• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تحفظِ قراء ات اور مجلہ ’رشد ‘

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
بات تو حقیقت پسند ہونے اور دلائل و حقائق کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کی ہے ورنہ تو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہم تب تک نہیں مانیں گے جب تک فرشتے آکر یہ گواہی نہ دیں کہ قراء ات متنوع واقعی قرآن ہیں۔اور امر واقعہ یہ ہے کہ ایسا معجز ہ تو اپنی رسالت منوانے کے لئے آپﷺبھی دکھانے سے عاجز و قاصررہے تھے جب کفار نے یہ مطالبہ کیا کہ’’وَقَالُوا لَنْ نُؤمِنَ لَکَ حَتّٰی تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ یَنبُوعًا ٭ أَوْ تَکُونَ لَکَ جَنَّۃٌ مِّن نَّخِیلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْاَنْہٰرَ خِلٰلَہَا تَفْجِیرًا ٭ اَو تُسْقِطَ السَّمَآئَ کَمَا زَعَمْتَ عَلَیْنَا کِسَفًا اَوْ تَاْتِیَ بِاللّٰہِ وَالْمَلٰٓئِکَۃِ قَبِیلًا ‘‘
’’اور کہنے لگے ہم آپ پر ایمان نہ لائیں گے جب تک آپ ہمارے لیے زمین سے چشمہ نہ جاری کر دیں۔یا آپ کا کھجوروں اور انگوروں کا باغ ہو تو آپ اس میں جا بجا نہریں بہا دیں ۔یا آپ آسمان کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے ہم پر گرا دیں جیسے آپ کا دعویٰ ہے یا اللہ اور فرشتوں کوسامنے لے آئیں‘‘ (الاسراء :۹۰،۹۲)
تو ایسی صورت میں ہم بھي معذور ہیں کہ دلیل و براہان سے سمجھانے کی کو شش کریں اور ویسے بھی اس موضوع پر اتنی ضخیم اور دلائل وبراہین سے مزین دو اشاعتوں کے باوجود اگر کوئی میں نہ مانوں کی ضد پر قائم رہے تو پھر ہم دل سے سمجھتے ہیں کہ اس سے بڑا ’محقق کوئی نہیں ہے۔ایسی صورت کا سامنا ہمیں حالیہ دنوں میں اس وقت کرنا پڑا جب آزاد کشمیر سے ایسے ہی ایک ’محقق ‘سید سلیم شاہ صاحب سابق عمید کلیۃ الدعوۃ آزادکشمیر کی ’علمی ‘تحر یر ہمار ے سامنے آئی۔ موصوف نے بھر پور محنت سے رشد حصہ اوّل کو حرف بحرف پڑھا اور قارئین کو یہ نتائج دیئے کہ مذکورہ شمارہ تضادات کا مجموعہ ہے۔ نام کے ساتھ لگے لاحقے ،سابقے یہ تاثر دے رہے تھے کہ موصوف علمی دنیا کے بحربیکراں ہوں گے، لیکن انداز تحقیق اور اسلوب تحریر کی چالاکیوں سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جناب کے اپنے سابقے ، لاحقے بھی ہاتھ باندھے یوں عرض کناں ہیں کہ حضرت! اگر معیار تحقیق یہی ہے توخواہ مخواہ ہماری حرمت پامال کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟یہ کام تو صرف سلیم لکھنے سے بھی چل سکتا تھا۔حالانکہ یہ محقق بدقسمتی سے جنہیں رُشد کے تضادات بتلا رہے ہیں وہ اصلاً جناب کے ذہنی انتشار ، متعصب نگاہ اورعلم قراء ات سے لاعلمی کے دلائل اور نتائج ہیں۔ ہمارا یہ سوئے ظن بے سبب نہیں ہے۔ہم ایسا ہر گز نہ سوچتے اگرجناب نے اس شمارے میں موجود قراء ات متنوعہ پر اجماع امت کے دلائل، چاروں مکاتب فکر کے نمائندہ علماء کے فتاویٰ جات اور ثبوت قراء ات پربیسیوں صحیح احادیث پر ذرا سی بھی نظر دوڑائی ہوتی۔ کیا ایک حقیقی محقق کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ اساسی دلائل سے چشم پوشی کرتے ہوئے نتائج تحقیق عوام الناس کے سامنے لائے؟ اگریہی حقیقی معیار تحقیق ہے تو پھرتعصب کس جانور کا نام ہے جس کو لوگ نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اہل علم کے ہاں جسے گالی کا درجہ حاصل ہے؟
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ہمارا سیدزادے کے لیے مشورہ ہے کہ آپ نے جس انداز سے رُشد کا مطالعہ کیاہے اگر اس سے سودرجہ عامیانہ انداز میں مسٹرپرویز کے لٹریچر کو ملاحظہ فرما لیں تو جناب کو اس سے بھی اچھے نتائج مل سکتے ہیں۔ ہم امید کریں گے کہ آنجناب ایک غیر جانبدار محقق ہونے کے ناطے ہمارا مشورہ ماننے میں تامل نہیں کریں گے اور اگر نتائج حاصل کرنے میں کوئی دشواری پیش آئے تو جناب ڈاکٹر محمد دین قاسمی کی کتاب ’’جناب غلام احمد پرویز اپنے الفاظ کے آئینے میں ٗ‘سے استفادہ کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ ہمیں آنجناب کے تحقیقی نتائج کا انتظار رہے گا۔
ہمارے خیال میں جناب اس اسلوب تحقیق کی طرف خود مائل نہیں ہوئے بلکہ اس کا سبب ماہنامہ رشد کے قراء ات نمبرز میں موجود تمام مضامین کا علمی معیار اور اور دلائل سے مزین ہونا تھا۔ جب جناب محقق خود کوئی علمی رائے پیش کرنے سے قاصر رہے تو رشد کے تضادات ڈھو نڈنے بیٹھ گے اور ہمیںفاضل محقق جیسے عقابی نگاہ رکھنے والے ناقدین کے بارے میں علم تھا کہ وہ موجود ہیں۔لیکن تحقیق کے میدان میں ان کی فضیلت کا علم اب ہوا کہ یہ کسی بھی عبارت کا مفہوم اپنے موقف اور مخصوص مقاصد کے مطابق بدلنے میں یکتائے روزگار ہیں،اصل مدعا سے توجہ ہٹانے میں قدرت کاملۂ رکھتے ہیں،ان کے عزم و ہمت کی یہ شان ہے کہ جب وہ نقد کی ٹھان لیں تو اپنی علمی کم مائیگی کو بھی آڑ نہیں بننے دیتے ،یہ پہلے خود پروپیگنڈے کا طوفان بپا کرتے ہیں پھر انتہائی معصومیت اورحکمت و دانائی سے اس طوفان میں گری اسلام کی نائو کوباہر نکال کر شجاعت کی داستانیں رقم کرتے ہوئے داد تحسین وصول کرتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
بہر صورت یہ تو علمی اسلوب کی بات تھی ہمارے سامنے تو ایسے ناقدین کی تحریریں بھی آئیں جو اس قدر بوکھلائے ہیں کہ حواس باختہ ہو کر آئمہ حدیث پر دشنام درازی شروع کر دی اور یہ بد قسمتی سے تمام تمام کے پر ویزی ہیں ہم ان میں سے ایک کو بطور مثال قارئین کے سامنے رکھتے ہیں :
سندھ سے ایک مجہول پرویزی شخص نے ’قرآن مظلوم کی فریاد‘کے نام سے ’رُشد قراء ات نمبر‘ پر ایک تنقید ی کتابچہ لکھا ہے ۔اس شخص کا علمی محاکمہ کرنے کی بجائے ہم صرف اس کی تحریر کے چند نمونے پیش کریں گے جس سے اس کی خباثت اُبھر کر سامنے آجائے گی اور قارئین محسوس کریں گے کہ واقعی یہ شخص اس قرآنی آیت ’’وَإِذَا خَاطَبَہُمُ الْجٰھِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا‘‘(الفرقان:۶۳) ’’اور جب ان سے جاہل مخاطب ہوتے ہیں (جواباً) ان کو سلام کہتے ہیں۔‘‘ کا مصداق ہونے کے ناطے اس قابل نہیں کہ اس کی تحریر کا علمی جواب دے کر وقت ضائع کیا جاسکے۔ پھربھی اگر موصوف یا اس کے نظریاتی بھائی اِصرار کریں کہ نہیں جناب تحریر بڑی مدلل ہے، تو چونکہ موصوف نے اِنکارِ قراء ات کی بنیاد اِنکارِ حدیث کوبنایا ہے اس لئے ماہنامہ ’محدث‘ کافتنہ اِنکارِ حدیث نمبر شافی ہوگا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
چند نمونے ملاحظہ فرمائیے :
حدیث سبعہ اَحرف پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے:
’’سو ایسی حدیثیں اِمام زہری او رامام بخاری کے جھوٹ نہ ہوں گی تو او رکیا ہوں گی۔‘‘ (قرآن مظلوم کی فریاد:ص۴۴)
قرآن کریم میں بیان کی گئی اَمثلہ کے کافی ہونے کا ذکر کرتے ہوئے ،کہتا ہے:
’’اب کسی کو اس قرآن سے باہر بخاری، مسلم، ترمذی یا اور کسی خرافاتی رِوایات والے اَسکول کی طرف قرآن فہمی کے لئے جانا نہیں ہوگا۔‘‘ (حوالہ مذکور: ص۳۸)
قرآن کریم پر اَحادیث سے اِضافہ کے ضمن میں لکھتا ہے:
لیکن دیوبند کے فاضل مولانا قاری اعظمی صاحب صرف اس پر خوش ہوگئے کہ من أم کے اضافہ سے (مشہور دشمن قرآن) امام شافعی جو علم حدیث کیلئے وحی غیر متلو کی اصطلاح ایجاد کرنے والا ہے، اس کا مؤقف فقہی سچا ہوگیا ( ص: ۲۵)
قران کریم اور علم حدیث کا ٹکراؤ بیان کرتے ہوئے کہتا ہے :
’’میں یہاں قارئین کے لئے قرآن اور مروّجہ علم حدیث کے اَندر نظریاتی ٹکراؤ کی مثال بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ قرآن میں رب پاک نے فتنہ کے لئے فرمایا کہ ان فتنہ باز کفار کو اتنے تک قتل کرو: ’’وَقٰتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ‘‘ (البقرۃ:۱۹۳) اتنے تک قتل جو فتنہ کی جڑ اکھڑ جائے۔ پھر حدیث کی کتاب بخاری میں کتاب الایمان میں ایک باب ہے : ’من الدین الفرار من الفتنۃ‘ یعنی فتنوں سے بھاگ کر کہیں دور نکل جانا یہ دین میں سے ہے۔ اسی باب میں جو حدیث لائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ: قال رسول اﷲ ! ’’یُوْشِکُ أَنْ یَّکُوْنَ خَیْرَ مَالِ الْمُسْلِمِ غَنَمٌ یَّتْبَعُ بِھَا شَعَفَ الْجِبَالِ وَمَوَاقِعَ الْقَطْرِ یَفِرُّ بِدِیْنِہٖ مِنَ الْفِتَنِ‘‘۔ (صحیح البخاری: ۱۸‘ سنن ابن ماجہ: ۳۹۷۰) یعنی ’’ایسا وقت قریب ہے جو مسلم آدمی کا اچھا مال بکریاں ہوں جنہیں وہ فتنہ کے دنوں میں جبل کی چوٹیوں یا بارش کے چراگاہوں میں لے کر جاکر رہائش اِختیار کرے فتنوں سے بچنے کے لئے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دیکھا جناب قارئین کرام! قرآن نے تو حکم دیا کہ فتنہ کے زمانے میں فتنہ باز لوگوں کو اتنے تک قتل کرو جو ان کی فتنہ انگیزی ختم ہو جائے اور علم حدیث کہتا ہے کہ فتنہ کے دنوں میں بکریاں لے کر پہاڑوں اور چراگاہوں میں چلے جاؤ (تو پیچھے تمہارے مُلک او رشہروں پر حدیث ساز امام بخاری کے رشتہ دار منگول اور تاتاری قابض ہوجائیں جو ہوکر بھی رہے۔) (حوالہ مذکور:ص۱۳)
یہ شخص اس کتابچے میںایک بحث کا عنوان یوں دیتا ہے:
’’امام مسلم و امام بخاری کی جنابِ رسول اللہﷺ کو گالیں‘‘ (کیا علم حدیث قرآن کی تفسیر کرسکتا ہے: ص۱۳۷)
آئمہ حدیث پر تبرا بھیج کر آسمان پر تھوکنے کی کوشش کرنے والالعنتی کردار یہ شخص وہ ہے جس نے ’رُشد‘ قراء ات نمبر پر نقد کیا ہے۔
یہ تو ہمیں اندازہ تھا کہ دلائل وبراہین سے تہی دامن ان منکرین حدیث سے کوئی بات بن نہ پائے گی لیکن بخدا ہمیں اس بات کا خیال تک نہ تھا کہ یہ لوگ اس اخلاقی گراوٹ کا مظاہرہ بھی کر سکتے ہیں۔ہمیں اس گروہ ملعونہ کی اصلیت طشت ازبام نہ کرنا ہوتی تو ہم کبھی بھی ان عظیم ہستیوں کے بارے میں استعمال کی گئی بازاری زبان کو رشد کے صفحات پر نہ لاتے ۔بلکہ اسے دیکھتے ہی یہ کہتے ہوئے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتے ہٰذا بہتان عظیم ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ہمیں اندازہ ہے کہ منکرین اس چھچھورے پن کا شکار صرف اسلئے ہوئے کہ محدثین کی کوششوں سے حدیث کا ذخیرہ امت میں محفوظ حالت میں پہنچا ہے اور یہ احادیث اس گروہ کی قرآنی چکر بازیوں کے سامنے مضبوط چٹان ہیں۔اس لیے ہر وہ کاوش جو احادیث کی حجیت پر منتج ہو ان کی بوکھلاہٹ میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔حالانکہ جب رشد قراء ات نمبرز کی اشاعت ہوئی تو منکرین کے ایک ماہنامے نے اپنے ہمنوائوں کو خصوصی طور پر تلقین کی تھی کہ ’’یہ جذبات سے زیادہ علمی نوعیت کا کام ہے اہل علم و دانش سے اپیل ہے کہ فکری کاوشوں سے اپنا حصہ ڈالیں اور قرآن کے خلاف اس عالمی و گھناؤنی سازش کو ناکام بنا دیں‘‘۔ (ماہنامہ بلاغ القرآن ،نومبر۲۰۱۰ء،ص ۱۳)
لیکن ’اہل علم ‘نے علم و فکر کے نام پرجس علمی و فکری افلاس کا ثبوت دیاہے اس کے جگرپاش مناظر قارئین ملاحظہ فرما چکے ہیں ۔ہمارا یقین محکم ہے کہ ایسی شر انگیز حرکتیں کسی سنجیدہ علمی کا م میں رکاوٹ نہیں بن سکتیں یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توفیق خاص سے ابھی ان خصوصی اِشاعتوں کے دو حصے منظر عام پر آئے تھے کہ عوام الناس ، طلباء اور اہل علم نے ہماری توقعات سے بڑھ کر اس میں دلچسپی لی۔ مختلف مدارس نے دونوں حصے امتحانات کے بعد طلباء کو بطور اِنعام دیئے۔ لوگوں نے باہمی تحائف دینے کے لئے ان کاانتخاب کیا۔مختلف مدارس، کالجز اور یونیورسٹیوں کی لائبریریوں کے لئے خصوصی طور پر ان کی فرمائش کی گئی ۔ اوریہ سلسلہ ملک و بیرون ملک ابھی تک جاری ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اسی طرح اہل علم نے بھی علم قراء ات کو دلچسپی کا موضوع بناتے ہوئے اس پر قلم اُٹھایا جو اس اِشاعت کے خصوصی مقاصد میں شامل تھا، یہی وجہ ہے کہ تیسرے حصے کے لئے ہمارے پاس مختلف اہل علم کے سو کے قریب مضامین جمع ہوئے جن میں سے، بڑھتی ہوئی ضخامت کے پیش نظر ہم تقریباً ۶۵ مضامین اس حصے میں شامل کیے ہیں جبکہ دیگر مضامین اِدارہ کی ویب سائٹ kitabosunnat.com www. پر آن لائن کردیئے جائیں گے۔
منکرین حدیث اور منکرین قرآن پر یہ واضح رہنا چاہیے کہ ماہنامہ رشد کے اہداف ومقاصد میں یہ بات شامل ہے کہ قراء ات قرآنیہ اور رسول اللہﷺ کے فرامین و سنن کی حجیت کو ثابت کرنا تاکہ فتنہ انکار قراء ات متواترہ اور فتنہ استخفاف وانکار حدیث کی بیخ کنی کی جاسکے۔ چنانچہ ان مقاصد کے حصول تک ماہنامہ رشد علمی وفکری میدان میں اپنا کردار ادا کرتا رہے گا جسے کسی فتنہ باز کا فتنہ،کسی شر پسند کا پراپیگنڈہ،کسی جاہل کی دشنام طرازی اور کسی نام نہاد ’مفتی‘ کا فتوی روک نہیں پائے گا۔ ہم اہل علم ودانش اور مفتیان عزام کو اپنی مشن کا ساتھی سمجھتے ہیں اور ان کا دل سے احترام کرتے ہیں لیکن ایسے کسی بھی نام نہاد مفتی کے احترام سے معذور ہیں جسے احادیث ِنبوی کا احترام نہ ہو، ہماری محبت بھی اللہ کے لیے ہے اور بغض بھی اللہ کے لیے۔ بخدا جب ہم نے کراچی سے مفتی محمد طاہر مکی کے فتویٰ کے مندرجات پر نظر ڈالی تو مفتی صاحب کے ’رسوخ علمی‘ نے ہمیں حیران کر دیا (مفتی صاحب کی بنیادی علمی غلطیوں کو جاننے کے لیے دیکھئے فہد اللہ مراد کا مضمون ’جمع کتابی کے متعلق توضیحات‘) اور ذاکر حسین کے سوال اور مفتی صاحب کے جواب نے ہمارا ذہن بچوں کے اس کھیل کی طرف موڑ دیا جس میں بچے یہ کہہ کر کھیلنا شروع کرتے ہیں کہ تم بادشاہ اور میں وزیر۔ ہم شعوری طور پر مفتی صاحب کو بادشاہ ہی سمجھتے ہیں، اب فتویٰ فتویٰ کھیلنے کی اس طفلانہ روش کے بعد اگر موصوف یہ سمجھ بیٹھیں کہ انہوں نے علم وتحقیق کے میدان میں نمایاں کارنامہ سر انجام دیا ہے تو یہ جناب کا خود کے بارے میں اپنا فیصلہ تو ہو سکتا ہے کسی اہل علم کا نہیں۔
ہماری آج بھی دعوت عام ہے کہ ُرشد حصہ سوم آپ کے ہاتھوں میں ہے ،اتریے دلائل وبراہین کے میدان میں مجلہ ہذا کے مضامین پر علمی رائے کا اظہار فرمائیے، ہمیں خوشی ہو گی۔
ہم اُمید رکھتے ہیں کہ اہل علم ودانش اب کی بار علم ودانش کو بروئے کار لاتے ہوئے دشنام طرازی اور جذباتیت کی فضا پیدا کرنے کی بجائے مجلہ ہذا پر علمی رائے کا اظہار فرمائیں گے۔ہمیں انتظار رہے گا۔
حافظ نعیم الرحمن ناصف
(فاضل کلیۃالشریعۃ، رُکن مجلس التحقیق الاسلامی)​

٭۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔٭
 
Top