• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تحفظِ قراء ات اور مجلہ ’رشد ‘

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ علاوہ ازیں مسلمانوں کے تما م علماء، مفتیان حضرات اور دینی ادارے ان کی مشروعیت پر متفق ومجتمع ہیں، جیسا کہ رشد،حصہ دوم کے صفحہ نمبر ۱۲۴ تا ۱۸۹ پر یہ فتاویٰ بہ تفصیل ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں۔
ان حالات میں مسلمانوں میں بعض کم علم لوگوں کا جہالت کا وبال اُمت ِمسلمہ پر یوں نازل ہو کہ وہ ان قراء ات کا انکار ہی شروع کردیں اوراُنہیں مستشرقین کی ہم نوائی میں جمع حدیث کی طرح کی عجمی سازش قرار دیں تو ان کی اس تہمت وبہتان کا کیا وزن رہ جاتا ہے؟
ڈاکٹر حافظ حسن مدنی
(مدیر التعلیم جامعہ لاہور الاسلامیہ ومدیر ماہنامہ’ محدث‘)​


٭_____٭_____٭
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رُشد قراء ات نمبرز کی اِشاعت پرمنکرینِ حدیث کی بوکھلاہٹ


حالیہ چند سالوں میں دو موقع ایسے آئے ہیں جب منکرین حدیث بری طرح بوکھلاہٹ کا شکار ہوئے ہیں۔ایک جب ماہنامہ محدث کا فتنۂ انکار حدیث نمبر شائع ہوا اور دوسر موقع یہ ہے جب قراء ات نمبر مسلسل تین قسطوں میں شائع ہو رہا ہے۔ شاید قارئین کو خیال گزرے کہ منکرین حدیث کا فتنۂ انکار حدیث نمبر پر چیں بہ چیں ہوناتو سمجھ میں آتا ہے لیکن قراء ات نمبر کی اشاعت اور ان کی پریشانی میں کیا نسبت؟تویہ نسبت با لکل سادہ سی ہے جومنکرین حدیث کے ماہنامہ بلاغ القرآن نے ان الفاظ میں بتائی ہے :
’’روایت پرستوں کا جنوں انہیں سکون سے بیٹھنے نہیں دے رہاان کی تعصبانہ روش انہیں مسلسل اکسا رہی ہے کہ قرآن کے متن میں ’اختلاف قراء ات و روایات ‘کی بنیاد پر تبدیلی کر کے مخالفین کا منہ بند کر دیا جائے کہ اگر کوئی شخص ’صحاح ستہ‘کی کسی ’روایت‘ بالخصوص أنزل القراٰ ن علی سبعۃ احرف پر تنقید کی جسارت کرے تواسے تبدیل شدہ ایک نہیں بلکہ بیس قرآن دکھا کر خاموش کروایا جا سکے‘‘ (بلاغ القرآن نومبر۲۰۰۹،ص: ۲)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
خلاصہ عبارت یہ ہوا کہ حدیث کو شرعی حجت تسلیم کرنے والے یہ چاہتے ہیں کہ منکرین حدیث کے وہ تمام چور دروازے بند کر دیے جائیں جن سے کسی بھی پہلو سے انکار حدیث کا امکان ہو۔ یعنی یہ’ بزرگ ‘شعوری طور پر سمجھتے ہیں کہ رشد قراء ات نمبر فتنۂ انکار حدیث نمبر کاہی تسلسل ہے جو دفاع حدیث کی غرض سے شائع کیا گیا چنانچہ اسے پروپیگنڈہ کے زور پر روکنا ضروری ہے تاکہ مسٹر پرویز کے قرآن (جو حدیث کی بجائے ہر ایرے غیرے کی تشریح پر مشتمل ہے) کا تحفظ کیا جاسکے ۔اب وہ قرآن جس کی بابت نبی کریم نے فرمایا کہ وہ سات حروف پر مشتمل ہے اس کے تحفظ کی ذمہ داری توخود اللہ تعالیٰ نے اٹھائی ہے اور اس کی حفاظت بخوبی ہو رہی ہے لیکن مسٹر پرویز کے قرآن ،جس کا ذکر خیر اوپر ہو چکاہے، اس کے تحفظ کیلئے دوستوں نے اپنے نام نہاد قرآنی گورکھ دھندے کو مخفی رکھتے ہوئے عوام الناس کو یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ اہل رشد بیس نئے قرآن شائع کرنے کا ارادہ کر چکے ہیں حالانکہ یہ وہ بات تھی جو دوستوں نیبحث کو منفی رنگ دینے کیلئے غلط طور پرپھیلائی اور اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے​
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پھر اس بنیاد پر فرضی سوالات ترتیب دے کر عوام کو بیداری کی دعوت دی گئی کہ اٹھو ورنہ قرآن بھی انجیل کا ساہو جائے گا اور تم منہ دیکھتے رہ جائو گے۔اس جہالت کا ذکر ہم بعد میں کریں گے کہ کیا مختلف قراء ات میں مصاحف شائع ہونے سے قرآن بھی انجیل کی طرح محرف ہو جائے گا؟ سر دست ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ کیا واقعی یہ گروہ اس بات پہ آگ بگولا ہوا کہ مختلف قراء ات میں قرآن کی اشاعت سے قرآن اور انجیل ایک جیسے ہو جائیں گے؟ یامسئلہ مصاحف کی اشاعت کی بجائے قراء ات کی حجیت کا ہے جس کو انکے بڑے فتنۂ عجم کا نام دیتے ہیں جبکہ امت بالاجماع ان کو حجت مانتی ہے ۔ہم اس گروہ کے اس موقف کو صحیح تسلیم نہیں کرتے کہ یہ ہنگامہ مصاحف کی اشاعت کی وجہ سے قرآن کے انجیل کے مترادف ہو جانے کے ڈر سے کھڑا کیا گیا بلکہ اسے دروغ گوئی سے تعبیر کرنے پر مجبور ہیں کیو نکہ انکے اکابرین اس وقت بھی یہی سوال کرتے سنے گئے جب پاکستان میں کہیں مصاحف کی اشاعت یا اس طرح کے پروپیگنڈہ کا نام ونشان تک نہ تھا، دیکھئے مسٹر غلام احمد پرویزکی کتاب ’مقام حدیث‘ (یہ اسلم جیراجپوری، تمناعمادی اور خود پرویز کی تحریرات پرمشتمل ہے) جو انہوں نے بیسیویں صدی کے وسط میں لکھی اس وقت پرویز وغیرہ کے اعتراضات کا جواب مولانا محمد گوندلوی ؒنے اپنی کتاب ’دوام حدیث‘ (جو ان دنو ں لکھی جا چکی تھی لیکن باقاعدہ طبع ہو کر مارکیٹ میں حال ہی میں آئی ہے) میں دیا۔ ہم مولانا کی کتاب سے ایک اقتباس نقل کرتے ہیں جس سے یہ بات کھل کے سامنے آ جائے گی کہ ان حضرات کا پس پردہ مقصد حفاظت ِقرآن نہیں بلکہ انکارِ قراء ات ہے کیونکہ اگر ایسی بات نہ ہوتی تو آج سے ساٹھ سال قبل اس مسئلے کا موضوع بحث بنناچہ معنی دارد؟ موصوف فرماتے ہیں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
’’ایک عیسائی نے کتاب المصاحف لابن أبی داؤد سے قرآن کے ان نسخوں سے جو روایت بالمعنی کی بنا پرلکھے گئے ہیں، بعض مختلف کلمات نقل کئے ہیں، جو حلال و حرام میں مختلف نہیں۔ اس نے اپنی جگہ قرآن میں تحریف ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور منکرین حدیث بھی اپنی خفت مٹانے کیلئے اس اعتراض کا ذمہ دار بھی حدیثوں کو ٹھہرانے لگے ہیں۔ عیسائی تو ایک حد تک معذور ہیں، کیونکہ وہ دراصل مسلمانوں کے اس اعتراض میں لب کشائی کررہے ہیں کہ اناجیل محرف ہیں۔ اب پھر اس میں تحریف ہورہی ہے۔موجودہ اناجیل سے بعض آیات نکال دی گئی ہیں، حالانکہ یہ آیات سابقہ مطبوعہ انجیلوں میں بدستور موجود ہیں، کیونکہ اناجیل کا نہ اصل نسخہ موجود ہے، نہ اس کی نقل یا نقل درنقل، جن سے تراجم کی اغلاط معلوم ہوسکیں، جو مترجمین نے اپنے فہم کے مطابق کیے ہیں۔ کیونکہ عیسائی اب تک یہ فیصلہ نہیں کرسکے کہ موجودہ اناجیل کس زبان میں لکھی گئیں۔یونانی میں یاعبرانی میں، کیونکہ یونانی زبان کا پرانا سے پرانا نسخہ عبرانی کی نقل معلوم ہوتا ہے اور عبرانی کا پرانے سے پرانا نسخہ یونانی سے نقل معلوم ہوتا ہے، پھر اناجیل میں واقعات کی کوئی سند بھی نہیں، نہ متواتر، نہ خبر واحد، بلکہ اناجیل کے مصنّفین تک بھی حد تواتر تک نہیں پہنچیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پس جس عیسائی نے یہ اعتراض کیا ہے کہ مختلف مصاحف کا اختلاف اناجیل کے اختلاف کی طرح ہے، وہ احمقوں کی دنیا میں رہتا ہے، مگر اس کو یہ معلوم ہے کہ میں جس دنیا میں ہوں، اکیلا نہیں ہوں، میرے وسوسے کو دنیا میں قبول کرنے کے لیے اور احمق بھی مل جائیں گے۔
چنانچہ جب ہم نے ’مقام حدیث‘ میں دیکھا کہ منکرین حدیث بھی اس وسوسہ سے متاثر ہوکر اس اعتراض کو معقول سمجھ کر اسکا ذمہ دار حدیث کو ٹھہرا کر بری الذمہ ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو اس عیسائی کے خیال’ ’کہ میں اکیلا احمق نہیں‘‘ کی تصدیق پائی۔
بھلا وہ اختلاف جو کمی بیشی کا ہو، جیسا کہ اناجیل میں ہے، اور وہ اختلاف جو لغت کے اعتبار سے ہو، جیسا کہ مختلف قراء توں یا مختلف مصاحف میں ہے، کیسے برابر ہوسکتا ہے؟ اگر سب اختلافات برابر ہوں، تو تراجم کو تحریف ہی کہنا چاہئے۔ منکرین حدیث عیسائی کے اس اعتراض سے بہت خوش ہورہے ہیں کہ یہ اعتراض روایت کی بناء پر ہے۔ ہم چونکہ روایت کے قائل نہیں، اس لیے یہ اعتراض ہم پر وارد نہیں ہوتا، اور یہ نہیں سمجھے کہ روایت کے حجت ہونے کے انکار سے روایت کے لوازمات سے انکار لازم نہیں ہوتا، کسی روایت کے ردّ کرنے کے لیے اتنا کہہ دینا کافی نہیں کہ ہم اس کو دینی حجت نہیں مانتے۔ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے سے انسان دشمن کے وار سے بچ نہیں سکتا۔ بلکہ اس قسم کے لایعنی انکار سے دشمن زیادہ دلیر ہوجاتا ہے۔ اس کو اس امر سے بحث نہیں کہ تم مانتے ہو یا نہیں، وہ تو علمی حلقہ میں پہچان پیدا کرنے کے درپے ہے۔ اگر آپ لوگ عیسائی مصنف کو تحقیقی جواب دینا چاہتے ہیں، تواس کی صورت آپ کے خیال کے مطابق یوں ہونی چاہئے کہ روایت کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔ بعض سچی ہوتی ہیں اور بعض جھوٹی، ہوسکتا ہے کہ یہ جھوٹی ہو۔ ان روایات کا جھوٹا ہونا ہی صحیح ہے، کیونکہ قرآن مجید ایک ایسا فصیح و بلیغ کلام ہے کہ بلاغت کے اعلیٰ درجہ پر ہے، کوئی دوسرا کلام اس سے مشتبہ نہیں ہوسکتا۔لہٰذا ان نسخوں کے جعلی ہونے کی دلیل ہمارے پاس یہ ہے کہ:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
’’قرآن مجید کا جو نسخہ ہمارے پاس ہے، اس کے الفاظ فصاحت و بلاغت کے اعلیٰ درجہ پر ہیں، اور باقی نسخے جو اس کے علاوہ ہیں، ان کے الفاظ اس قدر گرے ہوئے ہیں کہ ان کو اس نسخہ کے الفاظ کے مترادف بھی نہیں کہا جاسکتا۔‘‘
یہ تھا اصل جواب! مگر یہ جواب اس وقت درست ہوتا، جب یہ ثابت ہوجاتا کہ قرآنی الفاظ اور ان نسخوں کے مخالف الفاظ میں اس قدر فرق ہے کہ ایک تو معجزہ بن جائے اور دوسرے نسخے معجزہ کی حد کو نہ پہنچیں، مگر اس کے لیے علم کی ضرورت ہے اور یہ لوگ علمی نقصان کو جذبات سے پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اعتراض سے بچنے کے لیے انکار ہی کا سہارڈھونڈتے ہیں۔ یہ کوئی تحقیق نہیں، بلکہ تلبیس ہے۔‘‘(ص:۱۱۶تا۱۱۹)
اندازہ کیجیے کہ کیساحسن اتفاق ہے کہ آج کے معترضین کے وہی اندیشے اور اشکالات ہیں جو ساٹھ سال قبل ان کے نظریاتی آباو اجداد کے تھے؟بلکہ قارئین حیران ہوں گے کہ یہ اعتراضات بھی انکے ذہن کی پیداوار نہیں ہیں بلکہ ان مستشرقین کے اعتراضات کا چربہ ہیں جن کے نام سے ڈرا کر امت کو قراء ات متواترہ سے دور رکھنے کی کو شش کی جا رہی ہے ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اب ہم اس سوال کی طرف آتے ہیں کہ کیامختلف مصاحف کی اشاعت سے قرآن محرف ہو جائے گا؟
ہمارے خیال میں بات یہاں سے شروع ہونی چاہیے کہ قرا ء ات کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ان کی حجیت کا مدار کس بنیادی ماخذ پر ہے اور اس باب میں امت کا اجماعی موقف کیا ہے؟ اگرقرا ء ات کی حجیت پر متوا تراور صحیح احادیث موجود ہیں اور امت کا اجماعی موقف بھی ان کو حجت ماننے کا ہے تو یقینامختلف مصاحف کی اشاعت سے قرآن محرف نہیں ہو گا ۔کیونکہ جب مختلف قراء ات کے ثبوت سے قرآن میں تحریف نہیں ہوئی تو ان کی الگ الگ اشاعت سے کیسے تحر یف ہو جائے گی؟
دوسری بات یہ ہے کہ یہ انتہائی لغو اور جہالت پر مبنی سوچ ہے کہ قراء ات اور انجیل کا اختلاف ایک جیسا ہے کیونکہ انجیل کا اختلاف تضاد کا ہے جس میں نظریات ،مضامین اور عقیدے کا اختلاف ہے جبکہ قراء ات کا اختلاف تنوع کا اختلاف ہے جس سے نہ تو مضامین باہم متضاد ہوتے ہیں اور نہ ہی عقیدے میں کوئی حرف آتا ہے بلکہ اگر عقل سلیم میسرہو تو یہ سمجھنے میں دیر نہ لگے کہ یہ اختلاف قرآن کریم کا اعجازہے نہ کہ تحریف ۔دوسری بات یہ کہ قراء ات کا ایک ایک اختلاف صحیح اسناد سے ثابت ہے جبکہ انجیل کی سند حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو دور کی بات ان کے مصنّفین تک نہیں پہنچتی کہ ان کے لکھنے والے کون لوگ تھے۔ اور یہ بات عیسائیت کو بھی تسلیم ہے۔ایک طرف یہ اختلافکہ انجیل ِیوحنا عقیدہ تثلیث ثابت کرتی ہے جبکہ باقی تینوں اناجیل میں یہ بحث ہی موجو د نہیں اور دوسری طرف قراء ات کا وہ اختلاف جس سے قرآن کریم کے مفہوم میں ذرا برابر فرق نہیں پڑتا کیا ایک جیسا کیسے ہو گیا ؟بہ بیں تفاوت رہ از کجا ست تا بہ کجا
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس حوالے سے ان دانش بازوں سے دوسری گزارش یہ ہے کہ ذرا اتنی وضاحت فرمائیے کہ کیا مستشرقین کا اسلام پرمطالعہ اور ان کی معلومات کا حدودِ اَربعہ آپ جتنا ہے جو ان کو ابھی تک معلوم نہیں ہوسکا کہ اَحادیث میں مختلف قراء ات کاذکر بھی ہے۔ گویا آپ کے خیال میں مستشرقین کو ابھی تک روایت حفص کے علاوہ کسی روایت کاعلم نہیں ہے اِس لیے وہ آج تک اِعتراض نہیں کرسکے اور جوں ہی دیگر رِوایات میں مصاحف پاکستان میں منظر عام پر آگئے وہ اِعتراضات کی بوچھاڑ کردیں گے؟قارئین اندازہ فرمائیے!یہ ہیں وہ محققین جو رشد قراء ات نمبر پر نقد کرنے آئے ہیں اور بھولے اتنے ہیں کہ مستشرقین کے نام سے امت کو ڈراتے ہیں لیکن ان کے کام سے خود جاہل ہیں۔ اگرہم ان محققین سے پوچھیں سے کہ اگر مستشرقین مصاحف کی موجودگی میں قرآن کریم کے انجیل جیسا ہونے کا کہہ سکتے ہیں تو قراء ات کی حجیت پر اُمت کے اِجماعی مؤقف اور اَحادیث کی موجودگی کے پیش نظر اب کیوں نہیں؟کیونکہ اتنی تو بہر حال ان کو خبر ہے کہ امت حدیث نبوی کو دین کا اساسی ماخذ اور حجت مانتی ہے۔ اور امر واقعہ یہ ہے کہ یہ اعتراض وہ دسیوں سال پہلے کر چکے ہیں اور ان اعتراض کی سطحیت کو علما ئے حق خوب واضح کر چکے ہیں یہی وجہ کہ ان کے اعتراضات کی وجہ سے آج تک کوئی فتنہ سامنے نہیں آیا ۔بدقسمتی سے یہ وہی اعتراضات ہیں جنہیں آپ آج تحقیق جدید کے نام سے پیش کر رہے ہیں اور گویا یوں تاثر دے رہے ہیں کہ آج اگر ہم نہ ہوتے تو قرآن کریم محفوظ رہتا۔یہ تو ہماری بیداری فکر کا نتیجہ ہے کہ ہم نے اسکے اثرات اتنی دور سے دیکھ کر امت کو بروقت خبردار کردیا ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مذکورہ گروہ کی نگارشات کو سامنے رکھتے ہوئے یوں معلوم ہوتا ہے جیسے مستشرقین کا مقابلہ برصغیر سے ہے۔ دنیا میں جو بھی ہوجائے اُن کو اِس سے کوئی سروکار نہیں وہ تو اسی تاک میں ہیں کہ برصغیر کے اِسلام پر اعتراض کا کب موقع بنے؟ اس لیے باقی اُمت مسلمہ جو بھی کرے باشند گان برصغیر کو بہرحال محتاط رہنا چاہئے۔یہ احساس اس لیے ہوا کہ اگرمستشرقین کی نظر پورے عالم اسلام پر ہوتیتوایک عرصے سے مختلف ممالک میں مختلف مصاحف کی اِشاعت ہورہی ہے تب سے مستشرقین کہاں ہیں۔؟ نعوذباللہ کیوں قرآن انجیل کے مترادف نہیں ہوا؟کیوںکہیں سے کوئی اعتراض سامنے نہیں آیا؟ اورفرض کریں اگر کوئی اعتراض آ بھی جائے تو جواب دینے کے لیے اہل علم موجود ہیں مقابل میں ’اہل علم ودانش‘ تو ہیں نہیں جو فوراً قرآن کو نعوذ باللہ انجیل مان لیں گے۔
اے اسلام کے دانا دوستو! میڈیا نے دنیا کو جتنا قریب کردیا ہے کیا تم اَبھی بھی اس خیال میں ہو کہ ہم مستشرقین سے چھپے بیٹھے ہیں؟آپ کے خیال میں ان کو علم ہی نہیں کہ مختلف اِسلامی ممالک میں روایت حفص کے علاوہ دیگرقراء ات میں قرآن پڑھاجارہا ہے؟ اگر انہوں نے یہ سوال کردیاکہ پاکستان میں روایت حفص پڑھی جاتی ہے جبکہ مراکش میں روایت ِورش ،کیا پاکستان اور مراکش کے قرآنوں میں فرق ہے تو اس کا آپ کے پاس کیا جواب ہو گا؟
 
Top