• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تحفظِ قراء ات اور مجلہ ’رشد ‘

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس طرح کے اشکالات عوام الناس کے ہو تے تو ہم ہضم کر لیتے ہمیں تو افسوس اس بات کا ہے کہ خدایایہ انداز تحقیق ان لوگوں کا ہے جو خودکو اہل علم ،اہل دانش ،اہل فکر اور مفتی کے لقب سے ملقب کرتے ہیں اورپھر بے باکی سے اس عقیدے کا اظہار بھي کرتے ہیں کہ قرآن میں زیر، زبر کا بھی فرق نہیں اور قراء ات کو تسلیم کرنے سے قرآن انجیل کی طرح محرف ہو جائے گا۔ یعنی مصاحف کی اشاعت کے بارے میں علماء کا یہ خدشہ کہ جہالت کی وجہ عوام الناس میں انتشار کا خطرہ ہے درست نہیں کیونکہ یہاں تو خود ساختہ مفتیان اور نام نہاد ’اہل علم ودانش بھی ایسے ہیں جونہ صرف یہی عوام الناس والا عقیدہ رکھتے ہیں بلکہ قراء ات کو تحریف تک کہنے سے نہیں چوکتے، اب پہلے سے بھی مشکل سوال یہ ہے کہ ایسی پڑھی لکھی جہالت کا کیا حل ہو؟
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حالانکہ علماء اور مفتیان کی نسبت رسول اللہﷺکا فرمان یوں ہے:
’’نَزَلَ الْقُرْآنُ عَلـٰی سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ، الْمِرَآئُ فِي الْقُرْآنِ کُفْرٌ -ثَلَاثَ مَرَّاتٍ۔ فَمَا عَرَفْتُمْ مِنْہُ فَاعْمَلُوْا وَمَا جَہِلْتُمْ مِنْہُ فَرُدُّوْہُ إِلـٰی عَالِمِہٖ‘‘۔ (مسند أحمد: (۲/۳۰۰) ۷۹۷۶)
’’قرآن سات حروف پر نازل کیا گیاہے۔ آپﷺنے تین مرتبہ یہ بات کہی کہ اس میں جھگڑنا کفر ہے۔ جس کا علم ہو اسی کے مطابق پڑھ لو اور جس کا علم نہ ہو اسے عالم کی طرف لوٹاؤ۔‘‘ (مسند احمد:۱/۳۰۰، صحیح ابن حبان:ص۸۳)
آپﷺعوام الناس کو تلقین فرما رہے ہیں کہ جس قراء ات کا علم نہ ہو اس کے بارے میں عالم کی طرف رجوع کریں اور اللہ کی شان ہے کہ پاکستان کے ایک کونے میں نام نہادعالم یہ کہہ رہے ہیں کہ قراء ات تحریف انجیل کے مترادف ہیں۔ کیا ابھی بھی ان کے عالم اور مفتی ہونے کا استحقاق محفوظ ہے؟ کیا ایسی جرأت ایک عالم دین تو دور کی بات ہے عام امتی بھی کر سکتا ہے؟ کیا ایسے شخص کو اُمت مسلمہ کے حوالے سے بات کرنے کاکوئی حق حاصل ہے؟ کیا ایسا شخص اپنے نام کے ساتھ مفتی کا بڑا سا سابقہ لگا کر اپنے فتوے عوام الناس کی راہنمائی کے دعویٰ سے بانٹنے کا جواز رکھتا ہے؟ اس’مفتی‘ کی ذمہ داری تو آپﷺنے راہنمائی امت کی لگائی تھا اور یہ تخریب کاری کرتا پھر رہا ہے پھر بھی ہنوز مفتی ہے؟
اور اگر مختلف قراء ات میں مصاحف کی اشاعت سے قرآن انجیل کی طرح محرف ہو جائے گا ، عوام الناس انتشار کا شکار ہو جائیں گے اور امت مسلمہ کا ایک قرآن کا دعویٰ ختم ہو جائے گا توگزارش ہے کہ عالم اسلام میں یہ مصاحف شائع ہو چکے ہیں تمہارے دئیے گئے نتائج کے مطابق اس بدعت کا ارتکاب ہو چکا ہے ،قرآن کریم میں نعوذباللہ انجیل کی طرح تحریف ہو چکی ہے اور امت کا ایک قرآن کا دعویٰ ختم ہو چکا ہے۔ نہ صرف یہ سب کچھ ہو چکاہے بلکہ اللہ تعالیٰ جس نے یہ کہہ کر’’ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہ لَحٰفِظُونَ‘‘(الحجر:۹) ’’اس کو ہم نے نازل کیا اورہم خود اس کے نگہبان ہیں‘‘ حفاظت قرآن کی ذمہ داری خود اٹھائی ہے او راسی حفاظت کے پیش نظر اپنے محبوب نبیﷺسے انتہائی انداز میں مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا ’’وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیلِ لَاَخَذْنَا مِنْہُ بِالْیَمِینِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِینَ فَمَا مِنْکُمْ مِنْ اَحَدٍ عَنْہُ حٰجِزِینَ‘‘(الحاقۃ:۴۴۔۴۷) ’’اور اگر اس (نبی) نے خود گھڑ کر کوئی بات ہماری طرف کوئی بات منسوب کی ہوتی تو ہم اس کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے اور اس کی رگ گردن کاٹ ڈالتے،پھر تم سے کوئی (ہمیں)اس کام سے روکنے والا نہ ہوتا‘‘ بھی نعوذباللہ حفاظت قرآن سے عاجز آچکاہے ۔کیونکہ اس وقت روایت قالون عن نافع لیبیا، تیونس کے اکثر اور مصر کے بعض علاقوں میں روایت ورش عن نافع مغرب عربی (الجزائر، مراکش، موریطانیہ وغیرہ)، مغربی افریقہ (سینیگال، نائیجر، مالی، نائیجریا وغیرہ)، شمال افریقہ اور مصر، لیبیا، چاڈ، سوڈان کے بعض علاقوں اور تیونس کے مغربی و جنوبی علاقوں میں روایت دوری عن ابی عمرو سوڈان، صومالیہ، چاڈ، نائیجریا، اریٹریا، کینیا اور عمومی طور پر سنٹرل افریقہ میں اور روایت حفص عن عاصم یہ مکمل مشرق، برصغیر، ترکی، افغانستان اورمصر کے اکثر علاقوں پڑھی جارہی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس حوالے سے بعض حضرات دعویٰ کرتے ہیں کہ ان ممالک میں ہمارے دوست آتے جاتے رہتے ہیں وہ ہمیں پورے اطمینان سے بتاتے ہیں کہ ایسی کوئی بات نہیں وہاں بھی وہی قرآن پڑھا جاتا ہے جو ہمارے یہاں پڑھا جاتا ہے ۔مزید براں حرمین میں صرف اسی قراآن کی تلاوت ہوتی ہے جو ہمارے ہاں پڑھا جاتا ہے ۔گزارش ہے جناب ہم بھی آپ کے دوست ہی ہیں ہماری بات ماننے میں کیا حرج ہے ؟اگر دل اطمینان نہیں پکڑتا تو پھر تمام دوستوں کو چھوڑیئے کسی وقت میں مصروفیت سے چند دن نکال کے خود صورت حال کا جائزہ لیجیے کہ اصل معاملہ کیا ہے ؟اگر آپ بوجوہ ان ممالک میں نہ جاسکیں تو ہم اتنی راہنمائی کر دیتے ہیں کہ اس ضمن میں آپ انٹر نیٹ سے بھی استفادہ کر سکتے ہیں مثلاً اگر آپ گوگل پہ جا کر ’أماکن إنتشار القراء ات في العالم الیوم‘ کے عنوان سے سرچ کریں تو شافی اور تسلی بخش نتائج مل سکتے ہیں۔اس کے علاوہ غامدی صاحب جو خود منکر قراء ات ہیں، کی تحریریں بھی ممد و معاون ثابت ہو سکتی ہیں مثلاً غامدی صاحب لکھتے ہیں:
’’قرآن وہی ہے جو مصحف میں ثبت ہے اور جسے مغرب کے چند علاقوں کو چھوڑ کر پوری دنیا میں اُمت مسلمہ کی عظیم اَکثریت اس وقت تلاوت کر رہی ہے ۔یہ تلاوت جس قرأ ت کے مطابق کی جاتی ہے، اس کے سوا کوئی دوسری قرأ ت نہ قرآن ہے اور نہ اسے قرآن کی حیثیت سے پیش کیا جا سکتا ہے۔‘‘ (میزان:ص۲۵ ،۲۶)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دوسری جگہ رقمطرازہیں:
’’لہٰذا یہ بالکل قطعی ہے کہ قرآن کی ایک ہی قرأت ہے جو ہمارے مصاحف میں ثبت ہے۔اس کے علاوہ اس کی جو قراتیں تفسیروں میں لکھی ہوئی ہیں یا مدرسوں میں پڑھی پڑھائی جاتی ہیں یا بعض علاقوں میں لوگوں نے اختیار کر رکھی ہیں،وہ سب اس فتنۂ عجم کی باقیات ہیں جس کے اَثرات سے ہمارے علوم کا کوئی شعبہ،افسوس ہے کہ محفوظ نہیں رہ سکا۔‘‘ (میزان:ص۳۲)
انکار قراء ات کے باوجود غامدی صاحب بھی اتنا مانتے ہیں کہ چند علاقوں میں دیگر قراء ات کی تلاوت کرنے والے موجود ہیں۔ہمارے خیال میں اگر ثقاہت کی نسبت سے غامدی صاحب اور ’دوستوں‘ کا تقابل کیا جائے تو شاید غامدی صاحب ہی اوثق ٹھہریں گے اور غامدی صاحب بہر صورت چند علاقوں کی حد تک مانتے ہیں۔
چنانچہ مختلف قراء ات کا مختلف ممالک میں پڑھا جانا اور ان قراء ات میں مصاحف کا شائع ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ نعوذباللہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم کی حفاظت سے عاجز آ چکے ہیں اور اگر آپ یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ جیسی عظیم ہستی کسی کام سے عاجز آ جائے تو پھر اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے آپ کو راہ فرار نہیں مل سکتی کہ مختلف مصاحف کا مختلف ممالک کی وزارت اوقاف سے جید علماء و قر ّاء کی زیرنگرانی مسلسل شائع ہونا اور عوام الناس کا انہیں قبول کرنا ان کے قرآن ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔
اس حوالے سے مزید وضاحت کے لئے دیکھیے عرب علماء کے فتاوی جات ’رشد قراء ات نمبر‘ دوم میں جناب قاری مصطفی راسخ کے مضمون ’’ائمہ اسلاف اور عرب مفتیان کے فتاوی‘‘ اور شمارہ ہذا میں راقم کے مضمون’’ ضمیمہ فتاوی جات عرب علماء‘‘ میں جس سے یہ سمجھنے میں آسانی ہو گی کہ دنیا ایک ہی قراء ت کو قرآن سمجھتی ہے یا دیگرتمام قراء ات متواتر ہ کو بھی قرآن ہی مانتی ہے اور حرمین والے مسئلے کی بھی وضاحت ہو جائے گی کہ اس سلسلے میں اہل حرمین کیا موقف رکھتے ہیں۔ان فتاوی جات میں سے ایک فتویٰ جو سعودی فتاویٰ کمیٹی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء کی طرف سے دیا گیا ہے ہم نقل کرتے ہیں تاکہ حقیقت حال سے کچھ واقفیت ہو سکے :
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سوال: بعض لوگ کہتے ہیں کہ قراء ات قرآنیہ کے متعدد ہو نے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید میں اختلاف ہے اوروہ کافی وشافی معانی تک دلالت نہیں کرتا۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
’’ وَنُخْرِجُ لَہُ یَوْ مَ الْقِیٰمَۃِ کِتٰبًا یَّلْقٰہُ مَنْشُوْرًا ‘‘ (الإسراء:۱۳)
جواب: نبی کریمﷺسے صحیح ثابت ہے کہ آپﷺنے فرمایا:
’’إن القرآن نزل من عند اﷲ علی سبعۃ أحرف‘‘ (صحیح البخاري :۴۹۹۲، صحیح مسلم:۸۱۸)
’’بیشک قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے سات حروف پر نازل ہوا ہے۔‘‘
یعنی آسانی کے لئے عربوں کی سات لغات اور لہجات پر نازل ہوا ہے ۔ اور تواتر کے ساتھ ہم تک پہنچا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تمام قراء ات اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ ہیں۔ قراء ات کا تعدد تحریف وتغییر کا نتیجہ ہے اور نہ ہی ان سے معانی میں التباس ،تناقض یا تضاد پیدا ہوتا ہے۔ بلکہ بعض قراء ات بعض قراء ات کے معانی کی تصدیق کرتی ہیں۔
بعض قراء ات سے متنوع معانی سامنے آتے ہیں ۔ جن میں سے ہر ایک معنی مقاصد شریعت اور بندوں کی مصلحتوں میں سے کسی مصلحت کو محقق کرنے والے حکم پر دلالت کرتا ہے۔
ایسی قراء ات میں سے ایک ، اللہ تعالیٰ کا فرمان:
’’ وَکُلَّ اِنْسٰنٍ اَلْزَمْنٰہُ طٰٓئِرَہُ فِیْ عُنِقِہٖ وَنُخْرِجُ لَہُ یَوْ مَ الْقِیٰمَۃِ کِتٰبًا یَّلْقٰہُ مَنْشُوْرًا‘‘ (الإسراء:۱۳)
اس آیت مبارکہ میں لفظ ’’یلقاہ‘‘ میں دو قراء ات ہیں۔
(١) یَلْقٰہُ (بفتح الیاء والقاف مخففۃ) اس قراء ت کی صورت میں اس آیت مبارکہ کا معنی ہوگا کہ ہم روزِ قیامت انسان کیلئے ایک کتاب نکالیں گے جو اس کے اعمال کا صحیفہ ہوگا اور وہ آدمی اس صحیفے کے پاس اس حال میں پہنچے گا کہ وہ مفتوح (کھلا ہوا) ہو گا۔ اگر وہ شخص جنتی ہو گا تو اسے اپنے دائیں ہاتھ سے پکڑے گا اور اگر جہنمی ہوگا تو اسے اپنے بائیں ہاتھ سے پکڑے گا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢) یُلَقّٰہُ (بضم الیاء وتشدید القاف) اس قراء ات کی صورت میں اس آیت مبارکہ کا معنی ہوگا کہ ہم روز قیامت انسان کے لئے ایک کتاب نکالیں گے جو اس کے اعمال کا صحیفہ ہوگا اوروہ کتاب انسان کو اس حال میں دی جائے گی کہ وہ مفتوح (کھلی ہوئی) ہوگی۔
مذکورہ دونوں قراء ات کے معانی معمولی سے فرق سے واضح ہوتا ہے کہ بالآخر دونوں کا ایک ہی معنی ہے، کیونکہ کتاب کے پاس جانا یا کتاب کادیا جانا ایک ہی شے ہے۔ اور دونوں صورتوں میں ہی وہ کتاب مفتوح ہوگی۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
’’فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ فَزَادَہُمُ اﷲُ مَرَضاً وَّلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ بِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْنَ ‘‘ ( البقرۃ:۱۰)
اس آیت مبارکہ میں لفظ یکذبون میں دو قراء اتیں ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) یَکْذِبُوْنَ: (بفتح الیاء وسکون الکاف وکسر الذال) اس قراء ات کی صورت میں اس کا معنی ہو گا کہ وہ اللہ تعالیٰ اور مومنوں کی طرف سے جھوٹی خبریں دیتے ہیں۔
(٢) یُکَذِّبُوْنَ :(بضم الیاء فتح الکاف وتشدید الذال المکسورۃ) اس قراء ات کی صورت میں اس کا معنی ہوگا کہ وہ رسولوں اور ان کی لائی ہوئی شریعت کو جھٹلاتے ہیں۔
مذکورہ دونوں قراء ات کے معنی میں نہ تو تناقض ہے اور نہ ہی تضاد ہے بلکہ دونوں قراء ات میں سے ہر ایک نے منافقین کے اَوصاف میں سے ایک ایک وصف بیان کیا ہے۔
پہلا وصف: وہ اللہ تعالی ،رسول اللہ1اور لوگوں کی اخبار میں جھوٹ بولتے ہیں۔
دوسرا وصف: وہ اللہ تعالی کی طرف سے رسولوں کی دی گئی شریعت کو جھٹلاتے ہیں۔
اورمنافقین کے بارے میں یہ دونوں صفات ہی برحق ہیں۔ کیونکہ انہوں نے ان دونوں صفات(کذب اور تکذیب) کو ہی اپنے اندر جمع کر لیا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تعداد قراء ات اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی حکمت کی بناء پر ہے۔ تحریف وتغیر کا نتیجہ نہیں ہے۔ اور نہ ہی قراء ات سے معانی میں التباس ،تناقض یا تضاد پیدا ہوتا ہے ، بلکہ بعض قراء ات بعض قراء ات کی تصدیق کرتی ہیں۔
اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء​
عضو عضو نائب رئیس اللجنۃ الرئیس عبد اﷲ بن قعود عبد اﷲ بن غدیان عبد الرزاق عفیفی عبد العزیز بن باز
(فتویٰ رقم: ۱۹۷۷،۴،۴؍۱۰)​
ثانیاً۔مجمع ملک فہد چارمختلف روایات ؛ روایت دوری ،روایت قالون،روایت ورش اورروایت حفص میں مصاحف شائع کر چکا ہے جبکہ باقی سولہ روایات پر کام جاری ہے۔
ثالثاً۔اہل حرمین کا تو مسلک ہی قرآن و سنت ہے اور انہیں سے قرا ء ات کا ثبوت ملتا ہے۔
رابعاً۔یہ عرب علماء کا صرف موقف ہی نہیں بلکہ عملی صورت یہ ہے کہ حرمین کے امام شیخ عبدالرحمن حذیفی حفظہ اللہ( جومسجد نبوی کے سب سے بڑے امام ہیں) کا روایت قالون(جسے دوست قرآن نہیں مانتے ) میں مکمل آڈیو قرآن مجمع ملک فہد شائع کر چکاہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اب کیا اسے جہالت سمجھا جائے یا تجاہل عارفانہ کہ دوست حرمین کی بات کرتے ہیں لیکن مسئلہ زیر بحث میں مفتیا ن حرم کے موقف سے نابلدہیں؟ بتقضائے حسن ظن ہم اسے جہالت سے ہی تعبیر کرتے ہیں ورنہ صورت ثانوی صریحاً بد دیانتی کے زمرے میں آتی ہے جس کا ارتکاب ہم ایسی ہستیوں سے بعید از امکان سمجھتے ہیں۔
جب اہل حرمین بھی اس مسئلہ میں یہی موقف رکھتے کہ قراء ات متواترہ قرآن ہیں تو کیا ہم گروہ مذکور کے ’اہل علم و دانش ‘ سے امید رکھیں کہ وہ اب مزید دھکاکرنے کی بجائے اپنی رائے پر از سر نو غور کریں گے؟
اس مسئلے کو ایک دوسرے زاویے سے یوں سمجھئے کہ روایت حفص ،جس کی پاکستان میں تلاوت کی جاتی ہے،کے علاوہ دیگر متواتر روایات کو قرآن کیوں تسلیم نہیں کیا جا سکتا؟ اگرروایت حفص کے علاوہ دیگر روایات کے قرآن نہ ہونے کی وجہ ان روایات میں مصاحف کے قلمی یا مطبوع نسخوں کی سندکا رسول اللہﷺ سے عدم اتصال ہے توروایت حفص کے قلمی یا مطبوع نسخوں کی سند ذرا رسول اللہﷺ تک پہنچادیجیے تاکہ روایت حفص کو امتیازی حیثیت دی جاسکے۔ اگرایسا ہونا نا ممکن ہے او ر روایت حفص صرف تعامل اُمت سے ثابت ہوجاتی ہے تو راہنمائی فرما یئے کہ کیا اُمت مسلمہ صرف برصغیر یا ان ممالک کا نام ہے جہاں روایت حفص رائج ہے؟ اوراگر امت مسلمہ تمام دنیا کے مسلمانوں کا نام ہے تو جیسے روایت حفص بعض خطوں کے تعامل سے ثابت ہو جاتی ہے، اسی طرح دیگر مغربی و افریقی ممالک کے مسلمانوں کے تعامل کو مان کر دیگر روایات کیوں ثابت نہیں ہو تیں؟
 
Top