• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تبصرہ دھاگہ "علل احادیث امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ"

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
یہ روایت سؤالات الآجری میں بھی موجود ہے لیکن اس میں سمعت کا لفظ نہیں ہے، بلکہ صرف یہ ہے:
"فَكَانَ يَقُول فِيهِ الشّعبِيّ وَلَكِن"
اور صحیح بھی یہی ہے کیونکہ اگر کہا جائے کہ زکریا سماع کی تصریح کے بعد بھی تدلیس کرتے تھے تو یہ ان کی عدالت پر جرح ہو گی جس سے وہ بری ہیں۔ لہٰذا اتنا بڑا الزام لگانے سے پہلے سوچنا ضروری ہے۔
ذرا سا نیچے آپ نے ایک حوالہ ذکر فرمایا ہے:
وقال أحمد: قال أبي: كنت أسأل يحيى بن سعيد، عن أحاديث إسماعيل بن أبي خالد، عن عامر، عن شريح، وغيره، فكان في كتابي: إسماعيل قال: حدثنا عامر، عن شريح، وحدثنا عامر، عن شريح فجعل يحيى يقول: إسماعيل، عن عامر. قلت: إن في كتابي: حدثنا عامر. فقال لي يحيى: هي صحاح، إذا كان شيء أخبرتك، يعني مما لم يسمعه إسماعيل من عامر. «العلل» (3566 و3567) .
ترجمہ: "میرے والد نے فرمایا: میں یحیی بن سعید سے اسماعیل بن ابی خالد عن عامر عن شریح وغیرہ کی احادیث کے بارے میں پوچھتا تھا۔ میری کتاب میں یہ تھا: اسماعیل نے کہا: ہمیں عامر نے بیان کیا شریح سے اور عامر نے بیان کیا شریح سے۔ تو یحیی کہتے: اسماعیل عن عامر۔ میں نے کہا: میری کتاب میں تو حدثنا عامر ہے۔ یحیی نے مجھے کہا: یہ صحیح ہیں۔ جب کوئی چیز ہوگی تو میں تمہیں بتا دوں گا۔ ان کی مراد وہ روایات تھیں جو اسماعیل نے عامر سے نہیں سنیں۔"
اسماعیل بن ابی خالد ثقہ راوی ہیں۔ امام احمدؒ نے یہ بات بتاتے ہوئے اسماعیل اور اپنے درمیان کے راوی کا نہ ذکر کیا اور نہ اس پر اعتراض کیا۔ یعنی ان کی سند اسماعیل تک صحیح تھی جس پر اعتماد کرتے ہوئے انہوں نے آگے کی بات کی ہے (امام احمدؒ كا مذهب ثقات سے مراسیل اور کسی حد تک منقطعات كے قبول كا ہے جیسا کہ "العدۃ" میں ہے)۔ اسماعیل سے ان کی روایت یہ تھی: حدثنا عامر۔ یہ تحدیث کی تصریح ہے اور امام احمد اسے اپنی کتاب سے روایت کرتے تھے یعنی بھول چوک بھی نہیں تھی۔ لیکن یحیی القطان نے فرمایا کہ یہ "عن عامر" ہے یعنی اسماعیل کی تحدیث کی صراحت کے باوجود بیچ میں واسطہ ہے۔
یہ ان کی عدالت پر جرح ہونی چاہیے لیکن نہیں ہے۔ یہاں اسی طرح یہاں پر بھی زکریا بن ابی زائدہ کی صرف شعبی سے روایت میں یہ مسئلہ ہے کہ "سمعت" کی صراحت کے باوجود محدثین اسے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کسی اور سے لی گئی حدیث ہے اور یہ ان کی عدالت پر جرح نہیں ہے۔
اصل میں بسا اوقات ایک محدث اپنی کتاب لکھتا ہے لیکن استاد کے سامنے نہیں بلکہ حافظے کی بنیاد پر۔ اور اس میں اس سے غلطی ہو جاتی ہے۔ زکریا بن ابی زائدہ شعبیؒ کے ڈائریکٹ شاگرد ہیں۔ آپ نے روایات شعبی سے بھی سنیں اور جابر، ابان وغیرہ کے واسطے سے بھی۔ کتاب غالباً آپ نے بعد میں لکھی ہوگی اس لیے اس میں یہ روایات سند کے لحاظ سے گڈمڈ ہو گئیں کہ کون سی واسطے سے تھی اور کون سی بلا واسطہ۔
ویسے زکریا کے شعبی سے سماع کے بارے میں بھی ابو زرعہ رازی نقل کرتے ہیں کہ وہ اختلاط کے بعد ہے۔
وسمعت أبا زرعة يحكي، عن ابن نمير، عن أبي النضر هاشم بن القاسم ، قال: حديث زكرياء، عن الشعبي ، إنما هو بعد الاختلاط . (الضعفاء لابی زرعہ)

جاری ہے۔۔۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
ٹکڑوں میں جواب دینے پر معذرت خواہ ہوں۔ وقت اور طبیعت ساتھ ہی اتنا دیتے ہیں۔

ویسے زکریا کے شعبی سے سماع کے بارے میں بھی ابو زرعہ رازی نقل کرتے ہیں کہ وہ اختلاط کے بعد ہے۔
وسمعت أبا زرعة يحكي، عن ابن نمير، عن أبي النضر هاشم بن القاسم ، قال: حديث زكرياء، عن الشعبي ، إنما هو بعد الاختلاط . (الضعفاء لابی زرعہ)
زکریا یا شعبی دونوں کے حالات میں اختلاط نہیں ملتا۔ اس لیے ممکن ہے کہ یہ درمیان کا کچھ عرصہ ہو جس میں کسی بیماری وغیرہ کی وجہ سے زکریا اختلاط کا شکار ہوئے ہوں۔ الفاظ ایسے ہیں گویا کہ یہ اختلاط معروف ہو اس زمانے میں۔
یہاں ذرا موہوم سا شبہ یہ بھی ہے کہ حقیقت میں الشعبی نہیں السبیعی ہو۔ اور ناسخین سے اس میں تبدیلی ہو گئی ہو۔ لیکن یہ شبہ موہوم اس لیے ہے کہ ابو اسحاق السبیعی "ابو اسحاق" کے نام سے مشہور ہیں اور اسی سے ذکر کیے جاتے ہیں بنسبت "السبیعی" کے۔ اسی لیے محققین نے بھی اسے "الشعبی" ہی برقرار رکھا ہے۔
باقی اللہ بہتر جانتا ہے۔
غالبا اسی لیے ابو زرعہ نے انہیں ثقہ کے بجائے صویلح ذکر کیا جو کہ کم مرتبہ ہے۔ اور ابو حاتمؒ نے انہیں لین الحدیث قرار دیا ہے۔ وجہ دونوں کے ہاں ان کی شعبی سے تدلیس ہے حالانکہ تدلیس کی وجہ سے بہت کم رواۃ مجروح ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی تدلیس بہت شدت کی تھی اور یہ واقعی سماع کے الفاط میں بھی غلطی کر جاتے تھے۔

باقی سوالات آجری میں جو یہ ہے "کان یقول فیہ: الشعبی" تو آجری نے یہ ابو داودؒ سے نقل کیا ہے اور ظاہر ہے کہ ابو داودؒ نے جو خود بیان کیا ہے وہ زیادہ قرین قیاس ہوگا۔

تیسرا یہ کہ دوسری روایت سے ثابت ہے کہ زکریا کے پاس مختلف صحیفے تھے اور جابر الجعفی کی روایات کا ان کے پاس ایک الگ سے صحیفہ تھا، جبکہ شعبی کا صحیفہ الگ تھا۔ یعنی ان دونوں کے صحیفے وروایات الگ صحیفوں میں تھے، چنانچہ امام الفسوی روایت کرتے ہیں:
"قال علي: قال يحيي : أخرج الي زكريا ثلاث صحائف صحيفة عن مشيخته سعد بن إبراهيم وغير ذلك، وصحيفة عن جابر، وصحيفة عن عامر ، فرددتها عليه وقلت: حدثني بما تحفظ." زکریا میرے پاس اپنے مشائخ کے تین صحیفے لے کر آئے: ایک صحیفہ سعد بن ابراہیم وغیرہ کی روایات کا، ایک صحیفہ جابر کی روایات کا، اور ایک صحیفہ عامر کی روایات کا، لیکن میں نے انہیں واپس لوٹا دیا اور کہا کہ مجھے وہ حدیثیں سنائیں جو آپ نے محفوظ کی ہیں (المعرفہ والتاریخ: 2:156)۔
اس سے ایک یہ پتہ چلتا ہے کہ جابر اور شعبی کے صحیفے الگ تھے، اور دوسرا اس بات کی تقویت بھی ملتی ہے کہ یحیی القطان اپنے شیوخ کی صرف اپنی مصرح بالسماع روایات نقل کرتے تھے۔
زکریا کے ان صحائف کا کیا حال تھا وہ تو اس روایت میں ہی واضح ہے۔ یحیی نے انہیں واپس کر دیا اور کہا کہ مجھے وہ روایات سنائیں جو آپ نے یاد کی ہیں۔ اس سے آگے یہ کہ انہوں نے "الرھن مرکوب" والی روایت سنائی اور اس میں کہا: حدثنا عامر۔
میں نے بہت ڈھونڈا کہ کہیں سے یہ معلوم ہو جائے کہ یحیی اس "حدثنا عامر" کہنے سے کیا مراد لے رہے ہیں؟ ان کی مراد زکریا پر طعن ہے کہ یہ زکریا نے شعبی سے نہیں سنی یا ان کی مراد روایت کا بیان ہے؟ لیکن مجھے اس کی کوئی تصریح کہیں نہیں ملی۔ البتہ امام احمد نے اسے حدثنا عامر سے نقل کیا ہے جس سے دوسری والی بات کو تقویت ملتی ہے۔
زکریا کی کتب کے بارے میں یحیی سے ایک اور روایت بھی ہے جس میں یہ ہے:
وقال عبد الله: كتب إلي ابن خلاد. قال: سمعت يحيى يقول: كان عند زكريا بن أبي زائدة كتاب. قال يحيى: أملى علي من كتابه، فذكرنا ليحيى أشياء عن زكريا، عن أبي إسحاق (یعنی السبیعی)، فأنكرها. وقال: أملاها علي من كتابه، وعرض علي حديث الأشياخ، فلم أنظر فيها.
(العلل)
العلل جو دار الخانی کی موجود ہے اس میں یہ روایت الفاظ کے انتہائی سقط کے ساتھ ہے۔ میں نے اسے دکتور قاسم علی سعد کی منہج الامام ابی عبد الرحمان النسائی سے نقل کیا ہے۔
اس روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ زکریا نے اپنی کتاب سے جو روایت یحییؒ کو سنائی انہوں نے اس کا انکار کیا۔
ایک تیسری روایت ہے جس میں یہ ہے کہ
حدثنا أبو داود، حدثنا الحسن بن الصباح، وابن يحيى، أن عليا حدثهم: قلت ليحيى بن سعيد: إن زكريا، أعني ابن أبي زائدة، كان يخرج كتابه؟ قال: نعم.
أخرج إلي كتاب الشعبي فكتبت منه، ثم أخرج إلي كتبا فرددتها، لم أرو منها شيئا، كتاب سعد بن إبراهيم وكتاب فراس.
(سوالات الآجري)
اس میں یہ ہے کہ یحیی القطانؒ نے شعبی کی کتاب میں سے لکھا اور دوسری کتابیں واپس کر دیں۔ صرف لکھنے کا ذکر ہے اور پہلی روایت میں اسے بھی واپس کرنے کا ذکر ہے۔ یعنی ایک بار تو یحیی نے ان کی کتاب سے روایات لکھ لیں لیکن بعد میں جب انہیں بھی صحیح نہیں پایا تو اگلی بار حفظ کی ہوئی روایات کا مطالبہ کیا۔

ما شاء اللہ، آپ نے تو خود ہی مسئلہ سلجھا دیا ہے۔ سماع کی تصریح سامنے ہے۔ یحیی القطان کی روایت کی مزید تقویت ہو گئی۔
یحیی القطان کی زکریا سے مصرح بالسماع روایت کے علاوہ ان سب کی سماع کی تصریح بھی آ گئی۔
جہاں تک سوال ہے کہ یہاں کس نے سماع کی تصریح کی ہے تو عرض ہے کہ اسے ان سب نے بیان کیا ہے کیونکہ ابو عوانہ نے "قَالُوا: ثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ أَبِي زَائِدَةَ، قَالَ: ثَنَا عَامِرٌ" کہہ کر اس بات کی صراحت کی ہے کہ یہ روایت ان سب کی ہے جن کا ذکر کیا گیا ہے، اور وہ سب ثقہ ہیں۔
آپ کا کہنا کہ ان میں سے ایک راوی ابو امیہ ہے جس کو وہم لگتا تھا تو یہ اس روایت کو مضر نہیں کیونکہ ان کی موافقت یحیی القطان جیسے امام الرجال نے کر رکھی ہے۔
اگر یہ بات کوئی علم حدیث اور محدثین کے منہج سے ناواقف شخص کہتا تو مجھے حیرت نہ ہوتی۔ ابو عوانہ نے "قالوا" کا مقولہ "حدثنا زکریا بن ابی زائدۃ" کو بنایا ہے کہ ان سب نے زکریا سے یہ روایت براہ راست سنی ہے۔ اس سے آگے کے الفاظ میں تحویل کے عمومی طریقے کے مطابق ایک یا دو اشخاص کے الفاظ لیے ہیں۔ اس پر دلالت اس سے ہوتی ہے کہ انہی حضرات سے ہمارے پاس ایسی روایات موجود ہیں جن میں "حدثنا زکریا بن ابی زائدۃ" موجود ہے لیکن آگے "عن" ہے۔ یعنی ان کا "حدثنا زکریا" کہنا یقینی ہے۔
مستخرج ابی عوانہ میں ہی یہ روایت اس طرح بھی مروی ہے:

حدثنا إسحاق بن سيار النصيبي قال: ثنا عبيد الله بن موسى ح، وحدثنا محمد بن حيويه قال: ثنا أبو نعيم ح، وحدثنا أبو أمية قال: ثنا أبو نعيم، وعبيد الله بن موسى قالا: حدثنا زكريا بن أبي زائدة، عن عامر، عن عروة بن المغيرة، عن أبيه قال: كنت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات ليلة في سفر، فقال: «أمعك ماء؟» فقلت: نعم، فنزل عن راحلته فمشى حتى توارى عني في سواد الليل، ثم جاء فأفرغت عليه من الإداوة فغسل يديه ووجهه وعليه جبة من صوف، فلم يستطع أن يخرج ذراعيه منهما حتى أخرجهما من أسفل الجبة، فغسل [ص:167] ذراعيه ومسح برأسه ثم أهويت لأنزع خفيه فقال: «دعهما فإني أدخلتهما طاهرتين فمسح عليهما»
حدثنا إبراهيم الحربي قال: ثنا ابن نمير قال: ثنا أبي قال: ثنا زكريا، بإسناده مثله

سوائے ابو داود الحرانی کے باقی تمام اسناد ایک جیسی ہیں بلکہ ابن نمیر کی سند اضافی ہے اور ان سب اسناد میں "عن" ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ الفاظ غالباً ابو داود الحرانیؒ کے ہیں۔ آگے آپ خود دیکھ لیجیے کہ یہاں یہ حقیقت میں کتنے ثقات کی مخالفت کر رہے ہیں؟

آپ کا کہنا کہ ان میں سے ایک راوی ابو امیہ ہے جس کو وہم لگتا تھا تو یہ اس روایت کو مضر نہیں کیونکہ ان کی موافقت یحیی القطان جیسے امام الرجال نے کر رکھی ہے۔
میرے انتہائی محترم بھائی! یحیی بن سعید القطان نے امام احمد کو کہا تھا کہ میری سندیں صحیح ہیں اور جب کوئی مسئلہ ہوگا (یعنی تحدیثمیں ) تو میں تمہیں بتا دوں گا۔ جب امام احمد "حدثنا" کہتے تو یحیی تصحیح کرتے "عن عامر"۔ یہ سب آپ کے اپنے دیے ہوئے حوالے میں موجود ہے اور یہاں امام احمد نے یہ روایت مسند احمد میں یحیی کی سند سے "عن عامر" سے ہی نقل کی ہے۔ یہ ان کے اپنے الفاظ ہیں اور تمام قیاسات کے خلاف ہیں۔

یحیی القطان، امام اسماعیلی کے شیخ الشیوخ میں سے ہیں۔ امام اسماعیلی نے صحیح بخاری پر مستخرج لکھی ہے جو اب مفقود ہے البتہ ابن حجر فتح الباری میں اس سے کافی کچھ نقل کرتے ہیں۔ ان کا یحیی کے بارے میں خبر دینا حجت ہے۔ اس کو ظن کہنا غلط ہے۔ اور اگر یہ اندازہ بھی ہوتا تو بھی حجت ہے کیونکہ جرح وتعدیل اور راویوں کی روایات کو پرکھ کر ان کا درجہ معلوم کرنا اور ان پر حکم لگانا یہ ایک علم اور تحقیق پر مبنی چیز ہے اسے اندازے بازی کہہ کر رد کرنا تمام جرح وتعدیل کے علم پر شک کرنے جیسا ہے۔
امام بخاری کا قول اکثر حضرات بطور حجت پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا سفیان الثوری اپنے فلاں فلاں شیخ سے تدلیس نہیں کرتے تھے حالانکہ بخاری نے بھی سفیان الثوری کو نہیں پایا، تو کیا آپ یہ کہیں گے کہ یہ بخاری کا اندازہ ہے؟ حالانکہ سفیان الثوری پر قلیل التدلیس کے حکم کے پیچھے ان جیسے اقوال ہی ہیں!
لہٰذا ایک ناقد کی بات کو محض ظن کہہ کر رد کرنا بہت غلط ہے۔ خاص کر جب اس کی تائید میں اتنے ثبوت بھی مل چکے ہیں اور آپ نے خود بھی دیکھ لیا کہ ابو عوانہ کی سند میں بھی سماع کی تصریح موجود ہے۔
اوپر امام یحیی القطان کے خود کا قول بھی نقل کیا ہے جس میں امام یحیی زکریا کو یہ کہتے ہیں کہ وہ اپنی صرف محفوظ کی ہوئی احادیث انہیں سنائیں۔ اس سے بھی امام اسماعیلی کی بات کی قوی تائید ہوتی ہے۔
مزید یہ کہ امام یحیی القطان سے اس پر دیگر کئی روایات ملتی ہیں کہ وہ اپنے فلاں شیخ سے صرف مصرح بالسماع روایت لیتے تھے، جن کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:
  • قال يحيى بن سعيد: ما كتبت عن سفيان شيئاً إلا قال: حدثني، أو حدثنا، إلا حديثين. «العلل» (318)
  • قال علي بن المديني: يحتاج الناس في حديث سفيان إلي يحيي القطان لحال الإخبار (الكفاية ص ٣٦٢)
  • وقال البخاري: أعلم الناس بالثوري يحيي بن سعيد، لأنه عرف صحيح حديثه من تدليسه (الكامل ١:١١١)
  • وقال يحيي القطان عن أبي حرة واصل بن عبد الرحمن: كتبت عن أبي حرة أحاديث يسيرة ما قال: سمعت وسألت (العلل أحمد: ٣:٢٢٩)
  • وقال أحمد: قال أبي: كنت أسأل يحيى بن سعيد، عن أحاديث إسماعيل بن أبي خالد، عن عامر، عن شريح، وغيره، فكان في كتابي: إسماعيل قال: حدثنا عامر، عن شريح، وحدثنا عامر، عن شريح فجعل يحيى يقول: إسماعيل، عن عامر. قلت: إن في كتابي: حدثنا عامر. فقال لي يحيى: هي صحاح، إذا كان شيء أخبرتك، يعني مما لم يسمعه إسماعيل من عامر. «العلل» (3566 و3567) .
اس میں یحیی نے کہا کہ میری اسماعیل سے ساری روایات صحیح ہیں اگر ان میں کوئی ایسی روایت ہوئی جو اسماعیل نے عامر سے نہیں سنی تو میں تمہیں بتا دوں گا۔ گویا امام یحیی القطان مدلس روایات کی پرکھ رکھتے تھے اور جس روایت میں تدلیس ہوتی وہ اس سے مطلع کر دیتے تھے۔
کیونکہ امام شعبہ کی طرح امام یحیی القطان بھی تدلیس کو قبیح وبُرا سمجھتے تھے اور اس سے ہر ممکن بچتے تھے۔ اور رجال پر بہت سخت تھے۔

  • وقال يحيي: كل شيء كتبت عن إسماعيل حدثنا عامر إلا أن يسمي رجلاً دون الشعبي. «العلل» (4940)
  • وقال عبد الرحمن بن مهدي: لو كنت لقيت ابن أبي خالد لكتبت عن يحيي عنه لأعرف صحيحها من سقيمها (تهذيب الكمال: ٣:٢١٧)
  • وقال عبد الله: حدثني ابن خلاد، قال: سمعت يحيى القطان يقول: أتيت ميمون المرثي فما صحح لي إلا هذه الأحاديث التي سَمِعتُهُا. «العلل» (4943)
یعنی امام قطان صرف وہی احادیث سنتے تھے جو صحیح ہوں۔
  • مزید امام یحیی مبارک بن فضالہ سے اپنی روایت کے متعلق فرماتے ہیں: "لم أقبل منه شيئا قط إلا ما قال: حدثنا فيه" (الجعديات وتاريخ بغداد)
  • وقال الإسماعيلي: يحيى بن سعيد لا يرضى أن يأخذ عن زهير ما ليس بسماع لشيخه (فتح الباري: ١:٢٥٨، والنكت علي كتاب ابن الصلاح ٢:٦٣١)
  • قال ابن التركماني الحنفي في الجوهر النقي (١:١٠٩): وقد اخرج الاسماعيلي هذا الحديث في المستخرج من جهة يحيى بن سعيد وفيه لا نرضى انناخذ عن زهير عن ابى اسحاق ما ليس بسماع لابي اسحاق
  • وقال أبو خيثمة زهير بن حرب: كان يحيي بن سعيد يحدث من حديث الحارث ما قال فيه أبو إسحاق: سمعت الحارث (تهذيب الكمال: ٥:٢٤٨)
لہٰذا آپ کا تو پتہ نہیں لیکن ہمارے اور اکثر حنفیہ (ان میں سے ابن الترکمانی کی مثال تو اوپر واضح ہے) کے نزدیک تو یحیی القطان کی مدلسین سے روایت سماع پر محمول ہوتی ہے۔

ان میں سے ایک حوالے میں بھی زکریا نہیں ہیں۔ اور یحیی القطانؒ کے اپنے الفاظ کے مطابق انہوں نے امام احمد کو "عن عامر" کہہ کر وہ روایات بتائی ہیں جن میں زکریا نے عامر شعبیؒ سے نہیں سنا۔
ممکن ہے باقی مدلسین کے سلسلے میں یحیی کا یہی طرز ہو جو آپ نے ذکر کیا ہے لیکن جہاں ان کی تصریح موجود ہے وہاں ہم کیا کر سکتے ہیں۔

اس کی حقیقت اوپر بیان کر دی گئی ہے۔ جو شخص سماع کی تصریح کے بعد بھی تدلیس کرے اسے عموما کذاب کہا جاتا ہے اور اس کی روایت کو موضوع لیکن آپ نے حسن کیسے کہہ دیا، یہ ایک پہیلی ہے، ابتسامہ۔
اور کمال یہ ہے کہ پہیلی امام احمدؒ نے بجھوائی ہے۔
وقال ابن هانىء: قلت لأبي عبد الله: أيما أحب إليك زكريا، أو فراس؟ قال: ما فيهما إلا ثقة، وزكريا حسن الحديث. «سؤالاته»
(موسوعۃ اقوال احمد)
امام احمدؒ نے ہی "سمعت الشعبی" والی جرح بھی کی ہے۔ ویسے یہ مزاحاً کہہ رہا ہوں۔ اس کا جواب اوپر تفصیلاً عرض کر دیا ہے۔
آپ نے ایک نکتہ یہ اٹھایا ہے کہ امام احمدؒ نے "زعموا" کا لفظ ذکر کیا ہے جس سے تضعیف سمجھ آتی ہے۔ اس کا امکان ہے لیکن زیادہ نہیں کیوں کہ اس کے بعد امام احمدؒ نے یہ بھی کہا ہے "زعموا أن يحيى بن زكريا بن أبي زائدة قال لو شئت أن أسمي كل من ينبىء أبي عن الشعبي لسميت" اور علامہ مزیؒ نے اس قول کو قطعی طور پر یحیی بن زکریا کی طرف منسوب کیا ہے۔
اس کے علاوہ سوالات آجری میں بھی اس قول کی نسبت بغیر لفظ "زعم" کے ہے جو کہ غالباً امام احمدؒ کی بات کا مفہوم ہے۔

جاری ہے۔۔۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
آپ کے نزدیک ظاہر تو شاید یہی ہے لیکن باقی محدثین نے اس روایت میں ابن عون کو متابع کے طور پر ذکر کیا ہے۔ لہٰذا محدثین کی بات زیادہ راجح ہے۔ دوسرا یہ کہ جو معنی آپ نے بیان کیا وہ کسی نے بیان نہیں کیا، ورنہ اس حدیث کو معلول کہا جاتا۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ ابن عون کی بات بالکل واضح ہے کہ انہوں نے دونوں احادیث کے متون کو ایک ساتھ ملا کر بیان کیا ہے، اور آپ نے بھی شروع میں یہی کہا تھا کہ اس روایت کے بعض الفاظ ابن وہب کی روایت میں ہیں عروہ کی روایت میں نہیں، جبکہ بعض الفاظ عروہ کی روایت میں ہیں ابن وہب کی روایت میں نہیں، گویا ابن عون کا مطلب ثابت ہو گیا۔
اب اگر انہوں نے احفظت کہا ہے یا حفظت کہا ہے یا جو بھی کہا ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ان سے معنی میں کوئی زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ اور ان الفاظ میں بھی مطلب یہی ہے کہ مجھے ایک حدیث کا متن دوسری سے الگ یاد نہیں ہے یعنی ان کو دونوں ایک ساتھ یاد ہیں۔
متابعت کی دو قسمیں ہوتی ہیں:
متابعت تامہ اور متابعت قاصرہ
متابعت تامہ یہ ہوتی ہے کہ دونوں رواۃ کی سند ایک ہی ہو اور متابعت قاصرہ یہ ہوتی ہے کہ سند میں شیخ یا ان کے اوپر کہیں اتفاق ہو جائے۔ یہ تفصیل حافظ ابن حجرؒ نے بیان فرمائی ہے:
والمتابعة على مراتب:
- إن حصلت للراوي نفسه فهي التامة.
- وإن حصلت لشيخه فمن فوقه فهي القاصرة.
ويستفاد منها التقوية.
مثال المتابعة: ما رواه الشافعي في "الأم"، عن مالك، عن عبد الله بن دينار، عن ابن عمر، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "الشهر تسع وعشرون، فلا تصوموا حتى روا الهلال، ولا تفطروا حتى تروه، فإن غم عليكم فأكملوا العدة ثلاثين".
فهذا الحديث، بهذا اللفظ، ظن قوم أن الشافعي تفرد به عن مالك، فعدوه في غرائبه؛ لأن أصحاب مالك رووه عنه بهذا الإسناد بلفظ: "فإن غم عليكم فاقدروا له". لكن وجدنا للشافعي متابعا، وهو عبد الله بن مسلمة القعنبي، كذلك أخرجه البخاري عنه، عن مالك، وهذه متابعة تامة.
ووجدنا له، أيضا، متابعة قاصرة في صحيح ابن خزيمة من رواية عاصم بن محمد، عن أبيه -محمد بن زيد- عن جده عبد الله بن عمر، بلفظ: "فكملوا ثلاثين"، وفي صحيح مسلم من رواية عبيد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر، بلفظ: "فاقدروا ثلاثين".
ولا اقتصار في هذه المتابعة -سواء كانت تامة أم قاصرة- على اللفظ، بل لو جاءت بالمعنى كفى، لكنها مختصة بكونها من رواية ذلك الصحابي.

(نزہۃ النظر)
یہی بات علامہ سخاویؒ نے بھی فرمائی ہے:
(فإن يكن) ذاك الراوي (شورك من) راو (معتبر به) بأن لم يتهم بكذب وضعف، إما بسوء حفظه أو غلطه، أو نحو ذلك، حسب ما يجيء إيضاحه في مراتب الجرح والتعديل، أو ممن فوقه في الوصف من باب أولى (ف) هو (تابع) حقيقة، وهي المتابعة التامة إن اتفقا في رجال السند كلهم.
(وإن شورك شيخه) في روايته له عن شيخه (ففوق) بضم القاف مبنيا ; أي: أو شورك من فوق شيخه إلى آخر السند واحدا واحدا حتى الصحابي، (فكذا) أي: فهو تابع أيضا، ولكنه في ذلك قاصر عن مشاركته هو، وكلما بعد فيه المتابع كان أنقص.
(فتح المغیث)


روایت بالا عن محمد بن سیرین عن عمرو عن المغیرۃ، اور بعض طرق میں عن محمد عن رجل عن عمرو عن المغیرۃ کی سند سے مروی ہے اور اس کا اور عامر عن عروہ عن المغیرۃ کا اتفاق مغیرہ بن شعبہ رض پر ہوتا ہے اس لیے یہ متابعت قاصرہ ہے۔ پھر متابعت میں چونکہ صرف معنی میں متابعت کافی ہے اس لیے عمرو والی روایت بآسانی عروہ والی روایت کی متابع بن جاتی ہے۔

میں نے یہ کہا کہ ابن عون کی روایت کے الفاظ بتاتے ہیں کہ وہ عمرو کی روایت ہے۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ اسے محدثین نے متابعت میں ذکر کیا ہے۔ میں عرض کرتا ہوں کہ یہ متابعت قاصرہ کے طور پر ذکر کی گئی ہے۔

دوسرا یہ کہ جو معنی آپ نے بیان کیا وہ کسی نے بیان نہیں کیا، ورنہ اس حدیث کو معلول کہا جاتا۔
جی نہیں۔ اس میں کوئی ایسی علت موجود نہیں ہے جو اس کو رد کرنے کا سبب ہو۔ عروہ عن المغیرۃ اور عمرو عن المغیرہ دونوں روایات ہی محدثین نے ذکر کی ہیں۔

حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ ابن عون کی بات بالکل واضح ہے کہ انہوں نے دونوں احادیث کے متون کو ایک ساتھ ملا کر بیان کیا ہے، اور آپ نے بھی شروع میں یہی کہا تھا کہ اس روایت کے بعض الفاظ ابن وہب کی روایت میں ہیں عروہ کی روایت میں نہیں، جبکہ بعض الفاظ عروہ کی روایت میں ہیں ابن وہب کی روایت میں نہیں، گویا ابن عون کا مطلب ثابت ہو گیا۔
شاید آپ درست نہ سمجھے ہوں۔ میں نے یہ تو کہا تھا کہ اس روایت کے بعض الفاظ ابن وہب کی روایت میں ہے اور عروہ کی روایت میں نہیں۔ لیکن میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ اس کے بعض الفاظ عروہ کی روایت میں ہیں اور ابن وہب کی روایت میں نہیں۔ کیوں کہ یہ روایت ابن وہب کی روایت کے ساتھ (میری تلاش کی حد تک) کلیۃ متفق ہے اور اس سے صرف تھوڑا اختصار اور روایت بالمعنی اس میں ہے۔ اس میں ایسا کوئی فعل نہیں جو ابن وہب کی روایت میں نہ ہو لیکن اس میں ایک اور بڑا فعل ایسا ہے جو عامر عن عروہ کی کسی روایت میں نہیں ہے اور وہ ہے حضرت عبد الرحمان بن عوف رض کا لوگوں کو امامت کروانا۔ یہ فعل بھی مجھے عامر عن عروہ عن المغیرہ کی کسی روایت میں نہیں ملا۔
تو جب یہ روایت کلیۃ ابن وہب کی روایت سے متفق ہے اور اس میں دو بڑے فعل ایسے ہیں جو عامر عن عروہ کی کسی روایت میں نہیں ہیں تو پھر یہ ابن وہب کی ہی روایت ہو سکتی ہے۔ اسی سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ آپ کا یہ کہنا کہ "انہیں دونوں ایک ساتھ یاد تھیں" اور وہ ملا کر بیان کرتے تھے، یہ درست نہیں اور تحقیق کے منافی ہے۔

کثرت رواۃ بالکل ثابت ہے۔ امام شعبی سے اسے ان کے دس شاگردوں نے نقل کیا ہے گویا یہ شعبی سے متواترا مروی ہے، اور ان میں سے کسی نے بھی سماع کی تصریح بیان نہیں کی ہے۔ جبکہ حصین کی اپنی روایت میں بھی اختلاف ہے، کچھ نے بیان کی ہے جبکہ ابن فضیل نے بیان نہیں کی، گویا شعبی سے عدم سماع تو یقینی تھا ہی اوپر سے حصین جس کی روایت میں سماع ہے اس میں بھی اختلاف وشک ہے، لہٰذا ایسی واضح صورت میں بھی اگر یہ شاذ قول رد نہیں ہو گا تو مجھے نہیں پتہ کہ کب ہو گا۔
امام عقیلی وابن حجر جیسے ائمہ رجال اگر ابن المدینی جیسے امام کی سماع کی تصریح کو رد کر سکتے ہیں کیونکہ روایت میں انقطاع کا شک ہے تو ابن فضیل تو ان کے آس پاس بھی نہیں آتے۔
بہرحال، ماہر ائمہ کی بات ماننا زیادہ راجح ہے۔
شعبی سے دس شاگرد؟؟؟ کیا ان سب کی اسانید درست ہیں؟
بہرحال، ماہر ائمہ کی بات ماننا زیادہ راجح ہے۔
سر تسلیم خم ہے۔ اگر ایک حوالہ مل جائے اس تصریح کے بطلان کو تو دل کو بھی اطمینان ہو جائے گا۔

جی صرف معنعن ہونے سے واسطہ ثابت نہیں ہوتا لیکن جب اسی روایت کو وہ راوی دوسری جگہ واسطے کے ساتھ روایت کرے تو معلوم ہوتا ہے کہ پہلی والی روایت جو اس نے بیان کی وہ منقطع تھی۔ لہٰذا وہاں معنعن کا ہونا تو واسطہ کی موجودگی کو مزید تقویت دیتا ہے۔ کیونکہ عن، اور قال قال وغیرہ تو پہلے سے ہی محتمل الفاظ ہیں یعنی روایت متصل بھی ہو سکتی ہے اور منقطع بھی، لیکن جب واسطہ کو دوسری جگہ واضح کر دیا گیا تو ان محتمل الفاظ کی بھی وضاحت ہو گئی کہ یہ دراصل انقطاع کی وجہ سے ہیں۔
اگر آپ محدثین کے اقوال دیکھیں تو آپ جانیں گے کہ محدثین اسانید میں انقطاع وتدلیس کی پہچان بھی اسی طرح کرتے ہیں۔ بہرحال ہمیں محدثین کے طریقے کو سمجھنے اور ان کی پیروی کی ضرورت ہے، اور انہی کی بات راجح ہے۔
میرے بھائی! اگر آپ نے امام بیہقیؒ کی مکمل تقلید کرنی ہے تو پھر تحقیق کے چکر میں کیوں پڑتے ہیں؟ دارقطنیؒ جیسے امام نے بھی عن عروہ کی سند کو صحیح اور عن المغیرۃ کی سند کو منقطع قرار دینے کے بجائے عن عروۃ کی سند کو صرف حسن کہا ہے۔ حالانکہ دارقطنیؒ الفاظ کی بنیاد پر اچھی خاصی روایات رد کر جاتے ہیں جن کے رد کی وجہ نہیں بنتی۔
محدثین کرام کی پیروی بھی لازم اور اسلاف فقہاء کی اتباع بھی لیکن تحقیق کی راہ میں جو اپنی رائے ہے وہ بھی دیانت علمی ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
ترجمہ: "میرے والد نے فرمایا: میں یحیی بن سعید سے اسماعیل بن ابی خالد عن عامر عن شریح وغیرہ کی احادیث کے بارے میں پوچھتا تھا۔ میری کتاب میں یہ تھا: اسماعیل نے کہا: ہمیں عامر نے بیان کیا شریح سے اور عامر نے بیان کیا شریح سے۔ تو یحیی کہتے: اسماعیل عن عامر۔ میں نے کہا: میری کتاب میں تو حدثنا عامر ہے۔ یحیی نے مجھے کہا: یہ صحیح ہیں۔ جب کوئی چیز ہوگی تو میں تمہیں بتا دوں گا۔ ان کی مراد وہ روایات تھیں جو اسماعیل نے عامر سے نہیں سنیں۔"
اسماعیل بن ابی خالد ثقہ راوی ہیں۔ امام احمدؒ نے یہ بات بتاتے ہوئے اسماعیل اور اپنے درمیان کے راوی کا نہ ذکر کیا اور نہ اس پر اعتراض کیا۔ یعنی ان کی سند اسماعیل تک صحیح تھی جس پر اعتماد کرتے ہوئے انہوں نے آگے کی بات کی ہے (امام احمدؒ كا مذهب ثقات سے مراسیل اور کسی حد تک منقطعات كے قبول كا ہے جیسا کہ "العدۃ" میں ہے)۔ اسماعیل سے ان کی روایت یہ تھی: حدثنا عامر۔ یہ تحدیث کی تصریح ہے اور امام احمد اسے اپنی کتاب سے روایت کرتے تھے یعنی بھول چوک بھی نہیں تھی۔ لیکن یحیی القطان نے فرمایا کہ یہ "عن عامر" ہے یعنی اسماعیل کی تحدیث کی صراحت کے باوجود بیچ میں واسطہ ہے۔
اس قول کو آپ نے غلط سمجھا ہے۔
امام احمد نے اسماعیل حدثنا عامر یعنی صیغہ سماع سے روایت نقل کی، تو امام قطان نے فرمایا کہ روایت دراصل صیغہ عن سے مروی ہے۔ پھر انہوں نے کہا کہ اگرچہ یہ عن سے مروی ہے لیکن یہ صحیح ہیں، اور اگر کوئی انقطاع والی بات ہو گی تو میں تمہیں بتا دوں گا۔
جبکہ آپ نے محض عن کی موجودگی سے یہ سمجھ لیا کہ امام قطان کے نزدیک درمیان میں واسطہ ہے۔
آپ نے کہا کہ امام احمد نے اپنے اور اسماعیل کے درمیان کے راوی کا ذکر نہیں کیا تو عرض ہے کہ یہ روایات ظاہرا انہوں نے یحیی القطان سے ہی لی ہیں اور اسی لئے انہوں نے پوچھا کہ یہ حدثنا ہے؟ تو امام قطان نے تصحیح کرتے ہوئے کہا نہیں یہ عن سے مروی ہے لیکن پھر بھی صحیح ہے اور اگر کوئی انقطاع ہوگا تو میں خبردار کر دوں گا۔ امام قطان کا خبردار کرنے کا کیا مطلب بنتا ہے جب وہ روایات ان کی ہیں ہی نہیں؟
دوسری بات یہ کہ اگر پیچ میں کوئی اور راوی بھی ہوتا تو امام قطان نے اس راوی کی روایت کو اپنے تتبع کی بنیاد پر غلط کہا ہے کیونکہ وہ اسماعیل کی روایات کے سب سے بڑے عالم تھے۔ لہٰذا یہ بات بالکل غلط ہے کہ سماع کی تصریح کے باوجود کوئی شخص تدلیس کرے اور وہ صدوق بھی رہے۔ اگر غلطی سے تحدیث کی ہے تو بھی کوئی شخص اس کو روایت کرنے والے کو خطاء کار کہے گا کیونکہ اسماعیل نے پہلے سے ہی قطان کو وہ روایت عن سے بیان کی ہوئی ہے، گویا وہ اپنے ضبط کی بنیاد پر دوسرے راوی کی روایت کو غلط کہیں گے۔ ورنہ یہ کہنا کہ اسماعیل نے غلطی سے تحدیث کی ہے اس کی کوئی دلیل نہیں بنتی۔ بہرحال صحیح یہی ہے کہ امام قطان اپنی ہی روایت کردہ احادیث کی تصحیح کر رہے ہیں۔
آپ خود بھی اگر اس قول پر غور کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ اس روایت میں کوئی انقطاع نہیں ہے۔ امام قطان خود فرما رہے ہیں کہ یہ روایت صحیح ہے اور اگر انقطاع ہوگا تو میں تمہیں بتا دوں گا، گویا یہاں انقطاع نہیں ہے اسی لئے تو انہوں نے ایسا کہا۔
لہٰذا محض ایک تصحیح کی بنیاد پر یہ کہنا کہ یہاں کوئی واسطہ چھوٹ گیا ہے یہ غلط ہے۔
اس بات کی وضاحت امام احمد کے دوسرے قول سے بھی ہوتی ہے، چنانچہ ان کے بیٹے عبد اللہ کہتے ہیں: حدثي أبي. قال: سألت يحيى بن سعيد. قلت: هذه الأحاديث كلها صحاح، يعني أحاديث ابن أبي خالد، عن عامر، ما لم يقل فيها حدثنا عامر، فكأنه قال: نعم. وقال يحيى: إذا كان يريد أنه لم يسمع أخبرتك. «العلل» (4320) . میں نے یحیی بن سعید سے پوچھا: کیا یہ ساری احادیث - یعنی ابن ابی خالد کی عامر سے وہ ساری روایات جن میں انہوں نے حدثنا نہیں کہا - صحیح ہیں تو انہوں نے کہا: ہاں، اور کہا: جب ان کی مراد یہ ہو کہ انہوں نے کوئی حدیث نہیں سنی تو میں تمہیں بتا دوں گا۔
گویا امام احمد نے ان سے اس بات کی تصدیق کی کہ اسماعیل نے جن روایات میں شریح سے حدثنا نہیں کہا وہ صحیح ہیں۔ اس بات سے ان کی پچھلی بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ امام احمد نے غلطی سے اپنی روایت میں تحدیث بیان کر دی تو یحیی القطان نے کہا نہیں یہ عن سے مروی ہے لیکن پھر بھی صحیح ہے۔ پھر امام احمد نے تصحیح کرتے ہوئے پوچھا: کیا ان کی وہ ساری احادیث جن میں انہوں نے تحدیث نہیں کی ہے وہ صحیح ہیں، تو قطان نے کہا ہاں۔ یعنی انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ اسماعیل نے روایت میں تحدیث کی ہی نہیں تھی۔ اور پھر امام قطان کا کہنا کہ اگر انقطاع ہوا تو وہ خبردار کردیں گے اس بات پر کوئی اشکال کی گنجائش نہیں چھوڑتا۔
اور پھر اگر آپ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ کوئی زکریا اور اسماعیل وغیرہ جیسے راوی غلطی سے بھی تحدیث کر سکتے ہیں تو پھر ابن فضیل کی روایت میں کیوں آپ اس بات سے انکار کرتے ہیں، جبکہ تمام قرائن بھی اس کے خلاف ہیں؟
امام احمدؒ كا مذهب ثقات سے مراسیل اور کسی حد تک منقطعات كے قبول كا ہے جیسا کہ "العدۃ" میں ہے
حالانکہ یہ بات غلط ہے لیکن اس کا یہاں اس بات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
یہ ان کی عدالت پر جرح ہونی چاہیے لیکن نہیں ہے۔ یہاں اسی طرح یہاں پر بھی زکریا بن ابی زائدہ کی صرف شعبی سے روایت میں یہ مسئلہ ہے کہ "سمعت" کی صراحت کے باوجود محدثین اسے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کسی اور سے لی گئی حدیث ہے اور یہ ان کی عدالت پر جرح نہیں ہے۔
جب انہوں نے اصلا تحدیث کی ہی نہیں تو یہ ان کی عدالت پر جرح بھی نہیں ہے۔
اصل میں بسا اوقات ایک محدث اپنی کتاب لکھتا ہے لیکن استاد کے سامنے نہیں بلکہ حافظے کی بنیاد پر۔ اور اس میں اس سے غلطی ہو جاتی ہے۔ زکریا بن ابی زائدہ شعبیؒ کے ڈائریکٹ شاگرد ہیں۔ آپ نے روایات شعبی سے بھی سنیں اور جابر، ابان وغیرہ کے واسطے سے بھی۔ کتاب غالباً آپ نے بعد میں لکھی ہوگی اس لیے اس میں یہ روایات سند کے لحاظ سے گڈمڈ ہو گئیں کہ کون سی واسطے سے تھی اور کون سی بلا واسطہ۔
زکریا شعبی کے شاگرد تھے جیسا کہ آپ نے کہا، تو اگر وہ کہیں کہ فلاں حدیث میں نے شعبی سے سنی ہے جبکہ انہوں نے نہیں سنی تو اس بات کا کیسے پتہ چلے گا کہ اس میں انہوں نے غلطی کی ہے؟ ظاہرا تو یہ ایک جھوٹ ہے جو انہوں نے کہا ہے، اب اس جھوٹ کو غلطی کہنے کے لئے دلائل وقرائن کی ضرورت ہے۔ لہٰذا یا تو زکریا سے ان کے بعض تلامذہ نے اس حدیث کو واسطے سے ذکر کیا اور بعض نے بنا واسطے کے تو ہم راجح روایت کے پیش نظر شاید یہ کہہ سکتے ہیں کہ زکریا نے غلطی کی ہے، لیکن تب بھی یہ کوئی خاص دلیل نہیں ہے کیونکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہو سکتا ہے زکریا نے اسے بالواسطہ اور بلاواسطہ دونوں طرح سنا ہو۔ اس کو ان کی غلطی کہنا پھر بھی ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا کسی کی اپنے شیخ سے تصریح سماع کو بنا دلیل غلطی کہنا ممکن نہیں ہے۔ اسی لئے اگر کوئی سماع کی تصریح کرے اور پھر بھی کہا جائے کہ اس نے یہ روایت اپنے شیخ سے نہیں سنی، تو یہ جھوٹ کا الزام ہے جو لگایا گیا ہے، ورنہ اس کو غلطی کہنے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
فرض کریں کہ غلطی ہو بھی، تو ایک روایت میں ہو گی، دو میں ہوگی یا تین میں ہوگی وغیرہ، لیکن آپ یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ زکریا کی شعبی سے اکثر روایات میں غلطی ہے جن میں انہوں نے سماع کی تصریح کی ہے اور ہر روایت میں ایک ہی طرح کی غلطی ہے یعنی سماع کی تصریح کی۔ گویا جب بھی وہ شعبی کی روایت لکھنے بیٹھتے تو ہر بار ایک ہی قسم کی غلطی کرتے اور اس غلطی کو بار بار دہراتے، یہ تو عقلا بھی محال معلوم ہوتا ہے۔ یہ الٹا ان کے کذاب ہونے کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ کوئی شخص بار بار ایک بات بیان کرے حالانکہ وہ جھوٹی ہے۔
آپ نے دراصل ایک قول پڑھا اور اپنی باقی ساری بحث کو اسی کے گرد اس سے اپنی سمجھ کو صحیح ثابت کرنے میں لگا دی۔ جبکہ محدثین میں سے کسی نے بھی زکریا کی روایات میں یہ اعتراض نہیں کیا ہے۔
حالانکہ اگر امام احمد کے قول میں واقعی "سمعت" کا لفظ موجود بھی ہے تو اس کا ظاہر مطلب یہی ہے کہ زکریا کے پاس جو شعبی کی روایات کا صحیفہ تھا اس میں سمعت الشعبی کے الفاظ تھے، اور وہ صحیفہ خود کسی اور کا تھا۔ یعنی مثال کے طور پر زکریا نے بیان بن بشر کا صحیفہ لیا یا ان سے ان کا صحیفہ خود لکھا، اور انہوں نے - یعنی بیان بن بشر نے - پھر اس صحیفہ میں کہا سمعت الشعبی۔۔۔ گویا صحیفہ تو شعبی کی روایات کا ہے لیکن اس کو بیان بن بشر نے لکھا ہے یا انہوں نے لکھوایا ہے اور اسی لئے صحیفہ میں سمعت الشعبی بیان کی طرف منسوب ہے نہ کہ زکریا کی طرف۔ اور چونکہ صحیفہ اس خاص شیخ کا تھا اس لئے ہر حدیث میں اس کا نام ذکر کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔
اور اس بات کی مزید تائید یحیی القطان کے اس قول سے بھی ہوتی ہے جس میں جابر الجعفی اور شعبی کے صحیفوں کو الگ الگ بتایا گیا ہے گویا زکریا کے پاس اپنے ہر شیخ کے صحیفے الگ الگ موجود تھے، چنانچہ شعبی کے صحیفے میں ان کی شعبی سے روایات ہوں گی، اور جابر کے صحیفے میں ان کی شعبی ودیگر شیوخ سے روایات ہوں گی۔ اور ہر شیخ نے اپنے صحیفے میں سمعت الشعبی کہا جو ان کی طرف منسوب ہے۔ اور اسی لئے امام قطان نے ان صحیفوں کو لوٹاتے ہوئے ان سے کہا کہ آپ صرف وہ روایات بیان کریں جو آپ نے خود محفوظ کی ہیں یعنی آپ نے خود سنی ہیں۔
یا امام احمد کے قول کا ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس صحیفہ میں زکریا نے سمعت الشعبی کہا ہے اس لئے وہ صحیح ہے جبکہ انہوں نے جابر وبیان کے زریعے بھی شعبی کی روایات لی ہیں۔ اور امام ابو داود کی وضاحت اسی معنی کی طرف اشارہ کرتی ہے، چنانچہ انہوں نے فرمایا:
وقال أبو داود: قلت لأحمد: زكريا بن أبي زائدة؟ قال: ثقة، لا بأس به. قلت هو مثل مطرف، قال: لا، ثم قال لي أحمد: كلهم ثقات، كان عند زكريا كتاب، فكان يقول فيه: سمعت الشعبي، ولكن زعموا كان يأخذ عن جابر، وبيان، ولا يسمى، يعني ما يروي من غير ذاك الكتاب، يرسلها عن الشعبي. (سؤالاته: ٣٥٩) یعنی جو روایات انہوں نے اس کتاب کے علاوہ بیان کی ہیں وہ انہوں نے شعبی سے مرسلا یعنی ان لوگوں سے تدلیس کے زریعے بیان کی ہیں۔
اس قول سے ظاہر ہے کہ امام احمد کا مطلب یہ ہے کہ زکریا کا صحیفہ جس میں انہوں نے سمعت الشعبی کہا ہے وہی صحیح ہے حالانکہ وہ بیان وجابر جیسے لوگوں سے بھی روایت کرتے تھے اور ان کا نام ذکر نہیں کرتے تھے، یعنی ان سے تدلیس کیا کرتے تھے۔
بہرحال دونوں میں سے کوئی بھی مطلب ہو، اس روایت کی صحت یا زکریا کے سماع کی تصریح پر کوئی اثر انداز نہیں ہوتا۔ اس قول کے مطابق زکریا کے سماع کی تصریح معتبر ہے اور اس قول میں ایسا کچھ بھی نہیں جو ان کے سماع کی تصریح کو رد کرے۔ کیونکہ سماع کی تصریح کے باوجود تدلیس ثابت ہونا جھوٹا ہونے کی نشانی ہے اور اسی بنیاد پر محدثین نے کئی راویوں کو کذاب کہا ہے۔
جبکہ محدثین میں سے کوئی نہیں ہے جو آپ کی اس بات میں آپ کی تائید کرتا ہو، اگر کوئی ہے تو ضرور پیش کریں، ان شاء اللہ۔
ویسے زکریا کے شعبی سے سماع کے بارے میں بھی ابو زرعہ رازی نقل کرتے ہیں کہ وہ اختلاط کے بعد ہے۔
وسمعت أبا زرعة يحكي، عن ابن نمير، عن أبي النضر هاشم بن القاسم ، قال: حديث زكرياء، عن الشعبي ، إنما هو بعد الاختلاط . (الضعفاء لابی زرعہ)
اولا: شعبی کے اختلاط کا زکریا کا ان سے تصریح سماع ذکر کرنے کا کیا تعلق ہے؟ زکریا نے اگر شعبی سے حدیث سنی ہے تو یہ ان کا اپنا عمل ہے اس میں شعبی کے مختلط ہونے نہ ہونے کا کوئی واسطہ ہی نہیں۔
ثانیا: اس قول میں اختلاط کا ذکر سراسر غلط ہے کیونکہ زکریا اور شعبی دونوں کو ہی کسی نے مختلط نہیں کہا ہے۔ آپ کتب رجال کا پورا ذخیرہ پھول کر دیکھ لیں اگر کسی ایک نے بھی ان کو مختلط کہا تو ذکر کریں۔ اگر یہ مختلط نہیں ہیں تو اس قول کا کیا مطلب؟
ثالثا: اس قول میں دراصل غلطی ہے، السبیعی کی جگہ الشعبی لکھا گیا ہے۔ اور یہ غالبا ناسخ کی غلطی ہے۔ کیونکہ اسی قول کو الضعفاء کے مصنف البرذعی سے حافظ ابن رجب رحمہ اللہ نے اس طرح نقل کیا ہے:
"وقال أبو عثمان البرذعي: سمعت أبا زرعة، يقول: سمعت ابن نمير، يقول: سماع يونس وزكريا وزهير من أبي إسحاق بعد الاختلاط." (شرح علل الترمذی: ج 2 ص 710)
زکریا یا شعبی دونوں کے حالات میں اختلاط نہیں ملتا۔ اس لیے ممکن ہے کہ یہ درمیان کا کچھ عرصہ ہو جس میں کسی بیماری وغیرہ کی وجہ سے زکریا اختلاط کا شکار ہوئے ہوں۔ الفاظ ایسے ہیں گویا کہ یہ اختلاط معروف ہو اس زمانے میں۔
آپ نے خود میری بات کی تصدیق کردی، جزاک اللہ خیرا۔
اگر اختلاط سرے سے ملتا ہی نہیں حتی کہ ابو زرعہ سے خود بھی اس کے علاوہ کسی روایت میں ذکر نہیں ہے تو قوی احتمال ہے کہ یہ ناسخ کی غلطی ہے تو پھر ممکنات کے پیچھے پڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس طرح تو ہم ہر غلطی کو ایک امکان کہہ کر اس کو بھی جگہ دے سکتے ہیں۔
امکانات کی بنیاد پر کچھ ثابت نہیں ہوتا۔ اس بیماری کا ثبوت کہیں کوئی نہیں ہے الٹا محدثین نے زکریا کو ثقہ حفاظ میں شمار کیا ہے۔ اس کے برعکس یہ مشہور ہے کہ محدثین نے زکریا کی السبیعی سے روایات پر اسی طرح کا کلام کیا ہے تو یہ کیوں ممکن نہیں ہے کہ اس روایت میں ابو زرعہ کی مراد السبیعی ہیں نہ کہ الشعبی۔
جہاں تک الفاظ کی بات ہے تو آپ نے خود فرما دیا ہے کہ الفاظ ایسے ہیں گویا کہ یہ اختلاط معروف ہے، یعنی اختلاط اتنا مشہور ہے کہ اختلاط ہونے کا ذکر کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی بلکہ صرف یہ کہہ دیا کہ زکریا کی ان سے روایت اختلاط کے بعد کی ہے۔ تو اگر یہ اختلاط اتنا مشہور تھا تو اس کا ذکر کہیں نہ کہیں تو ضرور ہونا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہے، جبکہ ابو اسحاق السبیعی کا اختلاط ہی اس قسم کا ہے جس پر ابو زرعہ کے الفاظ کہے جا سکتے ہیں۔
یہاں ذرا موہوم سا شبہ یہ بھی ہے کہ حقیقت میں الشعبی نہیں السبیعی ہو۔ اور ناسخین سے اس میں تبدیلی ہو گئی ہو۔ لیکن یہ شبہ موہوم اس لیے ہے کہ ابو اسحاق السبیعی "ابو اسحاق" کے نام سے مشہور ہیں اور اسی سے ذکر کیے جاتے ہیں بنسبت "السبیعی" کے۔ اسی لیے محققین نے بھی اسے "الشعبی" ہی برقرار رکھا ہے۔
اس پر میں آپ ہی کے الفاظ دہرانے کی جسارت کروں گا، "
اگر یہ بات کوئی علم حدیث اور محدثین کے منہج سے ناواقف شخص کہتا تو مجھے حیرت نہ ہوتی۔" ابتسامہ
اب اگر آپ کو وہ مثالیں دکھانی پڑیں جن میں محدثین نے عن السبیعی کہہ کر احادیث نقل کی ہیں یا انہیں صرف السبیعی کہہ کر ذکر کیا ہے تو یہ اس بحث کے رتبے کے لائق نہیں ہو گا۔
بہرحال محدثین تو مختلف ناموں سے احادیث نقل کرتے رہتے ہیں کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ وہ اس نام سے مشہور نہیں اس لئے جس بات کی طرف تحقیق اشارہ کرتی ہے اس کو ماننے سے انکار کر دیا جائے؟ ویسے تو امام شعبی بھی عامر نام کی بجائے شعبی سے زیادہ مشہور ہیں پھر بھی کئی لوگوں نے اس حدیث کو عن عامر کہہ کر روایت کیا ہے۔ اب اگر کوئی شخص کہے کہ ہو سکتا ہے یہاں عامر سے مراد کوئی دوسرا عامر ہو تو کیا کہیں گے؟
اس کے برعکس آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ امام سبیعی جتنا اپنی کنیت سے مشہور ہیں شاید اس سے زیادہ ہی السبیعی کی نسبت سے مشہور ہیں۔ آپ علم حدیث کے ادنی سے ادنی طالب علم کو بھی پوچھیں کہ السبیعی سے کون مراد ہے تو وہ آپ کو عمرو بن عبد اللہ السبیعی کا نام ہی بتائے گا۔ بلکہ السبیعی کی نسبت شروع ہی ان سے ہوئی ہے۔ آپ کو کوئی دوسرا راوی اس نسبت سے نہیں ملے گا ان سے پہلے۔
بلکہ اگر قرائن اشارہ کرتے ہوں تو راوی کو اس کے غریب سے غریب تر نام سے ملا کر بھی بات ثابت کی جا سکتی ہے، بلکہ کی گئی ہے۔ اور السبیعی پر ایسا کہنا تو بہت ہی حیران کن بات ہے۔
بلکہ سبیعی کا شعبی سے تصحیف ہو جانا تو کوئی نادر بات بھی نہیں ہے بلکہ اس تصحیف کی کئی مثالیں کتب رجال میں ملتی ہیں، مثلا:
تاریخ دمشق میں ہے:
وأما كميل بالميم فهو كميل بن زياد يروي عن علي بن أبي طالب وابن مسعود وأبي هريرة حديثه مشهور روى عنه عبد الرحمن بن جندب (وأبو إسحاق السبيعي) (1)
اور اس کے تحت نسخوں کا اختلاف بتاتے ہوئے محقق کہتے ہیں:
"ما بين معكوفتين سقط من الأصل ومكانه فيه: والشعبي" (50:250)
بہرحال اگر ہم اس قول کو صحیح تسلیم کر بھی لیں تو آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اس قول کے مطابق زکریا اختلاط کا شکار ہو گئے تھے، حالانکہ اس قول میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے کیونکہ یہاں اختلاط کا الزام امام شعبی پر لگایا گیا ہے نہ کہ زکریا پر۔
آپ کو خود اس بات پر شک ہو رہا ہے کہ شاید یہاں شعبی کی بجائے السبیعی ہیں، تو اگر یہاں پر السبیعی ہوتے تو کیا تب بھی آپ یہی کہتے کہ اختلاط السبیعی کو نہیں زکریا کو ہوا ہے؟ حالانکہ مختلط شخص کی روایت کی صحت کا علم اس بات سے ہوتا ہے کہ کس نے اس سے اختلاط سے پہلے سنا اور کس نے بعد میں۔ اور اسی لئے ابو زرعہ نے کہا ہے کہ زکریا نے السبیعی سے اختلاط کے بعد سنا ہے، یعنی السبیعی کے اختلاط کے بعد۔ مختلط راوی کی صحت معلوم کرنے کے لئے کیا کسی نے یہ قاعدہ بھی کبھی بیان کیا ہے کہ اس کے تلامذہ کی بجائے اس کے شیوخ کو دیکھا جائے کہ اس نے کس شیخ سے اختلاط سے پہلے سنا ہے؟
اختلاط میں اعتبار تلامذہ کا ہوتا ہے نہ کہ شیوخ کا۔ اور اسی لئے یہاں اختلاط کی نسبت شعبی کی طرف کی جا رہی ہے نہ کہ زکریا کی طرف، جو کہ غلط ہے کیونکہ یہاں السبیعی ہونا چاہیے۔
اور اگر ہم مان بھی لیں کہ زکریا آخری عمر میں مختلط ہو گئے تھے، تو عرض ہے کہ شعبی 100 ھ میں فوت ہوئے جبکہ زکریا 147 یا 148 یا 149 میں فوت ہوئے تو اگر انہیں اختلاط ہوا بھی تھا تو یہ کیسا اختلاط ہے جو ان کی بھری جوانی میں ہوا جب انہوں نے شعبی سے روایت کی؟
غالبا اسی لیے ابو زرعہ نے انہیں ثقہ کے بجائے صویلح ذکر کیا جو کہ کم مرتبہ ہے۔ اور ابو حاتمؒ نے انہیں لین الحدیث قرار دیا ہے۔ وجہ دونوں کے ہاں ان کی شعبی سے تدلیس ہے حالانکہ تدلیس کی وجہ سے بہت کم رواۃ مجروح ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی تدلیس بہت شدت کی تھی اور یہ واقعی سماع کے الفاط میں بھی غلطی کر جاتے تھے۔
غالبا، ممکن ہے، اور شاید وغیرہ سے ثابت اور مسلم باتیں رد نہیں کی جاتیں۔ آپ ایک فرضی سمجھ پر ہر چیز قیاس کرتے ہوئے اتنے سارے مسئلے نہیں نکال سکتے۔ اگر ان کی تدلیس بہت شدت والی بھی تسلیم کی جائے تو اس کا زیاد سے زیادہ یہی مطلب ہو گا کہ ان کی معنعن روایات شعبی سے قبول نہ کی جائیں، لیکن ان کی مصرح بالسماع روایات بھی رد کرنا ان پر جھوٹ کی تہمت لگانے کے مترادف ہے، جس کی حقیقت اوپر بیان کر دی گئی ہے۔ کیا محدثین میں سے کسی نے بھی ان کی مصرح بالسماع روایت پر یہ الزام لگایا ہے جو آپ نے ایک قول سے سمجھا ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر یقینا آپ کی سمجھ غلط ہے محدثین کرام نے اجماعی طور پر ان کی مصرح بالسماع روایات کو قبول کیا ہے اور ان کی تصحیح کی ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اب یہ معاملہ دلائل کا نہیں بلکہ ایک ہی بات کے دو طرح فہم کا رہ گیا ہے. اور فہم تو اللہ پاک نے مختلف بنائی ہے. اس لیے میں مزید کیا کہہ سکتا ہوں.
یہ تو اجتہاد ہے. جس کا صحیح ہوگا اسے دو ثواب اور جس کا غلط ہوگا اسے ایک ثواب مل جائے گا.
آپ نے بہت تحمل سے اور عمدہ بحث فرمائی. مجھے بہت نفع ہوا. جزاک اللہ احسن الجزاء
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
ہماری اس مکمل بحث میں جن باتوں کا آپ نے جواب نہیں دیا تو اگر اتفاق کی وجہ سے جواب نہیں دیا تو اس کے مطابق اپنی اصل پوسٹ میں تدوین فرما لیجیے گا۔

آپ نے تھریڈ میں حدیث نمبر ایک بھی پوسٹ کی ہے۔ وہ بہت عمدہ اور علمی بحث ہے۔ اور میں اس میں آپ کی رائے سے اتفاق کرتا ہوں۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
اب یہ معاملہ دلائل کا نہیں بلکہ ایک ہی بات کے دو طرح فہم کا رہ گیا ہے. اور فہم تو اللہ پاک نے مختلف بنائی ہے. اس لیے میں مزید کیا کہہ سکتا ہوں.
یہ معاملہ ابھی بھی دلائل کا ہے۔ فہم تو آپ نے بنا دلائل کے سمجھا ہے اور اسی کی تصحیح کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ جب کوئی شخص کسی قول سے ایسی چیز اخذ کرے جو اس سے پہلے کسی نے نہیں کی بلکہ تمام علماء نے اس فہم میں اس کی مخالفت کی ہو، تو یہ اجتہاد نہیں کہلاتا۔
بہرحال فہم کی بات تو صرف احمد کے قول تک محدود ہے باقی باتیں تو وہیں ہیں۔
آپ نے بہت تحمل سے اور عمدہ بحث فرمائی. مجھے بہت نفع ہوا. جزاک اللہ احسن الجزاء
وایاک ایضا
ہماری اس مکمل بحث میں جن باتوں کا آپ نے جواب نہیں دیا تو اگر اتفاق کی وجہ سے جواب نہیں دیا تو اس کے مطابق اپنی اصل پوسٹ میں تدوین فرما لیجیے گا۔
جواب اس لئے نہیں دیا کیوں کہ یہ پوسٹ ابھی جاری ہے۔ اور میں نے پوسٹ کے نیچے "جاری ہے۔۔۔" لکھا ہوا ہے، جیسا کہ آپ نے بھی کیا تھا۔ ابتسامہ
گذارش ہے کہ بقیہ جواب کا انتظار کیجئے۔
ان کچھ دنوں کے لئے میں مصروف ہوں ان کے بعد ان شاء اللہ مکمل جواب لکھ دوں گا۔
 
Top