• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تدوین ِ علومِ قرآن کی مختصر تاریخ

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
تدوین ِ علومِ قرآن کی مختصر تاریخ: قرآن کریم کے علوم کی بنیاد دور رسالت میں ہی رکھ دی گئی تھی جسے صحابہ کرام ؓنے اجتہادی فہم سے استوار کیا اور بعد کے علماء نے اس کو مزید نکھارا۔اس تدوین کو تاریخی طور پر تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
پہلا دور : تدوین سے قبل کا عہد : یہ نبی اکرم ﷺ کا زمانہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا ، سینوں میں محفوظ ہوا او رلکھا بھی گیا۔ اس عہد کے عرب حضرات کے لئے قرآن کا سمجھنا اور سمجھانا اس لئے آسان تھا کہ قرآن انہی کی زبان میں اترا۔ آپﷺ بھی عرب اور مخاطب قوم بھی عرب تھی۔قرآن نے غیر عربوں کے لئے بھی اپنے پیغام میں خاصی کشش رکھی جسے سمجھنا ان کے لئے بھی چنداںمشکل نہ تھا۔یہود، نصاریٰ اور غیر عرب حضرات سبھی دور رسالت میں قرآن کی سماعت سے متاثر نظر آتے ہیں۔ صحا بہ کرامؓ اسے بہتر انداز سے سمجھتے، پڑھتے ، عمل کرتے اور سمجھاتے تھے۔مثلاً:
سیدنا عبد اللہؓ بن مسعود روایت کرتے ہیں کہ جب یہ آیت {اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا اِيْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ اُولٰۗىِٕكَ لَہُمُ الْاَمْنُ وَہُمْ مُّہْتَدُوْنَ۝۸۲ۧ} (الأنعام:۸۲) اتری تو ہم پریشان ہو گئے۔ خدمت ِ اقدس میں حاضر ہو کر عرض کی، کہ اللہ کے رسول ﷺ اَیُّنَا لَمْ یَظْلِمْ نَفْسَہ؟ ہم میں کوئی ایسا ہے جو اپنے ساتھ ظلم و زیادتی نہیں کرتا؟ آپﷺنے ارشاد فرمایا: جو مفہوم آیت کا تم سمجھ رہے ہو یہاں وہ مراد نہیں بلکہ یہ وہی ہے جو لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو فرمایا تھا،{۔۔۔يٰبُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللہِ۝۰ۭؔ اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ۝۱۳} (لقمان: ۱۳) بیٹااللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا یقیناً شرک کرنا بڑا ظلم ہے یعنی ظلم سے مرادیہاں شرک ہے۔
اس لئے صحابہ رسول یہ جانتے تھے کہ فلاں آیت کس پس منظر میں نازل ہوئی، اس کا معنی ومفہوم کیا ہے۔ کون سی آیت منسوخ ہوچکی ہے اور کن آیات متشابہات پر ہم نے صرف ایمان رکھنا ہے اور ان کی تاویل نہیں کرنی۔اگر کوئی مشکل پیش آتی تو آپﷺ ان کے درمیان موجود تھے جن سے وہ دریافت کرلیتے۔اس لئے اس دور میں علوم قرآن متعارف کرانے یا انہیں مدون کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔اور بھی کئی وجوہات تھیں۔ جن میں چند اہم درج ذیل ہیں:
٭… اس دور میں اگرچہ قرآن سے متعلق علوم موجود تھے اور صحابہ کرامؓ ان سے واقف بھی تھے لیکن ان علوم نے ابھی تک کوئی ایسی واضح شکل اختیاز نہ کی تھی کہ ان کو باقاعدہ طور پر ضبط تحریر میں لایا جاتا۔
٭… اس دورمیں نزول قرآن کے ساتھ تدوین قرآن کا کام بھی ہو رہا تھا او ر صحابہ کرامؓ اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ تدوین میںمصروف تھے کہ کسی او رموضوع پر کوئی کام کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
٭… قرآن عربی زبان میں قلب ِ رسول ﷺ پر نازل ہوا تھا جو عربوں کی اپنی زبان تھی۔ اس لئے انہیں قرآن سے متعلق علوم مثلاً: علم التجوید ، علم الاعراب ، علم غریب القرآن وغیرہ سے بخوبی واقفیت حاصل تھی لہٰذا ان تمام علوم کو مدوّن کرنے کی ضرورت پیش نہ آئی۔
٭… ایک او روجہ یہ بھی تھی کہ قرآن ان کے سامنے نازل ہوا تھا۔ انہیں بخوبی علم تھا کہ کونسا حصہ کس موقع پر اور کس پس منظر میں نازل ہوا او ریوں وہ علم تفسیر ، ناسخ و منسوخ، علم مکی ومدنی ، علم نزول ، علم وحی، علم اسباب وغیرہ کے بارے میں اچھی طرح جان چکے تھے۔
٭… اگر صحابہ کرام ؓ کو اہل زبان ہونے اورنزول قرآن کا شاہد ہونے کے باوجود کوئی مشکل پیش آ جاتی تھی تو وہ براہ راست نبی اکرم ﷺ سے اس کا حل دریافت کر لیا کرتے تھے۔
٭… علوم قرآن کو احاطہ تحریرمیںلانے کے سلسلے میں کوئی پیش رفت نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ نبی اکرم ﷺ نے قرآن کے علاوہ کسی بھی قسم کی کتابت سے منع کیا تھاکیونکہ اس سے یہ احتمال تھا کہ وہ قرآن میں شامل ہو جائے گا۔ لہٰذا نہ صرف علوم القرآن کی کتابت بلکہ کسی بھی موضوع کی کتابت کی طرف توجہ نہ دی گئی۔
 
Top