• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا ۔۔ یا نبی کریم ﷺ کا نور

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,426
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
190
کتبہ: حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
تحقیق الحدیث
سنن ترمذی
( 2155) والی یہ روایت عبدالواحد سُلیم المالکی البصری کی وجہ سے ضعیف ہے ۔
◄ عبدالواحد مذکور کے بارے میں حافظ ابن حجر لکھتے ہیں : ضعیف
( تقریب التہذیب : 4241)
لیکن اس روایت کے متن میں عبدالواحد منفرد نہیں ہے ، بلکہ اس کے شواہد مسند أحمد ( 317/5 ح 2705) کتاب السنۃ لا بن ابی عاصم ( 102-104 ، 106-108) روضۃ العقلاء لا بن حبان ( ص 157) سنن ابی داود ( 4700) اور مسند ابی یعلیٰ ( 2329) وغیرہ میں موجود ہیں ۔ ان شواہد میں بہترین وہ روایت ہے جسے ابویعلیٰ الموصلی نے سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«إِنَّ أَوَّلَ شَيْءٍ خَلْقَهُ اللَّهُ الْقَلَمَ وَأَمَرَهُ فَكَتَبَ كُلَّ شَيْءٍ» بے شک اللہ نے جو پہلی چیز پیدا کی وہ قلم ہے اور اسے حکم دیا تو اس نے ہر چیز کو لکھ لیا ۔ ( مسند ابی یعلیٰ ج 4 ص 217 ح 2329 و سندہ صحیح )
ان شواہد کے ساتھ ترمذی کی مذکورہ بالا روایت بھی حسن یا صحیح ہے ۔ والحمدللہ ۔
فقہ الحدیث
➊ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات میں سب سے پہلے قلم پیدا کیا ہے ۔
➋ جو لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یا آپ کے نور کو پیدا کیا ، ان لوگوں کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ ان کا عقیدہ صحیح حدیث کے خلاف ہے ۔
◄ شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
«وهو من الأدلة الظاهرة علي بطلان الحديث المشهور ( (أول ما خلق الله نور نبيك يا جابر ! ) ) وقد جهدت في أن أقف عليٰ سنده فلم يتيسر لي ذلك»
یہ حدیث ان واضح دلیلوں میں سے ہے جس سے (جہلاء کے درمیان) مشہور حدیث ” اے جابر ! سب سے پہلے اللہ نے تیرے نبی کا نور پیدا کیا ۔ “ کے باطل ہونے کا ثبوت ملتا ہے ۔ میں نے اس (باطل) روایت کی سند تلاش کرنے بہت کوشش کی ہے لیکن مجھے اسکی کوئی سند نہیں ملی ۔ ( التعلیق علی المشکواۃ ج 1 ص 34 تحت ح 94)
◄ اس بے اصل اور من گھڑت روایت کا وجود شیعوں کی من گھڑت کتاب اصول کافی ( ج 1 ص 442 طبع دارالکتب الاسلامیہ تہران ، ایران ) میں موضوع سند کے ساتھ ملتا ہے ۔
اللہ نے سب سے پہلے قلم پید کیا
فائدہ :
صحیح احادیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم پیدا کیا ۔ بعض لوگ ان احادیث صحیحہ کے برعکس یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ : ” اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نور پیدا کیا اور پھر اس نور سے ساری کائنات بنائی ۔ “
اس عقیدے پر کوئی دلیل قرآن ، حدیث ، اجماع یا آثار سلف صالحین میں موجود نہیں ہے اور اس سلسلے میں عباس رضوی وغیرہ کذابین نے پندرھویں ہجری میں امام عبدالرزاق کی طرف منسوب
«الجزء المفقود» کے نام سے جو کتاب پیش کی ہے ، یہ ساری کتاب من گھڑت اور خود ساختہ ہے ۔ تفصیل کے لئے دیکھئے کتاب : جعلی جزء کی کہانی اور علمائے ربانی یعنی «الجزء المفقود» یا «الجزء المصنوع» ۔ یہ کتاب ایک سو بیس(120) صفحات پر مشتمل ہے اور مکتبہ اسلامیہ لاہور / فیصل آباد ے مطبوع ہے ۔
◄ بطور رد عرض ہے کہ أحمد رضا خان بریلوی نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہا:
”ان کی نبوّت ان کی ابوّت ہے سب کو عام
اُمّ البشر عروس انہیں کے پسر کی ہے ۔ “
( حدائق بخشش حصہ اول ص 75)
اس کے حاشیے میں لکھا ہوا ہے کہ ” علماء فرماتے ہیں کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمام عالم کے پدر معنوی ہیں کہ سب کچھ انہیں کے نور سے پیدا ہوا ۔ اسی لئے حضور کا نام پاک ابوالارواح ہے ۔ تو آدم علیہ السلام اگرچہ صورت میں حضور کے باپ ہیں ۔ مگر حقیقت میں وہ بھی حضور کے بیٹے ہیں ۔ تو اُمّ البشر یعنی سیدنا حوا حضور ہی کے پسر آدم علیہ السلامکی عروس ہیں ۔ علیہم الصلوٰۃ و السلام ۔ “ ( حاشیہ نمبر 2 حدائق بخشش ص 75)
عبارت مذکورہ میں أحمد رضا خان نے کئی جھوٹ بولے : ہیں ۔ مثلاً :
➊ آدم علیہ السلام حقیقت میں نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ہیں ۔
➋ سیدہ حوا علیہا السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے آدم علیہ السلام کی دلہن
( یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہو ) ہیں ۔
➌ یہ سب کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے پیدا ہوا ہے ۔

یہ تینوں باتیں صریح جھوٹ ہیں اور سیدنا آدم علیہ السلام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹا کہنا بہت بڑا جھوٹ اور صریح گستاخی ہے ۔
احمد رضا خان نے مزید کہا :
” ظاہر میں میرےپھول حقیقت میں میرے نخل
اس گل کی یاد میں یہ صدا ابو البشر کی ہے ۔ “
( حدائق بخشش ص 75)
◄ اسکی تشریح میں اسی صفحے پر لکھا ہوا ہے کہ ” آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام جب حضور کو یاد کرتے تو یوں فرماتے «يا ابني صورة و ابائي معني »اے ظاہر میں میرے بیٹے اور حقیقت میں میرے باپ ۔ “ ( حاشیہ نمبر 3 حدائق بخشش ص 75)
◄ اس عبارت میں سیدنا آدم علیہ السلام پر صریح جھوٹ اور بہتان باندھا گیا ہے کیونکہ
«يا ابني صورة و ابائي معني » کے الفاظ ان سے یقیناً ثابت نہیں بلکہ اس کے سراسر برعکس آدم علیہ السلام نے معراج والی رات نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے وقت فرمایا : «مرحبا بالنبي الصالح والابن الصالح» نیک نبی اور نیک بیٹے کو خوش آمدید ! ( صحیح بخاری 349 ، صحیح مسلم 163، دارالسلام : 415)
◄ سیدنا آدم علیہ السلام نے سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا بیٹا کہا اور اس کے مقابلے میں احمد رضا خان نے جھوٹی اور بے اصل روایت کے ذریعے سے یہ دعویٰ کردیا کہ آدم علیہ السلام تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ہیں ۔ «نعوذ باللہ من ھذا الکفر » ۔
مصنف عبدالرزاق کے الجزء المفقود کی
”دستیابی“
ملاحظہ کیجئے : http://magazine.mohaddis.com/shumara/93-may2006/1808-musanif-abdul-razzaq-k-juz-al-mafqood-ki-dastiyabi
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
ـــــــــــــــــــــــــــــ
اوپر محترم بھائی @مظاہر امیر صاحب نے جس حدیث کی تحقیق پیش فرمائی ہے وہ مکمل حدیث درج ذیل ہے ؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام ترمذیؒ فرماتے ہیں :
حدثنا يحيى بن موسى، حدثنا ابو داود الطيالسي، حدثنا عبد الواحد بن سليم، قال:‏‏‏‏ قدمت مكة فلقيت عطاء بن ابي رباح، فقلت له:‏‏‏‏ يا ابا محمد، ‏‏‏‏‏‏إن اهل البصرة يقولون في القدر، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ يا بني، ‏‏‏‏‏‏اتقرا القرآن؟ قلت:‏‏‏‏ نعم، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ فاقرإ الزخرف، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ فقرات حم ‏‏‏‏ 1 ‏‏‏‏ والكتاب المبين ‏‏‏‏ 2 ‏‏‏‏ إنا جعلناه قرءانا عربيا لعلكم تعقلون ‏‏‏‏ 3 ‏‏‏‏ وإنه في ام الكتاب لدينا لعلي حكيم ‏‏‏‏ 4 ‏‏‏‏ سورة الزخرف آية 1-4، ‏‏‏‏‏‏فقال:‏‏‏‏ اتدري ما ام الكتاب؟ قلت:‏‏‏‏ الله ورسوله اعلم، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ فإنه كتاب كتبه الله قبل ان يخلق السماوات، ‏‏‏‏‏‏وقبل ان يخلق الارض فيه إن فرعون من اهل النار وفيه تبت يدا ابي لهب وتب، ‏‏‏‏‏‏قال عطاء:‏‏‏‏ فلقيت الوليد بن عبادة بن الصامت صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏فسالته ما كان وصية ابيك عند الموت، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ دعاني ابي، فقال لي:‏‏‏‏ يا بني، ‏‏‏‏‏‏اتق الله واعلم انك لن تتقي الله حتى تؤمن بالله، ‏‏‏‏‏‏وتؤمن بالقدر كله خيره وشره، ‏‏‏‏‏‏فإن مت على غير هذا دخلت النار، ‏‏‏‏‏‏إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:‏‏‏‏ " إن اول ما خلق الله القلم، ‏‏‏‏‏‏فقال:‏‏‏‏ اكتب، ‏‏‏‏‏‏فقال:‏‏‏‏ ما اكتب؟ قال:‏‏‏‏ اكتب القدر ما كان، ‏‏‏‏‏‏وما هو كائن إلى الابد "،
قال ابو عيسى:‏‏‏‏ وهذا حديث غريب من هذا الوجه.

عبدالواحد بن سلیم کہتے ہیں کہ میں مکہ گیا تو عطاء بن ابی رباح سے ملاقات کی اور ان سے کہا: ابو محمد! بصرہ والے تقدیر کے سلسلے میں (برسبیل انکار) کچھ گفتگو کرتے ہیں، انہوں نے کہا: بیٹے! کیا تم قرآن پڑھتے ہو؟ میں نے کہا: ہاں، انہوں نے کہا: سورۃ الزخرف پڑھو، میں نے پڑھا: «حم والكتاب المبين إنا جعلناه قرآنا عربيا لعلكم تعقلون وإنه في أم الكتاب لدينا لعلي حكيم» ”حم، قسم ہے اس واضح کتاب کی، ہم نے اس کو عربی زبان کا قرآن بنایا ہے کہ تم سمجھ لو، یقیناً یہ لوح محفوظ میں ہے، اور ہمارے نزدیک بلند مرتبہ حکمت والی ہے“ (الزخرف: ۱-۴) پڑھی، انہوں نے کہا: جانتے ہو ام الکتاب کیا ہے؟ میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، انہوں نے کہا: وہ ایک کتاب ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کے پیدا کرنے سے پہلے لکھا ہے، اس میں یہ لکھا ہوا ہے کہ فرعون جہنمی ہے اور اس میں «تبت يدا أبي لهب وتب» ”ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے، اور وہ (خود) ہلاک ہو گیا“ (تبت: ۱) بھی لکھا ہوا ہے۔ عطاء کہتے ہیں: پھر میں ولید بن عبادہ بن صامت رضی الله عنہ سے ملا (ولید کے والد عبادہ بن صامت صحابی رسول تھے) اور ان سے سوال کیا: مرتے وقت آپ کے والد کی کیا وصیت تھی؟ کہا: میرے والد نے مجھے بلایا اور کہا: بیٹے! اللہ سے ڈرو اور یہ جان لو کہ تم اللہ سے ہرگز نہیں ڈر سکتے جب تک تم اللہ پر اور تقدیر کی اچھائی اور برائی پر ایمان نہ لاؤ۔ اگر اس کے سوا دوسرے عقیدہ پر تمہاری موت آئے گی تو جہنم میں جاؤ گے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا“ اور فرمایا: ”لکھو“، قلم نے عرض کیا: کیا لکھوں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”تقدیر لکھو جو کچھ ہو چکا ہے اور جو ہمیشہ تک ہونے والا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے غریب ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (133) ، تخريج الطحاوية (271) ، المشكاة (94) ، الظلال (102 - 105)
علامہ ناصر الدین الالبانیؒ نے اس حدیث کو اپنی چار کتابوں میں صحیح کہا ہے
(1) سلسلۃ الصحیحہ (2) تخریج شرح عقیدۃ الطحاویہ (3) تحقیق المشکاۃ (4) ظلال الجنة في تخريج السنة (102 - 105

قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
(2155) إسناده ضعيف / سيأتي 3319 ¤ عبدالواحد بن سليم ضعيف (تق: 4241) وتابعه عبدالله بن السائب (ثقه) عن عطاء على حديث الوليد بن عبادة نحو المعني (الشريعة للآجري :439) و رواه أيوب بن زياد الحمصي عن عبادة بن الوليد عن أبيه نحو المعني (أحمد 317/5) ¤ قلت :حديث عطاء بن أبى رباح: ”فلقيت الوليد بن عبادة ۔۔۔ إلي الأبد“ صحيح بالشواھد و حديث عبدالواحد ابن سليم : ”قد مت مكة . . . إلي أبى لھب وتب“ ضعيف
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
محدث میگزین ،شمارہ 160 ، دسمبر1987ء ،میں مشہور محقق عالم جناب غازی عزیر کا تحقیقی مقالہ
اہل بدعت کی زبان پر عام روایت (لو لاک لما خلقت الافلاک ) کے متعلق شائع ہوا ؛ اس میں ضمناً (اول ما خلق اللہ نوری ۔۔ سب سے پہلے اللہ نے میرا نور پیدا فرمایا ) روایت کے متعلق بھی اہل علم کا تبصرہ ذکر کیا گیا ہے ،جو درج ذیل ہے :
ــــــــــــــــــــــــــ
بیان کیا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(اول ماخلق الله نورى)
"سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے میرے نور کو پیدا کیا۔"
اس روایت نے قصاص و واعظین کی تقاریر، اور سیرت نگاروں کی کتب میں بہت کثرت سے بار پایا ہے۔ چنانچہ شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی مشہور تصنیف "المدارج النبوۃ" کے خود نوشت مقدمہ میں تحریر فرماتے ہیں:
"اب رہا یہ امر کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم صفت "اول" کیسے ہے؟ تو یہ اولیت اسی بناء پر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تخلیق موجودات میں سب سے اول ہے۔ چنانچہ حدیث شری میں ہے: "(اول ماخلق نورى)"۔
"اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے میرے نور کو وجود بخشا۔"
اور ڈاکٹر احسان اللہ استخری فرماتے ہیں:
"چنانچہ رسول فرمود: "(اول ماخلق الله نورى)"
"چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے میرا نور پیدا فرمایا۔"
علامہ سید سلیمان ندوی مرحوم اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں:
"(اول ماخلق الله نورى)" کی روایت عام طور سے زبانوں پر جاری ہے مگر اس روایت کا احادیث کے دفتر میں مجھے کہیں کوئی پتہ نہیں ملا۔"

علامہ جلال الدین عبدالرحمن السیوطی رحمۃ اللہ علیہ (م سئہ 911ھ) حدیث "(اول ماخلق الله العظيم)" کی شرح بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
"زین العرب نے شرح المصابیح میں لکھا ہے کہ یہ حدیث ان روایات سے متعارض ہے جن میں بیان کیا گیا ہے: "(ان اول ماخلق الله االعقل )" یا "(ان اول ماخلق الله نورى)" یا "( ان اول ماخلق الله االروح)" یا ( ان اول ماخلق الله االعرش)" روایات کے اس تعارض کو اس طرح رفیع کیا گیا ہے کہ ان میں مذخورہ اولیت سے مراد اضافی امور میں اولیت ہے۔ پس ان سب میں اول شئے جس کی تخلیق کا ذکر جنس کی قبیل سے کیا گیا ہے، وہ قلم ہے جو تمام اجسام سے قبل پیدا کیا گیا اور نبی علیہ الصلوۃ والسلام کا نور تمام انوار سے قبل پیدا کیا گیا۔ عقل والی حدیث اس پر محمول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اجسامِ لطیفہ میں سب سے پہلے جو چیز پیدا فرمائی وہ عقل تھی اور اجسامِ کثیفہ میں جو چیز سب سے پہلے پیدا کی گئی وہ عرش تھا، پس اس طرح ان میں کوئی تناقض باقی نہ رہتا۔۔۔لیکن میں کہتا ہوں کہ عقل والی حدیث موضوع ہے اور باقی تینوں روایات ان الفاظ کے ساتھ وارد ہی نہیں ہیں۔ لہذا تاویل سے مستغنی ہیں۔"

اور مولانا عبدالحئی لکھنوی مرحوم بیان کرتے ہیں:
"قصہ گو حضرات میں یہ حدیث (اول ماخلق الله نورى) بہت شہرت پا گئی ہے۔ حالانکہ یہ وہ حدیث ہے جو ان الفاظ کے ساتھ ثابت نہیں ہے۔ اس کے علاوہ جو دوسری روایات اس سلسلہ میں وارد ہیں، ان میں اس روایت سے معنوی موافقت و مطابقت پائی جاتی ہے۔"
تھوڑا آگے چل کر مولانا عبدالحئی مرحوم نے اس روایت کا ذکر بھی کر دیا ہے جس میں بقول اُن کے روایت زیرنظر کی معنوی موافقت و مطابقت پائی جاتی ہے، چنانچہ تحریر فرماتے ہیں:
"(اول ماخلق الله نورى)" کا لفظا عدمِ ثبوت لیکن معنا اس کا ورود جو قصاص و مذکرین اور عوام کی زبان پر مشہور ہے وہ دراصل اس حدیث کے سبب ہے: "(لولا لماخلقت الافلاك)" (یعنی اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے میں ان آسمانوں کو پیدا نہ کرتا)۔"
"(لولاك لما خلقت الافلاك)" والی اس روایت نے بھی بہت شہرت و مقبولیت پائی ہے۔ چنانچہ امام ربانی شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی فرماتے ہیں:
"وزمین و زمان را بطفیل او خلق فرمودہ است کما درد۔"
"زمین اور آسمان کو انہی صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل پیدا فرمایا ہے جیسا کہ احادیث میں وارد ہے۔"

اسی بات کو مولانا قاسم صاحب مرحوم (بانی دارالعلوم دیوبند) نے اپنے "قصائدِ قاسمی" کے قصیدہ بہاریہ میں اس طرح بیان کیا ہے
جو تو اسے نہ بناتا تو یہ سارے عالم کو
نصیب ہوتی نہ دولت وجود کی زنہار
طفیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہے کائنات کی ہستی
بجا ہے کہئے اگر تم مبداء الآثار
جلو میں تیرے سب آئے عدم سے تابوجود
قیامت آپ کی تھی دیکھئے تو اک رفتار
لگاتا ہاتھ نہ پتلے کو ابوالبشر کے خدا
اگر ظہور نہ ہوتا تمہارا آخر کار
شیخ شہاب الدین شاہ ولد شاہ علی شاہ (امام باطنیہ نزاریہ) فرماتے ہیں:
"فصل پنجم در معرفت: در حدیث قدسی می فرماید اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، اگر تو نبود دے آسمانہارا خلقت نمی کردم ودرجانے دیگر است اگر علی نبودے ترا خلقت کمی کردم۔"
"حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اگر تم نہ ہوتے تو میں ان آسمانوں کو پیدا نہ کرتا اور ایک دوسری جگہ ہے کہ اگر علی رضی اللہ عنہ نہ ہوتے تو میں تمہیں بھی پیدا نہ کرتا۔"

شیخ شہاب الدین شاہ نے "(لولاك لما خلقت الافلاك)" کے ساتھ ایک اور روایت "(لولا على لماخلقت )" بھی بیان کی ہے، جسے بعض صوفیاء اور علمائے شیعہ نے مزید شرح و بسط کے ساتھ اپنی مختلف تصانیف میں نقل کیا ہے۔ چنانچہ شلطان العارفین و (؟) الحاج ملا سلطان محمد گنا بادی سلطان علی شاہ مولا شہید فرماتے ہیں:
"قبولِ رسالت بیعت کردن است بر قبولِ احکامِ ظاہری و قبول ولایت بیعت کردن است برقبولِ احکامِ باطنی۔ اول را اسلام و ثانی را ایمان می گویند۔۔۔ و بملاحظہ حیثیت رسالت و ولایت نسبت بحدیث دادہ شد کہ (لالا على لما خلقتك)۔ "
"قبولِ رسالت کا معنی ہے احکامِ ظاہری کے قبول پر بیعت کرنا۔ اور قبولِ ولایت کا معنی ہے احکامِ باطنی کے قبول کرنے پر بیعت کرنا۔ پہلے کو اسلام اور دوسرے کو ایمان کہتے ہیں۔۔۔رسالت اور ولایت کی حیثیت کو مدِ نظر رکھ کر اس حدیث سے نسبت دی گئی ہے کہ اگر علی رضی اللہ عنہ پیدا نہ ہوتے تو اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ کو بھی پیدا نہ کرتا۔"
اور قاضی نور اللہ شوستری (مقتول بحکم جہانگیر سئہ 1019ھ) جہنم کی پیدائش کا سبب بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
(قال جبريل لو ان اهل الارض يحبون عليا كما تحبه اهل السماء ماخلق الله النار)
"جبریل علیہ السلام نے کہا، اگر اہل زمین بھی علی رضی اللہ عنہ سے ایسی ہی محبت کرتے جیسی کہ اہل آسمان ان سے محبت کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ دوزخ کو پیدا ہی نہ کرتا۔"
بہرحال حدیث "(لولاك لما خلقت الافلاك)" کے متعلق علامہ صنعانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ "موضوع" ہے۔ علامہ محمد بن علی الشوکانی رحمۃ اللہ علیہ (م سئہ 1250ھ) نے بھی علامہ صنعانی رحمۃ اللہ علیہ کا قول نقل کرتے ہوئے اسے "موضوع" قرار دیا ہے۔ علامہ طاہر پٹنی رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ محمد ناصر الدین الالبانی حفظہ اللہ بھی اسے "موضوع" قرار دیتے ہیں ، لیکن علامہ نور الدین علی بن محمد بن سلطان المشہور بملا علی القاری رحمۃ اللہ علیہ (م سئہ 1014ھ) فرماتے ہیں:
"صنعانی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ یہ موضوع ہے، ایسا ہی ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ سے "الخلاصہ" میں مذکور ہے۔ لیکن اس کے معنی صحیح ہیں۔ چنانچہ دیلمی رحمۃ اللہ علیہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مرفوعا روایت کی ہے: "(اتانى جبريل فقال قال الله يامحمد لالاك ماخلقت الجنة ولولاك ماخلقت النار)" (یعنی حضرت جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اور بیان کیا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو نہ میں جنت پیدا کرتا نہ دوزخ، اور ابن عساکر رحمۃ اللہ علیہ کی روایت میں ہے: "(لولالك لما خلقت الدنيا)" (یعنی اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو میں دنیا پیدا نہ کرتا)۔"

محدثِ عصر علامہ محمد ناصر الدین الالبانی حفظہ اللہ، اس حدیث کے معنی کی صحت بیان کیے جانے پر تنقید فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:
"اس کے معنیٰ کی صحت پر جزم اس وقت تک درست نہیں ہے جب تک کہ دیلمی رحمۃ اللہ علیہ سے جو روایت نقل کی گئی ہے وہ پایہ ثبوت کو نہ پہنچ جائے۔ مجھے اس کی سند کا کوئی علم نہیں ہو سکا لیکن مجھے اس کی تضعیف میں کوئی تردد نہیں ہے، کیونکہ اس کی صحت کا دعویٰ محتاجِ دلیل ہے۔ مزید اس میں دیلمی رحمۃ اللہ علیہ کا تفرد بھی پایا جاتا ہے۔ اور جہاں تک ابن عساکر رحمۃ اللہ علیہ کی روایت کا تعلق ہے، تو اس کی تخریج امام ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ نے سلمان کی ایک طویل مرفوع حدیث سے کی ہے اور اس پر یہ حکم لگایا ہے کہ یہ موضوع ہے۔ علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس کو موضوع بیان کیا ہے۔"
علامہ محمد ناصر الدین الالبانی حفظہ اللہ نے امام ابوالفرج عبدالرحمن بن علی بن الجوزی القرشی رحمۃ اللہ علیہ (م سئہ 597ھ) کی تخریج کردہ، سلمان کی جس طویل مرفوع حدیث کی طرف اوپر اشارہ فرمایا ہے، اسے علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے "اللآلی المصنوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ" میں اور علامہ ابن عراق الکنانی رحمۃ اللہ علیہ نے "تنزیۃ الشریعۃ المرفوعۃ عن الاخبار الشنیعۃ الموضوعۃ" میں بھی نقل کیا ہے، اس روایت میں جو الفاظ مروی ہیں وہ اس طرح ہیں:
(ولولاك يامحمد ماخلقت الدنيا)
اور اس کا طریق اسناد حسب ذیل ہے:
أَنبأَنَا عبد الْوَهَّاب بن الْمُبَارك وَمُحَمَّدُ بْنُ نَاصِرٍ الْحَافِظَانِ وَمَوْهُوبُ بْنُ أَحْمَدَ اللُّغَوِيُّ وَعُمَرُ بْنُ ظَفَرٍ الْمُقْرِيُّ وَعَبْدُ الْخَالِقِ بْنُ أَحْمَدَ الْيُوسِفِيُّ قَالُوا أَنْبَأَنَا أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ الْمُظَفَّرِ بْنِ سَوْسَنٍ قَالَ أَنْبَأَنَا أَبُو الْقَاسِمِ عبد الرحمن بن عبيد الله الْحُرَقِيُّ قَالَ أَنْبَأَنَا أَبُو أَحْمَدَ حَمْزَةُ بْنُ الْعَبَّاسِ الدَّهْقَانِ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى بْنِ حَيَّانَ
الْمَدَاينِيُّ الْمَعْرُوفُ بِأَبِي السُّكَيْنِ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ قَالَ أَنْبَأَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ الْكُوفِيُّ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْيَسَعِ عَنْ أَبِي الْعَبَّاسِ الضَّرِيرِ عَنِ الْخَلِيلِ بْنِ مُرَّةَ عَنْ يَحْيَى الْبَصْرِيِّ عَنْ زَاذَانَ عَنْ سَلْمَانَ قَالَ

اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد علامہ ابن الجوزی، علامہ سیوطی اور علامہ ابوالحسن علی بن محمد بن عراق الکنانی (م سئہ 963ھ) رحمہم اللہ فرماتے ہیں:
"یہ حدیث بلاشک و شبہ موضوع ہے، اس کی اسناد میں مجہول اور ضعفاء موجود ہیں۔"
آگے چل کر علامہ ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ نے ان ضعفاء کی خود نشاندہی بھی فرما دی ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
"ضعفاء میں ابوالسکین اور ابراہیم بن الیسع ہیں۔"
امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ابوسکین "ضعیف" ہے۔ حاکم رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ "وہ متروک ہے۔" یہ بھی منقول ہے کہ "وہ مغفل تھا۔" علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو ضعیف اور متروک قرار دیا ہے، لیکن برقانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی توثیق کی ہے۔" ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ، سیوطی رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ محمد ناصر الدین الالبانی نے بھی ابوالسکین کی تضعیف کی ہے۔ تفصیلی ترجمہ کے لیے الضعفاء والمتروکین للدارقطنی رحمۃ اللہ علیہ، میزان الاعتدال للذہبی رحمۃ اللہ علیہ، المغنی فی الضعفاء للذہبی رحمۃ اللہ علیہ، لسان المیزان لابن حجر رحمۃ اللہ علیہ، اللآلی المصنوعۃ للسیوطی رحمۃ اللہ علیہ اور سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ للالبانی کی طرف مراجعت مفید ہو گی۔
اس حدیث کے دوسرے راوی ابراہیم بن الیسع کو دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ، ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے متروک قرار دیا ہے۔ اس کا تیسرا راوی یحییٰ البصری ہے جسے دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے "متروک" قرار دیا ہے، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "ہم نے یحییٰ البصری کی احادیث جلا ڈالی تھیں۔" فلاس رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے: "وہ کذاب تھا اور موضوع احادیث بیان کرتا تھا۔" علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ اور ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسے "متروک" قرار دیا ہے۔ علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تضعیف کی ہے۔" ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے: "اس کی حدیث ضعف کے ساتھ لکھی جاتی ہے۔" علامہ شیخ ناصر الدین الالبانی نے بھی علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کا قول نقل کر کے اس سے اتفاق ظاہر کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top