معتزلہ کے اصولِ خمسہ
رفتہ رفتہ معتزلہ کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا اور یہ خود کئی ایک فرقوں میں تقسیم ہو گئے اور ہر فرقے نے اپنے بدعتی افکار کی ایک فہرست بنا لی اور اس کو نقل و عقل سے ثابت کرنا شروع کر دیا' لیکن ان کے تقریباً تمام فرقوں میں پانچ اصولوں پر اتفاق ہی رہا ہے اور یہی پانچ اصول معتزلہ کی پہچان بن گئے۔ یہ اصولِ خمسہ درج ذیل ہیں:
١) توحید
اپنے اس اصول کے تحت انہوں نے اللہ تعالیٰ کی صفات کا انکار کیا ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ اگر ہم مان لیں کہ اللہ بھی سنتا ہے اور انسان بھی سنتا ہے' اللہ بھی دیکھتا ہے اور انسان بھی دیکھتا ہے تو اس صورت میں اللہ کی صفات انسان میں بھی پائی جائیں گی' لہٰذا صفات کا شرک لازم آئے گا۔ پس انسان کے بارے میں تو یہ معلوم ہے کہ وہ کلام کرتا ہے' سنتا ہے' دیکھتا ہے اور اس کی ان صفات کا انکار ممکن نہیں ہے' لہٰذا اللہ کے بارے جب کتاب و سنت میں اس کی ایسی صفات کا تذکرہ آئے تو ان کی ایسی تاویل کرو کہ ان صفات کا انکار لازم آئے تاکہ انسان اور اللہ میں مشابہت نہ ہو۔ پس انہوں نے اللہ کی صفت سماعت' بصارت' کلام' ارادہ' حیات' قدرت حتی کہ جمیع صفات کا انکار کر دیا۔
اہل سنت کا کہنا یہ ہے کہ اگر اللہ کی صفات کا انکار کر دیا جائے تو پھر ایک اندھے' بہرے اور گونگے خدا کو ماننا لازم آئے گا اور اس صورت میں ہندوؤں کے بتوں' مشرکین کے معبودوں' کافروں کے اوتاروں' مادہ پرستوں کے اندھے بہرے مادے اور مسلمانوں کے خدا میں کیا فرق باقی رہ جائے گا؟ اہل سنت کہتے ہیں کہ ہم اللہ کی جمیع صفات کو تو مانتے ہیں لیکن ہم ان صفات کی نہ تو کیفیت بیان کرتے ہیں اور نہ ہی ان کو انسانوں کی صفات کے مماثل قرار دیتے ہیں' نہ ہی ان میں تحریف کرتے ہیں اور نہ ہی ان کے بارے میں عقلی و منطقی بحثوں کے دروازے کھولتے ہیں۔ بس جتنا کتاب و سنت نے بیان کر دیا ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور اس کے بارے میں کج بحثی نہیں کرتے۔
قرآن میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کلام کرتا ہے ۔ بس ہم اللہ کی صفت کلام پر ایمان رکھتے ہیں 'لیکن اس کی کیفیت کیا ہے؟ ہم اس بحث میں نہیں پڑتے۔ اس کے برعکس معتزلہ کا منہج یہ ہے کہ وہ سوال در سوال پیدا کرتے ہیں' مثلاً وہ یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم مان لیں کہ اللہ تعالی کلام کرتا ہے تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ اس کا ایک منہ بھی ہوگا یا اس کی زبان بھی ہو گی (معاذ اللہ!) کیونکہ ا س کے بغیر تو کلام ممکن نہیں ہے اور اگر ہم اس کا منہ اور زبان مان لیں تو اس سے اللہ کا جسم لازم آئے گا۔ پس معتزلہ اس کج بحثی میں بڑھتے بڑھتے اللہ کی صفات کا ہی سرے سے انکار کر دیتے ہیں۔
اہل سنت یہ کہتے ہیں کہ اللہ کی صفات کتاب و سنت سے معلوم ہیں اس لیے ان کو ماننا اوران پر ایمان لانا ضروری ہے' البتہ ان کی کیفیت مجہول ہے' لہٰذا اس کے بارے گفتگو نہیں کرنی چاہیے اور جو شخص ان صفات کی کیفیات کے پیچھے پڑ جاتا ہے تو وہ بدعتی ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ سے جب اللہ کے عرش پر مستوی ہونے کے بارے میں سوال ہوا تو انہوں نے اس کا یہ جواب دیا:
الاستواء معلوم والکیف غیر معقول والایمان بہ واجب والسؤال عنہ بدعة۔ (مجموع الفتاویٰ' ج٣' ص ٥٨)
''اللہ کا عرش پر مستوی ہونا معلوم ہے( قرآن میں سات مقامات پر اس کا تذکرہ ہے) لیکن اس کی کیفیت عقل میں نہیں آ سکتی اور اس پر ایمان لانا واجب ہے اور اس کے بارے سوال کرنا بدعت ہے۔''
یعنی اہل سنت اسی پر خاموش ہو جاتے ہیں جو کتاب و سنت نے بیان کر دیا ہے اور اس پر اگر کوئی سوال کرے تو وہ اہل سنت سے خارج ہو کر اہل بدعت میں شامل ہو جاتا ہے' کیونکہ سوال سے کج بحثیوں کا آغاز ہوتا ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ولہ ید و وجہ ونفس کما ذکرہ اللّٰہ تعالی فی القرآن' فما ذکرہ اللّٰہ تعالی فی القرآن من ذکر الوجہ والید والنفس فھو لہ صفات بلا کیف ولا یقال: ان یدہ قدرتہ او نعمتہ لان فیہ ابطال الصفة وھو قول أھل القدر والاعتزال۔ ( الفقہ الاکبر مع شرحہ' ص ٣٠٢)
'' اللہ تعالیٰ کا ہاتھ' چہرہ اور نفس ہے 'جیسا کہ اُس نے اس کا قرآن میں اثبات کیا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے جو قرآن میں اپنے لیے چہرے' ہاتھ اور نفس کا اثبات کیا ہے تو یہ اللہ کی صفات ہیں۔ ان صفات کی کیفیت نہیں بیان کی جائے گی اور نہ ہی یہ کہا جائے گا کہ اللہ کے ہاتھ سے مراد اس کی قدرت یا نعمت ہے' کیونکہ ایسا کہنے سے اللہ کی صفت کا انکار لازم آئے گا اور ایسا تو قدریہ اور معتزلہ کہتے ہیں (یعنی ایسی تاویل کرنا اہل سنت کا منہج نہیں ہے)۔''
٢) عدل
اس اصول کے مطابق معتزلہ کا کہنا یہ ہے کہ انسان اپنے افعال کا فاعل بھی ہے اور خالق بھی' جبکہ اہل سنت یہ کہتے ہیں کہ انسان اپنے فعل کا فاعل تو ہوتا ہے لیکن اس کے فعل کا خالق اللہ کی ذات ہی ہوتی ہے۔ اہل سنت کے عقیدے کے مطابق خیر و شر دونوں کا خالق اللہ کی ذات ہے' جبکہ معتزلہ یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم یہ مان لیں کہ شر کا خالق اللہ کی ذات ہے تو اس سے شر کی نسبت اللہ کی طرف ہو گی جو عقلاً درست نہیں ہے۔
اہل سنت اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ کسی کام کو کرنے کے اعتبار سے فعل کی نسبت فاعل کی طرف ہوتی ہے۔ پس شر کا فاعل انسان ہے لہٰذا اس کی نسبت انسان کی طرف ہو گی' لیکن اس شر کا خالق اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہے۔
اہل سنت اللہ تعالیٰ کے ارادہ کی دو قسمیں بناتے ہیں : ارادہ شرعیہ اور ارادہ کونیہ۔ ارادہ شرعیہ کا تعلق اللہ کے مطالبے سے ہے اور دوسرے الفاظ میں یہی شریعت کہلاتا ہے' جبکہ ارادہ کونیہ کا تعلق اللہ کی تخلیق سے ہے۔ اس کو ایک سادہ سی مثال سے یوں سمجھیں کہ ابلیس شر تو ہے لیکن اس شر کا خالق تو اللہ ہی ہے ۔ یعنی اس کائنات میں ہر ہر چیز کا خالق اللہ کی ذات ہے ۔ یہ اہل سنت کا عقیدہ ہے' جبکہ معتزلہ کے نزدیک انسان اپنے افعال کا خود خالق ہے اور اللہ تعالیٰ انسان کے افعال کا خالق نہیں ہے۔
اہل سنت یہ کہتے ہیں کہ انسان جب کسی فعل کا فاعل بنتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس فعل کی تخلیق فرماتا ہے' مثلاً انسان برائی کرتا ہے تو انسان اس کا فاعل ہے اور اللہ تعالیٰ اس برائی کو وجود بخشتا ہے' لہٰذا اللہ اس کا خالق ہے۔ اگر انسان فاعل بنے اور اللہ خالق نہ بنے تو اس شے کا وجود اس دنیا میں قائم نہیں ہوتا' جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام پر چھری چلا دی اور ان کو ذبح کرنے کے فاعل بن گئے' لیکن اللہ تعالیٰ ان کے اس فعل کے خالق نہ بنے' لہٰذا حضرت ابراہیم کے فعل یعنی
''ذبح ِاسمٰعیل '' کو وجود نہ ملا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
(وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ) (الصافات)
''اللہ نے تمہیں بھی پیداکیا ہے اور تمارے اعمال کو بھی۔''
٣) وعد و وعید
اپنے اس اصول کے تحت معتزلہ نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ پر یہ لازم ہے کہ وہ اپنے وعدے کے مطابق فرمانبردار کو جزا دے اور نافرمان کو سزا دے۔ چنانچہ ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ گناہ کبیرہ کے مرتکب کو معاف کرے۔ یہ بات اللہ کے عدل کے منافی ہے۔ اہل سنت کے نزدیک اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ کسی گناہ گار کو معاف کردے اور اسے سزا نہ دے' چاہے اُس نے توبہ کی ہو یا نہ کی ہو۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآء(النساء:٤٨)
''بے شک اللہ تعالیٰ اس کو کبھی معاف نہ کرے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور اس سے کمتر گناہ جس کے لیے چاہے گا' معاف کر دے گا۔''
اس اصول کے مطابق معتزلہ کا کہنا یہ ہے کہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ایمان سے نکل جاتا ہے اور کفر میں داخل نہیں ہوتا' لہٰذا نہ تو وہ مؤمن ہے اور نہ ہی کافر ہے' جبکہ آخرت کے اعتبار سے وہ دائمی جہنمی ہے۔ معتزلہ اور خوارج میں اس مسئلے میں فرق یہ ہے کہ خوارج اسے دنیا میں بھی کافر شمار کرتے ہیں اور آخرت میں دائمی جہنمی' جبکہ معتزلہ دنیا میں تو اسے کافر نہیں کہتے لیکن اس کی آخرت کے بارے میں وہی حکم لگاتے ہیں جو کفار کا ہے۔
٥) امر بالمعروف ونہی عن المنکر
اپنے اس قول کے تحت انہوں نے اسلام کی نشرو اشاعت' گمراہوں کی ہدایت اور بھٹکے ہوؤں کی رہنمائی کے لیے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو واجب قرار دیا ہے ۔
اگرچہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر اہل سنت کے نزدیک بھی فرض ہے' لیکن معتزلہ نے نہی عن المنکرکے اعلیٰ ترین یعنی ہاتھ سے منکر کو تبدیل کرنے کے بارے میں غلو سے کام لیا ہے۔ اپنے اس اصول کے تحت انہوں نے ظالم ' فاسق اور حق سے منحرف حکمرانوں کے خلاف خروج کو واجب قرار دیا ہے اور حق سے انحراف سے مراد ان کی یہ ہے کہ جو حکمران ان کے بدعتی افکار کا قائل نہ ہو' وہ بھی حق سے منحرف شمار ہو گا اور اس کے خلاف خروج واجب ہو گا۔ اہل سنت کے نزدیک ظالم اور فاسق حکمران کے خلاف خروج کے بارے میں تفصیل ہے' جسے ہم نے ایک دوسرے مقام پر تفصیل سے واضح کر دیا ہے ۔