• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تحریف قرآن، منصف مزاج مغربی مفکرین کی نظر میں

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تحریف قرآن، منصف مزاج مغربی مفکرین کی نظر میں

مدثر حسین​
رُشد قراء ات نمبر حصہ اوّل و دوم میں اختلاف قراء ات قرآنیہ اور مستشرقین کے شبہات کے جائزہ کے حوالے سے اب تک تین مضامین طبع ہو چکے ہیں۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ اس موضوع پر قراء ات نمبر میں قراء ات کے حوالے سے مستشرقین کے نظریات کے تعاقب پر مزید مضامین شامل اشاعت ہوں۔ چنانچہ رُشد قراء ات نمبر سوم میں اس موضوع پر چھ عدد مزید مضامین شامل ِطباعت ہیں۔ ان مضامین میں سے زیر نظر تحریر اس اعتبار سے انفرادیت کی حامل ہے کہ محترم مقالہ نگار نے مغربی مفکرین میں سے ان منصف مزاج لوگوں کے افکار کو بحث کاموضوع بنایا ہے جو قرآن کریم کو عام مستشرقین کے مؤقف کے برعکس ایک محفوظ کتاب کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔
اس موضوع کے حوالے سے اگرچہ مواد نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ بالعموم تمام مستشرقین قرآن کریم محمدﷺکا ذاتی کلام مانتے ہیں چنانچہ اسے شرعی مقام دینے کوتیار نہیں لیکن اس کے باوجود فاضل مقالہ نگار انتہائی تتبع کے بعد اس موضوع کے حوالے سے ضروری حوالہ جات تلاش کرکے اس مضمون کو ترتیب دیا ہے۔ جس سے قرآن کریم کے بارے اہل مغرب کے دونوںنظریات آگئے ہیں۔ (ادارہ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِستشراق کی اَصل حقیقت اس وقت سامنے آئی جبکہ اِستشراق، ألسنۃ مشرقیۃ کی واقفیت اور اِسلامی علوم وآداب کے یک رُخی مطالعہ تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ آگے بڑھ کر اسلام اور پیغمبر اسلامﷺ سے بغض و عناد، اس کا جزوِ لازم ٹھہرا، پھر یہی بغض و عناد، پہلے پہل تو مشنری جذباتیت کا آئینہ دار رہا لیکن کچھ عرصہ بعد اُس نے متعین مقاصد کے تحت علمیت کا لبادہ اوڑھ لیا۔ گویا اس دوسرے مرحلہ میں استشراق نے ایک تحریک، ایک مستقل روّیہ اور سلوک (Discipline) کی شکل اِختیار کرلی اور اس روّیہ اور سلوک کے اِحاطہ میں رہتے ہوئے تمام ضروری مباحث کو موضوع سخن بنایا گیا، مثلاً اِسلام اور اس کی تعلیمات کو مجبوراً یا تکلّفاً غلط طور پر پیش کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ زمانے کے عہد بہ عہد اِرتقا کے ساتھ وہ تعلیمات ہم آہنگ نہیں ہوسکتیں۔ قدیم تہذیبوں اور قدیم زبانوں کو پھر سے زندہ کرنے کے لیے مصر، عراق، شمالی افریقہ اور دوسرے علاقوں میں سرگرمیوں کو منظم کیا گیا تاکہ یہ تہذیبیں اسلامی تہذیب و تمدن کے لیے چیلنج بن سکیں، عربی زبان کے لیے کہا گیا کہ قرآنی عربی عہد جدید کی ضرورت و حالات سے مطابقت پیدا نہیں کرسکتی اس لیے مقامی زبانیں اور مردہ لغات کو آگے بڑھانا بلکہ عربی رسم الخط کو رومی رسم الخط سے تبدیل کردینا چاہئے۔ پیغمبر اسلامﷺکی سیرت و کردار کے بارے میں اُن نکات کو اُچھالا گیا، جن سے عام ذہن کے لوگ بھی اچھا تاثر نہ لے سکیں اور ان کے لائے ہوئے مشن کو ناقابل اِلتفات گردانا جائے، اسلامی تہذیب وثقافت کی تعمیر و ترکیب میں بیرونی عناصر کی کار فرمائی ثابت کی جائے تاکہ اِسلامی ثقافت، مجموعہ خرافات ٹھہرے وغیرہ وغیرہ۔ ان تمام مطالعات کا ہدف بہرحال مستشرقین کے نزدیک اپنے عزائم کی تکمیل کے سوا کچھ نہ تھا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اِمتدادِ زمانہ کے ساتھ ساتھ حکمت ِعملی تبدیل ہوتی رہی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مستشرقین جذباتیت کے تنگ دائرہ سے نکل کر عقلیت، علمیت اور اِستدلال کے اَوزان وپیمانے استعمال کرنے لگے، اسلام اور پیغمبر اسلامﷺ کے متعلق اپنے رویہّ پر اُنہوں نے خود نظر ثانی کی اور بدنیتی کے باوجود مخالفت و مخاصمت کا اظہار رفتہ رفتہ سلیقہ سے کیا جانے لگا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِستشراقی تحقیقات کا پس منظر
اِستشراق اور صاحبان استشراق (مستشرقین) کی پوری تاریخ پر ایک عمومی نظر ڈالی جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تحریک اِستشراق اپنی حقیقت و ماہیت میں چونکہ اسلام کے خلاف ہے اور ہر دور کے (غیر مسلم) مستشرقین کی تمام سرگرمیاں، اپنے علمی تنوع کے باوجود اسلام، پیغمبراسلامﷺ، اسلامی تاریخ اور اسلامی علوم و آداب کے حوالہ سے بہرحال معاندانہ رہی ہیں اور چونکہ مستشرقین کی پوری جماعت میں شامل افراد اپنی اصل و نسل میں یہودی ہیں یا عیسائی، اس لیے یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ اسلام اور یہودیت و عیسائیت کے مابین آویزش کے ساتھ ہی استشراقی جذبہ وفکر کی نمو ہوگئی تھی۔
باقاعدہ ایک تحریک کی شکل اختیار کرنے سے پہلے بھی اہل مغرب کی طرف سے، اِسلام کے خلاف بالعموم اورپیغمبر اسلامﷺکے خلاف بالخصوص، بغض و عداوت کا اظہار موقع بہ موقع، تاریخ کے مختلف اَدوار میں ہوتا رہا اور وفور جذبات سے سرشار، رومی، بازنطینی، مسیحی اور یہودی روایتیں صدیوں سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی رہیں، اَفواہوں کے دوش پر سفر کرتی رہیں اور کبھی کبھار تحریر و تصنیف اور وقائع و اَسفار کے قالب میں ڈھلتی رہیں اور ان کی اپنی آئندہ نسلوں کا سرمایہ افتخار قرا رپائیں۔ چنانچہ ظہورِ اسلام کے بعد سے کوئی چار ساڑھے چار سو سال تک اِسلام اور بانی اسلامﷺ کے حوالے سے اُن کی مخالفت و مخاصمت کا عام اَنداز یہی رہا اور اس تمام عرصہ میں بلکہ اس کے بعد بھی مغربی دنیا اس قابل نہ ہوسکی کہ حقائق و واقعات کا صحیح اِدراک کرسکے اور مسلمانوں کی تاریخ و ثقافت کو علم کی روشنی میں جان سکے۔ اس صورتِ حال کا بظاہر ایک سبب، ان کے دلی جذبات کے علاوہ یہ تھا کہ صحیح معلومات کے لیے اصل اسلامی مآخذ تک رسائی ممکن نہ تھی، پھر تعصب، سنی سنائی باتوں، غلط فہمیوں اور خودساختہ مفروضات نے انہیں اس قابل ہی نہ رکھا کہ وہ اسلام اور پیغمبر اسلامﷺکی حقیقی تصویر دیکھ سکیں۔اس پر مستزاد تصادم و کشمکش کے وہ واقعات تھے جو تاریخ میں بار بار دہرائے گئے۔ خاص طور پر آنے والے زمانے میں صلیبی محاربات کا سلسلہ دشمنی و عداوت ان پر ایسا نشہ طاری کرگیا جو آج تک نہیں اُترا۔ صلیبی جنگوں کے طویل محاربات میں دنیائے مغرب کی ناکامی سے نہ صرف یہ کہ یورپ کی مشترکہ عسکری قوت پاش پاش ہوگئی بلکہ یہی شکست اس بات کا زبردست محرک بن گئی کہ جنگی محاذ پر پسپا ہونے کے بعد ذہنی وفکری محاذ پر اِسلام اور دنیائے اسلام کو زک پہنچائی جائے۔ اس کی تدبیر اس سے بہتر اور کوئی نہ تھی کہ اسلام، اسلامی عقائد، پیغمبر اسلام1 اور اسلامی معاشرہ کو ہدف تنقید بنایا جائے۔ چنانچہ اس کام کے لیے جذباتی طوفان پہلے سے موجود تھا، پھر لاطینی آبادکار اور مسلم علاقوں سے آئے ہوئے عیسائی اور یہودی، اِسلام اور مسلمانوں کے متعلق جو کچھ علم، معلومات رکھتے تھے وہ کتنی ہی خام و ناکارہ سہی، ان کے لیے بہرحال مفید مطلب تھیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِستشراقی تحقیقات کے اَسباب و محرکات
تحریک استشراق کے پس پردہ محرکات کو مندرجہ ذیل نکات کی صورت میں پیش کیا جاسکتا ہے۔
(١) اسلام اور اَدیان غیر میں بڑے بنیادی اختلافات پائے جاتے ہیں۔ اسلام کا نظریہ حیات، اس کا نظام فکروعمل، اس کے تہذیب و تمدن کا اظہار، یہودیت، عیسائیت اور دوسرے مشرکانہ مذاہب سے یکسر مختلف ہے۔ پھر دانائے سُبل، ختم الرسُلﷺنے اسلام کی جو دعوت پیش کی اُس نے روزِ اوّل ہی سے ادیان باطلہ کی نفی کردی تھی اس لحاظ سے یہ اَمر تعجب خیز نہیں کہ دوسرے مذاہب کے علمبردار، اسلام، اہل اسلام اور عالم اسلام کے بارے میں سخت معاندانہ جذبات رکھتے ہیں اور اپنے بغض و عناد کا اظہار ہر ممکن طریقہ سے کرتے ہیں۔ اُن کا یہ روّیہ اور ان کی شقاوت و قساوت دراصل نظریاتی اورفکری بنیادوں پر استوار ہے۔ چنانچہ قرآن حکیم میں ایک جگہ اس حقیقت کبریٰ کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ ’’تم دیکھو گے اہل ایمان کے ساتھ سب سے زیادہ دشمنی کرنے والے یہودی اور مشرک ہیں اور دوستی کے لحاظ سے مومنوں سے قریب تر ان لوگوں کو پاؤ گے جو کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں۔ یہ اس لیے کہ ان میں عالم بھی ہیں اور مشائخ بھی، اور وہ تکبر نہیں کرتے۔‘‘ جہاں تک مستشرقین کا تعلق ہے، ان کے پورے گروہ میں نمایاں ترین عناصر، یہود، نصاریٰ اور مشرکین ہیں۔ انہیں اسلام، اہل اسلام اور عالم اسلام کی سرفرازی کسی طور پر پسند نہیں بلکہ وہ ہر آن زک پہنچانے کی فکر میں رہتے ہیں۔ اس لحاظ سے تحریک استشراق کی اٹھان اسلام دشمنی کے زیر سایہ ہوئی اور مستشرقین کی مساعی کا ہدف یہ ٹھہرا کہ اسلام اور پیغمبر اسلام1 کو دنیا کے سامنے کریہہ المنظر بناکر پیش کیا جائے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢) نظریاتی سبب کے علاوہ ایک سبب تاریخی بھی ہے۔ محمد رسول اللہﷺ کا لایا ہوا انقلاب آن کی آن میں پھیلتا چلا گیا وار اس کے علمبرداروں نے انتہائی مختصر مدت میں اسلام کا پرچم دنیا کے دُور دراز علاقوں میں جاکر لہرا دیا۔ اس پر مستزاد یہ کہ اپنی پیش قدمی میں اِسلام نے اپنی راہ کی تمام مزاحمتوں کو اس آسانی کے ساتھ ختم کردیاکہ دنیائے مغرب آج تک انگشت بہ دنداں ہے۔خاص طور پر اُس وقت کی معلوم دنیا کی دو بڑی طاقتوں روم وفارس کا سرغرور یوں سرنگوں کیا کہ وہ صدیوں خمیدہ رہا۔ بہرحال اسلام کی اِنتہائی تیز رفتاری کے ساتھ وسعت واِشاعت نے جہاں ایک طرف دنیائے مغرب کی مذہبی و نظریاتی رفعتوں کو پامال کیا وہاں دوسری طرف اسلام کی عسکری فتوحات نے ان کی شوکت و سطوت کو پارہ پارہ کردیا۔ بازنطینی سلطنت کے زرخیز خطوں (شام، فلسطین، مصر وغیرہ) پر مسلمانوں کا قبضہ ہوا، اور چرچ کے مضبوط قلعے فتح ہوگئے۔ شمالی اَفریقہ کو فتوحات ، اُندلس اور سسلی کی عرب فتوحات نے دنیائے مغرب کو زیرو زبر کردیا اور یوں اسلام اور مغرب کے درمیان عداوت کی مستقل بنا پڑ گئی۔ یہ تاریخی منظر مستشرقین کی معاندانہ سرگرمیوں اور مخاصمانہ کاروائیوں کا بھی نقطہ آغاز ثابت ہوا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٣) محاربات صلیبی کو اگر ہم تحریک استشراق کا فوری سبب قرار دیں تو غلط نہ ہوگا۔صلیبی جنگوں کو تاریخ یورپ بلکہ تاریخ عالم اور تاریخ اسلام میں جواہمیت حاصل ہے اس کی تفصیل کا تو یہاں موقع نہیں ہے البتہ اس حد تک نشاندہی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ دنیائے اسلام کے خلاف دنیائے یورپ کی متحدہ کوششیں چونکہ ناکام و نامراد ہوئیں اور (۱۰۹۶ء سے ۱۲۹۲ء تک) کے معرکہ ہائے صلیب و ہلال کے نتائج ارباب کلیسا کے حق میں اچھے نہ نکلے۔ اس لیے انہوں نے عسکری محاذ پر شکست کھانے کے بعد گویا یہ فیصلہ کیا کہ مسلمانوں کو شکست دینے کیلئے علمی و فکری محاذ کو منظّم کیا جائے۔ یہی فیصلہ بالآخر تحریک استشراق کی شکل میں سامنے آیا۔ اس سلسلہ میں لارڈ اینی کا یہ تبصرہ قابل ذکر ہے :
’’فوجی اعتبار سے تو اب صلیبی جنگیں ختم ہوچکی ہیں مگر یورپی لوگ دین اسلام اور اس کی تہذیب کے بارے تحریراً جن خیالات کا اظہار کریں گے اُن میں تعصّب کے اثرات ہمیشہ باقی رہیں گے۔‘‘
ایک فرانسیسی (Plerre Martino) اپنی کتاب میں لکھتا ہے :
’’جب عیسائی ترکوں کے خلاف جنگ ہار گئے تو وہ ہرزہ سرائیاں کرنے لگے یہاں تک کہ انہوں نے عیسائیت کی شکست کا بدلہ میدان ادب میں لے لیا۔‘‘
چنانچہ تحریک استشراق کی صورت میں اہل یورپ اور ارباب کلیسا کی تمنائیں پوری ہوئیں اور اس طرح تحریک استشراق کے جلو میں دنیائے مغرب کا یہ منظم حملہ، واقعتاً عسکری محاذ پر اُن کے صلیبی حملوں سے کہیں زیادہ خطرناک ثابت ہوا۔ مختصر یہ کہ اسلام دشمنی کی جو چنگاریاں پہلے سے دبی ہوئی تھیں وہ لو دینے لگیں اور رفتہ رفتہ ان کی آتش عداوت دامن مشرق کو جلانے لگی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٤) مستشرقین من حیث المجموع چاہے قدیم ہوں یا جدید، مغرب کے ہوں یا مشرق کے، اپنی اصل ونسل کے اعتبار سے بہرحال یہودی، عیسائی اور مشرک ہی رہے ہیں۔ گویا اختلاف دین و مذہب کی بنا پر اُن کے جذبات وخیالات تو پہلے سے ہی مذہبی بغض و عداوت (Religious Hostity) کے آئینہ دار تھے۔ اس پر مستزاد یہ اَمر ہوا کہ وہ اسلام اور پیغمبر اسلامﷺکے حقیقی مآخذ سے دور، صدیوں جہالت و بے خبری اور عدم واقفیت کا شکار رہے۔اس کا واضح نتیجہ ایک طرف تویہ سامنے آیا کہ اسلام اور داعی اعظم﷤ کے بارے میں کم و بیش ۱۹ویں صدی کے آخر تک دانستہ یا نادانستہ طو رپر وہ جو کچھ لکھتے رہے اور پھیلاتے رہے، وہ صریحاً ظن و تخمین، وہم وگمان کی پیداوار تھا۔ چنانچہ بے سروپا روایات، من گھڑت حکایات، فسانہ و فسوں، لچر قصے کہانیاں اور اسی طرح کا بلا تحقیق خام مواد مستشرقین اسلام اور پیغمبر اسلام کی نفرت انگیز تصویر پیش کرنے کے لیے بڑی دلیری کے ساتھ صدیوں استعمال کرتے رہے۔ پھر دوسری طرف جب جہالت و بے خبری کا پردہ چاک ہوا اور مستشرقین اسلامی مآخذ کی تحقیق و تفتیش میں منہمک ہوئے، تب بھی انہوں نے دانستہ طور پر قرآن و احادیث سے کھیلنے میںکوئی تکلف نہیں کیا نیز مشرقی مصادر کی ترتیب و تبویب کے سلسلہ میں تمام تر محنتوں کے باوجود فاش قسم کی غلطیاں کرتے رہے۔ بہرحال ان تمام باتوں کامقصد ایک تھا، یعنی تشکیک وتذبذب کے بیج بوکراسلام اور سرور عالمﷺکے بارے میں مسلمانوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانا اور انہیں آمادہ بہ نفرت کرنا۔ اس کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ مستشرقین اپنی تحقیقات کے پردہ میں بقول ایک مصنف ایسے خیالات کو خاموشی کے ساتھ اسلام کے نظام فکر میں داخل کردیں جس کا ادراک راسخ العقیدہ لوگوں کے سوا دوسرے نہ کرسکیں۔ انہوں نے یہ خیال کرلیا کہ ان کی تحقیقات سے مرعوب ہوکر ان کی ہر بات کو بلا چون و چرا درست مان لیا جائے گا۔ چنانچہ انہوں نے علومِ اسلامی کا ہر میدان اپنی جولانگاہ کے لیے منتخب کیا اور علوم اسلامیہ کا کوئی شعبہ ایسا نہیں چھوڑا جس میں انہوں نے خلط ِمبحث سے کام نہ لیا ہو۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٥) مسلمانوں کا زِوال و اِنحطاط بحیثیت ِمجموعی، تحریک استشراق کے فروغ کا باعث ہوا۔ادھر عالم اسلام سیاسی انتشار کا شکار ہوا، اُندلس مسلمانوں کے قبضہ سے نکلا اور پھر سیاسی انحطاط، معاشرتی و اخلاقی زوال اور تہذیب وثقافت کے تنزل کا باعث ہوا تو اُدھر مسیحی یورپ کی ہمتیں بلند ہوئیں، بلکہ اندلس کو مسلمانوں کے ہاتھ سے واپس لے کر تو اتناغرور پیدا ہوا کہ صلیبی جنگوں کا سلسلہ شرو ع کردیا۔ پھر پندرہویں صدی عیسوی کے بعد سے اُنہیں سیاسی عروج حاصل ہونے لگا تو اقوامِ یورپ نے ایشیا، افریقہ اور دوسرے مشرقی علاقوں پر قبضہ جمانا شروع کردیا اور یوں استعماریت کی گرفت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئی۔ اس کانتیجہ واضح تھا۔ مغربی تہذیب کا غلبہ ہوتا چلا گیا اور مغربی تمدن اپنا اثر جمانے لگا تو مسلم ثقافت مغلوب ہونے لگی اور تمدنی چمک دمک ماند پڑگئی اور اس طرح مستشرقین کو موقع ملا کہ وہ اپنے ہتھیار تیز کرلیں۔ اُنہوں نے مسلمانون کی زبانیں سیکھیں، ان کے اَفکار وعلوم سے واقفیت حاصل کی اور اتنی استعداد پہنچائی کہ مسلمانوں کے مآخذ کو استعمال کرسکیں اور یوں اپنی تحریک کو آگے بڑھا سکیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٦) پندرہویں صدی عیسوی کے بعد یورپ نے پھر سے انگڑائی لی، اُس کے عہدِ تاریک کا خاتمہ ہوا، اور انکے ہاں علم و تحقیق، بیداری اور تہذیب و تمدن کی ترقی کا دور شروع ہوا۔ یہ ان کے سیاسی فروغ سے ہم آہنگ تھا اور انہیں ضرورت تھی کہ ایشیا اور افریقہ میں انہوں نے اپنی جو کالونیاں قائم کی ہیں انہیں مضبوط و مستحکم بنانے کیلئے مادی وسائل اور اسلحہ سے زیادہ توجہ علمی و ذہنی کاوشوں پر صرف کی جائے۔ چنانچہ استعمار مغرب کے تحفظ کیلئے بجائے خود تحریک اِستشراق کی سرگرمی ناگزیر تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اپنے مفتوح ممالک کے تمام علوم و فنون کو حاصل کرنے اور تحقیقات کے پردہ میں اپنے مقاصد کو پورا کرنے کیلئے یورپی حکمرانون نے تحریک اِستشراق کی مکمل سرپرستی کی۔ یہ سرپرستی صر ف مالی صورت میں نہیں تھی بلکہ مستشرقین کو وہ تمام سہولتیں مہیا کی گئیں جو ان کی تحقیق و تفتیش کیلئے ضروری تھیں۔
(٧) مذہبی اور سیاسی محرکات کے ساتھ تجارتی مفادات بھی تحریک استشراق سے وابستہ تھے۔ اَقوام یورپ اور مشرقی ممالک میں رابطہ کی اِبتداء تجارتی تعلقات سے ہی ہوئی تھی۔ پھر امتداد ِ زمانہ کے ساتھ ساتھ وہی تجار بالآخر سیاہ و سفید کے مالک اور حکمران بن بیٹھے۔ تاہم منڈی والی تجارت میں وہ اب بھی منہمک تھے۔ استشراقی سرگرمیوں کے نتیجہ میں کتابوں کی طباعت و اشاعت، مؤرخین کی کتابوں کی جلد فروخت اور مستشرقین کی تعداد میں مسلسل اضافہ اہل یورپ کے تجارتی مفادات کے تحفظ و فروغ کا باعث بھی ہوا۔
اَسباب و محرکات کا یہ مختصر سا تجزیہ تحریک استشراق کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے اور ان کے مالہ وما علیہ کو جاننے کے لیے کافی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
کتابیات
(١) دارالمصنفین، اعظم گڑھ، مجلہ ’معارف‘ جلد دوم، ۱۹۸۶ء
(٢) ضیاء النبی، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور،پیر کرم شاہ الازہری، ۱۴۱۸ھ
(٣) رسول نمبر، مجلہ نقوش، لاہور
(٤) حیات محمدﷺ، محمد حسین ہیکل، دارالحلبی، مصر
 
Top