• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تحیۃ المسجد كی فضيلت اور مسائل

قاری مصطفی راسخ

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 07، 2012
پیغامات
666
ری ایکشن اسکور
742
پوائنٹ
301
تحیۃ المسجد كی فضيلت اور مسائل


الحمدللّٰہ رب العالمین،والصلاۃ والسلام علی نبینا محمد ﷺ،وعلی آلہ وصحبہ ومن دعا بدعوتہ الی یوم الدین ۔أما بعد

حالات پر گہری نظر رکھنے والا دیکھتا ہے کہ بہت سارے لوگ عبادت کرنے اور بدنی یا مالی عبادات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں،لیکن لوگوں کی اکثریت ان بدنی اور مالی عبادات کے احکام سے نابلد ہے ۔ان عبادات کی صفت اور ہیئت کے علاوہ ان کے متعلق کچھ نہیں جانتے،اگر چھوٹا سا بھی شرعی معاملہ درپیش ہو تو کسی عالم دین یا مفتی کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں تاکہ اپنی تشفی کر سکیں۔مسلمان کے لئے مناسب ہے کہ وہ ان احکام کا علم حاصل کرے اور نبی کریم ﷺ کے اس فرمان:((من یرد اللّٰہ بہ خیرا یفقھہ فی الدین))[بخاری،مسلم]’’جس شخص کے ساتھ اللہ تعالیٰ خیر وبھلائی کا ارادہ کر لیتے ہیں اس کو دین کی سمجھ عطا کر دیتے ہیں۔‘‘کا مصداق بن کر علم وبصیرت کے ساتھ عبادت کرے۔
لوگوں کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے میں نے بعض مسائل کے احکام کو تفصیلات کے ساتھ بیان کر دیاہے تاکہ علم کی اشاعت اور دین کی سمجھ کے فضائل کو حاصل کر سکیں۔ان مسائل میں سے ایک مسئلہ’’ تحیہ المسجد کے احکام ‘‘سے متعلق ہے ۔جس کو میں نے اس پمفلٹ کے اندر سمونے کی کوشش کی ہے ۔اللہ رب العزت سے دعاہے کہ وہ درستگی میں میری مدد فرمائے۔آمین
تحیۃ المسجد کی تعریف اور حکم:
تحیۃ المسجد دو رکعات نمازہے جس کو نمازی مسجد میں داخل ہوتے وقت ادا کرتا ہے۔اور یہ نماز مسجد میں داخل ہونے والے ہر شخص کے حق میں بالاجماع سنت ہے ۔[فتح الباری:۲/۴۰۷]
تحیۃ المسجد سے مستثنی لوگ:
مسجد کا خطیب تحیۃ المسجد سے مستثنی ہے ،جب وہ خطبہ جمعہ کے لئے مسجد میں داخل ہوتو دو رکعات تحیۃ المسجد نہیں پڑھے گا۔اسی طرح مسجد کا متولی بھی مستثنی ہے ،کیونکہ اس کا بار بار مسجد میں آنا جانا لگا رہتا ہے اور تحیۃ المسجد کی ان رکعات کو بار بار پڑھنے سے مشقت پیدا ہوتی ہے۔اسی طرح وہ شخص بھی مستثنی ہے جو مسجد میں داخل ہوا تو امام فرض نماز پڑھا رہا تھا یا فرض نماز کی اقامت ہو چکی تھی،کیونکہ فرض نماز کی موجودگی تحیۃ المسجد سے مستغنی کر دیتی ہے۔[سبل السلام:۱/۳۲۰]
بعض اہل علم فرماتے ہیں کہ تحیۃ المسجد کا تکرار مستحب ہے ،جب بھی کوئی مسجد میں داخل ہو تو تحیۃ المسجد پڑھے۔یہ قول امام نووی ؒ کا ہے اور اسی کو شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ نے اختیار کیا ہے اور حنابلہ کی کلام کا ظاہر بھی یہی ہے۔[المجموع:۴/۵۷]
امام شوکانی ؒ فرماتے ہیں کہ ظاہر حدیث سے تحیۃ المسجد مشروع ہے اگرچہ کثرت دخول ہی کیوں نہ ہو۔[نیل الأوطار:۳/۷۰]

تحیۃ المسجد کی حکمت:

تحیۃ المسجد پڑھنے سے دل میں مسجد کا احترام پیدا ہوتاہے ،یہ بمنزل سلام کے ہے کہ آدمی جب کسی کے گھر جاتا ہے تو گھر والے کوملتے وقت سلام کہتا ہے۔امام نووی ؒفرماتے ہیں :کہ بعض نے تحیۃ المسجد کو مسجد کے رب کو سلام قرار دیا ہے ،کیونکہ اس کامقصدحصول قرب الہی ہے نہ کہ حصول قرب مسجد، جیسا کہ بادشاہ کے گھر میں داخل ہونے والا بادشاہ کو سلام عرض کرتا ہے نہ کہ اس کے گھر کو۔
[حاشیہ ابن قاسم: ۲/ ۲۵۲]
تحیۃ المسجد سے متعلق مسائل
پہلا مسئلہ:
تحیۃ المسجد تمام اوقات میں مشروع ہے،کیونکہ یہ ایک سببی نماز ہے کہ جب بھی آپ مسجد میں داخل ہوں تحیۃ المسجد ادا کریں۔اس کو شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ نے اختیار کیاہے۔[الفتاوی لابن تیمیہ]اور شیخ صالح العثیمین ؒ وشیخ ابن بازؒ کی بھی یہی رائے ہے۔ [الشرح الممتع لابن عثیمین:۴/۱۷۹،وفتاوی مھمۃ تتعلق بالصلاۃلابن باز ؒ]
دوسرا مسئلہ:
تحیۃ المسجد کی نماز مسجد میں داخل ہوتے وقت بیٹھنے سے پہلے پہلے ادا کی جائے گی ،اگر کوئی شخص جان بوجھ کر بیٹھ گیا تو اس کے لئے اس کی مشروعیت ختم ہو جائے گی کیونکہ بیٹھ جانے سے اس کا وقت ہی فوت ہو گیا۔
تیسرا مسئلہ:
جو شخص جہالت کی وجہ سے یا بھول کر بیٹھ گیا اس کے لئے جائز ہے کہ وہ اٹھ کر دو رکعتیں تحیۃ المسجد ادا کرے کیونکہ وہ معذور ہے ۔بشرطیکہ بیٹھنے کا فاصلہ زیادہ لمبا نہ ہوا ہو۔[فتح الباری:۲/۴۰۸]
چوتھا مسئلہ:
تحیۃ المسجد ادا کرنا سنت ہے ،واجب نہیں جیسا کہ بعض کا خیال ہے۔اس کے سنت ہونے پر امام نووی ؒنے اجماع نقل کیا ہے ۔ [نیل الاوطار:۳/۶۸]
پانچواں مسئلہ:
جب آدمی مسجد میں داخل ہو اور مؤذن اذان دے رہا ہو تو بہتر یہی ہے کہ پہلے اذان کا جواب دیا جائے پھر تحیۃ المسجد ادا کی جائے تاکہ اذان کے جواب کی فضیلت کو بھی حاصل کیا جا سکے۔ہاں البتہ جمعہ کے دن اگر خطبہ کی اذان ہو رہی ہے تو بہتر یہی ہے کہ اذان کا جواب دینے کی بجائے تحیۃ المسجد ادا کر لی جائے کیونکہ خطبہ جمعہ سننا زیادہ اہم ہے۔[الانصاف:۱/۴۲۷]
چھٹا مسئلہ:
جب آدمی مسجد میں داخل ہو اور خطیب خطبہ جمعہ دے رہا ہو تو اس کے لئے تحیۃ المسجد ادا کرنا مسنون ہے ،اور ترک کر دینا مکروہ ہے ۔[الفتاوی لابن تیمیہؒ:۲۳/۲۱۹]؛کیونکہ حدیث سے ثابت ہے کہ:((فلا یجلس حتی یصلی رکعتین)) [بخاری،مسلم]’’وہ دو رکعات ادا کرنے سے پہلے نہ بیٹھے۔‘‘دوسری حدیث میں ہے:((فلیرکع رکعتین ولیتجوز فیھما)) [بخاری،مسلم]’’اس کو چاہئیے کہ ہلکی پھلکی دو رکعتیں ادا کرے ۔‘‘اگر خطیب آخر خطبہ میں ہو اور غالب گمان یہی ہو کہ تحیۃ المسجد ادا کرنے سے فرض نماز کا شروع حصہ نہیں پا سکے گا ،تو نماز قائم ہونے تک کھڑا ہو جائے اور بیٹھے نہیں تا کہ فرض نماز ہی تحیۃ المسجدکے قائم مقام ہو جائے۔
ساتواں مسئلہ:
مسجد حرام کا تحیۃ اکثر فقہاء کے نزدیک طواف ہے ۔امام نووی ؒ فرماتے ہیں:((تحیۃ المسجد الحرام الطواف فی حق القادم ،أما المقیم فحکم المسجد الحرام وغیرہ فی ذلک سوائ))[فتح الباری:۲/۴۱۲]’’باہر سے آنے والے کے لئے مسجد حرام کا تحیۃ طواف ہے۔جب کہ مقیم کے لئے مسجد حرام اور باقی مساجد سب کا ایک ہی حکم ہے۔‘‘شاید امام نووی ؒ کی مراد وہ شخص ہو جو طواف کا ارادہ نہ رکھتا ہو ۔البتہ جو شخص طواف کرنا چاہتاہے اس کو یہ طواف تحیۃ المسجدکی دو رکعات سے مستغنی کر دے گا۔اور یہی درست ہے۔[حاشیہ ابن قاسم:۲/۴۸۷]
آٹھواں مسئلہ:
نمازوں سے پہلے کی سنن تحیۃ المسجد سے کفایت کر جائیں گی،کیونکہ تحیۃ المسجد کا مقصود مسجد میں داخل ہوتے وقت سب سے پہلا کام نماز ادا کرنا ہے ،جو ان سنن کی ادائیگی سے پورا ہو جاتاہے۔اور اگر کوئی شخص سنن یا فرائض کے ساتھ ساتھ تحیۃ المسجد کی بھی نیت کر لیتا ہے تو دونوں ہی حاصل ہو جائیں گی۔امام نووی ؒ نے اس کو بلا اختلاف نقل کیا ہے۔[کشاف القناع:۱/۴۲۳]
نواں مسئلہ:
تحیۃ المسجد ایک رکعت اداکرنے یا نماز جنازہ پڑھنے یا سجدہ سہو وسجدہ شکر اد اکرنے سے حاصل نہیں ہو گی۔[کشاف القناع ]
دسواں مسئلہ:
اگر امام مسجد فرض نماز کا ٹائم ہو جانے کی وجہ سے فرض نماز کے ساتھ تحیۃ المسجد سے کفایت کرنا چاہے تو اس کو یہی کافی ہو جائے گا۔[سبل السلام :۱/۳۲۹]’’حضرت جابرسے روایت ہے کہ بلال سورج ڈھل جانے پر اذان کہہ دیا کرتے تھے اور اس وقت تک اقامت نہیں کہتے تھے جب تک نبی کریم ﷺ کو دیکھ نہ لیتے ،جب اللہ کے نبی ﷺ گھر سے نکلتے تو وہ اقامت کہہ دیتے۔‘‘[مسلم ]اور اگر امام بیٹھنے کی نیت سے آئے تو اس کے حق بھی میں حدیث کے عموم کی وجہ سے تحیۃ المسجد مشروع ہے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا:((اذا دخل أحد کم المسجد فلا یجلس حتی یصلی رکعتین))[بخاری ،مسلم]’’تم میں سے جب کوئی مسجد میں داخل ہو تو اسے چاہئیے کہ دو رکعات نماز پڑھنے کے بغیر نہ بیٹھے۔‘‘صحراء میں نماز کے وقت تحیۃ نہیں ہے۔[الفواکہ العدیدیہ:۱/۹۹]الا یہ کہ راستے پر موجود مسجد میں آپ نماز پڑھ رہے ہوں تب تحیۃ المسجد ادا کی جائے گی۔فرض نماز کے ساتھ اگر تحیۃ المسجد کی بھی نیت کر لی جائے تو کافی ہو جائے گا۔
گیارہواں مسئلہ:
امام کے لئے جمعہ اور نماز عید سے پہلے تحیۃ المسجد مشروع نہیں ہے ،بلکہ جمعہ کو خطبہ اور عید کے دن نماز عید سے ابتداء کرے گا۔کیونکہ نبی کریم ﷺ نے ایسا ہی کیا۔لیکن مقتدی کے لئے بیٹھنے سے پہلے پہلے تحیۃ المسجد مشروع ہے ۔اگر نماز عید دیوار سے باہر ادا کی جارہی ہے تو تحیہ مشروع نہیں ہے۔جیسا کہ حدیث میں ہے کہ حضرت ام عطیہ رضی اللّٰہ عنھا فرماتی ہیں کہ:((أمرنا أن نخرج العواتق،والحیض فی العیدین ،یشھدن الخیر ودعوۃ المسلمین ،ویعتزل الحیض المصلی))[بخاری ،مسلم]’’ہمیں حکم دیا گیا کہ سب عورتوں کو عید گاہ کی طرف نکالیں حتی کہ حیض والیوں کو بھی ،تاکہ وہ خیر اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہو سکیں،لیکن حکم دیا گیا کہ حیض والی عورتیںعید گاہ سے دور رہیں۔‘‘یہی مذہب امام شافعی ؒکا بھی ہے اور اسی کو شیخ صالح العثیمین ؒنے اختیار کیا ہے ۔
بارہواں مسئلہ:
اگر کسی شخص نے فرض نماز ادا کر لی ہو اور پھر وہ کسی مسجد میں حاضر ہوا تو وہاں فرض نماز کھڑی تھی تو اس کے لئے اس فرض نماز میں داخل ہو جانا مسنون ہے ۔جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے ثابت ہے:((اذا صلیتما فی رحالکما ثم أتیتما مسجد جماعۃ فصلیا معھم ، فانھا لکما نافلۃ))[رواہ الترمذی]’’جب تم دونوں نے اپنی رہائش پر نماز پڑھ لی پھر مسجد میں آئے تو ان مسجد والوں کے ساتھ بھی نماز پڑھو،یہ تمہارے لئے نفل ہو جائے گی۔‘‘
 
Top