• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تذکرہ اسلاف از مولانا عبد الرحمن ثاقب

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
مولانا عبد الرحمن ثاقب صاحب ، مرکزی جمیعت اہل حدیث سندھ کی متحرک شخصیت ہیں ، سوشل میڈیا وغیرہ پر بھی روزانہ کی بنیاد پر تحاریر ارسال کرتے رہتے ہیں ، حال ہی میں انہوں نے ’ تذکرہ اسلاف ‘ کےعنوان سے مرکزی جمعیت اہل حدیث کی سرکردہ شخصیات پر تحریریں لکھنا شروع کی ہیں ، ان تحاریر کی افادیت کے پیش نظر ، اور تاکہ یہ بطور ریکارڈ محفوظ رہیں ، ثاقب صاحب کی اجازت سے انہیں یہاں نقل کیا جاتا رہے گا ۔
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
⁠⁠⁠تذکرہ اسلاف (1)
جمع و ترتیب : عبدالرحمن ثاقب

پروفیسر عبدالقیوم رحمہ اللہ
اولین ناظم اعلی مرکزی جمیعت اہل حدیث پاکستان


پروفیسر عبدالقیوم بن منشی فضل الدین بن عبداللہ بن قادر بخش 15جنوری 1909 کو لاہور میں پیدا ہوئے.
آپ کے والد محترم منشی فضل دین جموں و کشمیر کے علاقے شوپیاں سے نقل مکانی کرکے لاہور وارد ہوئے تھے. اور انہوں نے لاہور میں اچھے اور محنتی ٹھیکیدار کی حیثیت سے نام کمایا تھا. اور انجمن اہل حدیث لاہور کے بانی اراکین میں سے تھے . پروفیسر عبدالقیوم صاحب کے نانا مولوی سلطان احمد مرحوم بھی اپنے زمانہ کے ایک جید عالم دین تھے جو کہ کافی عرصہ انجمن اہل حدیث لاہور کے صدر اور جامع مسجد مبارک کے اعزازی خطیب رہے. آپ کے خاندان کے ہاں اہل علم مثلا مولاناقاضی سلیمان سلمان منصورپوری, مولانا سلیمان ندوی اور مولانا ثناءاللہ امرتسری تشریف لایا کرتے تھے اور منشی صاحب اور آپ کا خاندان ان کی میزبانی کرکے دلی مسرت حاصل کیا کرتا تھا. اس خاندان کی علمی اور دینی یادگاروں میں مسجد مبارک کی تأسیس اور اس کی تعمیر و ترقی میں حصہ لینا بھی شامل ہے.
پروفیسر عبدالقیوم صاحب مڈل تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے والد منشی فضل دین کے ساتھ کاروبار میں مشغول ہوگئے لیکن کچھ عرصہ جب دیکھا کہ ان کے دوست میٹرک کا امتحان دینے والے ہیں تو انہوں نے بھی کاروبار کو خیرباد کہا اور میٹرک کے امتحان کی تیاری شروع کردی امتحان میں تین ماہ باقی تھے دن رات تیاری کی اور امتیازی نمبروں سے میٹرک کا امتحان پاس کرلیا اور اس کے بعد باقاعدگی سے تعلیم جاری رکھی اور اسلامیہ کالج لاہور سے ایف اے پاس کیا اور اسی کالج سے 1932 میں بی اے آنرز کیا پھر یونیورسٹی اورینٹل کالج 1934 میں ایم اے عربی کیا. ایم اے عربی کے بعد آپ کو پنجاب یونیورسٹی نے میکلوڈ پنجاب عربی اسکالرشپ جاری کیا جو کہ مسلسل چار سال تک ملتا رہا یہ وظیفہ ڈیڑھ سو روپئے ماہانہ ملتا تھا جو جنوری 1935 سے 1939 تک جاری رہا. اس اسکالرشپ کے چار سالہ دور میں پروفیسر عبدالقیوم صاحب نے جو کام کیا برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر کرنکو نے اس کے متعلق " اسلامک کلچر " حیدرآباد ( دکن) میں 1937 میں بہترین خیالات کا اظہار کیا.
1939 میں آپ نے تدریس کا آغاز کیا اور آپ کی پہلی تقرری بطور عربی استاد 1939 میں زمیندار کالج گجرات میں ہوئی اور 1944 تک وہاں تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے.
1945 میں آپ کا تبادلہ ہوشیارپور ( موجودہ مشرقی پنجاب) میں کردیا گیا اور ایک سال تک وہاں تدریس کرت رہے اور 1946 میں ہوشیارپور سے گورنمنٹ کالج لدھیانہ تبادلہ کردیا گیا. آپ وہاں اگست 1947 تک اقامت گزیں رہے.
اگست1947 میں ملک آزاد ہوگیا اور پاکستان معرض وجود میں آگیا اسی سال آپ کی تدریسی خدمات گورنمنٹ کالج لاہور نے حاصل کرلیں اسی کالج میں آپ نے 1947 سے 1968 تک یعنی اکیس سال خدمات سرانجام دیں مجموعی طورپر آپ کا زمانہ تدریس تیس سالوں پر محیط ہے.
گورنمنٹ کالج سے ریٹائر ہونے کے بعد پنجاب یونیورسٹی نے آپ کی خدمات بطور سینئر ایڈیٹر اردو دائرہ معارف اسلامیہ کےلیے حاصل کرلیں اس مرکز علم و تحقیق میں آپ نے نہایت محنت و خوش اسلوبی سے اپنے فرائض سرانجام دیے بہت سے تحقیقی مقالے آپ نے خود لکھے جو اردو دائرہ معارف اسلامیہ کی مختلف جلدوں میں حروف تہجی کی ترتیب سے اشاعت پذیر ہوئے اور بےشمار اہل علم کے مقالات پر نظرثانی بھی کی تدریسی خدمات کے ساتھ ساتھ آپ نے تصنیفی خدمات بھی سرانجام دیں ان تصانیف میں نصابی کتب بھی شامل ہیں اور عربی ادب و لغت سے متعلق خالص فنی اور تحقیقی کتب بھی ہیں.
24 جولائی 1948 کو جب دارالعلوم تقوية الاسلام کی عمارت میں مرکزی جمیعت اہل حدیث ( مغربی) پاکستان تأسیس کی گئی تو متفقہ طورپر جماعت کے ناظم اعلی پروفیسر عبدالقیوم کو منتخب کیا گیا. اس وقت آپ گورنمنٹ کالج لاہور میں عربی کے پروفیسر تھے. آپ کا دور نظامت تقریباً گیارہ ماہ رہا اور آپ کو جماعت کی نظامت اعلی سے استعفی دینا پڑگیا. ہوا یوں کہ گورنمنٹ آف نے پنجاب نے سرکاری ملازمین کے نام ایک سرکاری مراسلہ جاری کیا تھا کہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت کے عہدیدار نہیں بن سکتے مرکزی جمیعت اہل حدیث اگرچہ معروف معنوں میں سیاسی جماعت نہیں تھی تاہم پروفیسر صاحب کو مرکزی جمیعت اہل حدیث کے ناظم اعلی کے طورپر یہ مراسلہ بھیجا گیا تھا جس کی وجہ سے آپ نے نظامت اعلی سے استعفی دے دیا. لیکن آپ مرکزی جمیعت اہل حدیث پاکستان کی مرکزی مجلس عاملہ اور دیگر سب کمیٹیوں کے رکن رہے.
آپ مبارک مسجد کی انجمن کے سیکریٹری جنرل بھی رہے مسجد کی خدمت کیا کرتے اور صفائی ستھرائی کا خیال رکھتے اور خود اس مین حصہ لیتے تھے.
آپ نے بہت سے تحقیقی کام کیے جن میں سے ایک اہم اور یادگار کام لسان العرب کا اشاریہ ہے درحقیقت لسان العرب عربی زبان و ادب کا وہ شاہکار ہے جس کی مثال دنیا کے ادب میں بہت کم ملتی ہے یہ عربی زبان کی ایک قدیم اور انتہائی مستند ڈکشنری ہے جسے مولف نے بیس جلدوں میں مدون کیا تھا لیکن اتنی اہم اور بلند پایہ کتاب اشاریہ کے بغیر تھی خاص طور پر عربی اشعار اور شعراء کے اشاریے کی کمی بےحد محسوس کی جاتی تھی اس کمی کو آپ نے پورا کردیا. پروفیسر عبدالقیوم صاحب نے یہ اشاریہ دو جلدوں میں مرتب فرمایا ایک جلد میں ان شعراء کا حروف تہجی کی ترتیب سے تذکرہ ہے جن کے اشعار لسان العرب میں بطور شواہد استعمال کیے گئے ہیں اور دوسری جلد میں ان اشعار و قوافی اور ان بحور کا ذکر جن اشعار کا صاحب کتاب نے مختلف الفاظ کے تحت حوالہ دیا ہے. یہ کام چونکہ بین الاقوامی اہمیت کا حامل تھا لہذا بین الاقوامی سطح پر اس کی پذیرائی اور تعریف بھی ہوئی.
اردو معارف اسلامیہ :
آپ نے اس ادارے میں بطور مدیر اور سینیئر مدیر خدمات سرانجام دیں آپ کا یہ دوسرا عظیم الشان تحقیقی کارنامہ اردو دائرہ معارف اسلامیہ کی ترتیب, تدوین, اور طباعت ہے. اردو دائرہ معارف اسلامیہ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ عظیم سعادت پاکستان اور اردو کے حصہ میں آئی ہے.
آپ کو تاریخ اہل حدیث سے گہری دلچسپی تھی. اردو دائرہ معارف اسلامیہ میں اہل حدیث پر جو مقالہ موجود ہے وہ آپ ہی کے رشحات قلم کا نتیجہ ہے.
پروفیسر عبدالقیوم صاحب نے طلبہ کی رہنمائی کےلیے بھی کتب لکھی ہیں جن میں ایک کتاب تاریخ اسلام بھی ہے جو کہ حال ہی میں وفاق المدارس السلفیہ نے اپنے نصاب میں شامل کی ہے.

وفات :
پروفیسر عبدالقیوم صاحب 8 ستمبر 1989 کی شام کو اس دار فانی کو چھوڑ کر آخرت کے راہی بن گئے آپ اپنے بیٹے میجر زبیر صاحب کی رہائش گاہ چھاونی میں فوت ہوئے آپ کی وصیت کے مطابق میت کو مبارک مسجد لایاگیا اور وہیں اگلے دن یعنی 9 ستمبر کو 11 بجے مسجد مبارک کے خطیب مولانا فضل الرحمن صاحب نے نماز پڑھائی پھر میانی قبرستان میں آپ کے خاندانی احاطے میں والدین اور بھائیوں کے قریب آپ کو دفنادیاگیا.
آپ کی وفات سے لاہور کے ایک پرانے خاندان کی علمی یادگار مٹ گئی. تعلیمی سلسلے کی ایک قابل ذکر ہستی ختم ہوگئی اور قیام پاکستان کے بعد مرکزی جمیعت اہل حدیث کے نام سے جو جماعت کی تنظیم قائم کی گئی تھی اس کا اولین ناظم اعلی اس دنیا فانی سے رخصت ہوگیا۔
اللهم اغفرله وارحمه وعافه واعف عنه.. اللهم ادخله الجنة الفردوس
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
⁠⁠⁠تذکرہ اسلاف (2)
جمع و ترتیب : عبدالرحمن ثاقب سکھر

مولانا عطاءاللہ حنیف بھوجیانی رحمة الله عليه


مولانا عطاءاللہ حنیف بھوجیانی رحمة الله عليه میاں صدرالدین کے گھر 1909 یا 1910ع میں پیدا ہوئے. میان صدرالدین حسن نے امرتسر کے ایک گاوں " مالووال " سے نقل مکانی کرکے " بھوجیان " میں سکونت اختیار کی تھی. یہاں آکر ان کا تعلق مولانا فیض محمد خان سے ہوا اور انہی کی رفاقت میں میاں صدرالدین حضرت الامام عبدالجبار غزنوی کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور پھر ان کے حلقہ ارادت میں شمولیت اختیار کرلی تھی انہوں نے امام صاحب سے بہت فیض پایا.
تعلیم
ناظرہ قرآن مجید مولوی عبدالکریم بھوجیانی سے پڑھا جو کہ مولانا عبدالجبار غزنوی کے شاگرد اور مرید تھے. اور ترجمہ قرآن مجید تین بزرگون سے پڑھا اپنے والدمحترم میاں صدرالدین حسن, مولانا فیض محمد خان اور ان کے بڑے صاحبزادے مولانا عبدالرحمن سے. رحمہم اللہ علیہم
ابتدائی کتابیں بلوغ المرام, مشکواة المصابيح , اور صرف و نحو کی نحو کی چند کتب مولانا عبدالرحمن سے پڑھیں اور فارسی کے چند چھوٹے چھوٹ رسالے گاوں کے ایک بزرگ حاجی امان اللہ سے پڑھے.
ابتدائی عمر میں ہی آپ کے والد محترم میاں صدرالدین حسن وفات پاگئے اور ہمارے ممدوح مولانا عطاءاللہ حنیف اور آپ کی والدہ محترمہ کا بظاہر کوئی ذریعہ نہ رہا آپ کو تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا لیکن کتاب خریدنے, لکھنے کےلیے تختی یا کاپی خریدنے کی طاقت نہ تھی لیکن آپ سفیدچاک سے دیوارون پر لکھتے رہتے تھے اس طرح سے آپ نے لکھنے کی استعداد پیدا کرلی.
1924 کو کسی نہ کسی طرح سے دہلی پہنچ گئے دہلی کو اس دور میں علم و علماء کے مرکز کی حیثیت حاصل تھی وہاں پر مسجد کلاں میں مدرسہ حمیدیہ قائم تھا جو کہ دہلی کے مشہورسیٹھ حافظ حمیداللہ نے جاری کیا تھا. حافظ حمیداللہ علم اور علماء کے بڑے قدرداں تھے. ان دنوں مدرسہ حمیدیہ میں مولانا عبدالجبار محدث کھنڈیلوی رحمہ اللہ کا سلسلہ تدریس جاری تھا. مولانا عطاءاللہ حنیف اس مین شامل ہوگئے اس وقت آپ کی عمر چودہ پندرہ برس تھی. صحاح ستہ اور تفسیر جلالین آپ نے محدث کھنڈیلوی سے پڑھی.
اس زمانے میں دہلی کے پھاٹک حبش خان مولانا ابوسعید شرف الدین " مدرسہ سعیدیہ " میں تدریس فرمارہے تھے آپ نے ان کے سامنے زانوتلمذ تہہ کیا اور ان سے شرح نخبہ الفکر, موطا امام مالک اور دیگر کتب پڑھیں.
آپ دہلی میں چار سال تک مقیم رہے. تفسیر, حدیث اور مروجہ علوم کی کتب پڑھیں مدرسہ حمیدیہ میں ہر طالب علم کو تین روپئے ماہانہ وظیفہ ملتا تھا آپ کی کھانے پینے کی ضروریات بآسانی پوری ہوجاتی تھیں اور جو پیسے بچ جاتے تھے اس سے آپ کتابین خرید لیتے تھے. دہلی سے فراغت کے بعد اپنے گاوں بھوجیان آئے تو کتب کا اچھا خاصہ ذخیرہ بھی ساتھ لائے. اور پھر جلد لکھوکے ضلع فیروزپور مولانا عطاءاللہ لکھوی کے مدرسہ چلے گئے اور ان سے صرف و نحو اور منطق و فلسفہ کی انتہائ مفید کتب پڑھیں مولانا عطاءاللہ کو استاد پنجاب کی حیثیت حاصل تھی اور طویل عرصہ سے صورت حال یہ تھی کہ جس شخص کو لکھوکے میں حصول علم کے مواقع حاصل نہ ہوتے اس کے علم کو مکمل نہیں سمجھا جاتا تھا. پھر وقت آیا کہ استاد پنجاب کے تینوں بیٹوں مولانا حبیب الرحمن لکھوی نے فیروزپور میں اور حافظ شفیق الرحمن و عزیزالرحمن نے مولانا عطاءاللہ حنیف سے دارالعلوم تقویہ الاسلام لاہور میں علم حاصل کیا.
لکھوکے میں مولانا عطاءاللہ لکھوی سے حصول علم کے بعد آپ نے گوندلانوالہ کا رخت سفر باندھا جہاں حضرت حافظ محمد. حدث گوندلوی کا سلسلہ جاری تھا. مولانا عطاءاللہ حنیف نے حضرت حافظ صاحب سے خوب کسب فیض کیا اور ان کے علم و فضل سے مستفید ہونے کے آپ کو بڑے مواقع حاصل ہوئے حافظ صاحب بھی حدیث اور متعلقات حدیث کے موضوع پر آپ کے قلبی لگاو کی قدر کیا کرتے تھے.
تدریس :
گوندلانوالہ سے فراغت کے بعد مولانا عطاءاللہ حنیف اپنے گاوں بھوجیاں تشریف لےگئے ان دنوں مولانا فیض محمد خان مرحوم کے قائم کردہ " مدرسہ فیض الاسلام " میں ان کے بڑے صاحبزادے مولانا عبدالرحمن تدریس کا فریضہ سرانجام دے رہے تھے ان کے کہنے پر مولانا عطاءاللہ حنیف کچھ عرصہ طلبہ کو پڑھاتے رہے.
گوجرانوالہ میں جماعت کی طرف سے مدرسہ محمدیہ کے نام سے ایک مدرسہ قائم کیا گیا تھا اس کے ایک مدرس مولانا عطاءاللہ حنیف کو مقرر کیا گیا تھا اور دوسرے مدرس مولانا عبداللہ بھوجیانی تھے یہ مدرسہ تقریباً تین سال تک جاری رہ سکا تھا اور مدرسہ میں بہت محدود تعداد میں طلبہ تعلیم حاصل کرتے تھے.
1933 میں مولانا عطاءاللہ حنیف کی خدمات کوٹ کپور ( ریاست فریدکوٹ) کی انجمن اصلاح المسلمین نے حاصل کرلیں تھیں خطابت کے علاوہ جو دوسرا کام آپ نے وہاں شروع کیا وہ درس و تدریس تھا اس میں کچھ مقامی طلبہ ہوتے تھے جو آپ سے قرآن مجید کا ترجمہ یا بعض دینی و تاریخی قسم کی کتب پڑھتے تھے اور کچھ وہ طلبہ تھے جو دیگر مقامات کے رہنے والے تھے اور حصول علم کی غرض سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے.
1936 کے آخری دنوں میں مولانا محمدعلی لکھوی کوٹ کپور تشریف لائے اور انجمن اصلاح المسلمین کے سرکردہ ارکان سے کہا کہ مولانا عطاءاللہ حنیف لکھوکے کے طالب علم رہ چکے ہیں اور ہم آپ کی علمی صلاحیتیون کے معترف ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ آپ لوگ انہیں اجازت دیں کہ یہ میرے مرکز الاسلام تشریف لے آئیں اور وہاں تدریسی خدمات سرانجام دیں میری خواہش ہے کہ میرے دونوں بیٹے محی الدین اور معین الدین آپ سے پڑھیں اور دوسرے طلبا بھی علم حاصل کریں. انجمن کے اراکین نے بخوشی اجازت دے دی اور کہا کہ کئی مقامی اور غیر مقامی طلبا آپ سے استفادہ کررہے ہیں ہماری گذارش ہے کہ جو طلبہ تعلیم حاصل کرنے کے خواہاں ہیں ان کو اپنے ساتھ لے جائیں اس طرح سے آپ یکم جنوری 1937 کو کوٹ کپور سے مرکزالاسلام پہنچ گئے.
1937 کے آخر تک آپ مرکزالاسلام لکھوکے میں رہے اکتوبر یا نومبر میں فیروزپور سے مولانا عبیداللہ احرار اور خان عبدالعظیم خان مولانا محمدعلی لکھوی کی خدمت میں درخواست لےکر پہنچ گئے کہ مولانا عطاءاللہ حنیف ہمیں فیروزپور کےلیے دےدیں وہاں کی مسجد گنبداں والی میں خطیب کی بھی ضرورت ہے اور ہم مدرسہ بھی قائم کرنا چاہتے ہیں مولانا محمدعلی لکھوی نے اجازت دے دی اور آپ فیروزپور تشریف لے گئے. اور وہاں پر " دارالحدیث نذیریہ " قائم کرکے تدریسی ذمہ داریان ادا کرنے کے ساتھ ساتھ خطابت کی ذمہ داری بھی سنبھ لی. اس مدرسہ کو دو مزید فاضل اساتذہ مولانا محمد شفیع ہوشیارپوری اور مولانا ثناءاللہ کی خدمات بھی حاصل ہوگئیں.
آپ نے فیروزپور قیام کے دوران ایک کتاب " امام شوکانی " لکھی اور اس کے سرورق پر بطور مصنف "حنیف بھوجیانی " لکھا تھا. مولانا عطاءاللہ حنیف اگست 1947 تک فیروزپور رہے اس دوران ایک سال 1946 میں حضرت صوفی محمد عبداللہ رحمہ اللہ کی درخواست پر مدرسہ تعلیم الاسلام اوڈانوالہ میں بحیثیت مدرس خدمات سرانجام دیتے رہے لیکن آپ کے اہل و عیال فیروز پور میں ہی مقیم رہے.
اگست 1947 کا دور انتہائ ہولناک تھا عزیز رشتہ دار بچھڑ گئے تعلق اور رفاقت کے سلسلے یوں ٹوٹ گئے کہ ان کے دوبارہ ملنے کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی ہر کوئی اپنوں کی تلاش میں تھا مولانا عطاءاللہ حنیف بھی چند دن قصور میں رہ کر اپنے ملنے والوں کے متعلق پوچھتے رہے کسی کا پتہ چلا اور کسی کا پتہ نہ چلنا. بالآخر گوندلانوالہ چلے گئے آپ اگست کی ابتدائی تایخوں میں اپنے اہل و عیال کو وہیں چھوڑ آئے تھے اور آپ کے زیادہ تر رشتہ دار بھی وہیں چلے گئے تھے. فیروزپور میں مولانا عطاءاللہ حنیف کا اچھا خاصہ کتب خانہ تھا جو کہ تفسیر, حدیث, فقہ, تاریخ, سیرت, سوانح, عقائد, اخلاق, ادبیات اور درسیات وغیرہ بہت سے علوم و فنون پر مشتمل تھا یہ مکمل کتب خانہ وہیں رہ گیا اس میں سے صرف تین چار کتابیں ہی آپ اپنے ساتھ لاسکے تھے یہ مکتبہ بھی اس ہنگامے کی نذر ہوگیا اور لوٹ لیا گیا.
مولانا عطاءاللہ حنیف کا اصل کام درس و تدریس اور کتب کا مطالعہ تھا اور آپ نے یہاں گوندلانوالہ میں یہ سلسلہ شروع کردیا.
مولانا عطاءاللہ حنیف دارالعلوم تقویہ الاسلام لاہور کے بھی شیخ الحدیث رہے اور کئی سال تک آپ نے تقویہ الاسلام میں تدریس کی.
1955 میں جب جامعہ سلفیہ (فیصل آباد) کا قیام عمل میں آیا اور لاہور میں دارالعلوم تقویہ الاسلام میں اس کا آغاز ہوا تو اس میں جو اساتذہ کرام مختلف علوم پڑھانے پر مامور ہوئے ان میں مولانا عطاءاللہ حنیف بھی تھے.
مرکزی جمیعت اہل حدیث پاکستان کی تأسیس :
14اگست 1947 کو پاکستان معرض وجود میں آگیا خاندان بکھر گئے عزیز و اقارب کے رابطے ٹوٹ گئے علماء کرام کی مجالس وعظ و نصیحت اجڑ گئیں قیمتی اور نایاب کتب سے بھرے مکتبہ جات لوٹ لیے اور جلادیے گئے جماعتی شیرازہ بکھر گیا تنظیم ختم ہوگئی روابط بھی ختم ہوگئے. جماعتی احباب کو نظم جماعت میں لانے کےلیے مشاورت ہوئی سب سے زیادہ رابطے کےلیے ڈاک کے پتہ جات جس شخصیت کے پاس تھے وہ مولانا عطاءاللہ حنیف تھے. 24 جولائی 1948 کو جماعت کے علماء و زعماء کا اجلاس علامہ محمد ابراہیم میر سیالکوٹی رحمہ اللہ کی صدارت میں ہوا جس میں بطل حریت مولانا سید داود غزنوی کو صدر, پروفیسر عبدالقیوم کو ناظم اعلی اور میاں عبدالمجید کو ناظم مالیات منتخب کیا گیا. آپ بھی اجلاس میں نہ صرف شریک تھے بلکہ آپ مرکزی جمیعت اہل حدیث کے بانی اراکین میں سے تھے آپ مجلس عاملہ کے رکن بھی تھے. جب مرکزی جمیعت اہل حدیث قائم کی گئی تو اس کے کچھ عرصہ بعد جماعت کی رکن سازی بھی کی گئی اور مرکزی جمیعت اہل حدیث کے دستور کی روشنی میں ضلعی اور شہری جمعیتین بھی قائم کی گئیں مولانا عطاءاللہ حنیف کو شہر لاہور کی جمعیت کا امیر منتخب کیا گیا اور آپ طویل عرصہ اس منصب پر فائز رہے.
قائمقام ناظم اعلی :
30 مئی 1949 کو پروفیسر عبدالقیوم نے نظامت اعلی سے استعفی دے دیا آپ کے استعفی کی وجہ سرکاری ملازمین کے نام حکومت پنجاب کا مراسلہ تھا کہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت کے عہدیدار نہیں بن سکتے. پروفیسر صاحب کے استعفی کے بعد شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کو متفقہ طورپر ناظم اعلی مرکزی جمیعت اہل حدیث پاکستان منتخب کیا گیا. لیکن اس وقت مولانا محمد اسماعیل سلفی حکومت پنجاب کی پابندی کی وجہ سے گوجرانوالہ کی میونسپل حدود سے باہر نہیں جاسکتے تھے اور جماعت کے دفتر واقع دارالعلوم تقویہ الاسلام لاہور بھی تشریف نہیں لاسکتے تھے. سید داود غزنوی کی تجویز سے تین ماہ کےلیے مولانا عطاءاللہ حنیف بھوجیانی کو مولانا محمد اسماعیل سلفی کا قائمقام ناظم اعلی بنایا گیا تین ماہ بعد جب مولانا سلفی صاحب سے پابندی ختم ہوئی تو مولانا محمد اسماعیل سلفی حج بیت اللہ کےلیے تشریف لے گئے اس طرح سے مولانا عطاءاللہ حنیف نے چھ ماہ قائمقام ناظم اعلی کا فرئضہ سرانجام دیا.
1953 میں تحریک تحفظ ختم نبوت شروع ہوئی تو اس میں مسلک اہل حدیث کے ہزاروں کی تعداد میں علماء و عوام گرفتار ہوئے مولانا محمد اسماعیل سلفی صاحب کو بھی گرفتار کرلیا گیا اور آپ کئی ماہ تک جیل میں رہے آپ کی غیرموجودگی میں مولانا عطاءاللہ حنیف کو قائمقام ناظم اعلی بنایا گیا.
ہفت روزہ " الاعتصام "
مولانا عطاءاللہ حنیف بھوجیانی کو ہفت روزہ اخبار یا ماہانہ رسالہ جاری کرنے کا شوق تھا آپ نے قیام پاکستان کے بعد قیام گوجرانوالہ کے زمانہ میں ڈی سی کو درخواست دی جو کہ منظور کرلی گئی ڈیکلریشن کا مسئلہ طے ہوگیا اجراء کےلیے سرمائے کی ضرورت تھی مولانا محمد اسماعیل سلفی سے مشاورت کے بعد انجمن اہل حدیث گوجرانوالہ کی طرف سے جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور اس کے ایڈیٹر مولانا محمد حنیف ندوی کو مقرر کیا گیا اور 19 اگست 1949 کو الاعتصام جاری ہوگیا اڑھائی تین سال کے بعد اخبار الاعتصام گوجرانوالہ سے لاہور منتقل کردیا گیا. الاعتصام مولانا عطاءاللہ حنیف کا ذاتی اخبار تھا بعد میں مرکزی جمیعت اہل حدیث کی تحویل میں دےدیا گیا اور کئی سالوں تک یہ اخبار مرکزی جمیعت اہل حدیث پاکستان کی نمائندگی کرتا رہا لیکن بعد میں کچھ ایسے حالات پیدا ہوگئے اور مولانا عطاءاللہ حنیف نے الاعتصام کو دوبارہ اپنی تحویل میں لےلیا تقریباً 68 سال گذرچکے ہیں اور بحمداللہ الاعتصام آج بھی جاری ہے اور کتاب و سنت کی ترقی اور مسلک اہل حدیث کی اشاعت میں کوشاں ہے اور اپنا بھرپور کردار ادا کررہا ہے.
الاعتصام کے مختلف ادوار میں کئی علماء کرام مدیر رہے جن کے اسماء گرامی یہ ہیں.
مولانا محمد حنیف ندوی, مولانا محمد اسحاق بھٹی, مولانا محی الدین سلفی, شہیدملت علامہ احسان الہی ظہیر مولانا عطاءاللہ حنیف, حافظ صلاح الدین یوسف, مولانا علیم ناصری, قاری نعیم الحق نعیم, حافظ عبدالوحید اور حافظ احمد شاکر.
آج کل اخبار الاعتصام کے سرپرست مولانا ابوبکر الصدیق السلفی, مدیر مسئول حافظ احمدشاکر اور منیجر محمد سلیم چنیوٹی ہیں جبکہ مجلس ادارت میں شیخ الحدیث حافظ ثناءاللہ مدنی حفظہ اللہ , شیخ مولانا ارشادآلحق اثری حفظہ اللہ ,ملک عصمت اللہ قلعوی, حافظ حمادشاکر اور حمادالحق نعیم ہیں.
دارالدعوہ السلفیہ :
مولانا عطاءاللہ حنیف رحمہ اللہ کو لکھنے پڑھنے کا بچپن سےہی شوق تھا ابتداء سے ہی کتب خریدنا اور پڑھنا مشغلہ بنالیا تھا. قیام دہلی کے دوران کھانے کے لیے تین روپئے وظیفہ ملتا تھا ایک یا سوا روپئے میں گذارہ کرتے اور بقیہ پیسوں کی کتب خرید لیتے. چنانچہ جب وہاں سے فراغت کے بعد بھوجیان پہنچے تو کتابوں کی بھری ہوئی بوریاں ساتھ لائے. تقسیم ہند کے وقت جب فیروزپور سے ہجرت کی تو ہزاروں کتب پر مشتمل کتب خانہ وہیں چھوڑ آئے. قیام پاکستام کے بعد ازسرنو کتب خریدنا شروع کیں جو کہ ایک عظیم الشان لائبریری بن گئی. آپ نے " دارالدعوہ السلفیہ " کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس کی طرف سے کئی اہم کتب شایع کی گئیں اس ادارے میں مصباح القرآن کے نام سے حفظ و قرأت کا مدرسہ بھی جاری کیا اور اپنا ذاتی کتب خانہ اس میں وقف کردیا. دارالدعوہ السلفیہ کا صدر مولانا فضل الرحمن الازہری اور جنرل سیکریٹری اپنے بیٹے حافظ احمدشاکر کو بنایا دارالدعوہ السلفیہ کی اپنی خوبصورت و عالی شان عمارت تعمیر کی جس میں یہ کتب خانہ, مسجد, مدرسہ اور الاعتصام کا دفتر بھی ہے.
تصنیف و تالیف :
مولانا عطاءاللہ حنیف کو مطالعہ کرنے اور لکھنے کا شوق تھا آپ نے درس و تدریس کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی جاری رکھا آپ کی تصانیف عربی اور اردو زبان میں ہیں.
1953 مولانا سید داود غزنوی رحمہ اللہ نے آپ کی ذمہ داری سنن ابی داود کا حاشیہ لکھنے کی لگائی اور فرمایا کہ اس کام کےلیے جس کو چاہیں اپنا معاون مقرر فرمالیں چنانچہ آپ نے ابوبکرصدیق کو اپنا معاون بنالیا تھا اور یہ سلسلہ ڈیڑھ سال ہی چل سکا پھر بند ہوگیا
1 التعلیقات السلفیہ
2 حواشی الفوزالکبیر (عربی)
3 حواشی, تخریج وتنقیح وتعلیق تفسیر احسن التفاسیر
4 حواشی اصول تفسیر ابن تیمیہ
5 حواشی, تنقیح, تخریج و تعلیق تنقیح الرواہ فی تخریج احادیث المشکواہ (عربی) ( جلد ثالث)
6 فیض الودود تعلیق سنن ابی داود
7 احادیث رفع الیدین کا کوئی ناسخ نہیں
8 رہنماء حجاج
9 قربانی کی شرعی حیثیت اور چند غلط فہمیوں کا ازالہ
10 پیارے رسول کی پیاری دعائیں
11 تعلیق الاتباع (عربی)
12 ترجمہ الایقان فی سبب الاختلاف
13 اسلام اور قبروں کا عرس
14 روح الانام عن محدثات عاشر محرم الحرام
15 کربلا کی کہانی حضرت ابوحعفر صادق کی زبانی
16 امام شوکانی
17 حواشی امام احمدبن حنبل
18 حواشی امام ابوحنیفہ
19 حواشی امام ابن تیمیہ
20 اتحاف النبیہہ فیما یحتاج الیہ المحدث والفقیہہ
حکومتی کمیٹیوں میں شرکت :
مولانا عطاءاللہ حنیف سرکاری قسم کی میٹنگوں اور مجلسوں سے گھبراتے تھے بعض ایسی سرکاری قسم کی کمیٹیوں کی رکنیت جس میں شرعی معاملات زیربحث آتے ہوں وہ قبول تو کرلیتے تھے لیکن دل میں کچھ تکدر سا بہرحال رہتا تھا.
ایک مرتبہ آپ کو محکمہ اوقاف کے زیرانتظام چلنے والے مدارس کی نصاب کمیٹی کا رکن مقرر کیا گیا لیکن آپ نے محض اس بنا پر اس کی رکنیت قبول کرنے سے انکار کردیا کہ ارکان کو آمدورفت وغیرہ کا جو کرایہ دیا جاتا ہے اس کے ذرائع حصول میں شرک کی آمیزش ہے.
ایک مرتبہ جنرل ضیاءالحق نے مجلس شوری قائم کی جس کے تمام ارکان اس کے اپنے نامزد کردہ تھے ان ارکان میں مولانا عطاءاللہ حنیف بھی شامل تھے۔
اسی طرح سے رویت ھلال کمیٹی اور اسلامی نظریاتی کاونسل کے بھی آپ رکن رہے ہیں۔
وفات :
مولانا عطاءاللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ پر 1983 میں فالج کا حملہ ہوا تھا جس سے آپ صاحب فراش ہوگئے تھے تاآنکہ پیغام اجل آپہنچا اور یہ عالم نبیل 2اور3 اکتوبر کی درمیانی شب اس دار فانی کو چھوڑ کر دارالبقا کی طرف چل پڑا. ولی کامل حافظ محمد یحی عزیز میر محمدی رحمہ اللہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور میانی صاحب قبرستان میں آپ کو دفن کردیا گیا.
اللہم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
⁠⁠⁠تذکرہ اسلاف (3)
جمع و ترتیب : عبدالرحمن ثاقب سکھر

پروفیسر سید ابوبکر غزنوی رحمہ اللہ


سیدابوبکر غزنوی 23 مئی 1927 کو برصغیر کے معروف علمی اور روحانی خاندان غزنویہ کے گل سرسبد مولانا سید محمد داود غزنوی کے گھر امرتسر میں پیدا ہوئے.
سید ابوبکر غزنوی مولانا سید محمد داود کے بیٹے, حضرت الامام سید عبدالجبار غزنوی کے پوتے اور حضرت سید عبداللہ غزنوی کے پڑپوتے تھے. یہ تینوں نسبتیں بہت بڑی نسبتیں ہیں.
تعلیم :
سید ابوبکر غزنوی رحمہ اللہ نے خزانہ گیٹ ہائی اسکول امرتسر سے میٹرک کیا. بی اے, ایم او اے کالج امرتسر سے کیا. یہ اسکول اور کالج قیام پاکستان کے بعد امرتسر سے لاہور منتقل ہوگئے تھے.
1950 میں آپ نے پنجاب یونیورسٹی ایم سے ( عربی) کیا پورے پنجاب میں اول آئے اور گولڈ میڈل حاصل کیا. ایم اے کرنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی بھی کیا. آپ اس قدر ذہین اور تیز فہم تھے کہ اگر ایل ایل بی کرنے کے بعد وکالت کا پیشہ اختیار کرتے تو بہت بڑے وکیلوں میں آپ کا شمار ہوتا لیکن آپ نے تعلیم و تعلم کا راستہ اختیار کیا اور یہی آپ کے لیے صحیح رستہ تھا جو کہ آپ کے آباءواجداد کی راہ تھی.
دینیات کی تعلیم آپ نے باقاعدگی سے حاصل نہ کی تھی اگرچہ اپنے والد محترم مولانا سید داود غزنوی, مولانا عبدالرحیم ( حسین خان والا) مولانا عطاءاللہ حنیف بھوجیانی, مولانا محمد عبدہ, حافظ محمد محدث گوندلوی, مولانا شریف اللہ خان اور پروفیسر غلام احمد حریری سے مختلف اوقات میں کسب فیض کیا.
تدریس :
پنجاب یونیورسٹی سے 1950 میں ایم اے کرنے کے بعد اسی سال اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور میں تدریسی ذمہ داریاں سنبھالیں. اسی کالج میں عربی اور اسلامیات کے شعبوں کے سربراہ بھی رہے. علمی حلقوں میں بطور استاد آپ کا بے حد احترام کیا جاتا تھا .اس زمانے میں اورینٹل کالج ( لاہور) کے پرنسپل ڈاکٹر سید عبداللہ تھے انہون نے آپ کو اپنے کالج میں عربی کے جزوقتی لیکچرار مقرر کرلیا تھا. جدید عربی آپ کا خاص موضوع تھا. اور پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر حمید الدین خان مرحوم آپ کے بڑے مداح تھے.
1964 میں آپ انجنیرنگ یونیورسٹی لاہور سے منسلک ہوئے اور آپ کو علوم اسلامیہ کی سربراہی کا منصب عطاء کیا گیا اس یونیورسٹی آپ نے بڑی محنت سے کام کیا اور آپ کی جدوجہد کے نتیجے میں یہ شعبہ توحید و سنت کا مرکز بن گیا.
ستمبر 1975 میں آپ کو اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا پہلا وائس چانسلر مقرر کیا گیا اس سے قبل اسے ایک دینی درسگاہ کی حیثیت حاصل تھی جس کو جامعہ عباسیہ کہا جاتا تھا. ایوب خان کے دور حکومت میں اس کے نصاب میں اسلامی علوم کے ساتھ کچھ جدید علوم بھی شامل کردیے گئے تھے لیکن اس کو مکمل یونیورسٹی کا درجہ ذولفقارعلی بھٹو کے عہد حکومت ( 1975) میں دیا گیا سید ابوبکر غزنوی اس کے اولین وائس چانسلر مقرر ہوئے آپ نے اس کی تعمیر و ترقی کےلیے بڑی تگ و دو کی.
چنانچہ آپ نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے وائس چانسلر کا عہدہ بعض شرائط کے ساتھ قبول کیا تھا اور یونیورسٹی کا باقاعدہ نظام سنبھالنے کے بعد پہلا کام یہ کیا کہ ملک کے نامور اساتذہ کرام کو چن چن کر اور منہ مانگی تنخواہیں دے کر یونیورسٹی میں جمع کیا ان اساتذہ میں پروفیسر غلام احمد حریری, عبدالحی صدیقی اور بشیر احمد صدیقی کے اسماء گرامی شامل ہیں. یونیورسٹی کےلیے باقاعدہ نیو بغداد کیمپس کےلیے وسیع و عریض قطعہ اراضی حاصل کیا اور نئے کیمپس کی بنیاد رکھی.
تصنیف و تالیف :
سید ابوبکر غزنوی اگر تصنیف و تالیف کی طرف زیادہ عنان توجہ مبذول کرتے تو اس میدان میں بہت کامیاب رہتے اس لیے کہ اللہ تعالی نے آپ کو دلکش زبان اور خوبصورت انداز نگارش سے بھی نوازا تھا علم و مطالعہ کی دولت بھی عطا فرمائی تھی. ذہانت و فطانت سے بھی بارگاہ خداوندی سے آپ کو بہرہ وافر حاصل ہوا تھا اور قوت اظہار کا ملکہ بھی ودیعت فرمایا گیا تھا لیکن آپ نے اس میدان میں زیادہ جدو و جہد نہیں کی ایک کتاب اور چند رسائل آپ کی یادگار ہیں بڑے مفید اور لائق اعتنا ہیں.
1 مولانا سید محمد داود غزنوی
2 اسلام میں گردش دولت
3 حقیقت ذکر الہی
4 ادب محبت کا پہلا قرینہ ہے
5 قربت کی راہیں
6 اسلام اور آداب معاشرت
7 اس دنیا میں اللہ کا قانون جزاء و سزا
8 واقعہ کربلا
9 قرآن کے صدری و سنوی محاسن
10 تاریخ اسلام ( عہد بنو امیہ و بنوعباس)
11خطبات جہاد
12 سورہ محمد, سورہ فتح اور سورہ حجرات کی تفسیر و ترجمہ
13 تعلیم و تزکیہ
14 اسلامی ریاست کے چند ناگزیر تقاضے
15 کتابت حدیث عہد نبوی میں
16 عہد حاضر میں استاد اور شاگرد کا رشتہ

دارالعلوم تقویہ الاسلام کی سربراہی :
16 دسمبر 1963 کو مولانا سید محمد داود غزنوی وفات پاگئے تو خاندان غزنویہ اور دارالعلوم تقویہ الاسلام لاہور کے سربراہ آپ کو بنایا گیا یہ بڑی ذمہ داری تھی جسے آپ سرانجام دیتے رہے اور آپ کے آباواجداد کا قائم کردہ دارلعلوم تھا جس کے انتظامی امور کو آپ نے بطریق احسن سرانجام دیا.
منصب نظامت :
مرکزی جمیعت اہل حدیث پاکستان کے بانی و اولین صدر مولانا سید محمد داود غزنوی نے 16 دسمبر 1963 کو انتقال کیا آپ کے انتقال کے بعد مرکزی جمیعت اہل حدیث کی مجلس شوری کا اجلاس مولانا محمد اسحاق رحمانی رحمہ اللہ کی صدارت میں جنوری 1964 کو ہوا. جس میں شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی کو امیر اور پروفیسر ابوبکر غزنوی کو ناظم اعلی منتخب کرلیا گیا آپ کچھ عرصہ ناظم اعلی کے منصب پر فائز رہے لیکن بعض نامساعد حالات کی وجہ سے مولانا محمد اسماعیل سلفی کی امارت اور سید ابوبکر غزنوی کی نظامت ایک ساتھ نہ چل سکیں باالآخر دونوں کے راستے الگ ہوگئے.
خطابت :
پروفیسر سید ابوبکر غزنوی دارالعلوم تقویہ الاسلام لاہور کے وسیع ہال میں خطبہ جمعۃ المبارک باقاعدگی سے ارشاد فرمایا کرتے تھے آپ کا خطاب بڑا دلپذیر ہوتا تھا بلکہ
جوبات دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
کا مصداق دلوں میں اتر جاتا, فکر آخرت کے موضوع پر خطاب کے دوران سامعین کی آنکھوں سے آنسوؤں کی کی جھڑیاں لگ جاتیں. لاہور شہر کے طول و عرض سے بڑے بڑے اصحاب دانش آپ کے خطبہ جمعہ میں حاضر ہو کر علمی موتیوں سے اپنے دامن کو بھرتے اور علمی ضیاء پاشیوں سے اپنے قلوب کو منور کرتے.
میرے شیخ پروفیسر محمد ظفراللہ رحمہ اللہ بانی و مدیر جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی نے واقعہ سنایا کہ جب وہ کراچی یونیورسٹی کی آخری کلاس میں تھے تو انہوں نے کراچی یونیورسٹی میں پروفیسر سید ابوبکر غزنوی کا پروگرام رکھا جب آپ خطاب فرمارہے تھے تو اگلی صفوں میں بیٹھے ہوئے لڑکے اور اور پچھلی لائنوں میں بیٹھی ہوئی لڑکیاں رورہی تھیں. پروفیسر ابوبکر غزنوی نے خطاب میں کہا کہ تمہاری مثال اس شہزادی کی ہے جس کے گلے میں ہیروں کی مالا پڑی ہو اور اسے کھوٹے سکے چوری کرنے کی عادت ہو. اصل علم تمہارے پاس ہے اور تم اوروں کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہے ہو اور اصل علم قرآن و سنت کا ہے.
وفات :
اپریل 1976 میں لندن اسلامک فیسٹیول منعقد ہورہا تھا اس میں مقالہ پڑھنے کےلیے پاکستانی وفد کے ساتھ لندن روانہ ہوئے وفد کی قیادت مولانا کوثر نیازی کررہے تھے. 4 اور 5 , اپریل کی درمیانی شب لندن کی ایک سڑک عبور کرتے ہوئے تیز رفتار کار کی زد میں آگئے یہ حادثہ اتنا شدید تھا کہ آپ کی ہنسلی ٹوٹ گئی, دونوں ٹانگیں اور ریڑھ کی ہڈی بھی ٹوٹ گئی. اسی وقت آپ کو لندن کے ویسٹ سینٹر ہسپتال میں کرادیا گیا. ہسپتال کے کنگ جارج وارڈ میں آپ کا علاج شروع ہوا اس کے تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر راشد رندھاوا صاحب کو لندن سے بذریعہ فون اس حادثہ کی اطلاع آئی دوسرے دن جلی سرخیوں کے ساتھ یہ خبر شائع ہوئی جس سے آپ کے احباب و متعلقین انتہائی تشویش سے دوچار ہوئے اور آپ کی صحت کےلیے بےشمار لوگوں نے اللہ تعالی سے دعائیں مانگیں.
24 اپریل 1976 کو اسی ہسپتال میں آپ کا انتقال ہوگیا. اناللہ وانا الیہ راجعون
29 اپریل کو پی آئی کے جہاز سے آپ کی میت لاہور پہنچی دن کے گیارہ بجے کے قریب دارالعلوم تقویۃ الاسلام میں تابوت میں بند آپ کی میت پہنچی. نماز مغرب کے بعد جنازہ اٹھایا گیا اور تابوت کے ساتھ لمبے لمبے بانس باندھ دییے گئے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ کندھا دے سکیں .نماز جنازہ مولانا معین الدین لکھوی نے سنت کے مطابق جہری آواز میں پڑھائی اور نہایت خشوع و خضوع سے دعائیں مانگیں اس کے بعد غزنوی خاندان کے اس عظیم فرزند کو قبرستان میانی صاحب میں آپ کے والد مکرم مولانا سید محمد داود غزنوی کے پہلو میں دفن کردیا گیا. آپ نے 49 سال عمر پائی.
اللھم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
⁠⁠⁠پروفیسر سیدابوبکر غزنوی کی یاد میں
کہاں مقام یہ ہرایک آدمی کےلیے
موت بن گئی پیغام زندگی کےلیے
قلم اٹھا تھا یونہی ذکر سرسری کےلیے
دریچے کھل گئے اسرار داخلی کےلیے
میں ان کے میکدہ علم و فن سے در گذرا
کہیں خودی نہ مچل جائے بیخودی کےلیے
اندھیرے جس سے لرزتے ہوں رات کانپتی ہو
ترس رہی ہے نظر ایسی روشنی کےلیے
وہ اک چاند تھا تاریخ نو کے ماتھے پر
وہ فرد ایک قبیلہ تھا زندگی کےلیے
گناہ و جرم سے محفوظ تھا ضمیر اس کا
تھا اس کا قلب فقط علم و آگہی کےلیے
قدم قدم پہ سہی علم ظاہری کے چراغ
ترس کے رہ گئے علم باطنی کےلیے
جو اس نے درس دیا اس سے جاگ اٹھیں روحیں
وہ خضر راہ تھا دستور مذہبی کےلیے
کہاں سے ڈھونڈ کے لائیں کہاں تلاش کریں
جس آدمی میں ہو وہ ایثار آدمی کےلیے
یہاں تو پہلے ہی قحط الرجال تھا یارو
اصول پوچھیے اب کس سے زندگی کے لیے
یہ حادثہ بھی مقدرمیں تھا کہ میں دانش
لکھوں گا شعر ابوبکر غزنوی کےلیے

شاعر : احسان دانش
ماخوذ از : اہل حدیث منزل بہ منزل
از ڈاکٹر عبدالغفور راشد صاحب​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
⁠⁠⁠تذکرہ اسلاف (4)
جمع و ترتیب : عبدالرحمن ثاقب سکھر

مولانا محمد اسحاق رحمانی گوہڑوی رحمۃ اللہ علیہ


مولانا محمد اسحاق رحمانی گوہڑوی حاجی اللہ بخش کے گھر موضع گوھڑ تحصیل پتوکی ضلع قصور میں پیدا ہوئے اور آپ کا تعلق آرائیں برادری سے تھا. اس علاقے کے لوگ لکھوی علماءکرام کے عقیدت مند تھے.
تعلیم :
مولانا محمد اسحاق رحمانی نے ابتدائی تعلیم گھر میں حاصل کی اس کے بعد لکھوکے چلے گئے وہاں نحو و صرف اور حدیث کی بعض کتابیں پڑھیں. 1926 میں دہلی کا سفر اختیار کیا اور دارالحدیث رحمانیہ میں داخلہ لیا آپ ذہین اور محنتی تھے اور مدرسہ کے ہر امتحان میں ٹاپ پوزیشن لے کر کامیاب ہوئے. حضرت مولانا احمداللہ رحمۃ اللہ علیہ سے کتب حدیث کی تکمیل کی اور مدرسہ رحمانیہ سے سند فراغت حاصل کی.
خطابت :
تعلیم سے فراغت حاصل کرنے کے بعد کلکتہ کا رخ کیا اور کچھ عرصہ وہاں رہ کر دعوت و تبلیغ میں مشغول رہے آپ بہت اچھی تقریر کرلیتے تھے تبلیغ کا بھی شوق تھا اور آپ لوگوں سے ملنے ملانے کے سلیقے سے بھی آشنا تھے کچھ عرصہ اس علاقے میں رہ کر واپس وطن آگئے اور ضلع گوجرانوالہ کے ایک گاؤں وڈالا سندھواں کی مسجد میں خطابت و امامت کا سلسلہ شروع کیا آپ اپنے انداز سے وعظ و تبلیغ کرتے رہے اور لوگ آپ سے متأثر ہوئے.
کئی سال آپ قصور کی جامع مسجد اہل حدیث ( جامع فریدیہ) کے منصب خطابت پر فائز رہے قصور کا قیام آپ کو بہت پسند تھا کیونکہ آپ کا گاؤں بھی قریب تھا اور جمعیت اہل حدیث کے معاملات میں لاہور آنا جانا بھی آپ کے لیے آسان تھا. لیکن سرگودھا کی جماعت کے احباب نے سرگودھا جانے اور وہاں خطابت و تدریس کی خدمت سرانجام دینے کےلیے اصرار کیا چنانچہ آپ وہاں تشریف لے گئے لیکن وہاں کی آب و ہوا آپ کو راس نہ آئی لہذا کچھ عرصہ کے بعد وہاں سے واپس آگئے.
کچھ عرصہ آپ کی خطابت و تدریس کا سلسلہ جامع مسجد چینیانوالی لاہور میں بھی جاری رہا.
سرگودھا کی جماعت اور وہاں کے لوگ آپ کے طرز تکلم اور طریقہ تدریس سے بہت خوش تھے چنانچہ وہ دوبارہ اصرار کرکے آپ کو سرگودھا لے گئے وہاں آنے کے بعد خطابت کے ساتھ طلبہ کےلیے باقاعدہ درس و تدریس کا سلسلہ شروع کردیا. آپ روزانہ درس و تدریس کے علاوہ بعد نماز ظہر درس حدیث بھی دیا کرتے تھے.
تحریک آزادی پاکستان میں حصہ :
مولانا محمد اسحاق رحمانی گوہڑوی نے جب حصول پاکستان کی تحریک چل رہی تھی تو اس میں بھرپور حصہ لیا اور اس سلسلہ میں اپنے علاقے تحصیل چونیاں ضلع قصور میں بہت کام کیا. 1945 کے انتخابات میں بہت بھاگ دوڑ کی آپ کا خیال تھا کہ پاکستان کے قیام کے بعد ملک میں ہر طرف اسلام ہی نظر آئے گا اور غیر اسلامی طریقے ختم ہوجائیں گے.
مرکزی جمیعت اہل حدیث سے تعلق اور منصب :
مولانا محمد اسحاق رحمانی مرکزی جمیعت اہل حدیث کے تأسیسی اجلاس میں تو شریک نہ تھے لیکن جب آپ کا تعلق جماعت سے پیدا ہوگیا تو جماعت کے لیے اپنے آپ کو وقف کردیا تھا. بطل حریت مولانا سید محمد داؤد غزنوی رحمہ اللہ اور دیگر اکابرین کا بے حد احترام کرتے تھے آپ تقریباً بیس سال مجلس عاملہ کے رکن رہے سوائے ایک اجلاس کے سب اجلاسوں میں حاضر ہوتے رہے.
19 جنوری 1964 کو مولانا سید محمد داؤد غزنوی کی وفات کے بعد مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمۃ اللہ علیہ کو امیر اور پروفیسر سید ابوبکر غزنوی رحمہ اللہ کو ناظم منتخب کیا گیا لیکن پروفیسر سید ابوبکر غزنوی کا دور نظامت محدود رہا. سید ابوبکر غزنوی کے بعد مولانا محمد اسحاق رحمانی کو عبوری طور پر ناظم اعلی بنایا گیا تھا اور آپ بھی تھوڑا عرصہ ناظم اعلی رہے .تاہم آپ کا نام بھی ناظمین کی فہرست میں شامل ہے.
وفات :
مولانا محمد اسحاق رحمانی گوہڑوی قیام سرگودھا کے دوران روزانہ درس و تدریس کے علاوہ نماز ظہر کے بعد درس حدیث دیتے تھے. کچھ عرصہ سے آپ دل کے مریض بھی تھے جماعتی معاملات اور تبلیغ کے سلسلہ میں آنے جانے کا سلسلہ بھی چلتا رہتا تھا. 4 ستمبر 1967 کو حدیث کی کتاب کا مطالعہ کررہے تھے مسجد کی گیلری سے طلبہ کے شور کی آواز سنی انہیں خاموش کرانے کےلیے گیلری میں گئے اور وہیں حرکت قلب بند ہوگئی اور لمحہ بھر میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے. اناللہ وانا الیہ راجعون
آپ کی موت کی خبر فورا شہر میں پھیل گئی شام کو سات بجے نماز جنازہ پڑھی گئی. اس کے بعد بذریعہ ٹرک میت آپ کے گاؤں موضع گوہڑ لائی گئی وہاں پر صبح ساڑھے آٹھ بجے دوبارہ نماز جنازہ پڑھی گئی اور بےشمار لوگون نے نماز جنازہ میں شرکت کی پھر آپ کو سپرد خاک کردیا گیا. آپ نے 55 یا 56 سال عمر پائی.
اللھم اغفر لہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
تذکرہ اسلاف (5 )
جمع و ترتیب : عبدالرحمن ثاقب

میاں فضل حق رحمة الله عليه


مياں فضل حق رحمة الله عليه میاں محمد حسن کے گھر 1920 کے لگ بھگ موضع رعیہ ضلع امرتسر میں پیدا ہوئے. آپ کے والد میاں محمد حسن ٹھیکیدار اور صاحب ثروت تھے علماء کرام سے محبت اور مہمان نوازی میاں فضل حق کو اپنے والد محترم سے ورثے میں ملی تھی.
تعلیم :
میان فضل حق مرحوم نے دیندار گھرانوں کے رواج کے مطابق پہلے قرآن مجید پڑھا پھر اردو کی چند کتابیں پڑھیں جب شعور کی دہلیز پر قدم رکھا تو والدین نے ویرووال کے مدرسہ میں مولانا عبداللہ کے حلقہ درس میں داخل کرادیا آپ نے ان سے دینیات کی کچھ تعلیم حاصل کی. آپ مروجہ تعلیم کی تکمیل تو نہ کرسکے لیکن جو کچھ حاصل کیا اس پر عمل پیرا رہے اور اس پر آپ کی معاشرتی زندگی ثبوت پیش کرتی رہی.
کاروبار :
بعد ازاں اپنے والد گرامی کے ساتھ کاروبار میں شریک ہوگئے اصل کاروبار نہر دوآب اپرباری کے کچھ حصے کا ٹھیکہ اور اینٹوں کا بھٹہ تھا.
میان فضل حق مرحوم چار بھائی تھے قیام پاکستان اور ہجرت کے بعد جب حافظ آباد میں قیام پذیر ہوگئے تو انہوں نے بیک وقت تین کام شروع کیے اور اللہ تعالی نے تینوں میں برکت دی.
1* حافظ آباد میں ایک بھٹہ الاٹ کروایا یہ کام اپنے پرانے گاوں رعیہ میں بھی کرتے تھے اور انہیں اس کا تجربہ بھی تھا اس خاندان کے تمام افراد محنتی اور کاروباری ذہن رکھتے تھے اس میں انہیں خوب نفع ہوا.
2* حافظ آباد سے پنڈی بھٹیاں تک سڑک کا ٹھیکہ مل گیا اس کا بھی انہیں تجربہ تھا تقسیم ملک سے پہلے نہر اپرباری کا کچھ حصے کا ٹھیکہ ان کے پاس تھا.
3* اچھی خاصی زرعی زمین الاٹ ہوگئی تھی اور کچھ خرید لی تھی زراعت و کاشت کاری بھی یہ لوگ پہلے کرتے تھے اس میں کوئی مشکل پیش نہ آئی. اس طرح سے تیزی کے ساتھ یہ خاندان مالی آسودگی سے ہمکنار ہوتا چلا گیا. خوشاب میں کوئلے کی کانون کا ٹھیکہ ملا, انصاف ٹیکسٹائل مل فیصل آباد کا قیام عمل میں آیا اور متعدد کاروبار کیے جن میں اللہ تعالی نے برکت عطاء فرمادی.
ہجرت اور حافظ آباد میں قیام :
قیام پاکستان کے بعد میاں فضل حق کا خاندان حافظ آباد ضلع گوجرانوالہ میں آکر آباد ہوا ان کی وجہ سے قدیم وطن اور قرب و جوار کے جماعت اہل حدیث کے احباب نے بھی حافظ آباد کا رخ کیا اور اس شہر کو اپنا مسکن بنایا. جماعت کے بعض واعظین اور مقررین نےبھی حافظ آباد میں قیام کیا جن میں مولانا حکیم محمد ابراہیم, مولانا محمد یحی اور مولانا امیرالدین وغیرہ شامل ہیں ان کا شمار اس دور میں جماعت اہل حدیث کے مشہور واعظین میں ہوتا تھا.
میاں فضل حق اس وقت نوجوان تھے اور آپ کی عمر ستائیس اٹھائیس برس تھی. لیکن نیکی, دین داری اپنے مسلک سے وابستگی اور علماء سے عقیدت و تعلق آپ کی زندگی کے اہم اوصاف تھے اور راہ خدا میں خرچ کرنے کا بھی جذبہ رکھتے تھے.
مسجد مبارک کی تعمیر :
حافظ آباد میں آکر میان فضل حق نے پہلا جو کام کیا وہ مسجد کی تعمیر تھی جس کا نام مبارک مسجد رکھا گیا غالباً اس شہر میں اہل حدیث کی یہ پہلی مسجد تھی بہت جلد اس مسجد کو شہر اور علاقے میں مرکزی حیثیت حاصل ہوگئی اس کے خطیب مولانا محمد ابراہیم تھے.
پرائمری اسکول :
مسجد کی تعمیر کے علاوہ میاں فضل حق نے دو پرائمری اسکول تعمیر کروائے ایک لڑکوں اور دوسرا لڑکیوں کےلیے یہ ایک تعلیمی اور عوامی خدمت تھی. جس کا اجر آپ کو بارگاھ رب العالمین میں ملتا رہے گا. ان شاءاللہ
دارالحدیث محمدیہ :
میاں فضل حق مرحوم نے کوشش کرکے ایک دینی مدرسہ قائم کیا جس کا نام دارالحدیث محمدیہ تھا. میاں فضل حق اس کے مہتمم تھے مدرسہ میں مروجہ علوم کی تعلیم دی جاتی تھی. مدرسہ میں ممتاز علماء کرام نے تدریسی خدمات سرانجام دیں ان میں سے جماعت اہل حدیث کے ممتاز عالم علامہ محمد یوسف کلکتوی بھی ایک عرصہ تک طلبہ کو مستفید فرماتے رہے ہیں. آپ کے علاوہ مولانا عبدالرحمن صافوی, مولانا فضل الرحمن کلیم, حافظ محمد اسماعیل اسد, مولانا محمد داؤدعلوی, مولانا مشتاق احمد اور مولانا محمد یحی گوندلوی بھی یہاں مصروف تدریس رہے درس نظامی کے علاوہ شعبہ حفظ قرآن بھی قائم تھا. یہ پنجاب کا ایک مشہور مدرسہ تھا.
سیاست میں حصہ :
قیام پاکستان کے بعد 1951 میں صوبائی انتخابات ہوئے میاں فضل حق نے ان انتخابات میں بذات خود تو حصہ نہ لیا لیکن بعض امیدوار جنہیں آپ اپنی دانست میں موزوں سمجھتے تھے ان کی مدد کی اور انہین ہر قسم کی اعانت بہم پہنچائی.
ایوب خان نے 1962 میں بی ڈی سسٹم کے الیکشن کروائے جو کہ نچلی سطح سے انتخاب کا ایک طریقہ کار تھا .میاں فضل حق صاحب نے بھی حافظ آباد کے ایک حلقے سے یہ انتخاب لڑا اور کامیاب رہے اس کے بعد بی ڈی سسٹم کے تحت چیئرمین کا بھی انتخاب لڑا اور اس میں بھی کامیاب ہوئے.
مرکزی جمیعت اہل حدیث کے ناظم اعلی ہونے کی بناء پر صدر ضیاءالحق نے میاں فضل حق کو مجلس شوری کا رکن مقرر کیا. صدر صاحب آپ کی دینداری اور نیکی سے بہت متأثر تھے اور آپ کا احترام کرتے تھے
جامعہ سلفیہ :
1948 میں مرکزی جمیعت اہل حدیث پاکستان قائم کی گئی. مرکزی جمیعت اہل حدیث کے قیام کے کچھ ہی عرصہ بعد اکابرین جماعت کے ذہنوں میں یہ بات گردش کرنے لگی کہ جماعت کا ایک مرکزی دارالعلوم ہونا چاہئے جس میں دور حاضر کو سمجھنے اور اس کی روشنی میں فریضہ تبلیغ ادا کرنے والے مبلغ, مصنف, مقرر اور خطیب تیار کیے جائیں. 4اپریل 1955 کو " جامعہ سلفیہ " کا سنگ بنیاد رکھا گیا اس تقریب سعید میں بےشمار لوگوں نے شرکت کی. جن میں مرکزی جمیعت اہل حدیث کے صدر مولانا سید محمد داؤد غزنوی, ناظم اعلی مولانا محمد اسماعیل سلفی ارکان مجلس عاملہ و شوری اور مدارس کے مہتمم حضرات نے شرکت کی. سنگ بنیاد فیصل آباد کے مشہور بزرگ میر حکیم نورالدین مرحوم نے رکھا. اس کے بعد صوفی محمد عبداللہ اور میاں محمد باقر نے ایک ایک اینٹ رکھی اس موقع پر ناظم اعلی مرکزی جمیعت اہل حدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی نے نہایت پر اثر اور پر سوز تقریر کی اس کے بعد جماعت کے صدر حضرت مولانا سید محمد داؤد غزنوی نے باگاہ الہی میں ہاتھ اٹھا کر خشوع و خضوع سے لمبی دعا مانگی.
جامعہ سلفیہ مرکزی جمیعت اہل حدیث کا قائم کردہ تعلیمی ادارہ تھا لیکن اس کے ابتدائے قیام ہی سے ایک مستقل کمیٹی اس کے مختلف معاملات سرانجام دیتی اور اس کی نگرانی کرتی تھی اس کمیٹی کے صدر مولانا سید محمد داؤد غزنوی تھے جبکہ مولانا محمد اسماعیل سلفی, حاجی محمد اسحاق حنیف, میاں فضل حق, مولانا عطاءاللہ حنیف, مولانا محمد اسحاق چیمہ, مولانا عبیداللہ احرار, مولانا محمد حنیف ندوی, مولانا محمد صدیق اور میاں عبدالمجید اس کے ارکان تھے. مختلف اوقات میں بعض دیگر احباب بھی اس کے رکن بنے.
1961 میں میاں فضل حق کو اس کمیٹی کا صدر بنایا گیا کیونکہ ان دنوں مولانا سید محمد داؤد غزنوی بیمار رہتے تھے اور بیماری کی وجہ سے زیادہ وقت جامعہ سلفیہ کو نہیں دے سکتے تھے .چنانچہ یہ ذمہ داری میاں فضل حق کے سپرد کردی گئی. 1963 میں مولانا سید محمد داؤد غزنوی وفات پاگئے آپ کی وفات کے بعد مرکزی جمیعت اہل حدیث کے حالات بعض معاملات میں بدل گئے تھے. میاں فضل حق نے صورتحال کو بھانپتے جامعہ سلفیہ کا ایک ٹرسٹ بنادیا یہ آپ کا نہایت اہم اقدام تھا ٹرسٹ میں مخلص اور اصحاب ثروت کو شامل کیا گیا جو کہ انتہائی قابل اعتماد حضرات تھے جنہوں نے دل کھول کر جامعہ سلفیہ کی مالی امداد کی. ٹرسٹ ان حضرات پر مشتمل تھا.
1 میاں فضل حق. صدر
2 حاجی میاں بشیر احمد نائب صدر
3 پروفیسر شیخ محمد شریف سیکریٹری
4 صوفی احمد دین. خازن
5 حاجی محمد سردار محاسب
6 حاجی محمد عبداللہ ناظم تعمیرات
7 مولانا محمد یوسف انور ناظم نشرواشاعت
8 چوہدری عبدالسلام رکن
9 حافظ محمد یوسف رکن
10 حاجی محمد یوسف رکن
11 حکیم محمود احمد بن مولانا محمد اسماعیل سلفی رکن
12 جسٹس خلیل الرحمن رکن
یہ سب حضرات جامعہ سلفیہ کمیٹی کے عہدیداران اور ارکان تھے.
جامعہ سلفیہ اسلام آباد کا قیام :
مولانا معین الدین لکھوی اور میاں فضل حق کے اثر و رسوخ سے اسلام آباد میں جنرل ضیاءالحق کے زمانہ حکمرانی میں جامعہ سلفیہ کےلیے جگہ ملی اور یہ درس گاہ قائم ہوئی جو کہ نہایت حسن و خوبی سے جاری ہے اس کا اہتمام و انتظام مولانا سید حبیب الرحمن شاہ رحمہ اللہ کے ہاتھ میں تھا اور اب اس کے اعزازی مدیر ڈاکٹر طاہر محمود صاحب ہیں.
نظامت اعلی :
30 اکتوبر 1966 کو محمودیہ ہائی اسکول ساہیوال میں مرکزی جمیعت اہل حدیث کی مجلس شوری کا اجلاس منعقد ہوا اور میاں فضل حق کو مستقل ناظم اعلی منتخب کیا گیا آپ سے پہلے مولانا محمد اسحاق رحمانی گوہڑوی رحمہ اللہ سوا آٹھ ماہ مرکزی جمیعت اہل حدیث کے قائمقام ناظم اعلی رہے اس وقت مرکزی جمیعت اہل حدیث پاکستان کے امیر مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمۃ اللہ علیہ تھے جنہوں نے 20 فروری 1968 کو انتقال کیا. آپ کے انتقال کے بعد مولانا حافظ محمد محدث گوندلوی رحمۃ اللہ علیہ کو امیر بنایا گیا لیکن حافظ صاحب کی امارت کے بعد جماعت دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ایک حصے کے امیر مولانا معین الدین لکھوی رحمہ اللہ اور ناظم اعلی میاں فضل حق مرحوم تھے جبکہ دوسرے حصے کے امیر پیر سید بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ پیرآف جھنڈا تھے. پھر 1974 میں جماعت کی صلح ہوئی مولانا معین الدین لکھوی امیر اور میاں فضل حق ناظم اعلی بنے. میاں فضل حق طویل ترین عرصہ نظامت علیا پر فائز رہے. 1981-1982 میں بدقسمتی سے جماعت پھر دو حصوں میں تقسیم ہوگئی تو ایک حصہ کے امیر مولانا محمد عبداللہ اور ناظم اعلی مولانا محمد حسین شیخوپوری پھر بعد میں حضرت علامہ احسان الہی ظہیر شہید رحمۃ اللہ علیہ بنے. جبکہ دوسرے دھڑے کے امیر مولانا معین الدین لکھوی اور ناظم اعلی میاں فضل حق بنے. پھر پروفیسر ساجد میر صاحب حفظہ اللہ مرکزی جمیعت اہل حدیث کے امیر بنے تو تو بھی ناظم اعلی میاں فضل حق بنے.30 اکتوبر 1966 سے 12 1966 اہنی وفات تک ناظم اعلی کے منصب پر فائز رہے. یہ تقریباً انتیس سال کا طویل عرصہ بنتا ہے اس عرصہ میں کئی نشیب و فراز آئے لیکن میاں فضل حق ہر حال میں ناظم اعلی رہے.
مرکزی دفتر کا قیام :
1948 میں مرکزی جمیعت اہل حدیث پاکستان قائم ہوئی تو دفتر دارلعلوم تقویۃ الاسلام میں تھا پھر میاں عبدالمجید کی مجیدیہ فلور مل میں منتقل ہوا بعد میں شیخ محمد اشرف کے پریس واقع حدیث منزل میں چلا گیا. پھر میاں فضل حق کی سرپرستی میں راوی روڈ پر خطیر رقم خرچ کرکے جماعت کا دفتر خریدا گیا جہاں بحمداللہ اب جماعت کے دفتر کی پرشکوہ عمارت موجود ہے.
رفاہی کام :
میاں فضل حق نے ہجرت پاکستان کے فورا بعد حافظ آباد میں مبارک مسجد تعمیر کروائی پھر دو پرائمری اسکول بنوائے اس کے بعد دارالحدیث محمدیہ کا قیام عمل میں لائے. اس طرح سے مختلف علاقوں میں مساجد تعمیر کروائیں جن میں علاقہ گلیات, ایوبیہ, بالاکوٹ, ایبٹ آباد, خوشاب اور دیگر مقامات پر مساجد و مدارس آپ کی حسنات اور صدقہ جاریہ ہیں .سندہ کے مشہور شہر میرپورخاص میں 1983 میں جامعہ بحرالعلوم السلفیہ قائم ہوا تو اس کی افتتاحی تقریب میں علماء کرام کا بھرپور وفد لے کر پہنچے اور پھر اس ادارے کے ساتھ مسلسل تعاون جاری ہے اس کے بعد یہاں پر ڈسپنسری کا قیام اور اس کے لیے ڈاکٹر اور دواوں کا انتظام بھی آپ نے کیا اور یہ سلسلہ تاحیات جاری رکھا بلکہ آپ کی وفات کے بعد آپ کے نیک فطرت بیٹے میاں نعیم الرحمن رحمہ اللہ نہ صرف اس نیک کام کو جاری رکھا بلکہ اس میں اضافہ کرتے ہوئے لیبارٹری بھی بنوائی اور اس کی ضروریات بھی پوری کیں ان کے صدقہ جاریہ کا یہ سلسلہ تاحال جاری ہے.
مہمان نوازی :
اللہ تعالی نے میاں فضل حق کو مہمان نوازی کے اوصاف سے نوازا تھا اور آپ مہمان نوازی کرکے خوشی محسوس کرتے تھے. امام کعبہ, امام مسجدنبوی, مدینہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر, رابطہ عالم اسلامی کے زعماء, ام القری یونیورسٹی مکہ مکرمہ, امام محمد بن سعود یونیورسٹی ریاض اور سعودی حکومت کی وزارت مذہبی امور کے مندوبین کی میزبانی کا شرف بھی آپ کو حاصل رہا ہے.
وفات :
وفات سے کئی سال قبل آپ کو دل پر حملہ ہوا تھا جو اگرچہ شدید تھا اور دس بارہ دن ہسپتال میں ماہر قلب ڈاکٹروں کے زیر علاج رہے آپ بڑے باہمت تھے جونہی افاقہ ہوا دوبارہ جماعتی کاموں میں مشغول ہوگئے اور مختلف مقامات کے دورے شروع کردیے.
12 جنوری 1996 کو جمعہ کے دن آپ پر دل کا شدید حملہ ہوا فورا ہسپتال پہنچانے کی کوشش کی گئی اور آپ کی زبان پر " لااله الاالله محمد رسول الله " کا ورد جاری تھا اسی دن رات کے دس بجے آپ کا انتقال ہوگیا اگلے دن یعنی 13 جنوری کو آپ کی نماز جنازہ یونیورسٹی گراونڈ میں بقیۃ السلف استاذ العلماء فضیلۃ الشیخ حافظ مسعود عالم صاحب حفظہ اللہ نے پڑھائی. جنازہ میں تمام شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے ہزارون لوگوں نے شرکت کی-
اللهم اغفر له وارحمه وعافه واعف عنه
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
تذکرہ اسلاف (6)
جمع و ترتیب : عبدالرحمن ثاقب
حافظ محمد محدث گوندلوی رحمة الله عليه


حافظ محمد گوندلوی رحمة الله عليه 4 رمضان المبارک 1315ھ بمطابق 27 جنوری 1898 بروز جمعرات میاں فضل دین کے گھر قصبہ گوندلاں والا ضلع گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے. والد گرامی نے نام محمداعظم جبکہ والدہ محترمہ نے محمد رکھا کنیت ابوعبداللہ تھی والد کی وفات کے بعد محمد کے نام سے معروف ہوئے. مدرسین اور علماء میں بڑے حافظ صاحب کے نام سے جانے جاتے تھے.
تعلیم :
حافظ محمد گوندلوی کے والد گرامی میاں فضل دین کو اپنے بیٹے کو حافظ قرآن بنانے کا شوق تھا. جب حافظ محمد صاحب نے پندرہ پارے حفظ کرلیے تو آپ کے والد فوت ہوگئے بقیہ پارے آپ نے قلیل مدت میں حفظ کرلیے. والد کی وفات کے بعد تعلیم و تربیت کی تمام تر ذمہ داری والدہ محترمہ پر آن پڑی چنانچہ اس نیک خاتون نے ابتدائی دینی تعلیم دلوانے کےلیے آپ کو گوجرانوالہ بھیج دیا. حضرت حافظ محمد گوندلوی صاحب گوجرانوالہ میں مولانا علاؤالدین رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے جو کہ جامع مسجد اہل حدیث ( چوک نیائیں) میں خطیب و مدرس تھے حافظ صاحب نے مولانا علاؤالدین سے عربی ادب اور صرف و نحو کی چند ابتدائی کتابیں پڑھیں اور ان سے روحانی فیض بھی حاصل کیا.
1910 میں عبداللہ کشمیری ٹھیکیدار نے حافظ محمد گوندلوی صاحب کو آپ کی والدہ کی خواہش پر مدرسہ غزنویہ امرتسر لے جا کر داخل کروادیا جو کہ حضرت سید عبداللہ غزنوی رحمۃ اللہ علیہ ( متوفی 1298 ھ) نے قائم کیا تھا. مدرسہ غزنویہ میں حضرت حافظ محمد گوندلوی نے علمی و روحانی دونوں طرح سے خوب استفادہ کیا اور آپ نے مختلف اساتذہ سے ایک ایک دن اٹھارہ اٹھارہ, بیس بیس اسباق پڑھے .حافظ صاحب نے مولانا عبدالاول غزنوی سے بلوغ المرام اور مشکوۃ کتاب الجھاد تک اور جامع ترمذی کا کچھ حصہ پڑھا مولانا عبدالاول غزنوی کی وفات کے بعد جامع ترمذی کا نصف ثانی امام عبدالجبار غزنوی رحمۃ اللہ علیہ سے پڑھا دوران تعلیم آپ نے امام عبدالجبار غزنوی کے درس قرآن سے بھی خوب استفادہ کیا اور تفسیر قرآن کے بعض نکات بھی سمجھے. جب امام عبدالجبارغزنوی بھی فوت ہوگئے تو اس کے بعد سید عبدالغفور غزنوی رحمۃ اللہ علیہ ( برادر سید عبدالاول غزنوی) ترمذی کا آخر سنن ابن ماجہ کا نصف اول اور مشکوۃ المصابیح نصف آخر تک پڑھیں. صحیح بخاری, صحیح مسلم, سنن ابی داؤد, اور سنن نسائی اول سے آخر تک سنائیں. حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ نے ایک انٹرویو میں فرمایا تھا کہ :
سید عبدالاول غزنوی اور امام عبدالجبار غزنوی کی وفات کے بعد مجھے بہت محنت کرنا پڑی جس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ میں نے ایک ماہ میں ابوداؤد اور دوماہ میں صحیح بخاری سنائی تھیں.
مولانا محمد حسین ہزاروی رحمہ اللہ سے صرف, نحو, الفیہ, کافیہ, شرح جامی, کچھ مختصرات منطق, ابتدائی اصول فقہ, اصول شاشی, حسامی, نورالانوار اور متوسط کتب درسیہ پڑھیں.
امرتسر کے مرکز علم سے فیض یاب ہونے کے بعد آپ دہلی تشریف لے گئے اور وہان طبیہ کالج میں داخلہ لیا علم طب میں آپ کے استاد مسیح الملک حکیم محمد اجمل خان تھے آپ نے حکیم اجمل خان کے لیکچروں سے بہت استفادہ کیا. حکیم اجمل خان فرمایا کرتے تھے کہ جب مجھے اس شاگرد حافظ محمد گوندلوی کے سامنے لیکچر دینا ہوتا ہے تو بہت زیادہ تیاری کرنا پڑتی ہے حضرت حافظ محمد گوندلوی صاحب جب طبیہ کالج سے فارغ ہوئے تو آپ نے گولڈ لیڈل بھی حاصل کیا.
دہلی میں قیام کے دوران آپ نے مولوی فاضل کا امتحان نمایاں پوزیشن میں پاس کیا اور میاں نذیر حسین دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی مسجد واقع پھاٹک حبش خان میں قیام کیا اور درسی کتب میں تفسیر, قرآت, ادب, اصول کلام, منطق, فلسفہ وہیئات, ریاضی وغیرہ علوم کی آخری درجہ کی کتب پڑھیں. وہیں آپ نے تفسیر بیضاوی, شرح وقایہ,والھدایہ وفی اصول الفقہ التوضیح والتلویحہ, السراجی, شرح عقائد نسفیہ ( اور اس کا حاشیہ امام خیالی کا) معانی و بیان, دیوان حماسہ, دیوان متنبی, مقامات حریری کے ابتدائی چار مقامات اور سلم کی شرح ملا حسن, حمداللہ, قاضی مبارک اور شرح المطالع اور امام طوسی کی شرح الاشارات التصریح, شرح سبع شداد اور اس کے علاوہ مختلف علوم کی کتب ان کے ماہر اساتذہ مولانا احمداللہ دہلوی, مولانا عبدالرحمن پنجابی, مولانا محمد اسحاق منطقی ( رامپوری) مولانا عبدالرحمن ولائتی اور عبدالرزاق پشاوری سے پڑھیں. مولانا عبدالرزاق پشاوری نے اس دوران حضرت حافظ صاحب سے تجوید کی کتاب کا درس لیا.
آپ نے استاد پنجاب حافظ عبدالمنان وزیرآبادی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی حدیث کی سند حاصل کی تھی اس طرح سے حافظ محمد گوندلوی دو طریق سے سید میاں نذیر حسین دہلوی کے شاگرد تھے حضرت امام عبدالجبار کے اور حافظ عبدالمنان وزیرآبادی کے طریق سے.
تدریسی خدمات :
تحصیل و تکمیل علم کے بعد یہ آفتاب علوم و فنون تمام تر رعنائیوں کے ساتھ اپنے آبائی مسکن واپس لوٹا اور اپنے ہم وطنوں کو علم دین کے نور سے منور کرنے لگا. حافظ محمد گوندلوی نے تقریباً دس سال مدرسہ نصرۃ الاسلام گوندلاں والا میں تدریس کے فرائض سرانجام دیے حافظ صاحب نے دو ادوار میں گوندلاں والا میں پڑھایا 1921 تا 1926 اور 1929تا 1932
آپ نے دارلحدیث رحمانیہ دہلی میں تقریباً ایک سال تک تدریسی فریضہ سرانجام دیا اس دوران وہاں کے اساتذہ کرام مولانا عبیداللہ اور مولانا نذیراحمد رحمانی نے بھی آپ سے خوب استفادہ کیا جو کہ آپ کے علوم و کمالات میں یکتائے روزگار ہونے کی روشن دلیل ہے بعد ازاں آپ گوندلاں والا تشریف لے آئے.
1933 میں حافظ صاحب نے مدراس کے جامعہ عربیہ عمرآباد میں شیخ الحدیث کے فرائض سرانجام دیے آٹھویں جماعت کی صحیح بخاری, حجۃ اللہ البالغہ اور ایک آدھ سبق حافظ صاحب کو دیے گئے تھے. یہاں کی آب و ہوا چونکہ آپ کے موافق نہ آئی اس لیے خرابی صحت کی وجہ سے آپ نے اس گلستان علم میں مزید ٹہرنے کا ارادہ ترک کردیا اور واپس تشریف لے آئے.
جامعہ رحمانیہ دہلی اور جامعہ عربیہ عمرآباد مدراس میں آپ تدریس کے فرائض سرانجام دے چکے تھے لہذا آپ کی شہریت اور علمی قابلیت دور دور تک پھیل چکی تھی اس شہرت کے پیش نظر اور قابلیت دور دور تک پھیل چکی تھی اس شہرت کے پیش نظر مدرسہ محمدیہ (چوک نیائیں) کے ارباب انتظام نے حضرت حافظ محمد گوندلوی صاحب کی خدمات مدرسہ کےلیے حاصل کرلیں. آپ نے 1935 تا 1942 تک مدرسہ محمدیہ مین مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمۃ اللہ علیہ کی معیت میں تدریس کے فرائض سرانجام دیے اس دوران مولانا محمد اسماعیل سلفی نے آپ سے مسلم الثبوت اور شرح العقائد وغیرہ کتب پڑھیں.
1943 تا 1945 حضرت العلام حافظ محمد گوندلوی صاحب کی خدمات جماعت کے مشہور بزرگ صوفی محمد عبداللہ رحمہ اللہ نے جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن کےلیے حاصل کرلیں اس دوران آپ نے وہاں تشنگان علم کی پیاس بجھائی.
1949 میں حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ دوباہ گوجرانوالہ تشریف لے آئے اور آبادی حاکمرائے کے قریب محلہ چاہ چوہاناں والا میں آپ نے ایک قطعہ اراضی اپنی گرہ سے آٹھ سو روپئے مین خریدا جس پر آپ مسجد و مدرسہ بنانے کا ارادہ رکھتے تھے چوہدری محمد دین گوندل اور صدردین انصاری نے حافظ صاحب کو مشورہ دیا کہ آپ ہماری مسجد میں تشریف لے آئیں اور طلبہ کو تعلیم دیں حافظ صاحب نے ان کا مشورہ قبول کرلیا اور اس مسجد میں تشریف لے گئے اور یہاں مدرسہ اعظمیہ قائم کیا بعد ازاں اراکین ٹاہلی والی مسجد کو بیشمار دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا مگر انہوں نے ہر مشکل حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور حضرت حافظ صاحب کا ساتھ بٹھانا. اس چھوٹی سی مسجد میں جہاں یہ مدرسہ قائم تھا بڑے بڑے مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ حضرت حافظ محمد گوندلوی سے صحیح بخاری, موطا امام مالک, شرح العقائد, مسلم الثبوت اور سراجی پڑھا کرتے تھے.
1949 میں ہی گوجرانوالہ کی ایک تاجر شخصیت حاجی محمد ابراہیم انصاری اور ان کے برادران نے ایک مدرسہ کے اجراء کا منصوبہ بنایا اور 1949 میں ہی مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا سنگ بنیاد رکھا. حاجی محمد ابراہیم انصاری اور ان کے رفقاء نے اس پودے کی آبیاری کےلیے حضرت حافظ محمد گوندلوی صاحب کے باب علم پر دستک دی اور درخواست کی کہ آپ ہمارے مدرسہ کی سرپرستی فرمائین چنانچہ آپ نے وہاں شیخ الحدیث کے فرائض سرانجام دیے یہاں جامعہ اسلامیہ ( گوجرانوالہ) میں پانچ سال تک صرف منتہی طلبہ کی تدریس کا انتظام تھا. آپ نے جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ میں دوبار پڑھایا 1949تا 1956 پہلے دور کا اختتام ہوتا ہے جب ارکان مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان حافظ محمد گوندلوی کو پرزور اصرار پر حاجی محمد ابراہیم انصاری صاحب سے جامعہ سلفیہ فیصل آباد کے لیے مانگ کر لے گئے اور دوسرا دور 1966 تا 1970 کا دور ہے جو کہ مدینہ یونیورسٹی سے واپسی کا دور ہے .
4اپریل 1955 کو جامعہ سلفیہ فیصل آباد کا سنگ بنیاد رکھا گیا جامعہ سلفیہ کی تعمیر تک تعلیم دارالعلوم تقویۃ الاسلام کی عمارت شیش محل روڈ لاہور میں ہوتی رہی 22 جون 1956 کو جامعہ سلفیہ کے ثانوی درجے کا افتتاح جامع مسجد اہل حدیث امین پور بازار فیصل آباد میں کیا گیا اور 1956 میں جامعہ سلفیہ کا تعمیراتی کام تیزی سے شروع ہوگیا اور آہستہ آہستہ تدریس کا بھی.
جامعہ سلفیہ چونکہ جماعت کی مرکزی درس گاہ تھی لہذا اس میں شیخ الحدیث کے منصب کےلیے بڑی علمی شخصیت کی ضرورت تھی چنانچہ اسی ضرورت کے پیش نظر اراکین جماعت کی نگاہ میں حضرت العلام حافظ محمد گوندلوی صاحب کے علاوہ کوئی دوسری شخصیت نہ تھی اس مقصد کے لیے حضرت مولانا سید محمد داؤد غزنوی, مولانا عطاءاللہ حنیف بھوجیانی اور مولانا محمد اسماعیل سلفی گوجرانوالہ میں حاجی محمد ابراہیم انصاری کے پاس تشریف لائے جو کہ جامعہ اسلامیہ کے صدر منتظم تھے.
حضرت مولانا سید محمد داود غزنوی نے حاجی محمد ابراہیم انصاری سے فرمایا کہ ہم آپ سے ایک سوال کرنے آئے ہیں حاجی صاحب حیران ہوگئے اور کہا کہ حضرت آپ کیا چاہتے ہیں ؟ حکم فرمائیں ہم حاضر ہیں حضرت غزنوی نے مزید فرمایا کہ وعدہ کرو جو جو مانگوں گا وہ دیں گے حاجی صاحب نے وعدہ کیا تو مولانا غزنوی نے کہا کہ ہم آپ سے حافظ محمد گوندلوی کو جامعہ سلفیہ ( فیصل آباد) کےلیے مانگنے آئے ہیں وہ جماعت کا مرکزی مدرسہ ہے اور حضرت حافظ صاحب کے بغیر نہیں چل سکتا. یہ سن کر حاجی صاحب کچھ دیر کےلیے خاموش رہے اور سوچنے لگے. پھر کہا کہ حضرت جی تو نہیں چاہتا کہ حضرت حافظ صاحب جیسی اعلی شخصیت کے فیض سے ہم اپنے آپ کو محروم کرلیں چونکہ آپ ہمارے امیر ہیں اور سوال بھی جماعت کی خاطر کررہے ہیں اس لیے ہم جماعت کی خاطر قربانی دینے کو تیار ہیں. اس طرح سے مولانا سید محمد داؤد غزنوی نے حاجی محمد ابراہیم انصاری کو حافظ محمد گوندلوی کو جامعہ سلفیہ لے جانے پر آمادہ کیا.
18مئی 1957 کو جامع مسجد اہل حدیث میں افتتاحی اجلاس ہوا جس میں مولانا سید محمد داؤد غزنوی اور حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی نے اظہار خیال فرمایا اس کے بعد حضرت العلام حافظ محمد گوندلوی صاحب نے شیخ الجامعہ کی حیثیت سے بخاری شریف کا درس دیا جو کہ آپ کا جامعہ سلفیہ میں پہلا درس تھا حافظ محمد گوندلوی صاحب 1957 میں جامعہ سلفیہ تشریف لائے تو وہاں پر آپ صحیح بخاری, موطا امام مالک, حجۃ اللہ البالغہ, مسلم الثبوت, سراجی اور شرح العقائد جیسے اہم اسباق آپ کو تفویض کیے گئے.
فروری 1966 میں شیخ الحدیث مولانا محمد عبداللہ رحمہ اللہ نے چوک دال بازار میں کرایہ پر جگہ حاصل کرکے جامعہ شرعیہ مدینۃ العلم کا اجراء کیا مارچ 1963 میں حافظ محمد عبداللہ روپڑی رحمۃ اللہ علیہ اور اور حافظ محمد محدث گوندلوی نے تعلیم کا آغاز کیا اس دارالعلوم کی انتظامیہ کا نام " اخوان اہل حدیث " رکھا گیا. 1968 میں مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کی وفات کے بعد مولانا محمد عبداللہ نے مدرسہ محمدیہ ( چوک نیائیں) کا انتظام و انصرام سنبھالا تو جامعہ شرعیہ مدینہ العلم کو اپنے استاد مکرم کی عظیم درس گاہ میں مدغم کردیا اور اسے جامعہ محمدیہ کا نام دیا اس طرح سے جامعہ شرعیہ کی مدت حیات صرف چار سال پر محیط ہے حافظ صاحب نے جامعہ شرعیہ میں تقریباً سوا سال تدریس کی.
1961 میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کا قیام عمل میں آیا. جب محدث زماں الشیخ ناصرالدین البانی کی مسند خالی ہوئی تو سب کی نظر انتخاب حافظ محمد محدث گوندلوی پر پڑی اور فوری طور پر جامعہ کے استاذ الشیخ عبدالقادر السندھی کو پاکستان بھیجا کہ وہ کسی بھی طرح سے حضرت حافظ صاحب کو جامعہ اسلامیہ کےلیے بطور شیخ الحدیث اپنے ساتھ لائیں. شیخ عبدالقادر سب سے پہلے مولانا محمد اسماعیل سلفی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے مشورہ کیا آپ نے حافظ صاحب کو مدینہ منورہ لے جانے کےلیے فرمایا اور فرمایا کہ میری نظر میں پاکستان کے جملہ اہل علم حضرات میں حضرت حافظ محمد گوندلوی صاحب جیسا عالم اور تجربہ رکھنے والا نہیں ہے. شیخ عبدالقادر نے حضرت حافظ صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر رئیس الجامعہ الشیخ عبدالعزیز بن باز رحمۃ اللہ علیہ کا پیغام پہنچایا اور آپ کو جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ آنے کی دعوت دی حضرت حافظ محمد گوندلوی صاحب نے اس دعوت کو قبول فرمایا اور مدینہ تشریف لے گئے آپ جب جامعہ اسلامیہ تشریف لے گئے تو آپ کی آمد کی خبر پہنچی تو علماء نے انتہائی خوشی کا اظہار کیا. حافظ صاحب نے جب درس شروع کیا تو اکثر علماء استفادہ کےلیے حلقہ درس میں شریک ہونے لگے. آپ کے درس میں الشیخ محمد مجذوب اور الشیخ محمد ابراہیم شکری الاردنی شریک ہوتے حتی کہ شیخ عطیہ سالم جیسے مشہور و معروف عالم بھی حافظ صاحب سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے دو سال تک آپ جامعہ اسلامیہ میں شیخ الحدیث کے منصب پر فائز رہے اور بےشمار خوشگوار یادیں اہل علم کے قلوب و اذہان میں چھوڑ آئے.
مدینہ یونیورسٹی سے واپس آکر پھر جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ سے وابستہ ہوگئے اور منتہی طلبہ کو صحیح بخاری اور خلاصہ تفسیر پڑھاتے تھے یعنی کہ متعدد تفاسیر کا خلاصہ بتاتے تھے.
مولانا محمد عبداللہ جامعہ محمدیہ کے منتظم تھے اور جمعیت اہل حدیث کی طرف سے ذمہ داری بھی آپ پر تھی مصروفیات کی بناء پر جامعہ محمدیہ کو بھرپور وقت نہ دے پاتے تھے لہذا مولانا محمد عبداللہ نے اپنے استاذ مکرم حضرت العلام حافظ محمد گوندلوی صاحب سے گذارش کی کہ آپ جامعہ کی سرپرستی فرمائیں تو حضرت حافظ صاحب نے آپ کی درخواست قبول فرمالی اور شیخ الحدیث کی مسند پر جلوہ افروز ہوگئے پھر تاحیات حین یہیں علم کے موتی بکھیرتے رہے اس دوران جامعہ اسلامیہ سے بےشمار طلبہ حضرت حافظ صاحب کے درس میں شامل ہونے کے لیے جامعہ محمدیہ آتے تھے. بیماری کی وجہ سے آپ نے آخری سال بخاری شریف اپنے گھر کی بیٹھک میں پڑھائی تھی.

تلامذہ :
حافظ محمد گوندلوی صاحب نے تقریباً 62 سال تدریس فرمائی اس لیے آپ کے تلامذہ کا شمار ممکن نہیں ہے البتہ چند مشہور تلامذہ کے اسماء گرامی یہ ہیں.
مولانا عبیداللہ رحمانی, مولانا عطاءاللہ حنیف, مولانا عبداللہ بڈھیمالوی, مولانا محمد عبداللہ گوجرانوالہ, مولانا محمد اسحاق, مولانا محمد عبدہ الفلاح, مولانا ابوالبرکات مدراسی, مولانا محمد حنیف ندوی, مولانا محمد عتیق وزیرآبادی, مولانا محمد صادق خلیل, مولانا علم الدین سوہدروی, مولانا محمد اعظم, مولانا عبدالقادر ندوی, مولانا ارشادالحق اثری, مولانا محمد صدیق فیصل آباد ی, مولانا محمد اسحاق بھٹی, مولانا عبدالخالق قدوسی, مولانا محمد علی جانباز, مولانا عطاءالرحمن اشرف, مولانا معین الدین لکھوی, مولانا محمد اسحاق چیمہ, مولانا عبدالمنان نورپوری, مولانا محمد خالد گھرجاکھی, مولانا قاضی محمد اسلم سیف, شہید ملت علامہ احسان الہی ظہیر شہید, علامہ محمد مدنی, مولانا حکیم محمود سلفی.
تصانیف :
حضرت العلام حافظ محمد گوندلوی جہاں فن تدریس کے امام تھے وہاں آپ بلند پایہ مصنف بھی تھے. آپ کی تصانیف حسب ذیل ہیں.
1 تقاریر صحیح بخاری
2 بغیۃ الفحول شرح رسالہ اصول فقہ شاہ اسماعیل شہید
3 تحفۃ الاخوان. 4 البدور البازغۃ
5 مسئلہ ایمان 6شرح مشکوۃ المصابیح
7 حواشی صحیح بخاری 8 آمالی علی البخاری
9 زبدۃ البیان فی تنقیح حقیقۃ الایمان و تحقیق زیادۃ و نقصان
10دوام حدیث 11 تنقید المسائل
12 ختم نبوت. 13 معیار نبوت
14 اسلام کی پہلی کتاب 15 اسلام کی دوسری کتاب
16 الاصلاح (ج 1) 17 الاصلاح (ج 2)
18 خیرالکلام فی وجوب الفاتحۃ خلف الامام
19 اثبات التوحید فی ابطال التثلیث
20 التحقیق الراسخ 21 صلوۃ مسنونہ
22 ایک اسلام 23 اھداء و ثواب
24 ردمولود مروج 25 تحفۃ الواعظین منظوم
26 حنفی اہل حدیث 27 سنت خیرالانام در سہ وتر یک سلام
28 رد حسن المولد

قوت حافظہ :
اللہ تعالی نے آپ کو بے پناہ قوت حافظہ سے نوازا تھا آپ جو کچھ پڑھ لیتے وہ ازبر ہوجاتا. آپ کو حدیث کی اکثر کتابیں ازبر تھیں خصوصاً صحیح بخاری اور مشکوۃ شریف تو آپ کی زبان پر مثل فاتحہ چلتی تھیں اس کے علاوہ شروح حدیث کی طویل عبارات زبانی پڑھتے چلے جاتے تھے گویا کہ کتاب سامنے رکھی ہو آپ کی قوت حافظہ خیرالقرون کے محدثین کرام کی قوت حافظہ کی یاد تازہ کردیتی تھی. آپ کی شخصیت سراسر علمی اور دائرۃ المعارف کی حیثیت رکھتی تھی . آپ ایک بہت بڑے محدث, فقیہہ, لغوی, نحوی, صرفی اور جملہ علوم و فنون عربیہ و اسلامیہ کے ماہر تھے اور صوفیاء کرام کی آراء و خیالات سے بھی ماہرانہ واقفیت رکھتے تھے.
ایک دفعہ جب آپ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں شیخ الحدیث کے منصب پر فائز تھے کسی اہم مسئلہ پر گفتگو ہورہی تھی. دوران گفتگو شیخ محمد امین شنقیطی نے جو کہ تفسیر اضواء البیان کے مصنف ہیں حافظ محمد گوندلوی صاحب سے چند روایات دریافت کیں تو حافظ صاحب نے فرمایا کہ یہ سب روایات ترمذی میں موجود ہیں اس مجلس میں موجود تمام لوگوں نے بیک زبان کہا کہ یہ روایات ترمذی میں کسی جگہ بھی موجود نہیں ہیں اسی وقت حافظ صاحب نے وہ تمام روایات ایک ایک کرکے جامع ترمذی سے دکھادیں جس پر صاحب اضواءالبیان شیخ محمد امین شنقیطی نے کہا کہ :
مارأیت اعلم علی وجہ الارض من ھذا الشیخ
یعنی کہ میں نے روئے زمین پر آج تک آپ سے بڑا عالم نہیں دیکھا.
ازدواجی زندگی :
حافظ محمد گوندلوی صاحب نے دو شادیاں کیں تھیں پہلی شادی مولانا فقیراللہ مدراسی کی صاحبزادی کے ساتھ انجام پائی اس نیک بخت خاتون سے ایک بیٹا اور تین بیٹیاں تھیں جبکہ دوسری شادی گوجرانوالہ کے قریب گاؤں مرالی والا سے کی تھی اس سے اللہ تعالی نے حافظ صاحب کو دو بیٹے اور پانچ بیٹیاں عطاء کیں ان میں سے دو بیٹیاں بچپن میں فوت ہوگئیں تھیں.
تنظیمی خدمات :
1948 میں مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو حافظ محمد محدث گوندلوی کو بھی مرکزی مجلس عاملہ کا رکن نامزد کیا گیا لیکن آپ بنیادی طور ایک خلوت نشین اور کثیر المطالعہ شخص تھے آپ کو مطالعہ کتب اور تدریس علم سے ہی فرصت نہیں ملتی تھی آپ علی الصبح مسند تدریس پر جلوہ افروز ہوتے تو بارہ بجے سے پہلے اٹھنے کا نام نہ لیتے اور دوران تدریس بہت کم ملاقاتیوں سے میل جول کرتے اس لیے عملی سیاست اور تنظیمی کاموں میں بہت کم حصہ لیا. 1968 میں مولانا محمد اسماعیل سلفی کی وفات کے بعد مرکزی جمعیت اہل حدیث کے امیر کے انتخاب کےلیے برکت ھال لاہور میں مجلس شوری کا اجلاس منعقد ہوا اس اجلاس میں حضرت العلام حافظ محمد گوندلوی صاحب کو امیر جماعت منتخب کیا گیا گوکہ بعض افراد نے اس کی مخالفت کی مگر اکثریت نے آپ کو ہی امیر منتخب کیا.
وفات : حضرت العلام حافظ محمد محدث گوندلوی نے 14 رمضان المبارک 1405ھ بمطابق 4 جون 1985 کو گوجرانوالہ میں انتقال کیا اگلے روز مولانا محمد عبداللہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور قبرستان کلاں میں شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمۃ اللہ علیہ کے پہلو میں دفن ہوئے. اناللہ وانا الیہ راجعون
علیم ناصری رحمہ اللہ نے حضرت حافظ صاحب کی وفات پر اپنے جذبات کا یوں اظہار کیا تھا :
رحلت حضرت محدث نے کیا یوں مضمحل
سب مجنوں کے حواس و ہوش یکسر کھوگئے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
تذکرہ اسلاف (7 )
جمع و ترتیب : عبدالرحمن ثاقب

محدث دیار سندھ شیخ العرب والعجم علامہ سید ابو محمد بدیع الدین شاھ راشدی رحمة الله عليه


محدث ديار سنده شيخ العرب والعجم علامه سيد بديع الدين شاه راشدى رحمة الله عليه سید احسان اللہ شاہ راشدی کے گھر 10 جولائی 1924 بمطابق 18 ذی الحجہ 1443ھ کو گوٹھ فضل اللہ شاہ ( سابق آزاد پیر جھنڈا) نزد نیو سعید آباد تحصیل ھالا ضلع حیدرآباد ( حال ضلع مٹیاری) سندہ میں پیدا ہوئے.
نسب نامہ :
علامہ سید بدیع الدین شاہ راشدی بن سید احسان اللہ شاہ راشدی بن سید ابوتراب رشداللہ شاہ بن پیر رشید الدین شاہ بن پیر محمد یاسین شاہ پیر جھنڈا اول بن پیر محمد راشد شاہ الراشدی الحسینی السندھی رحمہ اللہ
تعلیم :
سید بدیع الدین شاہ راشدی نے اپنے خاندانی مدرسہ موسوم بہ " دارالرشاد " میں تعلیم مکمل کی. آپ کے والد گرامی سید احسان اللہ شاہ راشدی نے آپ کی تربیت پر خصوصی توجہ دی. آپ اپنی خود نوشت ( عربی) میں لکھتے ہیں کہ : سب سے پہلے میں نے قرآن مجید پڑھا پھر نصاب کے مطابق پڑھائی شروع کی اور حدیث میں سب سے پہلے امام نووی کی اربعین پڑھی اور والد کو سنائی, والد صاحب نے خوش ہو کر مجھے بلوغ المرام پڑھنے کا حکم دیا ابھی اس کے نصف تک ہی پہنچا تھا خدائے برتر کا داعی آگیا اور آپ نے لبیک کہہ دیا اور اس وقت میری عمر تقریباً تیرہ سال تھی. آپ نے اپنے والد محترم کے علاوہ درج ذیل اساتذہ سے علم حاصل کیا.
شیخ محمد اسماعیل بن عبدالخالق سندھی, شیخ ولی محمد بن محمد عامر کیریو, شیخ محمد سلطان کوریجو ( ھالا) شیخ شفیع محمد (سکرنڈ) شیخ محمد نور عیسی خیل (پنجاب) شیخ عبدالرحمن رامپوری, شیخ قطب الدین ھالیجوی, حافظ محمد امین متوہ, شیخ بہاؤالدین جلال آبادی ( افغانستان) شیخ محمد ایوب ( افغانستان) شیخ محمد احمد لدھیانوی, شیخ محمد مدنی, شیخ عبداللہ بن عمر بن عبدالغنی کھڈہری ( نواب شاہ) شیخ محمد خلیل بن محمد سلیم لدھیانوی ( خیرپور سندہ) وغیرہ
اجازت حدیث :
علامہ سید بدیع الدین شاہ راشدی نے مدرسہ کا نصاب مکمل کرنے کے بعد درج ذیل علماء سے اجازت حدیث حاصل کی.
1* شیخ الاسلام علامہ ثناءاللہ امرتسری
2* الشیخ محدث حافظ عبداللہ روپڑی
3* الشیخ محدث ابوسعید شرف الدین الدہلوی تلمیذ الشیخ بشیر الدین الشہسوانی
4* الشیخ محدث نیک محمد ابواسحاق
5* الشیخ ابو محمد عبدالحق بہاولپوری مہاجر مکی رحمت اللہ علیہم
قوت حافظہ :
اللہ تعالی نے محدث دیار سندہ علامہ سید بدیع الدین شاہ راشدی کو بہت اعلی قوت حافظہ سے نوازا تھا اور آپ نے صرف تین ماہ کے قلیل عرصہ میں قرآن مجید حفظ کیا تھا. آپ کے حافظے کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ تفسیر یا دوسری کتاب لکھواتے ہوئے فرماتے تھے کہ فلاں کتاب لاؤ اور اس کا صفحہ نمبر فلاں کھولو. الغرض جوانی کی عمر میں پڑھی ہوئی کتب کے حوالہ جات بھی صفحہ نمبر اور جلد کے ساتھ یاد ہوتے تھے.
مطالعہ کتب :
آپ کا مطالعہ بہت وسیع تھا آپ تفسیر, علوم القرآن, حدیث و علوم الحدیث, تراجم رجال, شروح الحدیث, اصول فقہ, کتب فقہ المذاہب الاربعہ, خلافیات المذاہب, ادب, تاریخ, لغت, عقائد, منطق, معانی و بلاغت, شعر وغیرہ کی کتب پر مطالعہ بہت گہرا تھا. اللہ تعالی نے آپ کو سریع الفہم بنایا تھا اور ہر علم پر آپ کو دسترس حاصل تھی اور خاص طور پر تفسیر, علوم القرآن, حدیث و علوم حدیث, رجال, اعتقاد سلف صالحین اور مذاہب باطلہ و فرق ضالہ پر رد کے ساتھ آپ کو خاص شغف تھا.
تدریس اللہ تعالی نے سید بدیع الدین شاہ راشدی کو تدریس میں بھی بڑا ملکہ عطاء کیا تھا جامع اور مختصر الفاظ میں اپنے مافی الضمیر کو بیان کرنا آپ کا خاصہ تھا آپ جامع المنقولات والمعقولات تھے آپ سے جو بھی طالب علم آکر جو کتاب پڑھنا چاہتا آپ بغیر پیشگی مطالعہ کے اس کو پڑھا دیتے تھے آپ نے اپنے طالب علمی دور میں بھی بعض طلبہ کو نحو و صرف کی ابتدائی کتب اور حدیث کی بعض کتب مثلا شمائل ترمذی وغیرہ پڑھائیں. آپ نے جب نیو سعید آباد سے متصل اپنا گاؤں آزاد پیر جھنڈا قائم کیا تو وہاں پر المدرسۃ المحمدیہ کے نام سے ایک درس گاہ قائم کی اور وہاں پر آپ پڑھاتے بھی رہے.
آپ 25 دسمبر 1975 کو پاکستان سے ہجرت کرکے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے اور 14 جنوری 1979 کو واپس تشریف لائے. اس دوران روزانہ حرم مکی میں تفسیر ابن کثیر اور صحیح بخاری پڑھاتے تھے شاہ صاحب کا یہ تدریس کا ایک سنہری دور تھا اس دوران دنیا کے طول و عرض سے ہزارون تشنگان علم نے آپ سے استفادہ کیا عرب ممالک سے بےشمار خاص طور پر آپ سے استفادہ کرنے کے لیے مکہ مکرمہ آتے اور آپ کے دروس ریکارڈ کرتے اس طرح سے آپ کی شہرت دنیا کے اکثر اسلامی ممالک میں پہنچی اسی لیے آپ کو شیخ العرب والعجم کے لقب سے پکارا جاتا ہے.
شاہ صاحب نے اس دور کے مجلس القضاء الاعلی کے رئیس اور ممتاز عالم دین الشیخ عبداللہ بن حمید رحمہ اللہ کی درخواست پر معھد الحرام المکی مین دو سال تک پڑھایا اس سے قبل مکہ مکرمہ کی معروف درس گاہ دارالحدیث الخیریہ میں ایک سال تک پڑھایا. اس دوران آپ نے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ کی دعوت پر دو مرتبہ محاضرہ ( لیکچر) دیا پہلی مرتبہ " اتباع الکتاب والسنہ اور صوفیت کے رد " پر لیکچر دیا اور تصوف کا زبردست رد کیا کیونکہ اس وقت وہاں کے شیخ عطیہ سالم تصوف کے حامی تھے اور ان کے ساتھ دوسرے کچھ اساتذہ بھی تھے شاہ صاحب کے اس لیکچر کے بعد ان اساتذہ کو یونیورسٹی سے خارج کردیا گیا. دوسری مرتبہ آپ نے " خدمات المحدثین فی جمع الحدیث و نشرہ مع الصبر علی ما اصابھم فی سبیل اللہ " کے موضوع پر لیکچر دیا. پاکستان آنے کے بعد آپ نے مستقل کہیں نہیں پڑھایا جبکہ ملک اور بیرون ملک سے بےشمار طلبہ آئے اور انہوں نے آپ سے مختلف کتب پڑھیں
تلامذہ :
سید بدیع الدین شاہ راشدی کے تلامذہ کا احصاء تو ممکن نہیں کیونکہ ان کا تعلق کئی بلاد و امصار سے ہے جنہون نے آپ کے خرمن علم کی خوشہ چینی کی البتہ نمایان نام ذکر کردیے جاتے ہیں.
* شیخ علی عامر یمنی
* شیخ عمر بن محمد بن سبیل( امام کعبہ)
*شیخ عبدالقادر حبیب اللہ سندھی
* شیخ حافظ محمد فتحی
* شیخ عبدالرب بن فیض اللہ مکہ مکرمہ
* شیخ حمدی عبدالمجید السلفی عراقی
* شیخ بشار عواد ( عراق)
* شیخ محمد شکور بن حاجی امریہ سوری
* شیخ مقبل بن ھادی الواد علی یمن
* شیخ محمد ابو سعید الیربوزی الترکی بیلجیم
* شیخ عاصم عبداللہ القریوتی الاردنی
* شیخ ابوالحارث علی بن حسن الیافی الاردنی
* شیخ وصی اللہ ندوی
* شیخ یعقوب بن موسی الہوسانی
* شیخ محمد موسی الافریقی
* شیخ سعیدی بن مہدی الہاشمی البغدادی
* شیخ عبداللہ بن محمد الحربی
* شیخ الحسن القماری السعودی
* شیخ ابوالحسن علی بن حسن الاردنی
* شیخ اسلام بن محمد الاردنی
*شیخ سیف الرحمن بن مصطفی المکی
* شیخ نوراللہ بن شہباز الہندی
* شیخ محمد بن بشار عواد بغداد
*شیخ ربیع بن الہادی السعودی
* شیخ عبدالعزیز النورستانی
* شیخ محمد صالح گوپانگ
*مولانا عبدالعزیز بن محمد صالح گوپانگ
* مولانا محمد عالم گوپانگ
* مولانا محمد قاسم خاصخیلی
* مولانا محمد اسحاق خاصخیلی
* مولانا محمد عبداللہ سومرو
* مولانا حکیم عبدالعزیز بگھیو
* مولانا عبداللہ ریگستانی
* مولانا عبدالغنی
* مولانا محمد ریگستانی
* مولانا فیض اللہ خارانی
* مولانا محمد حیات لاشاری
* مولانا عبدالرزاق سیال
* شیخ محمد ابراہیم نورستانی
* شیخ محمد موسی مدرس افریقہ
* مولانا محمد عیسی بن مولانا محمد عبداللہ
* مولانا عبدالرحمن میمن مٹیاری
* مولانا محمد خان محمدی لغاری
* مولانا افتخار احمد ازھری
* مولانا محمد جمیل عاجز
شاہ صاحب کے بیٹے
مولانا سید محمد شاہ
* مولانا نوراللہ شاہ
* مولانا رشداللہ شاہ
تصنیف و تالیف :
اللہ تعالی نے شاہ صاحب کو لکھنے کا بھی بڑا ملکہ عطاء فرمایا تھا آپ بہت اچھے مصنف تھے آپ عربی, اردو اور سندھی بولتے اور لکھتے تھے آپ نے ان زبانون مین لکھا اور خوب لکھا. ان تینوں زبانوں میں آپ کی تصنیفات موجود ہیں. جن کی فہرست درج ذیل ہے.
عربی تصنیفات :
السمط الابريز حاشية مسند عمر بن عبدالعزيز
* اظهار البرأة عن حديث من كان له امام فقراة الامام له قرأة
* المعقبات المرضية للتعقبات الغير المرضية
* تهذيب الاقوال فيمن له ترجمة في اظهار البراة من الرجال
* التجويب للتعقيب التهذيب
* القنديل المشعول في تحقيق حديث اقتلوا الفاعل و المفعول
* زحاجة القنديل
* التذييل القنديل
* خير المشرب في سنية الركعتين قبل المغرب
* عين الشين بترك رفع اليدين
* العجوز لهداية العجوز
* تحقيق الدعا برفع اليدين وما قيل في اسلام الأبوين
* وصول الالهام لاصول الاسلام ( غير منقوط)
* المعانى المصطلحة لما فى اصول الالهام من الفاظ المشكلة
* زيادة الخشوع بوضع اليدين في القيام بعد الركوع
* التحقيق المقطوع في اثبات وضع اليدين علي الشمال بعد الركوع
* منجد المستجيز لرواية السنة والكتاب العزيز
* جزء منظوم في اسماء المدلسين
* التحقيق المنصور علي فتح الغفور في تحقيق وضع اليدين علي الصدور
* جلاء العينين بتخريج روايات البخاري في جزء رفع اليدين
* توفيق الباري في ترتيب جزء رفع اليدين للبخارى
* غاية المرام في تخريج جزء القرأة خلف الامام
* كحل العينين لمن يريد تحقيق مناظرة الامام ابى حنيفة مع الاوزاعي فى رفع اليدين
* منية الإشارات في جلسات الصلوات
* القول اللطيف في الاحتياج بالحديث الضعيف
* رفع الارتياب عن حكم الأصحاب
* ازهار الحدائق في تذكار من جمع احاديث خير الخلائق
* صريح المهمد في وصل تعليقات مؤطا امام محمد
* الاجابة مع الاصابة في ترتيب احاديث البيهقي علي مسانيد الصحابة
* التبويب لاحاديث تاريخ الخطيب
* السمح في ايام الذبح
*التعليقات الراشدية على شرخ اربعين النووية لمحمد حيات السندي
* الجواب الوقيع عن تعقيب المنيح
*اللمعة في ان مدركا للركوع ليس مدركا للركعة
* تحفة الاحباب في تخريج احاديث قول الترمذي وفي الباب
* البرق السماوي على السارق الدنياوى
* ايفاء اللحى على اعفااللحى
* كشف المحو شرح هداية النحو
* انماءالزكن في تنقيد انهاءالسكن
*شيوخ الامام البيهقي
*الاربعينيات فى الدينيات
* حاشية انتقاض الاعتراض لابن حجر
* احسن الجواب عما كتب بعض الأحباب في مسئلة ام الكتاب
*الجواب الدلات عن اسئلة الثلاث
* شهادة الاحناف في مسألة علم الغيب على سبيل الانصاف
* كشف الاختلاف في رد الاحناف
* تحصيل الجواز و الصلات في نقض دعوي عدم الجهر بالبسملة فى الصلوة
* شرح كتاب التوحيد ( صغير) لابن خزيمه
* فهرسة احاديث تاريخ مدينة السلام على تبويب المسائل و ترتيب الأحكام
* تفسير القرآن الكريم المسمي باالاستنباط العجيب في اثبات التوحيد من جميع أيات الكتاب النجيب
* الذيل على رفع الارتياب عن حكم الأصحاب
* الخبر الصفا في النهي عن حلق القضا
* خير المناسك في احكام المناسك
* النصيحة البديعة لاخيه
* سيف الملك الدبان على رأس مفتى سليمان
* رفع الستر عن احكام الوتر
* العلوم المرعشة في بيان تحريفات اهل الرأى المدهشة
* سندھی کتب *
ضرب اليدين علي منكر رفع اليدين
*ضرب الفأس على رأس بعض الخناس
* رکوع کے بعد ہاتھ باندھنا
* نماز کی مسنون دعائیں
* نماز نبوی
* الوسیق فی جواب الوثیق
* قادیانی و جھنڈائی خاندان بینھما برزخ لایبغیان
* حجۃ الوداع
* تقریر لاجواب
* مقدمہ بدیع التفاسیر
* بیان بینظیر قرآن کی تفسیر
التقیید المضبوط فی تسوید تحریر الملبوط
* قال اقول فی تسوید تحریر المجھول
* الأجوبة الفاضلة للاسئلة العشرة الكاملة
* سینہ پر ہاتھ باندھنا
* سنت قبل المغرب
* تمییز الطیب من الخبیث بجواب رسالہ تحفۃ الحدیث ( راقم نے اس کتاب کا اردو میں ترجمہ کیا ہے)
* ترجمۃ کتاب الرد علی ابی حنیفۃ للامام ابن ابی شیبۃ
* التفصیل الجلیل فی ابطال التأویل العلیل + المبسوط المضبوظ فی جواب المخطوط المھبوط ( راقم نے ان دونوں کتب کا بھی اردو ترجمہ کیا ہے جع کہ مروجہ فقہ کی حقیقت کے نام سے شایع ہوا ہے.)
* مولوی اللہ ڈنہ جمارانی کی کتاب پر تبصرہ
* مولوی عبداللہ اور مولوی خوشی محمد کی تحریروں پر فیصلہ ( بابت تراویح)
* توحید ربانی یعنی سچی مسلمانی حصہ اول و دوم
* الاربعین فی الجھر باالتامین
* خطبہ صدارت ( نیو سعید آباد کانفرنس)
* تقریر دلپذیر بنام برأۃ اہل حدیث
* اردو کتب *
* زیادۃ الخشوع بوضع الیدین علی الشمال بعد الرکوع
* الدلیل التام علی ان سنۃ المصلی الوضع کلما قام
* الاعلام بجواب رفع الابھام
* اسکات الجزوع فی جواب ما بعد الرکوع
* توحید خالص
* اتباع سنت
* تنقید سدید بر رسالہ اجتھاد و تقلید
* نشاط العبد بجھر ربنا ولک الحمد
* تاریخ اہل حدیث
* رکوع کی رکعت
* الضرب الشدید علی القول السدید گی اثبات التقلید
* رفع الاختلاف
*شرعی طلاق
* صحیح بخاری کی ایک حدیث اور مسئلہ وضع الیدین فی القیام بعد الرکوع
* الاہی عتاب بر سیاہ خضاب
* امام صحیح العقیدہ ہونا چاہئے
* مسلک اہل حدیث اور تقلید
* تواتر عملی یا حیلہ جدلی
* القنوط والیاس لاھل الارسال من نیل الامانی و حصول الآمال
*الفتاوی البدیعیہ
تنظیمی سفر :
علامہ سید ابو محمد بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ نے 1957 میں جب آپ کی عمر 33 برس تھی اس وقت جمعیت اہل حدیث حیدرآباد کی داغ بیل ڈالی. جن رفقاء کرام کو آپ نے کام کرنے کے لیے منتخب کیا انہوں نے آپ کو " جمعیت اہل حدیث حیدرآباد " کاپہلا امیر چنا. شاہ صاحب نے جماعتی نظم و نسق کو بہتر انداز میں چلانے کےلیے معروف عالم دین اور علاقہ تھر میں علم کے موتی بکھیرنے والے مشکوۃ المصابیح کا سندھی میں ترجمہ اور تشریح لکھنے والے مولانا محمد عمر جونیجو رحمہ اللہ کو نائب امیر مقرر کیا.
مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کی وفات کے بعد مرکزی جمعیت اہل حدیث انتشار کا شکار ہوگئی بالآخر جماعت دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی ایک دھڑے کے امیر مولانا معین الدین لکھوی اور ناظم اعلی میاں فضل حق مرحوم بنے جبکہ دوسرے گروپ نے 10 جون 1973 کو علامہ سید بدیع الدین شاہ راشدی کو امیر اور پروفیسر ساجد میر صاحب کو ناظم اعلی منتخب کرلیا شاہ صاحب چونکہ پڑھنے پڑھانے اور قلم و قرطاس سے تعلق رکھنے والے تھے لہذا آپ نے پہلے دن ہی یہ بات واضح کردی تھی کہ جونہی صلح و اتحاد کی بات چلے گی میں امارت سے مستعفی ہوجاوں گا.
فیصل آباد شبان اہل حدیث کے سرکردہ مولانا محمد شریف اشرف, مولانا محمد یوسف انور, پروفیسر محمد شریف, مولانا طیب معاذ اور ان کے رفقاء نے کچھ بزرگوں کے ساتھ مل کر اتحاد کے لیے مؤثر کردار ادا کیا جونہی اتحاد کے فارمولے پر اتفاق ہوا تو شاہ صاحب نے حسب وعدہ و اعلان امارت سے استعفی دے دیا اس طرح سے آپ نے اپنی بات کی پاسداری کی اور اس پر من و عن عمل کرکے دکھایا.
شاہ صاحب نے مسلک اہل حدیث اور دعوت اہل حدیث کو سندہ بھر میں پھیلانے کا عزم مصمم کیا اور اس عظیم مقصد کے لیے آپ نے اپنی خاندانی اور علمی اعتبار سے ساری توانایاں صرف کرڈالیں اور جمعیت اہل حدیث سندہ کی بنیاد رکھی. 1988 میں آپ نے باقاعدہ ہر ضلع کی تنظیم سازی کی اور فضیلت الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی صاحب حفظہ اللہ ( موجودہ امیر) کو ناظم اعلی اور قاضی عبدالحق انصاری رحمہ اللہ کو نائب امیر مقرر کیا. آپ نے کراچی سے لیکر کشمور تک اور تھر کے ریگستانوں سے لے کر کوہستان تک اس جماعت کو منظم کیا اور قریہ قریہ, بستی بستی قرآن و سنت کی دعوت لے پہنچے.
خطبہ و خطاب
اللہ تعالی نے علامہ سید بدیع الدین شاہ راشدی کو فن خطابت کا بھی شہسوار بنایا تھا آپ خطاب فرماتے تو مجمع پر سکوت طاری ہوجاتا اور سامعین ہمہ تن گوش ہو کر آپ کا خطاب سنتے. تقسیم ہند سے قبل بٹالہ ضلع گورداسپور میں اہل حدیث کانفرنس کی صدارت آپ نے محض 20 سال کی عمر میں کی. حالانکہ اس وقت وہاں پر کبار علماء کرام موجود تھے. اس وقت آپ نے جو خطبہ صدارت پڑھا تھا وہ آپ کے علمی مقام کا بڑا ثبوت ہے. آپ حج بیت اللہ کےلیے تشریف لے جاتے تو موسم حج میں حرمین شریفین میں روزانہ عربی اور اردو زبان آپ کے دروس ہوتے.
مولانا محمد اسماعیل سلفی ( امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان) کی وفات کے بعد کی بات ہے راولپنڈی میں 1968 میں آل پاکستان اہل حدیث کانفرنس حضرت العلام حافظ محمد گوندلوی صاحب کی صدارت میں ہوئی خطبہ جمعہ کےلیے سب کی نظر محدث دیار سندھ علامہ سید بدیع الدین شاہ راشدی پر ٹہری اور موضوع بھی آپ کو مسلک اہل حدیث اور فاتحہ خلف الامام دیا گیا دارالخلافہ اور مناظرانہ حالات میں بڑے بڑے علماء محسوس کررہے تھے کہ شاید شاہ صاحب سندھی ہونے کی وجہ سے اردو میں خطبہ کا حق ادا نہ کرسکیں اور پھر موضوع بھی ایسا جو کہ خالص علمی تھا اور جمعہ کے اجتماع میں احناف نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی لیکن جونہی شاہ صاحب نے خطبہ مسنونہ کے بعد اپنے خطاب کا آغاز کیا تو ہر لمحہ اس طرح سے عوام پر چھاتے چلے گئے کہ جیسے لوگوں کے دل و دماغ پر قبضہ کرلیا ہو. شاہ صاحب نے فاتحہ خلف الامام پر علمی اور عوامی انداز میں وہ دلائل دیے کہ لوگ عش عش کر اٹھے اس کے بعد شاہ صاحب کا پورے ملک میں طوطی بولنے لگا.
اسفار :
سید بدیع الدین شاہ راشدی نے تبلیغ دین کےلیے جہاں ملک عزیز کے طول و عرض میں سفر کیے وہاں پر آپ نے بیرون ملک دعوت و تبلیغ کے لیے سفر کیے. آپ نے عمان, کویت, متحدہ عرب امارات, بحرین, قطر, بنگلادیش, امریکہ, ڈنمارک کینیڈا, بھارت افغانستان, مصر اور شام وغیرہ کے سفر کیے.
میدان دعوت و تبلیغ اور مصائب کا سامنا :
حضرت شاہ صاحب نے اپنی دعوت کا آغاز توحید و سنت کی اشاعت اور شرک و بدعت کی تردید سے کیا اس وجہ سے مخالفت ہونا لازمی امر تھا کیونکہ سندہ میں پیری مریدی کا دور دورہ تھا جگہ جگہ پیروں کی گدیاں اور آستانے آباد تھے. لوگوں پر تقلید و جمود کی گرفت مضبوط تھی ان حالات میں ہمارے ممدوح سید بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ نے توحید و سنت کا آوازہ بلند کیا اور پورے زور شور سے شرک و بدعت کی تردید کی. تو آپ کی مخالفت میں طوفان اٹھ کھڑا ہوا اور آپ پر گمراہ اور کفر کے فتوے جاری کردیے گئے آخر کار آپ کو اپنا گاؤں چھوڑنا پڑا اور نیو سعید آباد کے قریب نیا گاؤں آباد کرنا پڑا آپ کو اس نو آباد کردہ گاؤں سے بھی نکالنے کی کوشش کی گئی اور مختلف حربے استعمال کیے گئے. بالآخر اللہ تعالی نے آپ کو شاندار کام یابیاں عطاء فرمائیں.
ایک دفعہ آپ میہڑ ضلع دادو کے ایک اہل حدیث ساتھی کی دعوت پر تشریف لے گئے رات کو آپ نے توحید خالص اور رد وسیلہ کے موضوع پر ایک گھنٹہ ہی خطاب کیا تھا کہ شہر کا چیئرمین دانت پیستا ہوا سیدھا شاہ صاحب کے پاس آیا اور لاؤڈ اسپیکر بند کرکے مزید پروگرام جاری رکھنے سے منع کردیا شاہ صاحب اور آپ کے ساتھی صبر اور خاموشی کے سوا کچھ نہ کرسکے. اللہ تعالی کی نصرت اور مدد کے منتظر تھے کہ چند دنوں کے بعد وہ ایک گھناونے مقدمے میں گرفتار ہوگیا اور کافی عرصہ جیل میں قید رہا وہ اپنے ملاقاتیوں سے اعتراف کرکے کہتا تھا کہ میں نے شاہ صاحب کو جو تقریر سے روکا تھا جس میں وہ صرف قرآن پڑھ رہا تھا مجھے اس کی سزا ملی ہے اسی طرح سے اپنے گاؤں سے تقریباً سات میل دور جمالی بلوچوں کا گاؤں ہے وہاں کچھ اہل حدیث ساتھی رہتے تھے آپ ان احباب کی خواہش پر وہاں تقریر کرنے پہنچے گاوں کی مسجد میں پروگرام تھا لیکن اہل بدعت کی اکثریت نے آپ کو مسجد میں تقریر کرنے سے منع کردیا جب اہل حدیث حضرات نے اصرار کیا تو وہ لڑنے کےلیے تیار ہوگئے اور لاٹھیاں کلہاڑیاں لے کر مسجد میں پہنچ گئے اہل حدیث ساتھی کہہ رہے تھے کہ ہم لڑیں گے اور تقریر ضرور کروائیں گے آج قربانی کا دن ہے لیکن شاہ صاحب نے اپنے ساتھیوں کو منع کردیا اور صبر کی تلقین کی اور انہیں سمجھایا کہ ہمارا کام دعوت دینا ہے لڑائی کرنے سے ہمارے مشن کو نقصان پہنچے گا پھر ایک ساتھی کا گھر خالی کرواکر آپ کی تقریر کروائی گئی جس سے مخالفین کی آنکھیں کھل گئیں اور مخالفت کا زور ٹوٹ گیا پھر اس کے بعد کئی دفعہ آپ نے وہاں خطاب فرمایا.
آپ نے کئی میلوں پر جاکر وعظ کیے اور شرک کے اڈوں کو بھی ختم کیا. ضلع سانگھڑ میں ایک پیر صاحب نے زیارت کروائی تو مریدوں نے اس جگہ کو باڑ لگا کر محفوظ کرلیا اور وہاں جاکر نوافل ادا کرنے لگے اور اس جگہ کو قبولیت کی جگہ سمجھنے لگے. شاہ صاحب کا ساتھیوں سمیت وہاں سے گذر ہوا تو حقیقت حال معلوم ہونے پر آپ نے اس باڑ کو جلانے کا حکم دیا جب اسے جلادیا گیا تو وہ پیر صاحب اور ان کے مرید بہت بگڑے لیکن اللہ کا کرنا ایسا یوا کہ اس پیر صاحب کو اور ان کے مریدوں کو حضرت شاہ صاحب سے تعاون لینا پڑ گیا اور اس طرح سے یہ مخالفت ختم ہوگئی.
اولاد :
اللہ تعالی نے شاہ صاحب کو تین بیٹیاں اور چار بیٹے عطاء کیے تھے. محمد شاہ, نوراللہ شاہ, رشداللہ شاہ اور ابراہیم خلیل اللہ شاہ.
وفات :
یہ عظیم محدث 8 جنوری 1996 کو کراچی کے علاقے موسی لین میں اپنے رب سے جا ملا اور پیچھے لاکھوں محبت کرنے والوں کو سوگوار چھوڑ گیا رات ہی کو آپ کی نعش نیو سعید آباد لائی گئی. اگلے دن فضیلت الشیخ محدث العصر علامہ عبداللہ ناصر رحمانی صاحب نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور آپ کو اپنے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا.
اناللہ وانا الیہ راجعون
آپ کی وفات سے بزم تحقیق ہی سونی نہیں ہوئی بلکہ دعوت و تبلیغ کی رزمگاہیں بھی اجڑ گئیں. افتاء و تدریس کی مسند ہی اپنے صدر نشین سے محروم نہیں ہوئی بلکہ وعظ و خطابت کو گرمانے والا بھی چلا گیا. علمی محفلوں کو آباد کرنے والا ہی راہی ملک عدم نہیں ہوا بلکہ مساجد و مدارس کو اجتماعات بھی بےرونق ہوگئے
وما کان قیس ھلک ھلک واحد
ولکنہ بنیان قوم تھدما
ایسی نابغہ روزگار شخصیتیں روز پیدا نہیں ہوتیں ماہ و سال کی ہزاروں گردشوں کے بعد ہی پردہ عدم سے نکل کر سامنے آتی ہیں. آپ یقیناً اس شعر کے مصداق تھے
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتاہے چمن میں دیدہ ور پیدا
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
تذکرہ اسلاف ( 8 )
جمع و ترتیب : عبدالرحمن ثاقب

ضیغم اسلام مولانا معین الدین لکھوی رحمة الله عليه


مولانا معين الدين لكهوى رحمة الله عليه مولانا محمد علی لکھوی کے گھر یکم جنوری 1921 بمطابق 1339ھ کو لکھوکے تحصیل و ضلع فیروزپور میں پیدا ہوئے.
نام و نسب :
معین الدین بن محمدعلی بن محی الدین بن عبدالرحمن بن حافظ محمد لکھوی بن حافظ بارک اللہ لکھوی
34 ویں پشت میں مولانا معین الدین لکھوی رحمۃ اللہ علیہ کا سلسلہ نسب حضرت محمد بن حنفیہ کی وساطت سے حضرت علی رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے.
وجہ تسمیہ لکھوی :
اس خاندان کے آباؤاجداد ایک دیہی آبادی میں آباد ہوئے جس کا نام لکھوکے تھا یہ گاؤں ڈوگر قوم کے ایک لکھا نامی سردار کے نام پر آباد ہوا تھا, یہ گاؤں دریائے دریائے ستلج کے مشرقی کنارے پر تقریباً چھ میل کے فاصلے واقع ہے جو متحدہ پنجاب کی تحصیل و ضلع خیرپور سے مغرب کی جانب تیرہ میل کے فاصلے پر جلال آباد روڈ پر واقع ہے ریلوے اسٹیشن جھوک لہل سنگھ موضع لکھوکے سے تقریباً تین میل کے فاصلے پر بجانب مشرق ہے. 1945-1946 میں موضع لکھوکے کا تھانہ ممدوٹ تھا. قصبہ ممدوٹ لکھوکے کے گاؤں کے شمال مغربی گوشہ میں واقع ہے تقسیم ہند سے قبل اس گاؤں میں مڈل اسکول اور ڈاکخانہ موجود تھا. اس موضع کی نسبت یہ خاندان مشہور ہوا یہ خاندان برصغیر پاک و ہند میں اس نام ( لکھویہ خاندان) سے مشہور و معروف ہے.
فضیلت علمی, دینی بصیرت, تصوف و سلوک, زہد و تقوی, علوم دینیہ میں کمال و جامعیت, تصنیف و تالیف, بیعت و ارشاد اور درس و تدریس و دعوت و تبلیغ میں اس خاندان کے اصحاب علم کا کوئی حریف نہیں. پھر جس جذبہ خلوص اور شوق و لگن کے اس کے ارباب کمال نے جو دین اسلام کےلیے مساعی کی ہیں اور کررہے ہیں وہ قابل تحسین ہیں انکسار و تواضع, خشوع و خضوع, عاجزی و انکساری, للہیت اور خوف خدا ہمیشہ ان حضرات عالی مرتبت کا طرہ امتیاز رہا ہے.
تعلیم :
مولانا معین الدین لکھوی رحمہ اللہ نے جب ہوش سنبھالا تو سرکاری اسکول میں داخل کرادیے گئے. مڈل کےلیے فیروز پور کے ہائی اسکول میں داخلہ لیا. وہاں سے میٹرک پاس کیا اور پھر اسلامی تعلیمات حاصل کرنے کے لیے اپنے والد محترم سے کتابین پڑھنا شروع کیں باقاعدہ تعلیم کا سلسلہ اپنے لائق ماموں استاد پنجاب مولانا عطاءاللہ لکھوی رحمہ اللہ سے شروع کیا. سنن ابی داؤد, جامع ترمذی اور مختصر معانی وغیرہ آپ نے مولانا عطاءاللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ سے پڑھیں جو کہ اس وقت مرکز اسلام میں مدرس تھے پھر گوجرانوالہ چلے گئے وہاں حضرت العلام حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ اور مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ سے تفسیر, حدیث, فقہ و اصول فقہ اور علوم متداولہ کی انتہائی کتب پڑھیں. 1942 میں مشہور مفسر قرآن مولانا احمد علی لاہوری رحمہ اللہ شیرانوالہ گیٹ لاہور کے دورہ تفسیر میں شریک ہوئے جہاں تفسیر کی کلاس میں ایک سو سے زائد علماء کرام شامل تھے آپ نے ان سب میں پہلی پوزیشن حاصل کی اور مولانا عبیداللہ سندھی رحمہ اللہ سے سند امتیاز حاصل کی. سندھی صاحب نے اس موقع پر کہا کہ اس لڑکے کو ہی اول آنا چاہئے تھا. پنجاب میں پہلی تفسیر اس کے پردادا حافظ محمد لکھوی (رحمہ اللہ ) نے لکھی تھی . جو تفسیر محمدی منظوم پنجابی سات جلدوں پر مشتمل ہے مجھ پر اس خاندان کا احسان ہے کہ میں اس کے دادا حافظ محمد کی کتاب احوال الآخرت پڑھ کر حلقہ بگوش اسلام ہوا تھا.
1943 میں حضرت العلام امام العصر مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی کی خدمت میں حاضر ہو کر دورہ حدیث مکمل کیا اور حضرت میر سیالکوٹی کے دست مبارک سے خصوصی سند لینے کا اعزاز حاصل کیا.
شادی :
مولانا معین الدین لکھوی کی شادی حضرت مولانا محمد جونا گڑھی دہلوی رحمہ اللہ سے ہوئی تھی. مولانا محمد جونا گڑھی بہت بڑے مصنف, مشہور مترجم اور معروف مقرر تھے وہ 1941 میں فوت ہوگئے تھے. مدرسہ رحمانیہ کے قریب باڑہ ہندو رائے میں آپ کی شاندار کوٹھی تھی جو کہ آپ کی وفات کے بعد ایک ٹرسٹ نے اپنی تحویل میں لے لی تھی .اور آپ کے اہل و عیال کرائے کے مکان میں رہنے لگے. مولانا محمد جونا گڑھی نے چار شادیاں کی تھیں.
تدریس :
مروجہ علوم دینیہ سے فراغت اور بالخصوصی تفسیری علوم میں مہارت تامہ کے بعد لکھوکے چلے گئے جہاں مدرسہ محمدیہ اور مرکز الاسلام کا نظام اور تدریسی ذمہ داریاں سنبھال لیں اگرچہ دوران تعلیم ہی ان کی سرپرستی آپ کے سپرد کردی گئی تھی. لیکن تعلیم سے فراغت کے بعد تمام تر توجہ اسی طرف مرکوز کردی اور قیام پاکستان تک تدریسی اور انتظامی ذمہ داریاں سنبھالتے رہے. جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو مدرسہ محمدیہ لکھوکے والا اوکاڑہ میں قائم ہوا تو آپ نے پوری محنت اور توجہ کے ساتھ جامعہ کی ترقی کے لیے دن رات ایک کردیا. جب آپ جامعہ میں ہوتے تو نماز فجر کے بعد درس قرآن دیتے پھر طلبہ سے نحوی و صرفی سوال کرتے تھے یہ آپ کا روزانہ کا معمول تھا اس طرح سے طلبہ میں تعلیمی استعداد پیدا ہوتی ہے. آپ جامعہ کے مستقل ناظم رہے.
سیاسی و ملی خدمات :
آپ نے تحریک پاکستان بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اپنے حلقہ میں نیشنل گارڈ کو وسیع پیمانے پر منظم کیا.
مولانا معین الدین لکھوی مسلکی اور دینی اعتبار سے نہایت احساسات کے مالک تھے 1953 کی تحریک ختم نبوت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ایک عرصہ تک اپنے رفقاء سمیت ساہیوال جیل میں قید رہے. مملکت خداداد پاکستان میں جب بھی اسلام کے نفاذ کے لیےکوئی تحریک چلی تو مولانا معین الدین لکھوی اس کے ہراول دستہ میں نمایاں رہے. اسلام کے نفاذ کےلیے جس طرف سے بھی کوئی آواز اٹھی مولانا معین الدین لکھوی نے اپنا وزن اس پلڑے میں ڈالا. 1970 میں یوم مئی کے مقابلہ میں جماعت اسلامی, مرکزی جمعیت اہل حدیث, جمعیت علماء اسلام, مجلس احرار اسلام, پاکستان جمہوری پارٹی و دیگر اسلام کی علمبردار جماعتوں نے ہوری متحدہ قوت سے اسلام کی سربلندی کےلیے جلوس نکالے تو مولانا معین الدین لکھوی کا کردار تمام جماعتوں میں نمایاں تھا بلکہ اوکاڑہ کے تمام دینی و سیاسی حلقوں میں آپ کو مرکز و محور کی حیثیت حاصل تھی.
1974 میں جب تحریک ختم نبوت چلی تو مولانا معین الدین لکھوی نے بھرپور کردار ادا کیا.
1951 میں آپ نے مہاجر سیٹ سے صوبائی اسمبلی کے انتخاب کےلیے اوکاڑہ سے کاغذات نامزدگی داخل کروائے لیکن مخالف امیدوار نے اپنے سرکاری حلقون میں اثرورسوخ کی بناء پر آپ کے کاغذات نامزدگی مسترد کروادیے.
1974 میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تو مولانا لکھوی اپنے رہائشی حلقہ سے بلدیہ اوکاڑہ کے ممبر کے طور پر کامیاب ہوئے.
1977 کی تحریک نظام مصطفی میں آپ نے بھرپور حصہ لیا اور بھرپور کردار ادا کیا پھر اس تحریک کے نتیجے میں گرفتار ہوئے اور دوماہ قصور جیل میں رہے دوران قید خطبہ جمعہ, نماز کی جماعت اور درس قرآن آپ کے ذمہ تھا. آپ کے ساتھ مدرسہ محمدیہ کے اساتذہ کرام اور طلبہ نے بھی گرفتاریاں پیش کیں. حافظ شفیق الرحمن لکھوی, حکیم محمد بشیر لکھوی اور خاندان کے دوسرے افراد نے بھی گرفتاریاں پیش کیں.
صدر ضیاءالحق نے جب مجلس شوری بنائی تو مولانا معین الدین لکھوی اور میان فضل حق مرحوم کو اس کا رکن نامزد کیا جنرل ضیاءالحق نے اسلامائزیشن کے جن اقدامات کا نفاذ کیا مثلا بیت المال, نظام عشر و زکوۃ, وفاق المدارس اور قادیانیت آڈیننس وغیرہ .اسلام آباد میں جامعہ سلفیہ کے قیام کے لیے اراضی کے حصول کےلیے آپ نے بڑی محنت اور تگ و تاز کی.
مولانا معین الدین لکھوی کی جماعتی و قومی خدمات کا دائرہ بڑا وسیع ہے آپ تین مرتبہ قصور سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اس حیثیت سے آپ نے اپنے حلقہ انتخاب میں عوامی فلاح و بہبود کے بہت سے ادارے, ڈسپنسریاں, طلبہ و طالبات کے سکولز کی عمارتیں اور مواصلات کی سہولتیں بہم پہنچائیں.
آپ نے بہت سے افراد کے مسائل بھی حل کروائے اور جھوٹے مقدمات سے ان کی جان چھڑائی ایسا ہی ایک واقعہ مٹھی ضلع تھرپارکر سندھ سے تعلق رکھتا ہے. 1995 میں ایک اہل حدیث بچی کو زبردستی اغوا کرکے نکاح کا ڈرامہ رچایا گیا علماء کرام نے فتوی دیا کہ یہ بہت بڑا ظلم ہے ہمارے دوست مولانا محمد انور ساھڑ اور محترم غلام نبی ساھڑ نے بڑی تگ و دو کی اور وڈیروں کا مقابلہ کیا بچی کو آزاد کروایا گیا اور مجرم گرفتار ہوئے. 1997 میں سندہ کا وزیراعلی لیاقت علی جتوئی بنا اور ارباب غلام رحیم صوبائی وزیر بنا تو وڈیرون کے مدد گار اربابوں نے انتقامی کاروائی کرتے ہوئے جھوٹے مقدمے دائر کروائے گئے اور مولانا محمد انور ساھڑ اور محترم غلام نبی ساھڑ کو سرکاری نوکری سے بھی برطرف کردیا گیا راقم الحروف کا تعارف حضرت لکھوی صاحب سے جماعت کے اجلاس میں ہوا تھا تو راقم الحروف نے لکھوی صاحب سے فون پر رابطہ کیا بعد ازاں مولانا انورساھڑ کے بھائی کو لکھوی صاحب کی خدمت میں بھیجا تو لکھوی صاحب نے اس مسئلہ میں ذاتی دلچسپی لی اور اپنے ہم مسلک بھائیوں کے حق میں کمربستہ ہوگئے آپ نے ان جھوٹے مقدمات کی ازسر نو تفتیش کروائی جس کا بہت بڑا اچھا اثر ہوا مولانا محمد انورساھڑ اور غلام نبی ساھڑ کو نوکریوں پر بحال کیا گیا اور حقیقی مجرموں کو کئی سال کےلیے عدالت سے سزائین ہوئیں.
جماعتی خدمات :
قیام پاکستان کے بعد 1948 میں مرکزی جمعیت اہل حدیث کا قیام عمل میں آیا تو مولانا معین الدین لکھوی کو مرکزی مجلس عاملہ کا رکن نامزد کیا گیا جبکہ ضلع منٹگمری ( ساہیوال) کا امیر منتخب کیا گیا جبکہ اوکاڑہ اور پاکپتن اس کی تحصیلیں تھیں مولانا لکھوی صاحب نے نامزدگی کے بعد سائیکل پر ضلع بھر کا دورہ کیا اور ایک سو سترہ مقامی یونٹ قائم کیے.
4 اپریل 1955 کو جماعت کی مرکزی درس گاہ جامعہ سلفیہ فیصل آباد کا سنگ بنیاد رکھا گیا جامعہ سلفیہ کی یہ زمین دو حصوں میں منقسم تھی جس کا کوئی مناسب حل نکالنا ضروری تھا چنانچہ 15جنوری 1956 کو مرکزی جمعیت اہل حدیث کی مجلس عاملہ کا اجلاس ہوا جس میں یہ مسئلہ پیش کیا گیا. فیصلہ ہوا کہ حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی, مولانا عطاءاللہ حنیف اور مولانا معین الدین لکھوی فیصل آباد جائین مقامی دوستوں کی مدد سے موہوبہ زمین کے مالکوں سے مل کر اس مشکل سے نکلنے کی کوئی صورت پیدا کریں یہ تینوں حضرات وہاں تشریف لے گئے متعلقہ لوگون سے بات کی اور معاملہ مولانا عبدالواحد, مولانا عبیداللہ احرار اور مولانا محمد اسحاق چیمہ کے سپرد کرکے 21 جنوری کو واپس آگئے بعد ازاں یہ مسئلہ حل ہوگیا اہل حدیث مدارس کے نظام تعلیم کے معیار کو بلند کرنے کے لیے 1955 میں فیصل آباد میں سید داؤد غزنوی کی صدارت میں تعلیمی کانفرنس ہوئی اور ایک سب کمیٹی مزید غور و فکر کےلیے قائم کی گئی. جوکہ سات حضرات پر مشتمل تھی.
* حافظ محمد محدث گوندلوی
* حضرت مولانا عبدالجبار کھنڈیلوی
* مولانا عطاءاللہ حنیف
* مولانا حافظ محمد اسحاق حسینوی
* مولانا معین الدین لکھوی
* ملک عبدالعزیز ( ملتان)
* ماسٹر محمد رفیق ( کھڈیاں خاص قصور)
حضرت العلام حافظ محمد گوندلوی رحمۃ اللہ علیہ کے امیر منتخب ہونے کے بعد جماعت دو حصوں میں تقسیم ہوگئی تھی ایک حصہ کے امیر محدث دیار سندہ علامہ سید بدیع الدین شاہ راشدی اور دوسرے حصے کے امیر مولانا معین الدین لکھوی بنے. 1974 میں جماعت میں صلح ہوگئی اور مولانا معین الدین لکھوی کو امیر بنالیا گیا. جماعتی فرائض ادا کرنے میں ملک بھر کے اہم مقامات پر آپ کے خطبات جمعہ, کانفرنسوں اور جلسوں میں وعظ و تذکیر کے پروکرام جماعتی تاریخ کا درخشندہ باب ہے. مرکزی اہل حدیث کانفرنس منعقدہ اپریل 1979 کے موقع پر آپ کا خطبہ صدارت معرکہ آراء اور تاریخی نوعیت کاتھا اس کانفرنس میں شہید ملت حضرت علامہ احسان الہی ظہیر شہید رحمۃ اللہ علیہ کی خطابت بھی پورے جوبن پر تھی. اس عظیم الشان کانفرنس میں امام حرم مکی الشیخ محمد بن عبداللہ السبیل رحمہ اللہ نے خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا تھا.
آپ کی کوشش سے وفاق المدارس السلفیہ کا قیام عمل میں آیا جس کی رو سے دینی مدارس کے فارغ التحصیل حضرات کی سند کو ایم اے اسلامیات و عربی کا درجہ حاصل ہوا اور وفاق کی اسناد پر آج ہزارون کی تعداد میں علماء کرام اسکولوں, کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تدریسی خدمات سر انجام دے رہے ہیں اور بعض حضرات نے وفاق کی سند پر پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کی ہیں.
آپ کے پاس افغانستان و دیگر اسلامی ممالک کے اہل علم بھی آتے رہتے تھے جہاد افغانستان کے زمانے میں بالخصوص مجاہدین کی آمدورفت رہتی تھی اور مرکز ان کی مالی امداد بھی کرتا تھا.
آپ نے جماعتی وفود کے ساتھ غیرممالک کے دورے بھی کیے جہاں آپ نے علماء کرام اور دانشوروں کے ساتھ ملاقاتیں کیں اور تبادلہ خیال کیا.
مولانا معین الدین لکھوی نے 1974 سے 1994 تک بیس سال مرکزی جمعیت اہل حدیث کی امارت کی ذمہ داریاں نبھائیں.
شخصیت و کردار :
مولانا معین الدین لکھوی انتہائی باوقار, تجربہ کار, سلیقہ شعار سیاستدان اور شریف النفس, کریم الطبع, منکسرالمزاج اور باعمل عالم دین تھے. انتہائی نپے تلے الفاظ استعمال کرتے. آپ کی گفتگو میں دل سوزی, محبت و شفقت کا عنصر غالب نظر آتا تھا. آپ بہترین مقرر اور خطیب تھے اللہ تعالی نے آپ کو موثر انداز بیان عطاء فرمایا تھا جس سے آپ کی خدا رسیدگی کا پہلو ظاہر ہوتا تھا.
مولانا لکھوی صاحب علمی اور روحانی اعتبار سے ایک بلند پایہ عالم دین تھے آپ لوگوں کا روحانی علاج بھی کرتے تھے دم جھاڑ اور تعویذ لکھ کر دیتے تھے آپ کے مریدین کا حلقہ بہت وسیع تھا. لکھوکے میں آپ سے سکھ اور ہندو بھی دم جھاڑ کروایا کرتے تھے آپ کے پاس آسیب زدہ اور جنات والے مریض بھی آتے تھے جن کا آپ علاج کرتے تھے اور اللہ تعالی شفاء عطاء کرتا.
اولاد :
اللہ تعالی نے آپ کو سات بیٹیاں اور تین بیٹے عطاء کیے تھے.
1 مولانا بارک اللہ انجم ایم اے ( اقتصادیات)
2 ڈاکٹر زعیم الدین عابد ( ماہر امراض قلب)
3ڈاکٹر عظیم الدین زاہد ایم بی بی ایس
وفات :
مولانا معین الدین لکھوی نے طویل علالت کے بعد 9 نومبر 2011 کو وفات پائی. آپ کے بھتیجے ممتاز اسکالر پروفیسر ڈاکٹر حماد لکھوی صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی جس میں بےشمار لوگوں نے شرکت کی.
اللهم اغفر له وارحمه وعافه واعف عنه
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
تذکرہ اسلاف ( 9 )
جمع و ترتیب : عبدالرحمن ثاقب

شیخ القرآن خطیب پاکستان مولانا محمد حسین شیخوپوری رحمة الله عليه


شیخ القرآن خطیب پاکستان مولانا محمد حسین شیخوپوری رحمة الله عليه چوہدری بلند خان کے گھر 1918 کو موضع بوہلیاں تحصیل اجنالہ ضلع امرتسر میں پیدا ہوئے. آپ چھ بہنون کے اکلوتے بھائی تھے.
تعلیم : مولانا محمد حسین شیخوپوری نے ابتدائی تعلیم ملاں غلام نبی سے حاصل کی چھ سال کی عمر میں جستروال تحصیل اجنالہ ضلع امرتسر لوئر مڈل اسکول داخل کروایا گیا بارہ سال کی عمر میں چھٹی کلاس کا امتحان پاس کرلیا.
بوہلیاں گاؤں کے ایک پرانے بزرگ بابا چنن خان کتابوں کی جلدبندی کے بڑے ماہر تھے اجنالہ کے تحصیل دار نے کچھ کتابیں جلدبندی کےلیے بھیجیں ان کتابوں میں حافظ محمد لکھوی رحمہ اللہ کی زینت الاسلام, تفسیر محمدی اور احوال الآخرت جیسی دوسری کتابیں بھی تھیں باباچنن خان ان کتابوں کی جلدبندی کے ساتھ ساتھ ان کو پڑھتے بھی رہے جس بناء پر پختہ اہل حدیث ہوگئے. باباچنن کی آواز میں غضب کا سوز تھا بابا ان کتابوں کے اشعار پورے لحن داؤدی سے پڑھتے سارے گاؤں کے لوگ اشعار سننے کےلیے ان کے گرد جمع ہوجاتے جس کے نتیجے میں بوہلیاں گاؤں کے لوگ ایک تو فوجی تھے اور دوسرے راجپوت, توحید و سنت کا کچھ شعور پیدا ہوا ملاں غلام نبی نے مولانا محمد حسین کے والد چوہدری بلندخاں کو ترغیب دلائی کہ بچہ ہونہار ہے اس کو اسکول کی تعلیم کے علاوہ دینی تعلیم بھی دلائی جائے چوہدری بلندخان نے پوچھا کہ دینی تعلیم کہاں سے دلائی جائے ملاں غلام نبی نے مشورہ دیا کہ کمیرپور جو کہ بوہلیاں سے قریب بھی ہے اور اس میں بڑے بڑے علماء کرام درس دیتے ہیں. اس وقت کمیرپور علماء اہل حدیث کا مرکز تھا. حافظ محمد عبداللہ روپڑی, حافظ محمد حسین روپڑی, مولانا نور محمد ( والد مولانا عبداللہ بہاوالپوری) حافظ خیردین نابینا ( جنہیں سات جلدوں پر مشتمل تفسیر محمدی ساری یاد تھی) حافظ عبدالرحمن روپڑی برادر حافظ عبداللہ روپڑی مولانا اللہ بخش کمیرپوری ( سسر حافظ محمد ابراہیم کمیرپوری) رحمت اللہ علیھم اجمعین.
مولانا محمد حسین شیخوپوری جب اسکول کی تیسری جماعت میں پڑھتے تھے اپنی زندگی کی پہلی اذان نماز عصر کی دی جب گھر والوں کو پتہ چلا تو بہت خوش ہوئے.
مولانا محمد حسین شیخوپوری کے والد گرامی جب آپ کو کمیرپور کے مدرسہ میں داخل کروانے کےلیے لے کر جارہے تھے تو راستے میں ہلکی ہلکی بارش ہورہی تھی آپ کے والد گرامی اس سفر میں سارا راستہ آپ کے لیے دعائیں کرتے رہے ان کی یہ کی گئی دعائیں آپ کے حق میں شرف قبولیت سے نوازی گئیں. آپ کو پہلا سبق حافظ عبدالرحمن روپڑی برادر حافظ محدث روپڑی سے پڑھنے کا شرف حاصل ہوا انہوں نے آپ کو " عم یتساءلون عن النباء العظیم * الذی ھم فیہ مختلفون " کا ترجمہ پڑھایا اور مختصر تشریح سمجھائی. آپ نے ترجمہ خوب یاد کیا اور شام کو گھر آکر والدین کو سارا ترجمہ سنادیا اور کچھ مفہوم بھی سنایا والدین کی خوشی کی انتہاء نہ رہی بابا چنن خوشی سے پھولے نہیں سماتے تھے اور آپ کے والد کو کہتے تھے کہ دیکھا مین نے تجھے کتنا اچھا مشورہ دیا ہے آپ روزانہ کمیرپور پڑھنے کےلیے اپنے گاؤں بوہلیاں سے پیدل چل کر آتے لیکن تعلیم سے اس قدر محبت اور شوق غالب رہتا کہ اتنا سفر کرنے پر تھکاوٹ کا احساس نہ ہوتا اور دوران سفر تمام اسباق خوب یاد کرلیتے ترجمہ و تفسیر درختوں اور فصلوں کو عوام الناس سمجھ کر بیان کرتے اور گھر واپس آکر اپنے والد محترم کے ساتھ زمیندارہ میں ہاتھ بٹھاتے.
مدرسہ میں آپ کو حافظ محمد رحمہ اللہ نے اہل حدیث کے تمام امتیازی مسائل ایک ایک کرکے ازبر کرادیے جس پر آپ نے آمین باالجہر, رفع الیدین اور فاتحہ خلف الامام پر عمل شروع کردیا بعد ازاں قرآن مجید کا ترجمہ مولانا نورمحمد سے باقاعدہ پڑھنا شروع کیا. صرف و نحو کی ابتدائی کتب حافظ عبدالرحمن روپڑی سے پڑھیں.
مولانا محمد حسین شیخوپوری بوہلیاں سے کمیرپور تک تین سال حصول علم کےلیے آتے رہے آپ کے والد گرامی نے آپ کو آمدورفت کےلیے ہرکولیس نیا سائیکل بتیس روپئے اور کچھ آنوں میں لے کر دیا پھر ایک دفعہ گھوڑی بھی خرید کر دی اور آپ کچھ عرصہ گھوڑی پر بھی تعلیم حاصل کرنے جاتے رہے پھر ایک دفعہ پچاس روپئے میں نیا ہنبر سائیکل بھی خریدا اس دوران کچھ عرصہ امرتسر مسجد قدس کے مدرس اعلی مولانا نیک محمد رحمہ اللہ سے بھی اکتساب فیض کیا. پھر گلہ مہاراں متصل بدوملہی میں ایک بڑا دینی مدرسہ تھا یہاں بھی حصول علم میں مصروف رہے.
ادھر آپ کی تعلیم کی تکمیل کا وقت قریب آرہا تھا کہ آپ کے والد محترم گنٹھیا کے مرض میں مبتلا ہوگئے انہیں اس قدر تکلیف ہوتی کہ درد کی وجہ سے چیخیں نکل جاتیں شدت مرض کی بناء پر سارے گھر کا سکون غارت ہوجاتا والد کی اس بیماری نے آپ کو تعلیم منقطع کرنے پر مجبور کردیا چونکہ آپ کا دوسرا کوئی بھائی نہ تھا اور پانچ بہنیں تھیں اور آپ کی شادی بھی ہوچکی تھی اس لیے سارے گھر کا بوجھ آپ کے کندھوں پر آگیا اور گذر اوقات کےلیے تعلیمی سلسلہ منقطع کرکے زمیندارہ کی طرف آنا پڑا. بوہلیاں میں کچھ موروثی زمین تھی نظام آب پاشی کےلیے نہر کی بجائے کنویں چلانے کا نظام تھا رات بھر کنواں چلاتے اور صبح تک بمشکل دوکنال اراضی سیراب ہوتی. آپ سترہ سال کی عمر تک تعلیم میں مصروف رہے اب اچانک کسب حلال کےلیے ہل چلانا پڑا ساری ساری رات کنویں کی گاڑی پر بیٹھ کر قرآن مجید کی تلاوت کیا کرتے اور تقریر کی پریکٹس بھی کرتے اس دوران آپ نے منظوم رسالہ چٹھی آسمانی لکھا. آپ زمیندارہ کے ساتھ ساتھ اجنالہ سے کچھ کپڑا خرید کر لاتے عورتیں گھر سے کپڑا لے جاتیں معمولی منافع پر یہ کاروبار بھی عرصہ تک چلتا رہا.
گاؤں میں تبلیغ :
مولانا محمد حسین شیخوپوری 1935 میں گاؤں کی مسجد میں باقاعدگی سے خطبہ دیا کرتے تھے اور گاؤں کے بڑے مکانوں کی چھتوں پر رات کی تقاریر کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا اس وقت لاوڈ اسپیکر کا تصور نہ تھا چھت سے کی گئی تقریر اللہ تعالی سارے گاؤں والوں کے کانون میں پہنچادیتا نتیجتا لوگون کے عقائد بھی درست ہونا شروع ہوگئے. اور لوگوں نے مسلک اہل حدیث قبول کرنا شروع کردیا مگر ابلیس اس کو کس طرح سے برداشت کرسکتا تھا منج برادری کے لوگون نے ضد کرکے ایک مولوی سے آپ کا مناظرہ رکھ دیا تاکہ گاؤں میں وہابی سنی کا مسئلہ کھڑا کیا جاسکے اور لوگوں کے دلوں میں نفرت پیدا کی جاسکے آپ ان کی اس سازش کو بھانپ گئے آپ نے کمال حکمت عملی سے معاملے کو سنبھالا اور کچھ عرصہ کےلیے مسجد چھوڑ دی زیر زمین آپ کا دعوتی کام زوروں پر تھا آہستہ آہستہ لوگوں کو مسائل کی سمجھ آرہی تھی آخر کار لوگوں نے اس دوسرے مولوی کو مسجد سے فارغ کردیا اور آپ نے بغیر کسی مخالفت کے مسجد میں امامت و خطابت کے فرائض سرانجام دینا شروع کردیے. آپ کے والد گرامی گنٹھیا کے مرض میں مبتلا تھے چل پھر نہیں سکتے تھے آپ انہیں کندھوں پر اٹھا کر مسجد میں لے جاتے جب منبر پر خطبہ شروع کرتے تو والد محترم دعائیں کرتے رہتے مخالفت بھی ہوتی لیکن والد صاحب کے رعب و دبدبہ کی وجہ سے کوئی مزاحم ہونے کی کوشش نہ کرتا اس سے پہلے جب آپ نے امامت شروع کی تو اس وقت آپ کو داڑھی نہیں آئی تھی اور لوگ اعتراض کرتے تھے کہ اس کے پیچھے نماز نہیں ہوتی کیونکہ آپ کی داڑھی نہیں ہے آپ اللہ تعالی سے دعا کرتے کہ اے اللہ مجھے جلد داڑھی عطاء فرما. ان دنوں آپ کی لکھی ہوئی چٹھی آسمانی کا چرچہ عام ہوچکا تھا جلسوں میں آپ کو چٹھی سنانے کا موقع مل جاتا. بٹالہ جو کہ قادیان کے بالکل قریب تھا کے جلسہ میں شیخ الاسلام مولانا ثناءاللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ تشریف لایا کرتے تھے آپ نے پہلی بار بٹالہ میں ان کی زیارت کی اور جلسہ میں ان کی موجودگی میں چٹھی آسمانی کے چند اشعار پڑھے لوگوں کی طرف سے بہت داد ملی اور شیخ الاسلام نے بھی آپ کو بہت دعائیں دیں.
1942 /1943 تک مولانا محمد حسین شیخوپوری خطابت میں کافی مہارت حاصل کرچکے تھے روپڑی برادران مولانا عبدالقادر روپڑی رحمہ اللہ اور مولانا محمد اسماعیل رحمہ اللہ جلسوں میں مولانا محمد حسین کو ساتھ رکھتے پہلے ان کی تقریر کرواتے پھر خود تقریر کرتے اکثر اوقات ایسا ہوتا کہ مولانا محمد حسین شیخوپوری تقریر کررہے ہوتے تو حافظ محمد اسماعیل پیچھے اسٹیج پر بیٹھے ہوئے دعا کرتے : اللھم ایدہ بروح القدس
ضلع امرتسر سے شیخوپورہ :
قیام پاکستان کے وقت دوسرے مسلمانوں کی طرح مولانا محمد حسین نے بھی ہجرت کی صعوبت برداشت کی. بوہلیاں ضلع امرتسر سے کالا خطائی اور شاہدرہ سے ہوتے ہوئے شیخوپورہ کے نزدیک ایک گاؤں کالو میں پہنچ کر آباد ہوئے اور جب تبلیغ دین کےلیے باہر نکلے تو آپ کے نام کے ساتھ شیخوپورہ سے تعلق کی وجہ سے شیخوپوری باقاعدہ لاحقہ اختیار کرگیا.
کچھ علمی لطائف :
مولانا محمد حسین شیخوپوری کا گاؤں بڑا اور علاقہ میں مشہور تھا اکثر اور ہر قسم کے علماء کا گذر گاؤں سے ہوتا رہتا اور وہ دو دو تین تین دن تک گاؤں میں قیام بھی کرتے ایک دن مولوی صاحب تشریف لائے لوگوں نے اسے علم غیب کے موضوع پر چھیڑ دیا تو فرمانے لگے کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ : تبیانا لکل شئ
تو جس نبی پر ایسی کتاب نازل ہو تو اسے علم غیب نہیں ہوسکتا وہابیوں کا عقیدہ غلط ہے کہ نبی غیب نہیں جانتا. مولانا محمد حسین صاحب فرمانے لگے کہ : یہ درست ہے کہ قرآن تبیانا لکل شئ ہے لیکن ہر چیز کا بیان کرنے والی کتاب میں یہ بھی ہے کہ : قل لا یعلم من فی السموات والارض الغیب الا اللہ
ایک مولوی صاحب گاؤں میں بڑی تقریر کررہے تھے کہنے لگے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے درخت کا ایک پتہ منگوایا اس پر تھوکا اسے اکٹھا کرکے صحابہ کو دے دیا اور فرمایا کہ یہ امانت ہے کوفہ میں ایک شخص ابوحنیفہ ہوگا امانت اسے دے دینا چنانچہ صحابہ نے وہ پتہ ابوحنیفہ کو دے دیا انہوں نے اسے چاٹ لیا بس پھر سارا علم ابوحنیفہ کے سینے میں اتر گیا آپ نے مولوی صاحب سے کہا کہ جناب ابوحنیفہ اجتہاد کرتے تھے کہا ہاں. پھر آپ نے کہا کہ کہتے ہیں کہ تحقیق مسائل کےلیے انہوں نے علماء کی کمیٹی بنا رکھی تھی کہنے لگا کہ ہاں ایسے ہی ہے. آپ نے کہا کہ جس شخص کے سینے میں سارا علم نبوت اتر گیا ہو اسے اجتہاد کرنے اور کمیٹیاں بنانے کی کیا ضرورت تھی مولوی بالکل خاموش ہوگیا.
گاؤں میں جتنے بھی علماء آتے بغیر کسی تفریق کے آپ ان کی خدمت کرتے مہمان نوازی کرتے کھانا کھلاتے ایک دن ایک مولوی صاحب آئے تو آپ انہیں اپنے ساتھ کنویں پر لے گئے. آپ جب بھینس باندھنے کےلیے جھکے تو وہ مولوی جھٹ سے بولا تم نے بھینس کو تعظیمی سجدہ کیا ہے. آپ نے فورا بھینس کو دو لاٹھیاں ماریں اور پوچھا کہ مولوی صاحب اس جیسا تجھے بھی تعظیمی سجدہ ؟
مولوی صاحب پر سکوت طاری ہوگیا.
چوہدری غلام محمد مرزئی کڑیال والا سے بات چیت :
کڑیال مولانا محمد حسین صاحب کے گاؤں بوہلیاں سے ساڑھے چار پانچ میل کے فاصلے پر بڑا قصبہ تھا. آپ اپنے کچھ ساتھیوں کے ہمراہ ویرو کے یا کسی اور جلسہ میں شرکت کے لیے جارہے تھے ایک ساتھی نے کہا کہ کڑیال کا چوہدری غلام محمد مرزئی ہوچکا ہے بہت یاد کرتا ہے اسے ملتے چلیں آپ کی آپس میں رشتہ داریاں بھی تھیں اور وہ بھی راجپوت تھا اور اکثر بوہلیاں آتا جاتا تھا آپ اس کی حویلی میں چلے گئے اور وہ بہت پرتپاک طریقہ سے ملا باتوں باتوں میں اس نے مرزائیت کی دعوت شروع کردی کہنے لگا کہ مرزا صاحب کی بیعت میں ہی نجات ہے مرزا صاحب نے ازالہ اوہام میں اپنی نبوت کی دلیل دی ہے کہ میرے نام غلام احمد قادیانی کے اعداد حروف ابجد کے حساب سے 1901 بنتے ہیں اور 1901 میں ہی انہوں نے نبوت کا دعوی کیا ہے لہذا مرزا صاحب سچے نبی ہیں. آپ نے معا اس کے جواب میں کہا کہ قرآن مجید میں جھوٹوں اور شیطان کے چیلوں کے بارے میں آتا ہے کہ " تنزل علی افاک اثیم " اس کے اعداد بھی تو اتنے ہی بنتے ہیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مرزا ایسا نبی ہے جسے شیطان کی طرف سے وحی آتی ہے. غلام محمد نمبردار غصہ سے لال پیلا ہوگیا پسینہ سے شرابور اور کانپ رہا تھا آپ اس کے گھر بیٹھے تھے وہ کچھ بھی کرسکتا تھا لیکن اللہ تعالی نے آپ کی حفاظت فرمائی اور وہاں سے نکل آئے. یہ غلام محمد نمبردار مرزائیت میں اتنا سخت ہوگیا تھا کہ مرزا بشیرالدین کی پشین گوئی کے مطابق کہ ہندوستان مت چھوڑ کر جاو پاکستان بننے کا یہ کھیل چند دنوں کا ہے یہ لوگ پھر واپس آجائیں گے اپنے گاؤں کڑیال سے نہ نکلا پھر سکھوں کا ایک جتھا اسے سقی کےڈھائے پر لےگیا اس کے سامنے اس کی بہو بیٹیوں سے اجتماعی زنا کیا اور اس کی تکہ بوٹی کرکے اسے سقی یعنی چھوٹی سی ندی میں پھینک دیا.
تحریک پاکستان میں حصہ :
1947 تک آپ کی تبلیغی سرگرمیاں کافی بڑھ چکی تھیں ادھر پاکستان کے وجود میں آنے کی خبریں عام گردش کررہی تھیں مسلم لیگ قیام وطن کے لیے سرگرم عمل تھی. آپ کے گاؤں کے اور عزیز رانا ولی محمد ( یہ گاؤں بوہلیاں کے واحد تعلیم یافتہ شخص جو پاکستان بننے کے بعد وزیراعلی پنجاب نواب ممدوٹ کے پرائیویٹ سیکریٹری بنے) نے جب آپ کی تقریروں کے متعلق سنا تو بہت خوش ہوا اور آپ کو ممتاز دولتانہ صدر مسلم لیگ پنجاب کے پاس لے گیا انہوں نے آپ کا انٹرویو لیا اور باہمی بات چیت کے ذریعے آپ کے جذبات سے آگاہی حاصل کی اور آپ کو بوہلیاں کے علاقے کا آرگنائزر مقرر کردیا اس سے آپ کا سیاسی حلقہ وسیع ہوگیا مذہنی اور سیاسی ہر دو میدانوں میں آپ کو خوب کام کرنے کا موقع ملا .اسی اثناء میں 14 اگست 1947 کو پاکستان جس کی بنیاد دو قومی نظریے پر رکھی گئی تھی پاکستان کا مطلب کیا " لا الہ الا اللہ " کے نعروں کی گونج میں دنیا کے نقشہ پر ایک عظیم اسلامی ملک کے قیام کا اعلان ہوگیا .
قید و بند کی صعوبتیں :
1953 کی تحریک ختم نبوت میں اہل حدیث علماء نے جاندار حصہ لیا. مولانا محمد حسین شیخوپوری صاحب بھی پہچھے نہیں رہے آپ نے تقریباً آٹھ ماہ جیل میں گذارے مولانا شیخوپوری صاحب حوصلہ مند اور خوش مزاج بھی تھے جیل کی زندگی میں کچھ لطائف بھی پیش آئے. تحریک ختم نبوت کے دوران آپ بوسٹل جیل لاہور میں قید تھے آپ کے ساتھ بریلوی ملکتبہ فکر کے معروف عالم مولانا عنایت اللہ سانگلہ ہل والے بھی تھے ایک دن مولانا عنایت اللہ بیٹھے زمین کرید رہے تھے. مولانا محمد حسین شیخوپوری نے پوچھا کہ مولانا آج اتنے پریشان کیوں ہیں ؟ جھٹ سے نظریں اٹھائیں اور جواب دیا کہ صرف تین دن باقی ہیں رہائی ہونے والی ہے. مولانا شیخوپوری نے پوچھا کہ کیا بات ہے کہ کوئی خاص الہام ہوا ہے ؟ جواب میں کہنے لگے کہ تمہیں کیا پتہ ہے تمہارا تو ایک اللہ کے علاوہ کسی سے واسطہ نہیں .میں نے غوث الاعظم کے دربار میں درخواست دے رکھی ہے بس تین دن کے بعد رہائی ہوجائے گی.
تین دن کے بعد رات کے وقت وارڈن نے آکر آواز دی کہ مولوی صاحبان ساٹھ آدمیوں کی سزا تین ماہ اور بڑھ گئی ہے اور تمہارا چالان بھی یہاں سے میانوالی جیل ہوگیا ہے. اور اگلے ہی دن ساٹھ قیدیوں کو میانوالی جیل منتقل کردیا گیا. سردیوں کے دن تھے اگلے دن دھوپ میں بیٹھے ہوئے تھے تو شیخ القرآن مولانا محمد حسین صاحب نے پوچھا سنائیں آپ کی درخواست کا کیا بنا ؟ تو مولوی صاحب کہنے لگے آپ تو جیل میں بھی استہزاء سے باز نہیں آتے. مولانا محمد حسین شیخوپوری نے کہا کہ مذاق نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ تم جب تک اللہ کے بجائے غیروں سے درخواستیں کرتے رہو گے یہی انجام ہوگا.
مولانا اللہ وسایا حضرت شیخ القرآن کی تحریک ختم نبوت 1953 کی تقریروں کے متعلق لکھتے ہیں کہ " بوقت عصر ہر روز مسجد کی چھت سے مقررین تقریریں کرتے عوام سڑک پر سن کر جوش و خروش کا مظاہرہ کرتے جو مقامی قائد روزانہ تقاریر کرتے تھے ان میں مولانا محمد حسین شیخوپوری سب سے بہتر مقرر تھے "
محراب پور سندہ کی تقریر پر کراچی میں گرفتاری :
1971 ذوالفقار علی بھٹو کی آمد آمد تھی پاکستان پیپلزپارٹی کا نعرہ مساوات عام جلسوں میں زیر بحث تھا. محراب پور ضلع نواب شاہ ( حال ضلع نوشہروفیروز) میں مشترکہ جلسہ تھا مسجد دیوبندیوں کی تھی قاری عبدالحفیظ فیصل آبادی صاحب حفظہ اللہ وہاں خطیب تھے. اہل حدیث, دیوبندی, بریلوی علماء مدعو تھے مولانا شیخوپوری صاحب نے " الیوم اکملت لکم دینکم ؤ اتممت علیکم نعمتی " کے تحت مذہب اسلام, سیاست, جمہوریت, معیشت اور سوشلزم پر بحث کی. مساوات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مساوات تو یہ ہے کہ ایک عام پاکستانی جو کام کرتا ہے اور اس کی بیوی کو جو ذمہ داریاں ادا کرنا پڑتی ہیں وہی ذوالفقار علی بھٹو ادا کریں چنانچہ بھٹو ہل چلارہا ہو اس کی بیوی ہاریوں کی بیویوں کی طرح سر پر روٹیاں اٹھائے ہوئے کھیتوں میں جائے تو اسے پسینے اور گردوغبار میں اپنا شوہر پہچاننا مشکل ہوجائے. ساری زمین تقسیم کرکے 12/50 ایکڑ خود رکھے خود ہل چلائت تو پتہ چل جائے کہ مساوات کس کو کہتے ہیں بڑے بڑے محلات میں رہنے والے ہزاروں ایکڑ اراضی کے مالک کو مساوات کا نام لینے کا حق نہیں ہے. اس پر سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم کے حوالے بھی دیے اگر صحابی نے بھوک کی وجہ سے پیٹ پر ایک پتھر باندھا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو پتھر باندھے تھے. تقریر کے دوران پیپلز پارٹی کے کچھ لوگوں نے ہلڑبازی کی لوگوں نے ان کی پٹائی کردی جلسہ ختم ہوگیا آپ اور مسجد کی انتظامیہ کے کچھ لوگوں پر کیس ہوگیا انہوں نے ضمانتیں کروالیں لیکن آپ کو اس کا علم نہ ہو سکا. اس واقعہ کے چھ ماہ بعد کراچی میں مولانا عبدالغفار رحمہ اللہ امیر جماعت غرباء اہل حدیث کی دعوت پر کراچی گئے رات تقریر کی اگلے دن بہانے سے آپ کو تھانے بلاکر گرفتار کرلیا گیا اور پھر کسی پسنجر ٹرین پر بٹھا کر ضلع نواب شاہ ( حال ضلع نوشہروفیروز) کے اسٹیشن بھریاروڈ ( یہ راقم الحروف کا آبائی شہر ہے) اتار کر بذریعہ پولیس جیپ کنڈیارو تھانے لے گئے. اگلے دن نواب شاہ میں ایس پی کے سامنے پیش کیا. تو ایس پی نے کہا کہ یہ میرا مہمان ہے اس کا خیال رکھنا گھر سے کھانا آنا چاہئیے اور چارپائی دو اور بڑا خوش ہوا. ہوٹل میں کھانا کھانے لگے تو نواب شاہ کی جماعت وہاں پر جمع ہوگئی اور ہوٹل چند منٹوں میں جماعتی احباب سے بھر گیا ہوٹل والا دیکھ کر حیران ہونے لگا کہ یہ کون ہے جس کے لیے اتنے سارے لوگ اکٹھے ہورہے ہیں جب اسے بتایا گیا تو بہت متاثر ہوا اور جتنے لوگوں نے کھانا کھایا تھا اس نے کسی سے بھی بل وصول نہیں کیا اور کہا کہ میں تو خدمت کرسکتا ہوں. نواب شاہ سے آپ کو واپس کنڈیارو تھانہ لایا گیا. تھانہ کی مسجد میں چارپائی دے دی گئی گھومنے پھرنے کی آزادی تھی کھانا تھانیدار کے گھر سے آتا. پھر سندہ کے مختلف علاقوں سے جماعتوں کی آمد شروع ہوگئی ہر جماعت اپنے ساتھ فروٹ اور گھر سے وافر کھانا لے کر آتی.
کنڈیارو تھانہ میں ہی قاری عبدالحفیظ فیصل آبادی صاحب کے مسلک اہل حدیث قبول کرنے کی بنیاد قائم ہوئی. قاری صاحب اکثر تھانہ میں ہی رہتے اور تھانہ میں بیٹھ کر مسلکی گفتگو ہوتی رہتی جس کے نتیجے میں قاری صاحب نے مسلک قبول کرنے کا فیصلہ کیا. حضرت شیخوپوری رحمہ اللہ کی رہائی کے بعد قاری صاحب نے شیخوپورہ آکر باقاعدہ اعلان کردیا. اس کیس کی پیروی میں آپ کے صاحبزادے مولانا عطاءالرحمن صاحب نے پندرہ دن میں چار ہزار میل سفر کیا. خان پور, رحیم یارخان اور نواب شاہ کے مسلسل سفر کیے اور بعض اوقات رات کو اکیلے ہی ریلوے اسٹیشن پر رات بھی گذارتے تھے. یکم جنوری 1971 کو یہ کیس ختم ہوا.
حادثہ :
27 جون 1976 کو بعد ازنماز عشاء شیخ القرآن کا خطاب جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں تھا آپ تقریباً رات کے ڈیڑھ بجے خطاب سے فارغ ہو کر اپنے دو ساتھیوں مستری محمد بشیر آرے والے اور حاجی عبدالحمید کے ہمراہ بس پر سوار ہوئے جب تقریباً تین بجے موضع آرائیانوالہ شیخوپورہ کے پاس بس پہنچی تو سامنے سے آنے والی گاڑی کی تیز روشنی کی وجہ سے سڑک کنارے کھڑا بجری کا ٹرک ڈرائیور کو نظر نہ آیا یا ڈرائیور کو اونگھ آگئی بس پوری رفتار سے ٹرک کے پچھلے حصے سے ٹکرا گئی اور بس کا زیادہ اگلا حصہ حادثے کا شکار ہوا حضرت شیخ القرآن اور آپ کے ساتھی حاجی بشیر احمد دروازے کے ساتھ والی اگلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے تھے حادثہ اتنا شدید تھا کہ لوہے کے اینگل ٹوٹ کر آپس میں مل گئے اور مسافروں کی ہڈیاں ان اینگلوں میں پھنس گئیں حاجی عبدالحمید نے دوسرے مسافروں کی مدد سے بمشکل لوہے کے اینگلوں میں پھنسے مسافروں کو باہر نکالا. شیخ القرآن کا خود اپنا بیان ہے کہ میرا بایاں پاؤں تقریباً میری ٹانگ سے جدا ہوچکا تھا ہڈی اور پٹھے کٹ چکے تھے جسے میں نے اپنے ہاتھ سے پکڑا رکھا تھا. بمشکل ایک دوسرے ٹرک پر سوار کرکے ان کے ان زخمیوں کو شیخوپورہ سول ہسپتال لایا گیا. پھر فیصل آباد مکی ہسپتال ریفر کردیا گیا. فیصل آباد کی جماعت کو حضرت شیخ القرآن کی مکی ہسپتال آمد کی پیشگی اطلاع ہوچکی تھی چنانچہ آپ کے پہنچنے سے پہلے ہی انتظام ہوچکے تھے مریضون کے لیے علیحدہ اور اہل خانہ کےلیے الگ کمروں کا انتظام کرلیا گیا تھا. فیصل آباد کی جماعت نے شیخ القرآن مولانا محمد حسین شیخوپوری سے عقیدت و محبت کے اظہار میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی. ہر آنے والے کےلیے اچھا مشروب, اچھا کھانا اور پھر علاج معالجہ اور ہسپتال کا سارا خرچ بھی انہوں نے خود برداشت کیا تھا.
مہینہ بھر علاج کے بعد شیخوپورہ واپس آگئے علاج پر تقریباً ڈیڑھ سال گذرگیا اللہ تعالی صحت بھی دی اور چلنے پھرنے کے دوبارہ قابل بھی بنادیا. قدرت کاملہ نے مشرکین و مبتدعین کے منہ بند کرنے کے لیے ایسا کرشمہ دکھایا کہ کسی قسم کی کمزوری رہنے ہی نہیں دی. جب اللہ تعالی نے صحت سے نوازا اور دوبارہ چلنے پھرنے کے قابل ہوگئے تو ابتدائی تقریروں میں اکثر یہ شعر پڑھتے تھے
فضلاں دا دن رب چڑھایا رحمت مینہ برسایا
قبریں جاندا بندا واپس موڑ گھلایا
تاجو باقی وچ حیاتی کرلے کچھ بھلائی
بخش دیواں سب اوہگن اس دے بھی جو ہوئی کوتاہی
خطابت میں نکتہ آفرینیاں :
مولانا محمد حسین شیخوپوری خطابت میں ایک منفرد انداز کے حامل تھے خطاب میں کثرت سے قرآن پڑھنا اور قرآنی الفاظ سے نکتہ پیش کرنا آپ کی خطابت کا خاص وصف تھا اسی وجہ سے آپ کو شیخ القرآن کہاجاتا تھا. شیخ القرآن صاحب نے اپنی زندگی میں بڑی بڑی لمبی تقریریں بھی کیں. ایسا بھی ہوا کہ رات کو حضرت نے چھ گھنٹے مسلسل تقریر کی اور سامعین کی توجہ اور انہماک میں کوئی فرق نہیں آیا. سانگلہ ہل میں بریلوی مکتبہ فکر کے علماء نے جلسہ کیا اور تقریروں میں اہل حدیث کو سب و شتم کیا. سانگلہ ہل میں مولانا محمد حسین شیخوپوری نے مسلسل چھ گھنٹے خطاب کیا اور گیارہویں کے بارے میں اپنا نکتہ پیش فرمایا قرآن مجید کی آیت کریمہ پڑھی :حرمت عليكم الميتة والدم و لحم الخنزير وما اهل به لغيرالله والمنخنقة والموقوذة والمتردية والنطيحة وما اكل السبع الا ما ذكيتم وما ذبح علي النصب وان تستقسموا باالازلام ذالكم فسق ( سورة المائدة )
اس کی تفسیر اس طرح سے کی :.
1* حرمت علیکم المیتۃ تم پر حرام کیا گیا ہے مردار پہلی حرام
2* والدم اور خون دوسری حرام
3* ولحم الخنزیر خنزیر کا گوشت تیسری حرام
4* ومااھل بہ لغیراللہ جس پر اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام پکارا گیا ہو چوتھی حرام
5* والمنخنقۃ جو گلا گھٹنے سے مرا ہو پانچویں حرام
6* والموقوذۃ جو کسی ضرب سے مرا ہو چھٹی حرام
7* والمتردیۃ جو اونچی جگہ سے گر کر مرا ہو ساتویں حرام
8* والنطیحۃ جو کسی کے سینگ مارنے سے مرا ہو آٹھویں حرام
9* وما اکل السبع الا ما ذکیتم جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو لیکن اگرتم اسے ذبح کر ڈالو تو حرام نہیں نویں حرام
10* وما ذبح علی النصب جوآستانوں پر ذبح کیا گیا ہو دسویں حرام
11* وان تستقسموا باالازلام اور یہ کہ قرعہ کے تیروں کے ذریعے فال گیری کرو گیارہویں حرام
اور پھر پورے مجمع سے کہلوایا کہ گیارہویں حرام
مولانا محمد حسین شیخوپوری بڑے سحر بیان مقرر تھے کئی دیہات اور علماء آپ کی تقاریر سن کر اہل حدیث ہوئے. والحمد للہ علی ذالک
تنظیمی خدمات :
تبلیغی خدمات کے پیش نظر مولانا سید محمد داؤد غزنوی رحمۃ اللہ علیہ نے مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے قیام کے بعد دو آدمیوں کو مرکزی جمعیت اہل حدیث کی طرف سے مبلغ نامزد کیا تھا ایک شیخ القرآن مولانا محمد حسین شیخوپوری اور دوسرے مولانا محمد ابراہیم خادم آف تاندلیانوالہ.
1981 میں بدقسمتی سے جب مرکزی جمعیت اہل حدیث دو حصوں میں تقسیم ہوگئی مرکزی جمعیت اہل حدیث کے امیر مولانا معین الدین لکھوی اور ناظم میان فضل حق تھے لیکن جمعیت اہل حدیث کے امیر شیخ الحدیث مولانا محمد عبداللہ اور ناظم اعلی مولانا محمد حسین شیخوپوری بنائے گئے اس جماعت کا قیام اور مولانا محمد حسین صاحب کا انتخاب گوجرانوالہ میں اکابر علماء کے ایک بہت بڑے اجتماع میں ہوا. مگر کچھ عرصہ بعد آپ نے اس اعلی منصب سے استعفی دے دیا پھر کچھ عرصہ غیر جانبدار رہے پھر مولانا حافظ عبدالقادر روپڑی کی جماعت سے منسلک ہوگئے. کئی مواقع پر بعد و قرب کی نوبت آئی اور شیخ القرآن جماعت سے وصال و فراق کے کرب سے گذرے. لیکن مستقل طور پر مرکزی جمعیت اہل حدیث کے ساتھ نہ چل سکے.
شادی و اولاد :
مولانا محمد حسین شیخوپوری کی شادی تیرہ سال کی عمر میں ہوگئی تھی اللہ تعالی نے آپ کو پانچ بیٹے اور چار بیٹیاں عطاء کیں.
بیٹوں کے نام
فضل الرحمن, مولانا عطاءالرحمن, حافظ محمد خالد, حافظ عبدالرحمن, مولانا عزیزالرحمن عزیز
وفات :
شیخ القرآن خطیب پاکستان مولانا محمد حسین شیخوپوری نے 5اگست 2005 کی رات اپنے مسکن شیخوپورہ میں وفات پائی اگلے دن 6 اگست کو مولانا معین الدین لکھوی نے آپ کا پہلا جنازہ پڑھا دوسرا حافظ محمد یحی عزیز میر محمدی نے اور تیسرا کسی اور نے پڑھایا. یکے بعد دیگرے تین جنازے پڑھے گئے جن میں شریک ہونے والوں کی تعداد حد شمار سے آگے تھی.
اللهم اغفر له وارحمه وعافه واعف عنه
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top