• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تحریک تجدد اور متجددین

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
پیش لفظ

تقریباً سابقہ آٹھ یا دس ماہ سے ماہنامہ میثاق میں ”تحریک تجدد اور متجددین“ کے عنوان سے ایک سلسلہ شروع کیا ہے کہ جس کا مقصد یہ تھا کہ عالم اسلام کی ان نمایاں شخصیات کے احوال اور آراء وافکار کو ایک مقام پر جمع کر دیا جائے کہ جو تجدد کی راہ پر واقعتا چل نکلے یا مختلف مذہبی حلقوں کی طرف سے ان پر تجدد پسندی کا الزام لگایا گیا تا کہ ایک عامی کے لیے اس شخصیت کے بارے ایک مجموعی رائے قائم کرنے میں آسانی ہو۔
اب تک جن شخصیات پر تحقیق مکمل ہو چکی ہے، ان میں جمال الدین افغانی، مفتی محمد عبدہ، رشید رضا، طہ حسین مصری، توفیق الحکیم مصری، مصطفی کمال پاشا، ڈاکٹر یوسف القرضاوی، وہبہ الزحیلی، غلام احمد پرویز اور پروفیسر طاہر القادری وغیرہ شامل ہیں۔ ان شاء اللہ کوشش کروں گا کہ وقتا فوقتا اس سلسلہ مضامین کو یہاں افادہ عام کے لیے شیئر کرتا رہوں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
تحریک تجدد اور متجددین

'تجدد' عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مادہ 'ج ۔ د ۔ د' ہے۔ اس مادے سے عربی زبان میں دو اہم الفاظ استعمال ہوتے ہیں' ایک 'تجدد' اور دوسرا ' تجدید' ۔ 'تجدد' باب تفعّل سے مصدر ہے اور اس مصدر سے اسم الفاعل 'متجدد' بنتا ہے جبکہ 'تجدید' باب تفعیل سے مصدر ہے اور اس کا اسم الفاعل 'مجد ِد' استعمال ہوتا ہے۔ معاصر مذہبی اردو لٹریچر میں 'تجدد' ایک منفی جبکہ 'تجدید' ایک مثبت اصطلاح کے طور پر معروف ہے۔

باب تفعیل سے 'تجدید' کا لفظ متعدی معنی میں مستعمل ہے اور 'جدّد الشیئ' کا معنی ہو گا کسی شے کو نیا کرنا ۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ اس لفظ میں 'تاء' طلب کے معنی میں ہے' یعنی کسی چیز کو نیا کرنے کی خواہش رکھنا۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
'' تجدید اس وقت ہوتی ہے جبکہ کسی شے کے آثار مٹ جائیں۔ یعنی جب اسلام غریب اور اجنبی ہو جائے تو پھر اس کی تجدید ہوتی ہے''۔ (مجموع الفتاویٰ' ج١٨' ص٨)۔

مجدد' دین اسلام کی اصل تعلیمات پر پڑ جانے والے پردوں اور حجابات کو اٹھاتا ہے اور دین کا حقیقی تصورواضح کرتا ہے۔ پس تجدید سے مرادکسی شے کی اصلاح' اس میں اضافہ یا تبدیلی نہیں ہے بلکہ اس سے مراد پہلے سے موجود ایک شے پر پڑے ہوئے حجابات کورفع کرناہے۔

علامہ یوسف قرضاوی کے بقول تجدید سے مراد کسی شے کو اس کی اصل حالت پر لوٹانا ہے مثلاً اللہ کے رسول ۖ اور خلفائے راشدین کے دور میں دین اسلام اپنی حقیقی صورت میں موجود تھا' اس کے بعدرفتہ رفتہ لوگوں کے عقائد میں بگاڑ آنا شروع ہو گیا اور بدعتی فرقوں مثلاً خوارج' معتزلہ' جہمیہ' اہل تشیع اور کلامی گروہوں نے بہت سے باطل نظریات اور تصورات کو دین اسلام کے نام پر پیش کرنا شروع کر دیا۔ ائمہ ٔاہل سنت نے ان باطل افکار و نظریات کی شد و مد سے تردید کی اور دین کے اس حقیقی اور صحیح تصور کو واضح کیا جس پر ان گمراہ فرقوں کی کج بحثیوں کے نتیجے میں حجابات پڑ گئے تھے۔ اسی فعل کا نام تجدید ہے اور اس کے فاعل کو' مجدد' کہتے ہیں۔ 'تجدید ِعہد' کی اصطلاح عربی زبان میں معروف ہے اور اس سے مراد کوئی نیا عہد باندھنا نہیں ہے بلکہ پہلے سے موجود عہد کو پختہ اور نیا کرنا ہے۔

پس اسلام کی تجدید سے مراد کوئی نیا اسلام پیش کرنا نہیں ہے بلکہ پہلے سے موجود اسلام پر گمراہ اور بدعتی فرقوں کی طرف سے ڈالے گئے حجابات کو رفع کرتے ہوئے اسلام کو از سر ِنو نیا کرنا ہے۔ اللہ کے رسول ۖ کا ارشاد ہے:
((اِنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ لِھٰذِہِ الْاُمَّةِ عَلٰی رَأْسِ کُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ یُّجَدِّدُ لَھَا دِیْنَھَا)) سنن ابی داود' کتاب الملاحم' باب ما یذکر فی قرن المائة ۔
اس روایت کو علامہ البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔
''بے شک اللہ تعالیٰ ہر صدی کے آخر میں اس اُمت کے لیے ایک ایسے شخص کو بھیجتے ہیں جو اُمت کے لیے اس کے دین کی تجدید کرتا ہے۔''

اس کے برعکس باب تفعّل سے 'تجدد' کا لفظ لازمی معنی میں استعمال ہوتا ہے اور ' تجدّد الشّیئ' کا معنی ہو گا :کسی شے کا نیا ہو جانا۔ عربی زبان میں 'تجدّد الضّرع' کا معنی ہے: جانور کے دودھ کا چلے جانا۔ جب جانور کا پچھلا دودھ چلا جائے گا تو اب نیا دودھ آئے گا اور اسی کو 'تجدّد الضرع' کہا گیا ہے ۔ پس تجدد کا معنی ہے پہلے سے موجود کسی شے کا غائب ہو جانا اور اس کی جگہ نئی چیز کا آجانا۔ پہلے والا دودھ دوہنے کے بعد جانور کے تھنوں میں جو نیا دودھ آئے گا' وہ نیا تو ہے لیکن پہلے والا نہیں ہے۔ اسلام کے تجدد سے مراد یہ ہو گی کہ پہلے سے موجود اسلام غائب ہوجائے اور اس کی جگہ نیا اسلام آ جائے ۔ اس کو اردو میں تشکیل جدید اور انگریزی میں 'Reconstruction' بھی کہتے ہیں۔ یعنی اسلام کی عمارت گر گئی ہے اور اسے ازسر ِنو تعمیر کرنا چاہیے۔

سید سلیمان ندوی ڈاکٹراقبال مرحوم کے 'تشکیل جدید' کے تصور کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
''اقبال مرحوم نے خطبات کا نام Re-constructionرکھا' مجھے اس پر بھی اعتراض تھا' تعمیر نو یا تشکیل نو کا کیا مطلب؟ کیا عمارت منہدم ہو گئی؟تشکیل نو کا مطلب دین کی ازسر نو تعمیر کے سوا کیا ہے؟ یعنی اسلام کی اصل شکل مسخ ہو گئی'اب اسے از سر نو تعمیر کیا جائے۔ یہ دعویٰ پوری اسلامی تاریخ کو مسترد کرنے کے سوا کیا ہے؟'' (سہ ماہی اجتہاد' خطباتِ اقبال کا ناقدانہ جائزہ' جون٢٠٠٧ء' ص٥٤)۔

اس بحث کا خلاصہ ٔکلام یہی ہے کہ 'تجدید' ایک مثبت لفظ ہے اور دین میں مطلوب ہے جبکہ تجدد ایک منفی اصطلاح ہے اور دین میں ایک ناپسندیدہ فعل ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
تاریخ اسلام میں تجدد کی پہلی تحریک
تاریخ اسلام کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلی صدی ہجری کے آخر میں ہی کئی ایسی شخصیات اور بدعتی گروہوں کا ظہور ہونا شروع ہوگیا تھا جو اسلام کی شاہراہ سے کٹ کر پگڈنڈیوں پر چلنا شروع ہو گئے تھے۔ معتزلی افکار اگرچہ معبد جہنی' غیلان دمشقی' جہم بن صفوان اور جعد بن درہم وغیرہ میں بھی پائے جاتے تھے' لیکن معتزلہ کا باقاعدہ ایک فرقے کے طور پر ظہورواصل بن عطاء غزال ( ٨٠ تا ١٣١ھ) کی سرکردگی میں ہوا۔

یہ شخص جلیل القدر تابعی حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کا شاگرد تھا اور ایک دفعہ ایک مسئلے میں ان سے اس کا اختلاف ہو گیا۔ مسئلہ یہ تھا کہ گناہ کبیرہ کا مرتکب مؤمن ہے یا نہیں؟ حضرت حسن بصری کا کہنا یہ تھا کہ گناہِ کبیرہ کے مرتکب فرد کا ایمان اس کے گناہ کی وجہ سے کم تو ہو جاتا ہے لیکن بالکل ختم نہیں ہوتا اور یہی صحابہ و تابعین کا عقیدہ ہے۔ جبکہ واصل بن عطاء کا موقف یہ تھا کہ جو مسلمان گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوتا ہے اس سے ایمان نکل جاتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوا کہ جب اس سے ایمان نکل گیا ہے تو کیا وہ کافر ہو گیا ؟تو اس کا جواب اس نے یہ دیا کہ وہ کافر بھی نہیں ہوا۔ اب اس پر سوال یہ ہوا کہ نہ تو وہ مؤمن ہے اور نہ ہی کافر' تو پھر کیا ہے ؟ اس کا جواب اس نے یہ دیا کہ گناہِ کبیرہ کا مرتکب ''منزلة بین المنزلتَین'' پر ہے' یعنی وہ کفر اور ایمان کے مابین ایک مقام پر ہے اور اس مقام کو اس نے ''منزلة بین المنزلتین'' کا نام دیا۔ گویا اُس نے کفر اور ایمان کے مابین ایک ایسی نئی اصطلاح کا تعارف کروایا کہ جس کے مطابق ایک شخص میں نہ تو ایمان باقی رہتا ہے اور نہ ہی اس میں کفر داخل ہوتا ہے۔

اب اس پر یہ سوال پیدا ہوا کہ جب ایک شخص نے گناہ کبیرہ کیا اور اس سے ایمان بھی نکل گیا لیکن وہ کافر بھی نہ ہوا اور اس حالت میں اگر وہ فوت ہو جائے تو آخرت میں اس کا کیا معاملہ ہو گا ؟کیونکہ آخرت میں نجات تو ایمان ہی کی بدولت ہے اور وہ اس سے نکل چکا ہے اور ابھی اس نے توبہ بھی نہیں کی تھی کہ اس کا ایمان واپس آتا اور گناہ کے ارتکاب کے دوران ہی یا گناہ کرنے کے بعد بغیر توبہ کے اسے موت آ گئی تو اس کا اُخروی حکم کیا ہوگا؟ اس کا جواب واصل بن عطاء نے یہ دیا کہ ایسا شخص دائمی جہنمی ہے۔ بحث جب طول پکڑ گئی تو اس شخص نے اپنے ساتھیوں کو لے کر حضرت حسن بصری کے حلقہ سے الگ اپنا ایک علمی حلقہ قائم کر لیا۔ اس پر حضرت حسن بصری نے کہا: ''اعتزل عنّا واصل'' یعنی واصل ہم سے علیحدہ ہو گیا ہے۔ اسی سے ان کا نام معتزلہ پڑ گیا۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
معتزلہ کے اصولِ خمسہ
رفتہ رفتہ معتزلہ کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا اور یہ خود کئی ایک فرقوں میں تقسیم ہو گئے اور ہر فرقے نے اپنے بدعتی افکار کی ایک فہرست بنا لی اور اس کو نقل و عقل سے ثابت کرنا شروع کر دیا' لیکن ان کے تقریباً تمام فرقوں میں پانچ اصولوں پر اتفاق ہی رہا ہے اور یہی پانچ اصول معتزلہ کی پہچان بن گئے۔ یہ اصولِ خمسہ درج ذیل ہیں:

١) توحید
اپنے اس اصول کے تحت انہوں نے اللہ تعالیٰ کی صفات کا انکار کیا ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ اگر ہم مان لیں کہ اللہ بھی سنتا ہے اور انسان بھی سنتا ہے' اللہ بھی دیکھتا ہے اور انسان بھی دیکھتا ہے تو اس صورت میں اللہ کی صفات انسان میں بھی پائی جائیں گی' لہٰذا صفات کا شرک لازم آئے گا۔ پس انسان کے بارے میں تو یہ معلوم ہے کہ وہ کلام کرتا ہے' سنتا ہے' دیکھتا ہے اور اس کی ان صفات کا انکار ممکن نہیں ہے' لہٰذا اللہ کے بارے جب کتاب و سنت میں اس کی ایسی صفات کا تذکرہ آئے تو ان کی ایسی تاویل کرو کہ ان صفات کا انکار لازم آئے تاکہ انسان اور اللہ میں مشابہت نہ ہو۔ پس انہوں نے اللہ کی صفت سماعت' بصارت' کلام' ارادہ' حیات' قدرت حتی کہ جمیع صفات کا انکار کر دیا۔

اہل سنت کا کہنا یہ ہے کہ اگر اللہ کی صفات کا انکار کر دیا جائے تو پھر ایک اندھے' بہرے اور گونگے خدا کو ماننا لازم آئے گا اور اس صورت میں ہندوؤں کے بتوں' مشرکین کے معبودوں' کافروں کے اوتاروں' مادہ پرستوں کے اندھے بہرے مادے اور مسلمانوں کے خدا میں کیا فرق باقی رہ جائے گا؟ اہل سنت کہتے ہیں کہ ہم اللہ کی جمیع صفات کو تو مانتے ہیں لیکن ہم ان صفات کی نہ تو کیفیت بیان کرتے ہیں اور نہ ہی ان کو انسانوں کی صفات کے مماثل قرار دیتے ہیں' نہ ہی ان میں تحریف کرتے ہیں اور نہ ہی ان کے بارے میں عقلی و منطقی بحثوں کے دروازے کھولتے ہیں۔ بس جتنا کتاب و سنت نے بیان کر دیا ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور اس کے بارے میں کج بحثی نہیں کرتے۔

قرآن میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کلام کرتا ہے ۔ بس ہم اللہ کی صفت کلام پر ایمان رکھتے ہیں 'لیکن اس کی کیفیت کیا ہے؟ ہم اس بحث میں نہیں پڑتے۔ اس کے برعکس معتزلہ کا منہج یہ ہے کہ وہ سوال در سوال پیدا کرتے ہیں' مثلاً وہ یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم مان لیں کہ اللہ تعالی کلام کرتا ہے تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ اس کا ایک منہ بھی ہوگا یا اس کی زبان بھی ہو گی (معاذ اللہ!) کیونکہ ا س کے بغیر تو کلام ممکن نہیں ہے اور اگر ہم اس کا منہ اور زبان مان لیں تو اس سے اللہ کا جسم لازم آئے گا۔ پس معتزلہ اس کج بحثی میں بڑھتے بڑھتے اللہ کی صفات کا ہی سرے سے انکار کر دیتے ہیں۔

اہل سنت یہ کہتے ہیں کہ اللہ کی صفات کتاب و سنت سے معلوم ہیں اس لیے ان کو ماننا اوران پر ایمان لانا ضروری ہے' البتہ ان کی کیفیت مجہول ہے' لہٰذا اس کے بارے گفتگو نہیں کرنی چاہیے اور جو شخص ان صفات کی کیفیات کے پیچھے پڑ جاتا ہے تو وہ بدعتی ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ سے جب اللہ کے عرش پر مستوی ہونے کے بارے میں سوال ہوا تو انہوں نے اس کا یہ جواب دیا:
الاستواء معلوم والکیف غیر معقول والایمان بہ واجب والسؤال عنہ بدعة۔ (مجموع الفتاویٰ' ج٣' ص ٥٨)
''اللہ کا عرش پر مستوی ہونا معلوم ہے( قرآن میں سات مقامات پر اس کا تذکرہ ہے) لیکن اس کی کیفیت عقل میں نہیں آ سکتی اور اس پر ایمان لانا واجب ہے اور اس کے بارے سوال کرنا بدعت ہے۔''
یعنی اہل سنت اسی پر خاموش ہو جاتے ہیں جو کتاب و سنت نے بیان کر دیا ہے اور اس پر اگر کوئی سوال کرے تو وہ اہل سنت سے خارج ہو کر اہل بدعت میں شامل ہو جاتا ہے' کیونکہ سوال سے کج بحثیوں کا آغاز ہوتا ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ولہ ید و وجہ ونفس کما ذکرہ اللّٰہ تعالی فی القرآن' فما ذکرہ اللّٰہ تعالی فی القرآن من ذکر الوجہ والید والنفس فھو لہ صفات بلا کیف ولا یقال: ان یدہ قدرتہ او نعمتہ لان فیہ ابطال الصفة وھو قول أھل القدر والاعتزال۔ ( الفقہ الاکبر مع شرحہ' ص ٣٠٢)
'' اللہ تعالیٰ کا ہاتھ' چہرہ اور نفس ہے 'جیسا کہ اُس نے اس کا قرآن میں اثبات کیا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے جو قرآن میں اپنے لیے چہرے' ہاتھ اور نفس کا اثبات کیا ہے تو یہ اللہ کی صفات ہیں۔ ان صفات کی کیفیت نہیں بیان کی جائے گی اور نہ ہی یہ کہا جائے گا کہ اللہ کے ہاتھ سے مراد اس کی قدرت یا نعمت ہے' کیونکہ ایسا کہنے سے اللہ کی صفت کا انکار لازم آئے گا اور ایسا تو قدریہ اور معتزلہ کہتے ہیں (یعنی ایسی تاویل کرنا اہل سنت کا منہج نہیں ہے)۔''
٢) عدل
اس اصول کے مطابق معتزلہ کا کہنا یہ ہے کہ انسان اپنے افعال کا فاعل بھی ہے اور خالق بھی' جبکہ اہل سنت یہ کہتے ہیں کہ انسان اپنے فعل کا فاعل تو ہوتا ہے لیکن اس کے فعل کا خالق اللہ کی ذات ہی ہوتی ہے۔ اہل سنت کے عقیدے کے مطابق خیر و شر دونوں کا خالق اللہ کی ذات ہے' جبکہ معتزلہ یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم یہ مان لیں کہ شر کا خالق اللہ کی ذات ہے تو اس سے شر کی نسبت اللہ کی طرف ہو گی جو عقلاً درست نہیں ہے۔

اہل سنت اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ کسی کام کو کرنے کے اعتبار سے فعل کی نسبت فاعل کی طرف ہوتی ہے۔ پس شر کا فاعل انسان ہے لہٰذا اس کی نسبت انسان کی طرف ہو گی' لیکن اس شر کا خالق اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہے۔

اہل سنت اللہ تعالیٰ کے ارادہ کی دو قسمیں بناتے ہیں : ارادہ شرعیہ اور ارادہ کونیہ۔ ارادہ شرعیہ کا تعلق اللہ کے مطالبے سے ہے اور دوسرے الفاظ میں یہی شریعت کہلاتا ہے' جبکہ ارادہ کونیہ کا تعلق اللہ کی تخلیق سے ہے۔ اس کو ایک سادہ سی مثال سے یوں سمجھیں کہ ابلیس شر تو ہے لیکن اس شر کا خالق تو اللہ ہی ہے ۔ یعنی اس کائنات میں ہر ہر چیز کا خالق اللہ کی ذات ہے ۔ یہ اہل سنت کا عقیدہ ہے' جبکہ معتزلہ کے نزدیک انسان اپنے افعال کا خود خالق ہے اور اللہ تعالیٰ انسان کے افعال کا خالق نہیں ہے۔

اہل سنت یہ کہتے ہیں کہ انسان جب کسی فعل کا فاعل بنتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس فعل کی تخلیق فرماتا ہے' مثلاً انسان برائی کرتا ہے تو انسان اس کا فاعل ہے اور اللہ تعالیٰ اس برائی کو وجود بخشتا ہے' لہٰذا اللہ اس کا خالق ہے۔ اگر انسان فاعل بنے اور اللہ خالق نہ بنے تو اس شے کا وجود اس دنیا میں قائم نہیں ہوتا' جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام پر چھری چلا دی اور ان کو ذبح کرنے کے فاعل بن گئے' لیکن اللہ تعالیٰ ان کے اس فعل کے خالق نہ بنے' لہٰذا حضرت ابراہیم کے فعل یعنی ''ذبح ِاسمٰعیل '' کو وجود نہ ملا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
(وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ) (الصافات)
''اللہ نے تمہیں بھی پیداکیا ہے اور تمارے اعمال کو بھی۔''
٣) وعد و وعید
اپنے اس اصول کے تحت معتزلہ نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ پر یہ لازم ہے کہ وہ اپنے وعدے کے مطابق فرمانبردار کو جزا دے اور نافرمان کو سزا دے۔ چنانچہ ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ گناہ کبیرہ کے مرتکب کو معاف کرے۔ یہ بات اللہ کے عدل کے منافی ہے۔ اہل سنت کے نزدیک اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ کسی گناہ گار کو معاف کردے اور اسے سزا نہ دے' چاہے اُس نے توبہ کی ہو یا نہ کی ہو۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآء(النساء:٤٨)
''بے شک اللہ تعالیٰ اس کو کبھی معاف نہ کرے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور اس سے کمتر گناہ جس کے لیے چاہے گا' معاف کر دے گا۔''
٤) منزلة بن المنزلتین
اس اصول کے مطابق معتزلہ کا کہنا یہ ہے کہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ایمان سے نکل جاتا ہے اور کفر میں داخل نہیں ہوتا' لہٰذا نہ تو وہ مؤمن ہے اور نہ ہی کافر ہے' جبکہ آخرت کے اعتبار سے وہ دائمی جہنمی ہے۔ معتزلہ اور خوارج میں اس مسئلے میں فرق یہ ہے کہ خوارج اسے دنیا میں بھی کافر شمار کرتے ہیں اور آخرت میں دائمی جہنمی' جبکہ معتزلہ دنیا میں تو اسے کافر نہیں کہتے لیکن اس کی آخرت کے بارے میں وہی حکم لگاتے ہیں جو کفار کا ہے۔

٥) امر بالمعروف ونہی عن المنکر
اپنے اس قول کے تحت انہوں نے اسلام کی نشرو اشاعت' گمراہوں کی ہدایت اور بھٹکے ہوؤں کی رہنمائی کے لیے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو واجب قرار دیا ہے ۔ اگرچہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر اہل سنت کے نزدیک بھی فرض ہے' لیکن معتزلہ نے نہی عن المنکرکے اعلیٰ ترین یعنی ہاتھ سے منکر کو تبدیل کرنے کے بارے میں غلو سے کام لیا ہے۔ اپنے اس اصول کے تحت انہوں نے ظالم ' فاسق اور حق سے منحرف حکمرانوں کے خلاف خروج کو واجب قرار دیا ہے اور حق سے انحراف سے مراد ان کی یہ ہے کہ جو حکمران ان کے بدعتی افکار کا قائل نہ ہو' وہ بھی حق سے منحرف شمار ہو گا اور اس کے خلاف خروج واجب ہو گا۔ اہل سنت کے نزدیک ظالم اور فاسق حکمران کے خلاف خروج کے بارے میں تفصیل ہے' جسے ہم نے ایک دوسرے مقام پر تفصیل سے واضح کر دیا ہے ۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
عصر حاضر کی تحریک تجدد
معاصر تحریک تجدید کا آغاز انیسویں صدی کے نصف آخر میں ہوا۔ جب اسلام سیاسی طور پر مغلوب ہو گیا اور مسلمان ممالک کی ایک بڑی تعداد انگریزوں اور اہل یورپ کی غلام بن گئی تو مغرب میں جاری احیائے علوم کی مذہب بیزار تحریک کے جراثیم ایک متعدی بیماری کی طرح مقبوضہ مسلمان ممالک میں بھی منتقل ہوئے۔ مسلمان اُمت کا ایک بہت بڑ ا' ذہین اور متحرک طبقہ اس تحریک سے متاثر ہوا اور اس نے دین اسلام کی ایسی ایسی تعبیرات اور تشریحات پیش کیں کہ جنہوں نے اس دین ِتوحید کے عقائد اور بنیادوں کا بیڑا غرق کرکے رکھ دیا اور دین اسلام کا ایک ایسا جدید ایڈیشن تیار کیا جو علمائے یورپ کے توہمات پر تو سو فی صد پورا اترتا تھا لیکن اس میں محمد عربی ۖ کا لایا ہوا اسلام ڈھونڈے سے بھی نہ ملتا تھا۔

مسلمانوں کی غلامی کے اس دور میں جہاں ایک طرف انگریز اور اہل یورپ سے آزادی کے لیے سیاسی' عسکری اور انقلابی اسلامی تحریکوں نے جنم لیا وہاں دوسری طرف یورپ کی جاہلیت جدیدہ سے مرعوب متجددین کے مسخ شدہ تصورات پر نقد اور دین اسلام کی حقیقی و صحیح تصویر کو سامنے لانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے علماء اور اہل علم حضرات کی ایک جماعت کو مسند ارشاد پر سرفراز کیا۔ ذیل میں ہم پچھلی ڈیڑھ صدی میں تجدد پسندی کی اس تحریک کے دین اسلام پرڈالے گئے حجابات کا ایک مختصر جائزہ لیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ ان متجددین کے ہاں اُمت کے متفق علیہ مسلمہ عقائد سے انحراف کے مقامات کو بھی واضح کریں گے۔ ہماری یہ گفتگو مصر' ترکی اور برصغیر پاک و ہند کے متجددین اور ان کے افکار و نظریات تک محدود رہے گی کیونکہ اس دَور میں یہی ممالک اُمت ِمسلمہ کی قیادت کا فریضہ سر انجام دے رہے تھے۔

اس موضوع پر تفصیلی کلام سے پہلے یہ بات واضح رہے کہ اس مضمون میں ہم تین قسم کے لوگوں کے حالاتِ زندگی اور افکار کا تذکرہ کریں گے :
١) وہ حضرات جن کے نظریات اور افکار میں اس قدر فساد و بگاڑ ہے کہ ان پر متجدد کا لفظ صادق آتا ہے۔
٢) وہ اہل ِعلم کہ جن میں بعض فروعی مسائل کے اعتبار سے تو تجددمحسوس ہوتاہے لیکن ان پر مجموعی طور پر لفظ متجدد کا اطلاق صحیح معلوم نہیں ہوتا۔
٣) مزید برآں ان علماء کا بھی ذکر آئے گا جن پر تجدد پسندی کا الزام یا طعن کیا گیا ہے حالانکہ وہ اس الزام اور طعن سے بری ہیں۔


مصر میں جدیدیت کی تحریک
مصر میں جدیدیت کی تحریک کے بارے میں بحث کو ہم چار ذیلی حصوں میں تقسیم کر رہے ہیں:
١) مصلحین امت : جمال الدین افغانی' مفتی محمد عبدہ' رشید رضا وغیرہ
٢) ادباء و شعراء : طہٰ حسین ' توفیق الحکیم وغیرہ
٣) تحریک وسطانیہ : فہمی ہویدی' طارق البشری وغیرہ
٤) شیخ یوسف قرضاوی او ر وہبہ الزحیلی کا مسئلہ
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
سید جمال الدین افغانی

سید جمال الدین افغانی ١٨٣٨ء میں پیدا ہوئے اور ٩ مارچ ١٨٩٧ء میں ان کی وفات ہوئی۔ وہ سید جمال الدین افغانی یا سید جمال الدین اسد آبادی کے نام سے معروف تھے۔ ان کی نسبت میں تذکرہ نگاروں کا بہت زیادہ اختلاف ہے۔ ان کو جمال الدین استنبولی' جمال الدین اسدآبادی' جمال الدین حسینی' جمال الدین افغانی ' جمال الدین طوسی اور جمال الدین رومی وغیرہ جیسی نسبتوں سے منسوب کیا گیا ہے۔ بعض تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ سید جمال الدین جس ملک یا شہر کا سفر کرتے تھے ' وہاں قیام کے دوران اسی علاقے کی طرف اپنی نسبت کر لیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی اس قدر نسبتیں منقول ہیں۔ سید جمال الدین افغانی کی یہ بھی عادت تھی کہ جس علاقے میں بھی جاتے' وہاں کے علماء کی وضع قطع اختیار کر لیتے۔ مثلاً ایران میں اپنے قیام کے دوران وہ شیعہ علماء کی مناسبت سے کالا عمامہ باندھتے تھے' ترکی اور مصر میں سفید عمامہ پہنتے' یورپ میں بعض اوقات صرف ٹوپی اور حجاز میں عربی عقال باندھتے تھے۔

ان کی جائے پیدائش کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض تذکرہ نگاروں کے نزدیک وہ ایران میں 'ہمدان' کے قریب ایک مقام 'اسد آباد' میں پیدا ہوئے' جبکہ کچھ دوسرے مؤرخین کا کہنا ہے کہ ان کی جائے پیدائش افغانستان کا صوبہ'کنڑ' ہے اور اس صوبے میں 'اسعد آباد' نامی جگہ پر ان کی پیدا ئش ہوئی۔ ان دونوں موقفات میں سے حقائق سے قریب تر بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ ان کی جائے پیدائش ایران ہے اور انہوں نے ایک شیعہ کے طور پر اپنا بچپن گزارا۔ ان کے والد سید صفدر حسینی سادات میں سے تھے اور ان کا نسب نامہ عمر بن علی زین العابدین بن الحسین بن علی بن ابی طالب تک جا پہنچتا ہے۔ بعض تذکرہ نگاروں کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایرانی بادشاہ 'ناصر الدین شاہ' کے عتاب اور اثر سے بچنے کے لیے اپنے آپ کو افغانی اور سنی مسلم کے طور پر متعارف کروایا۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
جمال الدین افغانی کا مسلک
انہوں نے ابتدائی تعلیم ایران کے شہر 'قزوین' میں حاصل کی۔ پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے تہران اور اس کے بعد عراق کا سفر کیا۔ ان کے مشائخ میں اکثر و بیشتر شیعہ علماء شامل ہیں' مثلاً آغان خان صادق ' شیخ مرتضیٰ' قاضی بشر' حافظ دراز اور حبیب اللہ قندھاری وغیرہ۔ ڈاکٹر عبدالنعیم محمد حسنین نے 'جمال الدین أسد أباذی' نامی کتاب کے مقدمہ میں سید جمال الدین افغانی کو 'متعصب اثنا عشری شیعہ' قرار دیا ہے اور اس کے بارے میں کئی ایک حقائق اورقرائن نقل کیے ہیں ۔ شیخ عبد اللہ عزام نے اپنی کتاب 'القومیة العربیة' میں سید جمال الدین افغانی پر 'اثنا عشری شیعہ' ہونے کا الزام لگایا ہے ۔ شیخ محمد حسین نے تو ان کے شیعہ ہونے پر متعدد دلائل بھی نقل کیے ہیں۔ ڈاکٹر سفر الحوالی نے بھی انہیں شیعہ قرار دیا ہے۔

ڈاکٹر محمد عمارہ نے اپنی کتاب 'جمال الدین الافغانی موقظ الشرق وفیلسوف الاسلام' میں ان کے شیعہ ہونے کا انکار کیا ہے اور اس کے دلائل بھی نقل کیے ہیں۔ 'روم' میں ایران کے سفیر سید ہادی خسرو شاہی نے بھی اپنی کتاب 'الآثار الکاملة للافغانی' میں ان کے شیعہ ہونے کا انکار کیا ہے۔ شیخ رشید رضانے بھی اپنی کتاب 'تاریخ الٔاستاذ الامام' میں لکھا ہے کہ ان کے استاذ مفتی محمد عبدہ کی رائے اہل تشیع کے بارے میں امام ابن تیمیہ سے بھی سخت تھی اور مفتی محمد عبدہ اپنے استاذ سید جمال الدین افغانی سے حد درجے محبت رکھتے تھے' لہٰذا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جمال الدین افغانی شیعہ نہ تھے۔ سید جمال الدین افغانی نے اپنی کتاب 'خاطرات' میں اپنے آپ کو حنفی سنی مذہب کا پیروکار' جو صوفیت کی طرف مائل ہے' بتلایا ہے۔ ڈاکٹر محسن عبد الحمید نے بھی اپنی کتاب 'جمال الدین الافغانی المصلح المفتری علیہ' میں انہیں سنی حنفی مذہب کا متبع قرار دیا ہے۔

سیاسی زندگی
جنگ آزادی کا سال یعنی ١٨٥٧ء جمال الدین افغانی نے دہلی میں گزارا اور حج کی ادائیگی کے بعد ١٨٥٨ء میں افغانستان منتقل ہو گئے۔ وہاں وہ افغانی بادشاہ دوست محمد خان کے مشیر خاص بن گئے اور اس کے بعد اگلے حکمران محمد اعظم کے بھی مشیر رہے۔ انہوں نے افغانی حکمران دوست محمد خان کو برطانیہ کی نسبت روس سے تعلقات قائم کرنے کا مشورہ دیا جس کی وجہ سے برطانوی حکومت ان کے خلاف ہوگئی اور ان کو روسی جاسوس قرار دیا۔ ١٨٦٨ء میں کابل پرشیر علی خان کے قبضے کے بعد سید جمال الدین کو افغانستان چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا۔ ١٨٧١ء میں انہوں نے مصر کا رخ کیا اور سیاسی اصلاح کا نظریہ عام کرنا شروع کر دیا۔

انہوں نے نوجوانوں کی ایک خاصی بڑی تعداد کو اپنے افکار و نظریات سے متاثر کیاجن میں سے نمایاں نام مفتی محمد عبدہ کا ہے۔ ان پر شدت پسندی کا الزام لگا کر انہیں ١٨٧٩ء میں مصر سے نکال دیا گیا۔ اس کے بعد انہوں نے استنبول' لندن' پیرس' ماسکو' سینٹ پیٹر برگ اور میونخ وغیرہ کا سفر کیا۔١٨٨٤ء میں انہوں نے پیرس میں 'عروة الوثقٰی' کے نام سے ایک عربی اخبارکا اجراکیا۔

سید جمال الدین افغانی کی جملہ تقاریر اور تحریروں کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی دعوت درج ذیل چار نکات کے گرد گھومتی تھی اور یہی نکات ان کی دعوت کا مرکز و محورتھے :
اسلامی ممالک پر مغربی تسلط و غلبے پر تنقید
مسلمان ممالک کے باہمی اتحاد و اتفاق کی تحریک
مسلمانوں میں جدید مغربی سائنسی علوم کے حصول کی رغبت پیدا کرنا
ایک ایسے ادراے کے قیام کی کوشش جو اسلام کوایک مضبوط طاقت بنا دے


جمال الدین افغانی کے ہاں ایسے افکار نہیں ملتے جس سے یہ محسوس ہوتا ہو کہ وہ اسلامی ممالک میں جمہوری سیاسی نظام یا پارلیمانی نظام کے قیام کے داعی ہوں' بلکہ ان کی اصل نقد اپنے دور کے مسلمان حکمرانوں پر تھی جنہیں وہ مغرب کے نمائندے قرار دیتے تھے۔
جمال الدین افغانی کی کوششیں مغرب کے پیروکار مقامی مسلمان حکمرانوں کو ہٹانے اور ان کی جگہ قوم پرست اور محب وطن مسلمان امراء کو حکومت دلوانے کے لیے تھیں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
افکار و نظریات

احمد امین مصری کے بقول' جیسا کہ انہوں نے اپنی کتاب 'زعماء الصلاح فی العصر الحدیث' میں واضح کیا ہے' سید جما ل الدین افغانی پر اس وجہ سے الحاد کا فتویٰ لگایا گیا کہ انہوں نے نبوت کو ایک کسبی چیز قرار دیا تھا۔ ترکی کے شیخ الاسلام حسن افندی فہمی نے ان کے تصورِ نبوت پر کڑی تنقید کی اور ائمہ مساجد اور واعظین کو یہ ہدایت جاری فرمائی کہ وہ ان کے خلاف اس قدر بولیں کہ انہیں ترکی چھوڑنے پر مجبور کر دیں۔ بالآخر ترکی سے انہوں نے مصر کا رُخ کیا۔ مصر میں بھی شیخ محمد علیش نے ان پر ان کے تصوراتِ نبوت کی وجہ سے الحاد کا فتوی لگایا۔

سید جمال الدین افغانی کے ایک عیسائی شاگرد سلیم عنجوری نے اپنی کتاب 'سحر ھاروت' میں لکھا ہے کہ جمال الدین افغانی عالم کے قدیم ہونے اور محرک ِاوّل کے وجود وغیرہ جیسی فلسفیانہ الحادی تعبیرات کے قائل تھے۔ مفتی محمد عبدہ کے شاگرد شیخ رشید رضا کے بیان کے مطابق' جیسا کہ انہوں نے اپنی کتاب 'تاریخ الأستاذ الامام' میں بیان کیا ہے' جمال الدین افغانی نظریہ وحدت الوجود کی طرف مائل تھے اور اس مسئلے میں ان کا کلام صوفیاء کے باطنی فرقے سے ملتا جلتا ہے۔

جمال الدین افغانی کے ایک شاگرد ادیب اسحاق کا کہنا بھی یہی ہے کہ شروع زندگی میں جمال الدین افغانی تصوف اور صوفیت کی طرف مائل تھے اور خلوت کے ذریعے حقیقت کا ادراک کرنے کی کوشش کرتے تھے' لیکن آخر عمر میں وہ فلسفے اور عقل کی طرف زیادہ مائل ہو گئے تھے۔ جمال الدین افغانی کے ایک اور شاگرد سلیم صحوری نے بیان کیا ہے کہ جمال الدین افغانی نے ہندوستان میں اپنے قیام کے دوران ہندو برہمن علماء سے استفادہ کیا اور سنسکرت میں کمال حاصل کر لیا۔ شاید انہی برہمن علماء کے زیر اثر انہوں نے اس عالم کے قدیم ہونے کا قول اختیار کیا۔

سید جمال الدین افغانی کا خیال تھا کہ اسلا م کے جملہ عقائد و نظریات عقل سلیم کے مطابق ہیں اور انہوں نے ١٨٨١ء میں دہریت کے رد پر ایک کتاب 'الردّ علی الدہریین' یعنی Refutation of the Materialists کے نام سے شائع کی۔ابتدا میں وہ ارتقاء کے نظریے کے خلاف تھے اور انہوں نے ڈارونزم کا سختی سے رد کیا، لیکن بعد میں جانوروں میں تو نظریہ ارتقاء کے قائل ہو گئے' لیکن انسانوں میں ان کے ذی روح ہونے کی وجہ سے قائل نہ تھے۔

جمال الدین افغانی سماوی ادیان میں مودّت و محبت اور بحث و مباحثہ کے علمبردار تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے قریبی معاونین اور شاگردوں میں مسلمانوں کے علاوہ یہودی اور عیسائی بھی ہیں' جیسا کہ یعقوب صنوع یہودی' ابو نظارہ اور سلیم عنجوری نصرانی وغیرہ۔ اسی تقریب بین الادیان کی خواہش کے پیش نظر وہ عالمی ماسونی تحریک کے بھی ایک عرصے تک رکن رہے۔ سید جمال الدین افغانی شیعہ سنی اتحاد کے بھی داعی تھے اور اسے وقت کی ایک اہم ضرورت سمجھتے تھے۔

شیخ رشید رضا نے اپنے کتاب 'تاریخ الأستاذ الامام' میں لکھا ہے کہ سید جمال الدین افغانی تھوڑی بہت شراب بھی پی لیا کرتے تھے۔ شاید وہ بعض ہم عصر سکالرز کی طرح اس بات کے نظریاتی طور پر قائل ہوں کہ جتنی شراب سے نشہ نہ ہو' ا س کے پی لینے میں کوئی حرج نہیں یا شاید وہ شراب کی کوئی ہلکی قسم ہو جس سے نشہ نہ ہوتا ہو۔ اگر تو یہ ان کی ایک عملی کوتاہی تھی تو پھر تو اس کا تذکرہ مناسب معلوم نہیں ہوتا لیکن اگر وہ اس کو شرعاً جائز سمجھتے تھے تو یہ ایک گمراہی ہے جس پر شدید نکیر کی ضرورت ہے۔ ہم نے یہاں اس کا تذکرہ اس لیے کیا ہے کہ سید جمال الدین افغانی پر لکھی گئی کتب میں ان کے اس فعل کا تذکر ہ ہے جس کی وضاحت ضروری ہے۔ ان کے شاگردادیب اسحاق نے لکھا ہے کہ وہ کثرت سے تمباکو نوشی بھی کرتے تھے۔ واللہ اعلم بالصواب!

سید جمال الدین افغانی ایک سیاسی آدمی تھے اور انہوں نے در حقیقت سیاسی زندگی ہی گزاری ہے اور اپنی زندگی میں سوائے چند ایک مضامین یا لیکچرز کے ان کا کوئی علمی کام ہمیں نہیں ملتا۔ ان کے لیکچر زبھی اکثر و بیشتر سیاسی' دعوتی اور فکری نوعیت کے ہوتے تھے۔ انہوں نے قرآن کی چند ایک آیات کی تفسیر بھی کی ہے۔ ان کی بعض آیات کی تفسیر سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ قرآن کی تفسیر میں جدیدیت کی طرف مائل تھے۔ اگرچہ اس بارے میں ان کی کوئی لمبی چوڑی تحریر تو ہمیں نہیں ملتی لیکن ان کے تفسیری کلام میں ایسے اشارے موجود ہیں کہ وہ قرآن کی سائنسی تعبیر و تشریح کی طرف رجحان رکھتے تھے۔ ڈاکٹر فہد بن عبد الرحمن سلیمان رومی نے اپنی کتاب'منھج المدرسة العقلیة الحدیثیة فی التفسیر' میں ان کا تفسیری کلام اور اس پر نقد نقل کی ہے۔

وفات
٩ مارچ ١٨٩٧ء میں ان کی استنبول میں وفات ہوئی اور وہیں ان کی تدفین ہوئی۔ ١٩٤٤ء میں افغان حکومت کی درخواست پر ان کی بچی کھچی اشیاء کابل یونیورسٹی میں منتقل کر دی گئیں جہاں ان کے لیے ایک مقبرہ بھی تعمیر کیا گیا ۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
خلاصہ ٔکلام
سید جمال الدین افغانی کے بارے میں لکھی گئی کتب اور مقالات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے بارے میں مثبت اور منفی دونوں قسم کی آراء موجود ہیں۔ ان کے دفاع میں بھی علماء کی کتب موجود ہیں اور ان کے خلاف بھی۔ چند ایک کتابوں کاتعارف ہم نے آخر میں مصادر و مراجع کے عنوان کے تحت نقل کر دیا ہے۔ سید جمال الدین افغانی کے شاگرد مفتی محمد عبدہ نے لکھا ہے کہ ان کی زندگی میں ہی ان کے بارے میں علماء دوحصوں میں منقسم ہو چکے تھے۔ مفتی محمد عبدہ کے بقول ان کی زندگی میں ہی بہت سے علماء نے ان پر یہ الزام لگایا کہ وہ مسلمان ممالک میں 'جابر عادل' حکمران کی حکمرانی کے داعی ہیں۔ جب سید جمال الدین افغانی سے مفتی محمد عبدہ نے اس بارے وضاحت چاہی تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ مجھ پر الزام ہے کہ میں اس فکر کا داعی ہوں اور یہ تو دو متضاد صفات ہیں' میں ان کا داعی کیسے ہو سکتا ہوں؟

بہرحال جمال الدین افغانی پر لکھی گئی کتب اور مقالات کا مطالعہ کرنے کے بعد ایک شخص اس نتیجے تک بآسانی پہنچ سکتا ہے کہ صوفیت جو موسیقی اور رقص و سرود کو قوالی کے نام پر جائز قرار دیتی ہو وحدت الوجود اور اسلام کی عقلی تعبیر ان کی فکر میں نمایاں تھی اور وہ اس کے داعی بھی تھے۔ اس کا اثبات ان کی اپنی تحریروں اور ان کے شاگردوں کے بیانات سے بھی ہوتا ہے ۔ ان کی فکر کے انہی گوشوں کی وجہ سے عرب سلفی علماء ان پر شدید نقد کرتے ہیں۔ ہمیں بھی ان سلفی علماء کی تنقید سے اتفاق ہے۔

جہاں تک ان کے شیعہ ہونے کا معاملہ ہے تو اس کے دلائل تو قوی ہیں کہ وہ شیعہ خاندان میں پیدا ہوئے اور انہوں نے شیعہ اساتذہ سے پڑھا لیکن کیا اس کے بعد انہوں نے اپنامذہب تبدیل کر لیا تھا؟ اس بارے میں اختلاف ہے۔ سلفی اور بعض حنفی علماء کا کہنا ہے کہ وہ تقیہ کرتے تھے اور اپنے آپ کو حنفی مذہب کا پیروکار کہلواتے تھے جبکہ حنفیہ کی اکثریت کا کہنا یہ ہے کہ وہ حنفی مذہب کے پیروکار تھے۔ اہل تشیع میں سے بعض ان کو شیعہ اور بعض حنفی کہتے ہیں۔ بہر حال اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ وہ شیعہ سنی اتحاد کے خواہاں تھے۔ ہمارے نزدیک اس مسئلے میں ان کی اپنی وضاحت معتبر ہے اور اسلام ظاہر کا ہی اعتبار کرتا ہے' باطن کا معاملہ تو اللہ کے پاس ہے۔

سگریٹ نوشی ان کی عادتِ ثانیہ تھی' جو ایک قبیح عادت تصور کی جاتی ہے۔ اگرچہ اس میں حنفیہ کے بقول نشہ کا پہلو غالب نہ بھی ہو لیکن اسراف و تبذیر اور ہلاکت ِنفس دونوں ہی شامل ہیں' یعنی دوسرے الفاظ میں سگریٹ نوشی اپنے ہی مال و جان کو آگ لگانے کے مترادف ہے اور یہ حرام ہے 'اور انہی بنیادوں پر سعودی علماء نے اسے حرام قرار دیا ہے۔

نبوت کے کسبی ہونے یا جانوروں میں ارتقاء یا فنونِ لطیفہ کے جائز ہونے یا قرآن کے بعض مقامات کی تفسیر میں سائنسی ایجادات کے حوالے دینے وغیرہ جیسے تصورات ان کے بعض لیکچرز میں موجود ہیں اور ان افکار کی وجہ سے ان پر معاصر علماء کی طرف سے نقد بھی ہوئی ہے' لیکن اس بارے میں یہ معلوم نہ ہو سکا کہ انہوں نے اپنے ان نظریات سے رجوع کر لیا تھا یا وہ ان پر قائم تھے۔ بہر حال یہ ان کے ایسے تصورات ہیں جو باطل تو ہیں ہی' البتہ انہیں جدیدیت کے اثرات میں بھی شمار کیا جا سکتا ہے 'کیونکہ ان کا براہِ راست تعلق سائنس اور مغربی تہذیب سے جڑتا ہے۔

ان کی زندگی کا سیاسی پہلو جو انہوں نے مغربی تسلط اور ان کے نمائندہ مسلمان حکمرانوں سے آزادی کے لیے گزارا ہے اور اس کے لیے جو کوششیں کی ہیں' لائق ِتحسین ہیں۔ در حقیقت ان کی اصل زندگی سیاسی ہی تھی اور سیاست کی اصلاح ہی کو وہ مسلمانوں کی اصلاح کا ذریعہ سمجھتے تھے' جبکہ اس مسئلے میں ان کے شاگرد مفتی محمد عبدہ کو ان کی فکر سے اختلاف تھا۔ وہ بھی مسلمانوں کی اصلاح کے خواہاں تھے لیکن وہ تعلیم کو اصلاح کا اصل ذریعہ سمجھتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے اپنی زندگی سیاسی کی بجائے تعلیمی میدان میں گزاری۔

بحیثیت مجموعی سید جمال الدین افغانی عالم ا سلام کی سیاسی اصلاح و فلاح کے لیے ایک مصلح کے طور پر کام کرتے رہے اور ان کی مثال ہمارے نزدیک ایسی ہی ہے جیسا کہ برصغیر پاک و ہند میں علامہ اقبال مرحوم کی ہے۔ اقبال مرحوم بلاشبہ ایک مفکر اُمت مسلمہ کا درد رکھنے والے اور مصلح تھے' لیکن ان کے بعض نظریات اور افکار اُمت ِمسلمہ کے متفق علیہ مسلمہ عقائد کے منافی تھے۔ یہی معاملہ سید جمال الدین افغانی کا بھی ہے۔ ایسے مصلحین کی ذات اور صفات کو رگیدنے کی بجائے ان کے بدعتی نظریات کا علمی جائزہ لینا چاہیے۔ اس لیے ہمیں ان بعض سلفی علماء سے اتفاق نہیں ہے جو سید جمال الدین افغانی کو رافضی' خبیث یا انگریز کا ایجنٹ وغیرہ جیسے القابات سے نوازتے ہیں۔ ہاں' اس بات کے ہم ضرور قائل ہیں کہ جمال الدین افغانی کے عقائد اور نظریات میں بگاڑ اور فساد موجود ہے جس کا پرزور رد ہونا چاہیے' چہ جائیکہ ہم ان کی نیتوں کا فیصلہ کرتے ہوئے انہیں رافضی یا یہود کا ایجنٹ قرار دیں۔ واللہ اعلم بالصواب !
(جاری ہے)
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
مصادر و مراجع:
٭ جمال الدین أسد آبادی' مرزا لطف اللہ خان أسد آبادی' تعلیق و تقدیم' ڈاکٹر عبدالنعیم محمد حسین' دار الکتاب اللبنانی' بیروت، ۱۹۷۳ء۔
٭ جمال الدین الأفغانی' ذکریات و أحادیث' عبد القادر مغربی' دا ر المعارف' مصر۔
٭ جمال الدین الأفغانی المصلح المفتری علیہ' ڈاکٹر محسن عبد الحمید' مؤسسة الرسالة' بیروت۔
٭ جمال الدین الأفغانی والثورة الشاملة ' سید یوسف' الھیئة المصریة العامة للکتاب' قاہرہ' ١٩٩٩ء۔
٭ جمال الدین الأفغانی' محمود أبو ریة' دار المعارف۔
٭ جمال الدین الأفغانی' عبد الرحمن رافعی' دار الکاتب العربی۔
٭ جمال الدین الأفغانی موقظ الشرق وفیلسوف الاسلام' ڈاکٹر محمد عمارة' دارالشروق' قاہرہ۔
٭ خاطرات جمال الدین أفغانی' محمد المخزومی' دار الفکر الحدیث' لبنان۔
٭ منھج المدرسة العقلیة الحدیثہ فی التفسیر' فھد بن عبد الرحمن بن سلیمان الرومی' دارات البحوث العلمیة والفتاء والدعوة والرشاد' الریاض۔
٭ زعماء الصلاح فی العصر الحدیث ' أحمد امین' مکتبة النھضة المصریة' قاہرة' ١٩٤٨ء۔
٭ الموسوعة المیسرة فی الأدیان و المذاھب و الأحزاب المعاصرة' الندوة العالمیة للشباب السلامی۔
٭المعجم الوسیط' جماعة من علماء مصر۔
٭ http://www.saaid.net/Doat/Zugail/291.htm
٭ Jamal-al-Din al-Afghani - Wikipedia, the free encyclopedia
٭ من هو جمال الدين الأفغاني؟ وما هي حقيقة دعوته وعـقـيـــدتــه - شبكة أنا المسلم للحوار الإسلامي
٭ وثيقة خطيرة : طلب انتساب جمال الدين الأفغاني للمحافل الماسونية - شبكة أنا المسلم للحوار الإسلامي
٭ ‫بالأدله والبرهان...جمال الدين الأفغاني الرافضي الماسوني | Facebook‬
٭ ويكيبيديا، الموسوعة الحرة
٭ http://www.islamonline.net/arabic/history/1422/12/article20.shtml
٭ http://yakout.ektob.com/1930.html
٭٭٭٭٭٭٭
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top