• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تحریف قرآن، منصف مزاج مغربی مفکرین کی نظر میں

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مستشرقین کی تحقیقات کے مقاصد
مستشرقین کا وجود کوئی اتفاقی اَمر نہ تھا وہ ایک ایسے معاشرے کے اصحاب فکر وعمل تھے جو صدیوں سے عالم اسلام کے ساتھ حالت جنگ میں تھا اور اسے مغلوب کرنے پر تلا بیٹھا تھا، جس نے اپنی کمزوری رفع کرنے اور دشمن پر برتری حاصل کرنے کا ایک جامع منصوبہ تیار کرکے اس پر عمل درآمد شروع کردیا تھا اور مستشرقین اس منصوبے کا ہراول دستہ تھے جس کا فرض یہ تھا کہ وہ دشمن کے خزانوں سے اپنے ملک کو مالا مال کریں، اپنی تہذیب کو غالب کریں اور علوم و فنون کی دنیا میں برتری حاصل کریں۔ چنانچہ ہم مستشرقین کی تحقیقات کے مقاصد کو مندرجہ ذیل عنوانات کے تحت بیان کرسکتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دینی مقاصد
آج تحریک اِستشراق ایک علمی تحریک کے طور پر متعارف ہے لیکن کسی محقق کیلئے یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں کہ اس تحریک کا آغاز جس مقصد کے تحت ہوا تھا وہ دینی تھا۔ علوم اِسلامیہ کی طرف متوجہ ہوتے وقت اپنے دین کے حوالے سے ان کے پیش نظر تین مقاصد تھے۔
(١) دین اسلام کو دنیا کی اقوام میں عموماً اور یہودی و مسیحی اَقوام میں خصوصاً پھیلنے سے روکا جائے۔
(٢) مسلمانوں کو مسیحی بنانے کیلئے تگ و دو کی جائے۔
(٣) مستشرقین نے ضروری سمجھا کہ اَصل مسیحی عقائد معلوم ہونے کیلئے کتاب مقدس کے یورپی زبانوں میں ترجموں پر اعتماد کرنے کی بجائے عبرانی زبان کے نسخوں پر اعتماد کیا جائے اور چونکہ عبرانی زبان زندہ زبان کے طور پر کہیں مروج نہ تھی اور عبرانی اور عربی ایک دوسرے کے بالکل قریب تھیں اس لیے ان حالات میں عبرانی زبان کو سیکھنے کیلئے عربی زبان کاسیکھنا ضروری تھا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
علمی مقاصد
مستشرقین بے شمار علمی مقاصد کیلئے بھی علومِ شرقیہ کی طرف متوجہ ہوئے۔ انہوں نے مسلمانوں کے مادی علوم سے جی بھر کر استفادہ کیا علم الافلاک، جغرافیہ، تاریخ، سائنس، طب، ریاضی، فلسفہ کی کتابوں کو عربی زبان سے مغربی زبانوں میں منتقل کیا۔ انہوں نے علم کے میدان میں جو کچھ حاصل کیا اس نے مغرب کا نقشہ بدل دیا اور یورپ اور امریکہ کو وہاں تک پہنچا دیا جہاں تک پہلے کوئی انسانی معاشرہ نہ پہنچا تھا۔ لیکن وہ اسلام کے روحانی علوم سے استفادہ کرنے میں ناکام رہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِقتصادی مقاصد
اِسلامی اور مشرقی ممالک میں موجود بہت سے مالی فوائد اہل مغرب کو اپنی طرف متوجہ کررہے تھے اور ان فوائد کو حاصل کرنے کے لیے ضروری تھا کہ وہ اہل مشرق کی زبانوں، جغرافیہ، زرعی وسائل، انسانی خصوصیات اور ان کے دیگر حالات سے آگاہی حاصل کریں تاکہ جب وہ مقاصد کی خاطر مشرق کا سفر کریں تو انہیں مشرقی لوگوں سے میل جول اور لین دین میں آسانی ہو۔ اسی بناء پر مالی کمپنیاں، تجارتی ادارے اور حکومتیں ان علاقوں کے تفصیلی جائزے کے لیے باقاعدہ وفود بھیجتی تھیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سیاسی مقاصد
اَقوام مغرب کے مشرق میں سیاسی مقاصد کو صرف دو عنوانوں کے تحت بیان کیا جاسکتا ہے:
(١) سارے عالم اسلام پر سیاسی غلبہ(٢) مملکت اِسرائیل کا قیام
اِن مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے استعماری طاقتوں نے مستشرقین اور این جی اوزپر پانی کی طرح روپیہ بہایا ۔ ان تنظیموں نے اس دولت کے بل بوتے پر تعلیمی اداروں، ہسپتالوں، فلاحی اِداروں اور غریبوں کیلئے امدادی منصوبوں، اخبارات و رسائل اور ذرائع اَبلاغ کے ذریعے مسلمانوں کو اپنے رنگ میں رنگنے کی کوشش کی اور خود اُمت ِمسلمہ سے بھی ان کو کئی بے ضمیر لوگ مل گئے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قرآن کریم کے متعلق بعض مستشرقین کی مثبت آراء
دنیا کی تمام مذہبی کتب ِمقدسہ پر قرآن کو ہر حیثیت سے برتری حاصل ہے۔عہد نامہ قدیم و جدید کی تدوین میں تقریباً ڈیڑھ ہزار سال کا عرصہ لگا۔ بادشاہوں سے لے کر فقیروں تک ہزاروں اَفراد نے اس کی تدوین میں حصہ لیا۔ اس کا مستند ترین حصہ تورات دو جداگانہ کتب (الوہی اور یہوی) کا اشتراک ہے اور تحریف و تصریف سے پُر ہے اسے حضرت موسیٰ﷤ سے منسوب کیا جاتا ہے جبکہ اس میں وہ واقعات بھی درج ہیں جو ان کے بعد وقوع پذیر ہوئے۔ عہد نامہ قدیم کی حقیقی اہمیت صرف یہ ہے کہ وہ یہود کی مذہبی تاریخ کو بیان کرتا ہے۔
عہد نامہ جدید کی حقیقی نوعیت یہ ہے کہ متعدد نامعلوم افراد نے حضرت عیسیٰ﷤ کی سوانح حیات اپنے اپنے نقطہ نظر سے ترتیب دی ہے، یہ مؤلفین خود عینی شاہد تک نہیں ہے۔ صدیوں بعد سنی سنائی باتوں کو واقعاتی رنگ دیا اور یہ کتب آسمانی قرا رپاگئیں جبکہ قرآن ایک فرد واحد پر نازل شدہ وحی الٰہی کا مجموعہ ہے۔ جس کی حفاظت کا شعوری اہتمام دورِ نبوی سے ہی کیا جارہا ہے نہ صرف اسے تحریری طور پر محفوظ کیا گیا بلکہ نبی مہربانﷺسے لے کر آج تک کروڑوں افراد نے اسے سینوں میں محفوظ کیا۔ حضور اکرمﷺکے اس دُنیا سے رخصت ہونے کے بعد، دو سال کے اَندر اندر، خلیفۂ اوّل نے اس کے تمام اَجزاء کو جمع کرکے اس کا مکمل نسخہ مدون کیا۔ دنیا میں پایا جانے والا کوئی نسخہ اس اوّلین نسخے سے ادنی سا بھی اختلاف نہیں رکھتا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قرآنِ عظیم تقدس کا حامل، جس کی قراء ت باعث ثواب، جس پر عمل باعث نجات اور جس نے اَربوں کھربوں اَفراد کو گذشتہ چودہ سو سال میں ملکوتی فعالیت عطا کی اور جس کے توسط سے یہ ہم تک پہنچا اس نے خود اس کے مصنف ہونے سے اِنکار کیا لیکن مستشرقین اس کو تصنیف ِنبوی قرار دینے پر مصر ہیں، اس کی تعلیمات اور اخلاق پر حملہ آور ہیں اور اس کی بیان کردہ نعمتوں پر طنز کرتے ہیں۔ مشہور مستشرق کا رلائل جس نے آنحضورﷺکو انبیاء کا ہیرو تسلیم کیا، جو اسلام کی موافقت میں قلم اٹھانے میں سرفہرست ہے جب قرآن کا ذکر آتا ہے تو ساری خوش فہمی رفع کردیتا ہے۔ اس نے لکھا ۔ (نعوذ باللہ)
As toilsome reading as everundertook, a wearisome confused Jumble, crude, incordite, aerdless iterations, long-windness, entanglements, most curde incondite, insupportable stufidity, in short nothing but a sence of duty could carry any European through Koran: "Thomas Karlyle; on Heros, Hero-worship and Heroic in the Histtory, P 64, 65"
’’میری زندگی کی سب سے محنت طلب خواندگی، ایک اکتا دینے والا، پریشان بے ترتیب مجموعۂ خام، ناپختہ، لامتناہی تکرار، طویل گفتگو، الجھاؤ، انتہائی خام اور غیر نفیس ناقابل دفاع حماقت، مختصراً یہ کہ سوائے ادائے فرض کے احساس کے، کسی یورپین کو کوئی چیز قران کو پڑھنے پر آمادہ نہیں کرسکتی۔‘‘ (صفحہ ۶۴،۶۵)
پیشتر متشرقین کی مشترکہ رائے ہے کہ قرآن داعی اسلام کی تصنیف ہے۔
لیکن ایسے مستشرقین کی تعداد بھی کم نہیں جو اپنے ہم مذہب و مسلک مستشرقین کی رائے کے برعکس یہ تسلیم کرتے ہیں کہ قرآن وحی الٰہی ہے جو حضورﷺکے زمانے میں ہی مدون و مرتب ہوچکا تھا اور مسلمانوں نے نہ تو عہد صدیقی﷜ میں اور نہ ہی عہد عثمانی﷜ میں اس میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی اور ترمیم کی ہے بلکہ وہ مسلمانوں کی ان کوششوں کو سراہتے ہیں جومسلمانوں نے قران کریم کی حفاطت کے لیے کیں اور اسے ایک ایسی ناقابل یقین حقیقت قرار دیتے ہیں کہ جس کی مثال اس دنیامیں ناپید ہے۔ ہم ذیل میں ان چند مستشرقین کے اعترافات نقل کررہے ہیں جو باقی مستشرقین کے برعکس تسلیم کرتے ہیں کہ قرآن کریم وحی الٰہی ہے اور نبی مہربانﷺکے زمانے میں ہی مرتب و مدون ہوچکا تھا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ولیم میور کا اِعتراف
ولیم میور اسلام دشمنی میں مشہور ہے اور حضور اکرمﷺ کی سیرت طیبہ اور دین اسلام پر حملے کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ وہ قرآن کریم کو کلام الٰہی تسلیم کرنے کے لیے ذہنی طور پر آمادہ نہیں لیکن یہ بات تسلیم کرتا ہے کہ آج مسلمانوں کے ہاتھوں میں جو قرآن کریم ہے یہ وہی ہے جو حضورﷺکے دور میں تھا۔ ولیم میور لکھتا ہے:
But the preservation of the Koran during the life of Muhammad (SAW) was not dependent on any such uncertain archives, the devine revelation was the cornor stone of Islam... during his life time, repeat with accuracy the entirerevelation screipulous. P. 5/1.
[Mevr, william, the life of Muhammad, Smith, London 1860.]
اس اقتباس سے یہ نتائج سامنے آتے ہیں:
(١) عہد نبوی میں قرآن محض منتشر و متفرق ٹکڑوں پر ہی نہ تھا۔
(٢) وحی الٰہی مسلمانون کی زندگیوں کی بنیاد تھی نمازوں میں قرآن پڑھنا فرض تھا اور بہت سے لوگوں کے حافظوں میں موجود تھا اس وقت قدرو منزلت کا معیار یہ تھا کہ کس کو کتنا قرآن زبانی یاد ہے۔
(٣) عرب حفظ کرنے کے عادی تھے اور ان کا حافظہ غیر معمولی تھا۔ قرآن سے غیر معمولی لگاؤ تھا اور اسے سرگرمی سے حفظ کرنے لگے تھے۔
(٤) ان کی قوت حافظہ اس قدر قوی تھی کہ حضورﷺ کی حیات طیبہ کے اندر ہی وحی الٰہی کمال صحت کے ساتھ ان کو حفظ ہوگئی تھیں۔ ایک اور جگہ ولیم میور (William Muir) ایک دوسرے مستشرق (Vun Hammer) کے اَلفاظ نقل کرتا ہے:
That we hold the Koran to be as surely Muhammad word, as the Muhammadans hold it to be the word of God. [IBAD. P 27/1.]
’’ہمیں اس بات پر کہ قرآن محمد کے الفاظ ہیں، اتنا ہی یقین ہے جتنا مسلمانوں کو اس بات پر کہ قرآن اللہ کا کلام ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
منٹگمری واٹ کا شمار بھی ان متعصب مستشرقین میں ہوتا ہے جو اسلام پر نشتر زنی کرتے ہیں لیکن وہ بھی نیم دلی سے یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہے کہ ملت اسلامیہ نے صحیفہ آسمانی کی حفاظت کے لیے بے مثال کوششیں کیں۔
"Muhammad conntinued to recieve revolation at prequent interals. He and his followers memorized them and they were repeated in the ritual worship or prayer which he introduced most of them were probobly written down during Muhammad life time." [Bells introduction to the Quran, w,montgomery & Richerd bell, P:28, Edin burgh, London,2005.]
’’محمدﷺپر مختلف وقفوں کے ساتھ وحی آتی رہی ہے آپ اور آپ کے متبعین اسے یاد کرتے اور انہیں اپنی نمازوں میں دھراتے تھے۔ غالباً وحی کا اکثر حصہ محمدﷺ کی زندگی میں ہی لکھا جاچکا تھا۔‘‘
پھر ترتیب قران کے حوالے سے لکھا ہے:
It seems likely that to a great extent the surahs or chapters of Quran were given their present form by Muhammad him self. [IBID, P:29]
’’یہ بات زیادہ قرین قیاس ہے کہ قران کی سورتوں کو موجودہ ترتیب محمدﷺنے خود دی تھی۔‘‘
ایک اور مستشرق T.W.Arnold اس موضوع پر لکھتے ہیں:
The text of recension substantly corrosponds to the actual utter of Muhammad him self. [Arnold,T.W; The preaching of islam, P:9, constable, London 1913.
’’اس عملی شاہکار (یعنی قرآن پاک کا متن) اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ آپﷺ کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے الفاط ہیں۔‘‘
مستشرق Wherry لکھتے ہیں:
The text of the Quran is the purest of all the words of a like antiquity.
[Wherry,EM; A comprehonsive commentary on the Quran, P:349 trubner&co, London,1896.]
’’قرآن پاک کا متن کسی انتہائی نادر چیز کی طرح الفاظ کے اعتبار سے بالکل محفوظ ہے۔‘‘
ڈاکٹر مورس بوکائے رقم طراز ہیں:
Thanks to its undisputed authenticity, the text of the Quran holds a unique place among the text books of revelation.
[Bucaille, Mowrice; the Bible, the Quran& science, P:13 London.]
’’ممنون ہیں کہ قرآن کا مستند ہونا ایک تسلیم شدہ مسئلہ ہے اس لیے اس کتاب کو الٰہامی کتابوں میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
روڈی پرٹ (Rudi Paret) لکھتا ہے:
’’ہمارے لیے یہ یقین رکھنے کا کوئی سبب نہیں کہ قرآن کریم میں کوئی آیت ایسی بھی ہے جو حضرت محمدﷺسے مروی نہیں۔‘‘
یورپ کا مشہور مستشرق Baroness Magrate Vontein قرآن کریم کے حوالے سے لکھتا ہے:
’’اگرچہ تمام مذہبی صحائف اللہ کی طرف سے نازل ہوئے تاہم صرف قرآن ہی ایک ایسا آسمانی صحیفہ ہے جس میں ذرا بھی ردوبدل نہیں ہوا اور وہ اپنی اصل شکل میں موجود ہے۔‘‘
کونٹ بزی دی کاسٹر اپنی کتاب ’الاسلام‘ میں،جو کہ فرانسیسی زبان میں لکھی گئی اور عربی ترجمہ کے ساتھ ۱۸۹۸ء میں مصر سے شائع ہوئی، لکھتے ہیں:
’’اس کلام نے نوع انسانی کو لفظاً و معناً ہر لحاظ سے اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز کیا ہے۔ وہی کلام ہے جس کی بلند انشاء پردازی نے عمر بن الخطاب﷜ کو مطمئن کیا اور وہ خدا کے معترف ہوگئے۔ یہ وہی کلام ہے کہ جب عیسیٰ﷤ کی ولادت کے متعلق اس کے جملے جعفر بن ابی طالب﷜نے نجاشی کے سامنے پڑھے تو اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور بشپ چلا اٹھا کہ یہ کلام اس سرچشمہ سے نکلا ہے جس سے عیسیٰ﷤ کا کلام نکلا تھا۔‘‘
پالمر (Palmer) اگرچہ عثمانی دور سے قبل کے قرآن میں تو کئی ایک شکوک پیدا کرتا ہے لیکن مصحف عثمانی کی تیاری کے بعد لکھتا ہے:
Othman's recension had remained. The authorised text.... from the time it was made until the present day.
’’مصحف عثمانی اپنے آغاز سے لے کر اب تک ایک مستند متن کے طور پر باقی ہے۔‘‘
 
Top