• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تبلیغی جماعت، فضائل اعمال اور قرآن

شمولیت
مارچ 20، 2018
پیغامات
172
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
64
جو اپنے ہاتھوں سے شرع کا نوشتہ لکھتے ہیں، پھر لوگوں سے کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس سے آیا ہوا ہے
جواب: اہل سنت کے چاروں فقہی سلسلوں کا اصول ہے کہ غیر منصوص مسائل یعنی وضاحت اور شرح طلب مسائل میں اپنی تحقیق پیش کر کے ھذا من عندی واللہ اعلم یا عندالامام ابوحنیفہ اور عندالامام شافعی یا عندالاحناف وغیرہ لکھنا اور ایسے اجتھادی مسائل میں دوسرے آئمہ فقہ اور ان کے سلسلے کے علما کی تحقیق کا احترام کرنا، انہیں اپنی تحقیق پر عمل کا حق دینا انہیں مطعون نہ کرنا۔ یہ اہل سنت کے اصولوں میں سے ہے۔ اگر کبھی کسی نے تشدد اختیار کیا بھی ہو تو وہ استثنا ہے نہ کہ عموم۔
اس کے برعکس جو غیر تقلیدی سلسلے ہیں۔ وہ غیر منصوص اور اجتھادی مسائل میں اپنی تحقیق کو عین قرآن و حدیث اور حرف آخر قرار دیتے ہیں اور دوسروں کو گمراہ۔ گویا اس اختلافی معاملے میں حق بات کی ان پر وحی کر دی گئی ہے۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
جواب: بے شک۔ اللہ کا کلام سچ ہے۔ اور اس کلام کا بنیادی اطلاق ان طبقات پر ہوتا ہے جو منقطع فی العلم ہیں بعد کی پیداوار ہیں۔ ان طبقات کے بانیوں کا علمی حسب نسب مشکوک ہوتا ہے اور یہ مقدس اصطلاحات کی آڑ میں اپنے ذاتی فلسفوں، نظریات اور ناقص تحقیقات کو پھیلاتے ہیں۔ ان کا اصل مقصد بنیادی طور پر اسلام کے کسی نہ کی اصول سے توڑنا یا کاٹنا ہوتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کو ناقص و مسخ کیا جا سکے۔
جیسے اہل بیت کی آڑ میں صحابہ سے کاٹنا،قرآن کا نام لے کر حدیث سے اور حدیث کا نام لے کر فقہ سے اور نبی کا نام لے کر ختم نبوت سے اور ولیوں کا نام لے کر توحید سے اور توحید کا نام لے کر تصوف سے وغیرہ
محترمی و مکرمی !
ان آیات کا اطلاق یہود کےساتھ ساتھ ان لوگوں پر بھی ہوتا ہے جو منقطع فی العلم نہیں بلکہ متواتر فی العلم ہوں چاہے وہ قبل کی پیداوار ہوں یا بعد کی۔اس لیے اس منہج ( تصوف)کے لوگ مجبور ہیں کہ اپنے بزرگوں کے توسط سے قبور سے روحانی فیض، تصورِ شیخ اور چلہ کشی جیسی خرافات پر مبنی اعمال کے فضائل بھی قرآن و سنت کے چشمۂ صافی سے برآمد کریں ۔ آیات کاا شارہ دراصل انہی اعمال و افعال کے متعلق تھا ۔ ”المھند علی المفند“دیوبندی و طبقۂ خاص کے درمیان اتحاد کا بین ثبوت ہے ۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
اس کے برعکس جو غیر تقلیدی سلسلے ہیں۔ وہ غیر منصوص اور اجتھادی مسائل میں اپنی تحقیق کو عین قرآن و حدیث اور حرف آخر قرار دیتے ہیں اور دوسروں کو گمراہ۔ گویا اس اختلافی معاملے میں حق بات کی ان پر وحی کر دی گئی ہے۔
یہی بات تو ہم کہتے ہیں کہ کیا آئمہ اربعہؒ ( امام ابو حنیفہ ؒ، امام مالک بن انسؒ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ) کے پاس جبریل امین تشریف لایا کرتے تھے ؟ یا علم و تحقیق ان کے چلے جانے کے بعد مفقود و فنا ہو گئی ؟
 
شمولیت
مارچ 20، 2018
پیغامات
172
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
64
متواتر فی العلم ہوں چاہے وہ قبل کی پیداوار ہوں یا بعد کی۔
متواتر فی العلم بھئ اور بعد کی پیداوار بھی؟ یہ دونوں متضاد باتیں ہیں۔
جیسے حدیث کی سند ہوتی ہے ایسے ہی علما کی بھی سند ہوتی ہے۔ جو انہیں خیرالقرون کے علما تک پہنچاتی ہے۔
منکرین حدیث کی علمی سند غلام احمد پرویز پر جا کر رک جاتی ہے۔ اس نے کس سے پڑھا، علم حاصل کیا کوئی علم نہیں۔ یہی حال دور جدید کے تمام متجددین کا ہے۔ احمد رضاخان، سرسید احمد خان، نواب صدیق حسن خان، غلام احمد قادیانی کے اساتذہ پر تحقیق جاری ہے ابھی تک ان کے اساتذہ کے نام سامنے نہیں آئے۔ نہ ہی ان کے متبعین دے سکے ہیں اور نہ ہی ان کے منفرد عقائد، امتیازی مسائل اور منھج علمی دور انگریز سے پہلے کے علما برصغیر اور ان کی تصانیف سے ملتا ہے۔ اگر ہے تو ہماری راہنمائی فرمائیں۔ نام استاد و تائید عقائد و مسائل ومنھج من علما قبل عہد الانگریز مثلا شاہ اسماعیل شہید، شاہ ولی اللہ، شیخ احمد سرہندی وغیرہم
 
شمولیت
مارچ 20، 2018
پیغامات
172
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
64
امام ابو حنیفہ ؒ، امام مالک بن انسؒ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ) کے پاس جبریل امین تشریف لایا کرتے تھ
ان مجتھدین کی چند خصوصیات ہیں جو بعد کے لوگوں کو میسر نہیں آئیں۔
۱۔ دور خیرالقرون: اس کے بارے میں نبی پاک ﷺ کی بشارات ہیں۔ امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ مولد۸۰ ھ، امام مالک مولد ۹۳ھ، امام شافعی مولد ۱۵۰ ھ، امام شافعی مولد ۱۶۴ھ یہ سب تابعی یا تبع تابعین ہیں۔
۲۔ تلقی بالقبول: امت کے کثیر تعداد میں علما، محدثین، مفسرین، مصلحین نے ہر دور میں ان پر اعتماد و انحصار کیا
۳۔ تدوین و جامعیت و شاگرد: ان کے مسالک مدون ہیں جامع ہیں اور انہیں بڑی تعداد میں شاگرد علما و فقھا میسر آئے جنہوں نے ان کو قرآن و حدیث پر رکھ کر خوب پرکھا اور اصلاح بھی کی اور جو جمہور علما نے پسند کیا اسے ہی فقہ کا حصہ بنایا ان آئمہ کے بارے میں معصوم عن الخطا کا عقیدہ نہیں رکھا گیا اور نہ ہی اندھی تقلید کی گئی۔ اسی لئے مفتی بہ اقوال کا تصور پیدا ہوا۔ لیکن تنقید واصلاح کا یہ کام و حق عامیوں اور متجددین کو نہیں دیا جا سکتا کہ وہ منقطع فی العم بھی ہیں ناقصین بھی اور تقوے و اخلاص کے اس اعلی معیار پر بھی پورا نہیں اترتے جو اس کا م کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ واللہ اعلم
 
شمولیت
مارچ 20، 2018
پیغامات
172
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
64
منہج ( تصوف)کے لوگ مجبور ہیں کہ اپنے بزرگوں کے توسط سے قبور سے روحانی فیض، تصورِ شیخ اور چلہ کشی جیسی خرافات
تصوف میں دو احتمالات ہیں۔ مردہ بزرگ کا مزار بنا کر اس سے حاجت روائی اور مشکل کشائی کرنا۔ یہ بلاشبہ ھرام اور شرکیہ فعل ہے۔ اور دوسرا زندہ متبع سنت عارف باللہ کی صحبت میں رہ کر تزکیہ نفس کرنا یعنی اپنے دل کو حرص، ہوس، طمع، لالچ، بغض، کینہ، تکبر، ریاکاری ، ناشکری، بے صبری جیسی مذموم صفات سے پاک کرنا تو یہ عین مقاصد نبوت میں سے ہے۔ (ویزکیھم)
قبور کا روحانی فیض یہ ہے کہ وہاں جا کر فکر آخرت اور موت کی یاد کو پیدا کیا جائے۔ اگر کوئی خاص صلاحیت و استعداد والے متبع سنت عالم جو حدود کا خیال رکھنا جانتے ہیں ان کی روح سے ئمکلام ہونے کا دعوی کرتے ہیں یا ان سے بعض معاملات میں علمی و روحانی راہنمائی لیتے ہیں تو اس کا ایسے ہی پورا امکان موجود ہے جیسے بعض عاملین کا جنات سے ہمکلام ہونے گا دعوی۔ شرک تب لازم آئیگا جب ان سے حاجت روائی اور مشکل کشائی کرائی جائیگی اور انہیں ہر وقت ہر جگہ سے سننے و جاننے کی صلاحیت کا حامل سمجھ کر مدد کے لئے غائبانہ پکارا جائیگا۔
تصور شیخ اس آیت کا مصداق ہے واتبع سبیل من اناب الی۔ جیسے علما سے علم اخذ کیا جاتا ہے ایسے ہی اہل اللہ سے روحانیت۔ علم ظاہری اعمال کا ہوتا ہے اور روحانیت باطنی اعمال کی۔ اگر اسے فقط حصول روحانیت تک محدود رکھا جائے تو شرک لازم نہیں آتا۔
چلہ کشی سے مراد چالیس دن تک کوئی خاص عمل کرنا یا ایک ماحول میں رہنا ہے۔ جیسے مدارس میں آٹھ سال لگانا کہیں نہیں آیا لیکن عالم بننے کی ایک ترتیب ہے ایسے ہی چالیس دن عامیوں کی ایک ترتیب ہے۔ کیونکہ چالیس دن میں انسانی مزاج کے اندر تغیر آتا ہے۔
ان سب باتوں کو مثبت طریقے سے بھی لیا جا سکتا ہے اور منفی بھی۔ لوگوں کے عمل اور نتیجے پر منحصر ہے اگر شریعت مدگی میں آئی تو محمود ورنہ مزموم۔ واللہ اعلم
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
متواتر فی العلم بھئ اور بعد کی پیداوار بھی؟ یہ دونوں متضاد باتیں ہیں۔
جیسے حدیث کی سند ہوتی ہے ایسے ہی علما کی بھی سند ہوتی ہے۔ جو انہیں خیرالقرون کے علما تک پہنچاتی ہے۔
منکرین حدیث کی علمی سند غلام احمد پرویز پر جا کر رک جاتی ہے۔ اس نے کس سے پڑھا، علم حاصل کیا کوئی علم نہیں۔ یہی حال دور جدید کے تمام متجددین کا ہے۔ احمد رضاخان، سرسید احمد خان، نواب صدیق حسن خان، غلام احمد قادیانی کے اساتذہ پر تحقیق جاری ہے ابھی تک ان کے اساتذہ کے نام سامنے نہیں آئے۔ نہ ہی ان کے متبعین دے سکے ہیں اور نہ ہی ان کے منفرد عقائد، امتیازی مسائل اور منھج علمی دور انگریز سے پہلے کے علما برصغیر اور ان کی تصانیف سے ملتا ہے۔ اگر ہے تو ہماری راہنمائی فرمائیں۔ نام استاد و تائید عقائد و مسائل ومنھج من علما قبل عہد الانگریز مثلا شاہ اسماعیل شہید، شاہ ولی اللہ، شیخ احمد سرہندی وغیرہم
محترمی !
آپ میرے مؤ قف کو شائد سمجھ نہیں پائے ۔ یہود رسول اللہ ﷺ کی آمد سے پوری طرح واقف تھے لیکن چونکہ آخری رسول بنی اسحاق کی بجائے بنی اسماعیل سے مبعوث ہوئے اس لیے انہوں نے کتاب اللہ کی واضح اور صریح آیات میں تاویلات کر کے نبیﷺ کی نبوت و رسالت کا انکار کر دیا ۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہود متواتر فی العلم تھے کیونکہ ان کے پاس کتاب اللہ تھی ۔ اب اسی مشابہت کا معاملہ موجودہ دور کے کچھ طبقات میں بھی پایا جاتا ہے کہ کتاب اللہ اور سنتِ رسولﷺ کی موجودگی میں ایسے اعما ل و افعال کو جنم دیتے ہیں جن کا کوئی ثبوت کتاب اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے اسوۂ حسنہ میں نہیں ملتا ۔
تصور شیخ اس آیت کا مصداق ہے واتبع سبیل من اناب الی
اس آیت کی ذرا وضاحت فرمائیں گے کہ ” تصور ِ شیخ“ کہاں ہے ؟
بور کا روحانی فیض یہ ہے کہ وہاں جا کر فکر آخرت اور موت کی یاد کو پیدا کیا جائے۔ اگر کوئی خاص صلاحیت و استعداد والے متبع سنت عالم جو حدود کا خیال رکھنا جانتے ہیں ان کی روح سے ئمکلام ہونے کا دعوی کرتے ہیں یا ان سے بعض معاملات میں علمی و روحانی راہنمائی لیتے ہیں تو اس کا ایسے ہی پورا امکان موجود ہے جیسے بعض عاملین کا جنات سے ہمکلام ہونے گا دعوی۔
اس طرح کا تجربہ کس صحابی کو میسر آیا ہے ؟
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
ان مجتھدین کی چند خصوصیات ہیں جو بعد کے لوگوں کو میسر نہیں آئیں۔
۱۔ دور خیرالقرون: اس کے بارے میں نبی پاک ﷺ کی بشارات ہیں۔ امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ مولد۸۰ ھ، امام مالک مولد ۹۳ھ، امام شافعی مولد ۱۵۰ ھ، امام شافعی مولد ۱۶۴ھ یہ سب تابعی یا تبع تابعین ہیں۔
۲۔ تلقی بالقبول: امت کے کثیر تعداد میں علما، محدثین، مفسرین، مصلحین نے ہر دور میں ان پر اعتماد و انحصار کیا
۳۔ تدوین و جامعیت و شاگرد: ان کے مسالک مدون ہیں جامع ہیں اور انہیں بڑی تعداد میں شاگرد علما و فقھا میسر آئے جنہوں نے ان کو قرآن و حدیث پر رکھ کر خوب پرکھا اور اصلاح بھی کی اور جو جمہور علما نے پسند کیا اسے ہی فقہ کا حصہ بنایا ان آئمہ کے بارے میں معصوم عن الخطا کا عقیدہ نہیں رکھا گیا اور نہ ہی اندھی تقلید کی گئی۔ اسی لئے مفتی بہ اقوال کا تصور پیدا ہوا۔ لیکن تنقید واصلاح کا یہ کام و حق عامیوں اور متجددین کو نہیں دیا جا سکتا کہ وہ منقطع فی العم بھی ہیں ناقصین بھی اور تقوے و اخلاص کے اس اعلی معیار پر بھی پورا نہیں اترتے جو اس کا م کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ واللہ اعلم
ہمیں کیسے معلوم ہوگا کہ یہ منقطع فی العلم ، ناقصین اور اخلاص و تقویٰ سے عاری ہیں ؟ جدید و قدیم محققین کے متعلق ایسا گمان کہیں تقلید اختیار کرنے کے بعد تو نہیں ہوتا ؟ اور سب سے اہم سوال :-
علم و تحقیق ان کے چلے جانے کے بعد مفقود و فنا ہو گئی ؟
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
تصوف میں دو احتمالات ہیں۔ مردہ بزرگ کا مزار بنا کر اس سے حاجت روائی اور مشکل کشائی کرنا۔ یہ بلاشبہ ھرام اور شرکیہ فعل ہے۔ اور دوسرا زندہ متبع سنت عارف باللہ کی صحبت میں رہ کر تزکیہ نفس کرنا یعنی اپنے دل کو حرص، ہوس، طمع، لالچ، بغض، کینہ، تکبر، ریاکاری ، ناشکری، بے صبری جیسی مذموم صفات سے پاک کرنا تو یہ عین مقاصد نبوت میں سے ہے۔ (ویزکیھم)
قبور کا روحانی فیض یہ ہے کہ وہاں جا کر فکر آخرت اور موت کی یاد کو پیدا کیا جائے۔ اگر کوئی خاص صلاحیت و استعداد والے متبع سنت عالم جو حدود کا خیال رکھنا جانتے ہیں ان کی روح سے ئمکلام ہونے کا دعوی کرتے ہیں یا ان سے بعض معاملات میں علمی و روحانی راہنمائی لیتے ہیں تو اس کا ایسے ہی پورا امکان موجود ہے جیسے بعض عاملین کا جنات سے ہمکلام ہونے گا دعوی۔ شرک تب لازم آئیگا جب ان سے حاجت روائی اور مشکل کشائی کرائی جائیگی اور انہیں ہر وقت ہر جگہ سے سننے و جاننے کی صلاحیت کا حامل سمجھ کر مدد کے لئے غائبانہ پکارا جائیگا۔
تصور شیخ اس آیت کا مصداق ہے واتبع سبیل من اناب الی۔ جیسے علما سے علم اخذ کیا جاتا ہے ایسے ہی اہل اللہ سے روحانیت۔ علم ظاہری اعمال کا ہوتا ہے اور روحانیت باطنی اعمال کی۔ اگر اسے فقط حصول روحانیت تک محدود رکھا جائے تو شرک لازم نہیں آتا۔
چلہ کشی سے مراد چالیس دن تک کوئی خاص عمل کرنا یا ایک ماحول میں رہنا ہے۔ جیسے مدارس میں آٹھ سال لگانا کہیں نہیں آیا لیکن عالم بننے کی ایک ترتیب ہے ایسے ہی چالیس دن عامیوں کی ایک ترتیب ہے۔ کیونکہ چالیس دن میں انسانی مزاج کے اندر تغیر آتا ہے۔
ان سب باتوں کو مثبت طریقے سے بھی لیا جا سکتا ہے اور منفی بھی۔ لوگوں کے عمل اور نتیجے پر منحصر ہے اگر شریعت مدگی میں آئی تو محمود ورنہ مزموم۔ واللہ اعلم
معذرت کے ساتھ آپ کا قرآنی آیات سے استدلال بالکل طبقۂ خاص جیسا ہے یعنی
” سوئی کے ناکے سے اونٹ گزارنا“ !
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ جَائَ ثَلَاثَةُ رَهْطٍ إِلَی بُيُوتِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُونَ عَنْ عِبَادَةِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا أُخْبِرُوا کَأَنَّهُمْ تَقَالُّوهَا فَقَالُوا وَأَيْنَ نَحْنُ مِنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ قَالَ أَحَدُهُمْ أَمَّا أَنَا فَإِنِّي أُصَلِّي اللَّيْلَ أَبَدًا وَقَالَ آخَرُ أَنَا أَصُومُ الدَّهْرَ وَلَا أُفْطِرُ وَقَالَ آخَرُ أَنَا أَعْتَزِلُ النِّسَائَ فَلَا أَتَزَوَّجُ أَبَدًا فَجَائَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِمْ فَقَالَ أَنْتُمْ الَّذِينَ قُلْتُمْ کَذَا وَکَذَا أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَخْشَاکُمْ لِلَّهِ وَأَتْقَاکُمْ لَهُ لَکِنِّي أَصُومُ وَأُفْطِرُ وَأُصَلِّي وَأَرْقُدُ وَأَتَزَوَّجُ النِّسَائَ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي
انس بن مالک ؓروایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺکے گھر میں تین آدمی آپ کی عبادت کا حال پوچھنے آئے، جب ان سے بیان کیا گیا تو انہوں نے آپ ﷺ کی عبادت کو بہت کم خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ ﷺ کی برابری کس طرح کرسکتے ہیں، آپ کے تو اگلے پچھلے گناہ سب معاف ہوگئے ہیں، ایک نے کہا میں رات بھر نماز پڑھا کروں گا، دوسرے نے کہا میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا، تیسرے نے کہا میں نکاح نہیں کروں گا اور عورت سے ہمیشہ الگ رہوں گا، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کیا تم لوگوں نے یوں یوں کہا ہے ؟ اللہ کی قسم ! میں اللہ تعالیٰ سے تمہاری بہ نسبت بہت زیادہ ڈرنے والا اور خوف کھانے والا ہوں، پھر روزہ رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں، نماز پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور ساتھ ساتھ عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں، یاد رکھو جو میری سنت سے روگردانی کرے گا، وہ میرے طریقے پر نہیں۔
صحیح بخاری، جلد سوم،حدیث نمبر 57

اس روایت سے علم ہوا کہ تینوں اصحاب ِ رسولﷺ کی نیت اچھی تھی اور ان کے اعمال کی بنیاد بھی دین ِ اسلام میں موجود تھی لیکن چونکہ وہ اعمال نبیﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق نہیں تھے اس لیے ان کی نیت اچھی ہونے کے با وجود نبیﷺ نے ان کے اعمال کو رد فرما دیا اور اپنی سنت کو اپنانے کی پرزور تلقین کی ۔
جب حقیقت یہی ہے کہ دین میں ثابت شدہ افعال و اعمال بھی طریقۂ نبوی ﷺکا تقاضا کرتی ہے تو تصورِ شیخ ،قبور سے فیض اور بیعت وغیرہ جیسے افعال ” تز کیہ ٔ نفس “ کے چوغےمیں لپیٹ کر پیش کرنے کی گنجائش کیونکر اور کہاں ہو سکتی ہے ؟
 
Top