پر زیادہ گرفت نہیں کی جاتی تھی۔ اسی لیے بے شمار روایات تابعین و تبع تابعین میں جا کر معنعن ملتی ہیں۔ اب اگر شعبی ایک روایت کو معنعن ذکر کرتے ہیں اور ایک ثقہ محدث اس میں تحدیث کی تصریح کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس نے اس تصریح کو روایت کیا ہے اور باقیوں نے نہیں کیا۔ تصریح کی نفی تو کسی نے بھی نہیں کی۔
جرح کی وجہ کیوں نہیں ہے۔ حصین کے اپنے شاگردوں میں کسی نے شعبی سے سماع کی تصریح نقل نہیں کی ہے، اور پھر شعبی کے اپنے شاگردوں میں سے بھی کسی ایک نے بھی سماع کی تصریح نہیں کی ہے۔ اور پھر اس حدیث کے دیگر طرق سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ شعبی نے اسے عروۃ کے زریعے مغیرۃ سے روایت کیا ہے تو ان کا اس روایت میں سماع کی تصریح کرنا مزید وضاحت کرتا ہے اس بات کی کہ ابن فضیل یا ان سے پہلے کسی راوی نے یہاں غلطی کی ہے۔

تو اسد بن موسی سے روایت کرنے والا مقدام بن داود ضعیف ہے۔ بلکہ اس لحاظ سے تو عمر بن حفص کی روایت میں ضعف کم ہے بنسبت اسد بن موسی کی روایت کے۔
جزاک اللہ خیرا۔ لگتا ہے میں نے کسی اور کا ترجمہ سرسری سا دیکھ کر سمجھ لیا تھا کہ یہ راوی ثقہ ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔
بہرحال، اس روایت کا شعبی عن المغیرۃ سے روایت ہونا ثابت ہے لیکن جو اصل بات میں نے کہی ہے وہ یہ کہ اصلا شعبی نے اسے مغیرۃ سے نہیں سنا ہے بلکہ درمیان میں عروۃ کا واسطہ موجود ہے۔ اسی لئے شعبی کی مغیرہ سے تمام روایات معنعن ہیں سوائے ابن فضیل کی روایت کہ جو کہ ان سب کے خلاف ہے۔ اسی لئے میں نے کہا تھا کہ شعبی چونکہ مدلس نہیں ہیں اس لئے غالب گمان ہے کہ انہوں نے یہ روایت تعلیقا یا بغیر سند کے ذکر کی اور بعض رواۃ نے اسے ویسے ہی روایت کر دیا، جیسا کہ ابو اسحاق الشیبانی کی روایت میں ہے۔

مجالد ضعیف ہیں کما قلت۔
سلیم مولی الشعبی ضعیف ہیں۔
داود بن یزید بھی ضعیف ہیں۔
جی یہ تینوں ضعیف ہیں لیکن ان کا شعبی کے باقی اصحاب کی موافقت کرنا ان کی بات کو اہمیت اور تقویت دیتا ہے اسی لئے انہیں ذکر کیا گیا ہے۔

شعبی عن مغیرۃ کی اصل روایت ہی غلط ہے۔
اس میں اختلاف ہے جس کی تفصیل آ چکی ہے۔
اس اختلاف کی ساری بنیاد ابن فضیل کی صرف ایک روایت پر ہے باقی تو کسی نے بھی اختلاف نہیں کیا ہے۔ لہٰذا یہ اختلاف کس بات کا ہے؟ یعنی اس روایت کے تمام طرق میں کہیں بھی سماع کی صراحت نہیں ہے جبکہ اس سے اصح طرق میں روایت بالواسطہ موجود ہے۔
زیادت ثقہ میں ترجیح کے اصول صرف روایات کے متون واسانید پر ہی منحصر نہیں ہیں بلکہ سماع کی تصریحات میں بھی وہی اصول لاگو ہیں خاص کر جب واسطہ کی موجودگی بالکل واضح ہے۔
مثال کے طور پر امام اعمش نے ایک روایت میں مجاہد سے سماع کی تصریح بیان کی تو حافظ ابن حجر نے اسے دیگر روایات کے مدنظر رد کرتے ہوئے فرمایا:
"قوله عن الأعمش حدثني مجاهد أنكر العقيلي هذه اللفظة وهي حدثني مجاهد ، وقال : إنما رواه الأعمش بصيغة عن مجاهد ،
كذلك رواه أصحاب الأعمش عنه وكذا أصحاب الطفاوي عنه ، وتفرد ابن المديني بالتصريح ، قال : ولم يسمعه الأعمش من مجاهد و إنما سمعه من ليث بن أبي سليم عنه فدلسه"


واللہ اعلم۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اس سے کیا مراد ہے؟ روایت مکمل نہیں؟ امام ابو حنیفہ کی روایت کا متن یہی ہے اور اسے میں نے ابو نعیم کی مسند سے بعینہ نقل کیا ہے۔
جن اسانید کو آپ آگے ذکر کرتے ہیں اور ان کے ساتھ "بہ" لکھتے ہیں ان کے بجائے پوری روایت تحریر کیا کیجیے۔
حوالہ جات بھی موجود ہیں۔ کون سا حوالہ موجود نہیں؟
دو حوالے تو آپ کے اسی جواب میں موجود نہیں ہیں۔ ابتسامہ
اس قسم کی تفصیلات کے حوالہ جات ذکر کر دیا کیجیے:
مزید یہ کہ حصین بن عبد الرحمن کا حافظہ عمر کے اخری دور میں متغیر ہو گیا تھا اور سفیان بن عیینہ کی حصین سے روایت تغیر سے پہلے کی ہے
جرح تو میں نے کسی پر بھی نقل نہیں کی۔ بلکہ یہاں پر مقصد تو صرف متابعات ومخالفات کو ذکر کرنا ہے۔ ہاں ترجیح کا مسئلہ آئے تو جرح ہو گی۔
یہ جرح ہے:
مزید یہ کہ حصین بن عبد الرحمن کا حافظہ عمر کے اخری دور میں متغیر ہو گیا تھا
اولا: عمر بن حفص صدوق یہم ہیں۔ دوسرا یہ کہ حفص بن غیاث کا حافظہ بھی آخر عمر میں کچھ کمزور ہو گیا تھا۔
البتہ مجالد ضعیف ہیں۔
اور تحقیق کے مناسب بھی یہی ہوتا ہے کہ انسان کو جہاں جرح کا علم ہو وہاں مختصرا ذکر کرتا جائے کیوں کہ جرح کے قبول و عدم قبول میں علماء کرام کے مناہج مختلف ہوتے ہیں۔

مزید یہ کہ اگرچہ ان پر جرح ہے لیکن جب دیگر رواۃ کی موافقت ہو گئی تو ان کی روایت بھی مضبوط ہو گئی یہ نہیں کہ محض جرح کی موجودگی پر ان کی روایت کا ہونا اور نا ہونا ایک برابر ہو جائے۔
محترم بھائی! حدیث کے مراتب اور درجات مختلف ہوتے ہیں۔ اگر صحیح اور ضعیف روایات دونوں موجود ہوں تو ضعیف صحیح کی متابع بنتی ہیں کیوں کہ اصل صحیح ہوتی ہے اور وہ ضعیف اس صحیح کی وجہ سے قوی ہو جاتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ان کی سند قوی ہو جاتی ہے بلکہ وہ حدیث اپنی ذات میں اور اپنے ترجمہ و معانی میں کسی قدر مضبوطی حاصل کر لیتی ہے۔ اپنی سند کے اعتبار سے وہ حدیث ضعیف ہی رہتی ہے۔
ہم یہاں یہ بحث کر رہے ہیں کہ عامر عن المغیرہ کی سند درست ہے یا نہیں۔ اس کے لیے ہم صحیح سند سے استدلال کریں گے اور ضعیف کو اس کی متابعت میں پیش کریں گے۔ نہ کہ ہم ضعیف کو بغیر جرح کے ذکر کریں گے اور اسے اور صحیح کو برابر سمجھیں گے۔ اس طرح تو ہم کبھی بھی درست جگہ تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ میں نے بھی آخر میں یہ عرض کیا ہے:
وایت کے دونوں طریق صحیح ہیں البتہ عروہ کے واسطے والا طریق زیادہ احسن ہے کیوں کہ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے اور اس کی متابعت ضعیف روایات سے ہوتی ہے۔
یہ بات روایت کو یقیناً قوت دیتی ہے کہ اس کی متابعت موجود ہو۔

اولا: زکریا شعبی کے خاص شاگرد ہیں۔
خاص كس اعتبار سے ہیں؟ وہ شعبی کے اصحاب میں سے ہیں لیکن انہیں ایسی کوئی خصوصیت حاصل نہیں جیسی ابراہیم نخعیؒ کو عبد اللہ بن مسعود رض کے سلسلے میں یا امام شافعیؒ کو ابن جریجؒ کے سلسلے میں حاصل ہے۔ و اللہ اعلم

ثانیا: ان کی تدلیس کے مصادر معلوم ہیں۔
کیا ان کی تدلیس کے مصادر حتمی طور پر معلوم ہیں؟ یہ بات آپ نے بغیر حوالے کے ارشاد فرمائی ہے اس لیے میں کہیں نہیں دیکھ سکا اور مجھے خود معلوم بھی نہیں ہے۔

ثالثا: وہ شعبی سے کتاب کے زریعے روایت کرتے تھے گویا ان کی روایت بعض دوسری روایات سے زیادہ راجح ہے
اس کا حوالہ بھی مفقود ہے۔ البتہ ایک حوالہ مجھے ملا ہے:
ثمَّ قَالَ لي أَحْمد كلهم ثِقَات كَانَ عِنْد زَكَرِيَّا كتاب فَكَانَ يَقُول [فِيهِ] سَمِعت الشّعبِيّ وَلَكِن زَعَمُوا كَانَ يَأْخُذ عَن جَابر وَبَيَان وَلَا يُسمى يَعْنِي مَا يروي من غير ذَاك الْكتاب يرسلها عَن الشّعبِيّ
(سوالات ابی داود لاحمد)
اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ زکریا جب کتاب سے دیکھ کر سمعت الشعبی کہتے تھے تب بھی اس میں یہ شک ہوتا تھا کہ یہ روایت جابر یا بیان سے انہوں نے لی ہے۔ جابر سے مراد جابر بن یزید الجعفی ہیں۔ اور کتاب کے علاوہ جب روایت کرتے تھے تو بیان ہی نہیں کرتے تھے اور ارسال کرتے تھے۔ یہاں ارسال کا لفظ ذکر کیا ہے لیکن یہ تدلیس ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کی شعبی سے سماعت کی تصریح بھی قبول نہیں ہے چہ جائیکہ معنعن روایت قبول ہو۔
زکریا بن ابی زائدہ کی یہی روایت سماعت کی صراحت کے ساتھ مستخرج ابی عوانہ میں ملی ہے:
حدثنا أبو داود الحراني قال: ثنا جعفر قال: ثنا زكريا بن أبي زائدة ح، وحدثنا إسحاق بن سيار قال: ثنا عبيد الله بن موسى ح، وحدثنا أبو أمية قال: ثنا أبو نعيم، وعبيد الله بن موسى ح ، وحدثنا محمد بن حيويه، وأبو داود الحراني قالا: ثنا أبو نعيم قالوا: ثنا زكريا بن أبي زائدة قال: ثنا عامر، عن عروة بن المغيرة بن شعبة، عن أبيه قال: كنت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات ليلة في سفر فقال: «أمعك ماء؟» قلت: نعم، فنزل عن راحلته فمشى حتى توارى عني في سواد الليل، ثم جاء فأفرغت عليه من الإداوة، فغسل يديه ووجهه وعليه جبة من صوف، فلم يستطع أن يخرج ذراعيه منهما حتى أخرجهما من أسفل الجبة، فغسل ذراعيه ومسح برأسه، ثم أهويت لأنزع خفيه. فقال: «دعهما؛ فإني أدخلتهما طاهرتين - فمسح عليهما»
ان سب میں سے کس نے سماع کی صراحت کی ہے جس کے الفاظ ابو عوانہؒ نے لیے ہیں، میں اس تک نہیں پہنچ سکا۔ زکریا کے تینوں شاگردوں کی معنعن روایت آپ کے دیے ہوئے حوالہ جات میں موجود ہے۔ اس سند میں ابو امیہ جیسے حضرات بھی موجود ہیں جنہیں وہم لگتا تھا۔
اگر آپ کے طرز پر اس روایت کو دیکھا جائے تو اس میں سماع کی صراحت باطل ٹھہرتی ہے۔ اور اگر زیادتی ثقہ کے لحاظ سے دیکھا جائے تو سب ثقہ نہیں ہیں۔ لیکن اگر اسے سماع کی تصریح کے ساتھ صحیح مان بھی لیا جائے تب بھی ان کے سماع کے بیان کے باوجود امام احمدؒ کی تصریح کے مطابق شبہ موجود رہتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ حسن کے درجے تک جا پہنچے گی۔
رابعا: یحیی بن سعید القطان بھی ان سے یہ روایت نقل کرتے ہیں اور یحیی اپنے شیوخ کی صرف مصرح بالسماع روایات نقل کرتے تھے۔
چنانچہ حافظ ابن حجر ایک جگہ اسی سند سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"قوله حدثنا زكريا هو بن أبي زائدة عن عامر هو الشعبي وزكريا مدلس ولم أره من حديثه إلا بالعنعنة لكن أخرجه أحمد عن يحيى القطان عن زكريا والقطان لا يحمل من حديث شيوخه المدلسين إلا ما كان مسموعا لهم صرح بذلك الإسماعيلي" (فتح الباری: ص 309)
اسی لئے یہ روایت صحیحین میں بھی موجود ہے، گویا اس پر کسی کو تدلیس کی وجہ سے اعتراض نہیں ہے۔
یحیی القطانؒ 198ھ میں فوت ہوئے ہیں۔ اسماعیلیؒ اگر احمد بن ابراہیم الاسماعیلی ہیں تو وہ 277 ھ میں پیدا ہوئے ہیں۔ ان کی یحیی سے ملاقات نہیں ہے۔ اب اگر یہ صرف ایک اندازہ ہے تو اس کی حیثیت اس اندازے سے زیادہ نہیں ہو سکتی جو صحیحین کے بارے میں لگایا گیا ہے کہ ان کی ہر تدلیس والی معنعن روایت کہیں سماع کی صراحت کے ساتھ بھی ضرور ہوگی۔ یہ ایک ایسا اندازہ ہے کہ اگر ثابت ہو جائے تو فبہا ورنہ اس کی کوئی دلیل نہیں۔
وفي أسئلة الإمام تقي الدين السبكي للحافظ أبي الحجاج المزي: وسألته عن ما وقع في الصحيحين من حديث المدلس معنعنا هل نقول: أنهما اطلعا على اتصالها؟
فقال: "كذا يقولون، وما فيه إلا تحسين الظن بهما. وإلا ففيهما أحاديث من رواية المدلسين ما توجد من غير تلك الطريق التي في الصحيح".
(النکت لابن حجر)
پھر اگر یہ بات واقعی ایسی ہو تب بھی ان کی شعبی سے سماع والی روایات میں بھی شبہ ہے۔ یہ روایت تب بھی زیادہ سے زیادہ حسن درجے کو پہنچے گی۔
ایک بار پھر وضاحت کر دوں کہ ضعاف اور حسان روایات کی افادیت سے انکار نہیں کر رہا۔ یہ متابعت کرکے ترجیح کے کام آتی ہیں۔

عبد الله بن عون نے اس روایت کو دو اسانید سے روایت کیا ہے اور دونوں الگ سندیں ہیں۔
ان کا کہنا کہ وَلَا أَحْفَظُ حَدِيثَ ذَا مِنْ حَدِيثِ ذَا تو اس سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے دونوں احادیث کے متن کو ملا کر ایک ساتھ یاد کیا ہے۔ یعنی انہوں نے دو احادیث کو الگ الگ یاد نہیں کیا ہے۔ اسی لئے انہوں نے دونوں کی اسانید ذکر کر کے دونوں کا متن اکھٹا ذکر کر دیا ہے۔
اس میں کہیں یہ نہیں ہے کہ ابن عون نے اسے عامر عن عروۃ سے روایت نہیں کیا۔
"و لا احفظ حديث ذا من حديث ذا"
"اور مجهے ان کی حدیث ان کی حدیث سے یاد نہیں ہے۔"
ظاہر تو یہی کہ مراد یہ ہے کہ میں نے دونوں حدیثیں یاد کی تھیں۔ اب مجھے یاد نہیں ہے کہ کس کی کون سی ہے۔ تو میں سنا رہا ہوں جس کی بھی ہوئی۔
باقی جو مراد آپ نے ذکر کی ہے اس کے لیے ماضی کا صیغہ "ماحفظت" یا جحد کا صیغہ "لم احفظ" استعمال ہوتا ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ "میں نے یاد نہیں کی"۔
ابن عون حديث کے سلسلے میں انتہائی محتاط تھے۔ بجائے سمعت کہنے کے اظن انی سمعتہ کہتے تھے جیسا کہ شعبہ نے کہا ہے (تہذیب التہذیب) اور شعبہ کہتے تھے کہ میں نے اسلاف میں سے تدلیس سے بچنے والا ابن عون کے سوا کسی کو نہیں دیکھا (سیر الاعلام)۔ یہ حدیث ان کی اسی احتیاط کا مظہر ہے۔

اشکال ہونا نہ ہونا بعد کی بات ہے جو اصل بات ہے وہ یہ کہ ان سب رواۃ سے یہ روایت ایک طریقے سے مروی ہے۔ اور اشکال ہونے سے روایت کالعدم نہیں ہو جاتی بلکہ صرف شک پیدا ہوتا ہے جو دیگر موافقات سے دور ہو جانا چاہیے۔
جب ہم روایات کا تقابل کر رہے ہیں تو ہمیں باریک چیزیں بھی دیکھنی چاہئیں۔ اگر ہم صرف معنی کا اثبات کر رہے ہوتے تو ان طرق کے ساتھ یہ روایات تو شک و شبہ سے بھی دور تھیں۔ لیکن ہم نے دو سندوں کا تقابل کرنا ہے۔ اس میں باریکیاں چھوڑنے سے ہم اسناد پر غلط حکم لگا سکتے ہیں۔

جرح کی وجہ کیوں نہیں ہے۔ حصین کے اپنے شاگردوں میں کسی نے شعبی سے سماع کی تصریح نقل نہیں کی ہے، اور پھر شعبی کے اپنے شاگردوں میں سے بھی کسی ایک نے بھی سماع کی تصریح نہیں کی ہے۔ اور پھر اس حدیث کے دیگر طرق سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ شعبی نے اسے عروۃ کے زریعے مغیرۃ سے روایت کیا ہے تو ان کا اس روایت میں سماع کی تصریح کرنا مزید وضاحت کرتا ہے اس بات کی کہ ابن فضیل یا ان سے پہلے کسی راوی نے یہاں غلطی کی ہے۔
اس کی میں نے وضاحت کی ہے:
شعبیؒ سے روایت کرنے والے حصین ہیں۔ حصین سے آگے محمد بن فضیل، عبثر اور سفیان بن عیینہ ہیں۔ محمد بن فضیل نے یہ سماعت کی زیادتی روایت کی ہے اور باقی دونوں نے معنعن روایت کی ہے۔ محمد بن فضیل ثقہ ہیں اس لیے یہ زیادتی ثقہ ہے۔ اس زیادتی سے معلوم ہوا کہ حصین سے سماعت کی زیادتی کے ساتھ بھی یہ روایت مروی ہے اور معنعن بھی۔
آگے حصین اس زیادتی کو شعبی سے روایت کرتے ہیں۔ شعبی سے روایت کرنے والے ثقہ رواۃ میں عمر بن ابی زائدہ، اسماعیل بن ابی خالد اور حصین ہیں (اگر ہم امام ابو حنیفہؒ سے قطع نظر دیکھیں کیوں کہ انہی کی بحث ہو رہی ہے اصل میں)۔ یہاں حصین کی یہ زیادتی ثقہ ہے۔
ثقہ رواۃ میں یہاں اتنی کثرت موجود نہیں ہے کہ ہم یہ کہیں کہ یہ ان سب کے خلاف ہے۔ حصین اور شعبی دونوں مراحل پر دو رواۃ مخالفت کر رہے ہیں۔ اس لیے اس سماع کی بعض طرق میں موجودگی اگر یقینی نہیں تو بھی غلبہ ظن کو تو ثابت کرتی ہے۔

بہرحال، اس روایت کا شعبی عن المغیرۃ سے روایت ہونا ثابت ہے لیکن جو اصل بات میں نے کہی ہے وہ یہ کہ اصلا شعبی نے اسے مغیرۃ سے نہیں سنا ہے بلکہ درمیان میں عروۃ کا واسطہ موجود ہے۔ اسی لئے شعبی کی مغیرہ سے تمام روایات معنعن ہیں سوائے ابن فضیل کی روایت کہ جو کہ ان سب کے خلاف ہے۔
صرف معنعن ہونے سے تو واسطہ ثابت نہیں ہو جاتا اور واسطے کے بغیر محمد بن فضیل عن حصین عن الشعبی، عبثر عن حصین عن الشعبی، قاسم بن معن عن خالد بن ابی سلیمان عن الشعبی اور ابو حنیفہ عن الشعبی کی اسناد موجود ہیں۔ یہ میں نے صرف ثقہ یا یا حسن اسناد کا ذکر کیا ہے ورنہ ضعیف سند سے تو حماد بن ابی سلیمان عن الشعبی، مجالد عن الشعبی اور اسماعیل بن حماد عن الشعبی بھی بغیر واسطے کے موجود ہیں۔
اس لیے یہ متعین نہیں ہوجاتا کہ شعبی نے اسے واسطے کے ساتھ ہی سنا ہے واسطے کے بغیر نہیں۔ عن عروہ کی اسناد سے صرف ترجیح واسطے کے ساتھ والی سند کو ملتی ہے اور حسن اس میں قرار پاتا ہے۔
باقی صحت میں دونوں اسناد صحیح رہتی ہیں۔
اسی لیے دارقطنیؒ نے عروہ والی سند کو "احسن" کہا ہے صحیح نہیں کیوں کہ عروہ والی سند عروہ کے بغیر والی سند سے زیادہ اچھی ہے۔
ہذا ما ظہر لی۔ واللہ اعلم بالصواب
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
ہمیں ان شاء اللہ ان ابحاث اور ان روایات کی تحقیق سے یہ فائدہ بھی ہوگا کہ ہم امام ابوحنیفہ رح کی جرح و تعدیل کے سلسلے میں کسی قریبی نتیجے تک پہنچ جائیں گے.
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
جن اسانید کو آپ آگے ذکر کرتے ہیں اور ان کے ساتھ "بہ" لکھتے ہیں ان کے بجائے پوری روایت تحریر کیا کیجیے۔
اس طرح تو معاملہ بہت لمبا ہو جائے گا۔ خیر یہ سب روایات ہم معنی ہیں اور ایک ہی سند سے مروی ہیں کچھ بھی مختصرا مروی ہے تو کچھ میں طویلا لہٰذا ہر ایک کا علیحدہ سے متن ذکر کرنا غیر ضروری ہے۔
اگر صحیح اور ضعیف روایات دونوں موجود ہوں تو ضعیف صحیح کی متابع بنتی ہیں کیوں کہ اصل صحیح ہوتی ہے اور وہ ضعیف اس صحیح کی وجہ سے قوی ہو جاتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ان کی سند قوی ہو جاتی ہے بلکہ وہ حدیث اپنی ذات میں اور اپنے ترجمہ و معانی میں کسی قدر مضبوطی حاصل کر لیتی ہے۔ اپنی سند کے اعتبار سے وہ حدیث ضعیف ہی رہتی ہے۔
ضعیف صحیح کی وجہ سے قوی ہوتی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ضعیف بالکل ہی راوی کا تُکا تھی۔ اس ضعیف راوی نے حدیث کو یاد رکھا اسی لئے تو وہ صحیح کی موافق ہوئی، اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس خاص روایت میں ضعیف راوی کی روایت صحیح کے برابر ہے کیونکہ اس کی تصدیق صحیح روایت سے ہو رہی ہے۔
سند ضعیف راوی کے حافظہ کی وجہ سے ہوتی ہے تو جب اس کے حافظے کی تصدیق ہو گئی تو وہ خاص سند ضعیف کیسے رہی؟ ہاں عمومی اعتبار سے آپ کہہ سکتے ہیں کہ عام حالات میں یہ راوی یا روایت ضعیف ہیں لیکن اس خاص روایت کو اس نے یاد رکھا اس لئے یہ اس کی صحیح روایات میں سے ہے۔

ثمَّ قَالَ لي أَحْمد كلهم ثِقَات كَانَ عِنْد زَكَرِيَّا كتاب فَكَانَ يَقُول [فِيهِ] سَمِعت الشّعبِيّ وَلَكِن زَعَمُوا كَانَ يَأْخُذ عَن جَابر وَبَيَان وَلَا يُسمى يَعْنِي مَا يروي من غير ذَاك الْكتاب يرسلها عَن الشّعبِيّ
(سوالات ابی داود لاحمد)
اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ زکریا جب کتاب سے دیکھ کر سمعت الشعبی کہتے تھے تب بھی اس میں یہ شک ہوتا تھا کہ یہ روایت جابر یا بیان سے انہوں نے لی ہے۔ جابر سے مراد جابر بن یزید الجعفی ہیں۔ اور کتاب کے علاوہ جب روایت کرتے تھے تو بیان ہی نہیں کرتے تھے اور ارسال کرتے تھے۔ یہاں ارسال کا لفظ ذکر کیا ہے لیکن یہ تدلیس ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کی شعبی سے سماعت کی تصریح بھی قبول نہیں ہے چہ جائیکہ معنعن روایت قبول ہو۔
یہ روایت سؤالات الآجری میں بھی موجود ہے لیکن اس میں سمعت کا لفظ نہیں ہے، بلکہ صرف یہ ہے:
"فَكَانَ يَقُول فِيهِ الشّعبِيّ وَلَكِن"
اور صحیح بھی یہی ہے کیونکہ اگر کہا جائے کہ زکریا سماع کی تصریح کے بعد بھی تدلیس کرتے تھے تو یہ ان کی عدالت پر جرح ہو گی جس سے وہ بری ہیں۔ لہٰذا اتنا بڑا الزام لگانے سے پہلے سوچنا ضروری ہے۔
دوسرا یہ کہ "ولکن زعموا" میں یہ لوگ کون ہیں؟ اور ایسا لگتا ہے کہ امام احمد بھی اس سے متفق نہیں ہیں اس لئے ان کے قول کو زعم کہا ہے۔
تیسرا یہ کہ دوسری روایت سے ثابت ہے کہ زکریا کے پاس مختلف صحیفے تھے اور جابر الجعفی کی روایات کا ان کے پاس ایک الگ سے صحیفہ تھا، جبکہ شعبی کا صحیفہ الگ تھا۔ یعنی ان دونوں کے صحیفے وروایات الگ صحیفوں میں تھے، چنانچہ امام الفسوی روایت کرتے ہیں:
"قال علي: قال يحيي : أخرج الي زكريا ثلاث صحائف صحيفة عن مشيخته سعد بن إبراهيم وغير ذلك، وصحيفة عن جابر، وصحيفة عن عامر ، فرددتها عليه وقلت: حدثني بما تحفظ." زکریا میرے پاس اپنے مشائخ کے تین صحیفے لے کر آئے: ایک صحیفہ سعد بن ابراہیم وغیرہ کی روایات کا، ایک صحیفہ جابر کی روایات کا، اور ایک صحیفہ عامر کی روایات کا، لیکن میں نے انہیں واپس لوٹا دیا اور کہا کہ مجھے وہ حدیثیں سنائیں جو آپ نے محفوظ کی ہیں (المعرفہ والتاریخ: 2:156)۔
اس سے ایک یہ پتہ چلتا ہے کہ جابر اور شعبی کے صحیفے الگ تھے، اور دوسرا اس بات کی تقویت بھی ملتی ہے کہ یحیی القطان اپنے شیوخ کی صرف اپنی مصرح بالسماع روایات نقل کرتے تھے۔
زکریا بن ابی زائدہ کی یہی روایت سماعت کی صراحت کے ساتھ مستخرج ابی عوانہ میں ملی ہے:
حدثنا أبو داود الحراني قال: ثنا جعفر قال: ثنا زكريا بن أبي زائدة ح، وحدثنا إسحاق بن سيار قال: ثنا عبيد الله بن موسى ح، وحدثنا أبو أمية قال: ثنا أبو نعيم، وعبيد الله بن موسى ح ، وحدثنا محمد بن حيويه، وأبو داود الحراني قالا: ثنا أبو نعيم قالوا: ثنا زكريا بن أبي زائدة قال: ثنا عامر، عن عروة بن المغيرة بن شعبة، عن أبيه قال: كنت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات ليلة في سفر فقال: «أمعك ماء؟» قلت: نعم، فنزل عن راحلته فمشى حتى توارى عني في سواد الليل، ثم جاء فأفرغت عليه من الإداوة، فغسل يديه ووجهه وعليه جبة من صوف، فلم يستطع أن يخرج ذراعيه منهما حتى أخرجهما من أسفل الجبة، فغسل ذراعيه ومسح برأسه، ثم أهويت لأنزع خفيه. فقال: «دعهما؛ فإني أدخلتهما طاهرتين - فمسح عليهما»
ان سب میں سے کس نے سماع کی صراحت کی ہے جس کے الفاظ ابو عوانہؒ نے لیے ہیں، میں اس تک نہیں پہنچ سکا۔ زکریا کے تینوں شاگردوں کی معنعن روایت آپ کے دیے ہوئے حوالہ جات میں موجود ہے۔ اس سند میں ابو امیہ جیسے حضرات بھی موجود ہیں جنہیں وہم لگتا تھا۔
اگر آپ کے طرز پر اس روایت کو دیکھا جائے تو اس میں سماع کی صراحت باطل ٹھہرتی ہے۔ اور اگر زیادتی ثقہ کے لحاظ سے دیکھا جائے تو سب ثقہ نہیں ہیں۔ لیکن اگر اسے سماع کی تصریح کے ساتھ صحیح مان بھی لیا جائے تب بھی ان کے سماع کے بیان کے باوجود امام احمدؒ کی تصریح کے مطابق شبہ موجود رہتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ حسن کے درجے تک جا پہنچے گی۔
ما شاء اللہ، آپ نے تو خود ہی مسئلہ سلجھا دیا ہے۔ سماع کی تصریح سامنے ہے۔ یحیی القطان کی روایت کی مزید تقویت ہو گئی۔
یحیی القطان کی زکریا سے مصرح بالسماع روایت کے علاوہ ان سب کی سماع کی تصریح بھی آ گئی۔
جہاں تک سوال ہے کہ یہاں کس نے سماع کی تصریح کی ہے تو عرض ہے کہ اسے ان سب نے بیان کیا ہے کیونکہ ابو عوانہ نے "قَالُوا: ثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ أَبِي زَائِدَةَ، قَالَ: ثَنَا عَامِرٌ" کہہ کر اس بات کی صراحت کی ہے کہ یہ روایت ان سب کی ہے جن کا ذکر کیا گیا ہے، اور وہ سب ثقہ ہیں۔
آپ کا کہنا کہ ان میں سے ایک راوی ابو امیہ ہے جس کو وہم لگتا تھا تو یہ اس روایت کو مضر نہیں کیونکہ ان کی موافقت یحیی القطان جیسے امام الرجال نے کر رکھی ہے۔
مزید یہ کہ باقی اسانید اور اس سند کے باقی تمام رجال اعلی درجہ کے ثقہ حفاظ ہیں لہٰذا آپ کا یہ کہنا کہ "ابو امیہ جیسے حضرات بھی موجود ہیں" مجھے سمجھ نہیں آیا۔ کیونکہ ان سب میں جرح صرف ابو امیہ پر ہے تو باقی حضرات کہاں ہیں؟
یحیی القطانؒ 198ھ میں فوت ہوئے ہیں۔ اسماعیلیؒ اگر احمد بن ابراہیم الاسماعیلی ہیں تو وہ 277 ھ میں پیدا ہوئے ہیں۔ ان کی یحیی سے ملاقات نہیں ہے۔ اب اگر یہ صرف ایک اندازہ ہے تو اس کی حیثیت اس اندازے سے زیادہ نہیں ہو سکتی جو صحیحین کے بارے میں لگایا گیا ہے کہ ان کی ہر تدلیس والی معنعن روایت کہیں سماع کی صراحت کے ساتھ بھی ضرور ہوگی۔ یہ ایک ایسا اندازہ ہے کہ اگر ثابت ہو جائے تو فبہا ورنہ اس کی کوئی دلیل نہیں۔
یحیی القطان، امام اسماعیلی کے شیخ الشیوخ میں سے ہیں۔ امام اسماعیلی نے صحیح بخاری پر مستخرج لکھی ہے جو اب مفقود ہے البتہ ابن حجر فتح الباری میں اس سے کافی کچھ نقل کرتے ہیں۔ ان کا یحیی کے بارے میں خبر دینا حجت ہے۔ اس کو ظن کہنا غلط ہے۔ اور اگر یہ اندازہ بھی ہوتا تو بھی حجت ہے کیونکہ جرح وتعدیل اور راویوں کی روایات کو پرکھ کر ان کا درجہ معلوم کرنا اور ان پر حکم لگانا یہ ایک علم اور تحقیق پر مبنی چیز ہے اسے اندازے بازی کہہ کر رد کرنا تمام جرح وتعدیل کے علم پر شک کرنے جیسا ہے۔
امام بخاری کا قول اکثر حضرات بطور حجت پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا سفیان الثوری اپنے فلاں فلاں شیخ سے تدلیس نہیں کرتے تھے حالانکہ بخاری نے بھی سفیان الثوری کو نہیں پایا، تو کیا آپ یہ کہیں گے کہ یہ بخاری کا اندازہ ہے؟ حالانکہ سفیان الثوری پر قلیل التدلیس کے حکم کے پیچھے ان جیسے اقوال ہی ہیں!
لہٰذا ایک ناقد کی بات کو محض ظن کہہ کر رد کرنا بہت غلط ہے۔ خاص کر جب اس کی تائید میں اتنے ثبوت بھی مل چکے ہیں اور آپ نے خود بھی دیکھ لیا کہ ابو عوانہ کی سند میں بھی سماع کی تصریح موجود ہے۔
اوپر امام یحیی القطان کے خود کا قول بھی نقل کیا ہے جس میں امام یحیی زکریا کو یہ کہتے ہیں کہ وہ اپنی صرف محفوظ کی ہوئی احادیث انہیں سنائیں۔ اس سے بھی امام اسماعیلی کی بات کی قوی تائید ہوتی ہے۔
مزید یہ کہ امام یحیی القطان سے اس پر دیگر کئی روایات ملتی ہیں کہ وہ اپنے فلاں شیخ سے صرف مصرح بالسماع روایت لیتے تھے، جن کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:
  • قال يحيى بن سعيد: ما كتبت عن سفيان شيئاً إلا قال: حدثني، أو حدثنا، إلا حديثين. «العلل» (318)
  • قال علي بن المديني: يحتاج الناس في حديث سفيان إلي يحيي القطان لحال الإخبار (الكفاية ص ٣٦٢)
  • وقال البخاري: أعلم الناس بالثوري يحيي بن سعيد، لأنه عرف صحيح حديثه من تدليسه (الكامل ١:١١١)
  • وقال يحيي القطان عن أبي حرة واصل بن عبد الرحمن: كتبت عن أبي حرة أحاديث يسيرة ما قال: سمعت وسألت (العلل أحمد: ٣:٢٢٩)
  • وقال أحمد: قال أبي: كنت أسأل يحيى بن سعيد، عن أحاديث إسماعيل بن أبي خالد، عن عامر، عن شريح، وغيره، فكان في كتابي: إسماعيل قال: حدثنا عامر، عن شريح، وحدثنا عامر، عن شريح فجعل يحيى يقول: إسماعيل، عن عامر. قلت: إن في كتابي: حدثنا عامر. فقال لي يحيى: هي صحاح، إذا كان شيء أخبرتك، يعني مما لم يسمعه إسماعيل من عامر. «العلل» (3566 و3567) .
اس میں یحیی نے کہا کہ میری اسماعیل سے ساری روایات صحیح ہیں اگر ان میں کوئی ایسی روایت ہوئی جو اسماعیل نے عامر سے نہیں سنی تو میں تمہیں بتا دوں گا۔ گویا امام یحیی القطان مدلس روایات کی پرکھ رکھتے تھے اور جس روایت میں تدلیس ہوتی وہ اس سے مطلع کر دیتے تھے۔
کیونکہ امام شعبہ کی طرح امام یحیی القطان بھی تدلیس کو قبیح وبُرا سمجھتے تھے اور اس سے ہر ممکن بچتے تھے۔ اور رجال پر بہت سخت تھے۔
  • وقال يحيي: كل شيء كتبت عن إسماعيل حدثنا عامر إلا أن يسمي رجلاً دون الشعبي. «العلل» (4940)
  • وقال عبد الرحمن بن مهدي: لو كنت لقيت ابن أبي خالد لكتبت عن يحيي عنه لأعرف صحيحها من سقيمها (تهذيب الكمال: ٣:٢١٧)
  • وقال عبد الله: حدثني ابن خلاد، قال: سمعت يحيى القطان يقول: أتيت ميمون المرثي فما صحح لي إلا هذه الأحاديث التي سَمِعتُهُا. «العلل» (4943)
یعنی امام قطان صرف وہی احادیث سنتے تھے جو صحیح ہوں۔
  • مزید امام یحیی مبارک بن فضالہ سے اپنی روایت کے متعلق فرماتے ہیں: "لم أقبل منه شيئا قط إلا ما قال: حدثنا فيه" (الجعديات وتاريخ بغداد)
  • وقال الإسماعيلي: يحيى بن سعيد لا يرضى أن يأخذ عن زهير ما ليس بسماع لشيخه (فتح الباري: ١:٢٥٨، والنكت علي كتاب ابن الصلاح ٢:٦٣١)
  • قال ابن التركماني الحنفي في الجوهر النقي (١:١٠٩): وقد اخرج الاسماعيلي هذا الحديث في المستخرج من جهة يحيى بن سعيد وفيه لا نرضى انناخذ عن زهير عن ابى اسحاق ما ليس بسماع لابي اسحاق
  • وقال أبو خيثمة زهير بن حرب: كان يحيي بن سعيد يحدث من حديث الحارث ما قال فيه أبو إسحاق: سمعت الحارث (تهذيب الكمال: ٥:٢٤٨)
لہٰذا آپ کا تو پتہ نہیں لیکن ہمارے اور اکثر حنفیہ (ان میں سے ابن الترکمانی کی مثال تو اوپر واضح ہے) کے نزدیک تو یحیی القطان کی مدلسین سے روایت سماع پر محمول ہوتی ہے۔
پھر اگر یہ بات واقعی ایسی ہو تب بھی ان کی شعبی سے سماع والی روایات میں بھی شبہ ہے۔ یہ روایت تب بھی زیادہ سے زیادہ حسن درجے کو پہنچے گی۔
اس کی حقیقت اوپر بیان کر دی گئی ہے۔ جو شخص سماع کی تصریح کے بعد بھی تدلیس کرے اسے عموما کذاب کہا جاتا ہے اور اس کی روایت کو موضوع لیکن آپ نے حسن کیسے کہہ دیا، یہ ایک پہیلی ہے، ابتسامہ۔
"و لا احفظ حديث ذا من حديث ذا"
"اور مجهے ان کی حدیث ان کی حدیث سے یاد نہیں ہے۔"
ظاہر تو یہی کہ مراد یہ ہے کہ میں نے دونوں حدیثیں یاد کی تھیں۔ اب مجھے یاد نہیں ہے کہ کس کی کون سی ہے۔ تو میں سنا رہا ہوں جس کی بھی ہوئی۔
باقی جو مراد آپ نے ذکر کی ہے اس کے لیے ماضی کا صیغہ "ماحفظت" یا جحد کا صیغہ "لم احفظ" استعمال ہوتا ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ "میں نے یاد نہیں کی"۔
آپ کے نزدیک ظاہر تو شاید یہی ہے لیکن باقی محدثین نے اس روایت میں ابن عون کو متابع کے طور پر ذکر کیا ہے۔ لہٰذا محدثین کی بات زیادہ راجح ہے۔ دوسرا یہ کہ جو معنی آپ نے بیان کیا وہ کسی نے بیان نہیں کیا، ورنہ اس حدیث کو معلول کہا جاتا۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ ابن عون کی بات بالکل واضح ہے کہ انہوں نے دونوں احادیث کے متون کو ایک ساتھ ملا کر بیان کیا ہے، اور آپ نے بھی شروع میں یہی کہا تھا کہ اس روایت کے بعض الفاظ ابن وہب کی روایت میں ہیں عروہ کی روایت میں نہیں، جبکہ بعض الفاظ عروہ کی روایت میں ہیں ابن وہب کی روایت میں نہیں، گویا ابن عون کا مطلب ثابت ہو گیا۔
اب اگر انہوں نے احفظت کہا ہے یا حفظت کہا ہے یا جو بھی کہا ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ان سے معنی میں کوئی زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ اور ان الفاظ میں بھی مطلب یہی ہے کہ مجھے ایک حدیث کا متن دوسری سے الگ یاد نہیں ہے یعنی ان کو دونوں ایک ساتھ یاد ہیں۔
ثقہ رواۃ میں یہاں اتنی کثرت موجود نہیں ہے کہ ہم یہ کہیں کہ یہ ان سب کے خلاف ہے۔ حصین اور شعبی دونوں مراحل پر دو رواۃ مخالفت کر رہے ہیں۔ اس لیے اس سماع کی بعض طرق میں موجودگی اگر یقینی نہیں تو بھی غلبہ ظن کو تو ثابت کرتی ہے۔
کثرت رواۃ بالکل ثابت ہے۔ امام شعبی سے اسے ان کے دس شاگردوں نے نقل کیا ہے گویا یہ شعبی سے متواترا مروی ہے، اور ان میں سے کسی نے بھی سماع کی تصریح بیان نہیں کی ہے۔ جبکہ حصین کی اپنی روایت میں بھی اختلاف ہے، کچھ نے بیان کی ہے جبکہ ابن فضیل نے بیان نہیں کی، گویا شعبی سے عدم سماع تو یقینی تھا ہی اوپر سے حصین جس کی روایت میں سماع ہے اس میں بھی اختلاف وشک ہے، لہٰذا ایسی واضح صورت میں بھی اگر یہ شاذ قول رد نہیں ہو گا تو مجھے نہیں پتہ کہ کب ہو گا۔
امام عقیلی وابن حجر جیسے ائمہ رجال اگر ابن المدینی جیسے امام کی سماع کی تصریح کو رد کر سکتے ہیں کیونکہ روایت میں انقطاع کا شک ہے تو ابن فضیل تو ان کے آس پاس بھی نہیں آتے۔
بہرحال، ماہر ائمہ کی بات ماننا زیادہ راجح ہے۔
صرف معنعن ہونے سے تو واسطہ ثابت نہیں ہو جاتا اور واسطے کے بغیر محمد بن فضیل عن حصین عن الشعبی، عبثر عن حصین عن الشعبی، قاسم بن معن عن خالد بن ابی سلیمان عن الشعبی اور ابو حنیفہ عن الشعبی کی اسناد موجود ہیں۔
جی صرف معنعن ہونے سے واسطہ ثابت نہیں ہوتا لیکن جب اسی روایت کو وہ راوی دوسری جگہ واسطے کے ساتھ روایت کرے تو معلوم ہوتا ہے کہ پہلی والی روایت جو اس نے بیان کی وہ منقطع تھی۔ لہٰذا وہاں معنعن کا ہونا تو واسطہ کی موجودگی کو مزید تقویت دیتا ہے۔ کیونکہ عن، اور قال قال وغیرہ تو پہلے سے ہی محتمل الفاظ ہیں یعنی روایت متصل بھی ہو سکتی ہے اور منقطع بھی، لیکن جب واسطہ کو دوسری جگہ واضح کر دیا گیا تو ان محتمل الفاظ کی بھی وضاحت ہو گئی کہ یہ دراصل انقطاع کی وجہ سے ہیں۔
اگر آپ محدثین کے اقوال دیکھیں تو آپ جانیں گے کہ محدثین اسانید میں انقطاع وتدلیس کی پہچان بھی اسی طرح کرتے ہیں۔ بہرحال ہمیں محدثین کے طریقے کو سمجھنے اور ان کی پیروی کی ضرورت ہے، اور انہی کی بات راجح ہے۔
واللہ اعلم بالصواب۔
 
Last edited:

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
ہمیں ان شاء اللہ ان ابحاث اور ان روایات کی تحقیق سے یہ فائدہ بھی ہوگا کہ ہم امام ابوحنیفہ رح کی جرح و تعدیل کے سلسلے میں کسی قریبی نتیجے تک پہنچ جائیں گے.
ہمارے پاس جتنی اسانید موجود ہیں ان کے اعتبار سے تو شاید ہم کسی نتیجے پر پہنچ جائیں کہ فلاں روایت میں مخالفت ہے اور فلاں میں موافقت لیکن جو اسانید ہمارے پاس موجود نہیں ہیں ان کے بارے میں فیصلہ نہیں کیا جا سکتا اور اسی لئے کسی راوی پر بھی محدثین کے حکم کے خلاف فیصلہ نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ ہمارے پاس متابعات ومخالفات کی پہچان کے لئے اسانید موجود نہیں ہیں جو ان کے پاس موجود تھیں۔
 
Top