• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تجدید ایمان

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
س:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے منہج کی کیا حیثیت ہے؟
ج:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو اسلام کی تعلیم دی، یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین آپ کے "براہ راست" تربیت یافتہ تھے، لہذا صحابہ معیاری مسلمان تھے، صحابہ کرام سے "اقوال و افعال رسول صلی اللہ علیہ وسلم" تابعین نے اخذ کیے اور محدثین نے ان کو جمع کیا، یہ تمام ادوار اسلام کے عروج کے ادوار ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بہترین زمانے قرارد دیئے، سلف صالحین اور صحابہ کرام کے طریق اور منہج سے وہی شخص انکار کرتا ہے جو قرآن مجید کی من مانی تفسیر کرنا چاہتا ہے۔
اللہ تعالی فرماتا ہے:
وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا ﴿١١٥﴾ سورہ النساء
" اور جو شخص سیدھا رستہ معلوم ہونے کے بعد رسول کی مخالفت کرے اور مومنوں کے رستے کے سوا اور رستے پر چلے تو جدھر وہ چلتا ہے ہم اسے ادھر ہی چلنے دیں گے اور (قیامت کے دن) جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بری جگہ ہے"
مومنین کے رستے سے مراد اسلام کی وہ تعبیر و تفسیر ہے جس پر قرون اولی کے مسلمان جمع تھے، جس میں مردوں سے فریاد رسی، قبر پر چلی کشی اور فیض حاصل کرنے، اور فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کسی کی رائے کی کوئی حیثیت یا شریعت کے مقابلے میں دنیا کے کسی اور قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کی کوئی گنجائش نہ تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
س:
کیا صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سنت رسول کو بھی وحی یعنی اللہ کی بات سمجھتے تھے؟
ج:
جی ہاں! صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی بات سمجھتے تھے، اس کی بہت سی مثالیں ہیں، صرف ایک ملاحظہ فرمائیں:
ایک عورت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ کیا آپ کہتے ہیں کہ اللہ نے گودنے والی اور گدوانے والی پر لعنت فرمائی ہے، آپ نے فرمایا: ہاں! وہ عورت کہنے لگی کہ میں نے شروع سے آخر تک قرآن حکیم کی تلاوت کی ہے مگر اس بات کو کہیں نہیں پایا، پس آپ نے فرمایا اگر تو نے قرآن پڑھا ہوتا تو اس میں ضرور پاتی، کیا تو نے یہ آیت نہیں پڑھی:
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۖ إِنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴿٧﴾ سورہ الحشر
"اور جو کچھ رسول دے اسے لے لو اور جس چیز سے منع کرے اس سے رک جاؤ"
وہ کہنے لگی ہاں تب عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ لعنت کرتے ہوئے سنا ہے" (بخاری:4886، مسلم:2125)
یہ بھی واضح ہوا کہ مسلمان پر لازم ہے کہ وہ قرآن و سنت میں تفریق نہ کرے، ان دونوں پر عمل فرض ہے اور شریعت اسلامیہ کی بنیاد ان دونوں پر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"میں تم میں دو باتیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، کتاب اللہ اور میری سنت جب تک تم انہیں مضبوطی سے تھامے رکھو گے گمراہ نہ ہوں گے"
(موطا مالک، مستدرک حاکم)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
س:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنت کی حفاظت کے سلسلے میں کیا اقدام کیے؟
ج:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنت کی حفاظت کے سلسلے میں خصوصی توجہ دی جب بھی کوئی مسئلہ بیان فرماتے تو اس کو تین مرتبہ دہراتے یہاں تک کہ وہ مسئلہ سمجھ میں آ جاتا۔ (بخاری:95)
ایک دفعہ عبدالقیس کا وفد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ نے انہیں اُمورِ دین کی تعلیم دینے کے بعد فرمایا اس کو یاد کرو اور اپنے پیچھے آنے والوں کو اس کی خبر دو۔ (بخاری:53، مسلم:17)
یقینا پیچھے آنے والوں سے مراد آنے والی نسلیں بھی ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو تشہد یوں سکھاتے جیسے قرآن کی سورت۔ (بخاری:6265، مسلم:402)
نو ہجری میں مدینہ میں بہت سے وفود آئے، مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نے بھی نو ہجری میں مدینہ میں قیام کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی کا مشاہدہ کیا اور ضروری تعلیم حاصل کی، آپ نے ان سے فرمایا، نماز ایسے پڑھنا جیسے مجھے پڑھتے دیکھتے ہو۔ ( صحیح بخاری:631، مسلم:674)
حجۃ الوداع میں منیٰ کے مقام پر آپ نے خطبہ دیا سامعین کی تعداد سوا لاکھ کے لگ بھگ تھی، خطبہ کے اختتام پر آپ نے فرمایا: حاضر کو چاہیے کہ غائب کو میری باتیں پہنچا دے اس لیے کہ شائد تم کسی ایسے شخص کو بیان کر سکو جو تم سے زیادہ اس کو محفوظ کر سکے۔ (بخاری:1731، مسلم:1679)
یہ پیشین گوئی حرف بحرف پوری ہوئی، محدثین نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی بیان کردہ احادیث کو بالکل محفوظ کر لیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
س:
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث کی کتابت بھی کروائی؟
ج:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر احادیث لکھوائیں۔
1- عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب الصدقہ تحریر کروائی، امام محمد بن مسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ آپ کی یہ کتاب عمر رضی اللہ عنہ کے خاندان کے پاس تھی اور مجھے عمر رضی اللہ عنہ کے پوتے سالم نے یہ کتاب پڑھائی اور میں نے اس کو پوری طرح محفوظ کر لیا، خلیفہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اس کتاب کو عمر رضی اللہ عنہ کے پوتوں سالم اور عبد اللہ سے لے کر لکھوایا۔ (ابوداود)

2- ابو راشد الحزنی فرماتے ہیں کہ عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے میرے سامنے ایک کتاب رکھی اور فرمایا یہ وہ کتاب ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوا کر مجھے دی تھی۔ (ترمذی)
3- موسیٰ بن طلحہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس وہ کتاب ہے جو معاذ رضی اللہ عنہ کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوائی تھی۔ (الدار قطنی) خلفیہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اس کتاب کو منگوایا اور اس کو سنا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)
4- جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کو یمن کا عامل بنا کر بھیجا تو اہل یمن کے لیے ایک کتاب بھی لکھوا کر دی جس میں فرائض سنت اور دیت کے مسائل تحریر تھے، امام زہری فرماتے ہیں کہ میں نے اس کتاب کو پڑھا، یہ کتاب ابو بکر بن حزم کے پاس تھی، سعید بن مسیب نے بھی اس کتاب کو پڑھا۔ (نسائی)
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں میں ہر اس حدیث کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنتا یاد رکھنے کے لیے لکھ لیتا، تو قریش کے لوگوں نے مجھے لکھنے سے منع کر دیا، اور کہا: کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہر سنی ہوئی بات کو لکھ لیتے ہو؟ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہیں، غصے اور خوشی دونوں حالتوں میں باتیں کرتے ہیں، تو میں نے لکھنا چھوڑ دیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی سے اپنے منہ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: ”لکھا کرو، قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس سے حق بات کے سوا کچھ نہیں نکلتا“۔ (ابوداود:3646)
نوٹ: آخری روایت کا اضافہ میری طرف سے ہے، یہ اصل کتاب میں نہیں ہے!
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
س:
کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے بھی احادیث لکھیں؟
ج:
جی ہاں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو احادیث لکھوائیں۔
آپ نے عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے فرمایا" احادیث لکھا کرو، قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس منہ سے حق کے سوا کوئی بات نہیں نکلتی"۔ (ابوداود:3646)
انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جب ان کو یمن کا حاکم بنا کر بھیجا تو زکوٰۃ کے فرائض لکھ کر دیئے۔ (بخاری)، حماد بن سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ کتاب انس رضی اللہ عنہ کے پوتے ثمامہ سے حاصل کی۔ (نسائی)
خلفیہ الثانی عمر رضی اللہ عنہ نے بھی زکوٰۃ کے متعلق ایک کتاب تحریر فرمائی تھی، امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں، ہمارے پاس کوئی چیز نہیں سوائے کتاب اللہ کے اور اس صحیفہ کے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ کی احادیث ہیں۔ (بخاری:1870، مسلم:1370)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے کوئی شخص مجھ سے زیادہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث بیان نہیں کرتا سوائے عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے، اس لیے کہ وہ لکھا کرتے تھے اور میں لکھتا نہیں تھا۔ (بخاری:113) عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی یہ کتاب ان کی اولاد میں منتقل ہوتی رہی اور ان کے پڑپوتے عمرو بن شعیب رحمہ اللہ سے محدثین نے اخذ کر کے ہمیشہ کے لیے محفوظ کر لیا۔
ایسے واقعات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے مروی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ احادیث لکھا کرتے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
س:
کیا 250 سال تک احادیث تحریر میں نہیں آئیں؟
ج:
یہ صرف منکرین حدیث کا پروپیگنڈہ ہے، خلفائے راشدین اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے احادیث کی حفاظت کا خاص اہتمام کیا، پھر تابعین کے دور میں کئی کتب لکھی گئیں، موطا امام مالک اب بھی موجود ہے جو صرف 100 سال بعد لکھی گئی، ان کی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت میں صرف امام نافع راوی ہیں، انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں امام زہری راوی ہیں، غرض موطا میں سینکڑوں سندیں ایسی ہیں جن میں صحابہ اور امام مالک کے درمیان ایک یا دو راوی ہیں اور وہ زبردست امام ہیں، امام بخاری سے پہلے کی کتب صحیفہ ہمام، صحیفہ صادقہ، مسند احمد، مسند حمیدی، موطا مالک، مصنف ابن ابی شیبہ، مصنف عبد الرزاق، موطا محمد، مسند شافعی آج بھی موجود ہیں، دیگر ائمہ نے بھی درس و تدریس کا ایسا اہتمام کیا ہوا تھا کہ کوئی کذاب حدیث گھڑ کر احادیث صحیحہ میں شامل نہ کرسکا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
س:
اگر احادیث کی اتنی حفاظت ہوئی ہے تو پھر امام بخاری نے چھ لاکھ احادیث میں سے صرف 7275 احادیث کا انتخاب کیوں کیا اور باقی کو ردی کی ٹوکری میں کیوں پھینکا؟
ج:
پہلے تو چھ لاکھ احادیث کی حقیقت سمجھیئے، محدثین کی اصطلاح میں ہر سند کو حدیث کہا جاتا ہے، مثلا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بات فرمائی جو پانچ صحابہ رضی اللہ عنہم نے سنی، ہر صحابی رضی اللہ عنہ نے اپنے 5،5 شاگردوں کو وہ بات سنائی اس طرح تابعین تک اس کی 25 اسناد بن جائیں گی، اب اگر ہر تابعی راوی اپنے 10، 10 شاگردوں کو روایت بیان کرے تو اس طرح اس حدیث کی 250 اسناد بن جائیں گی، محدثین کی اصطلاح میں یہ 250 احادیث کہلاتی ہیں، اس لیے امام بخاری فرماتے ہیں: مجھے ایک لاکھ صحیح احادیث یاد ہیں (مقدمہ ابن صلاح) اس کا مطلب ہے ایک لاکھ صحیح اسناد یاد ہیں، ان ایک لاکھ میں سے 7275 اسناد صحیح بخاری میں درج کر لیں باقی چھوڑی گئی روایات سے نعوذ باللہ دین کا کوئی حصہ ضائع نہیں ہوا صرف ایک لاکھ اسناد میں سے صحیح ترین درج کر لیں، اور یہ بھی درست ہے کہ بعض راویوں نے دین اسلام میں گمراہ کن عقائد داخل کرنے کے لیے حدیث کا سہارا لیا، اسی لیے ضعیف اور من گھڑت روایات کی کثرت ہے، مگر محدثین نے ایسے اصول مقرر کیے کہ کوئی من گھڑت روایت حدیث صحیح کا درجہ نہ پا سکی، امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ نے صرف احادیث صحیح جمع کر کے دین پر چلنے والوں کے لیے مزید آسانی کر دی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
س:
کیا صحیح بخاری قرآن حکیم کی طرح لاریب کتاب ہے؟
ج:
یقینا بخاری اور دیگر کتب احادیث میں موجود احادیث صحیحہ کا وہ حصہ جو شرعی احکام پر مشتمل ہے منزل من اللہ ہے جس پر قرون اولیٰ کے مسلمان جمع ہیں اور جسے اُمت سے تلقی بالقبول حاصل ہے مگر صحیح بخاری میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ابواب قائم کیے، ابواب میں مختلف ائمہ کے اقوال درج کیے پھر اسناد احادیث کا آدھا حصہ ہیں جو منزل من اللہ نہیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے اقوال اور واقعات بھی کتب احادیث میں موجود ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تاریخی واقعات، ہجرت اور غزوات کے بعض واقعات بھی منزل من اللہ نہیں، ہاں احادیث کا ایک حصہ ایسا ضرور ہے جو منزل من اللہ ہے اور قرآن مجید کی تشریح کے لیے وہ اتنا ضروری ہے کہ اس کے بغیر قرآن حکیم کو سمجھا ہی نہیں جا سکتا، جو لوگ اس وحی کا انکار کرتے ہیں وہ دراصل قرآن حکیم کی من مانی اور گمراہ کن تفسیر کرنا چاہتے ہیں۔
اللہ تعالی ہمیں توحید و سنت کی سمجھ عطا فرمائے اور شرک و بدعت سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارا خاتمہ من احب لله وابغض لله واعطي لله ومنع لله فقد استكمل الايمان کے مطابق ہو، آمین۔
 
Top