• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تدریس سبق نمبر 1 (گرائمر ابتدائیہ 1)

ابو عبدالله

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 28، 2011
پیغامات
723
ری ایکشن اسکور
448
پوائنٹ
135
ایک مثال لکھ رہا ہوں تمام ساتھیوں سے گزارش ہے کہ ابھی تک پڑھے گئے سبق تک ہی رہتے ہوئے اسکی جتنی وضاحت ہو سکتی ہے کریں جزاکم اللہ خیرا
ضَرَبَ قَاتِلاََ مَقْتُولُُ
پہلے مرحلہ میں آپ نے صرف میں جو صیغے پڑھے ہیں ان کو لیتے ہوئے اوپر ٹیبل کا استعمال کرتے ہوئے متعلقہ الفاظ کا اکیلا ترجمہ کریں
پھر اسی طرح دوسرے مرحلہ میں آپ نے جو اصول پڑھے ہیں انکو استعمال کرتے ہوئے ان الفاظ کو ملا کر ترجمہ کریں
نوٹ: ضَرَبَ کا معنی مارا (beat والا مارا ہے، killed والا مارا نہیں ہے)
دعا باجی کی مطلوبہ وضاحت ہمیں بھی درکار ہے۔۔۔۔

ضَرَبَ قَاتِلَا مَقتُولُ = مارا قاتل مقتول

اعراب کی مدد سے ترجمہ = مارا قاتل کو مقتول نے
 

مشکٰوۃ

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 23، 2013
پیغامات
1,466
ری ایکشن اسکور
939
پوائنٹ
237
ایک مثال لکھ رہا ہوں تمام ساتھیوں سے گزارش ہے کہ ابھی تک پڑھے گئے سبق تک ہی رہتے ہوئے اسکی جتنی وضاحت ہو سکتی ہے کریں جزاکم اللہ خیرا
ضَرَبَ قَاتِلاََ مَقْتُولُُ
پہلے مرحلہ میں آپ نے صرف میں جو صیغے پڑھے ہیں ان کو لیتے ہوئے اوپر ٹیبل کا استعمال کرتے ہوئے متعلقہ الفاظ کا اکیلا ترجمہ کریں
پھر اسی طرح دوسرے مرحلہ میں آپ نے جو اصول پڑھے ہیں انکو استعمال کرتے ہوئے ان الفاظ کو ملا کر ترجمہ کریں
نوٹ: ضَرَبَ کا معنی مارا (beat والا مارا ہے، killed والا مارا نہیں ہے)
ضرب:مارا (فعل)
قاتلا:قاتل ۔۔۔۔۔قتل(کرنے والا)(مفعول)فتحہ کی وجہ سے
مقتول:قتل( ہونے والا)مقتول(فاعل)ضمہ کی وجہ سے
ماراقاتل کومقتول نے۔

مقتول نے قاتل کو مارا۔
 

مہوش حمید

مبتدی
شمولیت
اگست 31، 2013
پیغامات
43
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
19
ضرب ،،مارا،، قاتلا ۔،،،مارنے والا،،،،مقتول،،،قتل کیا جانے والا،،،ضرب فعل ہے،،قاتلا،،فاعل ہے، اور مقتول ،،،مفعول ہے،،مارا قاتل نے مقتول کو۔۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
ضَرَبَ قَاتِلاََ مَقْتُولُُ
لفظی ترجمہ ہوا:
مارا قاتل مقتول

اس لفظی ترجمہ کا تعلق علم الغۃ سے بھی ہے جو بار بار دہرانے سے یا ڈکشنری سے کنسلٹ کرنے پر ہی معلوم ہو سکتا ہے۔ اس کے سیکھنے کے کوئی قواعد و ضوابط نہیں ہیں۔
اور اس کا تعلق علم الصرف سے بھی ہے، کیونکہ قاتل مقتول میں مادہ قتل ہے۔ اور سانچہ یا صیغہ اس مادے کے ساتھ مل کر اسے فاعل یعنی قاتل اور مفعول یعنی مقتول بنا رہا ہے۔ لہٰذا ڈکشنری سے قتل کا معنی جب معلوم ہو گیا (علم الغۃ)
تو سانچے یا صیغہ کی مدد سے اس کا فاعل اور مفعول بھی معلوم ہو جائے گا (علم الصرف)

بات ابھی ادھوری ہے۔ اسے مکمل کرنے کے لئے علم النحو کے کچھ مزید قواعد لاگو کرنے ہوں گے۔
قَاتِلاََ لفظا تو فاعل ہے، کیونکہ فاعل کے سانچے میں پورا اترتا ہے، اسی لئے اس کے اردو لفظی معنی قاتل کے ہوں گے۔۔ لیکن اس جملے میں مفعول کے طور پر استعمال ہوا ہے کیونکہ آخری لفظ پر زبر ہے۔ آخری حرف پر اعراب کی حرکت سے پہچان ، علم النحو کے دائرہ کار میں آتی ہے۔

مَقْتُولُُ لفظاً تو مفعول ہے، کیونکہ مفعول کے سانچے یعنی صیغے میں پورا اترتا ہے، اسی لئے اس کے اردو لفظی معنی مقتول کے ہوں گے۔ لیکن اس جملے میں یہ لفظ مفعول کے طور پر استعمال ہوا ہے کیونکہ آخری لفظ پر پیش ہے۔ آخری حرف پر اعراب کی حرکت سے پہچان ، علم النحو کے دائرہ کار میں آتی ہے۔

لہٰذا مکمل معنی ہوئے: مارا قاتل کو مقتول نے۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
ضرب ،،مارا،، قاتلا ۔،،،مارنے والا،،،،مقتول،،،قتل کیا جانے والا،،،
بہنا یہاں تک آپ نے ایک ایک لفظ کا اکیلا ترجمہ یعنی پہلا مرحلہ مکمل کر لیا جیسا کہ اوپر محترم شاکر بھائی نے بتایا ہوا ہے کہ اس میں مادہ کا معنی اور صرف کے سانچے کا معنی استعمال ہوا ہے

ضرب فعل ہے،،قاتلا،،فاعل ہے، اور مقتول ،،،مفعول ہے،،،، مارا قاتل نے مقتول کو
بہنا یہاں سے آپ نے دوسرے مرحلے کا اطلاق کرنا تھا جس میں پڑھایا گیا تھا کہ جو پیش والا ہوتا ہے وہ فاعل ہوتا ہے اور جو زبر والا ہوتا ہے وہ مفعول ہوتا ہے جگہ کو یہاں نہیں دیکھا جاتا وہ انگلش میں دیکھا جاتا ہے
اب اس کے مطابق قاتلا پر چونکہ زبر ہے تو وہ پہلے آنے کے باوجود مفعول ہی بنے گا اور مقتول پر چونکہ پیش ہے تو بعد میں آنے کے باوجود فاعل ہی بنے گا

دعا باجی کی مطلوبہ وضاحت ہمیں بھی درکار ہے۔۔۔۔


محترم بھائی اوپر جو غلطی ہوئی ہے اسکا مجھے اندازہ تھا اور اسی لئے میں نے جان بوجھ کر ایسی مثال چنی تھی تاکہ آپ لوگوں پر ابھی شروع میں علم النحو اور علم الصرف کا یہ فرق بھی واضح ہو جائے
محترمہ Dua بہنا اور محترمہ نسرین فاطمہ بہنا بھی یہ وضاحت اچھی طرح سمجھ لیں کہ اوپر میں نے فاعل اور مفعول کے الفاظ کو دونوں مرحلوں میں استعمال کیا ہے انکو باری باری سمجھ لیتے ہیں جن کے مکس ہونے کا ڈر ہے

1-پہلے مرحلے میں
  • یہاں فاعل اور مفعول کے جن سانچوں کا ذکر کیا ہے اور دو ٹیبل بنائے ہیں اسکو صرف میں اسم فاعل اور اسم مفعول کے سانچے یا صیغے کہتے ہیں
  • انکا فاعل (کام کرنے والا ) ہونا ہمیں انکے سانچوں سے معلوم ہو رہا ہے پس یہ صرف والے اسم فاعل اور اسم مفعول ہیں جیسے اوپر مثال میں والتا کے سانچے سے ہمیں پتا چل رہا ہے کہ وہ قتل کرنے والا ہے اور مقتول کے سانچے سے پتا چل رہا ہے کہ وہ قتل ہونے والا ہے

2-دوسرے مرحلے میں
  • اس میں بھی فاعل اور مفعول کا ذکر کیا ہے
  • انکا فاعل اور مفعول ہونا انکے سانچوں کی بجائے ان کے آخری حرف کی حرکت سے معلوم ہو رہا ہے پس یہ نحو والے فاعل اور مفعول ہیں جیسے اوپر قاتلا کی زبر سے اسکا مفعول ہونا معلوم ہو رہا ہے اور مقتول پر پیش سے اسکا فاعل ہونا معلوم ہو رہا ہے اس مفعول اور فاعل کا فعل ضرب یعنی مارا ہے

پس بہنا یہ یاد رکھ لیں کہ جب کسی کا فاعل (یعنی کام کرنے والا) ہونا اسکے سانچے سے معلوم ہو تو وہ صرف والا فاعل ہوتا ہے اور اسکو اسم فاعل کہتے ہیں جسکو ہم آگے علم الصرف میں پڑھیں گے اور جس کا فاعل (کام کرنے والا) ہونا اسکے سانچے کی بجائے اسکی آخری حرکت سے معلوم ہو وہ نحو والا فاعل ہوتا ہے جسکی تفصیل ہم آگے علم النحو میں پڑھیں گے
سمجھ نہ آئے تو دوبارہ پوچھ لیں میں مزید وضاحت کر دوں گا
 

مہوش حمید

مبتدی
شمولیت
اگست 31، 2013
پیغامات
43
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
19
لیکن معنی کے لحاظ سے تو قاتلا فاعل بنے گا نا؟مارنے والا اور یہ تو فاعل ہی ہے اور مقتول بر وزن مفعول کے ہے تو یہ مفعول ہوگا نا؟
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425

قَاتِلاََ لفظا تو فاعل ہے، کیونکہ فاعل کے سانچے میں پورا اترتا ہے، اسی لئے اس کے اردو لفظی معنی قاتل کے ہوں گے۔۔ لیکن اس جملے میں مفعول کے طور پر استعمال ہوا ہے کیونکہ آخری لفظ پر زبر ہے۔ آخری حرف پر اعراب کی حرکت سے پہچان ، علم النحو کے دائرہ کار میں آتی ہے۔
مَقْتُولُُ لفظاً تو مفعول ہے، کیونکہ مفعول کے سانچے یعنی صیغے میں پورا اترتا ہے، اسی لئے اس کے اردو لفظی معنی مقتول کے ہوں گے۔ لیکن اس جملے میں یہ لفظ مفعول کے طور پر استعمال ہوا ہے کیونکہ آخری لفظ پر پیش ہے۔ آخری حرف پر اعراب کی حرکت سے پہچان ، علم النحو کے دائرہ کار میں آتی ہے۔
لہٰذا مکمل معنی ہوئے: مارا قاتل کو مقتول نے۔


محترم شاکر بھائی نے میری اوپر وضاحت کے بالکل مطابق ہی ترجمہ کیا ہوا ہے اور انہوں نے صرف والے سانچے اور نحو والے فاعل مفعول کو علیحدہ ہی رکھا ہے ماشاءاللہ بڑی اچھی وضاحت کی ہے اللہ جزائے خیر دے امین
شاید اوپر سرخ کیے گیے لفظ کو ٹائپنگ ایرر کی وجہ سے مفعول لکھ گئے ہیں
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
لیکن معنی کے لحاظ سے تو قاتلا فاعل بنے گا نا؟مارنے والا اور یہ تو فاعل ہی ہے اور مقتول بر وزن مفعول کے ہے تو یہ مفعول ہوگا نا؟
جزاک اللہ بہنا آپ کو سٹیپ بائی سٹپ دوسرے طریقے سے سمجھاتا ہوں

1-فاعل کا معنی ہوتا ہے کام کرنے والا

2-کسی جملہ میں جو بھی کام آتا ہے اسکا ایک کرنے والا ہوتا ہے یعنی ہر کام کا علیحدہ فاعل ہوتا ہے

3-آپ ذرا غور کریں کہ اوپر جملے میں کتنے مادے کام کے لئے آئے ہیں

4-ایک ضرب (مارنا) کا مادہ ہے یہ بطور فعل استعمال ہوا ہے

5-دوسرا قتل (قتل کرنا) کا مادہ ہے یہ بطور اسم استعمال ہوا ہے (تفصیل آگے پڑھیں گے)

6-اب مارنا کا بھی ایک فاعل ہو گا یعنی مارنے کا کام کس نے کیا

7-اسی طرح قتل کا بھی ایک فاعل ہو گا یعنی قتل کرنے کا کام کس نے کیا

اب آپ کے اعتراض کو دیکھتے ہیں کہ
مارنے والا اور یہ تو فاعل ہی ہے اور مقتول بر وزن مفعول کے ہے تو یہ مفعول ہوگا نا؟
بہنا جب ہم اکیلا ترجمہ کریں گے تو اکیلے قاتل اور اکیلے مقتول کو دیکھیں گے
پس قاتل (مارنے والا) بے شک فاعل ہے مگر اسکا فعل قتل کرنا ہے اور مقتول بے شک مفعول ہے مگر اسکا فعل بھی قتل کرنا ہے

دوسرے مرحلے میں جب الفاظ کو ملائیں گے تو ضرب بھی تو ایک فعل پڑا ہے اسکا فاعل کہاں سے آئے گا تو چونکہ اب ہم ملانے کا کام کر رہے ہیں جس میں نحو استعمال ہوتی ہے تو سبق کی حد تک رہتے ہوئے ہم کہیں گے کہ اسکا مارنے کے کام کا فاعل وہ ہو گا جس پر پیش ہے پس پیش کے لحاظ سے مقتول فاعل بن جائے گا اور زبر کی وجہ سے قاتل مفعول بن جائے گا

یہی بات میں نے اوپر سمجھائی ہے کہ جس کا فاعل ہونا سانچے سے پتا چلے وہ صرف کا اسم فاعل ہوتا ہے اور جس کا پتا سانچے کی بجائے آخری حرکت سے چلے وہ نحو کا فاعل ہوتا ہے (تفصیل اگلے اسباق میں آ جائے گی)


اسکو دوسری مثال سے دیکھتے ہیں
ضرب زیدُُ سعیداََ
یہاں ایک ہی فعل ہے یعنی مارنا تویہاں مارنے کا فاعل کون بنے گا


قتل داودُ جالوتَ
یہاں بھی ایک ہی فعل آ رہا ہے یعنی قتل کرنا تو قتل کرنے کا فاعل کون بنے گا


اسی طرح میں جملہ بدلتا ہوں

قتل ضاربُُ مضروباََ

اب یہاں دو فعل نظر آ رہے ہیں تو یہاں قتل کا فاعل کون بنے گا اور ضرب یعنی مارنے کا فاعل کون بنے گا

آپ ذرا ان کے جوابات دیکھ لیں تاکہ مزید سمجھا سکوں جزاک اللہ خیرا
 

نسرین فاطمہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 21، 2012
پیغامات
1,281
ری ایکشن اسکور
3,232
پوائنٹ
396
ضَرَبَ قَاتِلاََ مَقْتُولُُ
ضرب فعل
قاتلا مفعول نصب کی وجہ سے
مقتول ضمہ کی وجہ سےفاعل
مارا مقتول نے قاتل کو
چونکہ فاعل ہمیشہ مقدم ہوتا ہے مگر اس جملے میں مفعول مقدم ہے تو اس پہ روشنی ڈالیں ۔
کیا اس کا مطلب یہی ہوگا کہ مارا مقتول نے ہی قاتل کو (تاکید")
 
Top