• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

:::::: تدبرء قران اور قران فہمی کی دو اِقسام ہیں :::::::

عادل سہیل

مشہور رکن
شمولیت
اگست 26، 2011
پیغامات
367
ری ایکشن اسکور
941
پوائنٹ
120
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
:::::: تدبرء قران اور قران فہمی کی دو اِقسام ہیں :::::::

قران کریم میں تدبر کے بارے میں اکثر بات پڑھنے سننے میں ملتی رہتی ہے ، اور خاص طور پر رمضان کے قریبی ایام میں اور دورانء رمضان اس موضوع پر گفتگو کی کثرت رہتی ہے ، قران پاک میں تدبر کرنے کی اہمیت ، فضیلت اورتدبر کرنے والوں کے دِل و رُوح پر اس کے اثرء عظیم کے بارے میں کہیں کوئی دو مختلف رائے نہیں پائی جاتیں ،

جی ہاں ، یہ ضرور ہوتا ہے اور کافی بڑی تعداد میں لوگ ایسا کرتے ہیں کہ تدبر ء قران کی اہمیت اور فضیلت سننے اور پڑھنے تک ہی محدود رہتے ہیں ، جِس کا ایک عام سبب ایک وسوسہ ہے کہ “قران میں تدبر کے لیے تفسیر کا علم ہونا ضروری ہے ، تاکہ جب کوئی آیت پڑی جائے تو اس میں تدبر کیا جا سکے ، اگر تفسیر ہی نہیں جانتے تو تدبر کیا کریں گے ”


پس جو مسلمان تو اس وسوسے کے شِکار ہو جاتے ہیں وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ اُن کے اور تدبرء قران کے درمیان نہ طے ہو سکنے والے فاصلے ہیں ، بلکہ کچھ لوگ تووسوسوں کے سامنے اس قدر بے چارگی کا شِکار ہو جاتے ہیں کہ یہ تک کہنے ، لکھنے اور ماننے لگتے ہیں کہ تدبر ء قران ہر کس و ناکس کا کام ہی نہیں ، جب تک فُلاں فُلاں مفسر کی طرح تفسیر کا علم حاصل نہ کر لیا جائے قران میں تدبر جائز ہی نہیں ،


غور کیجیے کہ اس قِسم کے وسوسوں کی وجہ سے کتنے مسلمان تدبر ء قران کی لذت سے خود کو محروم رکھے ہوئے ہیں ، اللہ کی کتاب کی مٹھاس سے خود کو دُور کیے ہوئے ہیں ، کتنی بڑی خیر اور کامیابیوں اور اپنے درمیان روکاٹیں کھڑی کر رکھی ہیں ،


ہم حسن ظن سے کام لیتے ہوئے یہ خیال کرتے ہیں کہ ایسے لوگ خود کو تدبرء قران کے باغات میں داخل ہونے سے نیکی نیتی کی بِناء پر ہی روکے رکھتے ہیں کہ کہیں بغیر علم کے اللہ کے بارے میں کچھ ایسا نہ سمجھ لیں جو اللہ کی مُراد نہ ہو ،


لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کیا اِس مُقام پر یہ خوف دُرست ہے اور یہاں اس کے مطابق عمل کرنا مطلوب ہے!!!؟؟؟


اس کا جواب یہ ہے کہ :::


تدبرء قران کا معاملہ ایسا نہیں جِس کو اِس خوف کی بِناء پر ترک کر دِیا جائے ،کیونکہ کسی شک کے بغیر یہ حقیقت واضح ہے کہ قران کریم میں تدبر کرنا اور قران پاک کی تفسیر بیان کرنا دو مختلف معاملات ہیں ،خوب سمجھنے کی بات ہے کہ قران کریم میں تدبر دو اقسام میں ہوتا ہے ،


::::: (۱) ذھنی معرفت کے مطابق، اس کی درستگی کے لیے اور اس میں اضافے کے لیے قران میں تدبر اور قران فہمی :::::


::::: (۲) قلبی اور اِیمانی معرفت کے مطابق، اس کی درستگی کے لیے اور اس میں اضافے کے لیے قران میں تدبر اور قران فہمی :::::


پہلی قِسم میں قران کریم میں استعمال ہونے والے غریب الفاظ کی تفسیر کرنا ، احکام اخذ کرنا ، عقائد کی چھان بین کرنا اور دلائل کی وضاحت کرنا ہوتا ہے یہ وہ کام ہیں جو یقیناً اھل عِلم ہی کرتے ہیں کیونکہ اللہ نے انہیں ہی اس کی استطاعت عطاء فرمائی ہوتی ہے ، پس وہ لوگ اللہ کے عطاء کردہ عِلم و استطاعت اور توفیق کے مطابق اللہ کے کلام کی تفسیر کرتے ہیں ﴿فَسَالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِهَا:::تو وادیاں اپنی اپنی طاقت کے مُطابق بہہ نِکلیں،
پس پہلی قَسم کا تدبرء قران اور قران فہمی ہماری گفتگو کا موضوع نہیں ہے ، بلکہ ہماری گفتگو کا موضوع دوسری قِسم کا تدبر اور فہم قران ہے ، جو کہ دِلی اِیمان کے مطابق ، اس کی درستگی کے لیے اور اس میں اضافے کے لیےقران میں تدبر کرنا اورقران کو سمجھنا ہے ، جو قران پڑھنے والا قران کی ہر آیت کو پڑھتے ہوئے با آسانی کر سکتا ہے اور اس کام کے لیے اسے قاری کا تفسیری علوم کا عالم ہونا ضروری نہیں ،زیر قرأت آیت کریمہ میں تدبر کرنے کے لیے قاری کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ آیت مبارکہ کا کسی مذہبی, جماعتی اور فلسفیانہ تعصب کے بغیر ترجمہ جانتا ہو،عام قاری کے لیے قطعا یہ ضروری نہیں کہ وہ تدبر ء قران کے لیےتفسیری علوم کا ماہر ہو ،یا کتبء تفسیر کا مطالعہ کرے ، اپنی ز ُبان میں مُیسر لیکن قران اور صحیح ثابت شدہ سنت کے موافق ترجمے کی روشنی میں وہ آیات مبارکہ میں غور و فِکر کرے اور اپنی شخصیت کو ان کے مطابق پرکھے اگر خود میں کسی خوشخبری والی صفت پائے تو اللہ کا شکر ادا کرے اور اگر معاملہ اس کے بر عکس ہو تو اللہ کی پناہ طلب کرے اوراپنا محاسبہ کرتے ہوئے اپنی اصلاح کی کوشش کرے ،


یاد رکھیے کہ دوسری قِسم کا تدبر و فہم اصل مقصد ہے اور ہر مسلمان بدرجہ اولیٰ اور ہر انسان سے مطلوب ہے ، اور پہلی قِسم کا تدبر و فہم اس تک پہنچنے کاایک ذریعہ ہے ، پس دوسری قَسم کے تدبر و فہم یعنی اصل مقصد تک رسائی کے لیے یہ ہر گِز ضروری نہیں کہ پہلی قِسم کے اس ذریعے کے بغیر اصل مقصد تک رسائی ممکن ہے ،
امام الحسن البصری رحمہُ اللہ کا کہنا ہے “““عِلم دو قِسم کا ہوتا ہے (۱) وہ عِلم جو دِل میں ہوتا ہے اور یہی عِلم نفع مند عِلم ہوتا ہے، اور (۲)وہ عِلم جو ز ُبان پر ہوتا ہے اور یہ عِلم اللہ کی طرف سے اُس کی مخلوق پر اُس کی حُجت ہوتی ہے ”””
اِس مختصر سی تفصیل کی روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ تدبرء قران کے لیے تفسیری عُلوم کا ماہر ہونا ضروری نہیں ، کچھ مزید وضاحت کے لیے میں ایک مثال پیش کرتا ہوں ،اگر کوئی سورت النبا کی قرأت کرے اور اللہ تعالیٰ کا یہ قول پڑھے کہ﴿[FONT=Al_Mushaf]إِنَّا أَنْذَرْنَاكُمْ عَذَابًا قَرِيبًا يَوْمَ يَنْظُرُ الْمَرْءُ مَا قَدَّمَتْ يَدَاهُ وَيَقُولُ الْكَافِرُ يَا لَيْتَنِي كُنْتُ تُرَابًا[/FONT]:::یقیناً ہم نے تُم لوگوں کو بہت قریب کے عذاب کے سے ڈرایا ہے جِس دِن انسان وہ سب کچھ دیکھے گاجو اُس نے اپنے ہاتھ سے آگے بھیجا ہو گا اور کافر کہے گا کہ اے کاش میں مٹی ہو گیا ہوتا
کیا اس آیت کریمہ میں تدبر کرنے اور اس کا فہم حاصل کرنے کے لیے کسی تفسیری علم کی ضرورت ہے!!! جی نہیں ، اور بالکل نہیں ، اس آیت مبارکہ میں تدبر کرنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ قاری اسے پڑھنے کے بعد کچھ دیر رکے اور سوچے کہ عنقریب واقع ہونے والے اِس دِن کے لیے اُس نے کیا تیار کر رکھا ہے اور وہاں اپنے دیکھنے کے لیے کیا بھیج رہا ہے؟اور کافر کیوں یہ چاہے گا کہ وہ مٹی ہو گیا ہوتا؟
یہی تدبر ہے اور اس کے نتیجے میں قاری سمجھ جائے گا کہ قیامت والے دِن کے کیا معاملات ہوں گے اور ان کو اچھے طور پر نمٹانے کے لیے کیا کرنا چاہیے ، کیونکہ غور کر کے قران پڑھنے والا قاری قران میں بیان شدہ قیامت کے معاملات کی خبر جانتا ہو گا لہذا اُسے اس آیت کریمہ میں تدبر کرنے کے لیے تفسیری عُلوم کا عالم ہونا تو کیا اُن کی جان پہچان ہونا بھی ضروری نہیں،
اس تدبر کی مثالیں ہمیں آج بھی اپنے اِرد گِرد ملتی ہیں ، مثال کے طور پر ایک دفعہ ایک دینی علمی اعتبار سے ایک عام سے شخص نے نماز میں امام صاحب کو یہ آیات قرأت کرتے ہوئے سُنا ﴿ [FONT=Al_Mushaf]وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَاقَهُمْ وَمِنْكَ وَمِنْ نُوحٍ وَإِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَأَخَذْنَا مِنْهُمْ مِيثَاقًا غَلِيظًا[/FONT] O[FONT=Al_Mushaf]لِيَسْأَلَ الصَّادِقِينَ عَنْ صِدْقِهِمْ وَأَعَدَّ لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا أَلِيمًا[/FONT] ::: اور جب ہم نے نبیوں سے اور آپ سے اور نوح سے اور ابراہیم سے اور مریم کے بیٹے عیسیٰ سے شدید مضبوط عہد لیا؀تا کہ (اللہ) سچوں سے اُن کے سچ کا حال پوچھے اور اُس نے کافروں کے لیے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہےسورت الاحزاب /آیات 7،8، تو نماز کے بعد بڑے خوف کی حالت میں کھڑا ہو کر بلند لیکن کانپتی آواز میں کہنے لگا """ اے لوگو، اللہ سے ڈرو ، اور دیکھو کہ جب نبیوں اور رسولوں کا بلکہ اپں میں سے سب سے زیادہ خیر والوں کایہ معاملہ ہے کہ اُن سے سچائی کے بارے میں پوچھا جائے گا تو ہمارے جیسوں کا کیا حال ہو گا ؟ ہم کیا جواب دیں گے """، یہ کہہ کر وہ خود بھی رونے لگا اور تقریباً مسجد میں موجود سب ہی لوگ رونے لگے ،
دیکھیے ایک عام سے شخص نے کس قدر درست طور پر قران کریم کی ان آیات میں تدبر کیا ، جبکہ وہ دینی علوم میں سے چند بنیادی مسائل کے کچھ بھی نہیں جانتا تھا ،
ایک دس سالہ بچی اپنے والد کے ساتھ محو سفر تھی ، گاڑی میں قرأت چل رہی تھی ، اللہ کا فرمان پڑھا گیا ((((( [FONT=Al_Mushaf]لَقَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ فَقِيرٌ وَنَحْنُ أَغْنِيَاءُ[/FONT]،،،،،:::یقیناً اللہ نے ان لوگوں کی بات سن لی ہے جو کہتے ہیں کہ اللہ فقیر ہے اور ہم مالدار ہیں ،،،،، )))))سورت آل عمران /آیت 181،
بچی نے فوراً کہا """ تو بھلا ان بد عقلوں کو کس نے مالدار بنایا ؟ """ دیکھیے ایک دس سالہ بچی جو قرانی علوم میں سے کچھ بھی نہیں جانتی اللہ کے کلام میں تدبر کر کے کیسا سوال کرتی ہے !
یہی اصل مطلوب تدبر ہے جسے میں نے دوسری قِسم کا تدبر کہا تھا یعنی دِلی اِیمان کے مطابق ، اس کی درستگی کے لیے اور اس میں اضافے کے لیےتدبر کرنا ، اور جِس کے لیے تفسیری عُلوم کا جاننا ضروری نہیں ، لہذا ہم سب کو اس وسوسے سے دور رہنا چاہیے اور اپنے رب کی کتاب کا حق ادا کرتے ہوئے اپنی دُنیا اور آخرت کی خیر تلاش کرتے ہوئے اپنے رب کے کلام میں تدبر کرنا چاہیے ،
امام ابن القیم رحمہ ُ اللہ کا کہنا ہے """[FONT=Al_Mushaf] التدبر مفتاح حیاۃ القلب[/FONT] ::: (قران میں )تدبر دل کی زندگی کی چابی ہے """،
پس جو کوئی اللہ کی کتاب میں تدبر کرے گا وہ ایسی راحت و سکوں اور سعادت و خوش نصیبی والی زندگی پائے گا جس کی مثال دینا مشکل ہے ، کیا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو مخاطب فرما کر یہ خوشخبری عطاء نہیں فرمائی کہ ﴿[FONT=Al_Mushaf]مَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآَنَ لِتَشْقَى[/FONT] ::: (اے محمد) ہم نے آپ پر قران اس لیے نازل نہیں کیا کہ آپ مشقت میں پڑ جائیں سورت طہٰ /آیت 2،
جی ہاں اور بلا شک یہ حق ہے کہ قران کسی مشقت کے لیے نازل نہیں کیا گیا ، بلکہ قران رحمت و سکوں اور دُنیا اور آخرت کی سعادت کے لیے نازل کیا گیا ہے ، پس جو کوئی اس میں نیک نیتی سے اور درست طور پر تدبر کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے اپنے اس کلام کے فوائد عطاء فرمائے گا ،
اللہ تعالیٰ ہم سب کو راہ حق پر چلنے کی ہمت عطاء فرمائے، اپنی بات کے اختتام میں امام قتادہ رحمہُ اللہ کی دُعا دہراتا ہوں کہ """ میں اللہ سے سوال کرتا ہوں کہ اللہ میرا اور آپ کا دِل اُس کی کتاب کے فہم کے لیے کُشادہ فرما دے اور اس کی کتاب میں اُس طرح تدبر کے لیے کُشادہ فرما دے جس طرح کہ وہ ہم سے راضی ہو """۔
والسلام علیکم ۔
 
Top