محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ اُوْتُوْا نَصِيْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ يَشْتَرُوْنَ الضَّلٰلَۃَ وَيُرِيْدُوْنَ اَنْ تَضِلُّوا السَّبِيْلَ۴۴ۭ وَاللہُ اَعْلَمُ بِاَعْدَاۗىِٕكُمْ۰ۭ وَكَفٰى بِاللہِ وَلِيًّا۰ۤۡ وَّكَفٰى بِاللہِ نَصِيْرًا۴۵ مِنَ الَّذِيْنَ ھَادُوْا يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ وَيَقُوْلُوْنَ سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَاسْمَعْ غَيْرَ مُسْمَعٍ وَّرَاعِنَا لَيًّۢا بِاَلْسِنَتِہِمْ وَطَعْنًا فِي الدِّيْنِ۰ۭ وَلَوْ اَنَّھُمْ قَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا وَاسْمَعْ وَانْظُرْنَا لَكَانَ خَيْرًا لَّھُمْ وَاَقْوَمَ۰ۙ وَلٰكِنْ لَّعَنَھُمُ اللہُ بِكُفْرِہِمْ فَلَا يُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِيْلًا۴۶
۲؎ ان آیات میں یہود کی عادت تحریف کی طرف اشارہ ہے کہ یہ لوگ ذوق حق سے قطعاً محروم ہیں۔ یہ باتیں سنتے ہیں اور اسے بالکل بدل دیتے ہیں۔پھر طبیعتیں اس درجہ مسخ ہوچکی ہیں کہ گستاخی ودل آزاری سے بھی باز نہیں آتے۔ رَاعِنَا کی تفصیل گزرچکی ہے ۔ ان کا مقصد بہرحال ایذاء رسولﷺ اور اپنی گستاخی کا اظہار ہوتا تھا۔ وہ اس لفظ کو ذرا زبان داب کر کہتے ہیں جس سے ذم کا پہلو زیادہ نمایاں ہوجاتا اور اتنی سی بات سے خوش ہوجاتے۔
قرآن حکیم کہتا ہے کہ ایسے لوگ اللہ کی رحمت سے دور رہتے ہیں اور بوجہ اپنی گستاخی وملعونیت کے نورایمان سے ہمیشہ دور رہتے ہیں۔
{مَوَاضِع} جمع موضع۔ جگہ ۔ مقام { رَاعِناَ} ہماری طرف التفات فرمائیے۔ کلمۂ ترغیب ہے ۔{اُنْظُرْنَا} دیکھیے۔ ملاحظہ فرمائیے۔
۱؎ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْکِتٰبِ سے اس طرف اشارہ ہے کہ اہل کتاب کے پاس احکام خداوندی کا کوئی کامل و صحیح صحیفہ نہیں۔ گردش روزگار اور ان کی اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے چند صداقتیں اورسچائیاں ان کے پاس محفوظ رہ گئی ہیں مگر یہ ہیں کہ ان کو بھی پس پشت ڈال رہے ہیں اور دنیا کی جھوٹی خواہشات کے لیے حق وصداقت کو قربان کررہے ہیں۔ فرمایا یہ تمہارے اورحق کے لیے کھلے دشمن ہیں۔ یہ جان رکھیں کہ خدائے ذوالجلال تمھیں دیکھ رہا ہے ۔کیا تونے ان کی طرف نہ دیکھا جنھیں کتاب ۱؎میں سے ایک حصہ ملا ہے ۔ وہ گمراہی خریدتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم مسلمان راہ سے بہک جاؤ۔(۴۴) اوراللہ تمہارے دشمنوں کو خوب جانتا ہے اور خدا کافی مددگار اورکافی دوست ہے۔ (۴۵) یہودیوں میں سے بعض ایسے ہیں کہ باتوں کو ان کے ٹھکانوں۲؎ سے بدل ڈالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے تیرا قول سنا اور تیرا حکم نہ مانا اور سن کہ نہ سنا جائے تو اور اپنی زبانیں مروڑ کے اور دین میں طعن کرکے راعنا کہتے ہیں اور اگر وہ کہتے کہ ''ہم نے سنا اور مانا اور تو سن اور ہم پرنظر کر۔'' تو ان کے لیے بہتر ہوتا اور درست (ہوتا) لیکن خدا نے ان کے کفر کے سبب ان پر لعنت کی ہے پس وہ ایمان نہیں لاتے مگر تھوڑے۔(۴۶)
تحریف کلمات
۲؎ ان آیات میں یہود کی عادت تحریف کی طرف اشارہ ہے کہ یہ لوگ ذوق حق سے قطعاً محروم ہیں۔ یہ باتیں سنتے ہیں اور اسے بالکل بدل دیتے ہیں۔پھر طبیعتیں اس درجہ مسخ ہوچکی ہیں کہ گستاخی ودل آزاری سے بھی باز نہیں آتے۔ رَاعِنَا کی تفصیل گزرچکی ہے ۔ ان کا مقصد بہرحال ایذاء رسولﷺ اور اپنی گستاخی کا اظہار ہوتا تھا۔ وہ اس لفظ کو ذرا زبان داب کر کہتے ہیں جس سے ذم کا پہلو زیادہ نمایاں ہوجاتا اور اتنی سی بات سے خوش ہوجاتے۔
قرآن حکیم کہتا ہے کہ ایسے لوگ اللہ کی رحمت سے دور رہتے ہیں اور بوجہ اپنی گستاخی وملعونیت کے نورایمان سے ہمیشہ دور رہتے ہیں۔
حل لغات
{مَوَاضِع} جمع موضع۔ جگہ ۔ مقام { رَاعِناَ} ہماری طرف التفات فرمائیے۔ کلمۂ ترغیب ہے ۔{اُنْظُرْنَا} دیکھیے۔ ملاحظہ فرمائیے۔