• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تحفظِ قراء ات اور مجلہ ’رشد ‘

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تحفظِ قراء ات اور مجلہ ’رشد ‘

اداریہ​
قرآنِ کریم اللہ تعالیٰ کی کلام اور نبی کریمﷺ کا زندئہ جاوید معجزہ ہے۔قرآنِ کریم کے ہر لفظ و ترکیب میں اگر معانی کا جہاں پوشیدہ ہے، تواس کے پرجلال اَندازِ بیان نے بہت سے بھٹکے لوگوں کو راہِ حق کی ہدایت دی ہے، جن میں سیدنا عمر بن خطاب، جبیر بن مطعم اور بہت سے دیگر صحابہ کرام﷢کے نام لئے جاسکتے ہیں۔
اس دور میں قرآنِ مجید کے اعجاز کے اگر بہت سے پہلو نمایاں ہورہے ہیں تو اس کی ایک اہمیت اور خوبی تو سرچڑھ کر آشکارا ہورہی ہے اور وہ ہے: اجنبیت وغربتِ اسلام کے اس دور میں اسلام کی بقا اور اس کا وجود قرآن کی بدولت قائم ودائم ہے۔ غیرمسلم اسلام کے خلاف نت نئے حملے کررہے ہیں اور ملتِ اسلامیہ عرصۂ دراز سے ان کی جارحانہ بربریت کا شکار ہے، لیکن اگر ملتِ بیضا کے فرزند کفر کے مقابلے میں جم کر کھڑے ہیں اور میدانِ جہاد میں دشمنوں کو پے درپے شکست دے رہے ہیں، تو اس کی وجہ ان مجاہدین کے پاس قرآن کی شکل میں اللہ تعالیٰ کے وعدوں کا یوں محفوظ ہونا ہے جس کے ایک ایک لفظ کے منزل من اللہ ہونے میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔
تہذیب و ثقافت کے میدان میں اسلام کا حلیہ مسخ کیا جاتا ہے تو قرآنِ حکیم کی آیاتِ بینات کے ذریعے ہر حیلہ جو کے مکروفریب کا فسوں آخر کار بکھر کر رہ جاتا ہے۔ فکر و نظریہ کے میدان میں آئے روز اسلام پر تحریف وتاویل کے وار کئے جاتے ہیں، لیکن کچھ عرصہ کے بعد ہی ان کا زور ٹوٹ کررہ جاتا ہے۔ قرآنِ کریم کے منزل من اللہ اور آخری الہامی کتاب ہونے کے ناطے اس پر عمل کرنے والا ہر انسان اپنے اندر خاص ایمانی جذبہ، روحانی قوت اور الٰہی تائید محسوس کرتا ہے۔ اس ایمان ویقین اور علم و نظریہ کا دُنیا کے کسی بھی جابر وقاہر حکمران کے پاس کوئی توڑ موجود نہیں ہے!
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قرآنِ کریم اسلام کا مرکز و محور ہے۔ یہ بجا کہ واقعاتی طور پر قرآن مجید ہمیں ذاتِ اقدسﷺکے ذریعے ملا ہے، اور ان پر ایمانِ کامل ہو، تب ہی قرآنِ مجید تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ لیکن فی زمانہ مسلمان قرآن کے مطالعے سے ہی مقامِ رسالتﷺ کا شعور اور اتباعِ سنت کا جذبہ مستحکم کرتے ہیں۔ آیاتِ کریمہ نے ہی اتباعِ سنت کی اہمیت کو ہر مسلم کے دل میں جاگزیں کیا ہے۔ قرآنِ مجید ہی کے سہارے حدیث وسنت کی اتباع کا جذبہ اُمتِ مسلمہ میں کسی لمحے سرد نہیں پڑتا۔ جب تک قرآنِ کریم محفوظ ومامون شکل میں موجود ہے، اس وقت تک ملتِ اسلامیہ کے علمی وروحانی وجود کو ہزار زخم لگائے جائیں، یہ ملت پھر اپنے مرکزِ قرآنی سے تائید پا کر احیا کی صلاحیت اپنے اندر رکھتی ہے۔ اَدیان وملل کے اس مقابلے میں قرآنِ کریم کو دیگر اَقوام پر یہ ایسی نمایاں فوقیت حاصل ہے جس کا خراج اس کے مقابل آنے والی ہر قوم کو اَدا کرنا پڑ رہا ہے۔
منعم حقیقی اللہ جل جلالہٗ نے قرآنِ کریم کی حفاظت کی ذمہ داری لے کر ملتِ اسلامیہ پر ایک لازوال احسان کیا ہے۔ اس عظیم ذمہ داری کی تکمیل کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایسے نفوسِ قدسیہ تخلیق کئے، جن کی زندگیوں کا مقصد ہی حفاظتِ قرآن ٹھہرا۔ کتنے مبارک ہیں یہ لوگ جن کے حصے اللہ تعالیٰ کی اس عظیم ذمہ داری کی تکمیل کی سعادت آئی ہے، اسی لئے روزِ قیامت قرآن کے ایسے ہر محافظ کو اللہ تعالیٰ ’قرآن پڑھتا جا اورجنت کے درجے چڑھتا جا‘ کی نویدسناکر بہترین جزا دیں گے۔ (جامع الترمذي: ۲۸۳۸)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قرآن ایمان واعتقاد کا خزینہ اورعلوم ومعارف کا گنجینہ ہے۔ نوعِ انسانی کو درپیش ہرمسئلے کی اس میں براہِ راست رہنمائی نہیں تو اشارہ وکنایہ بہر طور پایا جاتا ہے جس سے سربستہ اَسرار ورموز کی گرہیں کھل جاتی ہیں۔ یہ سائنس کی کتاب نہیں بلکہ اس کا موضوع انسان کا تصور و مقصدِ حیات ہے لیکن اس میں اس نوعیت کے دعوے جا بجا موجود ہے جن کے اِنکشاف سے اہل سائنس انگشت بہ دندان اور محوِ حیرت ہیں۔سالہا سال کی تحقیق کے بعد جس سائنسی نکتے کی عقدہ کشائی کی جاتی ہے، وہ بسا اوقات بڑے مختصر اور جامع انداز میں قرآن کے الفاظ میں موجود ہوتا ہے۔ دراصل اس نکتہ کی تفصیلات میسر آجانے کے بعد قرآنِ کریم کے اس اندازِ بیان کی حقیقت اور گہرائی کا شعور انسان کو ہونا ممکن ہوجاتا ہے۔
قرآن کی عظیم الشان اہمیت کے پیش نظر اس سے متعلق ہر علم کی شان وعظمت دیگر علوم سے بالا تر ہوجاتی ہے۔یوں توقرآنِ حکیم کے ہرپہلو سے علوم کے سوتے پھوٹتے ہیں جو اپنی وسعت واِفادیت کے پیش نظر آگے چل کر دریا اور سمندر کا روپ دھار لیتے ہیں لیکن ایسے علوم جن کا تعلق براہِ راست قرآن کریم کے متن سے ہے، ان کی شان وعظمت اس اعتبار سے زیادہ اہم ہے کہ یہ ان مبارک الفاظ کی حفاظت ہے جنہیں اللہ جل جلالہٗ نے خود اَدا فرمایا، اور یہ الفاظ و تراکیب ان بے شمار مبارک ومقدس معانی کے لئے مَظروف کا کام دیتے ہیں جن سے انسانیت کی ہدایت وابستہ ہے۔ یاد رہے کہ قرآن مجید کے الفاظِ مبارکہ میں اللہ کی صفتِ تکلم کا اِظہاراس کو جہاں ایک قہروجبروت والے خالق کا جاہ وجلال عطا کرتا ہے، وہاں اس کو اللہ کی تمام مخلوقات بشمول انبیاعلیہم السلام پر برتری بھی عطا کرتا ہے۔ اس اعتبار سے الفاظِ قرآن سے متعلقہ علوم کی اہمیت ومعنویت بھی دیگر علوم سے بالا تر ہوجاتی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قرآن کے تلفظ واَدا کا علم نہ صرف اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے جبریل روح الامین کے توسط سے نبی آخر الزمان محمدﷺکو عطا ہوا ہے،اور لسانِ نبوت سے اُمتِ محمدیہ کو منتقل ہوا بلکہ الفاظ کے ساتھ اس کے علم الاداء کی حفاظت کی ذمہ داری بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لی ہے جیسا کہ ’’اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْئَانَہٗ‘‘ (القیامۃ: ۱۷)کی آیتِ کریمہ سے حفاظتِ قرآن اور تلفظِ قرآن کی الٰہی ذمہ داری کا بہ صراحت علم ہوتا ہے۔ تلفظ واَدا کے اس اُسلوب و انداز کو، جومنزل من اللہ ہے، مسلمانوں نے باضابطہ طورپر’علم تجوید وقراء ات‘ کا نام دے کر متعدد اُصول و قوانین کی شکل میں محفوظ ومدوّن کر دیا ہے۔
ملتِ اسلامیہ کے زوال کے اس دور میں دیگر علومِ اسلامیہ کی طرح مغربی فکر وفلسفہ نے قرآنی الفاظ و تلفظ کے اس علم کی حقانیت کو بھی معرضِ شک وشبہ میں لانے کی بھرپور کوششیں کیں۔ آج ہمیں مسلم معاشروں میں دین پر نت نئے اعتراضات اور اسلامی علمیت کے بارے میں نت نئے انکشافات آئے روز سننے کوملتے ہیں، اگر ان گمراہ افکار کا تعاقب کیا جائے تو یہ دراصل مغرب کی تحریکِ استشراق کے برگ وبار اوراُنہی غیرمسلموں کے پیدا کردہ شبہات ہوتے ہیں جنہیں ہمارے ہاں ان کے فکر ی جانشین اور خوشہ چین غیروں سے لے کر دُہرا دیتے ہیں۔ اہل مغرب کے ان پھینکے ہوئے نوالوں کو ہمارے نام نہاد ’فرزندانِ اسلام‘ دوبارہ چبا کر اپنی علم دانی اور نکتہ رسی کا رعب جھاڑتے ہوئے اسلام پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ نا معلوم اس وقت خود ایسے معترضین کس مقام پر کھڑے ہوتے ہیں جب وہ قرآن، حدیثِ نبویہﷺ ، ائمہ اسلاف﷭ اور اپنی مستند تاریخ کے خلاف اپنے دشمنوں کی زبان بول کر ان کو تقویت بخش رہے ہوتے ہیں۔ فی زمانہ انکارِ حدیث، انکار قراء ات اوراسلام کے مایہ ناز سیاسی وقانونی اور معاشی ومعاشرتی تصورات پر ہمہ نوعیتی اعتراضات کے ڈانڈے اسی مغربی فکر سے برآمد ہوئے ہیں، جنہیں اپنی محدود دنیوی کامیابی پر ناز، اور اپنی فسادہ زدہ علمیت پر گھمنڈ وغرور ہے۔ خلاقِ عالم سے انحراف واِنکار کے بعد اس کی عطا کردہ صلاحیتوں ا ور وسائل سے استفادہ نے ان کے غروروتکبر کو دو چند کردیا ہے!! بطورِ مثال
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ اجناس گولڈ زیہر
٭ آرتھر جیفری وغیرہ
عالم مغرب میں مستشرقین اور برصغیر پاک وہند میں ان کے خوشہ چین، جنہوں نے اِس سے قبل حدیث وسنت کی اہمیت وحجیت سے اِعراض کا رویہ اپنایا اور اس میں نت نئے مغالَطوں اور شبہات کو جگہ دی، پھرقرآنِ کریم کی طرف متوجہ ہوئے اور اس کے اصل الفاظ میں شبہات ڈھونڈنے شروع کردئیے حتیٰ کہ قرآن کے معجزالفاظ کو بھی تشکیک کا نشانہ بنایا گیا۔ مسلمانوں کی اسلام اور علومِ اسلامیہ سے غفلت کے نتیجے میں قرآنِ کریم کے بارے میں اتفاقی واجماعی اُمورکو شک وشبہ کی نظر سے پیش کیا جانے لگا۔ پھر اُنہوں نے قرآنِ کریم کے متعدد اور متفقہ واجماعی اسالیبِ تلاوت (قراء ات) کی نفی کرکے چودہ صدیوں اور دورِحاضر کے ملتِ اسلامیہ کے اجماعی تعامل کو حرفِ غلط کی طرح مٹانے کی کوششیں شروع کردیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
یاد رہے کہ قرآنِ کریم کی ان متنوع قراء ات کا انکار کرنے والے لوگ وہی ہیں جو مغربی علم وفلسفہ سے مرعوب اور حدیث وسنت میں تشکیک پیدا کرنے کی ’مخدوش علمی روایت‘ کے حامل وقائل ہیں۔ مسلمانوں میں جن لوگوں نے انکار یا استخفافِ حدیث کا رویہ اپنایا، ا س کے ’ثمرہ‘ کے طورپر آج وہ قرآنِ مجید کی قراء ات کے انکار کے ذریعے اس کے اہم حصہ کے منکر بھی ہورہے ہیں۔ دراصل یہ وہ لوگ ہیں جنہیں روایت کے لفظ سے چڑ ہوگئی ہے، کیونکہ مغربی تہذیب روایت کی بجائے پرفتن معقولات پر قائم ومنحصر ہے جبکہ اسلام اللہ کی طرف سے نازل شدہ دین ہونے کے ناطے ایک منقول و مروی دین ہے۔ دین میں سے منقولات (اَسناد ومتن) کو نکال دیا جائے توکچھ نہیں بچتا اورمسلمان اہل مغرب کی طرح عقل پر انحصار کرنے کی بجائے منقولات کے فہم میں عقل وتجربہ کو بھرپوراستعمال کرتے ہیں۔چونکہ قراء ات کا تعلق بھی منقولات سے ہے، اس لئے وہ اس کی حجیت تسلیم کرنے سے بھی انکاری ہیں، جبکہ قرآن بھی دراصل تلقّی واَدا کے ذریعے حاصل ہونے والی منقول چیز ہی ہے جس کے مرویات سے بالا تر ہونے کا اُنہیں بلا جواز و بلا دلیل اندیشہ لاحق ہوا ہے۔
قرآنِ کریم کی معجزاتی حیثیت اس کے الفاظ میں نمایاں ترین ہے۔ قرآن میں کفار کو اسی جیسی دس سورتیں، ایک سورت یا ایک آیت بنا کر لانے کی کئی بار دعوت دی گئی ہے، جس میں اُنہیں اپنا پورا لائو لشکر اور پوری کائنات میں اپنی قوتوں کوجمع کرکے اس چیلنج کو مشترکہ طورپر پورا کرنے کو بھی کہا گیاہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ آج تک اس قرآنی چیلنج میں کسی کو کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ اسی طرح قرآنِ کریم کی ادائیگی (قراء ات) کی اللہ تعالیٰ نے سات مختلف اسالیب میں اجازت دی ہے۔ یہ ساتوں اسالیب نبی کریم1 سے براہِ راست، بالتواتر منقول اور مصاحفِ عثمانیہ میں موجود ومحفوظ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم کوانہی اسالیب پر نازل کیا ہے، ان اسالیبِ قرآن کا عین و مصداق تو واضح اور حتمی ہے، جس کو آج تک پڑھا پڑھایا جاتا ہے، البتہ تشکیل و تدوین کی زبان میں ان اَسالیب کو کس کلیہ واُصول کی زبان میں بیان کیا جائے، اس میں علما کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے۔ گویا مصداق میں تو اختلاف نہیں بلکہ تعبیر میں اشکال ہے جیسا کہ اکثر وبیشتر علوم کی تعریف میں اختلاف موجودہوتا ہے۔ بطورِ مثال مسلم کا مصداق کیا ہے، یہ تو ایک واضح امر ہے لیکن مسلمان کی جامع ومانع تعریف کیا ہو؟ اس میں ایک سے زیادہ تفصیلات و تعبیرات ہوسکتی ہیں۔ جو شخص قراء ات کی تعبیر وتدوین کے مرحلہ میں ہونے والے اختلاف سے بچنا چاہے تو اسے چاہئے کہ نبوی اصطلاح کو برقرار رکھتے ہوئے اُنہیں ’اَحرف‘ سے تعبیر کرلے، یا احادیث میں ان کے لئے قراء ۃ کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے، اس پر اکتفا کیا جاسکتا ہے۔ گویا قرآنِ کریم میں پائی جانے والی ان قراء توں کو تلفظ و اَدائیگی کی متنوع صورتیں قرار دیا جاسکتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء اتِ قرآنیہ کا انکار کرنے والے مختلف پہلوؤں سے اعتراض کرتے ہیں، حالانکہ وہ اگر قراء ات کو صرف اس پہلو سے ہی دیکھیں کہ ’سبعہ احرف ‘ کو بیان کرنے والی احادیث محدثانہ اصطلاح میں متواتر کا درجہ رکھتی ہیں، اور دُنیا کے سب سے مستند ذخیرہ فرامین رسالت (احادیثِ نبویہﷺ) میں جابجا قرآنِ مجید کی ادائیگیوں میں اختلاف کا ماثور تذکرہ موجود ہے، جن میں قریباً ۱۸۲ اَحادیث تو صرف صحیح بخاری ہی میں موجود ہیں، اس کے علاوہ دیگر کتبِ حدیث میں ان کی تعداد ہزاروں سے متجاوز ہے۔ (مزید وضاحت کیلئے اسی شمارے موجود مضمون ’احادیث مبارکہ میں روایت حفص کے علاوہ دیگر متواتر روایات‘ ملاحظہ فرمائیں!)
ان احادیث کی بنا پر قراء اتِ قرانیہ کا شرعی وجود و ثبوت تومسلم ہے، ان کو اگر علمائے اسلام نے ایک تعریف کی شکل میں متفقہ طور پر تعبیر نہیں کیا، تو اس سے ان مستند ومتواتر احادیث پر عمل کے پہلو سے کیا اَثرپڑ سکتا ہے؟ یوں بھی تعریفوں میں اختلاف کا شبہ اُڑانے والے بلاوجہ ابہام واعتراض کو دخل دیتے ہیں، وگرنہ قر اتوں کی ان تعریفات میں تعارض وتضاد کی بجائے تنوع وتفصیل کا ہی اختلاف ہے۔ (دیکھئے اس شمارے میں موجو دمضمون ’حدیث ِسبعہ احرف کا مفہوم، تنقیحات وتوضیحات‘)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
یاد رہے کہ مسلمانوں نے علم قراء ت کی تدوین کے بعد سے قرآن کریم کے تلفظ واَدامیں یہ گنجائش پیدا نہیں کی تھی، بلکہ وہ دورِ نبویﷺ، دورِ صحابہ﷢ اور تابعین﷭، جن کو بہ زبانِ رسالت ’خیر القرون‘ سے تعبیر کیا گیا ہے، میں ہی ان قراء ات کو پڑھتے پڑھاتے آئے ہیں، جن کی قرائے کرام﷭ کے ہاں الگ متواتر اسناد موجود ہیں اور خیر القرون کا یہی تسلسل آج تک چلا آتا ہے، جس کی متواتر ومستند احادیثِ مبارکہ سے تقویت وتائید حاصل ہوتی ہے۔
٭ قراء اتِ قرانیہ اعجازِ قرآنی کا اہم حصہ ہیں۔اس سے قرآنی علوم ومعارف کے بہت سے پہلو اُجاگر ہوتے ہیں جیسا کہ زیر نظر مجلہ کے بعض مضامین قرآء ات کی اسی علمی افادیت کے موضوع پر لکھے گئے ہیں۔ چودہ صدیوں سے اُمتِ مسلمہ ان کی حقانیت وحجیت پر متفق رہی ہے۔ قراء ات کی حجیت اس سے بڑھ کر کیا ہوگی کہ ہمارے ہاں پڑھا جانے والا قرآن کریم بھی انہی قراء ات میں سے ایک ہے، جیسا کہ اس پر واضح لکھا ہوتا ہے (بروایۃ حفص عن عاصم) کہ یہ امام حفص کی اپنے استاد امام عاصم سے روایت ہے۔
٭ دورِعثمانی میں قرآنِ کریم کو باضابطہ تحریری طورپر مدوّن ومحفوظ کیا گیا، اور قرآنِ کریم کی مختلف منسوخ و شاذ قراء ات اور تفسیری روایات کو ضائع کرکے مستند متن کو محفوظ کردیا گیا۔ انہی مصاحفِ عثمانیہ کے ذریعے احرفِ سبعہ کو بھی تحریری طورپر محفوظ کیا گیا۔ کسی بھی قراء تِ قرآنی کے مستند ہونے کے لئے یہ شرط اساسی حیثیت رکھتی ہے کہ وہ مصحفِ عثمانی کے مطابق ہو۔ یاد رہے کہ ان مصاحفِ عثمانیہ میں اس اُسلوبِ کتابت کی پابندی کی گئی تھی جو اس سے قبل دورِ نبویﷺ اور صاحبین علیہن السلام کے اَدوارِ خلافت کے صحف میں ملحوظ رکھا گیا تھا۔ جیسا کہ علم رسم وضبط کی مستند کتابوں اور ’مجلس‘ کی لائبریری میں موجود مصحف ِعثمانی کے ایک نادر نسخے (جس کے بعض صفحات کی سکیننگ شمارہ ہذا میں موجود ہے) کے مطالعے سے اس التزام کا بخوبی علم ہوتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ بعد ازاں تاریخ ِاسلامی کی ہزاروں دستاویزات، کتبِ احادیث و فقہ کے مجموعوں حتیٰ کہ کتب ِتفاسیر میں ان متعدد قراء ات پرمشتمل قرآنی متن کو تحریر کیا جاتا رہا۔ مثلاً
٭ تفسیر فتح القدیر للشوکاني جس میں نص قرآنی روایت ِ ورش عن نافع میں، جبکہ بعض نسخوں میں روایت
دوری عن ابی عمرو میں ہے۔
٭ تمام کتب ِاحادیث (خصوصاً صحیح بخاری) کے قراء ات اور تفسیر کے ابواب
٭ یہ قراء ات بیشتر بلادِ اسلامیہ میں روزِ اوّل سے اس طرح مروّج چلی آرہی ہیں حتیٰ کہ بعض افریقی ممالک میں روایت قالون اور روایت ورش کو وہی حیثیت حاصل ہے جو ہمارے ہاں روایت حفص عن عاصم کو ہے اور یہ سلسلہ آج تک یوں ہی جاری وساری ہے۔ اس سلسلے میں بطورِ مثال مغرب عربی (الجزائر، مراکش، موریطانیہ وغیرہ)، مغربی افریقہ (سینیگال، نائیجر، مالی، نائیجیریا وغیرہ) شمال افریقہ اور مصر، چاڈ، سوڈان کے بعض علاقوں اور تیونس کے مغربی اور جنوبی علاقوں میں روایتِ ورش کا جبکہ لیبیا، تیونس کے اکثر اور مصر اور سوڈان کے بعض علاقوں میں روایتِ قالون کا نام لیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح سوڈان، صومالیہ، چاڈ، نائیجریا، اریٹریا، کینیا اور عمومی طور پر سنٹرل افریقہ میں روایت دوری عن ابی عمرو منتشر ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ ملتِ اسلامیہ کے نامور قراء ان قراء ات میں قرآنِ کریم کی تلاوت کرتے ہیں جیسا کہ مشہور مصری قاری شیخ عبدالباسط اور شیخ محمد صدیق منشاوی کی تلاوتوں کا عام معمول ہے۔ اسی طرح حرم مدنی کے امام الائمہ شیخ علی عبد الرحمن حذیفی کا مکمل قرآن روایت قالون میں نشر ہوا جو کہ حرم مدنی کے ارد گرد تمام مارکیٹوں میں عام میسر ہے۔
٭ دُنیا بھر کے نشریاتی ادارے مختلف قراء ات میں قرآنِ کریم کو شائع کررہے ہیں جیسا کہ رُشد کی خصوصی اشاعت ، حصہاول کے صفحہ نمبر ۲۲۰ تا ۲۳۱ میں ان نسخوں کی فوٹو کاپی ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔
٭ مسلم ممالک کی وزات ہائے اوقاف ومذہبی اُمور نے سرکاری سطح پر متنوع قراء ات پر مشتمل ان مصاحف کو بڑے اہتمام سے شائع کیا ہے۔ دیکھیں رُشد کی خصوصی اشاعت ، حصہ اول کے صفحہ نمبر ۲۲۰ تا ۲۳۱
٭ دنیا بھر کے مدارس اور نامور اسلامی جامعات مثلاً مدینہ منورہ یونیورسٹی اور جامعہ ازہر، قاہرہ وغیرہ میں یہ قراء ات بطورِ مستقل شعبہ، دینی نظام تعلیم کا اہم حصہ ہیں۔
٭ عالم عرب کی بڑی مساجد ومدارس میں ان کے مطابق نمازوں کی امامت کی جاتی ہے۔
 
Top