تراویح پر ۱۰ صحیح احادیث
۱۔ (۲۰۰۹) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ""مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِا.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے رمضان کی راتوں میں نماز تراویح پڑھی، ایمان اور ثواب کی نیت کے ساتھ، اس کے اگلے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے۔ بخاری
ف: تراویح رمضان سے خاص ایک زائد نماز ہے۔
۲۔ (۲۰۱۰) خَرَجْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَيْلَةً فِي رَمَضَانَ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَإِذَا النَّاسُ أَوْزَاعٌ مُتَفَرِّقُونَ، يُصَلِّي الرَّجُلُ لِنَفْسِهِ، وَيُصَلِّي الرَّجُلُ فَيُصَلِّي بِصَلَاتِهِ الرَّهْطُ، فَقَالَ عُمَرُ: إِنِّي أَرَى لَوْ جَمَعْتُ هَؤُلَاءِ عَلَى قَارِئٍ وَاحِدٍ لَكَانَ أَمْثَلَ، ثُمَّ عَزَمَ فَجَمَعَهُمْ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ،
میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ رمضان کی ایک رات کو مسجد میں گیا۔ سب لوگ متفرق اور منتشر تھے، کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا تھا، اور کچھ کسی کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میرا خیال ہے کہ اگر میں تمام لوگوں کو ایک قاری کے پیچھے جمع کر دوں تو زیادہ اچھا ہو گا، چنانچہ آپ نے یہی ٹھان کر ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو ان کا امام بنا دیا۔بخاری
ف: عمر رضی اللہ عنہ سے پہلے تراویح مشروع ہو چکی تھی آپ نے صرف ایک امام کے پیچھے سب کو جمع فرمایا
۳۔(۲۰۱۱) ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ""أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى وَذَلِكَ فِي رَمَضَانَ"".
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار نماز ( تراویح ) پڑھی اور یہ رمضان میں ہوا تھا۔بخاری
ف: تہجد اور تراویح دو علیحدہ نمازیں ہیں۔ کئونکہ تہجد آپ ﷺ نے مبھی ایک بار نہیں پڑھی۔
۴ (۲۰۱۲) ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَخْبَرَتْهُ، ""أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ لَيْلَةً مِنْ جَوْفِ اللَّيْلِ فَصَلَّى فِي الْمَسْجِدِ وَصَلَّى رِجَالٌ بِصَلَاتِهِ، فَأَصْبَحَ النَّاسُ فَتَحَدَّثُوا، فَاجْتَمَعَ أَكْثَرُ مِنْهُمْ فَصَلَّى فَصَلَّوْا مَعَهُ، فَأَصْبَحَ النَّاسُ فَتَحَدَّثُوا، فَكَثُرَ أَهْلُ الْمَسْجِدِ مِنَ اللَّيْلَةِ الثَّالِثَةِ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى فَصَلَّوْا بِصَلَاتِهِ، فَلَمَّا كَانَتِ اللَّيْلَةُ الرَّابِعَةُ، عَجَزَ الْمَسْجِدُ عَنْ أَهْلِهِ حَتَّى خَرَجَ لِصَلَاةِ الصُّبْحِ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ ( رمضان کی ) نصف شب میں مسجد تشریف لے گئے اور وہاں تراویح کی نماز پڑھی۔ کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم بھی آپ کے ساتھ نماز میں شریک ہو گئے۔ صبح ہوئی تو انہوں نے اس کا چرچا کیا۔ چنانچہ دوسری رات میں لوگ پہلے سے بھی زیادہ جمع ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ دوسری صبح کو اور زیادہ چرچا ہوا اور تیسری رات اس سے بھی زیادہ لوگ جمع ہو گئے۔ آپ نے ( اس رات بھی ) نماز پڑھی اور لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کی۔ چوتھی رات کو یہ عالم تھا کہ مسجد میں نماز پڑھنے آنے والوں کے لیے جگہ بھی باقی نہیں رہی تھی۔ ( لیکن اس رات آپ برآمد ہی نہیں ہوئے ) بلکہ صبح کی نماز کے لیے باہر تشریف لائے۔ بخاری
ف: تہجد اور تراویح دو مختلف نمازیں ہیں۔ کیونکہ تہجد کی آپ نے کبھی جماعت نہیں کرائی
۵ (۲۰۱۳) أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: ""كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ؟ فَقَالَتْ: مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُصَلِّي أَرْبَعًا،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں کتنی رکعتیں پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے بتلایا کہ رمضان ہو یا کوئی اور مہینہ آپ گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی چار رکعت پڑھتے، تم ان کے حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، پھر چار رکعت پڑھتے، ان کے بھی حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، آخر میں تین رکعت ( وتر ) پڑھتے تھے۔ بخاری
ف: اس حدیث میں آپ ﷺ کی رمضان و غیر رمضان کی تہجد کی نماز کا ذکر ہے۔ اس کا قیاس تراویح پر نہیں کرنا چاہئے کہ تہجد تیسرے پہر انفرادی اور گھر میں، سارا سال پڑھی جانے والی نماز ہے۔ اور اس روایت میں چار چار رکعت کا ذکر ہے۔ اور یہ روایت باعتبار متن مضطرب بھی ہے کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی ایک روایت مئں تئیرہ رکعت کا بھی ذکر ہے اور بعض روایات میں پانچ، سات اور نو کا بھی۔ اور دیگر روایات میں چار چار کی بھائے دو دو کا بھی ذکر ہے۔ چنانچہ رکعت تراویح میں اسے دلیل بنانے والوں کی بنیاد ایک غیر صریح اور مضطرب روایت پر ہے۔
جبکہ عمل عمر رضی اللہ عنہ و صحابہ اور تعامل امت کے تحت جو نماز تراویح کے نام سے پڑھی جاتی ہے وہ اول پہر، باجماعت، مسجد میں، دو دو رکعت اور صرف رمضان میں پڑھی جانے والی نماز ہے۔ اس کا اوپر والی حدیث سے کوئی تعلق نہیں۔
۶۔ (۷۲۹۰) ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اتَّخَذَ حُجْرَةً فِي الْمَسْجِدِ مِنْ حَصِيرٍ، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا لَيَالِيَ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی میں چٹائی سے گھیر کر ایک حجرہ بنا لیا اور رمضان کی راتوں میں اس کے اندر نماز پڑھنے لگے۔ بخاری
ف: قیام اللیل کے دو جزو ہیں۔
انفردی اور اجتماعی
انفرادی کا نام تہجد ہے اور یہ تیسرے پہر گھر میں سارا سال ہے اور اجتماعی کا نام تراویح ہے جو اول پہر مسجد میں صرف رمضان میں ہے۔
۷۔ (۸۰۶) صُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُصَلِّ بِنَا حَتَّى بَقِيَ سَبْعٌ مِنَ الشَّهْرِ، فَقَامَ بِنَا.
ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صیام رمضان رکھے تو آپ نے ہمیں نماز ( تراویح ) نہیں پڑھائی، یہاں تک کہ رمضان کے صرف سات دن باقی رہ گئے تو آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا ترمذی
ف: تہجد اور تراویح ایک نہیں۔ تہجد روزانہ پورا سال تیسرے پہر انفرادی اور گھر میں۔ اور تراویح اول پہر باجماعت مسجد میں اور صرف رمضان میں ہے۔
۸۔ (۱۵۷۶) مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ .
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے رمضان میں ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے قیام اللیل کیا، یعنی نماز تراویح پڑھی اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے“۔ نسائی
ف: قیام اللیل کے دو جزو ہیں انفرادی اور اجتماعی۔ انفرادی کا نام تہجد اور اجتماعی کا نام تراویح ہے۔ علما نے اسے تہجد سے ممتاز کرنے کے لئے ہی تراویح کا نام دیا۔
۹۔ (۲۲۰۱) ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ يُصَلِّي فِي الْمَسْجِدِ، فَصَلَّى بِالنَّاسِ وَسَاقَ الْحَدِيثَ وَفِيهِ، قَالَتْ: فَكَانَ يُرَغِّبُهُمْ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَأْمُرَهُمْ بِعَزِيمَةٍ، وَيَقُولُ: مَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ ، قَالَ: فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آدھی رات کو نکلے، اور آپ نے مسجد میں نماز پڑھائی۔ راوی نے پوری حدیث بیان کی، اس میں یہ بھی تھا کہ انہوں نے کہا: ـ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو بغیر کوئی تاکیدی حکم دیئے رمضان ( کی راتوں میں ) قیام یعنی صلاۃ تراویح پڑھنے کی ترغیب دیتے، اور فرماتے: ”جس نے شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب چاہنے کے لیے قیام کیا، یعنی صلاۃ تراویح پڑھی اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے“، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے، اور معاملہ اسی پر قائم رہا۔ نسائی۲۲۰۱
ف: آج جو تراویح ہم پڑھتے ہیں یہ ارتقائی عمل سے ہم تک پہنچی ہے اس میں نبی پاک ﷺ ، صحابہ، عمر رضی اللہ عنہ اور تعامل امت شامل ہے جو سب امت کے لئے حجت ہیں۔
نبی پاک ﷺ نے اپنے عمل سے اسے مسجد میں چند دن باجماعت پڑھ کے ایک اضافی رمضانی نماز قرار دیا،
صحابہ نے اسے چھوٹی جماعتوں میں ہورا رمضان تک بڑھایا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے ایک امام کے تحت سب کو جمع کیا اور تعامل امت سے اس میں ختم قرآن بھی شامل ہو گیا۔
۱۰۔ تعداد رکعات تراویح
امام ترمذی کہتے ہیں:- رمضان کے قیام کے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وتر کے ساتھ اکتالیس رکعتیں پڑھے گا، یہ اہل مدینہ کا قول ہے، ان کے نزدیک مدینے میں اسی پر عمل تھا،
اور اکثر اہل علم ان احادیث کی بنا پر جو عمر، علی اور دوسرے صحابہ کرام رضی الله عنہم سے مروی ہے بیس رکعت کے قائل ہیں۔ یہ سفیان ثوری، ابن مبارک اور شافعی کا قول ہے۔ اور شافعی کہتے ہیں: اسی طرح سے میں نے اپنے شہر مکے میں پایا ہے کہ بیس رکعتیں پڑھتے تھے،
احمد کہتے ہیں: اس سلسلے میں کئی قسم کی باتیں مروی ہیں انہوں نے اس سلسلے میں کوئی فیصلہ کن بات نہیں کہی،
اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: ہمیں ابی بن کعب کی روایت کے مطابق ۴۱ رکعتیں مرغوب ہیں،
ابن مبارک، احمد اور اسحاق بن راہویہ نے ماہ رمضان میں امام کے ساتھ نماز پڑھنے کو پسند کیا ہے،
شافعی نے اکیلے پڑھنے کو پسند کیا ہے جب وہ قاری ہو۔(شرح ترمذی ۸۰۶)
ف: اس سے معلوم ہوا کہ الف میں اس کی رکعات کی تعداد میں اختلاف بیس یا چالیس کا تھا۔ اور دور جدید کے بعض مکاتب فکر نےجس حدیث سے آٹھ کا استدلال لیا ہے وہ غیر صریح اور غیر متعلق ہے۔
واللہ اعلم
۱۔ (۲۰۰۹) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ""مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِا.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے رمضان کی راتوں میں نماز تراویح پڑھی، ایمان اور ثواب کی نیت کے ساتھ، اس کے اگلے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے۔ بخاری
ف: تراویح رمضان سے خاص ایک زائد نماز ہے۔
۲۔ (۲۰۱۰) خَرَجْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَيْلَةً فِي رَمَضَانَ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَإِذَا النَّاسُ أَوْزَاعٌ مُتَفَرِّقُونَ، يُصَلِّي الرَّجُلُ لِنَفْسِهِ، وَيُصَلِّي الرَّجُلُ فَيُصَلِّي بِصَلَاتِهِ الرَّهْطُ، فَقَالَ عُمَرُ: إِنِّي أَرَى لَوْ جَمَعْتُ هَؤُلَاءِ عَلَى قَارِئٍ وَاحِدٍ لَكَانَ أَمْثَلَ، ثُمَّ عَزَمَ فَجَمَعَهُمْ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ،
میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ رمضان کی ایک رات کو مسجد میں گیا۔ سب لوگ متفرق اور منتشر تھے، کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا تھا، اور کچھ کسی کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میرا خیال ہے کہ اگر میں تمام لوگوں کو ایک قاری کے پیچھے جمع کر دوں تو زیادہ اچھا ہو گا، چنانچہ آپ نے یہی ٹھان کر ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو ان کا امام بنا دیا۔بخاری
ف: عمر رضی اللہ عنہ سے پہلے تراویح مشروع ہو چکی تھی آپ نے صرف ایک امام کے پیچھے سب کو جمع فرمایا
۳۔(۲۰۱۱) ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ""أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى وَذَلِكَ فِي رَمَضَانَ"".
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار نماز ( تراویح ) پڑھی اور یہ رمضان میں ہوا تھا۔بخاری
ف: تہجد اور تراویح دو علیحدہ نمازیں ہیں۔ کئونکہ تہجد آپ ﷺ نے مبھی ایک بار نہیں پڑھی۔
۴ (۲۰۱۲) ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَخْبَرَتْهُ، ""أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ لَيْلَةً مِنْ جَوْفِ اللَّيْلِ فَصَلَّى فِي الْمَسْجِدِ وَصَلَّى رِجَالٌ بِصَلَاتِهِ، فَأَصْبَحَ النَّاسُ فَتَحَدَّثُوا، فَاجْتَمَعَ أَكْثَرُ مِنْهُمْ فَصَلَّى فَصَلَّوْا مَعَهُ، فَأَصْبَحَ النَّاسُ فَتَحَدَّثُوا، فَكَثُرَ أَهْلُ الْمَسْجِدِ مِنَ اللَّيْلَةِ الثَّالِثَةِ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى فَصَلَّوْا بِصَلَاتِهِ، فَلَمَّا كَانَتِ اللَّيْلَةُ الرَّابِعَةُ، عَجَزَ الْمَسْجِدُ عَنْ أَهْلِهِ حَتَّى خَرَجَ لِصَلَاةِ الصُّبْحِ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ ( رمضان کی ) نصف شب میں مسجد تشریف لے گئے اور وہاں تراویح کی نماز پڑھی۔ کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم بھی آپ کے ساتھ نماز میں شریک ہو گئے۔ صبح ہوئی تو انہوں نے اس کا چرچا کیا۔ چنانچہ دوسری رات میں لوگ پہلے سے بھی زیادہ جمع ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ دوسری صبح کو اور زیادہ چرچا ہوا اور تیسری رات اس سے بھی زیادہ لوگ جمع ہو گئے۔ آپ نے ( اس رات بھی ) نماز پڑھی اور لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کی۔ چوتھی رات کو یہ عالم تھا کہ مسجد میں نماز پڑھنے آنے والوں کے لیے جگہ بھی باقی نہیں رہی تھی۔ ( لیکن اس رات آپ برآمد ہی نہیں ہوئے ) بلکہ صبح کی نماز کے لیے باہر تشریف لائے۔ بخاری
ف: تہجد اور تراویح دو مختلف نمازیں ہیں۔ کیونکہ تہجد کی آپ نے کبھی جماعت نہیں کرائی
۵ (۲۰۱۳) أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: ""كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ؟ فَقَالَتْ: مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُصَلِّي أَرْبَعًا،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں کتنی رکعتیں پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے بتلایا کہ رمضان ہو یا کوئی اور مہینہ آپ گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی چار رکعت پڑھتے، تم ان کے حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، پھر چار رکعت پڑھتے، ان کے بھی حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، آخر میں تین رکعت ( وتر ) پڑھتے تھے۔ بخاری
ف: اس حدیث میں آپ ﷺ کی رمضان و غیر رمضان کی تہجد کی نماز کا ذکر ہے۔ اس کا قیاس تراویح پر نہیں کرنا چاہئے کہ تہجد تیسرے پہر انفرادی اور گھر میں، سارا سال پڑھی جانے والی نماز ہے۔ اور اس روایت میں چار چار رکعت کا ذکر ہے۔ اور یہ روایت باعتبار متن مضطرب بھی ہے کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی ایک روایت مئں تئیرہ رکعت کا بھی ذکر ہے اور بعض روایات میں پانچ، سات اور نو کا بھی۔ اور دیگر روایات میں چار چار کی بھائے دو دو کا بھی ذکر ہے۔ چنانچہ رکعت تراویح میں اسے دلیل بنانے والوں کی بنیاد ایک غیر صریح اور مضطرب روایت پر ہے۔
جبکہ عمل عمر رضی اللہ عنہ و صحابہ اور تعامل امت کے تحت جو نماز تراویح کے نام سے پڑھی جاتی ہے وہ اول پہر، باجماعت، مسجد میں، دو دو رکعت اور صرف رمضان میں پڑھی جانے والی نماز ہے۔ اس کا اوپر والی حدیث سے کوئی تعلق نہیں۔
۶۔ (۷۲۹۰) ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اتَّخَذَ حُجْرَةً فِي الْمَسْجِدِ مِنْ حَصِيرٍ، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا لَيَالِيَ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی میں چٹائی سے گھیر کر ایک حجرہ بنا لیا اور رمضان کی راتوں میں اس کے اندر نماز پڑھنے لگے۔ بخاری
ف: قیام اللیل کے دو جزو ہیں۔
انفردی اور اجتماعی
انفرادی کا نام تہجد ہے اور یہ تیسرے پہر گھر میں سارا سال ہے اور اجتماعی کا نام تراویح ہے جو اول پہر مسجد میں صرف رمضان میں ہے۔
۷۔ (۸۰۶) صُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُصَلِّ بِنَا حَتَّى بَقِيَ سَبْعٌ مِنَ الشَّهْرِ، فَقَامَ بِنَا.
ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صیام رمضان رکھے تو آپ نے ہمیں نماز ( تراویح ) نہیں پڑھائی، یہاں تک کہ رمضان کے صرف سات دن باقی رہ گئے تو آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا ترمذی
ف: تہجد اور تراویح ایک نہیں۔ تہجد روزانہ پورا سال تیسرے پہر انفرادی اور گھر میں۔ اور تراویح اول پہر باجماعت مسجد میں اور صرف رمضان میں ہے۔
۸۔ (۱۵۷۶) مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ .
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے رمضان میں ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے قیام اللیل کیا، یعنی نماز تراویح پڑھی اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے“۔ نسائی
ف: قیام اللیل کے دو جزو ہیں انفرادی اور اجتماعی۔ انفرادی کا نام تہجد اور اجتماعی کا نام تراویح ہے۔ علما نے اسے تہجد سے ممتاز کرنے کے لئے ہی تراویح کا نام دیا۔
۹۔ (۲۲۰۱) ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ يُصَلِّي فِي الْمَسْجِدِ، فَصَلَّى بِالنَّاسِ وَسَاقَ الْحَدِيثَ وَفِيهِ، قَالَتْ: فَكَانَ يُرَغِّبُهُمْ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَأْمُرَهُمْ بِعَزِيمَةٍ، وَيَقُولُ: مَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ ، قَالَ: فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آدھی رات کو نکلے، اور آپ نے مسجد میں نماز پڑھائی۔ راوی نے پوری حدیث بیان کی، اس میں یہ بھی تھا کہ انہوں نے کہا: ـ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو بغیر کوئی تاکیدی حکم دیئے رمضان ( کی راتوں میں ) قیام یعنی صلاۃ تراویح پڑھنے کی ترغیب دیتے، اور فرماتے: ”جس نے شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب چاہنے کے لیے قیام کیا، یعنی صلاۃ تراویح پڑھی اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے“، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے، اور معاملہ اسی پر قائم رہا۔ نسائی۲۲۰۱
ف: آج جو تراویح ہم پڑھتے ہیں یہ ارتقائی عمل سے ہم تک پہنچی ہے اس میں نبی پاک ﷺ ، صحابہ، عمر رضی اللہ عنہ اور تعامل امت شامل ہے جو سب امت کے لئے حجت ہیں۔
نبی پاک ﷺ نے اپنے عمل سے اسے مسجد میں چند دن باجماعت پڑھ کے ایک اضافی رمضانی نماز قرار دیا،
صحابہ نے اسے چھوٹی جماعتوں میں ہورا رمضان تک بڑھایا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے ایک امام کے تحت سب کو جمع کیا اور تعامل امت سے اس میں ختم قرآن بھی شامل ہو گیا۔
۱۰۔ تعداد رکعات تراویح
امام ترمذی کہتے ہیں:- رمضان کے قیام کے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وتر کے ساتھ اکتالیس رکعتیں پڑھے گا، یہ اہل مدینہ کا قول ہے، ان کے نزدیک مدینے میں اسی پر عمل تھا،
اور اکثر اہل علم ان احادیث کی بنا پر جو عمر، علی اور دوسرے صحابہ کرام رضی الله عنہم سے مروی ہے بیس رکعت کے قائل ہیں۔ یہ سفیان ثوری، ابن مبارک اور شافعی کا قول ہے۔ اور شافعی کہتے ہیں: اسی طرح سے میں نے اپنے شہر مکے میں پایا ہے کہ بیس رکعتیں پڑھتے تھے،
احمد کہتے ہیں: اس سلسلے میں کئی قسم کی باتیں مروی ہیں انہوں نے اس سلسلے میں کوئی فیصلہ کن بات نہیں کہی،
اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: ہمیں ابی بن کعب کی روایت کے مطابق ۴۱ رکعتیں مرغوب ہیں،
ابن مبارک، احمد اور اسحاق بن راہویہ نے ماہ رمضان میں امام کے ساتھ نماز پڑھنے کو پسند کیا ہے،
شافعی نے اکیلے پڑھنے کو پسند کیا ہے جب وہ قاری ہو۔(شرح ترمذی ۸۰۶)
ف: اس سے معلوم ہوا کہ الف میں اس کی رکعات کی تعداد میں اختلاف بیس یا چالیس کا تھا۔ اور دور جدید کے بعض مکاتب فکر نےجس حدیث سے آٹھ کا استدلال لیا ہے وہ غیر صریح اور غیر متعلق ہے۔
واللہ اعلم