• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تذکرہ ایک مدنی محفل کا

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
تذکرہ ایک مدنی محفل کا

بروز جمعہ ،بتاریخ 18 صفر 1438 ، بمطابق 18 نومبر 2016
فضیلۃ الدکتور عبد الباسط فہیم حفظہ اللہ ( مسجد نبوی میں اردو زبان میں درس دیتے ہیں )
جامعہ اسلامیہ کے طالبعلم ہیں ، کئی سالوں سے یہاں زیر تعلیم ہیں ، اور پی ایچ ڈی کا مقالہ جمع کروا چکے ہیں ۔
جامعہ اسلامیہ میں زیر تعلیم تمام پاکستانی طلبہ سے سینئر ہیں ، اور دوران تعلیم کچھ عرصہ جامعہ اسلامیہ میں بطور استاد کچھ اسباق بھی پڑھاتے رہیں ۔
ان کے ہم عمر ، ہم کلاس بہت سارے لوگ پاکستان میں شیخ کے درجہ پر فائز ہیں ، لیکن یہ چونکہ اعلی تعلیم کے لیے یہأں ٹھہرے رہے ، لہذا باوجود ایک استاد اور مدرس و محاضر ہونے کے ابھی تک رسمی طور پر ’ طالبعلموں ’ میں ہی شمار ہوتے ہیں ۔
اپنے سے جونیئر طالبعلموں کے ساتھ محبت و شفقت اور خیر خواہی کا جذبہ ان کا ہمیشہ ہی خوب رہا ۔ وقتا فوقتا طالبعلموں کو بلا کر ان کی ضیافت بھی کرتے ہیں ۔
آج بھی ایک ایسی ہی محفل ان کے ’ دانش کدے ’ پر قائم ہوئی ۔ جس میں انہوں نے ہمارے جیسے کچھ طالبعلموں کے ساتھ ساتھ بعض سینئرز کو بھی دعوت دے رکھی تھی ۔
ہمیشہ کی طرح کھانے سے بہلے ، دوران طعام ، اور کھانے کے بعد خوب خوب علمی و تحقیقی باتیں ہوئیں ، حضرت شیخ ابن تیمیہ و ابن قیم میں متخصص ہیں ، ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا ان سے بڑا مداح جس سے مجھے بھی قربت ہو ، نہیں دیکھا ۔ وجہ اس کی یہی ہے کہ ان کا ایم فل کا مقالہ ابن قیم سے متعلق تھا ، جبکہ پی ایچ ڈی انہوں نے ابن تیمیہ سے متعلق کی ہے ۔ آٹھ دس سال میں انہوں نے ان دونوں شیخین کی کتب کو کھنگالا ہے ، اور بالخصوص ان کی تفسیری خدمات سے بہت تفصیل سے واقف ہیں ، بقول ان کے ابن تیمیہ نے چاہے قرآن کی کوئی مستقل تفسیر نہیں لکھی ، لیکن اس کے باوجود قرآن فہمی میں ان کا ثانی نہیں ۔
مجلس میں کچھ پاکستانی طالبعلم جو برطانوی شہریت رکھتے تھے ، وہ بھی موجود تھے ، اس طرح سعودیہ ، برطانیہ ، پاکستان ان تینوں ملکوں کی دعوتی سرگرمیوں کے حوالے سے کافی مفید باتیں ہوئیں ۔
بھارت کے ایک دکتور محمد وسیم المحمدی بھی شامل تھے ، اس لیے ڈاکٹر ذاکر نائیک وغیرہ کے حوالے سے جو حالیہ مسئلہ چل رہا ہے ، اسی طرح مسلم پرسنل لاء کے حوالے سے ، سب مشایخ اس بات پر تقریبا متفق تھے ، کہ آپسی اختلاف جیسے بھی ہوں ، دوسروں کے مقابلے میں مسلمان ایک ہونے چاہییں ۔
جامعہ اسلامیہ میں پاکستانی طلبہ جس انداز سے زندگی گزار رہے ہیں ، اس پر بھی بعض مشایخ نے رائے دی کہ جس مقصد کے لیے یہاں آئے ہیں ، اس پر کما حقہ توجہ نہیں ہو پارہی ۔ جو یقینا بعد میں سوائے پچھتاوے کے کچھ نہیں ہوگا۔
مسجد نبوی میں علماء و محققین و محدثین کے اس قدر علمی و تحقیقی دروس ہوتے ہیں ، لیکن عام طور پر طلبہ اس میں سستی کا شکار ہوتے ہیں ۔
کچھ طالبعلم علمی سرگرمیوں کی بجائے ، تنظیمی و جماعتی سرگرمیوں میں زیادہ وقت دیتے ہیں ، جو کہ ظاہر ہے کہ اصل مقصد کے لیے نقصان دہ ہے ۔
ایک سوال کے جواب میں شیخ عبد الباسط صاحب حفظہ اللہ نے فرمایا : اہل سنت و الجماعت سے مراد وہ لوگ ہیں ، جو قرآن وسنت کے پابند اور صحابہ کرام کے طریقہ پر گامزن ہیں ، جو جس قدر ان چیزوں سے دور ہوگا ، وہ اسی قدر اہل سنت والجماعت کے مرکز سے دور ہوتا جائے گا ۔
سعودی علماء کے فتاوی ہیں کہ حکام کے خلاف خروج اور مظاہرات وغیرہ درست نہیں ہیں ، مجلس میں شامل بعض مشایخ کا موقف تھا کہ پاکستان میں بھی اس طرح کی چیزیں درست نہیں ، جبکہ راقم الحروف کا یہ موقف رہا کہ شریعت تو ایک ہی رہتی ہے ، لیکن حالات کی تبدیلی سے فتوی تبدیل ہوسکتا ہے ، لہذا پاکستان میں ہونے والے مظاہرات پر ان فتاوی کو چسپاں کرنا جو سعودی علماء کے ہیں ، درست نہیں ۔
مشایخ نے اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ عمومی وعظ و نصیحت کے ساتھ ساتھ مساجد میں علمی کتب کا بھی درس ہونا چاہیے ، جن میں توحید کے مسائل ، روزمرہ معاشرتی مسائل وغیرہ کی طرف رہنمائی ہو ۔ شیخ ارشاد الحسن ابرار صاحب حفظہ اللہ عقیدہ میں متخصص ہیں ، ان کے مطابق اگر کوئی آسان فہم زبان میں عقیدے کے مسائل سمجھنا چاہتا ہے تو شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کی کتب اس حوالے سے بہترین ہیں ۔
مشایخ کا کہنا تھا کہ عام لوگوں کو یا عام طالبعلم کو اہل بدعت اور منحرف افکار رکھنے والے لوگوں کی تقریروں اور تحریروں سے بچنا چاہیے ، ہاں البتہ جو متمکن ہے ، غلط صحیح کی پہچان کرسکتا ہو ، اسے تمام اہل علم کی کتب پڑھنی چاہییں ، کیونکہ ان مین بھی بہت ہیرے جواہرات اور علوم نافعہ موجود ہیں ۔
برادرم عبد الوہاب سلیم صاحب نے کہا کہ کسی فیس بکی دانشور کے مطابق صحابہ کرام سے محبت و مودت کے مسئلے کو سب سے پہلے ابن تیمیہ نے عقائد میں شمار کیا ہے ، جس پر مشایخ نے علامہ طحاوی ، ابو حاتم الرازی ، الشریعہ للآجری وغیرہ جیسے حوالے پیش کیے جنہوں نے اس مسئلہ کو عقیدہ کا مسئلہ قرار دیا ہے ، اور یہ سب لوگ ابن تیمیہ سے صدیون پہلے گزر چکے ہیں ۔
اسی سطحی اعتراض کے ساتھ یہ بات بھی ضمنا ذکر ہوئی کہ بعض دفعہ ابن تیمیہ سے عقیدت رکھنے والے دوسروں کی کبار شخصیات کے حوالے سے اسی قسم کے سطحی اعتراضات کرجاتے ہیں ، کیونکہ انہوں نے انہیں تفصیل سے پڑھا ہی نہیں ہوتا ۔ لہذا کسی بھی عالم کے متعلق بات کرنے سے پہلے اس کے متعلق اچھی طرح معلومات لےلینی چاہییں ۔
یہاں ہمارے ہاں شیخ عبد الباسط صاحب حفظہ اللہ میری معلومات کے مطابق ان چند گنے چنے طلبہ میں سے ہیں ، جو ابھی تک مکمل اعتماد اصل کتابوں پر کرتے ہیں ، ورنہ طلاب علم کی اکثریت اب کمپیوٹر اور موبائل میں پی ڈی ایف وغیرہ ، یا گوگل کے ذریعے علمی موشگافیاں حل کرتی ہے ، شیخ کو اسی لیے میں اسلاف کی یادگار کہتا ہوں .
اللہ تعالی ان کے علم و فضل میں برکت عطا فرمائے ، اور ہم ناکاروں کو مقصد زندگی سمجھنے اور اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے تگ و دو کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
اس محفل میں شیخ عبد الباسط صاحب تو میزبان تھے ، بطور مہمان شیخ فراز الحق ( طالبعلم پی ایچ ڈی شعبہ علوم حدیث ) ، شیخ ارشاد الحسن ابرار ( طالبعلم پی ایچ ڈی شعبہ عقیدہ ) ، ڈاکٹر وسیم المحمدی ( پی ایچ ڈی علوم اللغۃ ) اور اسی طرح محترم برادران طارق محمود ، عثمان ارقم ، جواد موسی ، عبد الوہاب سلیم ، محمود اظہر ، رضوان ، زوہیب وغیرہم شامل تھے ۔
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
بروز جمعرات ،بتاریخ 24 صفر 1438 ، بمطابق 24 نومبر 2016
بعد از نماز عشاء ایک بار پھر ’ مدنی محفل ’ سجی ، مدینہ منورہ میں ، مسجد نبوی سے تقریبا 5 کلو میڑ کے فاصلے پر جنوب کی طرف مسجد قباء سے آگے گزر کر ایک حدیقہ ( پارک ) ہے ، جو سعودیہ کے معروف بادشاہ ملک فہد کے نام سے موسوم ہے ۔
اب کی بار کی محفل اسی وسیع و عریض پارک کے ایک احاطہ میں بپا ہوئی ، شرکت کرنے والے تقریبا تیس سے چالیس طالبعلم تھے ، جو بمع اپنے اہل عیال مدینہ منورہ میں مقیم ہیں ۔
اس اجتماع کا مقصد ، نئی آنے والی فیملیز کا آپس میں تعریف و تعارف تھا ، جس کا اہتمام یہاں سے پہلے سے مقیم فیملیز کی طرف سے بعض احباب کی ادارت و نظامت میں کیا گیا ۔
میزبان سب مل جل کر کھانے پینے کی چیزیں لے کر آئے ، جو میزبانوں اور مہمانوں ہر دو کے لیے کافی و شافی ثابت ہوا ۔
لذت کام و دہن کے علاوہ ، علمی و فکری موضوعات پر بھی گفتگو کرنا باقاعدہ پروگرام کا حصہ رکھا گیا تھا ۔
کچھ موضوعات جو اجمالا یا تفصیلا زیر بحث آئے ، اور مجھے یاد بھی ہیں ، ان کو یہاں درج کرتا ہوں :
1۔ دین کی تبلیغ اور اسلامی تعلیمات کی ترویج و ترسیخ میں میڈیا کا کردار ، مثبت و منفی پہلو ۔
2۔ ایک دینی و سیاسی جماعت کے ’ قائد ’ کا ایک اہم مسئلہ میں ’ بیان ’ اور اس سے ’ رجوع ’ کرنا ۔
3۔ عورت کا بغیر محرم سفر کرنا کیسا ہے ؟ سفر کسے کہتے ہیں ؟
4۔ عورت کا اپنے شوہر کے رشتہ داروں مثلا بھائی وغیرہ سے پردہ کرنا ، شرعی موقف ، اس کے فوائد ، معاشرتی برائیاں اور ان کے خطرناک نتائج ، یہاں یہ بھی زیر بحث آیا ، کہ اگر کوئی عورت کو اپنے بھائیوں یا رشتہ داروں سے پردہ کرنے سے منع کرے ، تو کیا اس حرام کے ارتکاب سے بچنے کے لیے عورت خلع یا طلاق کی حد تک جا سکتی ہے ؟
5۔ دینی طالبعلم کو دوران تعلیم کیسا ہونا چاہیے ؟ اور فراغت کے بعد اسے کیا کرنا چاہیے ، اس حوالے سے مختلف پہلؤوں پر مفید آراء آئیں ، جن میں سے تین کو ذکر کرنا چاہوں گأ :
(أ)شیخ ارشاد الحسن ابرار حفظہ اللہ نے کہا کہ حصول علم کے دوران جس قدر ممکن ہو ، کتب اور مصادر و مراجع خریدنے بر توجہ دینی چاہیے ، کتاب کے ساتھ تعلق مضبوط بنانا چاہیے ۔
(ب )شیخ ابراہیم میر محمدی صاحب نے کہا کہ پڑہائی پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ ، اگر ممکن ہو تو مستقبل کو مد نظر رکھتے ہوئے ، کوئی چھوٹا موٹا کام یا کاروبار کر لینا چاہیے ، تاکہ فراغت کے بعد دین کی تعلیم و تبلیغ میں کسی قسم کی مالی پریشانی رکاوٹ نہ بنے ، اور نہ ہی اصحاب مدارس اور متولیان مساجد کی کڑوی کسیلی سننا پڑیں ۔
(ج) شیخ شفقت الرحمن مغل صاحب نے کہا کہ طالبعلم کو دین کی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے لیے چاہے ہلکا پھلکا ہی ہو ، کوئی مستقل کام سر انجام دیتے رہنا چاہیے . پوچھنے پر بطور مثال انہوں نے کہا کہ الحمد للہ میں نے ایک مسجد کے خطبہ جمعہ سے کام شروع کیا تھا ، پھر مسجد نبوی کا خطبہ ترجمہ کرنا شروع کردیا ، پھر اللہ نے موقعہ دیا تو اسلامی سوال و جواب کی ایک بہت بڑی ویب سائٹ پر ان کی خدمات بطور مترجم لے لیں گئیں ، اس کے بعد پھر اللہ تعالی نے انہیں مسجد نبوی کے ’ شعبہ ترجمہ ’ سے منسلک ہونے کا شرف عطا کیا ۔
6۔ میری عادت ہے کہ اکثر مجالس میں بولتا ہی رہتا ہوں ، سینئرز اور جونئیرز ہر قسم کے طلباء کرام برا محسوس نہیں کرتے ، اس لیے تعارفی نشست ، اور ان تمام مسائل میں گفتگو کے دوران ، کہیں سنجیدہ ، کہیں غیر سنجیدہ انداز میں کچھ نہ کچھ کہتا ہی رہا ، البتہ ایک بات جو میں یہاں لکھنا چاہوں گا یہ تھی کہ :
سعودی جامعات اور پاکستانی دینی مدارس میں نظام تعلیم ، انداز درس و تدریس کا ساتھ ستر فیصد فرق ہے ، باوجودیکہ نصابی مواد کا اشتراک بھی اسی یا اس سے زیادہ نسبت میں موجود ہے ۔ لیکن جو بات توجہ کرنے کی ہے یہ ہے کہ پاکستانی اور سعودی دونوں جگہ کے نظام تعلیم کی خوبیوں اور خامیوں کو سمجھا جائے ، اور پھر خوبیوں کوسمیٹنے اور خامیوں سے بچنے کی بھرپور کوشش کی جائے .
یہاں آپ کو دنیا کی ہرمشہور کتاب میسر ہوسکتی ہے ، یہاں اطراف و اکناف عالم سے علماء ، و فقہاء ، محدثین و محققین سے ملاقات کرنا قدرے آسان ہے ۔
یہاں آپ کسی بھی کتاب کو پڑھنا چاہیں ، تو تھوڑی سے محنت کرکے قابل استاد کو ڈھونڈا جاسکتا ہے ۔
یہاں آپ نہ صرف عربی تحریر میں مہارت پیدا کرسکتے ہیں ، بلکہ عربی بول چال میں روانی کے لیے یہاں سے زیادہ کوئی ماحول سازگار نہ ہوگا ۔۔۔ بلکہ اگر کوئی شوق و ذوق رکھتا ہو تو اردو عربی انگریزی وغیرہ کے علاوہ اور بہت سی زبانیں ان طالبعلموں سے سیکھی جاسکتی ہیں ۔
یہاں بیٹھ کر آپ اپنا کوئی بھی دعوتی یا تبلیغی پیغام دنیا کے ایک بڑے حصے تک آسانی سے پہنچا سکتے ہیں ، اپنی کوئی بھی مختصر تحریر لکھیں ، اسے کسی دوست سے مل کر انگریزی میں منتقل کروالیں ، کسی سے مل کر چائنی زبان میں منتقل کر والیں ، کسی سے مل کر ترکی زبان میں ، وغیرہ وغیرہ ۔
اپنے ہم مزاج ، ہم زبان ، ہم علاقہ ، ہم عادات لوگوں میں رہنا کچھ اور ہے ، لیکن یہاں جب گورے کالے گندمی سب رنگ ملتے ہیں ، نفیس سے نفیس تر ، اور ہلکی عیش زندگی رکھنے والے جب ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں ، تو پھر اپنے ذہن کو ، زبان کو ، اخلاقیات کو ’ درست سمت ’ میں رکھنے میں کامیابی یا ناکامی ، وہ چیزیں ہیں ، جن سے صحابہ کے دور کے مسائل ، ان کی محبت و مودت کے پیمانوں کو سمجھا جاسکتا ہے ، جہاں حبشی ، رومی ، فارسی ، گورے ، کالے ، عربی عجمی ، امیر غریب ، سب ایک ہوگئے تھے ۔
اس ساری مجلس کو علمی اور فائدہ مند رکھنے میں شیخ عبد الباسط فہیم حفظہ اللہ نے بنیادی کردار ادا کیا ، اعزازی طور پر اس میں جمعیت کے سر پرست شیخ فراز الحق صاحب اور امیر جمعیت حافظ جنید صاحب بھی شریک تھے ۔
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
بروز جمعہ ،بتاریخ 25 صفر 1438 ، بمطابق 25 نومبر 2016
گزشتہ رات والی ’ مدنی محفل ‘ سے فارغ ہو کر گھر پہنچا ہی تھا کہ وصال اردو کے ایک سینئر رکن پروفیسر عبد اللہ عالم زیب صاحب کی طرف سے پیغام موصول ہوا ، کہ ایک صاحب نومسلم ہیں ، عبد الوارث گل صاحب ان کا اسلامی نام ہے ، نو مسلموں کے حقوق کے نام سے ایک تنظیم بھی چلاتے ہیں ، مدینہ منورہ موجود ہیں ، اہل وصال نے ان کے ساتھ ریکارڈنگز وغیرہ بھی کی ہیں ، مزید چاہتے ہیں گہ بعض احباب کےساتھ ایک مجلس ہو جائے ، ’ احاول الحضور إن شاء اللہ ‘ کہہ کر میں اپنے دیگر کاموں میں مشغول ہوگیا . صبح کی نماز کے بعد دوبارہ پیغام موصول ہوا کہ سات بجے یہ محفل منعقد ہوگی ۔​

چونکہ رات بھی نہیں سویا تھا ، لہذا خواب خرگوش کا تصور غالب آنے لگا ، پھر ایک دو اور کام بھی ذہن میں آئے ، لیکن اللہ تعالی نے ہمت دی ، سوا سات بجے وصال کے دفتر ’ وصول ’ ہو چکا تھا . برادر عبد اللہ زیب صاحب نے استقبال کیا ، محترم توقیر صاحب پہلے سے پہنچ چکے تھے ، دیگر اہل وصال ، محترم عابد صاحب ، حافظ اقرار صاحب ، محترم ثناء اللہ اور محترم افضال صاحب نے حسب معمول گرمجوشی سے اہلا و سہلا کہا ۔ کچھ دیر بعد وصال کے ہیڈ ڈاکٹر نور محمد جمعہ صاحب بھی مہمانوں کے ساتھ پہنچ گئے ، انہوں نے بھی خوش مزاجی کے ساتھ ترحیبی کلمات کہے ، حوصلہ افزائی ہوئی ، اور نیند کی جو جھلیکاں تھیں ، سب ’ دور ’ ہوئیں ، عبد الوارث گل صاحب ، مولانا شعبان مدنی صاحب ، اور ہم طالبعلم ساتھیوں میں سے فردوس جمال صاحب ، علامہ احسان الہی ظہیر صاحب ، عبد الوہاب سلیم صاحب اور محترم حافظ جنید صاحب ( جنہیں ایک اشتہار میں جنید بغدادی لکھ دیا تھا ، البتہ آج ان کے حصے ’ جنید مدینہ ‘ کا لقب آیا ) اور اسلام آباد سے آئے ہوئے محسن خان عباسی صاحب جو کہ نوجوانوں کی ایک تنظیم کے آرگنائزر ہیں ، سے مجلس کا آغاز ہوا ، رسمی تعارف ہوا ، جو واقعتا رسمی ہی تھا ، کہ ایک کان سے داخل ہوا ، دوسرے سے نکل گیا . اسی لیے میں نے اس بات کا احساس دلانے کے لیے اپنے تعارف میں نام بتانے کے بعد کہہ دیا ، میرا علمی تعارف وہ ہے ، جو فلاں صاحب نے کروایا ، علاقے کی تفصیلات وہ ہیں جو فلاں بھائی نے بتائیں ، تاکہ ہمیں کم از کم احساس ہو کہ ہم اس طرح کے کئی ایک کام صرف رسمی طور پر ہی کرتے ہیں ،توجہ ذرا کم ہی ہوتی ہے ، یاد وہی رہتے ہیں جو پہلے سے متعارف ہوتے ہیں ۔
خیر بعض تعارف بڑے غور سے سنے گئے ، اور امید ہے کچھ لوگوں کو دی گئی معلومات یاد بھی ہون گی ۔
ناشتہ سے فارغ ہونے تک ، میں نے ذرا موقعہ غنیمت جانتے ، ایک مسئلہ چھیڑ دیا:
علماء کرام پر اعتراض ہے کہ یہ نئی ایجادات کے بارے میں عجیب و غریب اضطراب کا شکار ہوتے ہیں ، پہلے حرمت کے فتوی ، بعد میں سب اس میں لگ جاتے ہیں ۔
اس پر مختلف طریقے سے اظہار رائے کیا گیا ، دو اہم نکات یہاں پیش کرتا ہوں :
اول: علماء کے بارے میں یہ باتیں غلط فہمی پر مبنی ہوتی ہیں ، علماء کی احتیاط یا توقف کو ’ حرمت کا فتوی ’ سمجھ لیا جاتا ہے ۔ یا بعض دفعہ جان بوجھ کر اعتراض کھرا کرنے کے لیے ان علماء کو جان بوجھ کر نظر انداز کردیا جاتا ہے ، وہ بہت پہلے سے ہی جدید ایجادات کے فوائد سے واقف ہو کر ان سے مستفید ہورہے ہوتے ہیں ، اور لوگوں کو بھی اس کی تلقین کرتے ہیں ۔
دوم : علماء ایک مکمل اور معاشرے کا اہم طبقہ ہے ، اس میں کئی افراد ہیں ، مسائل میں اختلاف ہوجانا ، اور بالخصوص جدید پیش آمدہ مسائل میں یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں ، لہذا کچھ علماء کسی چیز کے متعلق عدم جواز کا فتوی رکھتے ہیں ، لیکن کئی ایک علماء ہوتے ہیں ، کہ وہ جواز کی رائے رکھتے ہیں ، اور یہ دو گروہ شروع سے ہی ہوتے ہیں ، عام لوگ ، جو ان چیزوں کی حقیقت کو نہیں جانتے ، وہ انہیں اختلاف آراء کی بجائے ، علماء کا تضاد سمجھ لیتے ہیں کہ کبھی کوئی بات کرتے ہیں ، کبھی کوئی ، حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا ، بلکہ جو عدم جواز کی بات کرتے ہیں ، وہ شروع سے ہی اس پر قائم ہوتے ہیں ، اور جو جائز کہتے ہیں وہ بھی شروع سے ہی موجود ہوتے ہیں ۔
اس کے علاوہ بھی اور کچھ باتیں ہوتی رہیں ، ناشتے کے وقت شرکاء آسانی کے لیے دو حصوں میں بٹ چکے تھے ، ہمارے گروپ میں دیگر باتوں میں سے عبد الوہاب سلیم صاحب کا ایک تبصرہ ابھی تک یاد ہے کہ : خضر بھائی آپ کی ( میڈیا اور اسلام پسندوں کی آزمائش والی ) تحریر بالکل دقیانوسی خیالات بر مشتمل ہے ۔ :)
اصل بات شروع ہوئی ، عبد الوارث گل صاحب نے اپنے قبول اسلام قبلہ و بعدہ کے واقعات و حالات کی روئیداد شروع کی ، سب کو نقل کرنا ، ممکن نہیں ، اور نہ ہی مکمل جزئیات کے ساتھ مجھے یاد ہے ، کوشش کرکے ، جو باتیں میری نظر میں اہم ہیں ، وہ پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں :
ایک غریب عیسائی خاندان میں پیدا ہوئے ، بچپن پڑھائی لکھائی کی بجائے ، مزدوری میں گزرنے لگا ، ہاتھ پاؤں پائپوں سے زور آزمائی کے دوران بکثرت لگنے والی مٹی اور سیاہی کی معجون مرکب سے ، بالکل کالے ، تہذیب و شعور کا دور دور تک کوئی نشان نہیں تھا ، اللہ کو حالت زار پر رحم آیا ، فطرت میں موجود مذہبی داعیہ ایک تحریک کی شکل اختیار کرنے لگا ، تہیہ کرلیا کہ ایک اچھا عیسائی بننا ہے ، عیسائی پادریوں ، اور قساوسہ کے پاس حاضر ہونے لگے ، انہوں نے کہا بائیل کا مطالعہ کریں ، کہنے لگے ، مجھے تو پڑھنا ہی نہیں آتا ، ہوش سنبھالتے ہی مزدوری شروع کردی ، آج تک وہی کچھ چل رہا ہے ، خیر جب طلب صادق ہو تو کوئی رکاوٹ انسان کو ہدف تک پہنچنے سے روک نہیں سکتی ، اپنے چھوٹے بھائی سے جو سکول جاتا تھا ، اور ادھر ادھر سے حروف تہجی ، الف انار ب بکری سے سیکھنا شروع کیا ، اللہ تعالی نے مدد فرمائی ، سلمان فارسی کے لیے تو کھجوروں کی پنیری دنوں میں لہلہاتے باغ میں تبدیل ہوگئی تھی ، یہاں تو پھر قلم و قرطاس کا سیدھا اور سادھا میدان تھا ، پڑھنا لکھنا سیکھ لیا ، عیسائی مذہبی کتابوں کا مطالعہ کیا ، اشکالات پیدا ہوئے ، علماء سے سوال کیے ، انہوں نے جواب دیے ، تواس پر پھر مزید کراس سوال کیے ، آخر نتیجہ یہ نکلا کہ مریضِ لا علاج قرار دے دیے گئے ، لیکن دل و دماغ میں تلاش حق کی جو تحریک تھی ، وہ طوفان کی شکل اختیار کرنے لگی ، مسجد گئے ، قرآن مجید مانگا ، بتایا گیا کہ نہ اس طرح مسجد آنا درست ہے ، اور نہ ہی قرآن کو چھونا ۔
آخر کہیں سے قرآن حاصل کرکے سورۃ الفاتحہ سے خالق کائنات کا تعارف شروع ہوا ، آیۃ الکرسی سے مزید دل کی دنیا جاگ گئی ، یوں قرآن سمجھنے کے ساتھ ساتھ ، سیرت کی معروف کتاب الرحیق المختوم کئی کئی قسطوں میں پیسے جمع کرکے خریدی ، علامتان شبلی و ندوی کی سیرت نبوی پڑھی ، پھر تفسیر ابن کثیر خریدنے کی خواہش پیدا ہوئی ، لیکن جیب اجازت نہ دیتی تھی ، دار السلام لاہور برانچ کے ذمہ دار حافظ عبد العظیم اسد صاحب کو جاکر اپنا اشتیاق ظاہر کیا ، لیکن ساتھ جیب خرچ کی تنگی کے سبب خصوصی ڈسکاؤنٹ کی گزارش کی ، گل صاحب کے الفاظ ہیں :
حافظ عبد العظیم اسد صاحب نے ایک روپیہ بھی ڈسکاؤنٹ نہ کیا ( پھر ذرا رک کر ) بلکہ انہوں نے مکمل تفسیر بالکل مفت میں مجھے ہدیہ کردی ۔
یوں اسلام اور اس کی تعلیمات کی طرف شروع سفر ، جستجو ، اور تڑپ ، دل و دماغ میں اسلام کی حقانیت کا موجزن سمندر کلمہ طیبہ کی صورت زبان سے رواں دواں ہوگیا ۔
کہتے ہیں ، مسلمان جس انداز سے ہوا ، جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ، بالکل عجیب و غریب باتیں تھیں ، گھر پہنچا ، ماں نے کہا : بیٹا ، معذرت ، تمہارے لیے اب اس گھر میں کوئی جگہ نہیں ، باپ نے کہا : مجھے پہلے ہی نظر آرہا تھا کہ تم کسی غلط رستے پر جارہے ہو ۔... شروع شروع میں انہوں نے سختی دکھائی ، لیکن عبد الوارث صاحب ڈٹ گئے ، ماں سے کہا ، اسلام میں نے قبول کر لیا ہے ، لیکن میں گھر چھوڑ کر کہیں نہیں جانا چاہتا ، جو مرضی ہو جائے ، ماں آخر ماں تھی ، دینی غیرت و غصے کے باوجود بیٹے کی محبت و چاہت سے مغلوب ہو گئیں ، شوہر سے بھی کہہ دیا ، چلیں اسے رہنے دیں ، یہ اب کہاں جائے گا ۔.... گل صاحب نے اسلام قبول کرنے کے بعد ، باوجودیکہ وہ لوگ عیسائی تھے ، اپنے گھر والوں کے ساتھ حسن اخلاق میں کمی نہیں آنے دی ، آہستہ آہستہ ماں باپ ، بہن بھائی ، رشتہ دار عزت کی نگاہ سے دیکھنا شروع ہوگئے ، بیٹا جس حالت میں تھا ، اسی حالت میں اسے قبول کرلیا ، بلکہ اس کے نیک جذبات و خیالات دیکھ کر اس کی عزت و توقیر شروع ہوگئی ۔
گل صاحب نے قبول اسلام تو تبھی کیا ، جب اس کی حقانیت دل میں گھر کر گئی ، لیکن ذرا آگے بڑھ کر دل و دماغ پر ایک سوالیہ نشان کھڑا ہوگیا ، مسلمان تو ہوگیا ہوں ، لیکن اب اس سے اگلا رستہ کون سا ہے ؟
وہ جو قرآن مجید ، سیرت رسول ، اور شرعی تعلیمات میں نظر آتا ہے یا وہ ، جن کے بارے اقبال نے کہا تھا :
وضع میں تم ہو نصاری تو تمدن میں ہنود
یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
سناتے ہیں ، میرے والد صاحب نے کہا : بیٹا ، ٹھیک ہے تم مسلمان ہوگئے ، لیکن تم ایسا کرو ، یہ داڑھی وغیرہ کٹوا دو ، اس سے تمہارے مخالفین ذرا ٹھنڈے پڑ جائیں گے ، اور ویسے بھی کوئی مسئلہ نہیں ، بے شمار مسلمان بھی تو اس کے بغیر ہی چلتے پھرتے نظر آتے ہیں ، گزارش کی کہ یہ سنت رسول ہے ، اسلام کا حصہ ہے ، ایسا تو میں نہیں کرسکتا ، یہی صحیح اسلامی تعلیمات ہیں ، چاہے کچھ نادان مسلمان انہیں چھوڑ بیٹھے ہیں ، باپ نے مزید زور دے کر کہا : میں تمہارا باپ ہوں ، اگر حکم دوں تو تب تمہارا کیا جواب ہوگا ؟
عرض کیا کہ آپ کے حکم کی تعمیل میں گردن کٹوا لوں گا ، لیکن سنت رسول کے ساتھ زیادتی مجھے منظور نہیں ۔ ( یہ سب باتیں اس انداز سے چل رہی تھیں کہ چھوٹے بڑے سب شرکاء کی آنکھیں تقریبا چھلک رہی تھیں )
مسلمانوں کی حالت زار ، اور اسلام لانے کے بعد نام نہاد مسلمانوں کا ان کی داڑھی ، اور سنتوں پر پابندی کی وجہ سے طعن وتشنیع اور آوازیں کسنے کے کئی ایک واقعات انہوں نے ذکر کیے ، جس سے ہمارے جیسے جدی پشتی مسلمانوں کے سر ندامت سے جھکے جارہے تھے ۔
ہم چونکہ شروع سے مسلمان ہیں ، ایک غیر مسلم کو اور پھر نو مسلم کو کس قسم کے مسائل کا سامنا رہتا ہے ، ان کی زبان سے پہلی مرتبہ سنے ، تو بہت حیرانی ہوئی ، کہ جن چیزوں کو ہم کوئی مسئلہ ہی نہیں سمجھتے ، ان کا حل ان لوگوں کے لیے کسی پہاڑ کو سر کرنے سے کم نہیں ہوتا ۔ قبول اسلام اور اسلامی تعلیمات جاننے کے حوالے سے انہوں نے جن کتب کا تذکرہ کیا ، وہ اوپر گزر چکا ، اسی طرح انہوں نے علامہ ساجد میر صاحب کی کتاب عیسائیت ( جو اردو ، عربی ، انگریزی تینوں زبانوں میں مطبوع ہے ) کی بہت تعریف کی ، اور اپنی ہدایت کے لیے اسے بہت رہنما قرار دیا ۔ اسی طرح مولانا سلطان محمود محدث جلالپوری کے فرزند پروفیسر یحی جلال پوری ، جامعہ رحمانیہ کے اساتذہ شیخ محمد زید صاحب ، ڈاکٹر محمد زبیر تیمی صاحب کا خصوصی ذکر کیا ، اور اس سلسلے میں وہ سب سے زیادہ جن سے متاثر نظر آتے ہیں وہ ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی شخصیت ہیں ، ان سے انہوں نے رجوع الی القرآن کے عنوان سے فہم قرآن کورس بھی کیا ، جس نے ان کے لیے علم و عرفان کی بہت سی راہوں کو روشن کردیا ۔
آج ہم مسلمان ، اسلامی تعلیمات سے جانے چھڑانے کے لیے طرح طرح کے بہانے بناتے ہیں ، ہماری کوئی رہنمائی نہیں کرتا ، ہمیں یہ بات سمجھ نہیں آتی ، ہمیں کوئی مناسب مولوی نہیں ملتا ، لیکن عبد الوارث گل صاحب کا کہنا ہے کہ جب میں نے تحقیق شروع کی ، اسلام کے حوالے سے میرے ذہن میں جو سوال آتے تھے ، میں انہیں نوٹ کرکے ڈاکٹر اسرار صاحب کے پاس جاتا ، تاکہ ان سے اس سلسلے میں سوال جواب کروں ، تو کہتے ہیں ، اللہ تعالی کی قدرت ایسی ہے کہ جو اشکالات میں نوٹ کرکے جاتا ، کئی دفعہ ڈاکٹر صاحب میرے کہے بغیر انہیں مسائل پر گفتگو فرما رہے ہوتے ۔
عبد الوارث گل صاحب نے قرآن کی آیت و لقد یسرنا القرآن للذکر فہل من مدکر پڑھی تو ضبط سے باہر ہوگئے ، منزل مقصود دکھائی دی ، فورا گریہ زاری شروع کردی کہ ہاں میرے اللہ ! میں اس رہنمائی کا محتاج ہوں ، میں اس کتاب ہدایت سے نصیحت لینا چاہتا ہوں ۔
ذرا رک کا سوچیے ، قرآن کی اس آیت کو ہم نے کتنی بار پڑھا ؟ اور کتنی بار اس سوال ربانی کے جواب میں دل نے لبیک کہا ؟
یوں ان کی تلاش ، جستجو ، محنت اور لگن کا اللہ تعالی نے یہ صلہ دیا کہ مسائل ، اشکالات و اعتراضات تیزی سے حل ہوتے گئے ۔ اور بالآخر اب عبد الوارث گل صاحب مسلم عورت سے شادی شدہ بھی ہیں ، بچوں کی نعمت سے بھی اللہ نے سر فراز کیا ، اور ایک بھائی اور کزن کو بھی دائرہ اسلام میں داخل کرلیا ، اور یہی نہیں بلکہ ایک تنظیم شروع کی ، جس میں غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت ، اور نئے مسلمان ہونے والوں کے مسائل ، ان کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ اس سلسلے میں ان کے ساتھ تعاون کرنے والی ٹیم بھی ہے ، اسی طرح علمی و تحقیقی مسائل کو حل کرنے کے لیے انہوں نے لاہور کے ایک معروف عالم دین خاور رشید بٹ صاحب کی خدمات بھی لی ہوئی ہیں ۔
تعلیم و تربیت کے لیے افراد کو 24 گھنٹے کا وقت لگواتے ہیں ، جس میں انہیں قرآن و حدیث کی بنیادی بنیادی باتیں ، سیرت نبوی ، سیرت صحابہ اور اہل بیت کے متعلق ضروری ضروری معلومات دی جاتی ہیں ۔
باقاعدہ عالم دین نہیں ہیں ، لیکن علماء کی صحبت میں رہ کر پھر بھی بہت ساری دینی معلومات انہیں ازبر ہیں ، وہی نوجوان جس نے 18 سال کی عمر میں ہجے سیدھے کیے تھے ، اب گفتگو میں اردو سے ہٹ کر طلاقت سے انگریزی عبارات اور فارسی اشعار ’ اقتباس ’ کرتا ہے ۔
انہوں نے اپنی کچھ تصنیفات کا تذکرہ کیا ، جن میں سے ایک کرسمس کی حیثیت تاریخ کے آئینے میں ، نامی کتابچہ بھی ہے ، جو کہ محدث لائبریری پر پی ڈی ایف کی شکل میں موجود ہے :​
http://kitabosunnat.com/kutub-library/karismas-ki-haqiqat-tareekh-k-aine-main
ہمارے ملک میں بیکن ہاؤس ، اور اس طرح کے دیگر اداروں میں جدید تعلیم کے نام پر مسلمان معصوم بچوں کے دلوں سے جس طرح ’ روح محمد ‘ نکالنے کا خطرناک کاروبار جاری ہے ، اس پر بہت کڑھتے ہیں ، جذباتی بھی ہوتے ہیں ، مسلمانوں کو عیسائیت سے روکنے کےلیے ، عیسائیوں سے مسلمان کرنے کے لیے ان کے جذبات اور اہداف و مقاصد بہت بلند ہیں ، لیکن ابھی تک ان کے پاس اپنی تنظیم کے لیے کوئی مستقل بلڈنگ نہیں ، جہاں وہ علماء کی زیر نگرانی ، اس کام کے لیے مخصوص افراد تیار کر سکیں ۔​

مملکت پاکستان کے قیام سے لیکر اب تک ، عیسائیت کتنا بڑھی ہے ؟ وہ سب کچھ دکھ بھرے انداز میں سناتے ہیں ، وہ لوگ جو دو لاکھ تھے ، اب 60 لاکھ کے قریب ان کی تعداد ہے ۔
سادگی اپنوں کی بھی دیکھ
اوروں کی عیاری بھی دیکھ
چھوٹے بڑے کئی ذمہ داران سے کئی بار التماس کر چکے ہیں ، حالات کا رونا رو چکے ہیں ، اس میدان کے لیے افراد کرنے کی ضرورت کو اجاگر کر چکے ہیں ، بعض بزرگوں کی طرف سے انہیں حوصلہ افزا رسپونس ملا ، لیکن عملی اقدام ابھی تک کوئی نہیں ہو پایا ، شاید اسی طرح کی کسی صورت حال سے جھنجھلا کر کسی شاعر نے کہا تھا :
لقد أسمعت ، لو ناديت حيا
و لكن لا حياة لمن تنادي
......................
تقریبا تین گھنٹے سے زائد عرصے پر محیط یہ مجلس ، نا چاہتے ہوئے بھی 11 بجے ختم کرنا پڑی ، تاکہ نماز جمعہ کے لیے ، تیاری کی جاسکے ۔
مجلس کے دوران اور برخاست ہونے کےبعد بھی شرکاء مجلس نے عبد الوارث صاحب کومبارکبادیں ، شکریے پیش کیے ، جو وہ کام کر رہے ہیں ، اس کی ضرورت کا احساس کیا ، اور اس مبارک کام پر ان کو دعائیں دیں ، اور ساتھ یقین دہائی کرائی کہ ہم اس تحریک میں جس قدر ممکن ہوا ، ان کا ساتھ دیں گے ۔
اب دیکھیے ، کیا بنتا ہے ، کیا ہوتا ہے ۔ ( اگر کوئی پیش رفت ہوئی ، تو اگلی کسی ’ مدنی محفل ‘ میں آپ کے گوش گزار کرنے کی کوشش کروں گا . إن شاء اللہ ۔​
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
بروز سوموار ،بتاریخ 13ربیع الاول 1438 ، بمطابق 12 دسمبر 2016
درازی عمر کے ساتھ ساتھ عوارض کا شکار اور قوی مضمحل ہونا ، اللہ کی حکمت ہے ، بلکہ سورہ یسین کے آخری رکوع میں اللہ تعالی نے اس کو ذکر کرکے اس پر غور و فکر کرنے کے لیے جھنجوڑا ہے ۔
خیرعرض یہ ہے کہ میرا لیپ ٹاپ جو آج سے کوئی 6 برس پہلے زیرو میٹر لیا تھا ، عرصے تک ڈٹ کے چلا ہی نہیں بلکہ دوڑتا رہا ، ہاں البتہ بیٹری پہلے ہی 6 ماہ میں بے وفا نکلی ، وجہ اس کی یہ تھی نہ کبھی لیپ ٹاپ بند ہوا ، نہ کبھی چارجر کی پن والا ٹیکہ اس کے پہلو سے جدا ہوا ، بیٹری کی ہمیں نہ کبھی کمی محسوس ہوئی ، نہ نئی لینے کی ضرورت سمجھی ، البتہ ریڑھ کی ہڈی 4 سال کا مسلسل ظلم و ستم سہہ کر جواب دے گئی ، لاہور کے ایک سرجن نے خصوصی شفقت کرتے ہوئے 25 سو میں دوبارہ نیا کردیا ، لیکن جوانی آخر کب تک ؟
اب حال یہ ہے کہ سپیکر خراب ہوگئے ، جب بھی چلانا ہو ، پہلے دو تین منٹ اے سی کے سامنے رکھنا پڑتا ہے ، ورنہ صاحب ابھی سٹارٹ لے ہی رہے ہوتے ہیں کہ ضیق تنفس کے باعث دم توڑ جاتے ہیں ۔ کی بورڈ مستقل الگ سے رکھا ہوا ہے، کیونکہ اپنا اس کا مرضی کا مالک ہے ، اس کا بٹن دبانا کبھی تو بچوں کی گدگدی ثابت ہوتا ہے ، مطلب ضرورت سے زیادہ ری ایکٹ کرتا ہے ، اور اکثر اوقات ضعیف العمربابا جی ہی ثابت ہوتے ہیں ، گویا زبان حال سے کہہ رہے ہیں کہ ’ کوئی حیا نوں ہتھ مار ، ایس عمرے وی نئیں بخشنا ‘
خیرمیرے ’ آغوشیے ’ کا ’ بڑھاپا ’ تو بر سبیل تذکرہ اس لیے آگیا ، کیونکہ جو بھی ہے ، جیسا بھی ہے ، گلوبل ولیج میں کچھ بھی کرنے کے لیے اس کے بغیر گزارہ نہیں ۔
اصل بات یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ آج ظہر کے فورا بعد ایک نامعلوم نمبر سے فون آیا ، پتہ چلا ، کوئی صاحب ، جدہ سے آئے ہیں ، فیس بک کے دوست ہیں ، اور ملنا چاہتے ہیں ۔
عصر سے مغرب کے درمیان ملاقات طے پائی ، لیکن ہوتے ہوتے یہ ملاقات مسجد نبوی میں مغرب کے بعد ہوئی ۔
تھکاوٹ سی محسوس ہورہی تھی ، میں سات نمبر وضو خانے کے پاس دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھا ہوا تھا ، فون کی گھنٹی بجی ، ہاتھ اور پھر کان فون کے ساتھ مصروف ہوئے ، جبکہ آنکھیں سامنے چلنے والے ایک نوجوان ، جو کاٹن کے صاف ستھرے سفید کپڑوں میں ملبوس تھا ، کو گھورنے لگیں ، جو بات فون کے ذریعے سنائی دی رہی تھی ، وہی کچھ اس نوجوان کے منہ سے ادا ہورہا تھا :
’میں سات نمبر وضو خانہ کے سامنے ہوں ’میں نے اٹھ کر ’ السلام علیکم ’ کہا ، گرمجوشی سے بغلگیر ہوئے ، پتہ چلا ، یہ محترم انیب مدثر صاحب ہیں ، جو 2013 سے فیس بک فرینڈ ہیں ، اہل علم ، اہل حدیث اور دین دوستوں کو مل کر بہت خوش ہوتے ہیں ، یہی ’ حسن ظن ’ راقم الحروف کےساتھ ملاقات کا سبب بنا ، بیٹھ کر گپ شپ کا پروگرام تھا ، لیکن اچانک ذہن میں آیا ، یہاں ساتھ ہی ’ معرض محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ’ ہے ، اس کی سیر میں دونوں فائدے ہیں ، معلومات میں اضافہ ہوگا ، کرنے کے لیے باتیں مل جائیں گی ۔
معرض (نمائش) میں داخل ہوئے ، تھوڑی سی دیکھی ہوگی کہ انیب صاحب کہنے لگے ،آب بعض دفعہ فیس بک پر لائیو بھی آتے ہیں ، یہاں بھی بہت معلوماتی چیزیں ہیں ، فیس بک پر ان کو جانا چاہیے ۔ میرے ناتواں موبائل میں چونکہ لائیو آنے کی سہولت نہیں ، اس لیے جب کوئی تگڑے موبائل والے ساتھی مل جائیں تو غنیمت جانتے ہوئے ، اس سہولت سے فائدہ اٹھا لیتا ہوں ، لہذا دوبارہ پیچھے آکر انیب صاحب کے موبائل اور ان کے اکاؤنٹ سے لائیو ہوئے ، معرض میں تقریبا بیس پچیس منٹ رہے ، اس کی ریکارڈنگ آپ کو یہاں پر مل جائے گی ۔ ( شروع میں تصویر انیب صاحب کی ، اور ویڈیو میں آنے والی آواز میری ہے ، اور کبھی کبھی ساتھ انیب صاحب کی طرف سے لقمہ بھی ہے )
اس کے بعد عشاء کی نماز ادا کی ، وہیں بیٹھے بیٹھے انہوں نے کچھ سوالات کیے ، جن میں وصال اردو کا بھی تذکرہ ہوا ، اور انہوں نے وہی معروف سوال دہرایا :
وصال اردو کیا ہے ؟ اسے کون چلا رہا ہے ؟
اس کا جواب میں نے عرض کردیا ، پیغام ٹی وی کی بھی بات ہوئی ، دونوں چینلز کی خدمات اور نوعیت کوسراہتے ہوئے ، ہم مسجد نبوی کی کار پارکنگ نمبر 12 ب کی طرف روانہ ہوئے ، انیب صاحب نے جدہ سے واپس جانا تھا ، جاتے ہوئے انہوں نے ماحضر تناول فرمانے کی باصرار دعوت قبول فرمائی ۔
گھر ایک گھنٹہ نشست ہوئی ، جس میں محدث فورم وغیرہ کے حوالے سے گفتگو ہوتی رہی ، اسی طرح بچوں کی تربیت کے حوالے گفتگو ہوئی ، تو میں نے بٹیا رانی خولہ کی کچھ باتیں بتائیں ، انہوں نے ابنے بچوں کا بھی تذکرہ خیر کیا ، مل جل کر یہ بات کہی گئی کہ بچے بڑوں کا اثر قبول کرتے ہیں ، بچوں کی تربیت کے لیے ضروری ہے کہ بڑوں کی عادات درست ہوں ، اسی طرح خاص خاص مواقع کی دعائیں اور اذکار یاد کروانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ان خاص اوقات میں بچوں کو دعائیں اور اذکار پڑھنے کی تلقین کی جائے ، مثلا گاڑی میں سوار ہوتے وقت التزام کیا جائے کہ بچہ سوار ہونے کی دعا پڑھے ، سوتے جاگتے دعائیں پڑھے ، کھانے پینے کی دعائیں پڑھے ، یوں بچوں کی اچھی روٹین بن جاتی ہے ، اس لیے اگر آپ سیڑھیاں چڑھتے وقت اللہ اکبر یا اترتے وقت سبحان اللہ کہنا بھول بھی جائیں تو بچے خود بخود یہ پڑھنا شروع کردیتے ہیں ۔
ایک بات جو انہوں نے بتکرار دہرائی یہ تھی کہ : صرف اسلامی اخوت ، اور عقیدہ توحید کی بنا پر ملکر بہت خوشی ہوتی ہے، دنیاوی طمع اور لالچ کے لیے تو لوگ ملتے جلتے ہی رہتے ہیں ۔
اسی طرح فیس بک اور واٹس ایپ کی دنیا میں آج کل جو بد تہذیبی عروج پکڑ رہی ہے ، یعنی دھڑا دھڑ شیئرنگ ، اور بلا مطلب ٹیگنگ ، اس پر بھی میں اول فول کہتا رہا ، جس پر انہوں نے کہیں اتفاق کیا ، کہیں ہنس کر بات ٹال دی ، اور کہیں ہاں میں ہاں یوں ملائی کہ بلا تحقیق اور پڑھے بغیر چیزیں شیئر کرنا مناسب نہیں ، اور اسی طرح ہر ہر چیز جو آپ کو مفید لگے ، اسے سپیمنگ کی حد تک شیئر کرنا یہ بھی درست نہیں ، کیونکہ عین ممکن ہے ، دوسرے کے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہ ہو ، ہاں البتہ اگر آپ ایک دو گروپوں میں اپنی تحریر شیئر کرنے پر اکتفا کریں ، تحریر اچھی ہوئی ، زیادہ شیئر ہونے کے مستحق ہوئی تھی ، تو یقینا کسی جگہ چلتے چلاتے آپ تک ضرور پہنچے گی ، لیکن اگر آپ پہلے ہی 250 براڈ کاسٹ والوں کو ، اور دس پندرہ گروپوں میں ، اسی طرح کوئی ساٹھ ستر فیس بک ٹیگ ماریں گے ، تو امید نہ رکھیں کے آپ کی اچھی تحریر آپ کو اپنے ’ اچھا ہونے کا ثبوت ’ کے طور پر کبھی واپس ملے گی ۔
محدث ویب سائٹس کی طرف سے پیش کی جانے والی خدمات ، اسی طرح شیخ عبدالمنان راسخ حفظہ اللہ ، شیخ رفیق طاہر صاحب ، اور ہمارے دوستوں محترم شفقت الرحمن مغل اور حافظ جنید صاحب کی علمی و دعوتی کوشش و کاوشوں کو بھی انیب صاحب نے سراہا ، اور ان سے مستفید ہونے کا عندیہ دیا ، جس پر مجھے بھی خوشی ہوئی ، ان حضرات کےلیے دل سے دعائیں نکلیں ۔
اللہ تعالی ہمارا ٹھنا بیٹھنا ، تعریف کرنا ، تنقید کرنا ، سب کچھ اپنی ذات کی مرضات کا ذریعہ بنائے ۔
نوٹ :
اس تحریرمیں مسجد نبوی کے کچھ حصے کی زیارت ہے ، اس بنا پر اسے ’ درپیش ہے طیبہ کا سفر ‘ کی قسط نمبر 2 ’ اور انیب صاحب کےساتھ گپ شپ کی بنا پر ’ مدنی محفل ’ کی قسط نمبر 4 ’ سمجھا جاسکتا ہے ۔​
 
Last edited:
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
62
پوائنٹ
49
ماشاء اللہ ۔ تحریر میں سفر نامہ کی سی چاشنی بھی موجود ہے ۔ قاری خود کو حصہ محسوس کرتا ہے ۔
عنوان سے کچھ پردہ پڑجاتا ہے کہ کہیں کسی پاکستان کی فلاں ’’مدنی محفل ‘‘کا تذکرہ ہوگا۔
عنوان یوں ہونا چاہیے ۔ ’’تذکرہ مدینہ طیبہ میں گذری چند محافل کا‘‘ یا کچھ اور۔۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
عنوان یوں ہونا چاہیے ۔ ’’تذکرہ مدینہ طیبہ میں گذری چند محافل کا‘‘ یا کچھ اور۔۔
جی ابھی ابتداء ہے ، اگر یہ ’ محفل ‘ صحیح رخ چلتی رہی ، تو بعد میں اسے کوئی بھی بہتر نام دیا جاسکتا ہے ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
بروز جمعہ ،بتاریخ 30 ربیع الاول 1438 ، بمطابق 30 دسمبر 2016ء
جامعہ اسلامیہ میں پاکستانی طلبہ پر مشتمل ایک ’ جمعیت ‘ ہے ، جسے ’ جمعیۃ الطلبۃ السلفیہ ‘ کا نام دیا گیا ہے ۔ اور یہ نام شاید کوئی نصف صدی سے اسی طرح چلا آرہا ہے ۔ اسحاق بھٹی صاحب نے ایک جگہ لکھا ہے کہ اس کی ابتدا شیخ ابن باز رحمہ اللہ کے حکم سے ہوئی تھی ، جس کے پہلے امیر شیخ عبد الغفار ضامرانی رحمہ اللہ تھے ۔
گو اب یہ اس حالت میں نہیں ہے ، اور نہ ہی اس کے امیر کے وہ اختیارات اور ذمہ داریاں ہیں ، لیکن بہر صورت پاکستانی طلبہ کی مضبوط ترین آواز ہے ۔
جامعہ اسلامیہ میں نت نئے رجحانات ، اور شگوفے قسم کے لوگ آجانے کے سبب کچھ لوگ اس جمعیت سے ’ طوعا کرہا ‘ بیزار بھی ہیں ۔ لیکن وہ آٹے میں نمک برابر ہیں ۔ ( البتہ یہاں بلتستان والے احباب کا معاملہ ذرا مختلف ہے ، ان کی اپنی الگ تنظیم ہے ، اور عام طور پر ٹکراؤ کی صورت پیش نہیں آتی )
جمعیت کے تحت عام طور پر سالانہ دو پروگرام ہوا کرتے تھے ، اسی سلسلے کا ایک پروگرام گزشتہ جمعہ کو ہوا ۔
مغرب کے بعد شروع ہونے والا یہ پروگرام تقریبا رات بارہ ایک بجے تک جاری رہا ۔
جس میں طالبعلم بھی شریک تھے ، اوریہاں رہنے والی ان کی فیملیز بھی ، خواتین و حضرات کے لیے الگ الگ بہترین انتظام تھا ۔
عشاء تک کھیل کود ، اور کھانا پینا چلتا رہا ، نماز کے بعد مائیک جناب عبید الرحمن شفیق صاحب نے سنبھالا ، اور حسب عادت انوکھے اور با اعتماد انداز میں پروگرام کی کاروائی شروع کی ۔
حاضرین کو نصحیت کی کہ دنیا دار لوگ اس طرح کے پروگرامز میں حوصلہ افزائی کے لیے سیٹیاں بچاتے ہیں ، تالیاں پیٹتے ہیں ، آوازیں کستے ہیں ، لیکن ہم چونکہ دیندار لوگ ہیں ۔ اس لیے ان چیزوں کے متبادل کے طور پر ’ ماشاء اللہ ’ اور ’ بارک اللہ ’ کی صدائیں بلند کریں گے ۔
عبید صاحب نے ذکر و اذکار پرمشتمل صدائیں بلند کرنے کا طریقہ کار بتلا کر نظم کے لیے ایک بھائی کو دعوت دی ، انہوں نے آتے ہی نظم شروع کرنے کی بجائے کہا : یہ جو طریقہ کار بتایا گیا ہے یہ فلاں عالم دین کے مطابق درست نہیں ، کیونکہ یہ اجتماعی ذکر کے زمرے میں آتا ہے ، جو کہ بدعت ہے ۔ :)
یہ خیال ہے کہ طالبعلم چونکہ بہت محنتی ہوتے ہیں ، سارا سال یا مستوی ( سمسٹر ) پڑھتے ہی رہتے ہیں ، اس لیے اس پروگرام میں زیادہ توجہ تعارف اور تفریح پر دی جاتی ہے ۔ اور علمی و سنجیدہ مباحث کو ذرا خوشگوار موڈ میں پیش کیا جاتا ہے ، تاکہ اکتاہٹ نہ ہو ۔
نقیب محفل نے حاضرین میں سے شیخ شفقت الرحمن صاحب کو سٹیج پر آنے کی دعوت دی ، اور کچھ مزاحیہ سوال کیے ، ساتھ ہی یقین دلایا گیا کہ : آواز خواتین کی طرف نہیں جارہی ، لہذا کھل کر جواب دیں ۔ ( یہ سوال و جواب کیا تھا ، یہ عبید صاحب یا شفقت صاحب سے پوچھ لیں :) )
اس کے بعد انہوں نے مجھے بلا لیا : سوالوں میں سے ایک یہ تھا :
اکثر اوقات آپ سوشل میڈیا پر نظر آتے ہیں ، خاتون خانہ کا اس پر کیا رد عمل ہوتا ہے ؟
جواب : جو بھی ہو ، اللہ جانے ، سوشل میڈیا پر ایکٹو کو کیا پتہ ، ارد گرد کیا ہورہا ہے ۔ :)
کچھ طلبا نے اردو زبان میں تقریریں کیں ، اس کے بعد مسعد المساعد نامی ایک عربی شیخ صاحب تشریف لے آئے ، اور وعظ و نصیحت شروع کی ، بڑی مفید باتیں کیں ،
مثلا امت مسلمہ کی پستی کے اسباب کیا ہیں ؟ اور ان سے چھٹکارا کیسے حاصل کیا جاسکتا ہے ؟ طالبعلم اور علماء ہی وہ لوگ ہیں ، جو ان کھٹن حالات میں قرآں وسنت کی درست تعلیمات کی روشنی میں صحیح رہنمائی کرسکتے ہیں ۔
کوئی پانچ دس منٹ تو ان کی باتیں بڑے غور و فکر سے سنیں ، لیکن وہ تقریر کو ذرا لمبا لے گئے ، تو ہم نے بھی خود کو ’ سر ہلانے ‘ والے ’ موڈ ‘ میں کر لیا ، تاکہ شیخ یہ نہ سمجھیں کہ سامنے بیٹھے لوگ بھی توجہ نہیں کر رہے ۔
تفریحی بروگرامات میں سے ایک ہمارے ہر دلعزیز دوست احمد قصوری صاحب نے پیش کیا ، یہ کھیل دس رکنی تھا ، پانچ پانچ آمنے سامنے تھے ، پانچ کیلوں کو دھاگے باندھ کر ایک ایک ہر ٹیم کے حوالے کیا گیا ، ایک نے کیلا دھاگے سے پکڑ کر اپنے ساتھی کےسامنے کرنا تھا ، اور دوسرے نے ہاتھ لگائےبغیر کھانا تھا ۔
محفل میں موجود کئی ’ سیانوں ‘ نے کہا ، ایسا ہو ہی نہیں سکتا ، ہمارا بھی یہی خیال تھا ، بلکہ کسی نے کہا کہ یہ احمد قصوری صاحب کو ہی کہیں کہ کرکے دکھائیں ۔
خیر سمجھ نہیں آئی ، تھوڑی دیر شور ہوتا رہا ، اور معاملہ ختم ہوا ، بعد میں پتہ چلا کہ کئی لوگوں نے اس ’ کار محال ‘ میں پوزیشن حاصل کی اور انعام سے نوازے گئے ۔
اسی طرح ایک اور ’ کھیل ‘ تھا ، جو سابقہ پروگرامز میں بھی ، پیش کی جانے والی ایٹمز میں ، سب سے زیادہ متحرک اور فعال ثابت ہوتی ہے ، کہ حاضرین میں سے تقریبا ہر ایک اس میں شریک ہوتا ہے ۔ وہ اس طرح کے کالنک کارڈز کے نمبر لکھوائے جاتے ہیں ، ہر ایک کے پاس موقعہ ہوتا ہے کہ وہ پھرتی دکھا کر سب سے بہلے کارڈ فیڈ کرسکتا ہے ۔ اس بار بھی پروگرام کا یہ حصہ حسب سابق بہت زبردست رہا ، اور ہم بھی حسب سابق ہی اس بار بھی کارڈ سے محروم ہی رہے ۔ :)
کوئز پروگرام کا سلسلہ شروع ہوا ، پہلے کچھ سوالات شیخ ارشاد الحسن ابرار صاحب نے کیے ، سوال ایسے تھے کہ سن کر حاضرین میں سے کئی ایک بولے : پھر ہم ’ ناں ‘ ہی سمجھیں !! :) کیونکہ سوال کافی علمی نوعیت کے تھے ، اور شیخ ارشاد چونکہ خود عقیدہ کے متخصص ہیں ، اس لیے سوال بھی سارے اسی قسم کے دقیق اور پیچیدہ معلوم ہوتے تھے ۔
پھر جند سوالات برادر عبد الوہاب سلیم صاحب نے کیے ، جس پر حاضرین میں سے کچھ نے جوابات دیے ، اور کچھ ہمارے جیسوں نے خوب پھبتیاں کسیں ۔
اس کے بعد نقیب محفل نے کہا کہ وہ وقت آیا ، جس کا سب کو شدت سے انتظار تھا ۔
ایک دھواں دار مباحثہ ہونے جارہا ہے ، مباحثہ کا عنوان تھا :
( کیا میڈیا علماء کا میدان ہے ؟ )
اس کےلیے تین چار دن پہلے سے ہی اعلان کردیا گیا تھا ، کہ جو حصہ لینا چاہتا ہے ، نام لکھوا دے ، میں نے ’ نفی ‘ والی طرف نام لکھوایا ۔
پتہ چلا کہ میرے سوا اب تک جتنے لوگوں نے بھی حصہ لیا ہے ، سب ’ مثبت ‘ والے ہیں ، منفی والا اکیلا ہی ہوں ، امیر صاحب نے کہا ، دو اور لوگوں کو تیار کریں ، تقریبا میری طرح کا ہی نظریہ رکھنے والے علامہ احسان الہی ظہیر صاحب تھے ، ( بلکہ ہماری یہ سوچ ایک دوسرے سے تبادلہ خیال کے ذریعے ہی بنی ہے ) میں نے ان سے گزارش کی ، وہ تیار ہوگئے ، پھر بھی جب مباحثہ شروع ہونے والا تھا تو دو بندے کم تھے ، مثبت دلائل دینے والے چار تھے ، اس لیے ہماری طرف محترم محمد علی کشمیر صاحب اور ایک اور فاضل بھائی شامل ہوگئے ۔
مباحثہ شروع ہوا :
پہلی تقریر ان کی تھی ، آخری ہماری تھی ۔
ان کی طرف سے سب سے پہلے یاسین راشد صاحب نے فی البدیہہ تقریر فرمائی ، اور میڈیا کے حق میں کہہ لیں یا مولویانہ سوچ کے خلاف زبان زد عام جو دلائل ان کی نوک زبان پر آئے ، انہوں نے چارمنٹوں میں مقررانہ انداز میں پیش فرمادیے ۔
ہماری طرف سے پہلی تقریر علامہ احسان الہی ظہیر صاحب نے فرمائی اور انہوں نے یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ موضوع کو سمجھ کر اس پر بات کرنے کی ضرورت ہے ، خالی جذباتی بیان بازی سے یہ مسئلہ حل ہونے والا نہیں ۔ ان کا بنیادی نقطہ نظر ( جو مجھے سمجھ آیا ) یہی تھا کہ میڈیا اسلامی تعلیمات کی ترویج کا مناسب پلیٹ فارم ہو ہی نہیں سکتا ، کیونکہ اسلام میں سچائی ، حقانیت ، اور حقیقت ہوتی ہے ، جبکہ میڈیا کا مزاج جھوٹ ، پراپیگنڈہ اور بات کا بتنگڑ بنانے کا ہے ۔
پھر دوسری طرف سے توقیر صاحب نے میڈیا کی اہمیت اچاگر کرنے کے لیے کچھ مثالیں پیش کیں کہ ہمارے گاؤں کے کئی لوگ طارق جمیل کو سن کرراہ راست پر آگئے ہیں ! اسی طرح انہوں نے ذاکر نائیک وغیرہ کو بطور مثال ذکر کیا۔
آخری تقریر ہماری تھی ، بلکہ میری تھی ، میں نے کیا کہنا تھا ، وہی کچھ جو پہلے کئی بار فیس بک پر لکھ چکا ہوں ۔ بلکہ وہ بھی ڈھنگ سے نہ کہہ پایا ۔
میں نے تین باتیں کی تھیں :
11۔ میڈیا کی حمایت میں بولنے والوں میں سے کوئی ایک بھی نہیں سمجھا سکا کہ میڈیا ہوتا کیا ہے ؟ تاکہ میں ان کی آراء کی تردید کرسکوں ۔
22۔ دوسری بات : جوہماری طرف سے میڈیا کے خلاف باتیں کی گئی ہیں ، ان کی حقیقت بھی انہیں سمجھ نہیں آسکی ، اسی لیے سوال گندم اور جواب چنا والے تبصرے نظر آرہے ہیں ۔
3۔ در اصل میڈیا ان لوگوں کا ہتھیار ہے جن کے پاس لوگوں سے مخاطب ہونے کے لیے کوئی مؤثر پلیٹ فارم نہیں تھا ، اس لیے انہوں نے اسے متعارف کروایا ، جبکہ ہمارے پاس تو آل ریڈی پہلے ہی مسجد و مدرسہ کی شکل میں ایک بہترین نظام موجود ہے ۔ لہذا اپنا بہترین نظام چھوڑ کر دوسروں کے پھیلائے جال میں پھنسنا عقلمندی نہیں ۔
44۔ میڈیا کی حمایت والے کہہ رہے ہیں کہ لوگ اس میں گمراہ افکار پھیلا رہے ہیں ، بچوں کو خراب کر رہے ہیں ، اس کا آسان حل بھی یہی ہے کہ لوگوں کو میڈیا سے دور کیا جائے ، کیونکہ آپ کے بچے کو گمراہ کرنے کے لیے میڈیا جتنی مرضی مالی یا افرادی قوت استعمال کر لے ، اگر آپ نے ٹی وی کا صرف ایک بٹن بند کردیا تو ساری مزخرفات وہیں ڈھیر ہوجائیں گی ۔ ( اور ٹی وی بند کرنے کی تربیت ٹی وی پر نہیں ، بلکہ مسجد و مدرسہ میں ہی سر انجام پاسکتی ہے )
مباحثہ اختتام کو پہنچا ، نتائج کا اعلان کیا گیا ، کہ حمایت کرنے والے جیت گئے ، اور خلاف دلائل دینے والے ہار گئے ہیں ۔ انفرادی طور پر ہماری مخالف ٹیم میں سے برادر عبد الوہاب انجم نے اول پوزیشن ، محترم توقیر سیاف صاحب نے دوسری پوزیشن حاصل کی ، جبکہ تیسری پوزیشن ہماری ہاری ٹیم میں سے ایک بھائی نے حاصل کی ( حن کا نام فی الوقت ذہن میں نہیں آرہا ) .
بات یہیں تک رہتی تو غم ہلکا رہتا :) شیخ عبد الباسط فہیم صاحب نے اعلان کرتے ہوئے یہ بھی فرمادیا کہ جن بھائیوں نے میڈیا کے خلاف دلائل دیے ہیں ، وہ بھی بطور مباحثہ ہی ایسا کرر ہے تھے ، ورنہ وہ بھی اس کی اہمیت و افادیت کو بخوب سمجھتے ہیں :) ( شاید ان کا اشارہ ہمارے جیسے لوگوں کی طرف تھا کہ ہم وصال اردو پر بھی جا بیٹھتے ہیں ) ۔
علامہ احسان الہی ظہیر صاحب سے نہ رہا گیا ، انہوں نے دو منٹ کا وقت لے کر اپنا موقف پھر دہرا دیا ، کہ صرف مباحثہ کی حد تک ہی نہیں ، بلکہ میرا سوچا سمجھا موقف ہی یہ ہے ۔ حالت میری بھی کچھ ایسی تھی ۔ لیکن میں نے سوچا جب مباحثہ میں اپنا موقف نہیں سمجھا اور پہنچا سکے تو اب دوبارہ پھر اعادہ و تکرار کی کوئی ضرروت نہیں ۔ بلکہ جس طرح پہلے بصورت تحریر اپنا موقف بیان کر چکا ہوں ، ایک بار پھر سہی ۔
منصفین میں ہمارے ایک معزز شیخ محترم حماد چاولہ صاحب بھی تھے ، انہوں نے زخموں پر مزید نمک چھڑکا ، اور میڈیا کے کچھ اور فضائل گنوا دیے ۔
ہمارے ایک ساتھی نے وہیں بیٹھے بیٹھے ایک شعر سنایا :
گرچہ بت ہے جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم اذان لا الہ إلا اللہ .
یہ سن کر کچھ حوصلہ ہوا ۔
بہرصورت اس مباحثے میں ہماری مجموعی اور مختصر رائے یہ تھی ( اب اسے آپ ہارنے کا غصہ سمجھ لیں یا جو مرضی ) کہ ہمارے موقف کو سرے سے سمجھا ہی نہیں گیا ، ۔ منصفین نے بھی کمال دیانتداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے نتیجے کا اعلان کرتے وقت یہ کہہ دیا تھا کہ ’ یہ ہمارا فیصلہ ہے ، جو ہماری سوچ اور سمجھ کے مطابق ہے ، جو کہ غلط بھی ہوسکتا ہے ۔
لیکن اس ہار کا مجھے فائدہ یہ ہوا کہ اس معاملے کو مزید گہرائی سے سوچنے کا موقعہ ملا ، اور اندازہ ہوا کہ اگر اس سوچ کو دوسروں تک منتقل کرنا ہے تو کیا کچھ جھیلنا پڑے گا ۔
’ براڈ کاسٹ میڈیا اور اسلام پسندوں کی آزمائش ‘ کے نام سے لکھی گئی ایک تحریر میں ، میں نے موقف تو تقریبا یہی اختیار کیا ، لیکن میڈیا کی کمزوریاں اس وقت اتنی واضح نہیں تھیں ، جتنی اس مباحثے کے بعد نمایاں ہوئیں ( اللہ تعالی توفیق دے کہ مافی الضمیر کو تحریر کی شکل میں بطریق احسن مرتب کرلوں )
مباحثے کے اختتام کے ساتھ ہی انعامات تقسیم کیے گئے ، اس کے بعد کھانے کا اعلان ہوا ، کھانے میں نمکین اور میٹھے چاول تھے ، بعد میں پتہ چلا یہ مٹن بریانی تھی ، لیکن پکانے والے نے دیانتداری نہیں کی ، اور گوشت صرف اتنا ہی ڈالا ہے کہ اگر قسم اٹھانا پڑ جائے تو جھوٹی نہ ہو ۔
میرے والی پلیٹ میں ایک بوٹی آئی تھی ، ساتھ والا ساتھی کہنے لگا ! یار اس امید پر سارے چاول کھائے ہیں کہ شاید کوئی بوٹی نکل آئے ۔
مجھے اپنے گاؤں کا ماحول یاد آگیا ، بھینس اگر چارہ نہ کھاتی ہو تو آٹا یا نمک اس کے سامنے کرکے چارے کے نیچے ڈال دیا جاتا ہے ، وہ اس لالچ میں سب کچھ صفایا کردیتی ہے ۔ جب چاولوں میں بوٹیوں کی کثرت ہو ، تو لوگ بوٹیاں کھا کر چاول اسی طرح چھوڑ جاتے ہیں ، لیکن اب کی بار ’ تلاش بوٹی ‘ میں پلیٹیں کافی صاف صاف نظر آرہی تھیں ۔ :)
کھانے کے بعد لوٹ کے بدھو گھر کو آئے ۔
مجموعی طور پر جمعیت کی یہ محفل کافی مزیدار اور دلچسپ تھی ، اور منتظمین نے اس کے لیے کافی محنت کی ہوئی تھی ، اللہ تعالی سب کو جزائے خیر عطا فرمائے ۔​
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
بروز ہفتہ ،بتاریخ 9 ربیع الثانی 1438 ، بمطابق 7 جنوری 2017ء
’’ و عليكم السلام ورحمة الله وبركاته !
لي رغبة شديدة أن أكون من الحاضرين في هذا الاجتماع المبارك و لكن عندي ارتباط غدا إلى الساعة 2 مساء ، فلا أدري هل أستطيع الحضور في الوقت المحدد أم لا . ‘‘​

پتہ چلا کہ کچھ پاکستانی مشایخ مدینہ منورہ موجود ہیں ، اور احباب نے ان کے ساتھ ملاقات رکھی ہے ، وقت ظہر کے بعد 1 بجے کا طے تھا ۔
لیکن میری مسجد نبوی کے جوار میں ’ اسماء حسنی میوزیم ‘ میں ڈیوٹی تھی ، جو 2 بجے ختم ہونی تھی ، عرصے بعد کہیں ڈیوٹی ملی تھی ، اس لیے ابتدائی دنوں میں ہی ’ رسک ‘ نہیں لینا چاہتا تھا کہ غائب ہو جاؤں ، یا وقت مکمل ہونے سے پہلے ہی بھاگ آؤں ۔ ابتدا میں عربی زبان میں تحریر ڈیڑھ سطری پیغام وہی ہے ، جو میں نے معذرت کی کوشش میں ارسال کیا تھا ۔
مدینہ منورہ میں ڈیوٹی بہت بڑی ’ نعمت ‘ بھی ہے ، ’ سعادت ‘ اور ’ ضرورت ‘ بھی .... جامعہ کی طرف سے 840 ریال وظیفہ ملتا ہے ، طالبعلموں کا خرچ کرنے کا اپنا اپنا انداز ہے ، کسی کے لیے یہ بھی کم پڑ جاتا ہے ، اور کوئی اس میں سے بھی کافی سارے بچا لیتا ہے ، میں جب اکیلا ( بغیر فیملی ) تھا تو تین چار سو ریال اوسطا بچا ہی لیا کرتا تھا ، یوں تھوڑے تھوڑے کرکے اتنے پیسے جمع ہوگئے کہ 2013ء میں والدین کو عمرے پر بلایا ، اللہ تعالی نے اس کے بدلے میں یہ انعام کیا کہ کچھ دنوں بعد ہی یہاں ایک مناسب ڈیوٹی مل گئی ، جوکہ کچھ تعطل کے ساتھ دو سال تک جاری رہی ، پھر فیملی یہاں مدینہ منورہ میں آگئی ، اخراجات بڑھ گئے ، اور ڈیوٹی بالکل ختم ، ایک دو مہینے کہیں موقعہ ملا ، لیکن اپنی سستی ، کاہلی اور نالائقی کی بنا پر اس سے بھی فارغ ۔
اب پھر تگ و دو کے بعد ایک جگہ پر اونے پونے کام شروع کیا ہے ، دیکھیے کب تک چلے ۔ خیر یہ ڈیوٹی والی کہانی آپ کو اس لیے بھی عرض کردی کہ یہ بھی یہاں رہنے والے کئی طالبعلموں کی ’ سوچ و فکر ‘ کا اہم محور ہوتا ہے ۔
لوٹیے اصل بات کی طرف ، بعد میں پتہ چلا کہ میری ڈیوٹی ایک بجے ختم ہو جائے گی ، اس لیے امیر صاحب کو دوبارہ گزارش کی کہ مجھے حاضری کا موقعہ دیا جائے ، جس پر انہوں نے شرکت کی اجازت عنایت فرمائی ۔
اجتماع مدینہ منورہ کے ایک معروف عربی ہوٹل ’ معازیم ‘ میں تھا ، جو کہ مسجد نبوی سے شارع السلام کے ذریعے اگر مسجد قبلتین جائیں تو رنگ روڈ 2کے لیے مڑتے ہی ابتدا میں آجاتا ہے ۔
مسجد نبوی میں ہی ، دو مشایخ شیخ عبد الرشید حجازی صاحب ، اور شیخ الحدیث عبد اللطیف صاحب سے ملاقات ہو گئی ، جنہوں نے اس مجلس میں شرکت کرنی تھی ،
ہم نمائش سے نکلے تو میں نے متوقع شرمندگی سے بچنے کےلیے مشایخ سے عرض کی کہ میری گاڑی ذرا تھوڑی دور ہے ، اس لیے دو تین منٹ پیدل چلنا پڑے گا ۔
غالبا شیخ عبد اللطیف صاحب نے خوش گوار انداز میں فرمایا :
کوئی بات نہیں ، ہم میں آپ کو کوئی بوڑھا نظر آتا ہے ؟!
تھوڑی ہی دیر بعد ’ سقیفہ بنی ساعدہ ‘ کا احاطہ کراس کرکے چند قدم چلنے کے بعد بذریعہ گاڑی ہم ہوٹل کی جانب روانہ ہوگئے ، رستے میں مشایخ نے کئی ایک تجرباتی اور علمی باتیں بتلائیں ، جن میں سے ایک آپ کے گوش گزار کرتا ہوں :
شیخ حجازی صاحب ، فیصل آباد کے مرکزی جمیعت کے پہلے امیر ہیں ، انہوں نے وہاں کے احوال کے متعلق کئی ایک باتیں بتائیں ، جن میں سے ایک یہ تھی کہ فیصل آباد میں ایک معروف علمی شخصیت ہوا کرتی تھی ( بہت متنازع رہے ، اس لیے نام نہیں لیتا ) ایک دفعہ احناف نے ان کے ساتھ مناظرہ طے کر لیا ، موضوع رفع الیدین تھا ، وہ بزرگ کہنے لگے ، دیکھیے ، فریقین کے درمیان ایک معرکۃ الآراء مسئلہ رفع الیدین کو گھوڑے کی دم کی حرکت سے تشبیہ دینا ہے ، ایسا کرتے ہیں ، علمی باتیں تو چلتی رہتی ہیں ، آج ایک تجرباتی کام کرتے ہیں ، کوئی ایک گھوڑا لے آئیں ، سب دیکھ لیتے ہیں کہ گھوڑا کس طرح دم ہلاتا ہے ۔ اگر اس نے اوپر نیچے ہلائی تو آپ کی بات درست ، اگر اس نے دائیں بائیں ہلائی تو آپ کا استدلال غلط ہوگا ۔
گھوڑا آگیا ، اس کی حرکت کرتی دم سب نے دیکھی ، اس نے اوپر نیچے کی بجائے ، دائیں بائیں ہلائی ۔ مناظرہ وہیں ختم ہوگیا ۔
اتنی دیر میں ہم ذرا تاخیر سے مطلوبہ جگہ پہنچ گئے ، وہاں تقریبا سب ہی پہلے سے موجود تھے ، میزبان تو سب جانے پہچانے تھے ، مہمانوں میں سے بھی شیخ ہشام الہی ظہیر حفظہ اللہ سے ملاقات نہ تھی ، البتہ پہلے سے بذریعہ تصویر پہچان تھی ۔ صرف دو لوگ تھے ، جن کا مجھے تعارف نہیں تھا ، جن میں سے ایک کے متعلق اندازہ لگالیا کہ یہ علامہ احسان الہی ظہیر حفظہ اللہ کے حفید قیم الہی بن ابتسام الہی ظہیر ہیں ۔
باقی ایک رہ گئے ، ان کے بارے میں پوچھنے پر پتہ چلا کہ یہ گوجرانوالہ سے شیخ محمد صارم ہیں ۔
جوآخر میں آئے ، چھوٹی مجلس میں بعض دفعہ اس پر تبصرہ ذرا زیادہ ہوجاتا ہے ، یہی ’ سعادت ‘ مجھے نصیب ہوئی ۔ :)
مشایخ مدینہ جو کہنا چاہتے تھے ، ان کی پیار محبت بھری باتوں میں سب مجھ تک پہنچ گیا کہ ’ ہر چیز فیس بک تے نہ لایا کر ‘ ۔
’ مدنی محفل ‘ والے سلسلے کو کئی ایک احباب نے عمومی طور پر سراہا بھی ، ایک شیخ صاحب نے کہا : چلو اچھا ہوا ،آپ آگئے ، ورنہ سوچ رہے تھے ، اس ’ محفل ‘ کو قلمبند کون کرے گا ۔
علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ کو ہم نے دیکھا نہیں ، میری پیدائش سے دو سال پہلے وہ بقیع الغرقد کے سپرد ہوچکے تھے ۔ البتہ علم وفضل سے ہٹ کر ان کی مسلک اہل حدیث سے محبت ، جذبہ اتباع کتاب وسنت اور ملنساری ، حسن اخلاق ، صاف گوئی سے متعلق جو باتیں اور داستانیں ہم نے سن رکھی ہیں ، ان صفات کا مظہر ان کے فرزندان بالخصوص شیخ ہشام الہی ظہیر صاحب میں مختلف واٹس ایپ گروپس کی وساطت سے دیکھتے رہتے ہیں ، بلکہ آج بالمشافہ گفتگو میں اس کی تصدیق بھی ہوگئی ۔
بات ہوئی علامہ احسان الہی ظہیر صاحب کی قبر کی ، جو کہ بقیع الغرقد میں مدفون ہیں ۔
شیخ فراز الحق صاحب (طالبعلم پی ایچ ڈی علوم حدیث ) کے بقول وہ عرصہ بانچ سال سے بقیع میں آنے والےزائرین کے لیے دعوت و ارشاد کے سلسلے سے منسلک ہیں ، پاک و ہند سے آنے والے اہل حدیث لوگ صحابہ کرام کی قبروں کے بعد سب سے زیادہ علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ کی قبر کے متعلق دریافت کرتے ہیں ، جس سے ان کی علامہ سے محبت و عقیدت کا اندازہ ہوتا ہے ۔
یہ بات زیر بحث آئی کہ بقیع میں علامہ صاحب کی قبر کہاں ہے ؟
خلاصہ یہ ہے کہ امام دار الہجرۃ کی قبر کے آس پاس ہے ، لیکن صحیح اور حتمی جگہ کا کسی کو بھی نہیں پتہ بہ سمیت علامہ صاحب کے قریبی رشتہ داروں کے ، شیخین ابتسام و ہشام کا اندازہ اور ہے ، جبکہ علامہ کے برادر اصغر حافظ عابد الہی صاحب کی یاداشت مختلف ہے ۔
اب آپ اسے وہابیوں کی خشکی سمجھیں یا پھر اہل توحید کا ایک تاریخی تسلسل سمجھیں جو انبیاء سے چلا آرہا ہے کہ لاکھوں پیغمبروں میں سے سوائے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے کسی کی آرام گاہ کی حتمی معلومات نہیں ہیں ، اندازے ہیں ، جتنے مرضی لگاتے جائیں ، قبر والے نے کون سا بول کے بتادینا ہے کہ یہاں کون ہے اور کون نہیں ؟ بلکہ کوئی ہے بھی کہ نہیں ؟
میت کے ساتھ تعلق کے تین طریقے جو شریعت نے بتائے ہیں ، صدقہ جاریہ ، اس کے علم کی تشہیر ، وارثین کا اس کے لیے دعائیں کرنا ۔ ان میں سے کسی کے لیے بھی قبر کی نشاندہی ضروری نہیں ۔
بلکہ بعض دفعہ قبر کی تحدید اور نشاندہی الٹا گناہ کا باعث بنتی ہے ، مثالیں مشہور و معروف ہیں ، ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ۔
انہیں باتوں میں ایک بات یہ شروع ہوئی کہ حضرت حسین رضیی اللہ عنہ کا سر مبارک کہاں دفن ہے ؟ اور اس سلسلے میں جو مشہور اختلاف ہے ، وہ ذکر ہوا ۔
شیخ ارشاد الحسن ابرار ( طالبعلم پی ایچ ڈی عقیدہ ) نے ایک نکتہ بیان کیا کہ امیر معاویہ رضی اللہ ، عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ( تیسرا کوئی اور نام انہوں نے ذکر کیا ) ان کے متعلق مشہور باتیں بھی سب غلط ہیں .. کیونکہ ان کی تدفین وغیرہ کو خفیہ اور پوشیدہ رکھا گیا تھا ، کیونکہ فتنوں کے اس دور میں یہی حکمت کا تقاضا تھا ۔
کچھ عجیب و غریب باتیں بھی مشایخ سے سننے کو ملیں کہ عوام میں کوئی ایسے بھولے بھالے بھی ہوتے ہیں ، پوچھتے ہیں کہ مدینہ میں تو اللہ کے رسول کی قبر ہے ، یا آپ کا دربار ہے ، مکہ مکرمہ ، مسجد حرام میں نظر آنے والے کمرے میں کس کی قبر یا دربار ہے ؟
یہاں شیخ عبد الباسط فہیم صاحب نے کچھ تبصرہ کیا ، جس کا مطلب تھا کہ خانہ کعبہ کو معروف معنوں میں ’ دربار ‘ کہنا ہی غلط ہے ۔
بقول شیخ ہشام صاحب کے کچھ قبر پرست لوگ یہ بھی سوچ رکھتے ہیں کہ خانہ کعبہ کے نیچے ستر انبیاء کی قبریں ہیں ۔ ( جہالت کی انتہا )
جیساکہ پہلے ذکر ہوا ، معازیم ایک عربی طرز کا ہوٹل ہے ، اس کے مکمل طور اطوار عربوں والے ہیں ۔ مثلا بیٹھنے کے لیے کرسیاں اور ٹیبلوں کی بجائے ، نیچے قالین بچھایا ہوتا ہے ، اور ساتھ ٹیک لگانے کے لیے چھوٹے چھوٹے تکیہ نما رکھے ہوتے ہیں ۔ کھانا ہر ایک کے لیے الگ چھوٹی چھوٹی پلیٹوں کی بجائے ایک بڑی پرات ( جیسے عربی میں صحن کہتے ہیں ) میں پیش کیا جاتا ہے ، جس میں چار سے چھ افراد کے لیے وافر کھانا ہوتا ہے ۔
کھانا شروع ہوا ، میں اور ہمارے امیر جمعیت ’ جنید مدینہ ‘ ، شیخ ہشام ، حافظ قیم ، شیخ ابو ذکوان اور شیخ عبد الوکیل اکٹھے بیٹھے تھے ، بریانی تھی ، جسے یہاں ’ مندی ‘ کہا جاتا ہے ، بکرے کے گوشت کے ساتھ ساتھ اس میں کلیجی کے ٹکڑے بھی تھے ، یہ کیا ہے ؟ پوچھنے پر امیر صاحب نے بتایا کہ سب کھانے والا ہے ، کھائیں ، بس بعد میں وضو کرلیں ، کیونکہ اونٹ کا گوشت ہے ۔
شیخ ابو ذکوان اور شیخ ہشام صاحب نے تعاقب کیا اورساتھ ایک باریک سی ہڈی پکڑکر خوش گوار انداز میں کہا ، یہ اونٹ کی ہڈی ہوسکتی ہے ؟!
امیر صاحب کو محسوس ہوگیا کہ واقعتا بات غلط ہوگئی ہے ۔ کہنے لگے میں نے تو آرڈر یہی دیا تھا ، لیکن پھر خضر بھائی کو لینے چلاگیا ، شاید دوسرے بھائی نے تبدیلی کردی ہو ۔
میں نے گزارش کی ، ممکن ہے اونٹ اتنے مولوی دیکھ کر فرار ہوگیا ہو ۔ :)

کھانے کے بعد تعارف کا دور ہوا ، جو عام طور پر ایسی مجالس کا ایک اہم حصہ ہوتا ہے ۔ سب سے پہلا تعارف شیخ شفقت الرحمن صاحب نے کروایا ، اور آخری حافظ عبد الرشید اظہر رحمہ اللہ کے داماد شیخ عبد الوکیل صاحب نے ۔
شیخ عبد الباسط صاحب مسجد نبوی میں اردو زبان میں درس ارشاد فرماتے ہیں ، شیخ شفقت الرحمن مغل مسجد نبوی کے خطبہ جمعہ کے مشہور زمانہ اردو مترجم ہیں ۔
شیخ ہشام صاحب کسی تعارف کے محتاج نہیں ، بہر صورت انہوں نے وہاں جو کچھ ذکر کیا ، اس میں ’پانچ ایم اے ‘ کا لفظ مجھے یاد ہے ۔
شیخ حجازی صاحب بھی معروف ہی ہیں ، لیکن ان کے متعلق کچھ خوشگوار معلومات کا تذکرہ ہوا ، جس پر سب حاضرین خوب مسکرائے ۔
شیخ فراز الحق صاحب نے اپنے تعارف کو ’ عاجزانہ پیشکش ‘ بنانے میں خوب محنت کی ، لیکن پھر پھی ہمارے جیسے حاضرین سے جو ہوسکا ، ان کی خوبیوں کا تذکرہ کیا کہ جمعیت طلبہ سلفیہ والے انہیں اپنا سرپرست مانتے ہیں ، شیخ عبد الباسط فہیم صاحب نے بجا فرمایا کہ مجموعہ علمائے اہل حدیث میں وہ طلبہ جامعہ اسلامیہ کی بھرپور علمی نمائندگی کرتے ہیں ۔
شیخ ارشاد الحسن ابرار نے اپنا تعارف خود کو ہی کروایا ، دوبارہ کہا گیا کہ ذرا اونچی ، لیکن انہوں نے حسب سابق ہی چند کلمات ’ ارشاد ‘ فرمائے ، جو کہ قوی امید ہے کہ دوسری طرف بیٹھے شیخ محمد صارم کو سنائی نہیں دیے ہوں گے ۔
شیخ ارشاد صاحب کا عقیدہ کے مسائل میں تخصص و تبحر ملموس و مشہود ہے ، بطور مثال ہمارے ایک معروف اہل حدیث بزرگ کی تحریر کا تذکرہ ہوا ، جہاں قلم کی روانی کے سبب ایک عقدی غلطی آ گئی تھی ، جسے ہمارے سمیت کئی ایک طالبعلموں نے پڑھا ہوگا ، لیکن اس پر متنبہ ہوئے تو یہی ہمارے متخصصِ عقیدہ ۔ اللہ ان کے علم و فضل میں برکت عطا فرمائے ۔
شیخ عبد اللطیف صاحب نے تعارف کروایا ، وہ تقریبا 2000 میں جامعہ اسلامیہ سے متخرج ہوئے تھے ، اور اس وقت سے ایک معروف فلاحی تنظیم کے ساتھ مل کر علمی و تدریسی خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔ تقوی ، سنجیدگی اور متانت چہرے سے عیاں ہوتی ہے ، ان کے عزم و ہمت اور جذبہ خیر کا بھی پتہ چلا ، جب انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ پاکستان میں جامعہ اسلامیہ کے بہت سارے خریجین ہیں ، انہیں آپس میں میل جول ، اور رابطہ کا کوئی نظام مرتب کرنا چاہیے ۔
اور اس سلسلے میں انہوں نے شرکاء مجلس سے کئی ایک مشورے لیے ، بڑی عمدہ ہی نہیں بلکہ ’ بڑی بڑی ‘ تجاویز سامنے آئیں ، جس پر میں نے گزارش کی کہ تجاویز عمدہ ہیں ، لیکن ’ بڑی ‘ ہیں ، پہلے نچلی سطح پر کام شروع کرنا چاہیے ۔
میرا احساس یہ ہے کہ جامعہ اسلامیہ کے خریجین صرف وہی آپس میں رابطے میں رہتے ہیں جو مبعوث ہوتے ہیں ، اور وہ بھی ابتعاث کے تقاضوں کے سبب ۔
ورنہ عموما خریجین اپنی اپنی ’ درسگاہوں ‘ ، ’ جماعتوں ‘ اور ’ تنظیموں ‘ میں ایسا مگن ہوتے ہیں کہ انہیں بطور جامعہ کے خریج ایک اور دائرہ کار بنانے کی کوئی ’ضرورت ‘ یا ’ فائدہ ‘ ہی محسسوس نہیں ہوتا ۔ إلا ماشاء اللہ ۔
شیخ عبد اللطیف صاحب نے خریجین و فاضلین مدینہ کو پاکستان میں کسی موقعہ و مناسبت سے اکٹھا کرنے پر کافی دلچسپی کا اظہار کیا ، لیکن اس پر ’ ہمارے رد عمل ‘ کا مطلب یہی تھا کہ ’ یہ بھی کوئی کام ہے ؟ ‘ جس کے لیے الگ سے وقت نکالا جائے ۔
خیر نماز عصر کے لیے ’ مدنی اذان ‘ اس بابرکت ’ مدنی محفل ‘ کے اختتام کا الارم ثابت ہوئی ، سب مشایخ ایک دوسرے سے مصافحوں ، معانقوں کا تبادلہ کرکے ، گاڑیوں کی طرف بڑھ گئے ، لیکن شیخ عبد اللطیف صاحب جاتے جاتے بھی چاہ رہے تھے ، کہ پاکستان میں مدنی فضلا کے اجتماع کی کوئی نہ کوئی صورت نکل ہی آئے ، پتہ نہیں کب تک وہ اس میں مصروف رہتے ، اگر انہیں ذرا دور ایک گاڑی کے پاس کھڑے شیخ عبد الباسط صاحب کی طرف متوجہ نہ کیا جاتا ، جو انہیں مسجد نبوی میں ساتھ لے جانے کے لیے انتظار کر رہے تھے ۔​
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
ہمسایہ وہ جو آپ کے گھر کے آپس پاس رہتا ہو ۔
پھر جو دوران تعلیم و تعلم یا محنت و مشقت آپ کا ساتھی ہو، وہ بھی اسی ضمن میں آگیا ۔
روز بہ روز ترقی کرتی دنیا میں ’ پڑوسی ‘ کا تصور ذرا اور مختلف ہوگیا ہے ۔
اب اس میں وہ لوگ بھی شامل ہوگئے ، جن کے ساتھ آپ فیس بک پر ایڈ ہیں ۔
مثلا جتنی بار میں فیس بک پر ڈاکٹر زبیر تیمی صاحب ، ڈاکٹر رضوان اسد صاحب ، محترم ابو بکر قدوسی صاحب ، شیخ فیض الأبرار ، محترم یوسف ثانی صاحب وغیرہم کو دیکھتا ہوں ، اتنا شاید اپنے ساتھ رہنے والے پڑوسی کو نہ دیکھ پاتا ہوں ۔
اسی طرح واٹس ایپ گروپوں میں جتنا بحث و مباحثہ اور تبادلہ خیال حافظ شاہد محمود صاحب ، حافظ ارشد محمود صاحب ، ابو یحیی نورپوری صاحب ، استاد محترم حمزہ مدنی صاحب ، محترم ہشام الہی ظہیر صاحب کا دیکھتا ہوں ، ہر روز ایسا ماحول پاس رہنے والے علماء و مشایخ کی طرف سے بھی نہیں ملتا ، جو علمی فوائد بعض دفعہ سہولت کے ساتھ حافظ محمد شریف صاحب ، شیخ نجیب اللہ طارق صاحب ، شیخ عبد الستار حماد ، شیخ غلام مصطفی ظہیر وغیرہم ( حفظہم اللہ جمیعا ) سے مل جاتے ہیں ، ایسے مواقع عام حالات میں کم میسر ہوتے ہیں ۔
گویا ’ مجموعہ علماء اہل الحدیث ‘ ، اللجنۃ العلمیۃ من علماء الدعوۃ السلفیۃ ‘ ، ’ مجلس التحقیق الإسلامی ‘ ’ کلیۃ القرآن الکریم بلاہور ‘ اور ’ تکمیل پاکستان ‘ وغیرہ یہ میری اس برقی دنیا کے مستقل گاؤں اور شہر ہیں ۔
اس مدنی محفل میں کو اپنے وقت کے اعتبار سے 6 نمبر سے پہلے آجانا چاہیے تھا ، لیکن حادثہ یہ ہوا کہ اس کے آدھا حصہ تقریبا لکھا چکا تھا کہ اچانک لیپ ٹاپ بند ہوگیا ، اوراکثر تحریر ضائع ہوگئی ، اس کے بعد لکھنے کی ہمت نہیں ہوئی ۔ دو تین ہفتے پہلے دو شخصیات سے کسی بڑی محفل کی بجائے تقریبا انفرادی ملاقات ہوئی ، اسی حوالے سے کچھ مفید باتیں عرض کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔
پہلے اپنے ایک جامعہ رحمانیہ فیلو اور واٹس ایپ پڑوسی محترم ڈاکٹر جواد حیدر صاحب کے ساتھ ملاقات کا تذکرہ کرتا ہوں ۔
جب میں جامعہ رحمانیہ میں غالبا تیسری کلاس میں تھا ، اس وقت جواد صاحب پانچویں کلاس میں تھے ، یہ پہلے جامعہ سلفیہ پڑھتے رہے ، ہفتہ وار بزم ادب ہوا کرتا تھا ، ایک دو بار ان کی تقریر سنی تو بہت حیران ہوئے کہ یہ کیسی کیسی خوبصورت تراکیب ، شستہ تعبیرات استعمال کرتے ہیں ، مجھے یاد ہے ان دونوں ہم سبع قراءت کا معروف متن ’ شاطبیہ ‘ پڑھا کرتے تھے ، ویسے تو وہ مکمل کتاب ہی عربی ادب کا شاہکار ہے ، لیکن اس کا مقدمہ بہت فصیح و بلیغ ہے ، ہمارے استاد محترم قاری خالد فاروق صاحب حفظہ اللہ وہ کتاب پڑھاتے ہوئے کہا کرتے تھے ، کہ تحریر و تقریر میں فصاحت و بلاغت ایک ایسی خوبی ہے ، جس کی جھلک آپ کو ہمارے کئی اردو مقررین میں بھی نظر آئے گی ، استاد محترم کی ایسی باتیں سن کر میرا ذہن فورا جواد صاحب کی تقریر کی طرف چلا جاتا تھا ۔ خاص طور ان دنوں ڈنمارک کی طرف سے توہین آمیز خاکوں کی شاعت پر رد عمل کے طور پر ہمارے ہاں بزم ادب میں انہوں نے بڑی بہترین تقریر کی تھی ۔
محترم جواد صاحب اور میں کئی ایک واٹس ایپ مجموعہ جات میں شریک ہیں ، نرم و نازک گفتگو کو پسند کرتے ہیں ، اور لب و لہجہ پر خود بھی توجہ کرتے ہیں ، اور اگر کوئی کوتاہی کرنے تو محسوس ہی نہیں بلکہ احساس دلانے کی بھی کوشش کرتے ہیں ۔
پندرہ بیس دن پہلے مدینہ تھے ، ملاقات ہوئی ، راقم ، علامہ احسان الہی ظہیر اور قاری سلمان صاحب ، ہم نے ملکر مدینہ منورہ کے ایک معروف ہوٹل میں کھانا کھایا ۔ وہیں بیٹھ کر جامعہ کی پرانی یادیں تازہ کیں ، اور بالخصوص ہم سب کے مشترکہ استاد گرامی شیخ عبد السلام فتحپوری صاحب ، طلبہ کے ساتھ ان کی محبت و شفقت ، شگفتہ مزاجی اور دیگر خصال حمیدہ کا تذکرہ ہوا ۔
شیخ محترم کا یہ خاصہ تھا کہ ضعیف العمر ہونے کے باوجود تمام طلبہ کے پیپر حرف بحرف پڑھا کرتے تھے ، اور مکمل احتیط کے ساتھ نمبر دیا کرتے تھے ، مجھے یاد ہے ، ایک بار میں ان کے کمرے میں گیا ، بجلی نہیں تھی ، نوکیا 1100 موبائل کی لائٹ جلا کر ، عینک لگا کر ، بڑی مشقت سے پرجے دیکھ رہے تھے ۔
شیخ رحمہ اللہ کی ایک خوبی ( جو ہر مسلمان میں ہونی چاہیے ) یہ تھی کہ نماز کے بہت پابند تھے ، اور اس طرح کہ اگر خدانخواستہ کبھی نماز رہ جاتی تو بہت غمگین ہوجاتے ، بلکہ سنا ہے بعض دفعہ رو دیتے تھے ۔
شوگر کے مریض تھے ، بعض دفعہ وضو وغیرہ کرتے ، لیٹ ہوجاتے ، لیکن پھر بھی پہلی رکعت میں بہنچ جاتے ، جواد بھائی نے بتایا کہ ایک بار جماعت انہوں نے کروائی ، پہلی رکعت شاید مختصر رہ گئی ہوگی ، جس پرشیخ فتحپوری صاحب پہلی رکعت میں شرکت نہ کرسکے ، جماعت ختم ہوتے ہی شیخ صاحب آئے !پوچھا امامت کس نے کرائی ہے ؟ اور پھر جواد صاحب کو اپنے مخصوص اور پیارے انداز( جو ان کے شاگرودوں کے ہاں معروف ہے ) میں سرزنش کی ۔رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ ۔
اسی مجلس میں ہمارے استاد محترم شیخ عبد الرشید خلیق صاحب حفظہ اللہ کا بھی تذکرہ ہوا ، جو آج کل بیمار ہیں ، اللہ تعالی انہیں شفا کاملہ عاجلہ عطا فرمائے ۔
جواد صاحب نے کچھ ہی عرصہ پہلے پی ایچ ڈی مکمل کی ہے ، لائق اور ذہین ہیں ، غالبا ایم فل کے لیے امتحان میں ان کے نمبر کافی اچھے تھے ، اس لیے انہیں ایم فل کی بجائے سیدھا پی ایچ ڈی کی اجازت مل گئی ، اس سہولت اور رخصت سے انہوں نے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایم ایے کے بعد براہ راست پی ایچ ڈی کرلی ۔
مشہور مفسر قرآن صاحب اضواء البیان شیخ شنقیطی پی ایچ ڈی ڈاکٹرز کے بہت خلاف تھے ، ان کے شاگرد اور ہمارے شیخ حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ سے میں نے کئی بار ان کا ’ ڈاکٹرز ‘ پر یہ تبصرہ سنا ہے :
ما رأیت دکتورا إلا و هو أجهل من الحمار ، هو لاء ليسوا دكاتر العلم و لكنهم دكاتر القارورات .
بہر صورت یہ تبصرہ شیخ شنقیطی کا ہے ، ایک تو وہ خود علم و فضل کے پہاڑ تھے ، دوسرا اس وقت یہ ڈگریاں نئی نئی تھیں ، اور دکتور کہیں خال خال نظر آتے تھے ، اب نہ شنقیطی جیسے جبال علم رہے ، اور نہ ہی ڈاکٹرز اجنبی رہے ، اس لیے مناسب موقف یہی ہے کہ ڈاکٹرز میں بھی بہت زیادہ باکمال شخصیات ہیں ۔
لیکن پاکستان میں ایم فل پی ایچ ڈی کے طالبعلموں اور نگرانین کے جو احوال سنے میں آرہے ہیں ، وہ کوئی زیادہ بہتر نہیں ، نہ طالبعلم محنت کرنے تو تیار ہوتے ہیں ، اور نہی نگران کے پاس توجہ دینے کے لیے وقت ، بلکہ اگر کوئی طالبعلم محنت و مشقت اور عرق ریزی کر ہی لے تو مناقشہ کرنے والے اسے بہت مایوس کرتے ہیں ۔
کیونکہ ظاہر ہے ایک طالبعلم اور محقق کسی موضوع پر چار پانچ سو صفحات لکھ کر لایا ہے ، تو آپ اپنا اضافی مطالعہ تو کیا ، اس کے لکھے ہوئے کو بھی پڑھ کر نہ آئیں ، اور پھر علمیت کا رعب بھی جمائیں اور اپنا استاد ہونا بھی جتلائیں تو طالبعلم کے حصے میں سوائے پریشانی اور مایوسی کے اور کیا آئے گا ؟
یہ معاملہ عرب یونیورسٹیز میں بھی ہے ، لیکن بہت کم ، یہاں اکثر مناقشوں میں دیکھا ہے ، مناقشین اور اساتذہ کرام مقالے کو حرف بہ حرف پڑھ کر آتے ہیں ، اور تفصیل کے ساتھ ملاحظات اور حاشیے لگا کر ساتھ لاتے ہیں ، گھنٹہ دو گھنٹے میں جو بیان ہو جائے ، درست باقی سب لکھا ہوا طالبعلم کو دے دیتے ہیں کہ ان چیزوں پر نظر ثانی کرلینا ۔
جواد صاحب ایک اہم بات یہ زیر بحث لائے کہ کیا قبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم پاس اندر جانے کا کوئی امکان ہے ؟ کچھ لوگ تصویریں لیے پھرتے ہیں ۔ جواب یہی تھا کہ یہ سب جھوٹ اور دھوکا بازی ہے ، قبر رسول تین دیواروں کے حصار میں بند ہے ، جن میں کسی قسم کا کوئی کھڑکی یا دروازہ نہیں ۔ علامہ سمہودی کے دور میں دیوار کی دوبارہ تعمیر و اصلاح کے لیے ایک طرف سے دیوریں ہٹائی گئی تھیں ، اور اس وقت سمہودی کچھ دیگر افراد کے ساتھ اندر گئے تھے ، اندر کی صورت حال مکمل تفصیل سے سمہودی نے وفاء الوفاء میں لکھی ہوئی ہے ۔ اس کے بعد آج تک نہ کوئی اندر گیا ، نہ کسی کے پاس اس کی صحیح تصویر ہے ۔ سمہودی کے دور میں کیمرہ نہیں تھا ۔
اس کے بعد غالبا 5 جنوری کو ایک فیس بک پڑوسی محترم ابراراحمد ظہیر کے ساتھ ملاقات ہوئی ۔
مسجد نبوی سے جامعہ اسلامیہ آئے ، ابرار صاحب چار پانچ سال بہلے آئے تھے ، لیکن جامعہ اسلامیہ نہیں دیکھ سکے ۔انڈیا کے ایک معروف عالم دین مولانا عبد الوہاب خلجی صاحب ابرار صاحب کے ماموں ہیں ، کہتے ہیں ، پہلے جب میں جامعہ اسلامیہ دیکھے بغیر واپس چلا گیا تھا تو انہوں نے اس پر پیار و محبت سے سرزنش بھی کی ۔
جامعہ اسلامیہ پہنچنے کے بعد آتے ہی سب سے پہلے ہم نے جامعہ اسلامیہ کی جامعہ مسجد دیکھی ، جو جامعہ کے پہلے رئیس شیخ ابن باز کے نام سے موسوم ہے ۔
ساتھ انہیں یہ بتایا کہ مسجد کے بائیں جانب دوسری طرف رہائشی یونٹ نمبر 1 ہے ، جس میں ہمارے بڑے بڑے بزرگ جو شروع شروع میں جامعہ میں آئے ، یہیں رہتے رہے ہیں ۔
اس کے بعد کلاس رومز کا ماحول جاننے کے لیے بطور نمونہ کلیۃ الحدیث کی نئی عمارت دیکھی ، جس کا افتتاح تقریبا تین سال پہلے ہوا ہے ، یہ نئی عمارت مسجد ابن باز سے نکل کر ذرا آگے آکر دائیں طرف کلیۃ القرآن اور کلیۃ الدعوۃ کے درمیان واقع ہے ۔
اس کے بعد رہائشی نظام کا جائزہ لینے کے لیے ہم رہائشی بلڈنگ نمبر 14 میں دوسری منزل پر 202 نمبر کمرے میں چلے گئے ، یہ وہ کمرہ ہے ، جس میں تقریبا 4 سال تک میں رہا ہوں ، تقریبا اتنی ہی مدت ساتھ شفقت الرحمن مغل صاحب بھی رہے ، آج کل اس میں شفقت صاحب کی جگہ تھائی لینڈ کا ایک طالبعلم ہے ، جبکہ میری جگہ پر میرے ایک دوست فرمان مشتاق صاحب رہتے ہیں ۔
محترم ابرار ظہیر صاحب ہفت روزہ نوید ضیاء کے ایڈیٹر ہیں ، اپنے صحافیانہ شوق کی کئی ایک باتیں بتائیں ، کہتے ہیں اسکول کی چوتھی جماعت سے ہی کئی ایک اخباروں کا روزانہ مطالعہ کیا کرتے تھے ، اور شوق تھا کہ بڑا ہو کر اپنا اخبار نکالنا ہے ۔
پھر بعد میں مزید شعور پیدا ہوا ، دیکھا کہ اہل حدیث کا نمائندہ اخبار نکالنے کی بہت ضرورت ہے ، تو بسم اللہ کرکے رجسٹریشن کروانے لاہور جلے آئے ، اللہ تعالی نے معاملات آسان کیے ، وہی کام جس کے لیے بہت پیسہ اور وقت کی ضرورت تھی ، کسی جان پہچان والے آدمی کے تعاون سے کافی جلدی حل ہوگیا ۔ اور یوں گوجرانوالہ سے ہفت روزہ نوید ضیاء کا آغاز ہوا ۔
میں آج تک یہی سمجھتا رہا کہ نوید ضیاء مرکزی جمعیت اہل حدیث کے تحت ہے ، اور ابرار ظہیر صاحب اس کے ایڈیٹر بھی جماعتی حوالے سے ہیں ، لیکن ظہیر صاحب کے بتانے پر پتہ جلا کہ وہ خود جماعتی سیٹ اپ کا تو حصہ ہیں ، البتہ نوید ضیاء ان کی ذاتی کاوش اور دلچسپی ہے ۔ بلکہ یہ سن کر مزید حیرانی ہوئی کہ اس کے لیے فنڈنگ ، تحریروں ، خبروں اور سرخیوں کی تیاری کے مکمل مراحل وہی سر انجام دیتے ہیں ، البتہ تزئیین و آرائش کے لیے ایک معاون ساتھ موجود ہوتے ہیں ۔
ابرار ظہیر صاحب گوجرانوالہ کے ہیں ، معروف کامیڈی ادا کار سہیل عرف عزیزی بھی اسی شہر کے ہیں ۔
عزیزی کی والدہ کی وفات اور جنازے کا حال ذکر کرتے ہوئے ظہیر صاحب کا کہنا تھا کہ اس کا جنازہ نمونہ عبرت تھا ، ایک ایسا خاندان ، جو مکمل اعلی تعلیم یافتہ ہے ، گھر کے کئی افراد ملک کی جانی پہچانی شخصیات میں شمار ہوتے ہیں ، لیکن جب جنازے کی باری آئی ، تو چند سو لوگوں پر مشتمل تھا ، حالانکہ جنازہ پڑھانے والے بھی ملک کی معروف ترین جماعت کے سربراہ حافظ سعید تھے ، کہنے لگے دوسری طرف ہمارے گوجرانوالہ کے ایک خطیب فوت ہوئے ، جنہیں کئی اپنی جماعت کے لوگ بھی ٹہیک طرح سے نہیں جانتے تھے ، لیکن ان کے جنازے پر تقریبا 10 ہزار لوگ جمع ہوگئے ۔
فتنہ خلق قرآن کے موقعہ پر جب امام احمد پر حاکمان وقت نے زور آزمائی کی تو انہوں نے ایک لازوال جملہ کہا تھا : بینا وبینکم یوم الجنائز . یعنی تمہارا اور ہمارا فرق جنازوں پر معلوم ہوگا ۔
ابرار ظہیر صاحب کے ساتھ ایک اہم بات جو زیر بحث آئی یہ تھی کہ پاکستان اور سعودیہ میں رہنے والے پاکستانی اہل علم کا آپس میں رابطہ مضبوط ہونا چاہیے ، ایک دوسرے کے ساتھ مشاورت اور رہنمائی کی فضا قائم ہونی چاہیے ، تاکہ دونوں جگہ کے حالات کے مطابق ، ہر کوئی اپنی جگہ پر ایک مؤثر کردار ادا کرسکے ۔
محترم ابرار ظہیر صاحب بھی ایک صحافی ہیں ، دوسری طرف ہمارے جامعہ کے ایک طالبعلم محترم جناب فردوس جمال صاحب بھی میدان صحافت کے کھلاڑی ہیں ، میری خواہش تھی کہ دونوں حضرات کی آپس میں ملاقات ضرور ہوجائے ، تاکہ دونوں ایک دوسرے کے تجربات سے مستفید ہوں ، اس کے لیے میں نے فردوس صاحب سے بذریعہ فون رابطہ بھی کیا ، لیکن عین اسی وقت ان کا اپنا کوئی پروگرام چل رہا تھا ، جس کے باعث وہ تشریف نہ لاسکے ۔
یوں کھانے سے فارغ ہو کر میں مہمانوں کو مسجد نبوی سے قبلہ کی جانب عدالت کی بلڈنگ کے پیچھے واقع موونپک ہوٹل کے پاس چھوڑ آیا ، جہاں پاکستان سے آنے والے شاہی مہمان ٹھہرے ہوئے تھے ۔ اسی طرح ایک بہترین ملاقات جو مسجد نبوی کے نیچے واقعہ کارپارکنگ نمبر 1 کی سیڑھیوں سے شروع ہوئی تھی ، اپنے اختتام کو پہنچی ۔
اللہ دین کے لیے میل ملاقاتوں کو خالصتا اپنی رضا کا ذریعہ بنائے ۔​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
بروز ہفتہ ،بتاریخ 16 ربیع الثانی 1438 ، بمطابق 14 جنوری 2017ء

مجھے لگتا ہے ، آپ عزیزیہ سے آئیں گے ، خیر جس طرف سے بھی آئیں ( دوسری طرف سے مراد شاید مسجد نبوی تھی ) دوار السلام ( سلام چوک ) سے دائیں ہاتھ رہیں ، آگے سوق خضار ( سبزی منڈی ) آئے گی ، ایک ٹوٹا پھوٹا پٹرول پمپ آئے گا ، اس کے بعد دائیں ہوجائیں ، پھر فلاں دکان ہوگی ، جس پر یہ لکھا ہوگا ، ایک اور بورڈ آئے گا ، جس کے درمیان میں یہ لکھائی ہوگی ، اور اطراف میں یہ یہ عبارت نقش ہوگی .....
یہ مجھے گھر کا رستہ سمجھار رہے تھے ، محترم جناب عبد الوکیل فہیم صاحب ، سب باتیں تفصیل سے سن کر میں نے واٹساپی قہقہ کے ساتھ سوال کیا: بازار بہت تفصیلی یاد کیا ہوا ؟ جوابا بھی وہی قہقہ لوٹا دیا گیا ۔
عبد الوکیل فہیم صاحب مرحوم ڈاکٹر عبد الرشید اظہر صاحب کے بھتیجے بھی ہیں ، اور داماد بھی ، جامعہ سلفیہ پڑھتے رہے ، پھر کچھ عرصہ جامعہ رحمانیہ لاہور بھی آئے ، اس کے بعد فیصل آباد مرکز التربیۃ الإسلامیۃ میں زیر تعلیم ہوگئے ، اور وہاں سے ان کا داخلہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں ہوگیا ۔
جبہ و دستار میں رہنا ، ان کی شروع سے عادت ہے ، ہم اب جامعہ اسلامیہ آ کر کسی مجبوری کے تحت شماغ (سر پر رکھنے والا سعودی رومال) وغیرہ لگا لیتے ہیں ، لیکن ان کےبارے مجھے یاد ہے ، میں جامعہ رحمانیہ میں حفظ میں پڑھتا تھا ، دوپہر کے وقت لڑکے آرام کرتے ہیں ، اذان ہوئی ، اٹھانے کے لیے اچانک ایک طویل القامت شیخ لال رومال زیبِ سر کیے ہوئے ، اٹھانے آگئے ، میں جاگ ہی رہا تھا ، پہلے تو حیران ہوا ، یہ کون ؟ جب انہوں نے طالبعلموں کو اٹھانا شروع کیا ، تو مجھے لگا ، یہ کوئی نئے استاذ ہیں ، میں نے فورا طالبعلموں کو جگانے اور اٹھانے میں ان کا ہاتھ بٹانا شروع کردیا ، بعد میں پتہ چلا ، یہ دو طالبعلم بھائی ہیں ( ۤدوسرے ان کے بھائی عبد الجلیل صاحب ہیں ) ، جو جامعہ سلفیہ سےیہاں آئے ہیں ، البتہ عظیم شخصیت ہیں ، اس لیے اساتذہ کرام کے کمروں میں ہی رہائش پذیر ہیں ۔ اس لیے ’ استادوں میں استاد ‘ یا ’ استادوں کے استاد ‘ نظر آتے ہیں ۔
خیر یہ تو ان سے ہمارا پہلا ( یک طرفہ ) تعارف تھا ، جامعہ اسلامیہ میں آکر کچھ عرصے بعد دو طرفہ ہوگیا ، اور اچھا ہوگیا ۔
واٹس ایپ کی سہولت آنے کے بعد انہوں نے سب سے پہلے ’ جمعیۃ الطلبۃ السلفیۃ ‘ کے نام سے گروپ اس وقت بنایا ، جب ہمیں گروپس کیا ، واٹس ایپ سے ہی کوئی دلچسپی نہیں ہوا کرتی تہی ، آہستہ آہستہ یہ سلسلہ رواں ہوا، اور انہوں نے مجھے بھی ساتھ ایڈمن کا عہدہ عنایت فرمادیا ، جس سے کچھ عرصہ پہلے ، میں نے خود ہی معذرت کر لی ۔
محترم عبد الوکیل بھائی کے حوالے سے بات ذرا تفصیلا اس لیے آگئی ، کہ انہوں نے بروز ہفتہ اپنے گھر میں بعد نماز عشاء ایک دعوت رکھی تھی ، اور ساتھ بتایا کہ اس میں پاکستان سے تشریف لائے ہوئے محترم شیخ عبد المنان راسخ کے علاوہ جامعہ اسلامیہ کے کئی فضلاءِ افاضل بھی شرکت کر رہے ہیں ۔
عزیزیہ سے تقریبا رستے میں ہی جامعہ اسلامیہ پڑتا ہے ، عشاء کی نماز کے بعد وہاں سے امیر جمعیت طلبہ سلفیہ حافظ جنید صاحب کو لیا ، گو رستہ تفصیلا بتادیا گیا تھا ، لیکن پھر بھی احتیاطا گوگل والی باجی سے رہنمائی لینا ہی بہتر سمجھا ، جس نے تقریبا ٹھیک ٹھیک ہی رہنمائی کی ، اور ہم دس پندرہ منٹ میں مطلوبہ مقام پر پہنج گئے ۔
ہم سے پہلے ہی وہاں محترم شفقت الرحمن مغل صاحب ، محترم ارشاد الحسن ابرار صاحب ، اور محترم عبد اللہ عارف جاوید صاحب موجود تھے ۔ کچھ عرصہ بعد شیخ عبد الباسط فہیم صاحب اور شیخ فراز الحق صاحب بھی تشریف لے آئے ، ڈاکٹر عبد الرشید اظہر صاحب کے صاحبزادے محمود اظہر صاحب غالبا پہلے سے ہی وہاں موجود تھے ( گویا وہ میزبان تھے ) ، شیخ عبد المنان راسخ صاحب نے وصال اردو کے بروگرام ’ میرا سوال ‘ میں شرکت کرنی تھی ، وہ ابھی تک نہیں پہنچے تھے ، کچھ وقت گزرنے کے بعد شیخ راسخ ، ان کے ساتھ ان کے شاگرد حبیب الرحمن صاحب اور ہمارے رحمانی دوست عبید الرحمن شفیق صاحب تشریف لے آئے ، شیخ راسخ صاحب سعودی لباس یعنی ثوب اور شماغ میں ، حبیب الرحمن صاحب پاکستانی کپڑوں میں ، جبکہ ہمارے اینکر صاحب پینٹ شرٹ زیب تن کیے ہوئے تھے ۔
یہاں ایک راز کی بات سن لیں ، جو اس محفل میں شریک بعض بھائیوں کو بھی اس تحریرکے ذریعے معلوم ہوگی ، کہ پینٹ شرٹ والے بھائی کو دیکھتے ہی ایک دو ساتھیوں نے ایک دوسرے کو اشارےمیں کہنا شروع کردیا ، یہ کیا ہے ؟ اگر میں اسے اپنی طرف سے محتاط الفاظ سے تعبیر کروں تو یوں کہا جاسکتا ہے ، کہ مولویوں کی مجلس میں جس میں سب یا تو پاکستانی یا سعودی لباس میں ملبوس ہیں ، یہ نمونہ کہاں سے ؟!
ایک شیخ صاحب نے مجھے کہا بھی کہ انہیں ذرا توجہ دلائیں ، آب کے دوست ہیں ، میں نے کہا ، ٹھیک ہے ۔ دوران گفتگو ذرا موقعہ ملا تو میں نے ذرا تمہید باندھ کر پینٹ شرٹ کو موضوع بناہی لیا ، اور ساتھ ہی عبید صاحب کی طرف اشارہ کردیا ۔
کہ دیکھیں ، ہمارے پاکستانی مدارس اور یہاں کے ماحول میں کتنا فرق ہے ۔!! میرا مقصد بینٹ شرٹ کی شرعی حیثیت زیر بحث لانے کی بجائے ، یہی تھا کہ اس ’ تنگ لباس ‘ کو اور اس میں محنت و مشقت کے ساتھ داخلے ہونے والے جینٹل مین کو مولویوں کی ’ تنگ نظریں ‘ کس انداز سے دیکھتی ہیں ۔ :)
ابتدا میں ایک چھوٹے کمرے میں بیٹھے تھے ، سب کے آجانے کے بعد ہم ایک بڑے کمرے میں چلے گئے ، وہاں دستر خوان وغیرہ کے آثار نظر آرے تھے ، اس لیے شیخ ارشاد صاحب جو بہلے شیخ راسخ صاحب کے ساتھ تھے ، بیٹھتے ہوئے ، انہوں نے مجھے شیخ کے ساتھ کردیا ، کیونکہ یہ بھی تجربہ شدہ بات ہے کہ کھاتے پیتے ہوئے بزرگوں سے ذرا دور بیٹھنا فائدہ مند رہتا ہے ۔
درمیان میں شیخ راسخ ان کے دائیں طرف شیخ عبد الباسط اور ساتھ شیخ فراز ، بائیں طرف راقم اور پھر بالترتیب شیخ ارشاد ، شیخ عبد اللہ عارف ، اور شیخ شفقت ، سامنے عبید صاحب ، حافظ جنید ، شیخ زید حارث اور ان کے ساتھ حبیب صاحب ، دائیں نکڑ میں میزبانوں کی جگہ تھی ، جو اشیاء خور و نوش مہیا کرنے میں مصروف رہے ۔
اس مجلس میں کئی ایک مسائل زیر بحث رہے ، لیکن ایک معرکۃ الآراء مسئلہ ، جس نے اکثر وقت لیا ، وہ تھا ، ذکر و اذکار کے حوالے سے ۔
بات اس طرح شروع ہوئی کہ شیخ راسخ صاحب ، ایک کتاب لکھ رہے تھے ، ویسے تواس موضوع پر بے شمار کتابیں ہیں ، لیکن ان کے بقول اس کتاب میں اس بات کا اہتمام کیا گیا ہے کہ اس میں وہ اذکار اور دعاؤں میں موجود دعوتی اور تربیتی پہلؤوں کو بھی اجاگر کر رہے ہیں ۔ تاکہ اذکار کو صرف رٹا لگانے والی چیز کی بجائے ، غور و فکر اور سمجھ کر پڑھا جائے ، دعاؤں کو صرف مانگنے کی بجائے ، ان میں موجود دیگر علمی و تربیتی بہلؤوں پر بھی غور کیا جائے ۔ مشایخ نے ان کی اس سوچ کو سراہا ۔
شیخ فراز صاحب نے یہ مسئلہ چھیڑ دیا کہ :
کیا مسنون ادعیہ یا اذکار کو وقت یا عدد متعین کرکے پڑھنا جائز ہے ؟ یعنی دعا یا ذکر مسنون ہے ، لیکن اسے کتنی بار پڑھنا ہے ؟ کس وقت پڑھنا ہے ؟ اس کی کوئی وضاحت نہیں ، تو کیا وقت یا عدد کی تحدید کرنا درست ہے ؟
اس پر بحث تو بہت لمبی چوڑی ہوئی ، میں یہاں اس کا خلاصہ لکھنے کی کوشش کرتا ہوں :
چند باتوں پر تقریبا سب کا اتفاق تھا :
1۔ مسنون اذکار و ادعیہ ہی افضل ہیں ۔
2۔ عام حالات میں اللہ سے مانگتے ہوئے ، کوئی سے بھی الفاظ استعمال کیے جاسکتے ہیں ، بشرطیکہ ان میں کوئی غلط عقیدہ یا شرعی محظور نہ ہو ۔
3۔ عدد یا وقت کی تحدید کرنا ، اور اسے شریعت سمجھنا ، یہ بالکل غلط ہے ۔
جو بات زیادہ زیر بحث رہی یہ تھی کہ :
کوئی ایسا ورد یا وظیفہ جس کے الفاظ قرآن وسنت میں موجود ہوں ، لیکن عدد اور وقت کی تحدید نہ ہو ، اگر کوئی بندہ اس میں ان دونوں چیزوں کی اپنی طرف سے تحدید کرلے ، تو کیا یہ درست ہے ؟
ایک موقف تھا : بالکل نہیں ، ایسا کرنا درست نہیں ، ویسے بھی اس سے بدعت کا دروازہ کھلے گا ، اور وہ جادو ٹونے والے ، جنہوں نے طرز طرز کے ورد وظائف گھڑ رکھے ہیں ، اور آئے دن اخبارات میں چھپتے ہیں ، یہ سب غلط کام اس میں داخل ہوجائیں گے ۔
دوسرا موقف تھا : خود کرلیں ، کوئی حرج نہیں ، لیکن دوسروں کو اس کی ترغیب نہ دیں ، کیونکہ تبلیغ اور رہنمائی شریعت کی طرف ہونی چاہیے ، نہ کہ اپنے ذاتی ورد وظیفوں یا تجربات کی طرف ۔
تیسرا موقف یہ تھا کہ جب تک کسی ورد یا وظیفے میں خلافت شریعت بات نہ ہو ، اس میں عدد یا وقت کی تحدید کرنے میں کوئی حرج نہیں ، اور اگر کسی کو اس سے فائدہ ہو ، تو وہ اپنے اس تجربے کی بنیاد پر دوسروں کو بھی اس طرف رہنمائی کرسکتا ہے ، البتہ جو وقت یا عدد کی اس نے تحدید کی ہے ، اسے شریعت کی طرف سے نہ بتائے ، بلکہ اپنا تجربہ بتائے ، اور اگر اس میں کوئی کمی بیشی کرنا چاہے تو اس کو بالکل آزادی ہونی چاہیے ، وہ اسے شریعت کی خلاف ورزی نہ سمجھے ۔
اس آخری کی کئی ایک مثالیں ، علماء کرام سے بھی پیش کی گئیں ، اور کئی ایک علماء کے حوالے بھی ذکر ہوئے ، جن میں سے دو عرض کرتا ہوں :
حافظ یحیی عزیز محمدی رحمہ اللہ بتایا کرتے تھے ، جو حج یا عمرہ کی بہت تڑپ رکھتا ہے ، وہ ہر نماز کے آخر میں ’ و أرنا مناسکنا ‘ تین تین مرتبہ پڑھے ، اللہ اپنے فضل و کرم سے اس پر رحم فرمائے گا ۔ یہ قرآنی وظیفہ میں نے چار سال پہلے عمرہ پر آنے والے ایک نوجوان سے سنا تھا ، کہ انہیں یہ بات میر محمدی صاحب کے حوالے سے شیخ عبد المنان راسخ صاحب نے بتائی تھی ، اور اس نے کہا کہ میں نے اس پر عمل کیا ، اور اب اللہ کے فضل سے عمرہ کرنے کے بعد آپ کے سامنے مدینہ میں ہوں ۔ کئی سال پہلے سنی ہوئی بات کی شیخ راسخ صاحب نے اس مجلس میں تصدیق بھی کردی ۔
ایک اور بات جو علامہ سخاوی نے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے ترجمہ الیواقیت و الدرر میں ذکر کی ہے ، کہ حافظ ابن حجر کسی چیز کے گم ہو جانے پر ایک دعا پڑھا کرتے تھے ، جس سے مطلوبہ چیز مل جایا کرتی تھی ، یہ بات سب سے پہلے میں نے شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ سے سنی ، جب وہ آخری بار مدینہ منورہ تشریف لائے تھے ، انہوں نے بتایا میں نے بعض کتب کے گم ہو جانے پر اس دعا کا تجربہ کیا ہے ، وہ کتابیں مل جاتی ہیں ، اس مجلس میں شیخ زید حارث صاحب نے ابنے ایک استاذ گرامی کے حوالے سے اس دعا کی اثر انگیزی کا بھی واقعہ بیان کیا ۔
اسی طرح کی بات مناوی ، علامہ نووی وغیرہ سے بھی منقول ہے ۔
’ من أحب أن یذکر فلم یذکر ، و من کرہ أن یذکر فذکر ‘ حافظ ذہبی کی سیر کے حوالے سے شیخ راسخ صاحب نے یہ قول ذکر کیا ، اس مناسبت سے حافظ عبد المنان نور پوری رحمہ اللہ کا تذکرہ شروع ہوگیا ۔
ان کے نرالے اسلوب استدلال ، اچھوتے طرز تحریر اور دلنشیں انداز تقریر کی کئی ایک مثالیں شیخ راسخ نے ذکر کیں ، جن میں سے ایک آپ بھی سن لیجیے ، کسی نے مصارف زکاۃ کے متعلق پوچھا ، فرمایا :
(مصارف زکاۃ ہیں آٹھ ، دیکھیے سورہ توبہ کی آیت نمبر ساٹھ ) ( یہ انہوں نے پنجابی میں کہا تھا ) ۔
مولانا نورپوری کے فتاوی بنام ( احکام و مسائل ) پڑھیں تو اس میں اس طرح کی کئی ایک مثالیں مل جاتی ہیں ۔
شیخ نورپوری کی ایک خوبی یہ ذکر ہوئی کہ وہ اپنی مجلس میں علما کی چغلیاں یا غیبت نہیں ہونے دیتے تھے ۔
شیخ نورپوری کے اساتذہ کے احترام اور وفا کے متعلق بات ہوئی تو دو اہم باتیں ذکر کی گئیں ، ایک یہ کہ ارشاد القاری میں ان کا ترجمہ ( حالات زندگی ) لکھے گئے ، جب اساتذہ کے نام لکھنے کی باری آئی تو انہوں نے اپنے ایک ایسے استاذ کا بھی نام ذکر کیا ، جس سے انہوں نے صرف کپڑے سلائی کرنا سیکھا تھا ، حیرانی کا اظہا رکیا گیا تو انہوں نے کہا بھئی ! اگر اساتذہ لکھنے ہیں ، تو یہ نام اس فہرست میں آئے گا ۔
یہاں حافظ جنید صاحب ( جو ان کے آخری عمر کے شاگرد ہیں ) نے یہ بھی اضافہ کیا کہ شیخ ابنے کپڑے خود سلائی کیا کرتے تھے ۔
شیخ عبد الحمید ہزاروی حفظہ اللہ ، نورپوری صاحب کے اساتذہ میں سے ہیں ، استاذ و شاگرد دونوں ایک جامعہ ( جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ ) میں پڑھاتے تھے ، جنید صاحب بتاتے ہیں ، حافظ صاحب ہر روز ہزاروی صاحب کی کلاس میں جاتے ، اور وہاں جاکر انہیں سلام عرض کرتے اور حال احوال پوچھ کر آتے ۔
جلسے جلوس اور اجتماعات میں بعض واعظین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا نام ’ نمایاں ‘ اور ’ بالقابہ ‘ ہونا چاہیے ۔ یہ مرض کی حد بڑھ گیا تھا ۔
شیخ نورپوری اس کے سخت خلاف تھے ، اشتہار میں ان کے نام کے ساتھ اگر کوئی علامہ فہامہ وغیرہ لکھ دیتا ، تو جاتے نہیں تھے ، لا علمی میں چلے جاتے تو بلا تقریر کیے ، واپس آجاتے تھے ۔
اس طرح کے ان کے کئی ایک واقعتا بیان ہوئے ، کہ وہ مبالغہ آرائی سن کر تقریر یا جمعہ پڑھائے بغیر واپس آجاتے تھے ۔
اور بھی کئی علماء زہد و ورع کی بنا پر ایسا ہی رویہ رکھتے ہیں ، مجھ کوتاہ نظر کو تو اس میں بھی بے جا سختی ہی معلوم ہوتی ہے ، لیکن بہر صورت ان بزرگوں کے اس متشدد رویے کی یہ تاویل نظر آتی ہے کہ ایک ایسی غلطی جو معاشرے میں ایک مرض کی طرح بڑھ رہی ہے ، ان بزرگوں کا یہ نقطہ نظر ہوگا کہ اس کا رد بھی اسی سختی سے ہوگا تو اسے روکنا ممکن ہے ۔ واللہ اعلم ۔
ذہبی عصر علامہ معلمی رحمہ اللہ کا تذکرہ خیر ہوا ، تو شیخ عبد المنان راسخ صاحب نے ، یہ سوال اٹھایا کہ دوران تحریر ، مخالف ، بالخصوص جب وہ بدعتی یا منحرف ہو ، کا تذکرہ کیسے کرنا چاہیے ؟
اس پر وہ سب کی رائے چاہتے تھے ، لیکن کچھ احباب کی آراء آسکیں :
ایک رائے یہ تھی کہ علامہ معلمی کا اسلوب بہترین ہے ، انہوں نے التنکیل میں علامہ کوثری کی گمراہیوں کوبھی بہترین انداز سے واضح کیا ، لیکن ان کو مخاطب بھی بہترین اسلوب میں کیا ہے ۔
ایک دوسرا اسلوب وہ ہے ، جو ہمارے بعض مشایخ کی تحریروں میں نظر آتا ہے ، جیساکہ شیخ زبیر صاحب وغیرہ ۔ وہ فریق مخالف کانام ، ان کی شخصیات کا تذکرہ انتہائی سرد مہری سے کرتے ہیں ، بلکہ بعض دفعہ ساتھ دو چار القاب بھی لگادیتے ہیں ( تقلیدی ، صوفی ، بدعتی ) ۔
شیخ راسخ صاحب کے نزدیک یہ اسلوب اس اعتبار سے بہتر ہے ، کہ پڑھنے والے لا علم لوگوں کے ذہن میں ایسی شخصیات کی حقیقت واضح رہتی ہے ، اور وہ ان کے غلط افکار سے متاثر نہیں ہوتے ۔
میری اپنی رائے پہلے والی ہے ، شیخ شفقت صاحب نے بھی یہی کہا تھا ، میں سمجھ رہا تھا کہ شیخ راسخ صاحب کی بھی یہی رائے ہوگی ، جب میں نے شیخ زبیر صاحب کے طرز عمل کو ازراہ تعجب ذکر کیا ، تو شیخ راسخ صاحب کے خلافِ توقع فوری رد عمل اور چہرے کے تاثرات سے محسوس ہوا ، کہ میرا اس رائے کو از راہ تعجب ( یا مذمت ) نقل کرنا غلط تھا ۔
اس مجلس میں ہم شیخ راسخ صاحب کی شخصیت کے حوالے سے بھی کچھ جاننا چاہتے تھے ، ایک دو بار بات شروع کرنے کے باوجود صحیح طرح سے آگے نہ بڑھ سکی ، بہر صورت یہ بات میرے ذہن میں پہلے سے ہی موجود تھی کہ شیخ ایک محنتی ، متقی اور علمی شخصیت ہیں ، بیک وقت تدریس ، تبلیغ اور تصنیف و تالیف جیسے اہم کام سر انجام دے رہے ہیں ، کئی کتابوں کے مترجم ہیں ، خود اپنی ان کی تصنیفات بھی کافی ہیں ، اس مجلس میں یہ بھی علم ہوا کہ وہ کئی عربی کتابوں کے بھی مصنف ہیں ، جو طبع ہوچکی ہیں ، یہ باتیں سن کر رشک آیا ، اور دل سے دعا نکلی کہ اللہ تعالی انہیں مزید برکت دے ۔
شیخ راسخ صاحب کی درجن سے زائد کتابیں محدث لائبریری میں بھی موجود ہیں ، جو یہاں سے ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔
میں نے ان کی سب سے پہلی کتاب ’ من اطیب المنع فی علم المصطلح ‘ کا ترجمہ پڑھی تھی ۔
انہوں نے علمی و تحقیقی موضوعات سے ہٹ کر اصلاحی و معاشرتی موضوعات پر بھی بہت اچھا لکھا ہے ، خطباء کے لیے بھی انہوں نے بہت قیمتی کتابیں ترتیب دی ہیں ، اب چاہتے ہیں ’ وعظ و نصیحت اور خطابت ‘ کے میدان اور اس سے منسلک افراد میں جو اصلاح کی گنجائش ہے ، ان پر قلم اٹھائیں ۔ اللہ تعالی ان کے سب علمی و اصلاحی کاموں کو پایہ تکمیل تک پہنچائے ۔
پر تکلف کھانے کی ابتداء سوپ سے ہوئی اور انتہا لذیذ رس ملائی پر ، سب وقت علمی گفتگو اور بحث و مباحثہ میں گزرا ، جس میں علم و فضل اور معلومات کے ’ کش ‘ بھی لگتے رہے ، ساتھ ساتھ ظریفانہ نوک جھونک سے مجلس کشت زعفراں بھی بنتی رہی ۔ شکم سیر ہوا ، قلب و نظر سیراب ہوئے ، سلام و دعا ئے رسمی اور میزبان سے اظہار تشکر کے بعد اس آٹھویں مدنی محفل کے شرکاء اپنے اپنے ’ مدنی مساکن ‘ کو روانہ ہوئے ۔​
 
Top