• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تراویح کے متعلق

شمولیت
اپریل 16، 2015
پیغامات
57
ری ایکشن اسکور
17
پوائنٹ
57
السلام علیکم۔۔۔
کیا تراویح اس وقت پڑھنا ثابت ہے؟
مطلب کے ویسے تو قیام الیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے آخری حصہ میں پڑھا کرتے تھے، تو رمضان میں عشاء نماز کے بعد فوران پڑھنے کی کیا دلیل ہے؟
یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس وقت ثابت ہے؟

جزاک اللہ خیر۔۔۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
السلام علیکم۔۔۔
کیا تراویح اس وقت پڑھنا ثابت ہے؟
مطلب کے ویسے تو قیام الیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے آخری حصہ میں پڑھا کرتے تھے، تو رمضان میں عشاء نماز کے بعد فوران پڑھنے کی کیا دلیل ہے؟
یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس وقت ثابت ہے؟
جزاک اللہ خیر۔۔۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ ؛
پیارے بھائی !
آپ صحیح بخاری کی درج ذیل روایت ملاحظہ فرمائیں :
صحیح بخاری
كتاب صلاة التراويح

حدیث نمبر: 2010
وَعَنِ ابْنِ شِهَابٍ،‏‏‏‏ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ،‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِيِّ،‏‏‏‏ أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ "خَرَجْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَيْلَةً فِي رَمَضَانَ إِلَى الْمَسْجِدِ،‏‏‏‏ فَإِذَا النَّاسُ أَوْزَاعٌ مُتَفَرِّقُونَ،‏‏‏‏ يُصَلِّي الرَّجُلُ لِنَفْسِهِ،‏‏‏‏ وَيُصَلِّي الرَّجُلُ فَيُصَلِّي بِصَلَاتِهِ الرَّهْطُ،‏‏‏‏ فَقَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ إِنِّي أَرَى لَوْ جَمَعْتُ هَؤُلَاءِ عَلَى قَارِئٍ وَاحِدٍ لَكَانَ أَمْثَلَ،‏‏‏‏ ثُمَّ عَزَمَ فَجَمَعَهُمْ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ،‏‏‏‏ ثُمَّ خَرَجْتُ مَعَهُ لَيْلَةً أُخْرَى وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلَاةِ قَارِئِهِمْ،‏‏‏‏ قَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ نِعْمَ الْبِدْعَةُ هَذِهِ،‏‏‏‏ وَالَّتِي يَنَامُونَ عَنْهَا أَفْضَلُ مِنَ الَّتِي يَقُومُونَ يُرِيدُ آخِرَ اللَّيْلِ،‏‏‏‏ وَكَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ أَوَّلَهُ".(
اور ابن شہاب سے (امام مالک رحمہ اللہ) کی روایت ہے، انہوں نے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے عبدالرحمٰن بن عبدالقاری سے روایت کی کہ انہوں نے بیان کیا میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ رمضان کی ایک رات کو مسجد میں گیا۔ سب لوگ متفرق اور منتشر تھے، کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا تھا، اور کچھ کسی کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میرا خیال ہے کہ اگر میں تمام لوگوں کو ایک قاری کے پیچھے جمع کر دوں تو زیادہ اچھا ہو گا، چنانچہ آپ نے یہی ٹھان کر ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو ان کا امام بنا دیا۔ پھر ایک رات جو میں ان کے ساتھ نکلا تو دیکھا کہ لوگ اپنے امام کے پیچھے نماز (تراویح) پڑھ رہے ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، یہ نیا طریقہ بہتر اور مناسب ہے اور (رات کا) وہ حصہ جس میں یہ لوگ سو جاتے ہیں اس حصہ سے بہتر اور افضل ہے جس میں یہ نماز پڑھتے ہیں۔ آپ کی مراد رات کے آخری حصہ (کی فضیلت) سے تھی کیونکہ لوگ یہ نماز رات کے شروع ہی میں پڑھ لیتے تھے۔(یعنی نماز عشاء کے فوراً بعد )

'Abdur Rahman bin 'Abdul Qari said, "I went out in the company of 'Umar bin Al-Khattab one night in Ramadan to the mosque and found the people praying in different groups. A man praying alone or a man praying with a little group behind him. So, 'Umar said, 'In my opinion I would better collect these (people) under the leadership of one Qari (Reciter) (i.e. let them pray in congregation!)'. So, he made up his mind to congregate them behind Ubai bin Ka'b. Then on another night I went again in his company and the people were praying behind their reciter. On that, 'Umar remarked, 'What an excellent Bid'a (i.e. innovation in religion) this is; but the prayer which they do not perform, but sleep at its time is better than the one they are offering.' He meant the prayer in the last part of the night. (In those days) people used to pray in the early part of the night."
USC-MSA web (English): Volume 3, Book 32, Number 227
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
وقت صلاة التراويح
هل يجوز أداء صلاة التراويح قبل أذان الفجر بساعتين أو ما يقرب ؟ أم يجب أداؤها بعد العشاء مباشرة ؟ .
سوال : کیا نماز تراویح صبح کی اذان سے دو گھنٹے پہلے سحری کے وقت ادا کرنا چاہیئے ،یا نماز کے فوراً بعد ادا کرنا ضروری ہے ؟

الجواب
الحمد لله
وقت صلاة التراويح يمتد من بعد صلاة العشاء إلى طلوع الفجر . فيصح أداؤها في أي جزء من هذا الوقت .قال النووي رحمه الله في "المجموع" :
نماز تراویح کا وقت نماز عشاء کے کے بعد سے لیکر طلوع فجر ( یعنی اذان فجر )سے پہلے تک ہے ۔اس دوران جب بھی پڑھ لی جائے صحیح ہے ،
علامہ نوویؒ ’’ المجموع ‘‘ میں فرماتے ہیں :
يَدْخُلُ وَقْتُ التَّرَاوِيحِ بِالْفَرَاغِ مِنْ صَلاةِ الْعِشَاءِ , ذَكَرَهُ الْبَغَوِيّ وَغَيْرُهُ , وَيَبْقَى إلَى طُلُوعِ الْفَجْرِ اهـ
نماز تراویح کا وقت عشاء کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد سے شروع ہو کر طلوع فجر تک رہتا ہے ،
ولكن إذا كان الرجل سيصلي في المسجد إماماً بالناس فالأولى أن يصليها بعد صلاة العشاء ، ولا يؤخرها إلى نصف الليل أو آخره حتى لا يشق ذلك على المصلين ، وربما ينام بعضهم فتفوته الصلاة . وعلى هذا جرى عمل المسلمين ، أنهم يصلون التراويح بعد صلاة العشاء ولا يؤخرونها .
لیکن اگر نماز تراویح پڑھنے والا بحیثیت امام کسی مسجد میں نماز تراویح پڑھانے والا ہو ،تو اولی و بہتر یہی ہے کہ نماز عشاء کے کے بعد پڑھائے ،اور آدھی رات یا اس بعد تک موخر نہ کرے ،کیونکہ ایسا کرنا نمازیوں کیلئے باعث مشقت ہوگا ،اور ان میں کچھ نیند کے سبب نماز سے محروم ہونگے ۔اہل اسلام کا اسی طریقہ پر عمل شروع سے جاری ہے کہ وہ نماز تراویح ،بعد از عشاء پڑھا کرتے ہیں ،پچھلی رات تک اسے موخر نہیں کرتے؛
وقال ابن قدامة في "المغني" :
قِيلَ للإمام أَحْمَدَ : تُؤَخِّرُ الْقِيَامَ يَعْنِي فِي التَّرَاوِيحِ إلَى آخِرِ اللَّيْلِ ؟ قَالَ : لا , سُنَّةُ الْمُسْلِمِينَ أَحَبُّ إلَيَّ اهـ
امام ابن قدامہ رحمہ اللہ ’’المغنی ‘‘ میں فرماتے ہیں: کہ جناب امام احمد ؒ سے سوال ہوا کہ نماز تراویح رات کے آخری حصہ تک موءخر کرنی چاہیئے ؟
فرمایا :نہیں ،مسلمانوں کی سنت میرے نزدیک پسندیدہ ہے (کہ وہ بعد از عشاء پڑھا کرتے ہیں )
أما من كان سيصليها في بيته فهو بالخيار إن شاء صلاها في أول الليل وإن شاء صلاها آخره .
ہاں اگر کوئی تنہا اپنے گھر پڑھے تو اسے اختیار ہے کہ جس وقت چاہے پڑھ لے ؛
والله أعلم .

الإسلام سؤال وجواب
 
شمولیت
اپریل 16، 2015
پیغامات
57
ری ایکشن اسکور
17
پوائنٹ
57
اور ابن شہاب سے (امام مالک رحمہ اللہ) کی روایت ہے، انہوں نے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے عبدالرحمٰن بن عبدالقاری سے روایت کی کہ انہوں نے بیان کیا میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ رمضان کی ایک رات کو مسجد میں گیا۔ سب لوگ متفرق اور منتشر تھے، کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا تھا، اور کچھ کسی کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میرا خیال ہے کہ اگر میں تمام لوگوں کو ایک قاری کے پیچھے جمع کر دوں تو زیادہ اچھا ہو گا، چنانچہ آپ نے یہی ٹھان کر ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو ان کا امام بنا دیا۔ پھر ایک رات جو میں ان کے ساتھ نکلا تو دیکھا کہ لوگ اپنے امام کے پیچھے نماز (تراویح) پڑھ رہے ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، یہ نیا طریقہ بہتر اور مناسب ہے اور (رات کا) وہ حصہ جس میں یہ لوگ سو جاتے ہیں اس حصہ سے بہتر اور افضل ہے جس میں یہ نماز پڑھتے ہیں۔ آپ کی مراد رات کے آخری حصہ (کی فضیلت) سے تھی کیونکہ لوگ یہ نماز رات کے شروع ہی میں پڑھ لیتے تھے۔(یعنی نماز عشاء کے فوراً بعد )

کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے؟
پیارے نبی ﷺ سے تراویح کی جماعت مسجد میں بھی ثابت ہے ؛
اور اس کا وقت بھی ثابت ہے
سنن ابن ماجہ

. باب : ما جاء في قيام شهر رمضان
باب: ماہ رمضان میں قیام اللیل (تراویح) کا بیان۔
حدیث نمبر: 1327

عن ابي ذر قال:‏‏‏‏ صمنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم رمضان فلم يقم بنا شيئا منه حتى بقي سبع ليال فقام بنا ليلة السابعة حتى مضى نحو من ثلث الليل ثم كانت الليلة السادسة التي تليها فلم يقمها حتى كانت الخامسة التي تليها ثم قام بنا حتى مضى نحو من شطر الليل فقلت:‏‏‏‏ يا رسول الله لو نفلتنا بقية ليلتنا هذه؟ فقال:‏‏‏‏"إنه من قام مع الإمام حتى ينصرف فإنه يعدل قيام ليلة"ثم كانت الرابعة التي تليها فلم يقمها حتى كانت الثالثة التي تليها قال:‏‏‏‏ فجمع نساءه واهله واجتمع الناس قال:‏‏‏‏ فقام بنا حتى خشينا ان يفوتنا الفلاح قيل:‏‏‏‏ وما الفلاح؟ قال:‏‏‏‏ السحور قال:‏‏‏‏ ثم لم يقم بنا شيئا من بقية الشهر.

ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے، آپ نے کسی بھی رات ہمارے ساتھ نماز تراویح نہ ادا فرمائی، یہاں تک کہ جب سات راتیں باقی رہ گئیں، تو ساتویں (یعنی تیئیسویں) رات کو آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا، یہاں تک کہ رات تہائی کے قریب گزر گئی، پھر اس کے بعد چھٹی (یعنی چوبیسویں) رات کو جو اس کے بعد آتی ہے، آپ نے قیام نہیں کیا یہاں تک کہ اس کے بعد والی پانچویں یعنی (پچیسویں) رات کو آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ رات آدھی کے قریب گزر گئی، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کاش آپ باقی رات بھی ہمیں نفل پڑھاتے رہتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی امام کے ساتھ قیام کرے یہاں تک کہ وہ فارغ ہو جائے، تو وہ ساری رات کے قیام کے برابر ہے، پھر جب اس کے بعد والی چوتھی (یعنی چھبیسویں) رات آئی تو آپ نے اس میں قیام نہیں کیا، جب اس کے بعد والی تیسری (یعنی ستائیسویں) رات آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں اور گھر والوں کو جمع کیا، اور لوگ بھی جمع ہوئے، ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: تو آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ ہمیں خدشہ ہوا کہ ہم سے «فلاح» فوت نہ ہو جائے، ان سے پوچھا گیا: «فلاح» کیا ہے؟ کہا: سحری: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ رمضان کے باقی دنوں میں تراویح باجماعت نہیں پڑھی ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصلاة ۳۱۸ (۱۳۷۵)، سنن الترمذی/الصوم ۸۱ (۸۰۶)، سنن النسائی/السہو ۱۰۳ (۱۳۶۵)، قیام اللیل ۴ (۱۶۰۶)، (تحفة الأشراف : ۱۱۹۰۳)، وقد أخرجہ : مسند احمد (۵/۱۵۹، ۱۶۳)، سنن الدارمی/الصوم ۵۴ (۱۸۱۸) (صحیح)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور صحیح مسلم میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے:
عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ خَافَ أَنْ لَا يَقُومَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ فَلْيُوتِرْ أَوَّلَهُ، وَمَنْ طَمِعَ أَنْ يَقُومَ آخِرَهُ فَلْيُوتِرْ آخِرَ اللَّيْلِ، فَإِنَّ صَلَاةَ آخِرِ اللَّيْلِ مَشْهُودَةٌ، وَذَلِكَ أَفْضَلُ»
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جسے ڈر ہو کہ رات کے آخری حصہ میں نہ اٹھ سکوں گا ،وہ وتر رات کے اول حصہ (یعنی عشاء کے بعد ہی ) پڑھ لے ،اورجسے رات کے آخری حصہ میں اٹھنے کا یقین ہو وہ نماز وتر رات کے کے آخری حصہ میں پڑھے،کیونکہ آخر رات کی نماز حاضر کی جاتی ہے،اور یہ افضل ہے ،
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ! وربر کاتہ!
جس طرح نمازِ وتر، جس کا تعلق قیام الیل سے ہے، اور اسے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اول وقت میں پڑھنے کی رخصت دی، اسی رخصت میں تراویح کو بھی اول وقت میں ادا کرنا شامل ہے!!
حدیث ملاحظہ فرمائیں:
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ خَافَ أَنْ لَا يَقُومَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ ، فَلْيُوتِرْ أَوَّلَهُ ، وَمَنْ طَمِعَ أَنْ يَقُومَ آخِرَهُ ، فَلْيُوتِرْ آخِرَ اللَّيْلِ ، فَإِنَّ صَلَاةَ آخِرِ اللَّيْلِ مَشْهُودَةٌ ، وَذَلِكَ أَفْضَلُ "
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ جس آدمی کو یہ ڈر ہو کہ وہ رات کے آخری حصہ میں نہیں اٹھ سکے گا تو اسے چاہیے کہ وہ شروع رات ہی میں وتر پڑھ لے اور جس آدمی کو اس بات کی تمنا ہو کہ رات کے آخری حصہ میں قیام کرے تو اسے چاہیے کہ وہ رات کے آخری حصہ میں وتر پڑھے کیونکہ رات کے آخری حصہ کی نماز میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور یہ اس کے لئے افضل ہے
صحيح مسلم» كِتَاب صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا» بَاب مَنْ خَافَ أَنْ لَا يَقُومَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ فَلْيُوتِرْ أَوَّلَهُ

وحَدَّثَنِي سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَعْيَنَ ، حَدَّثَنَا مَعْقِلٌ وَهُوَ ابْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : " أَيُّكُمْ خَافَ أَنْ لَا يَقُومَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ فَلْيُوتِرْ ، ثُمَّ لِيَرْقُدْ ، وَمَنْ وَثِقَ بِقِيَامٍ مِنَ اللَّيْلِ فَلْيُوتِرْ مِنْ آخِرِهِ ، فَإِنَّ قِرَاءَةَ آخِرِ اللَّيْلِ مَحْضُورَةٌ ، وَذَلِكَ أَفْضَلُ "
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺکو فرماتے ہوئے سنا کہ تم میں سے جس آدمی کو اس بات کا ڈر ہو کہ وہ رات کے آخری حصہ میں نہ اٹھ سکے گا تو اسے چاہیے کہ وتر پڑھ لے پھر سو جائے اور جس آدمی کو رات کو اٹھنے کا یقین ہو تو اسے چاہیے کہ وہ وتر رات کے آخری حصہ میں پڑھے کیونکہ رات کے آخری حصہ میں قرات کرنا ایسا ہے کہ اس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور یہ افضل ہے۔
صحيح مسلم» كِتَاب صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا» بَاب مَنْ خَافَ أَنْ لَا يَقُومَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ فَلْيُوتِرْ أَوَّلَهُ
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم تراویح کی رکعات کے متعلق بھی کچھ فرمادیں۔
والسلام
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
بسم الله الرحمن الرحيم​

قيام رمضان (تراویح)

تراویح کا معنی

تراويح ترویحہ کی جمع ہے جس کا معنی سستانا آرام کرنا راحت حاصل کرنا وغیرہ وغیرہ ہیں۔

مأخذ لفظ تراويح

صحيح البخاری: كِتَاب صَلَاةِ التَّرَاوِيحِ (نماز تراویح)

صحيح مسلم: كِتَاب صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا: بَاب التَّرْغِيبِ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ وَهُوَ التَّرَاوِيحُ(قیام رمضان جو کہ تراویح ہے کی ترغیب)

السنن الكبرى للبيهقي باب ما روى في عدد ركعات القيام في شهر رمضان

عن عائشة رضى الله عنها قالت كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلى اربع ركعات في الليل ثم يتروح فاطال حتى رحمته فقلت بابى انت وامى يا رسول الله قد غفر الله لك ما تقدم من ذنبك وما تأخر قال افلا اكون عبدا شكورا


عائشہ صديقہ رضى الله تعالى عنہا فرماتى ہیں كہ رسول الله صلى الله عليہ وسلم رات كو چار ركعت پڑھتے كافى دير تك پھر آرام فرماتے۔ عائشہ صديقہ رضى الله تعالى عنہا فرماتى ہیں كہ میں نے کہا يا رسول الله صلى الله عليہ وسلم آپ پر ميرے ماں باپ قربان ہوں الله تعالى نے آپ کے اگلے پچھلے سب گناہ معاف كردیئے ہیں پھر آپ اس قدر مشقت كيوں جھیلتے ہیں۔ رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا كہ كيا میں الله تعالى كا شكرگزار بنده نہ بنوں-

السنن الكبرى للبيهقي باب ما روى في عدد ركعات القيام في شهر رمضان

عن زيد بن وهب قال كان عمر بن الخطاب رضى الله عنه يروحنا في رمضان يعنى بين الترويحتين قدر ما يذهب الرجل من المسجد إلى سلع

زيد بن وہب فرماتے ہیں عمر بن الخطاب رضى الله تعالى عنہ رمضان میں ترويحہ اس قدر لمبا كرتے كہ آدمى مسجد سے سلع (ايك جگہ كا نام) تك چلاجاتا-

رمضان میں تراویح

صحيح ابن خزيمة جز 8 صفحه 124

باب ذكر الدليل على أن قيام شهر رمضان سنة النبي صلى الله عليه وسلم خلاف زعم الروافض الذين يزعمون أن قيام شهر رمضان بدعة لا سنة


يہ باب اس ذكر میں ہے کہ قيام شہر رمضان نبى صلى الله عليہ وسلم كى سنت ہے رافضیوں (شيعہ) کے برعكس كہ وه خيال كرتے ہیں كہ قيام شہر رمضان بدعت ہے سنت نہیں ۔

تراویح كى ترغيب

موطأ مالك: کتاب النداء للصلاۃ: بَاب التَّرْغِيبِ فِي الصَّلَاةِ فِي رَمَضَانَ: حديث نمبر 230:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُرَغِّبُ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَأْمُرَ بِعَزِيمَةٍ فَيَقُولُ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ


ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ بے شك رسول الله صلى الله عليہ وسلم قيام رمضان كى طرف رغبت دلاتے تھے مگر بالجزم حكم نہ فرماتے تھے- فرماتے جس نے رمضان كا قيام الليل ايمان اور احتساب کے ساتھ كيا اس کے پچھلے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں-

صحيح البخاری: کتاب الایمان: بَاب تَطَوُّعُ قِيَامِ رَمَضَانَ مِنْ الْإِيمَانِ: حديث نمبر 36:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ


رسول الله صلى الله عليہ وسلم فرماتے تھے جس نے رمضان كا قيام الليل ايمان اور احتساب کے ساتھ كيا اس کے پچھلے گناہ معاف كر دیئے جاتے ہیں۔

رواه ايضا: صحيح مسلم ، سنن النسائي ، مسند أحمد ، سنن أبي داود اور سنن الترمذي

تراویح كا سنت ہونا

سنن النسائی: کتاب الصیام: باب ذِكْرُ اخْتِلَافِ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ وَالنَّضْرِ بْنِ شَيْبَانَ فِيهِ: حديث نمبر 2180:

النَّضْرُ بْنُ شَيْبَانَ قَالَ قُلْتُ لِأَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدِّثْنِي بِشَيْءٍ سَمِعْتَهُ مِنْ أَبِيكَ سَمِعَهُ أَبُوكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ بَيْنَ أَبِيكَ وَبَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ قَالَ نَعَمْ حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فَرَضَ صِيَامَ رَمَضَانَ عَلَيْكُمْ وَسَنَنْتُ لَكُمْ قِيَامَهُ فَمَنْ صَامَهُ وَقَامَهُ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ


رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا كہ بے شك الله تعالى نے رمضان کے روزﮮ فرض کئے ہیں اور میں نے اس كى راتوں كا قيام آپ کے لئے سنت قرار ديا ہے۔ جس نے رمضان كا قيام الليل ايمان اور احتساب کے ساتھ كيا اس کے پچھلے گناہ معاف كردیئے جاتے ہیں اور وه ايسا ہو جاتا ہے جيسا كہ اس كى ماں نے ابهى جنا ہو-

رواه ايضا: سنن ابن ماجه جز4 صفحه223 و مسند أحمد جز4 صفحه108

رسول الله صلى الله عليہ وسلم كی تراویح

صحيح البخاری: کتاب صلاۃ التراویح: بَاب فَضْلِ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ: حدیث نمبر 1873:
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَخْبَرَتْهُ
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ لَيْلَةً مِنْ جَوْفِ اللَّيْلِ فَصَلَّى فِي الْمَسْجِدِ وَصَلَّى رِجَالٌ بِصَلَاتِهِ فَأَصْبَحَ النَّاسُ فَتَحَدَّثُوا فَاجْتَمَعَ أَكْثَرُ مِنْهُمْ فَصَلَّى فَصَلَّوْا مَعَهُ فَأَصْبَحَ النَّاسُ فَتَحَدَّثُوا فَكَثُرَ أَهْلُ الْمَسْجِدِ مِنْ اللَّيْلَةِ الثَّالِثَةِ فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى فَصَلَّوْا بِصَلَاتِهِ فَلَمَّا كَانَتْ اللَّيْلَةُ الرَّابِعَةُ عَجَزَ الْمَسْجِدُ عَنْ أَهْلِهِ حَتَّى خَرَجَ لِصَلَاةِ الصُّبْحِ فَلَمَّا قَضَى الْفَجْرَ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ فَتَشَهَّدَ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّهُ لَمْ يَخْفَ عَلَيَّ مَكَانُكُمْ وَلَكِنِّي خَشِيتُ أَنْ تُفْتَرَضَ عَلَيْكُمْ فَتَعْجِزُوا عَنْهَا فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ


بے شك رسول الله صلى الله عليہ وسلم ايك رات نکلے پس مسجد میں نماز ادا كى اور لوگوں نے آپ صلى الله عليہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی صبح ہوئى تو انہوں نے لوگوں سے تذكره كيا لوگ جمع ہوگئے اور آپ صلى الله عليہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی انہوں نے اور لوگوں سے تذكره كيا تيسرى رات مسجد لوگوں سے بهر گئی رسول الله صلى الله عليہ وسلم نکلے ان کے ساتھ نماز پڑھی پھر جب چوتھی رات ہوئى مسجد لوگوں سے کھچا کھچ بهر گئی.................الحدیث۔

سنن الترمذی:كِتَاب الصَّوْمِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: باب ما جاء في قيام شهر رمضان:
عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ صُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُصَلِّ بِنَا حَتَّى بَقِيَ سَبْعٌ مِنْ الشَّهْرِ فَقَامَ بِنَا حَتَّى ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ ثُمَّ لَمْ يَقُمْ بِنَا فِي السَّادِسَةِ وَقَامَ بِنَا فِي الْخَامِسَةِ حَتَّى ذَهَبَ شَطْرُ اللَّيْلِ فَقُلْنَا لَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ نَفَّلْتَنَا بَقِيَّةَ لَيْلَتِنَا هَذِهِ فَقَالَ إِنَّهُ مَنْ قَامَ مَعَ الْإِمَامِ حَتَّى يَنْصَرِفَ كُتِبَ لَهُ قِيَامُ لَيْلَةٍ ثُمَّ لَمْ يُصَلِّ بِنَا حَتَّى بَقِيَ ثَلَاثٌ مِنْ الشَّهْرِ وَصَلَّى بِنَا فِي الثَّالِثَةِ وَدَعَا أَهْلَهُ وَنِسَاءَهُ فَقَامَ بِنَا حَتَّى تَخَوَّفْنَا الْفَلَاحَ قُلْتُ لَهُ وَمَا الْفَلَاحُ قَالَ السُّحُورُ


ابوذر رضى الله تعالى عنہ فرماتے ہیں كہ ہم نے رسول الله صلى الله عليہ وسلم کے ساتھ روزے رکھے آپ صلى الله علیہ وسلم نے ہمارے ساتھ نماز (تراويح) نہ پڑھی حتى كہ رمضان کے مہینہ کے سات دن باقى ره گئے تو ہمارﮮ ساتھ قيام كيا یہاں تك كہ تہائی رات گذر گئی۔ جب چھ دن باقى ره گئے آپ صلى الله عليہ وسلم نے ہمارﮮ ساتھ قيام نہ كيا ۔ جب پانچ دن باقى ره گئے آپ صلى الله عليہ وسلم نے ہمارے ساتھ قيام كيا یہاں تك كہ آدهى رات گذر گئی۔ میں نے کہا اے الله کے رسول(صلى الله عليہ وسلم) كاش آپ اس رات كا قيام زياده كرتے۔ آپ (صلى الله عليہ وسلم) نے فرمايا آدمى جب امام کے ساتھ نماز پڑھے تو اس کے لئے پورى رات كا ثواب لكها جاتا ہے۔ جب چار راتیں باقى ره گئیں آپ صلى الله عليہ وسلم نے ہمارﮮ ساتھ قيام نہ كيا ۔ جب تين راتیں باقى ره گئیں آپ صلى الله عليہ وسلم نے اپنے گھر والوں كو اور اپنی عورتوں كو جمع كيا اور ہمارﮮ ساتھ قيام كيا (یعنی تراویح پڑھی) یہاں تك كہ ہم ڈرے كہ ہم سے فلاح نہ فوت ہو جائے- میں نے کہا فلاح كيا ہے كہا سحر كا كهانا۔

رسول الله صلى الله عليہ وسلم كى بِیْس (20)تراویح

1 سنن الترمذی:كِتَاب الصَّوْمِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: باب ما جاء في قيام شهر رمضان:
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفُضَيْلِ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْجُرَشِيِّ عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ صُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُصَلِّ بِنَا حَتَّى بَقِيَ سَبْعٌ مِنْ الشَّهْرِ فَقَامَ بِنَا حَتَّى ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ ثُمَّ لَمْ يَقُمْ بِنَا فِي السَّادِسَةِ وَقَامَ بِنَا فِي الْخَامِسَةِ حَتَّى ذَهَبَ شَطْرُ اللَّيْلِ فَقُلْنَا لَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ نَفَّلْتَنَا بَقِيَّةَ لَيْلَتِنَا هَذِهِ فَقَالَ إِنَّهُ مَنْ قَامَ مَعَ الْإِمَامِ حَتَّى يَنْصَرِفَ كُتِبَ لَهُ قِيَامُ لَيْلَةٍ ثُمَّ لَمْ يُصَلِّ بِنَا حَتَّى بَقِيَ ثَلَاثٌ مِنْ الشَّهْرِ وَصَلَّى بِنَا فِي الثَّالِثَةِ وَدَعَا أَهْلَهُ وَنِسَاءَهُ فَقَامَ بِنَا حَتَّى تَخَوَّفْنَا الْفَلَاحَ قُلْتُ لَهُ وَمَا الْفَلَاحُ قَالَ السُّحُورُ


حاشیہ از ابوعيسى رحمۃ الله عليہ (صاحب کتاب الترمذی):هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌوَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ فَرَأَى بَعْضُهُمْ أَنْ يُصَلِّيَ إِحْدَى وَأَرْبَعِينَ رَكْعَةً مَعَ الْوِتْرِ وَهُوَ قَوْلُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَهُمْ بِالْمَدِينَةِ وَأَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ عَلَى مَا رُوِيَ عَنْ عُمَرَ وَعَلِيٍّ وَغَيْرِهِمَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِشْرِينَ رَكْعَةً وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيِّ و قَالَ الشَّافِعِيُّ وَهَكَذَا أَدْرَكْتُ بِبَلَدِنَا بِمَكَّةَ يُصَلُّونَ عِشْرِينَ رَكْعَةً و قَالَ أَحْمَدُ رُوِيَ فِي هَذَا أَلْوَانٌ وَلَمْ يُقْضَ فِيهِ بِشَيْءٍ و قَالَ إِسْحَقُ بَلْ نَخْتَارُ إِحْدَى وَأَرْبَعِينَ رَكْعَةً عَلَى مَا رُوِيَ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ وَاخْتَارَ ابْنُ الْمُبَارَكِ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ الصَّلَاةَ مَعَ الْإِمَامِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ وَاخْتَارَ الشَّافِعِيُّ أَنْ يُصَلِّيَ الرَّجُلُ وَحْدَهُ إِذَا كَانَ قَارِئًا وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَالنُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ

ابوعيسى رحمۃ الله عليہ فرماتے ہیں كہ یہ حدیث حسن صحیح ہے اوراہل علم قيام رمضان كى ركعات میں مختلف آراء رکھتے ہیں- بعض كو ديكها كہ وه اكتاليس (41) ركعات پڑھتے ہیں وتر کے ساتھ اور يہ اہل مدينہ كا قول ہے اور ان كا عمل اسى پر ہے- اكثر اہل علم اس پر ہیں كہ بيس (20) ركعات پڑھی جائیں جو كہ عمر اور على (رضى الله تعالى عنہما) اور دیگر اصحاب النبى صلى الله عليہ وسلم سے مروى ہے اور یہ بات ثوری رحمۃ اللہ علیہ، ابن المبارک رحمۃ اللہ علیہ اور شافعی رحمۃ اللہ علیہ سب نے بیان کی ہے- شافعی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ہم نے مکہ شہر میں لوگوں کو تراویح کی بیس 20 رکعات ہی پڑھتے پایا- احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس میں بہت سی مختلف روایات ملتی ہیں اور ان میں کچھ بھی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا- اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ہم اکتالیس 41 رکعات پسند کرتے ہیں اس لئے کہ یہ ابی بن کعب سے مروی ہے اور یہ کہ اختیار کیا ابن المبارک، احمد اور اسحاق رحمۃ اللہ علیہم اجمعین نے رمضان میں امام کے ساتھ نماز پڑھنا- شافعی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اگر تراویح پڑھنے والا حافظ قرآن ہے تو اکیلا پڑھے اور عنوان میں یہ بات عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا، نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ اور ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے لکھی ہے-

وضاحت: ابوعيسى رحمۃ الله عليہ نے تراویح کی رکعات گنواتے ہوئے کہیں بھی آٹھ رکعات کا ذکر نہیں کیا۔

2 المعجم الكبير للطبراني:جز 10: صفحه 86: حديث نمبر 11934:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ
، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرَ *


ابن عباس رضى الله تعالى عنہ فرماتے ہیں كہ نبى صلى الله عليہ وسلم رمضان میں بيس (20) ركعت پڑھا كرتے تھے علاوه وتر کے -

3 السنن الكبرى للبيهقي: جز 2: صفحه 496:
عن ابن عباس
قال كان النبي صلى الله عليه وسلم يصلى في شهر رمضان في غير جماعة بعشرين ركعة والوتر


ابن عباس رضى الله تعالى عنہ فرماتے ہیں كہ نبى صلى الله عليہ وسلم رمضان میں بيس (20) ركعت اور وتر بغير جماعت پڑھا كرتے تھے -

4 السنن الكبرى للبيهقي: جز 2: صفحه :497
عن ابى الحسناء ان على بن ابى طالب
امر رجلا ان يصلى بالناس خمس ترويحات عشرين ركعة *


ابى الحسناء رحمۃ الله عليہ (جو كہ على رضى الله تعالى عنہ کے اصحاب میں سے تھے) فرماتے ہیں كہ على رضى الله تعالى عنہ بن ابى طالب نے ايك شخص كو حكم ديا كہ وه لوگوں کے ساتھ بيس (20) ركعات پانچ ترويحوں کے ساتھ پڑھیں-

5 مسند عبد بن حميد: مسند ابن عباس رضی اللہ عنہ: جز 2: صفحه 271: حديث نمبر655:
عن ابن عباس
قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي في رمضان عشرين ركعة ، ويوتر بثلاث


ابن عباس رضى الله تعالى عنہ فرماتے ہیں كہ نبى صلى الله عليہ وسلم رمضان میں بيس (20) ركعت پڑھا كرتے تھے اور تين ركعت وتر -

السنن الكبرى للبيهقي جز 2 صفحه 496
6 السائب بن يزيد قال كانوا يقومون على عهد عمر بن الخطاب رضى الله عنهما في شهر رمضان بعشرين ركعة قال وكانوا يقرؤن بالمئين وكانوا يتوكؤن على عصيهم في عهد عثمان بن عفان رضى الله عنه من شدة القيام

سائب بن یزید فرماتے ہیں کہ لوگ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ماہ رمضان میں بیس رکعات تراویح پڑھتے تھے- الخ

7 يزيد بن رومان قال كان الناس يقومون في زمان عمر بن الخطاب رضى الله عنه في رمضان بثلاث وعشرين ركعة

یزید بن رومان فرماتے ہیں کہ لوگ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ماہ رمضان میں بیس رکعات (تراویح) پڑھتے تھے۔

8 جعفر بن عون انبأ ابو الخصيب قال يؤمنا سويد بن غفلة في رمضان فيصلى خمس ترويحات عشرين ركعة

سويد بن غفلہ رحمۃ اللہ علیہ نے رمضان میں پانچ ترویحوں کے ساتھ بیس رکعات (تراویح) پڑھائی۔

9 عن شتير بن شكل وكان من اصحاب على رضى الله عنها انه كان يؤمهم في شهر رمضان بعشرين ركعة ويوتر بثلاث

شتير بن شكل، جو کہ على رضى الله عنہ کے شاگردوں میں سے تھے، رمضان کے مہینہ میں بیس رکعات (تراویح) پڑھاتے اور تین رکعات وتر۔

10 عن ابى عبد الرحمن السلمى عن على رضى الله عنه قال دعا القراء في رمضان فامر منهم رجلا يصلى بالناس عشرين ركعة قال وكان على رضى الله عنها يوتر بهم

على رضى الله عنه نے رمضان میں قاری حضرات کو بلوایا اور ان میں سے ایک کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کوبیس رکعات (تراویح) پڑھائے اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے ساتھ وتر پڑھتے۔

11 السنن الكبرى للبيهقي جز 2 صفحه 497
عن ابى الحسناء ان على بن ابى طالب امر رجلا ان يصلى بالناس خمس ترويحات عشرين ركعة
*


على رضى الله عنہ نےايك قارى كو حكم ديا لوگوں كو بيس ركعت تراويح پانچ ترويحوں کے ساتھ پڑھانے کا-

مصنف ابن أبي شيبة جز 2 صفحه 285 و جز 2 صفحه 286 باب نمبر 227 كم يصلي في رمضان من ركعة

12 عن شتير بن شكل أنه كان يصلي في رمضان عشرين ركعة (شتير بن شكل رمضان میں بيس ركعات پڑھاتے تھے) والوتر-

13 عن أبي الحسناء أن عليا أمر رجلا يصلي بهم في رمضان عشرين ركعة (علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ رمضان میں بيس ركعت پڑھائے)-

14 عن يحيى بن سعيد أن عمر بن الخطاب أمر رجلا يصلي بهم عشرين ركعة (عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ بيس ركعت پڑھائے)-

15 عن عمر قال كان ابن أبي مليكة يصلي بنا في رمضان عشرين ركعة (عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ابن ابی ملیکہ ہمارے ساتھ بيس ركعت پڑھتے) ويقرأ بحمد الملائكة في ركعة-

16 كان أبي بن كعب يصلي بالناس في رمضان بالمدينة عشرين ركعة (ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگوں کو مدینہ منورہ میں بيس ركعت پڑھاتے تھے) ويوتر بثلاث (اور وتر تین رکعات)-حدیث صحیح

17 عن الحارث أنه كان يؤم الناس في رمضان بالليل بعشرين ركعة (وہ لوگوں کی رمضان میں رات کو امامت کراتے اور بيس ركعت پڑھتے) ويوتر بثلاث (اور وتر تین رکعات)ويقنت قبل الركوع-

18 عن أبي البختري أنه كان يصلي خمس ترويحات في رمضان (ابی البختری پانچ ترويحات کے ساتھ رمضان میں نماز پڑھتے تھے) ويوتر بثلاث (اوروتر تین رکعات پڑھاتے تھے)-

19 عن عطاء قال أدركت الناس وهم يصلون ثلاثا وعشرين ركعة بالوتر(عطا$ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہم نے لوگوں کو تئیس ركعات ہی بمع وتر پڑھتے پایا ) -

20 أن علي بن ربيعة كان يصلي بهم في رمضان خمس ترويحات ويوتر بثلاث (علی بن ربیعہ رحمۃ اللہ علیہ ہمارے ساتھ رمضان میں پانچ ترويحات اور تین رکعات وتر پڑھتے تھے) -

نوٹ:- حرمین شریفین میں نماز تراویح اب بھی بیس رکعات ہی پڑھی جاتی ہیں- اس بات کی تصدیق اہل حدیث رائٹر ابو عدنان محمد منیر قمر کی کتاب "نماز تراویح" ناشر "توحید پبلیکیشنز" بنگلور سے بھی ہوتی ہے- دیکھئے اس کا صفحہ نمبر 77 و 78 بعنوان "مسئلہ تراویح اور آئمہ و علماء حرمین شریفین"
 
Top