• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تجارتی انشورنس حرام ہونے کے دلائل

شمولیت
فروری 07، 2016
پیغامات
57
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
20
تجارتی انشورنس حرام ہونے کے دلائل

الحمد للہ:
اکثر انشورنس کمپنیوں کی جانب سے پیش کی جانے والی مروّجہ تجارتی انشورنس حرام ہے، چاہے یہ انشورنس زندگی کی ہو یا املاک کی۔۔۔ یا کسی بھی اور چیز کی ہو، اس کی حرمت پر متعدد شرعی نصوص اور شرعی قواعد دلالت کرتے ہیں، ان میں سے کچھ یہ ہیں
-1 انشورنس کا معاہدہ غرر [جہالت] پر مبنی ہے[یعنی: انشورنس کروانے والے کو حاصل ہونے والی سہولیات کی مقدار کا علم نہیں ہوتا]، اور ایسے تمام تجارتی معاہدے شرعی طور پر حرام ہیں۔[جن میں قیمت یا فروخت کردہ چیز نا معلوم ہو]
اس کی دلیل صحیح مسلم : (1513)کی روایت ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ: "آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع الغرر سے منع فرمایا"
"غرر" لغوی اعتبار سے ایسے خدشہ کو کہتے ہیں جس کے ہونے یا نہ ہونے کا قطعی علم نہ ہو، مثلاً: پانی میں موجود مچھلیوں، ہوا میں اڑتے ہوئے پرندوں کی خرید و فروخت، ان کے منع ہونے کی وجہ یہ ہے کہ خریدار کو یہ اشیا ءمل بھی سکتی ہیں اور نہیں بھی۔
ازہری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"بیع الغرر" میں مجہول چیزوں کی خرید و فروخت شامل ہے۔
معجم مقاییس اللغۃ" (4/380 – 381) اور "لسان العرب" (6/317
خطابی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"غرر یہ ہے کہ ایک شے کی حقیقت و ماہیت آپکی نظروں سے اوجھل ہو ، اور آپ اس کی اصلیت سے ناواقف ہوں ۔۔۔ اور ہر ایسا تجارتی معاہدہ جس میں مطلوبہ چیز مجہول ہو معلوم نہ ہو، یا بائع و مشتری کیلئے اس پر قبضہ کرنا مشکل یا ناممکن ہو تو یہ غرر ہے۔۔۔ غرر کی اور بھی بہت سی صورتیں ہیں، تاہم انکا لب لباب یہ ہے کہ : جس تجارتی معاہدے میں مطلوبہ چیز معلوم و متعین نہ ہو وہ غرر میں شامل ہوگا" انتہی
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"بیع الغرر سے ممانعت خرید و فروخت سے متعلق مسائل میں ایک بہت بڑا اور عظیم اصول ہے، اور اس ایک اصول کے تحت ان گنت مسائل آتے ہیں، مثلاً: معدوم یا مجہول چیز کی فروخت۔۔۔۔ اور اسی طرح بہت سے مسائل ہیں، اور اس اصول کی وجہ سے اس قسم کے تجارتی معاہدے باطل قرار پاتے ہیں ، کیونکہ ان میں بلا وجہ مطلوبہ چیز کو مجہول رکھا جاتا ہے۔
تاہم بسا اوقات تھوڑے بہت غرر کو برداشت کرتے ہوئے ضرورت کی بنا پر جائز قرار دیا جاتا ہے، جیسے مکان کی خرید و فروخت کے وقت مکان کی بنیادوں میں استعمال شدہ مٹیریل کی حقیقت آپ کے علم میں نہیں ہوتی ، لیکن پھر بھی مکان کی خریداری جائز ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ مکان کی بنیادیں ظاہری عمارت کے تحت ہیں، اور مکان کی بنیادیں دیکھے بغیر انکی خرید و فروخت ایک ضرورت ہے، کیونکہ بنیادیں دیکھنا محال ہے۔۔۔
اسی طرح علمائے کرام کا اس بات پر بھی اجماع ہے کہ جانور کے حمل اور ہوا میں موجود پرندوں کی خرید و فروخت بھی باطل ہے، اہل علم اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ غرر کی وجہ سے ہی ان کی خرید و فروخت باطل ہے۔۔۔ " انتہی
اہل علم کا اس بارے میں بھی اتفاق ہے کہ اگر غرر کی مقدار بہت زیادہ ہو تو خرید و فروخت جائز نہیں ہے، جبکہ تھوڑی مقدار میں غرر قابل برداشت ہے، چنانچہ کچھ اشیاء کے جائز یا ناجائز ہونے کے بارے میں انکا اختلاف ہے، کیونکہ ان میں پایا جانے والا نقصان کبھی کم ہوتا ہے تو کبھی زیادہ۔
"بداية المجتهد" (2/187) ، اور اسی سے ملتی جلتی گفتگو شرح مسلم از نووی میں ملتی ہے۔
جبکہ انشورنش میں غرر بہت بڑی مقدار میں پایا جاتا ہے، بلکہ قانونی ماہرین بھی اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ انشورنس کا معاہدہ احتمالی ہوتا ہے، اور غرر کا بھی یہی مطلب ہے، [یعنی : تعین نہیں ہوتا] کیونکہ بیمہ کرنے والا [انشورنس کمپنی]اور بیمہ کروانے والا[مستفید] دونوں کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ انکا معاہدہ کتنی دیر چلے گا، اور اسے کتنی رقم دینا ، یا کتنی رقم لینا ہو گی، لہذا کبھی ایسے بھی ہو جاتا ہے کہ بیمہ کروانے والے شخص نےابھی ایک ہی قسط ادا کی ہوتی ہے کہ حادثہ رونما ہو جاتا ہے، چنانچہ انشورنس کمپنی کو مکمل طے شدہ رقم ادا کرنی پڑتی ہے، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی حادثہ رونما بھی نہ ہو، اور سب کے سب اقساط ادا ہو جائیں لیکن بیمہ کروانے والے شخص کو کچھ بھی نہ ملے۔
-2 انشورنس معاہدے قمار میں شامل ہیں، اور قمار جوّے کو کہتے ہیں، اللہ تعالی نے انہیں اپنے اس فرمان میں حرام قرار دیا ہے:
)
إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ(
ترجمہ: بلاشبہ شراب، جوُا، شرک کیلئے نصب کردہ چیزیں اور پانسےگندے شیطانی عمل ہیں، ان سے بچو، تا کہ تم فلاح پاؤ۔[المائدة:90]
اور "قمار" [جوا]کا مطلب یہ ہے کہ انسان خدشات کی بنیاد پر اپنا سرمایہ لگائے، یا تو اسے لگائے گئے سرمائے سے زیادہ ملے گا، یا ڈوب جائے گا۔
جبکہ انشورنس کے معاہدے میں بھی یہی خدشات ہوتے ہیں کہ ہوسکتا ہے نقصان ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نقصان نہ ہو، اور بعینہ یہی مفہوم "قمار "[جوّا]کا ہے۔
انشورنس کروانے والے شخص کو ہر بار انشورنس کی رقم [پریمیم] کرتے ہوئے خدشہ لاحق رہتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ادا شدہ رقم سے زیادہ لوں، یا اگر کوئی نقصان وغیرہ نہ ہو تو ان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھوں۔
چنانچہ کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ انشورنس کروانے والا شخص بیس ہزار جمع کروانے کے بعد ایک ہزار وصول کرتا ہے، اور کبھی ہزار دیکر ہزار ہی لیتا ہے، اور بسا اوقات نقصانات نہ ہونے کی وجہ سے کچھ بھی وصول نہیں کر پاتا۔
اب خود ہی سوچیں! کیا یہی جوا اور قمار بازی نہیں ہے؟!
-3 انشورنس میں اگر عوض کے طور پر رقم دی جائے تو ایسی صورت میں سود کی دونوں اقسام ربا النسیئہ ور ربا الفضل اقسام پائی جائیں گی، اور یہ دونوں منع ہیں، چنانچہ صحیح مسلم : (1587) میں عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (سونا سونے کے بدلے، چاندی کو چاندی کے بدلے، گندم کو گندم کے بدلے، جو کو جو کے بدلے، کھجور کو کھجور کے بدلے، اور نمک کو نمک کے بدلے فروخت کرو ، برابر برابر اور نقد و نقد فروخت کرو، اور اگر ان چیزوں کا تبادلہ کسی دوسری چیز کیساتھ کرو تو جیسے مرضی فروخت کرو، بشرطیکہ نقد و نقد ہو)
اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ : جس وقت سونے کو سونے کے بدلے میں فروخت کیا جائے تو قیمت اور فروخت کردہ سونے کی مقدار برابر ہو، اور مجلس عقد میں فریقین اسے اپنے قبضے میں لے لیں۔
چنانچہ ایک گرام سونے کو ایک گرام سونے سے ہی فروخت کیا جائے گا، اور مجلس عقد میں ہی فریقین اپنی اپنی چیز قبضے میں لے لیں گے، لہذا فریقین میں سے کوئی بھی اپنی حق اپنے قبضے میں لیے بغیر مجلس عقد سے نہیں جا سکتا۔
یعنی اگر کسی نے سونے کو سونے کے بدلے میں کمی بیشی کے ساتھ فروخت کیا تو اس نے ربا الفضل کا ارتکاب کیا، اور اگر مجلس عقد میں ہر فریق اپنے حق پر قبضہ نہ کرے تو ربا النسیئہ [ادھا ر کے سود]کا ارتکاب کرینگے، اور اسے ربا النسیئہ اس لئے کہتے ہیں کہ اس نے اپنے حق پر قبضہ کرنے میں تاخیر کی۔
اور اگر سونے کو چاندی کے بدلے میں فروخت کریں تو اسی فریقین کی جانب سے اپنا اپنا حق اپنی تحویل میں لینا ضروری ہے، لیکن اس صورت میں مقدار مختلف ہو سکتی ہے۔
مثال کے طور پر ایک گرام سونے کو دس گرام چاندی کے بدلے میں فروخت کرنا جائز ہے، لیکن مجلس عقد میں فریقین کی جانب سے اپنے اپنے حق پر قبضہ کرنا لازمی ہے۔
اور نقدی نوٹ کو سونے اور چاندی کا حکم حاصل ہے، اس لئے کسی بھی کرنسی نوٹ کو تبدیل کرواتے ہوئے اسی جگہ اپنے قبضے میں لینا لازمی ہوتا ہے، اور اگر کرنسی نوٹ کی جنس [یعنی دونوں نوٹ ایک ہی ملک کی کرنسی ہو] تو انکی مالیت بھی برابر ہونا ایسے ہی لازمی ہے، جیسے قبضے میں لینا لازمی ہے، بالکل اسی طرح جیسے سونے کو سونے کے بدلے میں فروخت کرتے وقت ہوتا ہے۔
انشورنس میں دونوں طرح کا سود پایا جاتا ہے، ربا الفضل بھی اور ربا النسئیہ بھی، اس کی تفصیل درج ذیل ہے:
انشورنس سروس فراہم کرنے والی کمپنی کی طرف سے انشورنس شدہ شخص کے ورثاء کو معاہدے کے مطابق طے شدہ ملنے والی رقوم کی تین متوقع صورتیں ہو سکتی ہیں، جتنی رقم جمع کروائی گئی اسی کے مساوی، یا اس سے کم یا اس سے زیادہ۔
اور ان تینوں صورتوں میں انشورنس کمپنی کی جانب سے مستحق شخص کو ملنے والی رقم اس شخص کو انشورنس کی اقساط [پریمیم]ادا کرنے کے بعد ہی ملتی ہے، اور مستحق شخص کی طرف سے ادائیگی کا یہ دورانیہ حقیقت میں مجہول ہے کہ کب تک اس نے اقساط جمع کروانی ہیں!
چنانچہ حقیقت میں یہ معاہدہ ایک وقت ِمقررہ تک پیسوں کی پیسوں کیساتھ فروخت پر مشتمل ہے۔
اب اگر ملنے والی رقم مستحق کی طرف سے ادا شدہ رقم کے برابر بھی ہو تو اس میں ربا النسیئہ ضرور ہے، اور اگر انشورنس کمپنی کی طرف سے ملنے والی رقم ادا شدہ رقم سے زیادہ یا کم ہے تو ہر ربا الفضل اور ربا النسیئہ دونوں ہیں، حالانکہ ربا الفضل الگ حرام ہے، اور ربا النسیئہ الگ حرام ہے، اور جب یہ دونوں ایک جگہ جمع ہو جائیں تو حرمت کس قدر شدید ہو جائےگی۔
-4 انشورنس لوگوں کے مال باطل انداز سے ہڑپ کرنے کی ایک شکل ہے:
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ (
ترجمہ: اے ایمان والو! اپنے اموال کو باطل طریقوں سے مت کھاؤ، الّا کہ تم باہمی رضامندی سے تجارت کرو۔[النساء : 29]
اور یہاں باطل سے مراد ایسے تمام طریقے ہیں جنہیں شریعت جائز قرار نہیں دیتی، چنانچہ اس میں چوری، خیانت، ڈاکہ، جوّا، سودی لین دین، اور غلط طریقے سے کی جانے والی تجارتی سرگرمیاں شامل ہیں، ابو حیان رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں یہی کہا ہے۔
انشورنس معاہدہ لوگوں کا مال باطل انداز سے کھانے میں شامل ہے، اسکی وضاحت یہ ہے:
اگر بیمہ والے شخص کو ملنے والی رقم ادا شدہ رقم سے زیادہ ہو، مثلاً: پہلی قسط ادا کرنے کے بعد ہی اس کا نقصان ہو گیا تو وہ اس اضافی رقم کا مستحق کیسے ٹھہرا؟
اور اگر بیمہ والے شخص کا کوئی نقصان نہیں ہوا تو انشورنس کمپنی کس چیز کے بدلے میں بیمہ والے شخص کا مال ہڑپ کرتی ہے، حالانکہ بیمہ کمپنی نے اسے کوئی حقیقی فائدہ نہیں دیا۔
جرمنی کے ایک اعداد و شمار کے ماہر کے مطابق یہ بات تحقیق میں سامنے آچکی ہے کہ انشورنس کمپنیوں کی طرف سے لوگوں کو معاوضے کی مد میں ادا شدہ رقم جمع ہونی والی تمام قسطوں کے مقابلے میں صرف 2.9٪ ہے۔
تو انشورنس کمپنیاں کس چیز کے بدلے میں اتنی خطیر رقم کی مستحق بنیں؟ اس نے لوگوں کیلئے کیا پیش کیا؟
-5انشورنس کے معاہدوں میں ایسی چیزوں کو لازم کیا جاتا ہے جو شرعی طور پر لازم نہیں ہیں۔
چنانچہ انشورنس معاہدے میں انشورنس سروس فراہم کرنے والی کمپنی کو ضمانت دینے پر مجبور کیا جاتا ہے کہ اگر انشورنس زدہ چیز کو کچھ بھی ہوا تو کمپنی اس کی ضامن ہے! کس حق کی بنا پر کمپنی کو اس بات پر مجبور کیا جاتا ہے؟ انشورنس کمپنی نے نقصان تو نہیں کیا، اور نہ ہی انشورنس کمپنی کا اس نقصان میں بالواسطہ یا بلا واسطہ کوئی تعلق ہے، تو کس طرح سے اس کمپنی کو ضامن بنا دیا جاتا ہے جو کہ شرعی طور پر ضامن ہے ہی نہیں؟
-6 انشورنس کے نقصانات افراد اور پورے معاشرے پر نمایاں ہوتے ہیں۔
مندرجہ بالا اشیاء کے ساتھ ساتھ انشورنس کے اور نقصانات بھی ہیں ، جن میں اہم ترین یہ ہیں:
- بیمہ کے حامل افراد اپنی املاک کی حفاظت میں کوتاہی برتتے ہیں، اور انہیں خطرات سے نہیں بچاتے، بلکہ اس مرحلے سے بھی دو ہاتھ آگے بڑھ کر خود ہی حادثہ کر دیتے ہیں، جس سے لوگوں کا بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے، مثال کے طور پر: بہت سے ڈرائیور گاڑی چلاتے ہوئے اپنا ، اپنی گاڑی یا ٹریفک قوانین کا بالکل بھی پاس نہیں رکھتے، جن کی وجہ سے لوگوں کو اور پورے معاشرے کو ٹریفک حادثات اور دیگر نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
چنانچہ مذکورہ بالا اسباب میں سے کوئی ایک سبب ہی تجارتی انشورنس کے حرام ہونے کیلئے کافی ہے، اور یہ کہ انشورنس کا معاہدہ سرے سے باطل ہے، اور لوگوں کا مال ہڑپ کرنے کے مترادف ہے، اور اگر تمام اسباب مل جائیں تو اس کی حرمت کس قدر شدید ہو جائے گی؟ آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ عصرِ حاضر کے علمائے کرام عام طور پر تجارتی انشورنس کے حرام ہونے کا فتوی دیتے ہیں، اور سعودی عرب کی کونسل برائے سینئر اسکالرزاور اسلامی فقہ اکیڈمی جدہ نے تجارتی انشورنس کو حرام قرار دیا ہے، اسی طرح اسلامی فقہ اکیڈمی مکہ مکرمہ کی جانب سے تجارتی انشورنس کے بارے میں سب کی اتفاق رائے سے یہ قرار داد پاس کی گئی کہ یہ حرام ہے، اور تمام علمائے کرام میں سے صرف ایک نے اس قرار داد کی مخالفت کی۔
ہم نے ان قرار دادوں، اور فتاوی سے متعلقہ بہت سی چیزیں اپنی اس ویب سائٹ پر نقل کی ہیں۔
تجارتی انشورنس کیلئے مکمل تفصیلی تحقیقات پڑھنے کیلئے رجوع کریں: "
أبحاث هيئة كبار العلماء" (4/33- 315
واللہ اعلم.
 
Top